Tag: مصور

  • عام پینسل اور رنگوں سے خوبصورت شاہکار تخلیق، مصور نے سب کو حیران کردیا

    عام پینسل اور رنگوں سے خوبصورت شاہکار تخلیق، مصور نے سب کو حیران کردیا

    کچھ نوجوان مصور اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کیلیے پینٹنگ برش کا سہارا لیتے ہیں اور کچھ مجسمہ سازی میں طبع آزمائی کرتے ہیں۔

    لیکن کچھ ایسے فن کار بھی ہیں جو محض عام سی پینسل، آئل اور سادہ ٹولز کی مدد سے ایسے شاہکار تخلیق کردیتے ہیں جو دیکھنے والوں کو دم بخود کردیتا ہے۔

    ان ہی میں ایک بہترین مصور رحیم اللہ بھی ہیں جن کا تعلق خیبر پختوا کے علاقے سوات کے ایک قصبے سے ہے، یہ بچپن سے ہی پینٹنگ فٹبال اور رباب کے شوقین رہے ہیں لیکن ان کا جنون مصوری ہی رہا ہے۔

    اے آر وائی نیوز سوات کے نمائندے کامران کامی کی رپورٹ کے مطابق ان کے فن پارے نہ صرف کاغذ بلکہ (اسٹون آرٹ ) پتھروں پر بھی نظر آتے ہیں جن پر خوبصورت تقش نگاری کرکے انہوں نے لوگوں کو اپنے فن کا گرویدہ بنالیا۔

    رحیم اللہ کا کہنا ہے کہ اگر مجھے مہنگے اور اعلیٰ معیار کے ٹولز مل جائیں تو اس سے بھی اچھی اور معیاری مصوری کرسکتا ہوں۔

  • مصور نے اپنا فن قدرتی منظر سے کیسے جوڑا، حیرت انگیز ویڈیو

    ہمارے درمیان موسیقی، رقص، فوٹو گرافی اور پینٹنگ جیسے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ناقابل یقین آرٹسٹ موجود ہیں جو اپنے فن کے ٹکڑوں سے ہمیں حیران کرنے میں کبھی ناکام نہیں ہوتے ہیں۔

    پینٹنگ ایک ایسا فن ہے جو سینکڑوں سالوں سے رائج ہے اس نے قدیم، تاریخی دور کی یادوں اور ریکارڈ کو محفوظ رکھنے میں مدد کی ہے۔

    ایسے ہی ایک  آرٹ نے آج تمام لوگوں کوحیران کردیا ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے مصور خوبصورت قدرتی نظارے کو کینوس میں اُتارنے کی کوشش کررہا ہے۔

    ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پس منظر میں ایک سمندر نظر آرہا ہے کنارے پر کچھ درخت بھی موجود ہے اور ہو با ہو یہ ہی منظر کینوس پر بنایا گئے جو دیکھنے میں حقیقی قدرتی منظر سے جڑ گیا۔

    https://twitter.com/HowThingsWork_/status/1615521685343444994?s=20&t=WSKYpWjIzmuuehWtYBh4Iw

  • سترہویں صدی کی پینٹنگ بیچنے والے مصور کی جعلسازی کیسے ناکام ہوئی؟

    سترہویں صدی کی پینٹنگ بیچنے والے مصور کی جعلسازی کیسے ناکام ہوئی؟

    جھوٹ پکڑنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہوتی، اگر کامن سینس سے کام لیا جائے اور بغور مشاہدے کی عادت ڈال لی جائے تو کسی کا بھی جھوٹ باآسانی پکڑا جاسکتا ہے۔

    آج ہم آپ کو ایسے ہی ایک مصور کے جھوٹ کے بارے میں بتانے جارہے ہیں جو اگر اپنے مقصد میں کامیاب رہتا تو کسی شخص کو بھاری مالی نقصان پہنچا سکتا تھا، آپ کو اس مصور کا جھوٹ پکڑنے کی کوشش کرنی ہے۔

    اس مصور کو پیسوں کی ضرورت تھی، اس نے اخبار میں ایک اشتہار دیا کہ اس کے پاس سترہویں صدی کی ایک پینٹنگ ہے جو وہ اپنے مالی حالات کی وجہ سے فروخت کرنا چاہتا ہے۔

    اخبار میں اشتہار شائع ہونے کے بعد کئی افراد نے اس سے رابطہ کیا جن میں ایک پولیس افسر بھی شامل تھا۔

    پولیس افسر نے اس پینٹنگ کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی اور جب وہ اس فن پارے کو دیکھنے کے لیے پہنچا تو اس نے چند لمحوں میں جان لیا کہ مصور جھوٹ بول رہا ہے۔ پینٹنگ سترہویں صدی کی نہیں تھی بلکہ خود مصور کی بنائی ہوئی تھی جو وہ جھوٹ بول کر فروخت کرنا چاہ رہا تھا۔

    کیا آپ جانتے ہیں پولیس افسر نے مصور کا جھوٹ کیسے پکڑا؟

    اگر آپ غور سے دیکھیں تو آپ کو علم ہوگا کہ پینٹنگ میں الیکٹرک پولز اور تاریں موجود ہیں، سترہویں صدی میں بجلی کی تاروں تو کیا بجلی کا ہی وجود نہیں تھا۔ پولیس افسر کے بغور دیکھنے کے بعد مصور کے جھوٹ کا پول کھل گیا اور وہ ایک بڑی رقم لوٹنے میں ناکام رہا۔

  • وہ وژنری مصور جس کی ایجادات نے ہماری زندگیاں بدل دی

    وہ وژنری مصور جس کی ایجادات نے ہماری زندگیاں بدل دی

    لیونارڈو ڈاونچی کا نام سنتے ہی ہمارے ذہن میں مونا لیزا کی شہرہ آفاق پینٹنگ ابھرتی ہے، سیاہ لباس میں ملبوس خاتون کا فن پارہ جس کی مسکراہٹ کی ایک دنیا دیوانی ہے، لیکن کیا اس کا خالق واقعی صرف ایک مصور تھا؟

    مونا لیزا کا خالق ڈاونچی ایک ایسی بلند قامت شخصیت تھا جسے صرف اس ایک فن پارے میں قید کرنا ناانصافی ہوگی، آج اس مصور کا 569 واں یوم پیدائش ہے جسے تاریخ کا ایک غیر معمولی شخص کہا جاتا ہے اور اس کا شمار دنیا کے ذہین اور وژنری ترین انسانوں میں کیا جاتا ہے۔

    15 اپریل 1452 میں اٹلی میں پیدا ہونے اور 2 مئی 1519 کو فرانس میں انتقال کر جانے والے اس عظیم شخص نے اپنی پوری زندگی میں درحقیقت صرف 20 کے قریب ہی فن پارے بنائے جن میں سے مونا لیزا کو آفاقی شہرت حاصل ہوئی۔

    لیکن دنیا میں اگر کسی کو ہر فن مولا کہا جاسکتا ہے تو وہ ڈاونچی کی شخصیت ہے، وہ صرف ایک مصور ہی نہیں بلکہ مجسمہ ساز، انجینیئر، سائنس دان، ریاضی دان، ماہر فلکیات، ماہر طب اور موجد بھی تھا۔

    آج ہماری زندگی میں موجود بہت سی اشیا ڈاونچی کی ایجاد کردہ ہیں جس نے 5 صدیاں قبل ان کا ابتدائی خاکہ پیش کیا۔ آئیں دیکھتے ہیں کہ ڈاونچی کا وژن آج کس طرح ہماری زندگیوں کا اہم حصہ ہے۔

    روبوٹ

    دنیا کا سب سے پہلا روبوٹ ڈاونچی نے بنایا تھا، یہ روبوٹ لکڑی، چمڑے اور پیتل کا بنا تھا جو خود سے بیٹھنے، ہاتھ ہلانے، منہ کھولنے اور بند کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔

    چار صدیوں بعد امریکی خلائی ادارے ناسا نے اپنا خلائی روبوٹ اسی طرز پر بنایا تھا۔

    ہوائی جہاز

    ڈاونچی کو اڑنے کا بے حد شوق تھا اور اس نے پہلی بار ہیلی کاپٹر بنانے کی کوشش بھی کی تھی، وہ اسے مکمل تو نہ بنا سکا تاہم اپنے نوٹس میں یہ ضرور بتا گیا کہ اس طرح کی اڑنے والی چیز کس طریقے سے کام کرے گی۔

    یہی نہیں اس نے پیرا شوٹ کا خیال بھی پیش کیا تھا جس کا مقصد اس وقت پائلٹ کی جان بچانا تھا۔

    گاڑی

    26 سال کی عمر میں ڈاونچی نے گاڑی کی ابتدائی شکل پیش کی، یہ ایک ریڑھا تھا جو خود کار طریقے سے چل سکتا تھا۔

    فریج

    اس نے اپنے گھر ہونے والی دعوتوں کے کھانے کو محفوظ کرنے کے لیے ایک ایسی مشین بھی بنا دی تھی جو کھانے کو ٹھنڈا رکھتی تھی، اس مشین میں ایک نلکی کے ذریعے سرد ہوا کو داخل کیا جاتا تھا۔

    اس ابتدائی ایجاد کی بدولت آج بڑے بڑے فریج ہمارے گھروں میں موجود ہیں۔

    دل کی شریانوں کے مرض کی تشخیص

    ڈاونچی نے ایک بار ایک بوڑھے شخص کے انتقال کر جانے کے بعد اس کے دل کا آپریشن کیا، تب اس نے پہلی بار دل کی شریانوں کے مرض کے بارے میں لکھا، اس کی یہ پہلی تشخیص آج لاکھوں افراد کی جانیں بچانے کا سبب ہے۔

    جب ڈاونچی نے بتایا کہ آسمان نیلا کیوں ہے

    سنہ 1509 میں ڈاونچی نے ایک مقالہ لکھا جس میں اس نے وضاحت کی کہ آسمان کا رنگ نیلا کیوں ہے۔ یہ مقالہ اس وقت بل اینڈ ملنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کی زیر ملکیت ہے جسے حفاظت سے رکھا گیا ہے۔

    ڈاونچی نے لکھا تھا کہ ہماری فضا کے سفید رنگ اور خلا کے سیاہ رنگ سے جب سورج کی روشنی گزرتی ہے، تو وہ اس کو منعکس کر کے آسمان کو نیلا رنگ دے دیتی ہے۔

    سنہ 1871 میں ایک انگریز سائنس دان لارڈ ریلی نے اس نظریے کی مزید وضاحت کی، انہوں نے لکھا کہ سورج کی روشنی جب ہوا کے مالیکیولز سے ٹکراتی ہے تو مالیکیولز پھیل جاتے ہیں۔

    یعنی کہ سورج کے ٹکرانے سے پیدا ہونے والی روشنی مالیکیولز کے پھیلنے کی وجہ سے چہار سو پھیل جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ دن کے وقت ہر شے بشمول آسمان نہایت روشن دکھائی دیتا ہے۔

    ریلی نے بتایا کہ اس عمل میں نیلا رنگ زیادہ پھیلتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ آسمان کو اپنے رنگ میں ڈھال لیتا ہے۔

    ریلی کے مطابق اس عمل کے دوران سرخ رنگ بھی منعکس ہوتا ہے جس سے آسمان بھی سرخ رنگ کا ہوجاتا ہے، تاہم نیلا رنگ اس پر حاوی ہوتا ہے اس لیے ہم آسمان کو نیلا دیکھتے ہیں۔

    لیونارڈو ڈاونچی کے ہاتھ کے لکھے نوٹس اکثر و بیشتر سامنے آتے رہتے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس ذہین شخص نے کس قدر ایجادات کے بارے میں سوچا تھا، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ممکنہ طور پر اس کے نوٹس میں کسی ایسی شے کا خیال بھی ہوسکتا ہے جو اب تک ایجاد نہ کی جاسکی ہو۔

  • جب ایک مصور نے تحقیق کی کہ آسمان نیلا کیوں ہے

    جب ایک مصور نے تحقیق کی کہ آسمان نیلا کیوں ہے

    جب ہم لیونارڈو ڈاونچی کا نام سنتے ہیں تو ہمارے ذہن میں مونا لیزا ابھرتی ہے، سیاہ لباس میں ملبوس خاتون کی پینٹنگ جس کی مسکراہٹ کی ایک دنیا دیوانی ہے۔

    لیکن مونا لیزا کا خالق ڈاونچی ایک ایسی بلند قامت شخصیت تھا جسے صرف اس ایک فن پارے میں قید کرنا ناانصافی ہوگی، درحقیقت ڈاونچی نے اپنی پوری زندگی میں صرف 20 کے قریب ہی فن پارے بنائے جن میں سے مونا لیزا کو آفاقی شہرت حاصل ہوئی۔

    لیونارڈو ڈاونچی کو اگر ہر فن مولا کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، وہ صرف ایک مصور ہی نہیں بلکہ انجینیئر، سائنس دان، ریاضی دان، ماہر فلکیات، ماہر طب اور موجد بھی تھا۔

    15 اپریل 1452 میں اٹلی میں پیدا ہونے اور 2 مئی 1519 کو فرانس میں انتقال کر جانے والے اس عظیم شخص کو تاریخ کے ذہین ترین انسانوں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔

    آج ہماری زندگی میں موجود بہت سی اشیا ڈاونچی کی ایجاد کردہ ہیں جس نے 5 صدیاں قبل ان کا ابتدائی خاکہ پیش کیا۔

    دنیا کا سب سے پہلا روبوٹ ڈاونچی نے بنایا تھا، یہ روبوٹ لکڑی، چمڑے اور پیتل کا بنا تھا جو خود سے بیٹھنے، ہاتھ ہلانے، منہ کھولنے اور بند کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔

    چار صدیوں بعد امریکی خلائی ادارے ناسا نے اپنا خلائی روبوٹ اسی طرز پر بنایا تھا۔

    ڈاونچی کو اڑنے کا بے حد شوق تھا اور اس نے پہلی بار ہیلی کاپٹر بنانے کی کوشش بھی کی تھی، وہ اسے مکمل تو نہ بنا سکا تاہم اپنے نوٹس میں یہ ضرور بتا گیا کہ اس طرح کی اڑنے والی چیز کس طریقے سے کام کرے گی۔

    یہی نہیں اس نے پیرا شوٹ کا خیال بھی پیش کیا تھا جس کا مقصد اس وقت پائلٹ کی جان بچانا تھا۔

    26 سال کی عمر میں ڈاونچی نے گاڑی کی ابتدائی شکل پیش کی، یہ ایک ریڑھا تھا جو خود کار طریقے سے چل سکتا تھا۔

    اس نے اپنے گھر ہونے والی دعوتوں کے کھانے کو محفوظ کرنے کے لیے ایک ایسی مشین بھی بنا دی تھی جو کھانے کو ٹھنڈا رکھتی تھی، اس مشین میں ایک نلکی کے ذریعے سرد ہوا کو داخل کیا جاتا تھا۔

    اس ابتدائی ایجاد کی بدولت آج بڑے بڑے فریج ہمارے گھروں میں موجود ہیں۔

    ڈاونچی نے ایک بار ایک بوڑھے شخص کے انتقال کر جانے کے بعد اس کے دل کا آپریشن کیا، تب اس نے پہلی بار دل کی شریانوں کے مرض کے بارے میں لکھا، اس کی یہ پہلی تشخیص آج لاکھوں افراد کی جانیں بچانے کا سبب ہے۔

    ڈاونچی کے ہاتھ کے لکھے نوٹس اکثر و بیشتر سامنے آتے رہتے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس ذہین شخص نے کس قدر ایجادات کے بارے میں سوچا تھا، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ممکنہ طور پر اس کے نوٹس میں کسی ایسی شے کا خیال بھی ہوسکتا ہے جو اب تک ایجاد نہ کی جاسکی ہو۔

    نیلے آسمان کی وضاحت

    سنہ 1509 میں ڈاونچی نے ایک مقالہ لکھا جس میں اس نے وضاحت کی کہ آسمان کا رنگ نیلا کیوں ہے۔ یہ مقالہ اس وقت بل اینڈ ملنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کی زیر ملکیت ہے جسے حفاظت سے رکھا گیا ہے۔

    ڈاونچی نے لکھا تھا کہ ہماری فضا کے سفید رنگ اور خلا کے سیاہ رنگ سے جب سورج کی روشنی گزرتی ہے، تو وہ اس کو منعکس کر کے آسمان کو نیلا رنگ دے دیتی ہے۔

    سنہ 1871 میں ایک انگریز سائنس دان لارڈ ریلی نے اس نظریے کی مزید وضاحت کی، انہوں نے لکھا کہ سورج کی روشنی جب ہوا کے مالیکیولز سے ٹکراتی ہے تو مالیکیولز پھیل جاتے ہیں۔

    یعنی کہ سورج کے ٹکرانے سے پیدا ہونے والی روشنی مالیکیولز کے پھیلنے کی وجہ سے چہار سو پھیل جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ دن کے وقت ہر شے بشمول آسمان نہایت روشن دکھائی دیتا ہے۔

    ریلی نے بتایا کہ اس عمل میں نیلا رنگ زیادہ پھیلتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ آسمان کو اپنے رنگ میں ڈھال لیتا ہے۔

    ریلی کے مطابق اس عمل کے دوران سرخ رنگ بھی منعکس ہوتا ہے جس سے آسمان بھی سرخ رنگ کا ہوجاتا ہے، تاہم نیلا رنگ اس پر حاوی ہوتا ہے اس لیے ہم آسمان کو نیلا دیکھتے ہیں۔

  • دیواروں پر جیتی جاگتی تصاویر نے لوگوں کو حیران کردیا

    دیواروں پر جیتی جاگتی تصاویر نے لوگوں کو حیران کردیا

    فرانس میں ایک مصور کی حقیقت سے قریب ترین پینٹنگز نے لوگوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ مصور نے تھری ڈی تصاویر بنا کر متروکہ اور ویران مقامات میں پھر سے نئی زندگی جگا دی۔

    دنیا بھر میں کرونا وائرس کے لاک ڈاؤن میں نرمی کیے جانے کے بعد لوگوں نے پھر سے گھروں سے نکلنا شروع کردیا ہے، ایسے میں ایک مصور نے متروک شدہ اور ویران مقامات پر اپنے ہنر کا جادو جگانا شروع کردیا۔

    فرانس سے تعلق رکھنے والے اس مصور کی مہارت، صفائی اور خوبصورتی سے بنائی اس کی پینٹنگز میں جھلکتی ہے جس میں سبجیکٹ کی ایک ایک شے نہایت تفصیل سے بیان کی جاتی ہے۔

    مصور نے شہر کی دیواروں پر جا بجا اپنے فن کا جادو جگایا ہے جو دیواروں سے زندہ ہو کر باہر آتا محسوس ہوتا ہے اور راہ چلتے افراد اسے داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے۔

    آپ بھی اس باکمال مصور کی شاندار تصاویر دیکھیں۔

  • اینا مولکا: پاکستان میں مصوری کے شعبے کا اہم نام

    اینا مولکا: پاکستان میں مصوری کے شعبے کا اہم نام

    اینا مولکا کا نام پاکستان میں مصوری اور یہاں فائن آرٹ کے شعبے میں تعلیم کے آغاز اور اسے فروغ دینے کے حوالے سے بہت اہمیت رکھتا ہے۔

    آج پاکستان کی اس نام ور مصورہ کا یومِ وفات ہے۔ اینا مولکا نے 1917 میں ایک یہودی جوڑے کے گھر میں آنکھ کھولی جو ان دنوں لندن میں مقیم تھا۔ بعد میں اینا مولکا نے اسلام قبول کر لیا اور ان کی زندگی پاکستان میں گزری۔

    اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ ابتدائی تعلیم کے بعد اینا مولکا کی زندگی میں اس وقت اہم موڑ آیا جب انھوں نے رائل کالج آف آرٹس، لندن میں داخلہ لیا۔ یہ 1935 کی بات ہے۔ یہیں ان کی ملاقات شیخ احمد سے ہوئی جو خود بھی مصور تھے اور ان کا تعلق متحدہ ہندوستان سے تھا۔

    1939 میں اینا مولکا نے کالج سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد اپنے اسی ہم جماعت شیخ احمد سے شادی کرلی اور اینا مولکا احمد بن کر ان کے ساتھ پاکستان چلی آئیں۔ شیخ احمد کے ساتھ لاہور میں رہتے ہوئے انھوں نے پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ فنونِ لطیفہ کی بنیاد رکھی۔ اینا مولکا 1940 سے 1972 تک اس شعبے کی چیئرپرسن رہیں۔

    فن کی دنیا میں اس وقت کے باذوق افراد اور ناقدین نے ان کے کام کو سراہا اور ان اسے شہرت ملی، ان کے ہاں یورپی مصوروں طرزِ فن نظر آتا ہے جس میں برش کے چھوٹے چھوٹے اسٹروکس سے تصویر مکمل کی جاتی ہے۔

    حکومتِ پاکستان نے اینا مولکا کو مصوری کے شعبے میں خدمات کے اعتراف کے طور پر تمغہ امتیاز اور صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا۔

    20 اپریل 1995 کو وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ انھیں‌ لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں دفن کیا گیا۔

    2006 میں پاکستان کے دس بہترین مصوروں کی یاد میں جاری کیے گئے ٹکٹ میں اینا مولکا بھی کو بھی شامل کیا گیا تھا۔

  • لاک ڈاؤن کے دوران وین گوف کی بیش قیمت پینٹنگ چوری

    لاک ڈاؤن کے دوران وین گوف کی بیش قیمت پینٹنگ چوری

    ایمسٹرڈیم: کرونا وائرس کے باعث ہونے والے لاک ڈاؤن کا فائدہ اٹھا کر چور ایک میوزیم سے شہرہ آفاق مصور وین گوف کی لاکھوں ڈالر مالیت کی پینٹنگ لے اڑے۔

    ونسنٹ وین گوف کے فن پارے کی چوری ایمسٹرڈیم کے قریب واقع ایک میوزیم سنگر لارین سے ہوئی۔ پولیس کے مطابق چور صبح ساڑھے 3 بجے میوزیم کا ایک شیشہ توڑ کر اندر داخل ہوئے اور بیش قیمت فن پارہ لے اڑے۔

    اس فن پارے کی قیمت اندازاً 66 لاکھ ڈالر بتائی جارہی ہے۔ واقعے کی خبر ہوتے ہی پولیس فوراً موقع پر پہنچی تاہم چور تب تک فرار ہوچکا تھا۔

    میوزیم کے ڈائریکٹر جان رالف نے اس واقعے پر سخت افسوس کا اظہار کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ آرٹ دیکھنے، لطف اندوز ہونے اور سکون حاصل کرنے کے لیے ہے خصوصاً آج کل کے کٹھن حالات میں اس کی زیادہ ضرورت ہے

    ان کے مطابق یہ فن پارہ شمالی نیدر لینڈز کے ایک اور میوزیم سے لا کر ایک نمائش کے لیے یہاں رکھا گیا تھا۔

    نیدر لینڈز سے تعلق رکھنے والے مصور ونسنٹ وین گوف کے فن مصوری نے اس دور کی مصوری پر اہم اثرات مرتب کیے، وہ مشہور مصور پکاسو سے متاثر تھا۔ وین گوف کا مذکورہ چوری شدہ فن پارہ سنہ 1884 میں بنایا گیا تھا۔

    اس سے قبل بھی وین گوف کے فن پاروں کی چوری کے واقعات پیش آچکے ہیں۔

    سنہ 2002 میں ایمسٹر ڈیم کے ہی ایک میوزیم سے وین گوف کے 2 فن پارے چرائے گئے تھے جو سنہ 2016 میں بازیاب کرلیے گئے، دونوں پینٹنگز نیپلز مافیا نامی گروہ نے چرائے تھے۔

  • چوری شدہ فن پارہ جو بیس سال بعد کچرے کے ڈھیر سے ملا

    چوری شدہ فن پارہ جو بیس سال بعد کچرے کے ڈھیر سے ملا

    میکسیکو کے مشہور مصور روفینو تومایو نے جب 1970 میں اپنی ایک پینٹنگ مکمل کی تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ ایک روز گندگی کے ڈھیر پر پڑی ہو گی!

    یہ آئل پینٹنگ اس مصور کے مُو قلم کا شاہ کار تھی جسے کینوس پر اترنے کے صرف سات سال بعد یعنی 1977 میں نیلام کر دیا گیا۔ اسے نیلام گھر سے ایک قدر دان ساڑھے چھبیس ہزار پاؤنڈ میں لے گیا تھا۔

    چند برس بعد یہ پینٹنگ اس کے گودام سے کسی نے چوری کرلی اور لگ بھگ 20 سال بعد یہ کچرے کے ڈھیر سے برآمد ہوئی۔ اس کا مالک اتنے برسوں میں یقینا اس پینٹنگ کا دکھ فراموش کر چکا تھا۔ تاہم الزبتھ گبسن نامی خاتون کے ہاتھ لگنے کے بعد جب اس کی خبر عام ہوئی تو چوری کا بیس برس پرانا وہ واقعہ کئی ذہنوں میں تازہ ہو گیا۔

    اس خاتون نے پینٹنگ کچرے کے ڈھیر سے اٹھائی تو وہ یہ جانتی تک نہ تھی کہ یہ کوئی شاہ کار ہے جسے منہگے داموں فروخت کیا جاسکتا ہے۔

    الزبتھ گبس آرٹ کو نہیں سمجھتی تھی اور اس کا خیال تھا کہ اس تصویر کو بس دیوار پر سجایا جاسکتا ہے، مگر ایک سہیلی نے کہا کہ شاید یہ کوئی قیمتی فن پارہ ہے، تم اس حوالے سے معلوم کرو۔

    اس فن پارے کے چوری ہونے کی رپورٹ 1988 میں کی گئی جس پر متعلقہ امریکی ادارے نے اس چوری کا کھوج لگانے کی کوشش کی تھی۔

    الزبتھ کو یہ معلوم ہوا تو وہ مالکان تک پہنچ گئی اور انھیں پینٹنگ لوٹا دی۔ کئی برس تک اس فن پارے کی جدائی کا غم سہنے والے مالکان نے الزبتھ کو خالی ہاتھ جانے نہ دیا اور سات ہزار پاؤنڈ بطور انعام دیے۔ بعد ازاں اس پینٹنگ کو نیویارک میں نیلام کر دیا گیا۔

  • ڈرامے کے ایک کردار کی موت جو دردناک حقیقت بن گئی!

    ڈرامے کے ایک کردار کی موت جو دردناک حقیقت بن گئی!

    یہ ایک درد ناک واقعہ ہے، ایک ایسی حقیقت جس کا تعلق ایک ڈرامے سے ہے۔ یہ ایک زندگی کے الم ناک انجام کی داستان ہے جس نے شیکسپیر کے مشہورِ زمانہ اور شاہ کار ڈارمے ہملٹ کے بطن سے جنم لیا۔ ہم اسے حیرت انگیز اتفاق کہہ سکتے ہیں۔

    مشہور مصور ہولمین ہنٹس نے شیکسپیر کے ڈرامے کے ایک منظر میں رنگ بھرنے کا سوچا اور اس کے لیے مسز روزیٹی کو منتخب کیا۔ یہ خاتون مصور کے حلقۂ احباب میں سے تھی۔ ہولمین ہنٹس کو ہملٹ کا وہ منظر کینوس پر منتقل کرنا تھا جس کا ایک کردار اوفیلیا تھی جس کی موت ایک حوض میں ڈوبنے سے واقع ہوئی تھی۔

    ہولمین ہنٹس نے اپنے اسٹوڈیو میں ایک بڑے ٹب کا انتظام کیا جس میں پانی بھر کر اس کے نیچے آگ روشن کر دی جاتی تھی تاکہ پانی گرم رہے اور ماڈل کو پانی میں رہنے کی وجہ سے انگلینڈ کا سرد ترین اور یخ بستہ موسم کوئی نقصان نہ پہنچائے۔ مسز روزیٹی اپنے گھر سے اوفیلیا کا سوانگ بھر کر آتی اور اس ٹب میں مصور کی ہدایات کے مطابق لیٹ جاتی۔ ہولمین تصویر کشی شروع کرتا اور یونہی متعدد دنوں تک یہ سلسلہ جاری رہا۔

    ایک روز معمول کے مطابق مسز روزیٹی کی آمد ہوئی اور وہ پانی سے بھرے ہوئے ٹب میں لیٹ گئی۔ بدقسمتی سے ہولمین ہنٹس اس روز ٹب کے نیچے آگ جلانا بھول گیا۔ لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے آگ جلائی تھی اور یہی وجہ تھی کہ ماڈل کو پانی میں لیٹتے ہوئے کوئی کچھ محسوس نہ ہوا۔

    کہتے ہیں کہ کسی وجہ سے آگ بجھ گئی تھی اور دونوں ہی اس بات سے بے خبر رہے۔ مصور نے منظر کینوس پر اتارنا شروع کیا اور اس میں اتنا منہمک رہا کہ اسے کسی بات کا احساس نہ ہو سکا۔ مسز روزیٹی کی موت واقع ہو چکی تھی۔ جاڑے کا موسم اور پانی نے اس ماڈل کے بدن کو گویا منجمد کر دیا۔ وہ نمونیہ کا شکار ہو کر دنیا سے رخصت ہو گئی. شیکسپیر کے ڈرامے میں اوفیلیا نے بھی زندگی کی بازی ہار دی تھی۔