Tag: مصوری

  • اسلامی عہد میں‌ کتب کے مصوّر نسخے

    اسلامی عہد میں‌ کتب کے مصوّر نسخے

    ادب و قصص کی کتب کی تصاویر کا سلسلہ یوں تو ابتدائی اسلامی عہد میں شروع ہوگیا تھا مگر ان کے قدیم ترین نسخے، جو ہمیں ملتے ہیں وہ زیادہ تر چھٹی اور ساتویں صدی ہجری کے ہیں۔ اتفاق سے قابوس نامہ کا مصوّر نسخہ امریکہ میں ایک پرانی اشیا کے تاجر کے ذریعہ حال ہی ملا ہے، جسے راقم نے بھی دیکھا ہے۔

    دراصل قابوس بن دشمگیر نے دسویں صدی عیسوی میں اسے بطور پند و نصائح لکھا تھا مگر مصور نسخے کے متعلق مختلف آرا ہیں کہ آیا یہ مصوّر نسخہ صحیح ہے یا جعلی ہے۔ اگرچہ ابھی تک زیادہ قیاس یہی ہے کہ یہ جعلی ہے۔ بہرحال یہ نسخہ ۴۱۳ھ کا لکھا ہوا ہے اور اس کی رنگین تصویریں قابل مطالعہ ہیں۔ میرے نزدیک یہ نسخہ ضرور مشکوک ہے۔

    بغداد میں عہد دولتِ عباسیہ میں علوم و فنون کو بہت فروغ ہوا تھا۔ یہاں الف لیلہ اور کلیلہ و دمنہ جیسے علمی اور ادبی شہ پارے بھی مصوّر کیے گئے تھے جو اس عہد کی یادگار سمجھے جاتے ہیں۔ البتہ کلیلہ و دمنہ کے مصوّر نسخے اب نہیں ملتے ہیں۔ خدیویہہ کتب خانۂ مصر میں عربی کی مشہور کتاب آغانی کا مصوّر نسخہ بھی موجود ہے، جس کے جمالیاتی حسن سے عربوں کی ثقافت اور فن کا عروج نظر آتا ہے۔ حسنِ اتفاق سے میونخ جرمنی کی نمائش ۱۹۱۴ء میں چند اوراق الف لیلیٰ کے بھی رکھے گئے تھے، جن میں اس گھڑی کا نقشہ تھا جسے ہارون رشید نے چارلس پنجم کو تحفتاً ارسال کیا تھا۔ اوراق میں اس زمانے کے بازاروں کے مناظر اور بعض علم موسیقی سے متعلق بہت اہم یادداشتیں تھیں۔

    چونکہ عام طور پر کلیلہ و دمنہ کو ہندی الاصل کتاب ہتھوپدیش کا چربہ شمار کیا جاتا ہے، جو عبداللہ بن مقفع کی کاوش کا نتیجہ ہے۔ اسے مصور کرنے کی طرف بہت توجہ کی گئی تھی۔ اس کا ایک نسخہ نمائش ۱۹۱۴ء میں پیرس میں آیا تھا۔ جو ۶۳۲ھ کا لکھا ہوا تھا جس میں یہی تصاویر بھی تھیں۔ مگر ان کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ یہ زیادہ عراقی دبستانِ مصوری سے تعلق رکھتی تھیں۔ ایک اور مصور نسخہ پیرس میں ۷۳۳ھ کا لکھا ہوا معلوم ہوتا تھا، جو بغداد میں لکھا گیا تھا مگر اسی عہد میں مقاماتِ حریری کے مصوّر نسخے تیار ہوئے کیونکہ مدارسِ اسلامیہ میں یہ کتابیں باقاعدہ پڑھاتی جاتی تھیں اور اس طرح قدرے سریعُ الفہم تصور کی جاتی تھیں۔ انسان ان کتابوں میں جمالیاتی صورت سے بھی خوب حظ اٹھا سکتا تھا۔

    چنانچہ ان کتب کے کافی مصوّر نسخے یورپ کے کتب خانوں مثلاً برٹش میوزم لنڈن، کتب خانہ ملّی پیرس اور وائنا میں موجود ہیں جنہیں راقم نے بھی دیکھا ہے۔ پیرس کا نسخہ بھی امین محمود الوسطی نے مصوّر لکھ کر ۶۳۴ھ میں تیار کیا تھا مگر لنڈن کا نسخہ جو ۷۲۳ھ کا لکھا ہوا ہے اسے ابوالفضل بن ابی اسحاق نے مصوّر کیا ہے۔ یہ تینوں نسخے خالصتاً عراقی دبستانِ مصوری سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان پر کسی قسم کا چینی یا ایرانی اثر نہیں ہے۔ اسی طرح مصوّر نسخہ مجمع التواریخ رشید الدین کا اڈنبرا یونیورسٹی کتب خانے میں ہے، جو ۷۵۵ھ کا لکھا ہوا ہے، اس میں کافی تصاویر ہیں مگر اسی تاریخ کے مصوّر نسخے جن کو کسی قدر اس نسخہ کا حصہ تصور کرنا چاہیے، ہند میں کتب خانۂ بنگال ایشیاٹک سوسائٹی اور رام پور کے کتب خانے میں ہیں، جن کو راقم نے بھی دیکھا ہے۔ ان میں واضح طور پر وسط ایشیائی ماحول ہے۔ اسی لیے ہم ان کی مصوری کو وسطِ ایشیائی دبستان کی مصوری کے نام سے تعبیر کرتے ہیں اور ان تصاویر پر کسی قدر چینی مصوری کے اثرات بھی ہیں۔

    وسطِ ایشیاء میں فردوسی کے شاہنامہ نے اسلامی مصوری میں ایک نیا رزمیہ رنگ پیدا کر دیا تھا، اس کو مصوروں نے ہر دور میں مصور کیا ہے۔ یہ کتاب جو سلطان محمود غزنوی کے عہد کا ایک زرین علمی کارنامہ ہے، مصوروں کے لیے جولانئ طبع کا مرکز رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مصوروں کو اس میں وہ واقعات ملے جس کے لیے مصور سہارا تلاش کرتا ہے کہ مصور کرنے میں سہولت ہو۔ اس میں بنے بنائے موضوعات ملتے ہیں۔ دوسرے یہ ایرانی ثقافت کا ایک بہترین نمونہ ہے یعنی ایرانی قوم کی یہ مصور تاریخ ہے۔

    یہ ماننا پڑے گا کہ مصوری کے معیار کے ساتھ ساتھ ہمارا جمالیاتی نقطۂ نگاہ بھی اسی طرح ترقی کرتا رہا۔ چنانچہ آٹھویں صدی ہجری کے اخیر میں، فنون میں کافی ترقی ہوچکی تھی اور خاص کر ایرانی مصوری میں شاہنامۂ فردوسی کے علاوہ دوسرے مستند شعرا کے کلام کو مصور کرنے کی طرف بھی مصوروں نے توجہ کی، جس میں نظامی کی کلیات، خواجہ کرمانی وغیرہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں، جن کو ایرانی مصوروں نے مصور کر کے جمالیاتی اعتبار سے دنیا میں مسلمانوں کا ایک خاص امتیاز قائم کر دیا۔

    (ممتاز پاکستانی مصوّر عبدالرحمٰن چغتائی کے مضمون سے اقتباسات)

  • بغیر دیکھے بیک وقت دونوں ہاتھوں سے مصوری کرنے والا فنکار

    بغیر دیکھے بیک وقت دونوں ہاتھوں سے مصوری کرنے والا فنکار

    سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں ایک شخص نے بغیر دیکھے دونوں ہاتھوں سے ڈرائنگ کر کے لوگوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔

    46 سیکنڈز کی اس ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک شخص بلیک بورڈ کے سامنے بیٹھا ہے اور اس کی پشت بلیک بورڈ کی طرف ہے۔

    اس کے بعد وہ دونوں ہاتھوں میں چاک لے پیچھے مڑے بغیر ڈرائنگ کرنا شروع کردیتا ہے، دونوں ہاتوں سے وہ الگ الگ تصاویر بناتا ہے۔

    مذکورہ شخص پوری ڈرائنگ بغیر دیکھے بناتا ہے اور اس کے لیے بیک وقت دونوں ہاتھوں کا استعمال کرتا ہے۔

    سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے کے بعد صارفین اس شخص کی مہارت اور صلاحیت دیکھ کر حیران رہ گئے۔

  • آپ سے تم، تم سے تُو ہونے لگی….

    آپ سے تم، تم سے تُو ہونے لگی….

    ”میں اکثر اس کے پاس جاتا تھا۔ کبھی ہفتے میں ایک بار اور کبھی دو بار۔ گھنٹوں ہماری بیٹھک ہوتی اور رات گئے تک دنیا جہاں کی باتیں ہوتی تھیں۔

    یہ جانی پہچانی اور محبت بھری آواز یکم ستمبر 2006 کو ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی اور اب مجھے اس کی یاد آتی ہے۔“

    ”احمد سعید ناگی ایک خوش لباس، ہنس مکھ، ملن سار اور محبت کرنے والا فن کار تھا، جس سے میرے دوستانہ تعلقات تھے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میں نے ناگی کو پہلی بار 1946 میں دیکھا تھا۔

    یہ وہ زمانہ تھا جب میں دھرم پورہ، لاہور میں انجینئر اسٹور ڈپو میں سائن رائٹر پینٹر کی حیثیت سے ملازم تھا۔

    میرے ساتھ بی اے نجمی اور نذیر ضیغم بھی سائن رائٹر، پینٹر کی حیثیت سے ملازم تھے، مگر ہمیں تصویر کشی کا بھی شوق تھا اور اس سلسلے میں تینوں بے استادے تھے۔

    1946 میں ہم نے ایک ہندو دوست کے ساتھ اس وقت کے منٹگمری روڈ پر جہاں آج کل لاہور ٹیلی ویژن اسٹیشن واقع ہے، اس کے قریب ایک دکان کرائے پر لی اور سنیما وغیرہ کے بینر بنانے اور دکانوں، دفتروں کے بورڈ لکھنے کا کام شروع کیا تھا۔

    اس کا نام ”ماڈرن آرٹ سینٹر“ رکھا تھا، حالاں کہ اگر اس وقت ہم سے کوئی ماڈرن (Modern) کے معنی پوچھ لیتا تو ہم نہ بتاسکتے، اس لیے کہ اس دور میں ہمارے نزدیک آرٹ یا مصوری کے معنی سنیما کے بینر، فلموں کی تشہیر کے تصویری بورڈ اور تھیٹروں کے پردوں وغیرہ کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔

    یہی نہیں بلکہ وہ پینٹر جو بورڈ وغیرہ لکھتے تھے، ہم ان سب کو مصوروں ہی کے زمرے میں شمار کرتے تھے اور اپنی جگہ خوش ہوتے تھے کہ ہم بھی مصور ہیں۔

    یوں بھی ان دنوں آج کل کی طرح نہ تو جگہ جگہ آرٹ گیلریاں تھیں اور نہ آئے دن آرٹ کی نمائشیں ہوتی تھیں۔ لہٰذا تصویر کشی کرنے والے عام فن کاروں کا ذریعہ معاش یا پینٹروں کی آمدنی کا ذریعہ سنیماﺅں کے بینر تیار کرنا یا پھر تھیٹروں کے پردے اور سیٹ بنانا ہوتا تھا۔

    اگر آپ ابتدائی دور کے مصوروں کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ کریں تو بعض بڑے مصور اس دور میں تھیٹروں میں پیش کیے جانے والے ڈراموں کے پوسٹر، پردے اور سیٹ بنایا کرتے تھے۔ یہی کچھ جانتے ہوئے ہم نے دکان شروع کی تھی، مگر ہوتا یہ کہ ہم بیٹھے باتیں کرتے رہتے تھے کیوں کہ کوئی بورڈ لکھوانے اور بینر یا پوسٹر بنوانے نہیں آتا تھا۔

    اس لیے جیسے ہی دن ڈھلتا ہم مختلف سنیماﺅں کا چکر لگاتے اور ان کے آگے لگے ہوئے ایکٹروں کے بڑے بڑے بینر اور بورڈ بڑی حسرت سے دیکھتے رہتے۔ پھر شام ہوتے ہی رائل پارک کے چوک میں پہنچ جاتے جہاں ایک پینٹر کی دکان تھی۔ اس میں نئی فلموں کے لیے بینر اور بورڈ بنتے تھے اور ایک ساتھ تین چار لوگ بنا رہے ہوتے تھے۔

    اس دکان کا مالک ہمارا واقف تھا۔ یہاں ہم کام ہوتا ہوا بھی دیکھتے تھے اور اپنی محرومی کا وقت بھی گزارتے تھے۔ ایک روز ہم کھڑے آپس میں باتیں کررہے تھے کہ وہاں ایک تانگا آکر کھڑا ہوا جس میں سے ایک کِھلتے رنگ کا خوش لباس شخص نیچے اترا۔ اسے دیکھ کر دکان کا مالک اس کے پاس گیا۔ دونوں میں دو چار منٹ کچھ باتیں ہوئیں اور وہ شخص جس تانگے میں آیا تھا اُسی میں سوار ہو کے وہاں سے چلا گیا۔

    دکان والے نے ہمیں بتایا، یہ مشہور آرٹسٹ ہے اور اس کا نام ناگی ہے۔

    ”پھر جنوری 1950 میں جب میں لاہور سے نوکری کی تلاش میں کراچی آیا تو ناگی کے نام اور کام سے واقف ہوا۔ اگرچہ کراچی آکر میں نے مصوری سے عملی رشتہ ختم کردیا تھا اور صحافت ہی کا ہو کر رہ گیا تھا، مگر رنگوں کا اپنا ایک جادو ہوتا ہے جو واقعی سَر چڑھ کر بولتا ہے۔

    یہ میرا ابتدائی دور تھا اور لکھنے لکھانے کی بھی شروعات تھیں۔ اس لیے ناگی کا مجھے جاننا یا میرا اس سے تعارف ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اس کے باوجود میں ایک روز ”ناگی اسٹوڈیو“ چلا گیا،

    اس وقت وہ کینوس اِدھر اُدھر رکھ رہا تھا۔ اس نے خندہ پیشانی سے مجھے دیکھا اور پھر اندر آنے کو کہا۔ میں نے بتایا کہ ”مجھے آرٹ سے دل چسپی ہے اس لیے آیا ہوں؟“

    اس پر ناگی نے پوچھا۔

    ”کیا آرٹ سیکھنا چاہتے ہو۔“

    ”نہیں۔ میں صحافی ہوں، مجھے صرف آرٹ دیکھنے کا شوق ہے۔“

    میرے اس جواب پر ناگی کا کوئی ردعمل نہیں تھا۔ اس نے اپنی مصروفیت کو جاری رکھتے ہوئے کہا۔
    ”اچھا اچھا۔ یہ بات ہے، دیکھو دیکھو!“

    اس پہلی ملاقات کے بعد بھی میں چند ایک بار ناگی اسٹوڈیو گیا تھا، کیوں کہ اب اس سے تھوڑی بہت سلام دعا ہوگئی تھی۔

    اسی اسٹوڈیو میں مشہور مصورہ لیلیٰ شہزادہ سے ملاقات ہوئی تھی۔ اس وقت اسے نام وری حاصل نہیں ہوئی تھی بلکہ ابھی وہ تحصیل فن کے مراحل سے گزر رہی تھی۔“

    ”پہلی دو تین ملاقاتوں میں تو ناگی نے مجھ سے اردو زبان ہی میں بات کی، مگر جب ہماری واقفیت ہوگئی تو پھر اس نے کبھی مجھ سے اردو میں بات چیت نہیں کی۔ ہمیشہ پنجابی ہی میں گفتگو ہوتی تھی۔ پھر ہمارے دوستانہ تعلقات استوار ہوگئے اور تکلف کی جگہ بے تکلفی نے لے لی۔

    آپ سے گزر کر تم تک آئے اور پھر ایک دوسرے کو تُو سے مخاطب کرنے لگے۔“

    (پاکستان کے چند نام ور اور باکمال مصوروں‌ سے متعلق شفیع عقیل کی کتاب سے انتخاب)

  • حنیف رامے، ایک سچا فن کار

    حنیف رامے، ایک سچا فن کار

    اس کی شخصیت کی کئی جہتیں تھیں۔ وہ سیاست داں، صحافی، ادیب، مقرر، نقاد، دانش ور، خطاط، مصور بھی تھا اور ایک ناشر بھی تھا۔

    پھر یہ بھی کہ اس نے ہر شعبے یا ہر میدان میں نام وری اور مقام حاصل کیا، لیکن ان کام یابیوں اور کام رانیوں کے باوجود اس کی تحمل مزاجی اور میانہ روی میں فرق نہیں آیا۔

    وہ دھیمے مزاج اور لہجے میں بات کرتا تھا اور سوچ سمجھ کر بولتا تھا۔ اقتدار میں بھی رہا، مگر اسے اقتدار کا وہ نشہ نہیں چڑھا جو انسان کو انسان سے دور لے جاتا ہے۔ شہرت اور نام وری کے باوجود اس کا لوگوں سے رشتہ نہیں ٹوٹا۔ اس نے یاریاں بھی نبھائیں اور فرائض بھی پورے کیے۔

    زندگی بھر انسانی رشتوں پر یقین رکھا اور دوستوں کا دوست رہا۔ مجھ سے ساٹھ کی دہائی کے ابتدائی دنوں میں برادرانہ تعلقات قائم ہوئے تھے جو آخر تک قائم و دائم رہے۔ حالاںکہ اس دوران برسوں ملاقات نہیں ہوتی تھی اور بات چیت میں بھی طویل وقفے آجاتے تھے۔ اس کے باوجود کبھی دوری کا احساس نہیں ہوا۔ جب کبھی ملاقات ہوتی یا ٹےلی فون پر بات ہو جاتی یا پھر خط آجاتا تو قربت و نزدیکی کا احساس قائم رہتا۔

    حنیف رامے کے بزرگوں اور بڑے بھائیوں کا کاروبار کتابوں کی نشر و اشاعت تھا، اس لیے تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد وہ بھی اس پیشے سے منسلک ہوگیا۔ نیا ادارہ اور مکتبۂ جدید کے زیرِ اہتمام شایع ہونے والی کتابوں کی تزئین و ترتیب کے ساتھ ساتھ سرورق بنانے کا کام اس کے سپرد ہوا اور اس طرح آرٹ سے بھی رشتہ جڑا رہا۔ پھر جب بھائیوں میں کاروبار کا بٹوارا ہوا اور رشید احمد چوہدری اور بشیر احمد چوہدری نے الگ الگ کتابوں کے اشاعتی سلسلے شروع کیے تو حنیف رامے نے بشیر احمد چوہدری کو ”میری لائبریری“ کے نام سے مکتبہ قائم کروایا اور خود ”البیان“ کے عنوان سے اشاعتی مکتبے کی ابتدا کی۔

    ایک بات حنیف رامے کے ذہن میں ہمیشہ رہی کہ کم قیمت کتابیں چھپنی چاہییں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ خریدیں اور کتابوں کی اشاعت وسیع پیمانے پر ہو۔ حنیف رامے نے صرف کتابیں چھاپی ہی نہیں بلکہ خود بھی لکھیں اور ایک ادیب کی حےثیت سے بھی نام پیدا کیا۔

    اس کی کتابوں میں ”پنجاب کا مقدمہ“ کو بڑی شہرت ملی اور دیگر صوبوں کے بعض ادیبوں نے اس کے جواب میں بھی بہت کچھ لکھا۔ اسی طرح اس کی کتاب ”دُبِ اکبر“ بھی بڑی توجہ کا مرکز رہی اور پھر زندگی کی آخری تصنیف ”اسلام کی روحانی قدریں موت نہیں زندگی“ کو تو علمی و ادبی حلقوں میں بہت زیادہ پزیرائی حاصل ہوئی۔

    حنیف رامے کا پسندیدہ موضوع معاشیات و اقتصادیات تھا اور اسی میں اس نے ایم اے کیا تھا۔ لہٰذا اس موضوع کی ایک کتاب کا ترجمہ بھی کیا تھا جو ”اقتصادی ترقی کا منظر اور پس منظر“ کے نام سے شایع ہوئی اور پھر ”اقبال اور سوشلزم“ مرتب کرکے شایع کی تھی۔ اس نے انگریزی میں ایک ناول بھی تحریر کیا۔ اس طرح دیکھیے تو وہ صرف ادب چھاپتا ہی نہیں رہا بلکہ اس کی تخلیق و تحریر میں بھی باقاعدہ شامل رہا۔

    (معروف ادیب اور صحافی شفیع عقیل کی کتاب سے ایک ورق)

  • جب مشہور مصور کے فن پاروں‌ کے رنگ اڑے

    جب مشہور مصور کے فن پاروں‌ کے رنگ اڑے

    شہرۂ آفاق مصور ونسنٹ وان گو کے فن پاروں اور ان کے ہم عصر آرٹسٹوں کی تخلیقات سے سجا ہوا میوزیم نیدر لینڈز کے مشہور شہر ایمسٹرڈم میں واقع ہے۔

    دنیائے مصوری کے اس عظیم تخلیق کار کی اس فن کے لیے خدمات کا اعتراف کرنے اور اس کے کام کو محفوظ کرنے کی غرض سے یہ میوزیم تعمیر کیا گیا تھا۔

    اس عمارت کا افتتاح 2 جون 1973 کو ہوا۔ یہ عمارت خوب صورت اور منفرد طرزِ تعمیر کا نمونہ ہے۔
    اس میوزیم میں وان گو کی مختلف پینٹنگز اور ڈرائنگ کا سب سے بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ یہاں وان گو کے 800 فن پارے رکھے گئے ہیں۔

    لگ بھگ دہائی قبل اس مصور کی چند تصاویر کا رنگ بدلنا شروع ہوا جس کے بعد ماہرین نے جائزہ لیا اور اس حوالے سے سائنس دانوں کی مدد لی گئی تو سامنے آیا کہ ونسنٹ وان گو کی چند تصاویر میں روشن زرد رنگ کی بھورے رنگ میں تبدیلی کی وجہ ایک پیچیدہ کیمیائی ری ایکشن ہے۔ رپورٹ کے مطابق ان تصاویر کو رنگت میں تبدیلی سے بچانے کے لیے انھیں الٹرا وائلٹ شعاعوں اور سورج کی روشنی سے دور رکھنا ہو گا۔

    اس عظیم مصور کے شاہ کار فن پاروں کے اس کیمیائی ری ایکشن کو سمجھنے کے لیے ماہرین نے طاقت ور ایکس ریز سمیت کئی تجزیاتی آلات استعمال کیے تھے۔ 1853 میں‌ دنیا میں‌ آنکھ کھولنے والے وان گو نے 1890 میں‌
    اپنی زندگی کا سفر تمام کیا۔

  • پاکستانی مصورہ رابعہ ذاکر کا ترک صدر کے لیے خوب صورت تحفہ

    پاکستانی مصورہ رابعہ ذاکر کا ترک صدر کے لیے خوب صورت تحفہ

    اسلام آباد: مصورہ رابعہ ذاکر نے ترک صدر رجب طیب اردوان کے دورہ پاکستان کا خیر مقدم کرتے ہوئے ان کا شان دار پورٹریٹ تیار کر لیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق پاکستانی مصورہ رابعہ ذاکر نے دورے پر آنے والے ترک صدر کا پورٹریٹ تیار کر لیا ہے، جو رجب طیب اردوان کو تحفتاً پیش کیا جائے گا۔

    ترک صدر رجب طیب اردوان کے اس پورٹریٹ کی تیاری میں ایک ہفتہ لگا، رابعہ ذاکر نے ترک صدر کی پینٹ کوٹ میں آفیشل تصویر کو کینوس میں اتارا، پورٹریٹ ترک صدر کو دورہ پاکستان پر عوام کی طرف سے بہ طور تحفہ پیش کیا جائے گا۔

    رابعہ ذاکر ترکی پیس آرٹ کی مڈل ایسٹ کی نائب صدر بھی ہیں، پاکستانی مصورہ نے ترک صدر کے پورٹریٹ کو پاکستانی عوام کی جانب سے تحفہ قرار دے دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ہم ترک قوم کو محبت کا جواب محبت میں دیں گے۔ اپنے ویڈیو پیغام میں انھوں نے کہا کہ میرا تیار کردہ پورٹریٹ ترک صدر کو دورہ پاکستان کی یاد دلائے گا۔

    یاد رہے کہ گزشتہ برس اکتوبر میں برطانوی پرنس ولیم اور کیٹ میڈلٹن جب پاکستان کے دورے پر آئے تھے تو رابعہ ذاکر نے ان کی شادی کا پورٹریٹ تیار کر کے انھیں تحفے میں پیش کیا تھا، پورٹریٹ میں رائل چہروں کے خال و خد واضح کرنے کے لیے مصورہ کو یورپی آرٹسٹ سے مشاورت کرنا پڑی تھی۔

    اس سے قبل مارچ 2019 میں پاکستانی آرٹسٹ رابعہ ذاکر نے شہزادہ محمد بن سلمان کا پورٹریٹ بھی تیار کیا تھا، یہ تحفہ سعودی سفارت خانے میں سفیر نے وصول کیا تھا۔

  • ایک نایاب مرض جو دنیا میں‌ صرف 33 افراد کو لاحق ہے

    ایک نایاب مرض جو دنیا میں‌ صرف 33 افراد کو لاحق ہے

    کچھ حادثے واقعی زندگی بدل کر رکھ دیتے ہیں!

    دنیا میں ہر شخص مختلف مسائل اور مشکلات کا سامنا کرتا ہے۔ زندگی کے نشیب و فراز، مختلف حالات و واقعات اس کی ذہنی اور جسمانی کارکردگی پر بھی اثر ڈالتے ہیں۔ انسان کے مزاج اور رویے میں تبدیلیاں، کسی عادت کا ترک کر دینا یا کوئی نئی عادت اپنا لینا بھی اس کے عام مشاہدات، تجربوں اور بعض اوقات کسی حادثے کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے۔

    2015 میں نارتھ کیرولینا میں ایک کار حادثے میں 38 سالہ اسکاٹ میل شدید زخمی ہوگیا۔ وہ ایک کار شوروم میں ملازمت کرتا تھا۔ حادثے میں سَر پر لگنے والی ضرب کے نتیجے میں‌ اس کے دماغ کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ اسے سرجری سے گزرنا پڑا۔ طویل عرصہ زیرِ علاج رہنے کے بعد جب اسکاٹ میل چلنے پھرنے کے قابل ہوا تو زندگی سے مایوسی اور بیزاری محسوس ہوئی۔ طبی ماہرین کے مطابق وہ شدید ڈپریشن کا شکار تھا، مگر ایک روز اس نے عجیب فیصلہ کیا۔ اسکاٹ میل اپنے بچوں کے ساتھ بازار گیا اور مختلف رنگ اور مصوری کے لیے برش خرید کر گھر لوٹا۔ اسکاٹ میل نے تصویریں بنانا شروع کر دیں۔

    اسکاٹ میل کا کہنا ہے کہ اس سے قبل کبھی اسے مصوری میں کشش محسوس نہیں ہوئی اور اس نے کبھی رنگوں اور برش کو ہاتھ نہیں لگایا تھا، مگر اس حادثے نے اس کی زندگی بدل کر رکھ دی ہے۔ حیران کُن اور تعجب خیز بات یہ ہے کہ وہ بہت عمدہ منظر کشی کر رہا ہے۔

    اسکاٹ میل کی زندگی اور درد ناک حادثے کے بارے میں تو آپ جان چکے ہیں۔ اب ان ڈاکٹروں اور نفسیاتی امراض کے ماہرین کی طرف چلتے ہیں جنھوں نے بتایا ہے کہ آخر اسکاٹ میل کے ساتھ ہوا کیا ہے۔

    ماہرین کے مطابق اسکاٹ میل سیونٹ سنڈروم کا شکار ہے۔ کسی حادثے کے نتیجے میں دماغ پر لگنے والی چوٹ کا علاج کروانے اور رفتہ رفتہ زندگی کی طرف لوٹنے والے مریض ایسی کیفیت اور حالت کا اظہار کرسکتے ہیں جیسا کہ اسکاٹ کر رہا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق یہ ایک نایاب بیماری ہے، یا اسے عجیب و غریب پیچیدگی کہا جاسکتا ہے جس کے شکار افراد کی تعداد دنیا بھر میں صرف 33 ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق سیونٹ سنڈروم کے شکار افراد اچانک ہی کسی صلاحیت کا اظہار کرنے لگتے ہیں جس کا حادثے سے پہلے گمان تک نہیں ہوتا۔ وہ کچھ نیا سیکھنے یا کرنے کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ یہ کوئی نئی زبان ہو سکتی ہے، یا کوئی ہنر بھی اور اکثر مصوری یا کوئی دوسرا تخلیقی کام شروع کر دیتے ہیں۔

  • سعودی خاتون آرٹسٹ نے مناسک حج کو مصوری میں ڈھال دیا

    سعودی خاتون آرٹسٹ نے مناسک حج کو مصوری میں ڈھال دیا

    ریاض : سعودی خاتون آرٹسٹ نے وال پینٹنگز کے ذریعے طواف ، وقوف عرفات اور رمی جمرات کو جدت طرازی کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کیا۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی خاتون آرٹسٹ عواطف عبدالعزیز المالکی نے مناسک حج کو خوب صورت انداز سے اپنی وال پینٹنگز میں سمویا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے طواف ، وقوف عرفات اور رمی جمرات کو جدت طرازی کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کیا۔

    عرب ٹی وی سے بات چیت کرتے ہوئے عواطف نے بتایا کہ میں نے یہ پسند کیا کہ نماز اور طواف کی عبادت، حرمین شریفین، روضہ مبارک اور مقامات مقدسہ کو اس طرح فن پاروں میں مجسم کیا جائے کہ وہ ہر جگہ ہمارے سامنے رہیں، کسی بھی مسلمان کے لیے یہ خوب صورت ترین منظر ہے۔

    خاتون کا کہنا تھا کہ میں نے اپنی پینٹنگز کے ذریعے وقوف عرفات، رمی جمرات اوور دیگر مناسک حج کو نمایاں کیا ہے،سعودی آرٹسٹ نے واضح کیا کہ وہ مختلف پیمائش کی وال پینٹگز تیار کرتی ہیں جو 14 میٹر تک پہنچ جاتی ہیں۔

    عواطف کا کہنا تھاکہ انہوں نے پینٹنگ بنانے کا آغاز 25 برس پہلے کیا جب وہ پرائمری اسکول میں زیر تعلیم تھیں بعد ازاں یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہو کر ٹیچر بننے کے بعد پینٹنگ کے شوق کی تصویر پایہ تکمیل تک پہنچی۔

    باصلاحیت سعودی آرٹسٹ کے مطابق انہوں نے آرٹ کے حوالے سے مختلف نوعیت کے کام انجام دیے۔ ان میں آرٹ اسکولز میں سرگرمیاں اور کرداروں اور گھوڑوں کی تصاویر شامل ہیں۔

    عرب خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ عواطف کا کام اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ انہوں نے گذشتہ برس فن پاروں کی نمائش میں بڑے شعراءکے قصیدوں کو پینٹنگ میں ڈھال کر پیش کیا۔

    انہوں نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی بہت سی پینٹنگز بنائیں۔ عواطف نے مملکت میں اور اس کے بیرون بہت سے ایونٹس میں شرکت کی۔

  • خوبصورت مصوری نے کانچ کی بوتل کو فن پارے میں بدل دیا

    خوبصورت مصوری نے کانچ کی بوتل کو فن پارے میں بدل دیا

    دنیا بھر میں مختلف اشیا پر مصوری کا ہنر دکھایا جاتا ہے، یہ اشیا بظاہر دیکھنے میں تو بہت معمولی سی ہوتی ہیں تاہم مصور اپنی مصوری کا جادو دکھا کر ان اشیا کو فن پاروں میں بدل دیتے ہیں۔

    بعض مصور اپنے فن کے اظہار کے لیے ایسا انداز اپناتے ہیں جنہیں دیکھ کر عام انسان دنگ رہ جاتے ہیں۔ مصور کی خداد صلاحیت، یکسوئی، محنت اور ہاتھ کی صفائی شاہکار فن پارے تخلیق دے دیتی ہے۔

    آج ہم آپ کو ایسے ہی کچھ انوکھے فن پارے دکھانے جارہے ہیں۔ یہ دراصل کانچ کی بوتلیں ہیں جن کے اندر مختلف مناظر تخلیق کیے گئے ہیں۔

    ان بوتلوں کے اندر الٹے رخ پر اس طرح پینٹ کرنا کہ وہ باہر سے بالکل سیدھی اور درست معلوم ہوں، نہایت باریک بینی اور مہارت کا کام ہے جو ہر شخص کے بس کی بات نہیں۔

    اس طرح کی پینٹنگ دنیا بھر میں نہایت مقبول ہو رہی ہے اور بعض مقامات پر اسے فروخت بھی کیا جاتا ہے جسے لوگ نہایت شوق سے خریدتے ہیں۔

    آئیں آپ بھی اس مصوری کا حیرت انگیز نظارہ دیکھیں۔

  • ڈرونز بھی مصور بن گئے

    ڈرونز بھی مصور بن گئے

    اٹلی کے شہر روم میں 4 ڈرونز نے دیوار پر گریفٹی بنا ڈالی۔ دیوار پر پینٹنگ کا یہ مظاہرہ ایک پروجیکٹ کے تحت کیا گیا۔

    روم کی شہری انتظامیہ نے ’اربن فلائنگ اوپرا‘ نامی ایک پروجیکٹ کا اعلان کیا جس کے تحت شہریوں سے متاثر کن منصوبوں کے بارے میں پوچھا گیا، ایک ہزار افراد کے بھیجے گئے پروجیکٹ آئیڈیاز میں سے 100 کو قبول کیا گیا۔

    انہی میں سے ایک ڈرون کے ذریعے گریفٹی بنانے کا منصوبہ بھی تھا جسے روم کی پولی ٹیکنک یونیورسٹی آف ٹیورن اور ٹیورن یونیورسٹی نے مشترکہ طور پر عملی جامہ پہنایا۔

    دیوار پر پینٹنگ کے لیے ماہرین نے 4 ڈرونز کو کنٹرول کیا جو دیوار کو خوبصورت شاہکار میں تبدیل کرتے گئے۔ 3 مختلف مرحلوں میں دیوار پر شہر کی زندگی کی جھلک دکھائی گئی۔

    ماہرین کے مطابق اس کامیاب عملی مظاہرے کے بعد یہ کہنا مشکل نہیں کہ مستقبل میں ڈرونز رنگ و روغن اور پینٹنگ کا کام بھی کرسکیں گے۔