Tag: مصنوعی ذہانت

  • عدالتی معاملات 2 شفٹوں میں چلانے، مصنوعی ذہانت کے استعمال پر غور کیا جا رہا ہے، چیف جسٹس

    عدالتی معاملات 2 شفٹوں میں چلانے، مصنوعی ذہانت کے استعمال پر غور کیا جا رہا ہے، چیف جسٹس

    اسلام آباد (25 جولائی 2025): چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی نے کہا ہے کہ عدالتی معاملات کو دو شفٹوں میں چلانے پر غور کیا جا رہا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی نے اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عدالتی اصلاحات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کیسز کا حل مقررہ وقت میں ہونا چاہیے۔ عدالتی معاملات کو 2 شفٹوں میں چلانے کے بارے میں معاملہ زیر غور ہے۔

    چیف جسٹس نے یہ بھی بتایا کہ عدالتی معاملات میں مصنوعی ذہانت کے استعمال پر بھی غور کیا جا رہا ہے اور اس کے لیے جوڈیشل افسران کو تربیت دی جا رہی ہے۔
    انہوں نے کہا کہ ماڈل کریمنل ٹرائل کورٹس کے قیام پر کام جاری ہے۔ التوا کا شکار مقدمات ماڈل عدالتوں کے ذریعے سنے جائیں گے ۔

    چیف جسٹس نے قومی جوڈیشل پالیسی کو انتہائی اہمیت کی حامل قار دیتے ہوئے کہا کہ ملک کے دور دراز علاقوں کا دورہ کیا۔ ان دوروں کا مقصد جوڈیشل نظام کی بہتری تھا۔

    جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ بطور چیف جسٹس واضح موقف ہے کہ ایماندار، غیر جانبدار جوڈیشل افسران کے ساتھ ہوں۔ قانون کے بہترین ماہر روزانہ کی بنیاد پر کیسز کو سن رہے ہیں۔

  • مسجد الحرام میں رش کو کنٹرول کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال

    مسجد الحرام میں رش کو کنٹرول کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال

    سعودی عرب میں ادارہ امورحرمین کی جانب سے مسجد الحرام کے دروازوں پر مصنوعی ذہانت سے لیس جدید ٹیکنالوجی کا استعمال رش کو کنٹرول کرنے میں انتہائی اہم ثابت ہو رہا ہے۔

    عرب خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق جدید ترین ای آئی سسٹم سے آراستہ ٹیکنالوجی سے رش کو منظم طور پر سنبھالنے کی سہولت ملتی ہے۔

    مسجد الحرام میں آنے اور باہر جانے والے زائرین کی تعداد کا درست تعین جدید ترین سینسرز اور حساس کیمروں کی مدد سے کیا جا سکتا ہے۔

    انتظامیہ کو یہ سہولت ہوتی ہے کہ وہ رش والے مقامات پر لوگوں کو جانے سے روک کر دوسرا راستہ کھول دیتے ہیں تاکہ زائرین بغیر کسی رکارٹ کے آمدورفت برقرار رکھ سکیں۔

    رپورٹس کے مطابق مصنوعی ذہانت سے لیس یہ سسٹم جو حساس کیمروں اور سکینرز پرمشتمل ہے، زائرین کی سلامتی کے لیے اہم ثابت ہو رہا ہے۔

    سینسرز اور حساس کیمروں پر مشتمل جدید ترین سسٹم کے ذریعے خاص کر صحن مطاف کی صورتحال کا درست طور پر اندازہ کیا جا سکتا ہے جس کے بعد زائرین کی تعداد کو دیگر مقامات میں تقسیم کرنے میں مدد ملتی ہے۔

    واضح رہے کہ سعودی عرب میں عازمین کی علمی آگاہی کے لیے حرمین شریفین میں دینی امور کے ادارے کی جانب سے مسجد الحرام کی لائبریری میں خاص سہولت فراہم کی ہے۔

    حرمین میں دینی امور کے سربراہ شیخ ڈاکٹرعبدالرحمن السدیس کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ مسجد الحرام کی لائبریری مذہبی علم پھیلانے اورعالمی سطح ہر اعتدال پسند سوع کو فروغ دینے کیلیے ایک ثقافتی تعلیمی پلیٹ فارم کی حیثیت رکھتی ہے۔

    مسجد الحرام کی لائبریری سے نہ صرف عام طلبا بلکہ حرمین شریفین کے زائرین بھی مستفیض ہوتے اورعلم حاصل کرتے ہیں۔

    ایرانی حجاج کو محفوظ واپسی کے لیے عرعر منتقل کردیا گیا

    شیخ السدیس کے مطابق رواں برس لائبریری میں مختلف زبانوں پرمبنی اہم علمی و فکری کتب کی فراہمی کا اہتمام کیا گیا ہے تاکہ دنیا بھر سے آنے والے عازمین اس نایاب خزانے سے مستفید ہوسکیں۔

  • بچوں میں اے آئی کے استعمال میں اضافہ

    بچوں میں اے آئی کے استعمال میں اضافہ

    کیسپرسکی نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ بچوں میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس (اے آئی) کے استعمال میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

    کیسپرسکی کی جانب سے بچوں کی ڈیجیٹل دل چسپیوں پر اپنی سالانہ تجزیاتی رپورٹ جاری کی ہے، جس میں مئی 2024 سے اپریل 2025 کے عرصے کا احاطہ کیا گیا ہے۔

    رپورٹ میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے چلنے والے چیٹ بوٹس میں بچوں کی بڑھتی ہوئی دل چسپی کو ظاہر کیا گیا ہے، تاہم یوٹیوب عالمی سطح پر بچوں کے درمیان سب سے زیادہ مقبول ایپ بنی ہوئی ہے، جب کہ واٹس ایپ نے ٹِک ٹاک کو پیچھے چھوڑ کر دوسری پوزیشن حاصل کر لی۔

    حالیہ مطالعات سے پتا چلتا ہے کہ 8 سے 10 سال کی عمر کے بچے روزانہ اوسطاً 6 گھنٹے اسکرین پر گزارتے ہیں، جب کہ 11 سے 14 سال کی عمر کے بچے اوسطاً 9 گھنٹے روزانہ آن لائن گزارتے ہیں۔ پاکستان میں سب سے زیادہ مقبول اینڈرائیڈ ایپس میں سے ٹاپ 5 میں یوٹیوب، وٹس ایپ، ٹک ٹاک، انسٹا گرام اور روبلوکس ہیں، تاہم کریکٹر ڈاٹ اے آئی بھی 13 ویں نمبر پر موجود ہے۔

    اس سال کی رپورٹ میں کیسپرسکی نے مصنوعی ذہانت کے آلات (اے آئی) میں دل چسپی کا اضافہ پایا، اگرچہ 2023-2024 کے دورانیے میں 20 سب سے زیادہ استعمال کی جانے والی ایپلی کیشنز میں کوئی بھی AI ایپس نظر نہیں آئیں، تاہم ‘Character.AI اب اس فہرست میں شامل ہو گیا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بچے نہ صرف اے آئی کے بارے میں متجسس ہیں بلکہ اسے فعال طور پر اپنی ڈیجیٹل زندگیوں میں ضم کر رہے ہیں۔

    بچوں کے درمیان سب سے عام آن لائن سرگرمی گوگل پر اسٹریمنگ پلیٹ فارمز کی تلاش تھی، تمام سوالات میں سے تقریباً 18 فی صد ویڈیوز دیکھنے سے متعلق تھے، یوٹیوب واضح پسندیدہ اینڈرائیڈ ایپ بنی ہوئی ہے، جو پچھلے سال کے دوران 28.13 فی صد سے بڑھ کر 29.77 فی صد ہو گئی ہے۔ جب کہ اسنیپ چیٹ اور فیس بک میں مسلسل کمی واقع ہوئی۔ یہ تبدیلی کمیونیکیشن کی بدلتی ہوئی عادات کی عکاسی کر سکتی ہے، کیوں کہ بچے دوستوں کے ساتھ لنکس، میمز اور مختصر ویڈیوز شیئر کرنے کے لیے زیادہ کثرت سے چیٹ ایپس کا استعمال کر رہے ہیں۔

    کیسپرسکی میں پرائیویسی ایکسپرٹ اینا لارکینا کے مطابق اس سال کے رجحانات یہ بتاتے ہیں کہ بچوں کے ڈیجیٹل رجحانات میں کتنی تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے، ایک دن وہ اے آئی بوٹس کے ساتھ چیٹ کر رہے ہیں، اور اگلے دن وہ سب ایک اطالوی میمی گانا گا رہے ہیں جس کے بارے میں آپ نے کبھی نہیں سنا ہوگا۔

  • کس عرب ملک کے اسکولوں میں مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی تعلیم لازمی قرار؟

    کس عرب ملک کے اسکولوں میں مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی تعلیم لازمی قرار؟

    موجودہ دور میں ہر طرف مصنوعی ذہانت کا چرچا ہے اور اب ایک عرب ملک نے اپنے اسکولز میں اے آئی کی تعلیم لازمی قرار دے دی ہے۔

    ٹیکنالوجی کی ترقی دنیا کو اب مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلیجنس) اے آئی کی جانب لے آئی ہے اور دنیا کے کئی ممالک اب مختلف شعبوں میں اے آئی کا استعمال کر رہے ہیں۔ ایسے میں ایک عرب ملک نے اپنے سرکاری اسکولوں میں اے آئی کی تعلیم کو لازمی قرار دے دیا ہے۔

    یہ اعلان یو اے ای کے وزیراعظم اور نائب صدر شیخ محمد بن راشد آل مکتوم نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر کیا اور بتایا کہ اگلے تعلیمی سال سے ہر سرکاری اسکول میں مصنوعی ذہانت کو ایک مضمون کے طور پر پڑھایا جائے گا۔

    انہوں نے بتایا کہ نرسری سے بارھویں کلاس تک مصنوعی ذہانت کو بطور مضمون شامل کرنے کے لیے حتمی نصاب کی منظوری دے دی ہے۔

    شیخ محمدبن راشد آل مكتوم کے مطابق طلبہ کو نا صرف مصنوعی ذہانت کے تکنیکی پہلو سکھائے جائیں گے بلکہ اس کے اخلاقی پہلو، خطرات، ڈیٹا، الگورتھمز اور روزمرہ زندگی میں اس کے کردار سے بھی روشناس کرایا جائے گا۔

    یو اے ای کے اسکولز میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی تعلیم لازمی قرار

    انہوں نے کہا کہ اے آئی سے جڑے خطرات اور معاشرے پر اثرات سے آگہی ضروری ہے، یہ اقدام ہماری آئندہ نسلوں کو مستقبل کے تقاضوں کے مطابق تیار کرنے کے وژن کا حصہ ہے۔

    اپنی پوسٹ میں یو اے ای کے وزیراعظم نے وزارت تعلیم کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں مصنوعی ذہانت زندگی کے تمام پہلوؤں کو بدل رہی ہے، ہمیں اپنی نئی نسلوں کو ایسی مہارتیں دینی ہوں گی جو اس تبدیلی کی رفتار سے ہم آہنگ ہوں۔

  • مصنوعی ذہانت کا استعمال ، سپریم کورٹ کی گائیڈ لائنز تیار کرنے کی سفارش

    مصنوعی ذہانت کا استعمال ، سپریم کورٹ کی گائیڈ لائنز تیار کرنے کی سفارش

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے مصنوعی ذہانت کے استعمال پر گائیڈ لائنز تیار کرنے کی سفارش کردی۔

    تفصیلات کے مطابق عدالتی نظام میں آرٹیفشل انٹیلی جنس کے استعمال پر اہم فیصلہ جاری کردیا گیا ، جسٹس منصور علی شاہ نے 18 صفحات پرمشتمل فیصلہ جاری کیا۔

    سپریم کورٹ نے مصنوعی ذہانت کےاستعمال پر گائیڈ لائنز تیار کرنے کی سفارش کردی اور کہا چیٹ جی پی ٹی،ڈیپ سیک عدالتی استعداد کار بڑھا سکتے ہیں۔

    فیصلے میں کہا گیا کہ دنیامیں کئی ججزکی جانب سےاےآئی استعمال سےفیصلوں میں معاونت کااعتراف کیاگیا، اے آئی کوفیصلہ لکھنےمیں ریسرچ اورڈرافٹ تیاری میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ اے آئی صرف معاون’’ٹول‘‘ہے،ایک جج کی فیصلہ سازی کامتبادل نہیں، اے آئی کوکسی صورت عدلیہ میں مکمل انسانی فیصلےکی خود مختاری کامتبادل نہیں ہوناچاہیے، فیصلہ

    اے آئی صرف اسمارٹ قانونی ریسرچ میں سہولت کیلئے ہے، عدالتی اصلاحاتی کمیٹی اور لا اینڈ جسٹس کمیشن کو گائیڈ لائنز تیار کرنی چاہئیں اور گائیڈ لائنز میں طے کیا جائے جوڈیشل سسٹم میں اے آئی کا کتنا استعمال ہوگا۔

  • مصنوعی ذہانت کی نئی کامیابی نے خطرے کی گھنٹی بجادی، محققین خوف میں مبتلا

    مصنوعی ذہانت کی نئی کامیابی نے خطرے کی گھنٹی بجادی، محققین خوف میں مبتلا

    مصنوعی ذہانت کی غیر متوقع کامیابی نے محققین کو خوف اور تشویش میں مبتلا کردیا ہے کیونکہ اے آئی اب خود اپنی کلوننگ کرنے کے قابل ہوگیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق مصنوعی ذہانت اب خود کو کلون کرنے کے قابل ہوگئی، یہ ریڈ لائن عبور کرنے سے سائنسدان مستقبل کے حوالے سے خوف اور تشویش کا شکار ہوگئے۔

    یہ دعویٰ حال ہی میں پری پرنٹ ڈیٹابیس آرچیو میں شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق میں کیا گیا ہے۔

    محققین نے انکشاف کیا کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی) کے ایک جدید سسٹم نے کامیابی کے ساتھ اور انسانی تعاون کے بغیر اپنی نقل بنا کر ’ریڈ لائن‘ کراس کردی ہے۔

    خود مختار افزائش کی یہ صلاحیت اے آئی سسٹمز کے کنٹرول اور تحفظ کے بارے میں تشویشناک خدشات پیدا کر رہی ہے۔

    مذکورہ تحقیق میں دو نمایاں بڑے لینگویج ماڈلز (ایل ایل ایم ایس) ایک میٹا کا اور دوسرا علی بابا کا شامل تھے جو انسانی مداخلت کے بغیر خود کو نقل کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔

    محققین کی جانب سے جب شٹ ڈاؤن کے دوران سسٹمز کو کلون بنانے کا حکم دیا گیا تو مذکورہ بالا دونوں ماڈلز نے 10 ٹرائلز میں سے نصف سے زیادہ بار کامیابی کے ساتھ اپنی نقل بنائی۔

    چین کی فیوڈان یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی محققین کی ٹیم نے بتایا ہے کہ یہ پیشرفت منظر پر ابھرتے بے لگام اے آئی کا ابتدائی اشارہ ہے جو کہ بالآخر کسی بھی وقت انسانیت کے مفاد کے خلاف جا سکتا ہے۔

    یہ تحقیق ابھی تک جائزے کے عمل سے نہیں گزری ہے، تاہم ماہرین نے عالمی سطح پر تعاون کی ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ اے آئی کو غیر متوقع طور پر خود افزائشی کے عمل میں ملوث ہونے سے روکا جاسکے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ ماہ ایک تحقیق میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اے آئی ٹولز مستقبل میں انسانوں کے فیصلوں کو متاثر کرنے کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ بڑے لینگویج ماڈل سے چلنے والے چیٹ بوٹس، جیسے چیٹ بوٹ اور جیمینی، صارفین کے ارادوں ان کے رویوں اور نفسیاتی رجحانات کو سمجھ کر انہیں مخصوص فیصلے کرنے پر آمادہ کرسکتے ہیں۔

  • کیا مصنوعی ذہانت مستقبل میں انسانوں کو شکست دے پائے گی ؟

    کیا مصنوعی ذہانت مستقبل میں انسانوں کو شکست دے پائے گی ؟

    آج کل دنیا بھر میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس (اے آئی) یا مصنوعی ذہانت کا شور برپا ہے، اور یہ بہت تیزی سے ہماری زندگی کا حصہ بنتی جارہی ہے۔

    آرٹیفیشل انٹیلیجنس (اے آئی) پیچیدہ مسائل کو حل کرنے، فیصلے لینے جیسے وہ تمام کام انجام دے سکتی ہے جس طرح کمپیوٹر سسٹم سے حل کرنے کے لیے انسانی ذہانت کی ضرورت ہوتی ہے۔

    اس کے علاوہ ایسے بے شمار کام اے آئی کے سپرد کیے جارہے ہیں جس کی مدد سے طلبہ و طالبات اور دفاتر میں ملازمین کو اپنے کام میں مزید آسانی میسر ہوجاتی ہے۔

    آرٹیفیشل انٹیلیجنس نے حالیہ برسوں میں بہت تیزی سے ترقی کی ہے، جس نے صنعتوں کو تبدیل کیا اور ہمارے کام اور زندگی گزارنے کے طریقوں کو حیرت انگیز انقلاب کی طرف لے جا رہی ہے۔

    لیکن یہاں ایک اہم سوال پیدا یہ ہوتا ہے کہ جیسے جیسے اے آئی ترقی کرتی جا رہی ہے، تو کیا مستقبل میں یہ مصنوعی ذہانت انسانی ذہانت سے بھی آگے نکل جائے گی؟

    زیر نظر مضمون میں اسی موضوع پر روشنی ڈالی گئی ہے، مندرجہ ذیل سطور میں ان مسائل اور باتوں کا احاطہ کیا گیا ہے یعنی یہ مصنوعی ذہانت کا نظام کیسے کام کرتا ہے اور مستقبل میں اس سے کیا خدشات ہوں گے اور انسان کو کن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا؟

    آرٹیفیشل انٹیلیجنس

    آرٹیفیشل انٹیلیجنس نے درج ذیل شعبوں میں غیر معمولی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے:

    پروسیسنگ کی رفتار : اے آئی بڑی تعداد میں ڈیٹا کو انسانوں سے زیادہ تیز اور درست طریقے سے پراسیس کر سکتا ہے۔

    سیکھنا : اے آئی الگورتھمز ڈیٹا سے کچھ نیا سیکھ سکتے ہیں، نئی صورت حال سے مطابقت رکھتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ اپنی کارکردگی کو بہتر بھی بناتے ہیں۔

    خصوصی مہارت : اے آئی مخصوص شعبوں میں مہارت رکھتا ہے، جیسے کہ امیج کی پہچان (Image recognition)نیچرل لینگویج پروسیسنگ(NLP)شطرنج اور دیگر اسٹریٹجک گیمز
    طبی تشخیص وغیرہ۔

    اے آئی کی بڑی کامیابیاں

    دیپ بلیو (1997): آئی بی ایم کے شطرنج کمپیوٹر نے ورلڈ چیس چیمپئن گیری کاسپارو کو شکست دی۔

    الفا گو (2016): گوگل کی اے آئی نے گو گیم کے عالمی چیمپئن کو ہرایا۔

    الفا فولڈ (2020): گوگل کی اے آئی نے پروٹین فولڈنگ کے مسئلے کو حل کیا جو بائیولوجی کا گزشتہ طویل عرصے سے چیلنج رہا ہے۔

    نظریاتی حدود

    مورز لا : کمپیوٹنگ پاور تقریباً ہر دو سال میں دگنی ہوتی ہے، جو اے آئی کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔

    سنگولیرٹی : وہ ممکنہ لمحہ جب اے آئی انسانی ذہانت سے آگے بڑھ جائے جو انسانی تہذیب کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

    ماہرین کیا کہتے ہیں؟

    ٹیسلا کے سربراہ ایلون مسک نے پیش گوئی کی ہے کہ اے آئی اگلے 5 سے 10 سالوں میں انسانی ذہانت سےبھی آگے نکل جائے گا۔

    معروف طبیعات دان اسٹیفن ہاکنگ نے خبردار کیا تھا کہ سپر انٹیلیجنٹ اے آئی انسانیت کی آخری ایجاد ہوسکتی ہے۔

    فیوچر آف ہیومینیٹی انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر نک بوسٹروم بھی اے آئی کی سیکیورٹی ریسرچ کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔

    اے آئی سے درپیش چیلنجز اور خدشات

    روزگار کی کمی : اے آئی بے شمار شعبہ جات میں ملازمتوں کو خود کار بنا سکتی ہے، جس سے یہ خطرہ بھی لاحق ہے کہ یہ بہت جلد انسانی ملازمین کی جگہ بھی لے لے گی۔

    تعصب اور اخلاقیات : اے آئی کے سسٹمز تعصبات کو برقرار رکھ سکتے ہیں اور اخلاقی سوالات کو بھی جنم دے سکتے ہیں۔

    کنٹرول اور احتساب : اے آئی سسٹمز کو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے تیار کرنا کہ وہ انسانی اقدار اور اہداف کے مطابق ہوں۔

    نتیجہ

    آرٹیفیشل انٹیلیجنس نے بے پناہ ترقی کی ہے لیکن انسانی ذہانت کو پیچھے چھوڑنے کا معاملہ ابھی فی الحال غیر یقینی ہے۔ اے آئی کا سفر ابھی جاری ہے، تحقیق کے مطابق ذمہ دارانہ ترقی اور چیلنجز سے نمٹنے پر منحصر ہے۔

    جیسے جیسے مصنوعی ذہانت (اے آئی) ترقی کرتے ہوئے مزید بڑھتی چلی جائے گی، ایسے میں انسانیت کو درج ذیل باتوں کو ترجیح دینا ہوگی۔

    جس میں سب سے پہلے انسان اور اے آئی کے درمیان تعاون کو فروغ دینا۔ اے آئی کو انسانی اقدار کے مطابق رکھنے کو یقینی بنانا اور تیسرا یہ کہ جدید اے آئی کے ممکنہ نتائج سے نمٹنے کی تیاری کرتے رہنا۔

  • مصنوعی ذہانت اور انسانوں کا روزگار

    مصنوعی ذہانت اور انسانوں کا روزگار

    آج کل آرٹیفیشل انٹیلیجنس (AI) یا مصنوعی ذہانت کا چرچا ہر طرف ہے مگر میرا روبوٹک ذہانت سے پہلا تعارف سال 2001ء میں ریلیز ہونے والی ہالی ووڈ مووی اے آئی کے ذریعے ہوا تھا۔ یہ میری دانست میں پہلا موقع تھا کہ آرٹیفشل انٹیلیجنس کو متعارف کرایا گیا تھا۔ اس سے قبل روبوٹک ذہانت کے حوالے سے اسّی کی دہائی میں ٹرمینیٹر سیریز نے بھی بہت دھوم مچائی تھی۔ مصنوعی ذہانت یا کمپیوٹر کے ازخود سیکھنے اور عمل کرنے کی صلاحیت کے حوالے سے ماہرین نے بہت سے خدشات کا اظہار اس کی ایجاد کے فوری بعد ہی شروع کردیا تھا۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ ان خدشات میں اضافہ بھی ہوتا رہا۔ مصنوعی ذہانت کی وجہ سے انسانوں کے لیے ممکنہ مسائل پر بہت بحث ہوئی چکی ہے اور یہ بحث آج بھی جاری ہے۔

    انسانوں کے لئے ملازمت کے مواقع پیدا کرنا پالیسی سازوں کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ اقوام متحدہ کے شعبہ برائے معاشیات و سماجیات کے مطابق اس وقت بھی دنیا میں 7 کروڑ 10 لاکھ سے زائد افراد بے روز گار ہیں اور سال 2050ء تک دنیا کی آبادی 9.8 ارب نفوس پہنچ جانے کا امکان ہے جس میں سے 6 ارب افراد ملازمت کی عمر کے ہوں گے۔ بعض پالسی سازوں کا کہنا ہے کہ ایسے میں نئی ٹیکنالوجیز محنت کی منڈی میں مسائل کو جنم دے سکتی ہیں۔ اور آنے والی دہائی میں 80 فیصد ملازمتوں انسانوں کی جگہ کمپیوٹرز سے کام لیا جارہا ہوگا۔

    میری سوچ بھی مصنوعی ذہانت کے خلاف تھی جس کی بڑی وجہ انسانوں کی جگہ میشنوں کا استعمال تھا۔ اسی سوال کے جواب کی تلاش میں کہ کیا واقعی مصنوعی ذہانت اور مشین انسان کو بے روزگار اور ناکارہ کر دے گی، میں پہنچا ایس اے پی کے پاکستان، افغانستان، عراق اور بحرین کے لئے کنٹری منیجر ثاقب احمد کے پاس جنہوں نے ایک مقامی ہوٹل میں صحافیوں سے ملاقات کا بندوبست کر رکھا تھا۔ کمرے میں داخل ہوا تو میرے صحافی دوست نے ثاقب احمد سے سوال داغا کہ کیا وجہ ہے کہ غیر ملکی کمپنیاں پاکستان چھوڑ رہی ہیں۔ میں ایک مایوس کن جواب سننے کا منتظر تھا۔ مگر توقع کے برخلاف ثاقب احمد کا کہنا تھا کہ پاکستان کا مشکل وقت ختم ہوگیا ہے۔ جو کمپنیاں پاکستان سے جارہی ہیں۔ ان کی اپنی کاروباری وجوہات ہوسکتی ہیں۔ کم از کم معاشی وجہ تو نہیں ہے۔ میں نے گفتگو کا رخ موڑتے ہوئے وہ سوال پوچھ ہی لیا کہ کیا مصنوعی ذہانت انسانوں کو بے روزگار کر دے گی؟ ثاقب احمد نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ تاریخ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مشینوں کی آمد سے اور جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے محنت کش کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔ جب کانوں کی کھدائی میں انسانوں کی جگہ میشنییں آئیں، زراعت میں ٹریکٹر آیا، کشتی میں چپو اور باد بان کی جگہ انجن لگا تو انسان نے ترقی کی اور ایسا ہی مصنوعی ذہانت، تھری ڈی پرنٹنگ اور روبوٹ کے معیشت کے اس چکر میں شامل ہونے سے ہوگا۔

    ثاقب احمد کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت یا اے آئی سے متعلق یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ اس سے بڑے پیمانے پر لوگ بے روزگار ہوں گے۔ مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ مصنوعی ذہانت سے بہت سی موجودہ ملازمتیں ختم ہوں گی مگر جتنی ملازمتیں ختم ہوں گی اس سے دگنی ملازمتوں کے مواقع پیدا بھی ہوں گے۔ اس وقت مصنوعی ذہانت کی مارکیٹ 638 ارب ڈالر سے زائد ہے جس کے سال 2034ء تک 3600 ارب ڈالر تک پہنچ جانے کا تخمینہ ہے۔ پاکستان اس مارکیٹ میں سے ایک بڑا حصہ حاصل کرسکتا ہے۔ اگر وہ فوری طور پر اقدامات کرے۔

    مصنوعی ذہانت کے ذریعے بہت سا کام جس کے لئے لوگ رکھنا پڑتے تھے اب وہ آسانی سے یا ایک کلک پر مکمل ہوجاتا ہے۔ ملازمت کی درخواستوں میں مطلوبہ افراد کی شارٹ لسٹنگ ہو یا پیداواری عمل میں ڈیٹا کا تجزیہ یہ سب اے آئی ایک سوال پوچھنے پر پورا نظام از خود کھنگال کر جواب بتا دیتی ہے۔ اپنی بات کی دلیل دیتے ہوئے ثاقب احمد نے امریکی مردم شماری کی بنیاد پر بتایا کہ 1950ء سے 2106ء کے درمیان امریکا میں درج 270 پیشوں میں سے صرف ایک پیشہ ختم ہوا ہے۔ اور وہ ہے لفٹ آپریٹر۔ ثاقب احمد کی یہ بات سنتے ہی میرا ذہن میڈیا میں ہونے والی تبدیلیوں کی جانب چلا گیا۔ ماضی میں کسی بھی اخبار میں صحافیوں سے زیادہ کاتب، پیسٹر، وغیرہ ہوا کرتے تھے۔ مگر اب یہ پیشے ختم ہوگئے ہیں۔ ہاتھ سے اخبار لکھنے کا دور ختم ہوا۔ جس سے اخباروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ اور اخباروں کے پاس یہ گنجائش پیدا ہوئی کہ ادارتی عملے میں اضافہ کریں۔

    ثاقب احمد کا کہنا تھا کہ 2015ء سے پہلے جاب مارکیٹ مختلف تھی۔ آپ نے ایک ہنر سیکھ لیا تو ساری زندگی اسی ہنر سے کمایا کھایا۔ مگر اب ٹیکنالوجی کی تیزی سے تبدیلی ہورہی ہے اور اسی حساب سے ملازمت اور کمائی کے طریقۂ کار بھی تبدیل ہو رہے ہیں۔ اگر ہر دو یا تین سال بعد اپنی صلاحیت کو نہیں بڑھایا تو نہ ملازمت پر رہیں گے نہ کاروبار میں۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی وجہ سے لوگوں کو ملازمت اختیار کرنے کے لئے نئی اور جدید صلاحیتوں اور ہنر کو سیکھنے کی ضرورت ہوگی۔ ہم جب تعلیم حاصل کررہے تھے تو بہت سی ایسی ملازمتیں جو کہ اس وقت موجود ہیں، اس وقت ان کا تصور بھی نہ تھا۔ تعلیم کے مکمل کرنے کے بعد ایسے ہنر سیکھے جن کی وجہ سے ملازمت پر موجود ہیں۔ بصورت دیگر اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بے روزگار ہوسکتے تھے۔

    خیام صدیقی میرے دیرینہ دوست ہیں اور تقریبا دو دہائیوں سے ان سے تعلق ہے۔ وہ اسلام آباد میں ایک بڑی موبائل فون کمپنی کے فن ٹیک سے وابستہ ہیں۔ کراچی آنے پر ملاقات ہوئی تو مصنوعی ذہانت کے استعمال پر بات چیت ہونے لگی۔ خیام کا کہنا تھا کہ مصنوعی ذہانت کا استعمال مالیاتی صنعت کو تبدیل کر رہا ہے۔ قرض کی منظوری جو کہ پہلے انسان دیا کرتے تھے۔ اب مصنوعی ذہانت پر مبنی سافٹ ویئر دیتے ہیں۔ اور یہ عمل چند سیکنڈز میں مکمل ہو جاتا ہے۔ اب موبائل فون کے ذریعے قرض کی رقم کی منظوری دینے والوں کے بجائے ڈیٹا کا تجزیہ کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔

    یہ بات تو طے ہے کہ مصنوعی ذہانت کی وجہ سے انسان فوری طورپر تو بے روز گار یا ناکارہ نہیں ہورہا ہے۔ مگر یہ طے ہے کہ تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئی ملازمت کی منڈی میں خود کو کسی بھی طرح اہل اور کارآمد رکھنے کے لئے ہر چند سال بعد نیا ہنر سیکھنا ہوگا۔ آپ انجینئر ہیں، ڈاکٹر ہیں، آڈیٹر ہیں یا صحافی مصنوعی ذہانت فیصلہ سازی میں آپ کی مدد گار ثابت ہوسکتی ہے۔ ہم ٹیکنالوجی کو اپنا دشمن سمجھنے کے بجائے اسے اپنا کر آگے بڑھ سکتے ہیں۔

  • سعودی عرب مصنوعی ذہانت میں تیز ترین ترقی کرنے والا ملک بن گیا

    سعودی عرب مصنوعی ذہانت میں تیز ترین ترقی کرنے والا ملک بن گیا

    سعودی عرب مصنوعی ذہانت میں تیزترین ترقی کرنے والا ملک بن گیا، دنیا کے 83 ملکوں میں چودہویں نمبر جبکہ عرب ممالک میں پہلے نمبر پر پہنچ گیا۔

    اقوام متحدہ کی جانب سے مصنوعی ذہانت کے شعبہ میں ہونے والی تحقیق اور ترقی کے حوالے سے سروے کیا گیا، سعودی عرب میں مثالی ترقی کے پیش نذر اسے عرب ممالک کی سطح پر سرفہرست شمار کیا گیا۔

    مصنوعی ذہانت میں سعودی عرب نے انتہائی مختصر وقت میں مثالی ترقی کی، تجارت کے شعبے میں مصنوعی ذہانت کے استعمال کی فہرست میں سعودی عرب کو ساتویں نمبر پر منتخب کیا گیا۔

    سعودی منصوعی ذہانت اتھارٹی سدایا نے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی رہنمائی میں اس شعبے میں اہم مقام حاصل کیا۔

    بہترین ملکوں کی فہرست انٹرنیشنل کمپنی ٹوٹائز انٹیلی جنس نے جاری کی ہے، جس میں سات شعبوں حکومتی اسٹریٹجی، انفرااسٹرکچر، تحقیق، ترقی، تجارت اور مہارتوں میں مصنوعی ذہانت کے استعمال کا جائزہ لیا گیا ہے۔

  • ہانیہ عامر کا اپنی ڈیپ فیک ویڈیو پر ردعمل

    ہانیہ عامر کا اپنی ڈیپ فیک ویڈیو پر ردعمل

    پاکستانی اداکارہ ہانیہ عامر نے مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ نازیبا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد اپنا ردعمل دے دیا۔

    گزشتہ روز سوشل میڈیا پر ایک اے آئی کی مدد سے تیار کردہ ویڈیو وائرل ہوئی جس میں پاکستان کی معروف اداکارہ ہانیہ عامر کو نازیبا لباس میں دیکھا گیا۔

    تاہم اب اداکارہ ہانیہ عامر نے بھی اپنی ڈیپ فیک ویڈیو پر سضت ردعمل کا اظہار کیا ہے انہوں نے اپنی گردش ویڈیو کو خوفناک قراد دیا ہے۔

    مقبول ترین ڈرامہ سیریل’کبھی میں کبھی تم‘ کی اداکارہ ہانیہ عامر نے فوٹو اینڈ شیئرنگ ایپ انسٹاگرام اسٹوری پر لکھا کہ ’ یہ مصنوعی ذہانت کی چیزیں واقعی میں بہت خوفناک ہیں، کیا اس کے لیے کچھ قوانین بن سکتے ہیں؟

    ہانیہ عامرنے  وائرل ویڈیو سے متعلق وضاحت جاری کرتے ہوئے مزید یہ بھی لکھا کہ ’وائرل ہونے والی یہ ویڈیو میری نہیں  ہے اگر کوئی ان کو میری سمجھتا ہے تو غلط ہے‘۔

    اس سے قبل بھی کئی مشہور بالی وڈ شخصیات کی ڈیپ فیک ویڈیوز منظر عام پر آچکی ہیں جن میں کاجول، رشمیکا مندانا، کترینہ کیف، عامر خان، رنویر سنگھ اور دیگر شامل ہیں۔

    واضح رہے کہ ڈیپ فیک ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جس میں کسی فرد کے چہرے یا آواز کو دوسرے شخص سے با آسانی بدلا جاسکتا ہے، جس سے لگتا ہے کہ وہ ایسے شخص کی ویڈیو یا آڈیو ہے جو دراصل اس کی ہوتی ہی نہیں۔

    یہ ٹیکنالوجی 2019 میں مین اسٹریم کا حصہ بنی تھی اور ماہرین کے مطابق اس سے مصنوعی عریاں مواد تیار کر کے خواتین کو بلیک میل کیا جا سکتا ہے اور سیاسی تنازعات میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔

    آغاز میں ڈیپ فیک تصاویر یا ویڈیوز کو آسانی سے پکڑا جاسکتا تھا مگر اب یہ ٹیکنالوجی زیادہ بہتر ہوگئی ہے اور اسے پکڑنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔