Tag: مصنفہ

  • سعودی عرب: 12 سالہ رائٹر کا عالمی ریکارڈ

    سعودی عرب: 12 سالہ رائٹر کا عالمی ریکارڈ

    ریاض: سعودی عرب کی 12 سالہ مصنفہ ریتاج الحازمی نے 2 ناول شائع کرنے کے بعد گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں اپنا نام درج کروا لیا۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی عرب کی 12 سالہ مصنفہ ریتاج الحازمی نے اپنے 2 ناول شائع ہونے کے بعد گنیز ورلڈ ریکارڈ میں ناول سیریز کی سب سے کم عمر مصنفہ کا ٹائٹل اپنے نام کر لیا ہے۔

    ریتاج الحازمی نے اس سال اپنا تیسرا ناول بھی شائع کیا ہے جبکہ وہ مزید دو پر کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔

    ریتاج کو افسانے اور تخیلاتی کہانیاں پڑھنے کا شوق تھا، ان کا تجسس اس وقت مزید بڑھ گیا جب 2016 میں ان کے والد انہیں ایک دکان پر رکھی بڑے مصنفین کی کتابوں کے شیلف کے سامنے لے گئے، وہ ان کتابوں کے ساتھ اپنی تصنیف بھی دیکھنا چاہتی تھیں۔

    ریتاج نے اپنے ہم عمر افراد کے لیے لکھنے کا ارادہ کیا کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر کتابیں بڑی عمر والے افراد کے لیے ہیں، انہوں نے بتایا کہ جس دن سے میں نے پڑھنے پر اپنی توجہ مرکوز کی تو میں نے ارادہ کر لیا کہ بڑی ہو کر کیا بننا چاہتی ہوں۔

    کم عمر ناول نگار کا خیال تھا کہ ان کی پہلی کتاب افسانہ نگاری پر ہو، وہ چاہتی ہیں کہ ان کی کتاب میں ایک ایسا خیال ہو جو قارئین کو ان کے خواب پورا کرنے میں معاون ہو۔

    ریتاج نے اپنی پہلی کتاب کا مسودہ مکمل کرنے کے بعد اسے ایڈیٹر کے پاس بھیجا جس نے اسے بتایا کہ اسے پہلے سوچنے سے کہیں زیادہ تفصیل سے بیان کرنے کی ضرورت ہے۔

    ان کے والد نے اصرار کیا کہ وہ اس کام میں مہارت حاصل کرنے اور لکھنے کے اسلوب کے بارے میں جاننے کے لیے کچھ کورسز کریں، اس کے بعد انہوں نے اپنی کتاب کا پورا مسودہ دوبارہ لکھا۔

    انہوں نے بتایا کہ میں نے جو کچھ اس کے بارے میں سیکھا اسے لکھنا شروع کیا۔

    ریتاج نے سنہ 2018 کے آخر میں اپنی پہلی کتاب ٹریژر آف دی لاسٹ سی مکمل کی، اسے ایڈیٹر کے پاس بھیجا اور اپنا دوسرا ناول پورٹل آف دی ہڈن ورلڈ لکھنا شروع کردیا۔ یہ دونوں کتابیں سنہ 2019 میں شائع ہوگئی تھیں۔

    انہوں نے بتایا کہ دو کتابوں کی اشاعت کے بعد انہوں نے ریاض بین الاقوامی کتاب میلے میں شرکت کی اور وہاں میں نے اپنی پہلی کتاب پر دستخط کیے۔ اس وقت ان کا ایک ٹی وی چینل نے انٹرویو بھی کیا۔

    ریتاج نے جنوری 2020 میں ایک پبلشنگ ہاؤس کے ساتھ معاہدہ کیا ہے اور اسی سال اپنی سیریز کی تیسری کتاب لکھنے کا بھی منصوبہ بنایا ہے۔

    ریتاج کا کہنا ہے کہ سب کے لیے میرا پیغام ہے خاص طور پر میری عمر کے ان افراد کے لیے جو بڑے خواب دیکھتے ہیں وہ انتظار نہ کریں جو کچھ کرنا ہے ابھی کریں، آپ کے پاس آئیڈیاز ہیں تو مواقع بنائیں۔

  • امریکی مصنفہ کو موت کے بعد کیا پیشکش ہوئی؟

    امریکی مصنفہ کو موت کے بعد کیا پیشکش ہوئی؟

    ایک بین الاقوامی کپڑوں کا برانڈ ایک آنجہانی مصنفہ کو برانڈ ایمبسڈر بننے کی پیشکش کر کے سوشل میڈیا پر مذاق کا نشانہ بن گیا۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق امریکی مصنفہ ارسلا کے لی گوئین 2 سال قبل وفات پا چکی ہیں، وہ افسانوی کہانیاں لکھنے میں خاص مقام رکھتی تھیں جبکہ ان کی متعدد کتابیں بھی شائع کی جاچکی ہیں۔

    ان کی موت کے بعد بھی ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس فعال ہیں جو ان کی ٹیم کی جانب سے چلائے جارہے ہیں۔

    انہی متحرک اکاؤنٹس سے دھوکہ کھا کر کپڑوں کے ایک برانڈ نے انہیں خط لکھ دیا اور اپنا برانڈ ایمبسڈر بننے کی پیشکش کردی۔

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ارسلہ کے اکاؤنٹ سے یہ خط پوسٹ کیا گیا جس میں کہا گیا کہ ہم اپنی نئی کلیکشن سے آپ کو چند ملبوسات دیں گے تاکہ آپ انہیں پہن کر اپنی تصویر بنائیں اور ہمارے برانڈ کی تشہیر کریں۔

    خط میں انہیں برانڈ ایمبسڈر بننے کی درخواست بھی کی گئی۔

    اکاؤنٹ چلانے والے نے یہ تصویر پوسٹ کرتے ہوئے خط لکھنے والے کو کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ جیسا آپ چاہتی ہیں ویسا ہوسکتا ہے۔

    اس ٹویٹ کے بعد سوشل میڈیا صارفین نے برانڈ کا مذاق اڑانا شروع کردیا اور ان کی بے خبری پر سخت افسوس کا اظہار کیا۔

  • 14 سالہ طالبہ نے کتاب لکھ کر بڑے بڑوں کو حیران کردیا

    14 سالہ طالبہ نے کتاب لکھ کر بڑے بڑوں کو حیران کردیا

    کراچی: بچپن، بچپنے اور شرارتوں سے آراستہ ہے تاہم کبھی کبھار بچوں کی عقل و ذہانت اور سنجیدگی بڑوں کو بھی مات کرجاتی ہے، ایسے ہی 14 سال کی بچی دعا نے کم عمری میں کتاب لکھ کر بڑے بڑوں کو حیران کردیا۔

    دعا صدیقی نے 13 سال کی عمر میں انگریزی میں نظمیں لکھنا شروع کیں اور صرف ایک سال کے اندر 100 نظمیں لکھ ڈالیں جو اب کتاب کی صوت میں موجود ہیں۔ ان کی کتاب کا نام آئی ہیڈ آ ڈریم ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں گفتگو کرتے ہوئے دعا نے بتایا کہ وہ ہر چیز کا مشاہدہ کرتی ہیں اور بعد ازاں اس پر اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتی ہیں جو انہوں نے نظموں کی صورت میں کیا۔

    وہ کہتی ہیں کہ انہیں بچپن سے مشہور رائٹر بننے کا شوق تھا۔ وہ اب تک ماحولیاتی مسائل، خواتین کی خود مختاری اور ڈپریشن جیسے موضوعات کو اپنی نظموں کا حصہ بنا چکی ہوں۔

    دعا کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں ہر شخص کو اپنی عمر سے آگے کی چیز سوچنی چاہیئے اور وہ خدا کی شکر گزار ہیں کہ اس نے انہیں اس صلاحیت سے نوازا۔

    دعا کی کتاب امیزون پر دستیاب ہے جبکہ اسے آن لائن بھی پڑھا جاسکتا ہے۔

  • بانو قدسیہ کا 91 واں یوم پیدائش

    بانو قدسیہ کا 91 واں یوم پیدائش

    آج اردو کی مشہور ناول نویس، افسانہ نگار اور ڈرامہ نگار بانو قدسیہ کا 91 واں یوم پیدائش ہے۔ اردو ادب کی شاہکار تصنیف ’راجہ گدھ‘ اور دیگر بے شمار لازوال تصانیف کی خالق بانو قدسیہ 3 سال قبل خالق حقیقی سے جا ملی تھیں۔

    بانو قدسیہ 28 نومبر سنہ 1928 کو فیروز پور(بھارت) میں پیدا ہوئی تھیں۔ انہیں بچپن سے ہی کہانیاں لکھنے کا شوق تھا اور پانچویں جماعت سے انہوں نے باقاعدہ لکھنا شروع کردیا۔ بانو قدسیہ نے ایف اے اسلامیہ کالج لاہور جبکہ بی اے کنیئرڈ کالج لاہور سے کیا۔

    سنہ 1950 میں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا اورمشہور افسانہ نگاراورڈرامہ نویس اشفاق احمد سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئیں۔ معروف مصنف ممتاز مفتی اپنی تصنیف ’الکھ نگری‘ میں ان کی شادی کا قصہ نہایت دلچسپ انداز میں بیان کرتے ہیں، جس کے مطابق اشفاق احمد کا پٹھان خاندان ایک غیر پٹھان لڑکی سے ان کی شادی پر آمادہ نہیں تھا، اور ان دونوں کا نکاح بانو قدسیہ کے گھر پر نہایت رازداری سے ہوا تھا۔

    شادی کے بعد بانو قدسیہ نے اپنے شوہر کے ہمراہ ادبی پرچہ داستان گو جاری کیا۔

    بانو قدسیہ کا شمار اردو کے اہم افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے افسانوی مجموعوں میں ناقابل ذکر، بازگشت، امر بیل، دست بستہ، سامان وجود ، توجہ کی طالب، آتش زیرپا اور کچھ اور نہیں کے نام شامل ہیں۔ انہوں نے کئی ناول بھی تحریر کیے۔ ان کا شہرہ آفاق ناول راجہ گدھ اپنے اسلوب کی وجہ سے اردو کے اہم ناولوں میں شمار ہوتا ہے۔

    ان کی دیگر تصانیف میں ایک دن، شہرلا زوال، پروا، موم کی گلیاں، چہار چمن، دوسرا دروازہ، ہجرتوں کے درمیاں اور ان کی خود نوشت راہ رواں کے نام سر فہرست ہیں۔

    بانو قدسیہ نے ٹیلی ویژن کے لیے بھی کئی یادگار ڈرامہ سیریلز اور ڈرامہ سیریز تحریر کیے جن کے متعدد مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ حکومت پاکستان نے آپ کو ستارہ امتیاز کا اعزاز عطا کیا ہے۔

    ایک مختلف بانو

    ممتاز مفتی اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں، ’پہلی مرتبہ میں نے بانو کو اس وقت سنا جب قدسی کے بڑے بیٹے نوکی نے کہا، امی ایڈیٹر صاحب آپ سے ملنے آئے ہیں۔ قدسی ڈرائنگ روم میں چلی گئیں‘۔

    ’پھر ڈرائنگ روم میں کوئی باتیں کر رہی تھی۔ افسانوں کی باتیں، کرداروں کی باتیں، مرکزی خیال، انداز بیان کی خصوصیات کی باتیں، ان باتوں میں فلسفہ، نفسیات اور جمالیات تھی‘۔

    ’میں حیرت سے سن رہا تھا۔ اللہ اندر تو قدسی گئی تھی لیکن یہ باتیں کون کر رہی ہے۔ قدسی نے تو کبھی ایسی باتیں نہیں کیں وہ تو خالی جی ہاں، جی ہاں ہے اگر، مگر، چونکہ، چنانچہ، کون ہے کرتی تھی۔ تب مجھے پتہ چلا بانو کون ہے‘۔

    اپنے ناول راجہ گدھ میں بانو قدسیہ نے ایک کردار پروفیسر سہیل کی زبانی حرام اور حلال کے نظریے کو نہایت انوکھے انداز میں بیان کیا ہے۔ ’جس وقت حرام رزق جسم میں داخل ہوتا ہے وہ انسانی جینز کو متاثر کرتا ہے۔ رزق حرام سے ایک خاص قسم کی میوٹیشن ہوتی ہے جو خطرناک ادویات، شراب اور ریڈی ایشن سے بھی زیادہ مہلک ہے۔ رزق حرام سے جو جینز تغیر پذیر ہوتے ہیں وہ لولے، لنگڑے اور اندھے ہی نہیں ہوتے بلکہ نا امید بھی ہوتے ہیں نسل انسانی سے۔ یہ جب نسل در نسل ہم میں سفر کرتے ہیں تو ان جینز کے اندر ایسی ذہنی پراگندگی پیدا ہوتی ہے جس کو ہم پاگل پن کہتے ہیں۔ یقین کر لو رزق حرام سے ہی ہماری آنے والی نسلوں کو پاگل پن وراثت میں ملتا ہے اور جن قوموں میں من حیث القوم رزق حرام کھانے کا لپکا پڑ جاتا ہے وہ من حیث القوم دیوانی ہونے لگتی ہیں‘۔

    بانو قدسیہ سنہ 2017 میں 4 فروری کو علالت کے بعد لاہور کے نجی اسپتال میں انتقال کر گئیں جس کے بعد اردو ادب کا ایک تابندہ باب بند ہوگیا۔ انہیں ان کے محبوب شوہر اشفاق احمد کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔