Tag: مصطفی عامر

  • مصطفی عامر پر جس کمرے میں تشدد کیا گیا اسکی سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آگئی

    مصطفی عامر پر جس کمرے میں تشدد کیا گیا اسکی سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آگئی

    کراچی: مصطفی عامر قتل کیس میں نیا موڑ آیا ہے، نوجوان کو قتل کرنے سے پہلے جس کمرے میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اس کی سی سی ٹی وی فوٹیج سامنےآگئی۔

    تفصیلات کے مطابق مصطفی عامر قتل کیس میں ملزم ارمغان کےخلاف اہم ثبوت اے آر وائی نیوز سامنے لے آیا ہے، مصطفی عامر پر جس کمرے میں تشدد کیا گیا وہاں کی سی سی ٹی وی فوٹیج منظر عام پر آئی ہے، فوٹیج میں ملزم ارمغان کے ملازم کو خون صاف کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔

    ذوہیب نامی ملازم نے خون کے نشان مٹانے کی کوشش کی، ذوہیب نامی اسی ملازم نے برش کے ذریعے بوتل میں موجود کیمیکل سے خون صاف کیا۔

    یہ بھی پڑھیں: مصطفیٰ عامر قتل کیس: ارمغان کے لیپ ٹاپ سے اہم شواہد مل گئے

    ذرائع نے بتایا کہ ارمغان نے رات ڈیڑھ بجے کے قریب ملازم سے خون صاف کرایا، خون صاف کرنے کی فوٹیج کو ریکارڈ کا حصہ بنالیا گیا ہے۔

    پولیس نے بتایا کہ فوٹیج میں دکھنے والے ملازم ذوہیب نے مصطفی کا خون صاف کرنے کا اعتراف کیا، ملازم ذوہیب کو ارمغان کے خلاف گواہ بنایا گیا ہے۔

    https://urdu.arynews.tv/case-of-attack-on-journalist-against-armaghan/

  • ’لڑکی کی مصطفیٰ سے لڑائی تھی اور وہ ارمغان سے رابطے میں تھی‘

    ’لڑکی کی مصطفیٰ سے لڑائی تھی اور وہ ارمغان سے رابطے میں تھی‘

    کراچی میں مصطفیٰ قتل کیس میں مقتول کی والدہ وجیہ عامر نے بتایا ہے کہ اس کیس میں ملوث لڑکی کی مصطفیٰ سے لڑائی تھی اور وہ ارمغان سے رابطے میں تھی۔

    اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے مقتول مصطفیٰ کی والدہ وجیہہ عامر نے کہا کہ ڈی این اے کی رپورٹ نہیں آئی تھی تو میں سوچ رہی تھی کہ یہ مصطفیٰ نہ ہو اور ملزمان نے اسے کہیں چھپایا ہوگا لیکن کہا جارہا ہے کہ ڈی این اے اسی کا ہے تو میں کیا کہہ سکتی ہوں۔

    والدہ کے مطابق مصطفیٰ کا فون وہاں سے ملا ہے اور ملزمان کا اعتراف جرم کرنا ثابت کرتا ہے کہ وہ مصطفیٰ کی لاش ہی تھی۔

    انہوں نے بتایا کہ عدالت میں پہلے دن ارمغان کی والدہ آئی تھیں اور کہا کہ صلح کرنے آئی ہوں، میں نے کہا کہ صلح کس بات پر کرنے آئی ہیں آپ یہ بتادیں کہ میرا بیٹا کہاں ہے۔

    مصطفیٰ کی والدہ کے مطابق ارمغان کی والدہ نے کہا کہ میرا بیٹا یہ سب کیوں کرے گا اس کے پاس تو بہت پیسہ ہے، میں نے کہا کہ مجھے نہیں پتا کتنا پیسا ہے کہ نہیں بس میرا بیٹا دے دو ساری ایف آئی آر واپس دے دوں گی، اس کے بعد ریمانڈ نہیں ہوا ہم ہائی کورٹ گئے جس کے بعد ملازم شیراز ملا۔

    لڑکی سے متعلق انہوں نے بتایا کہ لڑکی کی مصطفیٰ سے لڑائی ہوئی وہ ارمغان سے رابطے میں تھی، اس لڑکی کو معلوم تھا کہ مصطفیٰ کو ارمغان نے کچھ کردیا ہے، میرا پوائنٹ یہ تھا کہ لڑکی سے رابطہ کرکے پوچھا جائے لیکن وہ 15 سے 18 جنوری کے درمیان چلی گئی تھی۔

    انہوں نے بتایا کہ لڑکی سے متعلق میرے پاس ثبوت ہیں کیونکہ وہ سب جانتی تھی لیکن اس نے کیا کچھ نہیں ہے۔

    وجیہہ نے بتایا کہ مصطفیٰ کے کسی دوست نے پارسل بھیجا تھا جو ریٹرن ہوگیا تھا، مصطفیٰ کو لینے گیا تو اسے انتظار کرنے کا کہا گیا وہ گاڑی میں بیٹھا انتظار کررہا تھا کہ اے این ایف حکام آتے ہیں اور پارسل میں سے 30 گرام منشیات نکلتی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ مصطفیٰ کو کسی نے پھنسایا تھا، اے این حکام کو جج نے حکم دیا تھا کہ لڑکے کو ڈھونڈو لیکن وہ لاپتا تھا، شواہد سامنے آرہے ہیں ارمغان بے نقاب ہوگیا۔

  • مصطفی عامر کی قبر کشائی کے بعد لاش تابوت میں ایدھی سرد خانے منتقل

    مصطفی عامر کی قبر کشائی کے بعد لاش تابوت میں ایدھی سرد خانے منتقل

    کراچی: مصطفیٰ عامر کی لاش قبر کشائی کے بعد ایدھی سردخانے منتقل کردی گئی، ڈی این کیلئے 11 نمونے حاصل کئے گئے ہیں ، جس سے شناخت ہوسکے گی کہ یہ لاش مصطفی کی ہے یا نہیں۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں قتل مصطفیٰ عامر کی قبر کشائی کا عمل مکمل کرلیا گیا ، ڈی این اے کے لیے مصطفیٰ کے جسم کے گیارہ نمونے حاصل کئے گئے ہیں۔

    مواچھ گوٹھ قبرستان میں قبرکشائی میڈیکل بورڈ اور جوڈیشل مجسٹریٹ کی موجودگی میں کی گئی، قبرکشائی کے بعدلاش کو تابوت میں منتقل کردیا گیا۔

    پوسٹ مارٹم کے بعد نمونے حاصل کی جائیں گے تاکہ وجہ موت کا تعین ہو سکے اور ڈی این اے کے نمونے بھی حاصل کی جائیں گے تاکہ اس بات کی تصدیق ہو سکے کہ لاش مصطفی عامر کی ہی ہے۔

    مصطفی عامر کی قبر کشائی کے بعد لاش ایدھی سرد خانے منتقل کی گئی جوڈیشل مجسٹریٹ پولیس سرجن اور پولیس کی نگرانی میں لاش کو ایدھی سرد خانے منتقل کیا گیا ہے۔

    خیال رہے حب پولیس کی جانب سے بارہ جنوری کو مصطفی کی لاش لاوارث قرار دے کر ایدھی حکام کے حوالے کی گئی تھی تاہم بعد زاں مصطفی کی لاش سولہ جنوری کو کیماڑی ایدھی قبرستان میں دفن کردی گئی تھی۔

  • مصطفی عامر کی حب دوریجی سے جھلسی لاش ملنے کا واقعہ، کئی سوالات کھڑے ہوگئے

    مصطفی عامر کی حب دوریجی سے جھلسی لاش ملنے کا واقعہ، کئی سوالات کھڑے ہوگئے

    کراچی : مصطفی عامر کی حب دوریجی سے جھلسی لاش ملنے کے واقعے پر کئی سوالات کھڑے ہوگئے، گاڑی کو اگ لگانے کی اطلاع پولیس کو گھنٹوں تاخیر سے کیوں ملی؟ اور ملزمان کیسے دوریجی کے ویران مقام تک پہنچے؟

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے نوجوانوں مصطفی عامر کی حب دوریجی سے جھلسی لاش ملنے کا واقعے پر ایس ایس پی حب نے ایس ڈی پی او وندر محمد جان کو جامع تحقیقات کا حکم دے دیا۔

    پولیس حکام نے جائے واقعہ سے مزید شواہد جمع کرکے تمام محرکات کو سامنے لایا جائے گا۔

    مصطفیٰ عامر کی گاڑی کو اگ لگانے کی اطلاع پولیس کو گھنٹوں کی تاخیر سے کیوں ملی؟ اس حوالے سے تحقیقات جاری ہے۔

    حکام کا کہنا تھا کہ لگتا ہے شکار کے حوالے سے مشہور دریجی کے مقام سے ملزمان پہلے سے واقف تھے، ملزمان کون سا روٹ استعمال کرتے ہوئے دوریجی کے ویران مقام تک پہنچے؟ تحقیقات کی جارہی ہے۔

    پولیس حکام نے کہا کہ اگر ملزمان کے دریجی کے مقام تک پہنچنے اور گاڑی جلنے کی اطلاع تاخیر سے ملنے پر پولیس کی غفلت سامنے آئی تو محکمانہ کارروائی ہوگی

    پولیس نے کہا کہ 12 جنوری کو خاکستر کار سے جھلسی ہوئی لاش ملی تھی ، ناقابل شناخت لاش ملنےکامقدمہ نامعلوم افرادکیخلاف درج کیا گیا تھا۔

    مزید پڑھیں : ارمغان نے تفتیش کے دوران مصطفیٰ عامر کے قتل کا اعتراف کر لیا: پولیس

    گزشتہ روز ارمغان نے مصطفیٰ عامر کو قتل کرنےکا اعتراف کیا تھا ، دوران تفتیش انکشاف کیا تھا کہ مصطفیٰ کی گاڑی کوآگ لگائی تو وہ زندہ اورنیم بیہوش تھا۔

    ارمغان نے تفتیش کاروں کو بیان دیا تھا کہ اس نے مصطفیٰ کو ہاتھوں اور پیروں پر مار کر زخمی کیا تھا، رائفل سے تین فائر کیے جو مصطفیٰ کو نہیں لگے، فائرنگ وارننگ دینے کے لیے کیے تھے۔

    ملزم نے مزید بتایا تھا کہ 8 فروری کو پولیس کو بنگلے میں دیر سے داخل ہوتا دیکھا، بروقت دیکھ لیتا تو پولیس سے فائرنگ کا تبادلہ طویل ہو سکتا تھا۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ارمغان کے بیان کی ویڈیو ریکارڈ کی گئی ہے۔

    خیال رہے حب پولیس کی جانب سے بارہ جنوری کو مصطفی کی لاش لاوارث قرار دے کر ایدھی حکام کے حوالے کی گئی تھی تاہم بعد زاں مصطفی کی لاش سولہ جنوری کو کیماڑی ایدھی قبرستان میں دفن کردی گئی تھی۔