Tag: مصنف

  • پائلو کوئیلو نے مریم نواز کے لیے کیا ٹویٹ کیا؟

    پائلو کوئیلو نے مریم نواز کے لیے کیا ٹویٹ کیا؟

    معروف برازیلین مصنف پاؤلو کوئیلو نے پاکستان مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز کی وائرل ویڈیو پر ان کے دفاع میں ٹویٹ کردیا۔

    مریم نواز کے حال ہی میں دیے گئے ایک انٹرویو کے کلپس مختلف وجوہات پر سوشل میڈیا پر وائرل ہورہے ہیں۔

    ایک کلپ میں وہ اپنی پسندیدہ کتابوں کے نام بتا رہی ہیں جبکہ انہوں نے جیل کی لائبریری کا بھی تذکرہ کیا ہے جس پر سوشل میڈیا صارفین ان کا مضحکہ اڑا رہے ہیں۔

    ایک اور کلپ میں وہ شہرہ آفاق کتاب الکیمسٹ کے مصنف پائلو کوئیلو کو پائلو کوئیڈو کہتی سنائی دے رہی ہیں۔

    ان کا یہ کلپ بھی خوب وائرل ہورہا ہے اور لوگ ان کا مذاق اڑاتے دکھائی دے رہے ہیں۔

    تاہم اس وقت سوشل میڈیا صارفین حیران رہ گئے جب پائلو کوئیلو نے ایسے ہی ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرتے ہوئے مریم نواز کا دفاع کیا۔

    انہوں نے لکھا کہ میں بھی غیر ملکی نام پکارتے ہوئے تلفظ کی غلطی کر جاتا ہوں، لوگ زیادہ تنقید نہ کریں۔

    کوئیلو کے اس ٹویٹ کے نیچے بھی پاکستانیوں نے لڑنا جھگڑنا شروع کردیا اور اپنے پسندیدہ ساست دانوں کی حمایت کرنے لگے۔

  • میرے پاس تم ہو: کیا ڈرامے کا اختتام دانش کی موت پر ہوگا؟

    میرے پاس تم ہو: کیا ڈرامے کا اختتام دانش کی موت پر ہوگا؟

    کراچی: اے آر وائی ڈیجیٹل کے مقبول ترین ڈرامہ سیریل ’میرے پاس تم ہو‘ کا اختتام قریب آگیا ہے اور اس کے مصنف خلیل الرحمٰن قمر نے اشارہ دیا ہے کہ ہوسکتا ہے ڈرامے کے اختتام پر ناظرین کو اپنے پسندیدہ کردار دانش کی موت کا صدمہ اٹھانا پڑے۔

    تفصیلات کے مطابق اے آر وائی ڈیجیٹل کے مقبول ترین ڈرامہ سیریل ’میرے پاس تم ہو‘ کے مصنف خلیل الرحمٰن قمر نے اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں شرکت کی اور پسندیدگی کے ریکارڈ توڑ دینے والے ڈرامے کے بارے میں گفتگو کی۔

    سب سے پہلے انہوں نے وضاحت کی کہ اگلی قسط دل تھام کر دیکھنے کا بیان انہوں نے ڈرامے کی آخری قسط کے لیے دیا تھا، ’کیونکہ اس ڈرامے کو مرد حضرات بھی بہت شوق سے دیکھ رہے ہیں تو ضروری ہے کہ وہ آخری قسط دیکھتے ہوئے احتیاط کریں اور اپنی دوائیاں قریب رکھیں‘۔

    خوبصورت ڈائیلاگز اور فقروں کے لیے مشہور خلیل الرحمٰن قمر نے اس موقع پر بھی فقرہ جڑا کہ عورت تو مسلسل جذبات کی حالت میں رہتی ہے لیکن مرد جب جذباتی ہوتا ہے تو عورت سے زیادہ جذباتی ہوجاتا ہے، لہٰذا اس موقع پر احتیاط ضروری ہے۔

    خلیل الرحمٰن قمر نے بتایا کہ اس ڈرامے کا ٹائٹل سانگ لکھتے ہوئے وہ زار و قطار رو رہے تھے، کیوں کہ یہ سب انہوں نے اپنی طرف سے نہیں گھڑا بلکہ بہت سے لوگوں کو اس کرب سے گزرتے دیکھا ہے۔

    آخری قسط لکھتے ہوئے مصنف پر کیا بیتی؟

    مقبولیت کے نئے ریکارڈز قائم کرنے کے بعد اب چونکہ ڈرامہ اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے اور رواں ہفتے اس کی سیکنڈ لاسٹ قسط پیش کی جائے گی تو ناظرین کو ڈرامے کے اختتام کے بارے میں بے حد تجسس ہے۔

    مارننگ شو کے میزبانوں شفقت اور مدیحہ نے بھی ڈرامے کی آخری قسط کے حوالے سے جاننے کی کوشش کی۔

    اس سے پہلے خلیل الرحمٰن قمر نے اس وقت کے بارے میں بتایا جب انہوں نے آخری قسط لکھی۔ ’میں نے ڈرامے کی آخری قسط زار و قطار روتے ہوئے لکھی، صبح ساڑھے 4 بجے مکمل لکھ کر بیٹی کو جگایا اور روتے ہوئے اسے سنایا جسے اس نے بھی روتے ہوئے سنا‘۔

    ’اس کے بعد ہدایت کار ندیم بیگ کو فون کر کے آخری قسط کا اسکرپٹ سنایا، وہ اس وقت گاڑی چلا رہا تھا اسے گاڑی روکنی پڑی کیونکہ وہ بھی رونے لگا تھا‘۔

    آخری قسط میں کیا ہوگا؟

    مدیحہ کے بے حد اصرار پر خلیل الرحمٰن قمر نے آخری قسط کے حوالے سے ایک ہنٹ دیا۔ انہوں نے اے آر وائی ڈیجیٹل کے ایک اور مقبول ترین ڈرامے ’پیارے افضل‘ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ڈرامے میں جب انہوں نے مرکزی کردار افضل کو ماردیا تھا، تو ایک بار ہوائی جہاز میں سفر کے دوران ایک خاتون نے یہ کہتے ہوئے انہیں تھپڑ جڑ دیا کہ آپ نے افضل کو کیوں مار دیا؟ ’شاید اس بار بھی آپ کو کچھ ایسا ہی دیکھنے کو ملے‘۔

    ہر گھر میں مہوش اور دانش ہیں

    خلیل الرحمٰن قمر نے کہا کہ اس ڈرامے کی مقبولیت کا سبب یہی ہے کہ یہ لوگوں کی اپنی کہانی ہے، کسی گھر میں مہوش ہے اور کسی گھر میں دانش۔ لوگ اس ڈرامے کو دیکھتے ہوئے اس لیے کرب سے گزرتے ہیں کیونکہ یہ کہیں نہ کہیں ان کی اپنی زندگی میں بھی ہوچکا ہے۔

    انہوں نے ڈرامے کو ایک شعر میں سموتے ہوئے کہا،

    کون چاہے گا محبت کی تباہی لیکن
    تم جو چاہو تو خدا اس کو بھی برباد کرے

    گفتگو کو اختتام پر لاتے ہوئے خلیل الرحمٰن قمر سے پوچھا گیا کہ اس کہانی کو فلم کی صورت میں کیوں نہیں پیش کیا گیا؟ جس پر انہوں نے کہا کہ فلم کا دورانیہ 1 سے ڈیڑھ گھنٹے کا ہوتا ہے اور اتنے مختصر وقت میں اتنا کچھ نہیں کہا جاسکتا تھا، بات کہنے سے رہ جاتی۔

    فلم انڈسٹری میں موضوعات کی یکسانیت پر انہوں نے کہا کہ ایک وقت تھا کہ فلم انڈسٹری ان پڑھوں کے ہاتھ میں تھی، آج پڑھے لکھوں کے ہاتھ میں ہے لیکن ان کے ہاں تکبر زیادہ ہے، ’تکبر سے فلم نہیں بن سکتی، جب تک ہمارے اندر سیکھنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہوگی اور ہم موضوعات کے لیے مڑ مڑ کر سرحد پار دیکھتے رہیں گے ہماری فلموں کا یہی حال رہے گا‘۔

  • میرے مولا اپنی امانت واپس لے لے!

    میرے مولا اپنی امانت واپس لے لے!

    عبداللطیف ابو شامل
    باپُو باتیں بہت مزے کی کرتے ہیں۔ سادہ اور دل نشیں۔ باپوُ پہلے ایک وکیل کے پاس مُنشی ہوا کرتے تھے، پھر کسی کمپنی میں بھرتی ہوگئے اور پھر ریٹائر، اس کے بعد بھی چین سے نہیں بیٹھے۔

    کہیں سے ٹائروں کی مرمت کا کام سیکھ لیا اور اب تک یہی کر رہے ہیں، بچوں کو پڑھایا لکھایا ان کی شادیاں کیں لیکن کسی کے دست نگر نہیں رہے۔ آزاد منش اور درویش۔ لیاری کی ایک خستہ حال سڑک پر اپنی دکان سجا لیتے ہیں۔ سیدھا سادہ سا لباس پہنتے ہیں، بہت کم خوراک، کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے باپُو بغیر کھائے پیے زندہ ہیں۔
    ایک دن میں نے پوچھا، باپُو کچھ کھاتے پیتے بھی ہیں آپ۔ ……!
    مسکرائے اور کہنے لگے، تُو کیا سمجھتا ہے، میں فرشتہ ہوں کیا۔ میں انسان ہوں، انسان، کھاتا پیتا جیتا جاگتا۔
    کیا جو کھائے پیے اور جیے وہ انسان ہوتا ہے؟ میں نے پوچھا۔ اب تُو دوسری طرف جارہا ہے، سیدھی طرح کیوں نہیں کہتا کہ آؤ باپُو بات کریں۔

    دیکھ کھاتے پیتے تو جانور بھی ہیں۔ لیکن انسان دوسروں کو اپنے کھانے پینے اور جینے میں شریک کرتا ہے۔ دوسرے کا دکھ درد اپنا سمجھ کر محسوس کرتا ہے۔ کوشش کرتا ہے زندگی کے چار دن سب ہنس کھیل کر گزار دیں۔ سب سکھی رہیں۔ دکھ درد ختم ہوں، راحت اور آرام آئے۔ سب نہال رہیں۔

    انسان کا وجود انسانوں کے لیے نہیں جانوروں کے لیے، پرندوں کے لیے حتیٰ کہ درختوں اور زمین کے کیڑے مکوڑوں کے لیے بھی باعث رحمت ہوتا ہے۔ ارے پگلے، وہ ہوتا ہے انسان، زمین پر اتارا گیا انسان۔ دریا دل اور سخی، بس اس کی گدڑی میں لعل ہی لعل ہوتے ہیں۔ بانٹتا چلا جاتا ہے اور دیکھ جو بانٹتا ہے اس کے پاس کبھی کم نہیں ہوتا۔
    کیوں….؟ میں نے پوچھا۔
    اس لیے کہ کائنات کا خالق بھی یہی کرتا ہے۔ خزانے لٹاتا رہتا ہے۔ ہر ایک کو دیتا ہے۔ ہر ایک کی ضرورت پوری کرتا ہے جب انسان یہ کرنے لگے تو خدا اس کی مدد کرتا ہے۔

    وہ اپنے پیسے پر، اپنی لیاقت پر، اپنی ذہانت پر، اپنی طاقت پر بھروسا نہیں کرتا، وہ تو بس اپنے رب پر بھروسا کرتا ہے، وہ تیرا مکرانی دوست کیا اچھی بات کہتا ہے۔
    کون سی بات باپُو؟
    وہی دانے اور چونچ والی۔
    ہاں ہاں یاد آیا مجھے، داد محمد جسے ہم سب پیار سے دادُو کہتے ہیں، کہتا ہے۔
    ”جس مالک نے چونچ دیا ہے وہ دانہ بھی دیں گا، ورنہ اپنا دیا ہوا چونچ بھی واپس لے لیں گا نیں، جس دن دانا ختم تو چونچ بھی واپس۔“

    دیکھ کیسی اچھی بات کہتا ہے وہ۔ اپنے رب پر بھروسا اسے ہی کہتے ہیں، مولا پر توکل کہ ملے گا ضرور ملے گا، دیر تو ہوگی، پر ملے گا ضرور۔ کیوں نہیں ملے گا وہ تو سارے جہانوں کی ساری مخلوق کو پالتا ہے۔ تجھ سے کیا دشمنی ہے اس کی، اس کی تو سب سے دوستی ہے، سب کو دیتا ہے، دے گا۔ تو انسان اسے کہتے ہیں جو اپنے پالن ہار کی صفات اپنائے، سخی ہو، رحم دل ہو، معاف کردیتا ہو، سب کے لیے اچھا چاہے، کوئی بھی ہو، کہیں کا بھی ہو، کسی بھی مذہب کا ہو، برائی کے پاس نہ جائے اور بُرے کو بھی سینے سے لگائے، اسے سمجھائے، دیکھ تُو اچھا ہے، تیرا فعل اچھا نہیں ہے۔ چھوڑ دے اسے، نیکی کر اچھائی پھیلا، خوشیاں بانٹ۔

    اور باپُو اگر کسی کے پاس دینے کے لیے کچھ بھی نہ ہو تو….؟
    یہ تجھے کیا ہوگیا؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انسان ہو اور اس کے پاس دینے کو کچھ نہ ہو۔ چڑیا کے پاس چہچہانا ہے، چہچہاتی ہے۔ کوئل کوکتی ہے، کتا انسان کی رکھوالی کرتا ہے، بکری، گائے، بھینس دودھ دیتی ہے تو دنیا جہاں کی نعمتیں بنتی ہیں۔ درخت سایہ دیتا ہے، پھل دیتا ہے اور پھر اس کی لکڑی سے دنیا جہاں کا ساز و سامان تیار ہوتا ہے، اب تُو جس جس چیز کے بارے میں سوچتا چلا جائے گا اس کی سخاوت تیرے سامنے آتی چلی جائے گی۔

    انسان تو مخلوق میں سب سے اعلیٰ ہے۔ اس کا وجود کائنات کی ساری مخلوق کے لیے رحمت ہے۔ رحمت ہی رحمت، چاہت ہی چاہت، وہ سب کو دیتا ہے۔
    لیکن باپُو اس کے پاس کچھ ہوگا تو دے گا۔……
    پھر ناسمجھی والی بات۔ ارے ناسمجھ تُو کیا سمجھتا ہے۔ دولت، پیسا، طاقت ہی سب کچھ ہے۔ نہیں۔ ہر چیز تو پیسے سے نہیں خریدی جاسکتی، تجھے یاد ہے وہ ایک ملنگ ہوتا تھا چاکی واڑہ میں، کیا نام تھا اس کا؟
    رحمو نام تھا اس کا باپُو، وہ جس کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا۔
    ”ہاں ہاں وہی۔“
    باپُو، وہ بس ایک ہی بات کرتا تھا۔ ”سُکھ چین بنو، سُکھ چین بنو۔“
    دیکھ کیسی اچھی بات کرتا تھا وہ کہ سُکھ چین بنو، لوگوں کے لیے سُکھ چین بنو، تمہیں دیکھ کر دوسرے خوش ہوں۔ گڑ نہ دو تو گڑ جیسی بات کرو۔ نفرت کے سامنے محبت بن کر کھڑے ہوجاؤ۔ اپنے لوگوں میں جیو، انھیں بے یار و مددگار نہ چھوڑو۔ بس یہ ہوتا ہے انسان۔
    اور باپُو یہ جو ہر جگہ انسان انسان کو مارتا پھرتا ہے، وہ انسان نہیں ہوتا کیا…؟
    نہیں، بالکل نہیں۔ وہ کہاں سے انسان ہے چریے۔
    کیوں باپُو؟ انسان ہی تو ہوتا ہے۔
    تُو بہت نادان ہے، اتنی سی بات تیرے پلّے نہیں پڑ رہی۔ جو انسان دوسروں کو دکھ دے، قتل کردے، ان کی خوشیاں چھین لے، مسکراہٹیں چھین کر لوگوں میں رونا بانٹے، لوگوں کے لیے روگ بن جائے وہ انسان نہیں رہتا، انسانی روپ میں چلتی پھرتی مصیبت بن جاتا ہے اور مصیبت سے چھٹکارے کے لیے دعا کرنی چاہیے کہ ”اے میرے مولا اپنی امانت واپس لے لے۔“
    مجھے تو باپُو کی کوئی بات سمجھ میں نہیں آئی۔ آپ کو سمجھ میں آگئی ہے تو مجھے بھی سمجھائیے۔

  • ہرا چشمہ

    ہرا چشمہ

    مصنف: شرن مکڑ
    گؤ دان کی اپیل سن کر ایک سیٹھ نے گائے خیرات کی۔ جس شخص کو خیرات کی گائے ملی، وہ شہر کی گندی سی بستی میں رہنے والا ایک غریب مزدور تھا۔ اس کی کون سی زمین تھی جہاں ہری ہری گھاس اگتی۔ بستی کے آس پاس ہریالی کا نام و نشان نہ تھا۔

    خیرات میں اُسے گائے ملی تھی، گھاس نہیں۔ اس نے گائے کو کھلانے کے لیے سوکھی گھاس ڈالی۔ امیر کی گائے نے سوکھی گھاس دیکھ کر منہ پھیر لیا، وہ کسی حالت میں سوکھی گھاس کھانے کے لیے تیار نہیں تھی۔ آدمی نے اس کی پیٹھ پر پیار سے ہاتھ پھیر کے منت کی گائے ٹس سے مس نہ ہوئی۔

    وہ دو دن سے بھوک ہڑتال پر ڈٹی ہوئی تھی۔ مزدور ڈر رہا تھا کہ گائے کو کچھ ہوگیا تو گائے کی موت کا گناہ اس کے سر ہوگا۔ وہ دل ہی دل میں خوف زدہ ہو رہا تھا۔

    اسے اس طرح پریشان اور گائے کی منت سماجت کرتے دیکھ کر کسی نے اسے گائے کی آنکھوں پر ہرا چشمہ باندھنے کا مشورہ دیا۔ مزدور نے ایسا ہی کیا۔ ہری پٹی کی عینک بناکر اس نے گائے کی آنکھوں پر لگا دی۔ اب گائے کے سامنے سوکھی گھاس کی جگہ ہری گھاس تھی۔ وہ خوش ہوگئی۔

    مزدور اب خوش تھا لیکن اس کا پڑھا لکھا بے روزگار بیٹا اداس تھا۔ مزدور نے اس سے اداسی کا سبب پوچھا، وہ روہانسا سا ہوکر بولا۔ ”بابو! مجھے تو ایسا لگتا ہے جیسے ہم عوام بھی گائے ہیں۔ لوگ ہماری آنکھوں پر امیدوں کا ہرا چشمہ لگا کر ہم سے ووٹ لے جاتے ہیں اور ہم سوکھے کو ہریالی سمجھ لیتے ہیں۔“

  • پاکستانی مصنف کے بیٹے ‌نے کتاب چُھونے سے پہلے ہاتھ کیوں دھوئے؟ دل چسپ واقعہ

    پاکستانی مصنف کے بیٹے ‌نے کتاب چُھونے سے پہلے ہاتھ کیوں دھوئے؟ دل چسپ واقعہ

    عبدالمجید قریشی کے اردو ادب میں مقام اور ان کی خدمات کے ساتھ ان کا تعارف پڑھنے سے پہلے انہی کے قلم سے نکلا یہ دل چسپ واقعہ پڑھیے۔ یہ ان کی مقبول تصنیف ‘‘ کتابیں ہیں چمن اپنا’’ سے نقل کیا گیا ہے۔

    شرارت سبھی بچے کرتے ہیں۔ میرے بچے بھی۔ گھر کی مختلف چیزیں گاہ بہ گاہ ان کی شرارتوں کا نشانہ بنتی رہتی ہیں، لیکن جہاں تک میری کتابوں کا تعلق ہے وہ بھی انھیں ادب و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

    بچھلے دنوں ایک دل چسپ واقعہ رونما ہوا۔ میں کھانا کھانے میں مصروف تھا کہ قریب ہی میز پر رکھی ہوئی کتاب نیچے گر گئی۔ میں نے اپنے بچے سے کہا کہ اسے اٹھا کر میز پر رکھ دو۔

    بچہ دوڑ کر باہر نکل گیا۔ مجھے اس کی اس حرکت پر بڑا غصہ آیا۔ میں نے ذرا سخت لہجے میں پوچھا کہاں جارہے ہو۔ بچے نے کہا، ‘‘ابھی آیا۔’’

    دو چار منٹ بعد لڑکا واپس آگیا۔ وہ اپنے ہاتھ دھو کر آیا تھا اور تولیے سے پونچھ رہا تھا۔

    میں نے دریافت کیا یہ کیا معاملہ ہے۔ کہنے لگا۔

    ‘‘میرے ہاتھ صاف نہیں تھے۔ ڈر تھا کہ کہیں یہ نئی کتاب میلی نہ ہو جائے۔ اس لیے ہاتھ دھو کر آیا ہوں، اب اٹھاتا ہوں۔’’ اس نے بڑی آہستگی سے کتاب کو اٹھا کر میز پر رکھ دیا۔

    ایک اور موقعے پر جب میں ایک کتاب دیکھ رہا تھا۔ میرا دوسرا بچہ آیا۔ میرے پاس کھڑے ہو کر کتاب کو دیکھا اور چلا گیا۔ کچھ دیر بعد آیا تو دونوں ہاتھوں پر صاف ستھرا تولیا پھیلایا ہوا تھا۔ کہنے لگا۔

    ‘‘تھوڑی دیر کے لیے یہ کتاب مجھے دے دیجیے، تولیے پر رکھ کے دیکھوں گا، میلا نہ ہونے دوں گا۔’’

    عبدالمجید قریشی 1921 میں پیدا ہوئے۔ وطن مشرقی پنجاب تھا۔ تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آگئے اور محکمۂ ڈاک میں ملازم ہوئے۔ مطالعے کے رسیا اور کتاب اندوز مشہور تھے۔ ان کا ذاتی کتب خانہ مختلف موضوعات اور خاص طور پر فنونِ لطیفہ سے متعلق رسائل سے سجا رہا۔

    خود بھی نثر نگار تھے اور نہایت لطیف و دل کش اسلوب کے حامل تھے۔ ان کے مضامین اس دور کے معیاری رسائل اور اخبارات کی زینت بنتے رہے۔ وہ تین کتابوں کے مصنف ہیں جو ان کی زندگی میں شایع ہوئیں۔ سوانح عمری، آپ بیتی اور واقعات نگاری سے خاص شغف تھا۔ 2010 اس دنیا میں ان کی زندگی کا آخری سال ثابت ہوا۔ ان کی عمرِ عزیز کے آخری ایّام ملتان میں گزرے۔

  • احمد ندیم قاسمی کو گزرے 13 برس بیت گئے

    احمد ندیم قاسمی کو گزرے 13 برس بیت گئے

    اردو ادب کے نامور شاعر اورادیب احمد ندیم قاسمی کی آج تیرویں برسی منائی جارہی ہے، آپ لاہور میں مختصر علالت کے بعد انتقال کرگئے تھے۔

     احمد ندیم قاسمی 20 نومبر 1916ء کو پنجاب میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ  پاکستان کے ایک معروف ادیب، شاعر، افسانہ نگار، صحافی، مدیر اور کالم نگار تھے۔ افسانہ اور شاعری میں شہرت پائی۔ ترقی پسند تحریک سے وابستہ نمایاں مصنفین شمار ہوتا تھا اور اسی وجہ سے دو مرتبہ گرفتار کیے گئے۔ انہوں نے نے طویل عمر پائی اور لگ بھگ نوّے سال کی عمر میں انھوں نے پچاس سے زائد کتابیں تصنیف کیں۔

    احمد ندیم قاسمی مغربی پنجاب کی وادی سون سکیسر کے گاؤں انگہ ضلع خوشاب میں پیدا ہوئے، اصل نام احمد شاہ تھا اور اعوان برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ ندیم ان کا تخلص تھا۔

    قاسمی صاحب کی ابتدائی زندگی کافی مشکلات بھری تھی۔ جب وہ اپنے آبائی گاؤں کو خیرباد کہہ کر لاہور پہنچے تو ان کی گزر بسر کا کوئی سہارا نہ تھا۔ کئی بار فاقہ کشی کی بھی نوبت آ گئی لیکن ان کی غیرت نے کسی کو اپنے احوال سے باخبر کرنے سے انھیں باز رکھا۔ انھی دنوں ان کی ملاقات اختر شیرانی سے ہوئی۔وہ انھیں بے حد عزیز رکھنے لگے اور ان کی کافی حوصلہ افزائی بھی کی۔

    یہاں تو اپنی صدا کان میں نہیں پڑتی

    وہاں خدا کا تنفس سنائی دیتا ہے

    انھی دنوں احمد ندیم قاسمی کی ملاقات امتیاز علی تاج سے ہوئی جنھوں نے انھیں اپنے ماہانہ رسالے ’پھول‘ کی ادارت کی پیش کش کی جو انھوں نے قبول کر لیِ، پھول بچوں کا رسالہ تھا اس کی ایک سالہ ادارت کے زمانے میں قاسمی صاحب نے بچوں کے لیے بہت سی نظمیں لکھیں جو بچوں میں بہت پسند کی گئیں۔

    قاسمی صاحب کی شاعری کی ابتدا 1931 میں ہوئی تھی جب مولانا محمد علی جوہر کے انتقال پر ان کی پہلی نظم روزنامہ ’سیاست‘ لاہور کے سرورق پر شائع ہوئی اور یہ ان کے لیے بہت بڑا اعزاز تھا۔ یہی نہیں بعد میں بھی 1934 اور 1937 کے دوران ان کی متعدد نظمیں روزنامہ ’انقلاب‘ لاہوراور ’زمیندار‘ لاہور کے سرورق پر شائع ہوتی رہیں اور اس سے انھیں عالمِ جوانی میں ہی غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی۔

    اُسی دور میں اُنہوں نے افسانے بھی لکھنا شروع کر دیے تھے۔ اُن کا ایک افسانہ ’بے گناہ‘ اُس دور کے معروف شاعر اختر شیرانی کے جریدے ’رومان‘ میں شائع ہوا، جسے پڑھنے کے بعد اُس زمانے کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے اختر شیرانی سے رابطہ قائم کیا اور اس افسانے کی تعریف کی۔ قاسمی صاحب کے بقول اِس کے بعد اُن کی منٹو سے خط و کتابت شروع ہو گئی۔

    ان کے شعری مجموعات میں میں بے گناہ، رم جھم، دھڑکنیں، جلال وجمال، لوح وخاک اوردشتِ وفا بے حد معروف ہیں جبکہ افسانوں میں چوپال، آنچل، آبلے درو دیواراور برگ حنا بے پناہ شہرت کے حامل ہیں۔

    احمد ندیم قاسمی 10 جولائی 2006ء کو مختصرعلالت کے بعد حرکت قلب بند ہونے سے قریباً 90 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ہفتہ 8 جولائی 2006ء کو انہیں سانس کی تکلیف کے سبب پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں داخل کروایا گیا جہاں انہیں عارضی تنفس فراہم کیا گیا  ، تاہم وہ جاں بر نہ ہوسکے اور پیر 10 جولائی 2006ء کی صبح کو انتقال ہوگیا۔

    کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا

    میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا

  • لوگوں کی زندگیاں بدلنے والا مصنف، جو کبھی خود پاگل خانے میں رہا

    لوگوں کی زندگیاں بدلنے والا مصنف، جو کبھی خود پاگل خانے میں رہا

    آج کتاب کا عالمی دن منایا جارہا ہے، آج کے دن آپ اس مقبول مصنف سے ضرور ملنا چاہیں گے جس کی ایک کتاب نے کروڑوں زندگیوں پر اپنے اثرات مرتب کیے۔

    یہ مصنف لوگوں کی زندگیوں میں امید کی نئی کرن جگانے والا پائلو کوئیلو ہے جس کی کتاب ’الکیمسٹ‘ نے پڑھے جانے کے ریکارڈز توڑ دیے۔ کوئیلو کی ابتدائی زندگی بے حد نشیب و فراز سے گزری۔

    کوئیلو کو اس کے والدین لکھنے سے منع کرتے تھے۔ وہ ان کی بات بظاہر تو مان لیتا، لیکن وہ چھپ چھپ کر لکھتا رہا۔ 17 سال کی عمر میں کوئیلو کو اس کے والدین نے پاگل خانے میں داخل کروا دیا۔

    اس نے یہاں سے 3 دفعہ فرار ہونے کی کوشش کی اور اپنی آخری کوشش میں کامیاب رہا۔ اپنی عمر کی دوسری اور تیسری دہائی اس نے ہپیز کی طرح گزاری۔ وہ بغیر کسی مقصد کے کئی شہروں کا سفر کرتا رہا۔

    بالآخر اس نے زندگی کے معنوں کی طرف توجہ کی اور اسے کھوجنے کے لیے اسپین کا سفر کیا۔ یہاں اس نے ایک مقدس مذہبی مقام پر چند دن گزارے۔ کوئیلو نے بدھا کی طرح مراقبے بھی کیے جو روحانی طور پر اس کے لیے ایک خوشگوار تجربہ ثابت ہوا۔

    30 سال کی عمر کے بعد اسے خیال آیا کہ اپنے خوابوں کی تکمیل کی جائے، اس نے پھر سے قلم سنبھالا اور 40 سال کی عمر میں اپنی پہلی کتاب لکھی۔

    اس کے بعد کوئیلو نے اپنی شہرہ آفاق کتاب الکیمسٹ لکھی، یہ کتاب اس نے صرف 2 ہفتوں میں لکھی تاہم اس کتاب کو ذرا بھی پذیرائی نہ ملی۔ کوئیلو اس ناکامی سے اداس تو ہوا تاہم اس نے ہمت نہ ہاری۔

    وہ اپنی کتاب لے کر گھر گھر جاتا اور لوگوں سے اسے پڑھنے کی درخواست کرتا۔ جیسے جیسے لوگوں نے اس کتاب کو پڑھنا شروع کیا، کتاب میں چھپے سحر انگیز پیغام نے اپنا اثر دکھانا شروع کیا۔

    لوگوں کو محسوس ہوا کہ یہ ان کی اپنی زندگی کی روداد ہے، وہ خود بھی ساری عمر کسی ایسے خزانے کی تلاش میں رہتے ہیں جو پلک جھپکتے ان کی زندگی بدل دے۔

    اس وقت کوئیلو کی قسمت کا ستارہ چمکا اور کتاب آہستہ آہستہ مقبول ہونے لگی۔ کتاب کی فروخت میں اضافے کے ساتھ اس کا دوسرا ایڈیشن چھاپنے کی ضرورت پیش آئی لیکن ابھی کوئیلو کی جیب اس کی اجازت نہ دیتی تھی۔

    بالآخر اس نے ایسا پبلشر ڈھونڈ لیا جس نے اس کتاب کو دوبارہ چھاپنے کی ہامی بھری۔ لیکن اس پبلشر کا ماننا ہے کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کتاب کے لیے ہامی بھر بیٹھا تھا، اس کے اندر سے کسی آواز نے اسے ایسا کرنے پر مجبور کیا۔

    آج اس کتاب کی دنیا بھر میں ساڑھے 6 کروڑ کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔ اس کتاب کا 80 زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور یہ ادب کی دنیا کا ایک ریکارڈ تھا جس کے بعد اس کتاب کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں بھی شامل کرلیا گیا۔

    دنیا بھر میں 15 کروڑ افراد کا ماننا ہے کہ اس کتاب نے ان کی زندگی پر نہایت مثبت اثرات مرتب کیے اور اس وقت انہیں امید کی کرن دکھائی جب وہ ہر طرف سے مایوس ہوچکے تھے۔

    کوئیلو سمجھتا ہے کہ جب آپ کسی مقصد کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو پوری کائنات اسے حاصل کرنے میں آپ کی مدد کرتی ہے۔

    کامیاب ہونے کے بعد کوئیلو نے اپنے والدین سے بھی تعلقات بحال کرلیے جو ایک وقت میں اسے غیر ضروری جان کر پاگل خانے میں چھوڑ گئے تھے۔

    کوئیلو کہتا ہے، ’زندگی میں خطرات (رسک) مول لینے پڑتے ہیں، ہم زندگی کے معجزات کو صرف اسی وقت مکمل طور پر سمجھ سکتے ہیں جب ہم غیر متوقع چیزوں کو رونما ہونے دیتے ہیں‘۔

    کیا آپ نے اس شاندار کتاب کو پڑھا ہے؟

  • ڈنمارک میں فائرنگ سے مصنف ندیم یاسر قتل

    ڈنمارک میں فائرنگ سے مصنف ندیم یاسر قتل

    کوپن ہیگن : ڈنمارک کے سابق گینگ لیڈر ندیم یاسر کو جرائم پیشہ زندگی پر تحریر کی گئی کتاب کی تقریب رونمائی کے اختتام پر ٹارگٹ حملے قتل ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق یورپی ملک ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں اپنی آب بیتی پر کتاب تحریر کرنے والے جرائم پیشہ گروہ کے سابق سربراہ ندیم یاسر کتاب کی تقریب رونمائی کے اختتام پر نشانہ وار حملے میں ہلاک ہوگئے جبکہ حملہ آور موقع واردات سے باآسانی فرار ہوگیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ طبی امداد دینے والے عملے نے 31 سالہ ندیم یاسر کو شدید زخمی حالت اسپتال منتقل کیا تاہم وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہوگئے، مقتول نے روٹس کے نام سے اپنی یاداشتوں پر کتاب تحریر کی تھی جو منگل کے روز شائع ہوئی۔

    مقامی خبر رساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق ندیم یاسر گذشتہ برس بھی ٹارگٹ حملے میں متاثر ہوئے تھے۔

    کوپن ہیگن پولیس کا کہنا ہے کہ افسوس ناک واقعہ دو روز قبل پیش آیا جب یاسر اپنی کتاب کی تقریب رونمائی کے 7 بج کر 30 منٹ پر ہال سے باہر نکل رہے تھے۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ حملہ آور گہرے رنگ کے کپڑوں میں ملبوس تھا جس نے 31 سالہ مصنف پر پستول سے دو گولیاں چلائیں، پولیس واقعے کی تحقیقات کررہی ہے۔

    واضح رہے کہ ندیم یاسر ترکی میں پیدا ہوئے اور 4 برس کی عمر میں کوپن ہیگن منتقل ہوگئے تھے جہاں وہ جرائم پیشہ عناصر سے منسلک ہوگئے جبکہ کچھ عرصے بعد گروہ کے سربراہ بن گئے جس کے منشیات فروش گروہ سے تعلق تھا۔

    ڈنمارک نیوز ایجنسی کا کہنا تھا کہ ندیم یاسر نے والد بننے کے بعد سنہ 2012 میں جرائم کی دنیا کو خیر آباد کہا تھا اور جرائم کی طرف مائل ہونے سے روکنے کے لیے مقامی ریڈیو سے نواجونوں کی ذہین سازی شروع کردی تھی۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ 31 سالہ مصنف ندیم یاسر کی موت پر ریڈیو نے ٹویٹر پر ’الوداع ندیم یاسر، ہر چیز کے لیے شکریہ‘ کے الفاظ تحریر کیے اور آفس عمارت کی تصویر شیئر کی، جس میں یاسر کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ملکی پرچم سرنگوں رکھا گیا تھا۔

  • عمران سیریز کے خالق ابن صفی کا دن

    عمران سیریز کے خالق ابن صفی کا دن

    مشہور جاسوسی کرداروں کے تخلیق کار، ناول نگار اور شاعر ابن صفی کا آج یوم پیدائش اور یوم وفات ہے۔

    ابن صفی کا اصل نام اسرار احمد تھا۔ وہ 26 جولائی 1928 کو اتر پردیش کے ایک گاؤں نارا میں پیدا ہوئے۔

    اپنی پیدائش کا واقعہ وہ خود یوں بیان کرتے ہیں، ’جولائی 1928 کی کوئی تاریخ تھی اور جمعہ کی شام دھندلکوں میں تحلیل ہو رہی تھی کہ میں نے اپنے رونے کی آواز سنی۔ ویسے دوسروں سے سنا کہ میں اتنا نحیف تھا کہ رونے کے لیے منہ تو کھول لیتا تھا لیکن آواز نکالنے پر قادر نہیں تھا۔ میرا خیال ہے کہ دوسروں کو میری آواز اب بھی سنائی نہیں دیتی۔ کب سے حلق پھاڑ رہا ہوں۔ وہ حیرت سے میری طرف دیکھتے ہیں اور لا تعلقی سے منہ پھیر لیتے ہیں۔ خیر کبھی تو۔۔ افوہ پتا نہیں کیوں اپنی پیدائش کے تذکرے پر میں اتنا جذباتی ہو جاتا ہوں‘۔

    ابن صفی کے ماموں نوح ناروی بھی ایک شاعر تھے۔ ماموں سے متاثر ہو کر انہوں نے اسرار ناروی کے نام سے شاعری شروع کی۔ بعد ازاں جب ناول نگاری شروع کی تو والد کی نسبت سے ابن صفی کا قلمی نام اختیار کیا۔

    ابن صفی کی تخلیقی صلاحیتوں کو دراصل انگریزی ترجموں نے مہمیز کیا۔ اس وقت انگریزی ادب سے ترجمے کیے ہوئے ناول و افسانے قارئین کو پڑھنے کے لیے دستیاب تھے جن کے بارے میں ابن صفی کا خیال تھا، ’ان ناولوں کو پڑھنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی انگریز سرپر پھندنے والی ٹوپی لگائے چلا آ رہا ہے‘۔

    انہوں نے ابتدا میں طنز و مزاح اور مختصر کہانیاں لکھیں۔ ان کہانیوں میں انہوں نے مختلف قلمی نام استعمال کیے جیسے طغرل فرغان اور سنکی سولجر۔ سنہ 1948 میں ماہنامہ ’نکہت‘ میں ان کی پہلی کہانی ’فرار‘ شائع ہوئی۔

    سنہ 1951 میں انہوں نے ’جاسوسى دنیا‘ کے نام سے رسالہ جاری کیا جس میں ابن صفی کے قلمی نام سے انسپکٹر فریدی اور سارجنٹ حمید کے کرداروں پر مشتمل سلسلے کا آغاز ہوا جس کا پہلا ناول دلیر مجرم مارچ 1952 میں شائع ہوا۔

    ان کے مزید شائع ہونے والے ناولوں میں ’خوفناک جنگل‘، ’عورت فروش کا قاتل‘ اور ’تجوری کا راز‘ شامل ہیں۔

    سنہ 1957 میں ابن صفی نے اسرار پبلیکیشنز کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس کے تحت جاسوسی دنیا کا پہلا ناول ’ٹھنڈی آگ‘ شائع ہوا۔

    اسی دوران انہوں نے ایک نئے کردار عمران کی بنیاد ڈالی اور ناول لکھنا شروع کیے۔ اس سیریز کا نام ’عمران سیریز‘ رکھا۔ عمران سیریز کا پہلا ناول ’خوفناک عمارت‘ تھا جو اکتوبر 1955 کو منظر عام پر آیا۔

    اس کے بعد آنے والے ناولوں میں ’چٹانوں میں فائر‘، ’پر اسرار چیخیں‘ اور ’بھیانک آدمی‘ شامل ہیں۔ چند ہی ناولوں کے بعد اس سیریز نے مقبولیت کے جھنڈے گاڑ دیے۔

    ابن صفی نے بے تحاشہ لکھا اور معیاری لکھا۔ ابن صفی کے بقول ان کے صرف 8 ناولوں کے مرکزی خیال کسی اور سے مستعار لیے گئے ہیں باقی کے 245 ناول مکمل طور پر ان کے اپنے ہیں۔

    ان کے فن کا اعتراف کرنے والی مغربی شخصیات میں خاتون ناول نگار اگاتھا کرسٹی، اردو زبان کی جرمن اسکالر خاتون کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ اور نارویئن پروفیسر فن تھیسن شامل ہیں۔

    کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ نے ابن صفی کے فن کے بارے میں کہا، ’ابن صفی کی جس بات سے میں سب سے زیادہ متاثر ہوں، وہ یہ ہے کہ ان کے کردار فریدی اور عمران کبھی کسی عورت کی جانب نگاہ بد پھیرتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے۔ ابن صفی کے جاسوسی ناول کی جاسوسی ادب میں اس لحاظ سے انوکھی حیثیت ہے کہ اس میں ایک مشن یا مقصد موجود ہے۔ اس لیے اسے محض تفریحی ادب نہیں کہا جاسکتا۔ ان کے جاسوسی ناولوں میں فکری و ذہنی تربیت بھی پوری طرح موجود ہوتی ہے‘۔

    کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کو ان کے ناول بہت پسند تھے اور اپنے جاننے والوں سے ابن صفی کے نئے ناول کے بارے میں استفسار کرتے رہتے تھے۔ نیا ناول شائع ہوتا تو اسے مارکیٹ سے منگواتے اور پڑھنے کے بعد نہایت اہتمام سے ان ناولوں کو اپنی کتابوں کے شیلف میں جگہ دیتے تھے۔

    فیلڈ مارشل ایوب خان بھی ابن صفی کے مداح تھے۔ ان کے ناول ’پاگل کتے‘ پر پابندی لگنے والی تھی مگر صدر ایوب خان نے انتظامیہ کو منع کر دیا۔ سنہ 1960 میں ایک اخبار میں ان کی ایک تصویر بھی شائع ہو چکی ہے جس میں وہ ابن صفی کی جاسوسی دنیا کا مطالعہ کر رہے ہیں۔

    سنہ 1970 میں ابن صفی نے آئی ایس آئی کو بھی جاسوسی کے حوالے سے غیر رسمی مشاورت دی۔

    ابن صفی شیزوفرینیا کے مریض تھے تاہم وہ صحت یاب ہوگئے۔ بعد میں انہیں لبلبہ کا کینسر ہوگیا۔ اسی بیماری میں وہ 26 جولائی 1980 میں انتقال کر گئے۔ ان کی تدفین کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں کی گئی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔