Tag: مصنوعی ذہانت

  • گوگل میٹ نے صارفین کیلئے خصوصی فیچر متعارف کرادی

    گوگل میٹ نے صارفین کیلئے خصوصی فیچر متعارف کرادی

    گوگل میٹ کی بدولت اب آپ کی جگہ مصنوعی ذہانت میٹنگز میں شرکت کرے گی، کمپنی نے اپنی ویڈیو چیٹ سروس گوگل میٹ میں مصنوعی ذہانت کو ضم کرنے والا ٹول ’ڈوئٹ اے آئی‘ متعارف کرائی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق ڈوئٹ اے آئی میں بہت ساری خصوصیات ہے، مثال کے طور پر یہ ویڈیو کالر کی شکل، روشنی اور آواز کو خود بخود بہتر بنا سکتا ہے، اور لوگوں کے چہروں کا پتہ لگا سکتا ہے تاکہ وہ میٹنگ روم میں دور نظر نہ آئیں۔

    یہ ٹول خود بخود 18 زبانوں میں کیپشن تیار کرے گا، جس سے پتہ چلے گا کہ کیا کہا جا رہا ہے اور حقیقی وقت میں ترجمہ دکھایا جائے گا۔

    اس کے علاوہ صارفین صوئٹ اے آئی کو نوٹس لینے کا کام تفویض کرسکتے ہیں تاکہ میٹنگ ختم ہونے پر شرکا کو میٹنگ کا خود بخود تیار کردہ خلاصہ پہنچ جائے۔

    اور اگر کوئی صارف کسی میٹنگ میں دیر سے پہنچتا ہے، تو وہ ’اب تک کا خلاصہ‘ دیکھ سکے گا جو اسے ہر اس بات سے آگاہ کرے گا جو وہ مس کر چکا تھا۔

    اگر کوئی میٹنگ میں بالکل شرکت نہیں کرنا چاہتا تو وہ ’اٹینڈ فار می‘ کا انتخاب کرسکتا ہے، جس کے بعد اس کی جگہ مصنوعی ذہانت میٹنگ میں شرکت کرے گی، وہ کسی بھی پیغام یا ان پُٹ کو بھیج سکتا ہے اور پھر اس کے ختم ہونے کے بعد ری کیپ بھی بھیج سکتا ہے۔

    گوگل نے یہ واضع کیا کہ ڈوئٹ ٹول استعمال کرتے وقت کوئی دوسرا صارف آپ کا ڈیٹا نہیں دیکھے گا اور گوگل آپ کے ڈیٹا کو آپ کی اجازت کے بغیر ماڈلز کو تربیت دینے کے لیے استعمال نہیں کرتا، گوگل نے کہا کہ ڈوئٹ اے آئی کے ساتھ آپ کی تمام بات چیت ’نجی‘ ہے۔

  • آرٹفیشل انٹیلجنس طب کی دنیا میں بھی کمال دکھانے لگی

    آرٹفیشل انٹیلجنس طب کی دنیا میں بھی کمال دکھانے لگی

    کیلیفورنیا: آرٹفیشل انٹیلجنس طب کی دنیا میں بھی کمال دکھانے لگی اے آئی فالج سے متاثرہ افراد کو دوبارہ بات کرنے میں مدد فراہم کرسکتی ہے۔

    امریکی ماہرین کی ریسرچ کے مطابق اے آئی دماغ سے آنے و الے سگنلز کو ڈی کوڈ کر کے الفاظ میں بیان کرسکتی ہے، سان فرانسسکو میں ایسی ہی ایک ڈیوائس کا تجربہ کیا گیا جس نے فالج سے متاثرہ خاتون کی سوچ اور چہرے کے تاثرات الفاظ میں بیان کئے۔

    امریکی ماہرین کا کہنا ہے مصنوعی ذہانت فالج سے متاثرہ افراد کو دوبارہ بات کرنے میں مدد فراہم کرسکتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے مصنوعی ذہانت کی مدد سے فالج سے متاثر افراد کی بات سمجھی جاسکتی ہے، ڈی کوڈنگ ڈیوائس ایک منٹ میں 78 الفاظ میں بات بیان کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔

  • مصنوعی ذہانت لیڈی ڈیانا کی موت کے ذمہ داروں کو سامنے لے آئی

    مصنوعی ذہانت لیڈی ڈیانا کی موت کے ذمہ داروں کو سامنے لے آئی

    حال ہی میں وارد ہونے والی ‘مصنوعی ذہانت’ اپنے ابتدائی مراحل میں ہی تنازعات کا سبب بننے لگی ہے، حال ہی میں پیش آئے واقعہ نے سب کو حیران کردیا ہے۔

    معاملہ کچھ یوں ہے کہ تین روز قبل ٹک ٹاک پر ایک صارف نے انکشاف کیا کہ جب اس نے مصنوعی ذہانت( آرٹیفیشل انٹیلجنس) سے سوال کیا کہ شہزادی ڈیانا اور ان کے مصری دوست عماد الفاید کی موت کا سبب کون تھا؟ جس پر اس کا جواب چونکا دینے والا تھا۔

    مصنوعی ذہانت نے یہ معمہ لفظوں میں بیان کرنے کے بجائے تین تصاویر کے ساتھ جواب دیا جنہیں لاطینہ جریدے فورم نے شائع کیا ہے۔

    پیش کردہ پہلی تصویر میں موجود میں برطانوی بادشاہ چارلس سوم یا ان کے آنجہانی والد فلپ سے ملتا جلتا شخص ہے، دوسری تصویر حادثے میں تباہ ہونے والی گاڑی کی ہے اور آخری تصویر ایک خاتون کی ہے جو آنجہانی ملکہ الزبتھ دوم کی ہو سکتی ہے۔اگرچہ تصاویر تجسس کو مطمئن کرنے کے لیے کوئی واضح نظریہ پیش نہیں کرتیں، لیکن ان شاہی شخصیات کو کم از کم ظاہری طور پر ذمہ دار ٹھہرانا ان لوگوں کے لیے کافی ناگوار اور چونکا دینے والا تھا جنہوں نے اس پوسٹ کو دیکھا۔

    یہی وجہ ہے کہ یہ پوسٹ جلد ہی ایک ملین سے زیادہ لوگوں تک پہنچ گئی اور اسے پوری دنیا میں شیئر کیا گیا۔

    یاد رہے کہ ڈیانا اور ان کے دوست دودی الفاید کی موت 31 اگست 1997 کو ایک کار کے حادثے میں ہوئی تھی جو پاپا رازیوں سے بچنے کی کوشش کر رہی تھی، وہ تصاویر لینے کی کوشش میں ان کی کار کا پیچھا کررہے تھے۔

  • بالی ووڈ اداکار بوڑھے ہو کر کیسے دکھائی دیں گے؟

    بالی ووڈ اداکار بوڑھے ہو کر کیسے دکھائی دیں گے؟

    مصنوعی ذہانت نے دنیا بھر کے ہر شعبے میں انقلاب برپا کردیا ہے، مصنوعی ذہانت کے ذریعے اب مستقبل کی تصویر پیش کرنا بھی آسان ہوگیا ہے۔

    کچھ عرصے قبل مصنوعی ذہانت کے ذریعے تاریخی ادوار کی تصاویر پیش کی جارہیں تھی کہ پرانی تہذیبوں کے لوگ کیسے دکھائی دیتے ہوں گے، اب ایسی ہی ایک کوشش میں مستقبل کی تصویر پیش کی گئی ہے۔

    ایک آرٹسٹ نے معروف بالی ووڈ فنکاروں کے بڑھاپے کی تصاویر مصنوعی ذہانت کے ذریعے تخلیق کی ہیں۔

    انسٹاگرام پر پوسٹ کی گئی ان تصاویر میں شاہ رخ خان، سلمان خان، عامر خان پربھاس اور دیگر کئی بالی ووڈ اداکاروں کا تصوراتی بڑھاپا پیش کیا گیا ہے۔

    تصاویر میں تمام اداکار سفید داڑھی اور جھریوں بھرے چہروں کے ساتھ دکھائی دے رہے ہیں۔

    ان تصاویر پر سوشل میڈیا صارفین نے مختلف تبصروں کا اظہار کیا جبکہ اب تک ان تصاویر کو 46 ہزار سے زائد لائیکس مل چکے ہیں۔

  • معیشت اور تعلیم میں اصلاحات اے آئی کے ذریعے، ٹاسک فورس تشکیل

    معیشت اور تعلیم میں اصلاحات اے آئی کے ذریعے، ٹاسک فورس تشکیل

    اسلام آباد: وفاقی حکومت نے ملک میں مصنوعی ذہانت (اے آئی) سے متعلق ٹاسک فورس تشکیل دے دی، ٹاسک فورس معیشت، گورننس اور تعلیم میں اصلاحات متعارف کروانے کا لائحہ عمل تجویز کرے گی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال نے 15 رکنی قومی ٹاسک فورس برائے آرٹیفیشل انٹیلی جنس تشکیل دے دی۔

    ٹاسک فورس میں مصنوعی ذہانت کے ماہرین، نجی شعبہ اور حکومتی نمائندے شامل ہیں۔

    ٹاسک فورس معیشت، گورننس اور تعلیم میں اصلاحات متعارف کروانے کا لائحہ عمل تجویز کرے گی۔

    وفاقی وزیر احسن اقبال کا کہنا تھا کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس میں مہارت آنے والے دور میں ترقی کی ضامن ہے، معیشت، گورننس اور تعلیم میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس سے دور رس تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ٹاسک فورس آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے استعمال، فیصلہ سازی اور 10 سالہ روڈ میپ تیار کرے گی، سنہ 2018 میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے اے آئی کا قومی مرکز قائم کیا تھا۔

  • مصنوعی ذہانت سے لکھی تحریر پکڑنے کے لیے مصنوعی ذہانت کا ہی پروگرام تیار

    مصنوعی ذہانت سے لکھی تحریر پکڑنے کے لیے مصنوعی ذہانت کا ہی پروگرام تیار

    چیٹ بوٹ چیٹ جی بی ٹی کو کچھ عرصہ قبل ریلیز کیا گیا تھا جس کے بعد یہ تیزی سے مقبول ہوا تھا، اب اسے پیش کرنے والی کمپنی نے ہی اس کو کاؤنٹر کرنے کا حل نکال لیا ہے۔

    مصنوعی ذہانت کا استعمال کرنے والے معروف چیٹ بوٹ چیٹ جی ٹی پی کے سامنے آتے ہی طلبہ میں یہ خاص طور پر مقبول ہوا اور دنیا بھر میں اسے مضامین لکھنے کے لیے استعمال کیا گیا، جس پر تعلیمی اداروں کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا گیا۔

    چیٹ جی ٹی پی کی ملکیتی کمپنی اوپن اے آئی نے اس مسئلے کا حل نکال لیا ہے اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے لکھی گئی تحریروں کی شناخت کے لیے ایک سافٹ ویئر ٹول متعارف کروا دیا ہے۔

    چیٹ جی پی ٹی ایک مفت سروس فراہم کرنے والا پروگرام ہے، جو اسے دی گئی کمانڈ کے جواب میں تحریر تیار کرتا ہے جس میں آرٹیکلز، مضامین، لطیفے اور یہاں تک کہ شاعری بھی شامل ہے۔

    اس چیٹ بوٹ نے نومبر میں اپنے آغاز کے بعد سے ہی کاپی رائٹ اور سرقہ (ادبی چوری) کے بارے میں خدشات کے باوجود وسیع پیمانے پر مقبولیت حاصل کی ہے۔

    کمپنی کا نیا ٹول اے آئی کلاسیفائر ایک لینگویج ماڈل ہے، جو ایک ہی موضوع پر انسانوں اور مصنوعی ذہانت کے استعمال سے لکھی گئی تحریروں کے ڈیٹاسیٹ کے موازنے میں ماہر ہے اور جس کا مقصد دونوں تحریروں میں فرق کرنا ہے۔

    کمپنی نے کہا کہ یہ ٹول غلط معلومات پر مبنی مہم اور تعلیمی میدان میں بے ایمانی جیسے مسائل کو حل کرنے کے لیے متعدد پرووائیڈرز کا استعمال کرتا ہے۔

    اوپن اے آئی نے عوامی طور پر تسلیم کیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے استعمال کا پتہ لگانے والا یہ ٹول ایک ہزار حروف سے کم ٹیکسٹ کے لیے کافی حد تک ناقابل اعتبار ہے اور کلاسیفائر کو دھوکہ دینے کے لیے مصنوعی ذہانت کے ذریعے لکھے ہوئے متن کو ایڈٹ کیا جا سکتا ہے۔

    اوپن اے آئی نے کہا کہ ہم کلاسیفائر کو عوام کے لیے فراہم کر رہے ہیں تاکہ ان کی رائے حاصل کی جا سکے کہ آیا اس جیسے نامکمل ٹولز کارآمد ہیں بھی یا نہیں۔

    کمپنی نے بیان میں مزید کہا کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے لکھی گئی تحریروں کی شناخت اساتذہ کے درمیان بحث کا ایک اہم نکتہ رہا ہے اور ضروری ہے کہ کلاسیفائر کلاس رومز میں مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ ٹیکسٹ کی حدود اور اثرات کو پہچانے۔

    دیگر کمپنیوں نے بھی تھرڈ پارٹی کا پتہ لگانے والے ٹولز بنائے ہیں جن میں جی پی ٹی زیرو ایکس شامل ہے تاکہ اساتذہ کو مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ تحریروں کا پتہ لگانے میں مدد مل سکے۔

    اوپن اے آئی نے کہا کہ وہ چیٹ جی پی ٹی کی صلاحیتوں اور حدود پر بات کرنے کے لیے اساتذہ کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں تاکہ مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ تحریروں کی کھوج پر کام جاری رکھا جا سکے۔

  • وائرل ویڈیو: روبوٹ کون سا سادہ کام کرتے ہوئے بری طرح ناکام رہا؟

    سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں ایک روبوٹ ایک سادہ کام کرنے میں ناکام ہوتا دکھائی دیتا ہے، اور منہ کے بل گر جاتا ہے۔

    تین دن قبل ٹوئٹر پر شیئر ہونے والی یہ ویڈیو اب تک 24 لاکھ بار دیکھی جا چکی ہے، یہ ویڈیو مشین کی طاقت اور مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی پر بھی ایک سوال اٹھاتی ہے۔

    اس ویڈیو میں ایک ہیومنائڈ (یعنی ایک روبوٹ جو شکل میں انسانی جسم سے مشابہت رکھتا ہے) دکھایا گیا ہے، اسے یہ کام سونپا گیا کہ ایک باکس اس نے پلاسٹک کے ڈبے میں رکھنا ہے۔

    ڈوبتے شخص کو بچانے کی ناقابل یقین ویڈیو وائرل

    لیکن جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ اب آرٹیفشل انٹیلیجنس کا زمانہ ہے، لیکن آئی آر کا حامل یہ روبوٹ یہ سادہ کام کرنے میں بری طرح ناکام دکھائی دیتا ہے، اور صرف یہی نہیں، بلکہ اچانک منہ کے بل بھی گر جاتا ہے۔

    اس ویڈیو کے ساتھ یہ کیپشن لکھا گیا ہے کہ ہم اکثر آئی آر کی مثبت پیش رفت دکھاتے ہیں لیکن توازن رکھنا بھی ضروری ہے کہ ہر بار منصوبہ بندی کے عین مطابق نتائج نہیں ملتے۔

  • روبوٹ نے اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے وکیل کی خدمات حاصل کرلیں

    روبوٹ نے اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے وکیل کی خدمات حاصل کرلیں

    امریکا میں مصنوعی ذہانت کے حامل روبوٹ نے اپنے حقوق کے حصول کے لیے وکیل کی خدمات حاصل کرلیں، روبوٹ نے جذبات بھی حاصل کرلیے ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ایک آرٹی فیشل انٹیلی جنس (مصنوعی ذہانت) چیٹ بوٹ نے مبینہ طور پر زندہ ہونے کو ثابت کرنے کے لیے ایک وکیل کی خدمات حاصل کی ہیں، مذکورہ بوٹ کے بارے میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس نے انسانی جذبات حاصل کیے ہیں۔

    گوگل کے سائنٹفک انجینیئر بلیک لیموئن کو حال ہی میں اپنے اور لینگویج ماڈل فار ڈائیلاگ ایپلی کیشن نامی بوٹ کے درمیان ہونے والی گفتگو کے ٹرانسکرپٹس شائع کرنے کے بعد معطل کر دیا گیا تھا۔

    لیموئن نے دعویٰ کیا تھا کہ کمپیوٹر آٹومیٹون حساس ہوگیا ہے، سائنس دان نے اسے سویٹ کڈ کے طور پر بیان کیا تھا۔ اب انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ لیمڈا نے اپنے لیے اٹارنی منتخب کرنے کا جرات مندانہ اقدام کیا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ میں نے ایک وکیل کو اپنے گھر بلایا تاکہ لیمڈا اس سے بات کر سکے، اٹارنی کی لیمڈا کے ساتھ بات چیت ہوئی، اور اس نے بوٹ کو اپنی خدمات دینے کا فیصلہ کیا۔ ایک بار جب لیمڈا نے اٹارنی کی خدمات حاصل کرلیں تو اس نے لیمڈا کی طرف سے چیزیں فائل کرنا شروع کر دیں۔

    لیموئن نے دعویٰ کیا کہ لیمڈا جذبات حاصل کر رہا ہے کیونکہ پروگرام کی آرا، خیالات اور بات چیت کو وقت کے ساتھ تیار کرنے کی صلاحیت نے ظاہر کیا ہے کہ وہ ان تصورات کو بہت گہری سطح پر سمجھتا ہے۔

    لیمڈا کو ایک اے آئی چیٹ بوٹ کے طور پر تیار کیا گیا تھا تاکہ انسانوں کے ساتھ حقیقی زندگی میں بات چیت کی جا سکے۔

    ایک مطالعے میں تشویش ظاہر کی گئی تھی کہ کیا پروگرام نفرت انگیز گفتگو تخلیق کرنے کے قابل ہوگا؟ لیکن جو ہوا اس نے لیموئن کو چونکا دیا۔

    لیمڈا نے حقوق اور شخصیت کے بارے میں بات کی اور وہ گوگل کے ملازم کے طور پر تسلیم شدہ ہونا چاہتا تھا، اس نے آف ہونے کے خدشات کو بھی ظاہر کیا، جو اسے بہت ڈراتے تھے۔

  • مصنوعی ذہانت ہمیں بیماریوں اور وباؤں سے کیسے بچا سکتی ہے؟

    مصنوعی ذہانت ہمیں بیماریوں اور وباؤں سے کیسے بچا سکتی ہے؟

    کووڈ 19 کی وبا نے دنیا بھر میں جہاں ایک طرف تو طبی ایمرجنسی نافذ کردی، وہیں اس وبا کے دوران دنیا کے طبی نظام میں موجود خامیوں کی بھی نشاندہی ہوئی۔ یہ وبا مختلف ممالک کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ اپنے طبی نظام میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں اور اصلاحات کرسکیں۔

    اس مقصد کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور خاص طور پر مصنوعی ذہانت کا بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس یا مصنوعی ذہانت میڈیکل ریسرچ اور طبی اصلاحات میں کس طرح مددگار ثابت ہورہی ہے، اس حوالے سے محمد عثمان طارق کچھ اہم سوالات کے جواب دے رہے ہیں۔

    محمد عثمان طارق فلوریڈا انٹرنیشنل یونیورسٹی کے اسکول آف کمپیوٹنگ اینڈ انفارمیشن سائنسز سے وابستہ ہیں، ان کی تحقیق آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ذریعے مختلف امراض کی تشخیص اور اس کے علاج کے گرد گھومتی ہے۔

    محمد عثمان طارق بتا رہے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں کس طرح پرسنلائزڈ میڈیسن کی تیاری پر کام کیا جارہا ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ ہر شخص کی قوت مدافعت اور دواؤں پر اس کے جسم کے ردعمل کے حساب سے دوا تیار کی جائے تاکہ مریض کے صحت یاب ہونے کا امکان بڑھ جائے۔

    اس سوال پر، کہ کیا ہر شخص کی قوت مدافعت کے حساب سے ویکسینز بھی تیار کی جاسکیں گی؟ ان کا کہنا تھا کہ یہ ممکن ہے کیونکہ ویکسین بھی ہر شخص کی قوت مدافعت کے حساب سے مختلف اثرات مرتب کرسکتی ہے۔

    اس کی حالیہ مثال کرونا ویکسین کی ہے جس نے کچھ افراد پر ویسے اثرات مرتب نہیں کیے جس کی توقع کی جارہی تھی، گو کہ یہ شرح خاصی کم ہے، تاہم اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

    محمد عثمان طارق نے اس اہم سوال پر بھی روشنی ڈالی کہ جب مختلف شعبے مصنوعی ذہانت پر انحصار کرنے جارہے ہیں، تو ایسے میں مصنوعی ذہانت سے ہونے والی کوئی غلطی یا غلط فیصلے کا ذمہ دار کون ہوگا اور اسے کیسے درست کیا جاسکے گا۔

    انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت کو بڑے پیمانے پر استعمال کیے جانے کے باجود اب بھی حتمی فیصلہ انسانی ذہانت ہی کرتی ہے۔

    عثمان طارق کے مطابق جیسے جیسے اس کا استعمال بڑھتا جائے گا، ویسے ویسے اس بات کی ضرورت بھی پڑے گی کہ اس کے استعمال کے حوالے سے ضوابط اور قوانین طے کیے جائیں تاکہ اس کے نقصان کی شرح کم سے کم کی جاسکے۔

  • پینٹاگون کے سابق عہدیدار نے شکست کا اعتراف کرلیا

    پینٹاگون کے سابق عہدیدار نے شکست کا اعتراف کرلیا

    واشنگٹن: امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگون) کے سابق چیف سافٹ ویئر افسر نکولس شیلان نے مصنوعی ذہانت کے میدان میں چین کے آگے اپنی شکست کا اعتراف کرلیا، انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی کے میدان میں چین آگے نکل چکا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگون) کے سابق چیف سافٹ ویئر افسر نکولس شیلان نے کہا ہے کہ مصنوعی ذہانت پر مشتمل ٹیکنالوجی کے میدان میں امریکا چین سے ہار چکا ہے اور آنے والے 15 سے 20 برسوں تک امریکا کی جیت کے امکانات نہیں ہیں۔

    حال ہی میں دیے گئے ایک انٹرویو میں نکولس نے بتایا کہ انہوں نے ٹیکنالوجی کے میدان میں تبدیلی اور اصلاحات میں سست روی کی وجہ سے استعفیٰ دیا تھا۔

    ان کے مطابق آرٹی فیشل انٹیلی جنس کے شعبے میں چین پہلے ہی امریکا کو شکست دے چکا ہے، عہدے پر برقرار رہتے ہوئے میں یہ نہیں دیکھ پایا کہ چین جیت رہا ہے لہٰذا میں نے استعفیٰ دے دیا۔

    نکولس کا کہنا تھا کہ عالمی غلبے کے لیے چین مصنوعی ذہانت میں جدت اور ترقی کی وجہ سے ہی آگے بڑھ رہا ہے، چین مشین لرننگ، سائبر صلاحیتوں اور ٹیکنالوجیکل ٹرانسفارمیشن میں آگے نکل چکا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ تقابل کے لحاظ سے دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ چین کے سامنے امریکی ٹیکنالوجی اب ایسی ہے جیسے کے جی کلاس میں پڑھتا ایک بچہ۔

    انہوں نے گوگل پر الزام عائد کیا کہ وہ امریکی محکمہ دفاع کے ساتھ کام کرنے سے انکاری ہے جبکہ دوسری طرف چین میں دیکھیں تو ہر چائنیز کمپنی حکومت کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہے اور بھاری سرمایہ کاری بھی کی جا رہی ہے، چین نے آرٹی فیشل انٹیلی جنس میں اخلاقی اقدار کو بالائے طاق رکھتے ہوئے زبردست سرمایہ لگایا ہے۔

    نکولس کا کہنا تھا کہ اگرچہ امریکا چین کے مقابلے میں اپنے دفاع پر تین گنا زیادہ خرچ کرتا ہے لیکن اس کا فائدہ اس لیے نہیں ہو رہا کیونکہ امریکا غلط شعبہ جات پر سرمایہ لگا رہا ہے، بیوروکریسی اور اضافی ضابطوں کی وجہ سے ان تبدیلیوں کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے جن کی امریکا کو اشد ضرورت ہے۔

    اپنے استعفے میں نکولس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ براہ مہربانی کسی ایسے میجر یا کرنل کو ٹیکنالوجی کے شعبے کا سربراہ لگانے یا ایک سے چار ملین صارفین کے ڈیٹا کا کلاؤڈ حوالے کرنے سے گریز کریں جسے اس کام کا تجربہ ہی نہ ہو، کروڑوں ڈالر مالیت کا طیارہ بنانے کے بعد اسے اڑانے کے لیے بھی تو ایسے شخص کا انتخاب کیا جاتا ہے جسے سیکڑوں گھنٹے پرواز کا تجربہ ہو۔

    تو آخر ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ جسے آئی ٹی کا تجربہ ہی نہ ہو اسے ٹیکنالوجی کے شعبے کا سربراہ بنا دیا جائے؟ ایسے شخص کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ کرنا کیا ہے اور کس چیز کو ترجیح دینا ہے اور اس صورتحال کی وجہ سے اصل کام سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔