Tag: مصوری

  • جاپانی فنکار کا دنگ کردینے والا فن

    جاپانی فنکار کا دنگ کردینے والا فن

    ننھا منا یا منی ایچر آرٹ تخلیق کرنا ایک دقت طلب کام ہے۔ مختلف ننھی منی چیزوں پر کام کرنا اور انہیں اپنی مرضی کے مناظر میں تبدیل کرنا نہایت محنت اور توجہ کا متقاضی ہے۔

    جاپانی آرٹسٹ تتسویا تناکا بھی گزشتہ کئی سالوں سے منی ایچر آرٹ تخلیق کر رہا ہے۔ وہ مختلف اشیا کو اپنی مرضی سے مختلف ننھے منے مناظر میں تبدیل کردیتا ہے۔

    اس کے فن کو دیکھ کر خدائے سخن میر تقی میر کا یہ مصرعہ بے اختیار زبان پر آجاتا ہے،

    لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام!

    آپ بھی یہ حیرت انگیز فن دیکھیں۔

    . 7.19 sun "Search” . 「ちょっとまってね今調べるから」 . . #Google先生 #本棚

    A photo posted by 田中達也 Tatsuya Tanaka (@tanaka_tatsuya) on

    . 7.24 fri "Lazy-river” . 「安心してください、はいてますよ。」 . . #サンダル #とにかく明るい安村

    A photo posted by 田中達也 Tatsuya Tanaka (@tanaka_tatsuya) on

    . 1.18 wed “Beef Beach” . ビーフビーチ . #牛肉 #浜辺 #食品サンプル #Beef #Beach #BBQ .

    A photo posted by 田中達也 Tatsuya Tanaka (@tanaka_tatsuya) on

    . 12.21 wed “Zoo” . 見ざる、言わざる、水切りざる . #ざる #動物園 #猿 #Strainer #Zoo #monkey #申年もあとわずか .

    A photo posted by 田中達也 Tatsuya Tanaka (@tanaka_tatsuya) on

  • چین کے نیشنل میوزیم میں پہلا پاکستانی فن پارہ

    چین کے نیشنل میوزیم میں پہلا پاکستانی فن پارہ

    کراچی: معروف پاکستانی مصور جمی انجینیئر کا شاہکار فن پارہ بیجنگ کے نیشنل آرٹ میوزیم کو عطیہ کیا گیا ہے۔

    میوزیم کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پہلی بار میوزیم میں کسی پاکستانی فنکار کے فن پارے کو جگہ دی گئی ہے۔ یہ فن پارہ پاک چین دوستی اور تعلقات کو اور بھی مضبوط کرے گا۔

    art-2

    میوزیم میں رکھے جانے والے جمی کے فن پارے کا عنوان ’انٹرنیشنل آرکی ٹیکچرلر کمپوزیشن‘ ہے۔

    بیجنگ میں پاکستانی سفارت خانہ بہت جلد ایک نمائش کا ارادہ بھی رکھتا ہے جس میں جمی انجینئر کا فن پارہ بھی رکھا جائے گا۔

    واضح رہے کہ جمی انجینئر ایک معروف مصور اور سماجی کارکن ہیں جو اپنے فن پاروں میں مختلف معاشرتی مسائل کو اجاگر کرتے ہیں۔

    art-9

    ان کا زیادہ تر کام پاکستانی ثقافتی اور تاریخی ورثے کو پیش کرتا ہے۔

    art-4

    art-3

    وہ نہ صرف اپنے فن بلکہ اپنی سماجی سرگرمیوں کے اعتراف میں بے شمار اعزازات اور ایوارڈز حاصل کر چکے ہیں جن میں امریکا کا نیشنل انڈومنٹ آف دا آرٹس ایوارڈ 1988، روٹری کلب آف پاکستان کی جانب سے گولڈ میڈل اور ہیومن رائٹس سوسائٹی آف پاکستان کی جانب سے ہیومن رائٹس میڈل شامل ہے۔

    سنہ 2005 میں انہیں ستارہ امتیاز سے بھی نوازا گیا جبکہ انہیں چائنا ورلڈ پیس فاؤنڈیشن کی جانب سے 2016 میں پیس ایمبسڈرز کا میڈل عطا کیا گیا۔

  • مرتی ہوئی مونگے کی چٹانوں کو بچانے کی کوشش

    مرتی ہوئی مونگے کی چٹانوں کو بچانے کی کوشش

    دنیا میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو زمین کے سبزے اور اس کی خوبصورتی کو بچانے کے لیے دیوانہ وار کام کر رہے ہیں۔ یہ لوگ پوری دنیا کو، زمین کو لاحق ان مسائل کی طرف متوجہ کرنے کا انوکھا طریقہ ڈھونڈتے ہیں، اور اپنی اس کوشش میں کامیاب بھی رہتے ہیں۔

    ایسا ہی ایک دیوانہ معروف اطالوی پیانو نواز لڈووکو اناڈی تھا جس نے قطب شمالی کے سمندر میں برفانی گلیشیئرز کے سامنے بیٹھ کر پیانو کی پرفارمنس پیش کی۔

    اس پرفارمنس کا مقصد دنیا کو متوجہ کرنا تھا کہ برفانی علاقوں کی برف تیزی سے پگھل کر دنیا کو کن خطرات سے دو چار کرنے والی ہے۔

    لارا جونز بھی ایسی ہی ایک مصورہ ہیں جو اپنے فن پاروں کے ذریعہ دنیا کو مونگے کی بے رنگ ہوتی چٹانوں کی طرف متوجہ کرنا چاہ رہی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر کے سمندروں میں موجود رنگ برنگی مونگے یا مرجان کی چٹانیں اپنی رنگت کھو رہی ہیں جسے بلیچنگ کا عمل کہا جاتا ہے۔

    7

    اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی سب سے بڑی رنگ برنگی چٹانوں کا سلسلہ جو گریٹ بیریئر ریف یا عظیم حائل شعب کہلاتا ہے آسٹریلیا کے سمندر میں موجود ہے۔ یہاں موجود ایک تہائی سے زیادہ چٹانیں اپنی رنگت کھو چکی ہیں یا کھو رہی ہیں۔

    یہ دنیا کا واحد سب سے بڑا سمندری ڈھانچہ ہے جو زندہ اجسام نے بنایا ہے اور ان رنگ برنگی چٹانوں کو اربوں ننھے اجسام نے ترتیب دیا ہے جو کورل یعنی مونگے یا مرجان کہلاتے ہیں۔

    سنہ 1981 میں گریٹ بیرئیر ریف کو عالمی ورثہ قرار دیا گیا تھا۔

    6

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان چٹانوں کی رنگت اڑنے کی وجہ سمندروں کی آلودگی اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ ہے۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے سمندروں کا پانی بھی گرم ہورہا ہے جس کے باعث یہ چٹانیں بے رنگ ہورہی ہیں۔

    لارا جونز انہی مرتی ہوئی خوبصورت چٹانوں کو اپنے فن پاروں میں پیش کر رہی ہیں۔

    ان کے فن پارے دیکھ کر آپ کو یوں لگے گا جیسے آپ خود سمندر میں موجود ہیں اور اپنی آنکھوں سے ان چٹانوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔

    2

    4

    3

    5


     

  • سیاہ رنگ سے شوخ رنگوں کی تخلیق

    سیاہ رنگ سے شوخ رنگوں کی تخلیق

    آپ کے خیال میں ایک شوخ رنگوں کا منظر کینوس پر پینٹ کرنے کے لیے کیا چیز ضروری ہے؟

    آپ کا جواب ہوگا کہ قدرتی مناظر کے لیے اس منظر کا سامنے موجود ہونا اہم ہے، یا رنگوں میں ملبوس کسی شخص کی تصویر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ وہ شخص خود بھی انہی رنگوں میں ملبوس ہو۔

    مصوری پر مضامین پڑھیں:

    رنگوں سے نئے جہان تشکیل دینے والی مصورات کے فن پارے

    حسن ۔ کاملیت اور توازن یا بصیرت کے اظہار کا نام؟

    جذبات کو رنگوں کی زبان دینے والا مصور

    لیکن ایک مصور اس خیال سے متفق نہیں ہوگا۔ ہر تخلیق کار چاہے وہ شاعر ہو، ادیب، مصور یا کچھ اور، عدم موجود عناصر کو اپنی ذہنی پرواز کی بدولت موجود کردیتا ہے۔

    ایک مصور کسی سیاہ و سفید یا بے رنگ شے کو دیکھتے ہوئے جب اسے اپنے کینوس پر منتقل کرے گا تو ہوسکتا ہے وہ نہایت ہی شوخ رنگوں سے کوئی شے ہو۔

    اس کی بہترین مثال فرانسیسی مصور ہنری میٹیز کا یہ شاہکار فن پارہ ہے۔

    black-2

    کہا جاتا ہے کہ جب اس نے یہ تصویر بنائی تو تصویر میں موجود خاتون سیاہ رنگ میں ملبوس تھیں۔

    ہنری میٹیز انیسویں صدی کا ایک مصور تھا۔ وہ مصوری کے ساتھ ساتھ نقشہ نویسی اور مجسمہ سازی بھی کیا کرتا تھا لیکن اسے شہرت دوام اس کی مصوری نے بخشی۔

    black-4

    black-6

    میٹیز، تجریدی آرٹ کو عروج پر پہنچانے والے پابلو پکاسو کے عہد کا مصور تھا۔ ان دونوں مصوروں نے پلاسٹک آرٹ کو ایک نئی جہت دی جس سے آرٹ کی اس قسم کو بے حد عروج ملا۔

    ان دونوں نے مصوری کی ایک قسم فاوازم کا آغاز کیا تھا جس میں انہوں نے گہرے رنگوں سے اپنے فن کا اظہار کرنے کا آغاز کیا۔

    black-5

    black-3

    زیر نظر تصویر بعض مؤرخین کے مطابق اس کی اہلیہ کی ہے۔ کسی نے اس سے پوچھا کہ جب اس نے اپنی اہلیہ کی یہ تصویر بنائی اس وقت اس نے کون سا رنگ زیب تن کیا ہوا تھا، تو میٹیز کا جواب تھا، ’ظاہر ہے سیاہ‘۔

    سیاہ رنگوں سے شوخ رنگ تخلیق کرنے کا اس سے شاندار مظاہرہ کیا آپ نے پہلے کبھی دیکھا ہوگا؟

  • لوگوں کے خود ساختہ اصول کس کے لیے؟

    لوگوں کے خود ساختہ اصول کس کے لیے؟

    لاہور: خواتین کے لیے گھر سے باہر نکلنا ان گھروں میں اب بھی ایک معیوب بات سمجھی جاتی ہے جو خود کو جدید دور سے ہم آہنگ نہیں کر پائے۔ وہاں خواتین کے لیے خود ساختہ قسم کے اصول تشکیل دیے گئے ہیں جو ان کو باہر نکلتے ہوئے اپنانے ضروری ہیں۔

    اسی کشمکش کا اظہار لاہور سے تعلق رکھنے والی ایک آرٹسٹ شہزل ملک اپنی پینٹنگز میں کرتی ہیں۔

    وہ بتاتی ہیں، ’بعض لوگوں نے خواتین کے لباس اور حلیے کے لیے اپنے ہی اصول طے کر رکھے ہیں اور وہ چاہتے ہیں ہر عورت ان کے بنائے گئے اصولوں کی پاسداری کرے‘۔

    وہ کہتی ہیں، ’ایسے لوگوں کو خواتین کے حلیے سے بہت پریشانی ہوتی ہے۔ وہ اس حلیے اور کپڑوں پر، جو ان کے ’معیار‘ پر پورا نہ اتریں، آوازیں کستے ہیں۔ ایسے لوگوں کو خواتین کے ہنسنے، باتیں کرنے پر بھی اعتراض ہوتا ہے اور وہ انہیں گھور کر دیکھتے ہیں‘۔

    شہزل کے مطابق اکثر خواتین کا واسطہ اس قسم کے لوگوں سے پڑتا ہے جن میں وہ خود بھی شامل ہیں۔

    اس صورتحال نے شہزل کو مہمیز کیا کہ وہ اس سب کو آرٹ کی صورت پیش کریں۔

    انہوں نے پہلے تو ایسی پینٹنگز بنائیں جن میں انہوں نے طنزیہ طور پر خواتین کی اس شخصیت کو پیش کیا جو خود ساختہ طور پر معاشرے میں آئیڈیل سمجھی جاتی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے باغیانہ خیالات سے معاشرے کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ عورت کو گھر میں رکھی ہوئی کوئی شے سمجھنے کے بجائے انسان سمجھا جائے۔

    lahore-2

    اس تصویر میں وہ ان ’اصولوں‘ پر روشنی ڈالتی ہیں جن پر باہر نکلنے سے پہلے ایک عورت کو عمل کرنا ضروری ہے۔

    یہاں وہ اس خوف سے آگاہی دیتی نظر آتی ہیں جو خواتین کو باہر نکلنے سے پہلے لاحق ہوجاتا ہے۔

    وادی ہنزہ میں اپنے سفر کے دوران وہ کہتی ہیں کہ ہنزہ کی خواتین کو جو تحفظ اور خود مختاری حاصل ہے وہ پورے پاکستان میں کہیں بھی نہیں۔

    Spending a month in the unreal Hunza Valley changed what I drew- my imagery became much more about nature and sunsets, beauty and abundance. And no wonder- I later realised that village life in Hunza gave me the opportunity to see a kind of equality between genders I hadn’t experienced before in Pakistan. The Hunzai women have to be seen to be believed! They are an integral part of the areas’s community service, they work as masons and woodworkers, they farm the land and care for the livestock, they cook and run restaurants, raise wonderfully courteous children and keep the crafts of the area alive. These women are magic. (The men, for their part, largely realise who runs their world: Girls) #pakistan #illustration #feminism #feministart

    A photo posted by shehzil malik (@shehzilm) on

    شہزل ملک اپنے آرٹ کے ذریعے تاریخ کے در بھی وا کرتی نظر آتی ہیں۔

    اس تصویر میں وہ بتاتی ہیں کہ لاہور آج سے کئی عشروں قبل کے مغل بادشاہوں اور شہزادوں کی تاریخ اور ان کے اقتدار کا گواہ ہے۔ اگر اس تاریخ اور موجودہ دور کے منظر کو یکجا کردیا جائے تو کچھ ایسا منظر نظر آئے گا۔

    ایک اور تصویر میں وہ مغل بادشاہوں کو جدید دور کے آلات موسیقی سے لیس دکھاتی ہیں۔

    lahore-1

    شہزل ملک نے لاہور کی دیواروں پر بھی اپنے آرٹ کو پیش کیا ہے جس میں وہ شدت پسندی کے خلاف ایک مضبوط آواز کے طور پر نظر آتی ہیں۔

    lahore-4

  • امریکی مصور نے قوس قزح بنا ڈالی

    امریکی مصور نے قوس قزح بنا ڈالی

    آپ نے قوس قزح تو کئی بار دیکھی ہوگی۔ بارش کے بعد نکلنے والی قوس قزح یا دھنک جو سات رنگوں پر مشتمل ہوتی ہے بے حد خوبصورت لگتی ہے۔

    لیکن امریکا میں انسانی ہاتھوں سے قوس قزح بنا لی گئی اور دیکھنے والے دنگ رہ گئے۔

    یہ کارنامہ دراصل میکسیکو سے تعلق رکھنے والے ایک آرٹسٹ کا ہے۔ امریکی ریاست اوہائیو کے ٹولیڈو میوزیم آف آرٹ میں اس مصنوعی قوس قزح کو رکھا گیا ہے جہاں یہ آنے والے افراد کے لیے گہری دلچسپی کا باعث بنی ہوئی ہے۔

    rainbow-2

    rainbow-1

    مصور نے یہ کام مہین دھاگوں سے انجام دیا ہے۔ نہایت باریک ست رنگی دھاگوں کو زمین سے چھت تک ترتیب دیا گیا ہے اور پہلی بار دیکھنے پر ایسا لگتا ہے جیسے کھڑکی سے چھنتی ہوئی قوس قزح میوزیم کے اندر آگئی ہو۔

    rainbow-3

    rainbow-5

    rainbow-4

    گبرئیل ڈاوئی نامی یہ مصور اس سے قبل اس قسم کے کئی شاہکار تخلیق کرچکا ہے اور اس کی حالیہ تخلیق جو مصنوعی قوس قزح کہلائی جارہی ہے، کو آرٹ کے دیوانوں اور عام افراد کی جانب سے بے حد پذیرائی مل رہی ہے۔

  • جذبات کی ترجمانی کرتی سیاہی

    جذبات کی ترجمانی کرتی سیاہی

    سیاہی یا اندھیرا روشنی کی نوید سناتی ہے۔ ہر اندھیری رات اس بات کا یقین دلاتی ہے کہ سحر ضرور ہوگی اور اجالا ضرور پھیلے گا۔

    اندھیرے اور اجالے یا سیاہ اور سفید کے امتزاج میں بھی ایک منفرد حسن ہے جو اہل نظر کو ہی دکھائی دے سکتا ہے۔

    کچھ اسی خیال کو پیش کرتی کراچی کی ان دو نوجوان فوٹوگرافرز سے ملیے جو سیاہ تصاویر کھینچ کر ان میں سفیدی کی آمیزش کر کے ان تصاویر کو آرٹ کا شاہکار بنا دیتی ہیں۔

    صلہ سہگل اور نور خان کچھ عرصہ قبل کراچی میں اپنی تصاویر کی نمائش بھی کرچکی ہیں جہاں حاضرین نے ان کے فن اور اس کی وسعت کو بے حد سراہا۔

    3

    صلہ سہگل اپنے بارے میں بتاتی ہیں کہ انہیں فوٹو گرافی کا جنون ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ فوٹو گرافی ایک ایسا ہنر ہے جس میں آپ بالکل سادہ سی شے کو اس زاویے سے پیش کر سکتے ہیں کہ وہ کوئی ماورائی شے معلوم ہونے لگتی ہے۔

    8

    7

    انہیں سیاہ اور سفید یعنی بلیک اینڈ وائٹ تصاویر کھینچنا پسند ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ دو رنگ اپنے اندر بے پناہ وسعت معنی رکھتے ہیں اور ان ہی دو رنگوں کے ذریعہ جذبات کو بہترین انداز میں پیش کیا جاسکتا ہے۔

    9

    6

    وہ کہتی ہیں جس طرح ایک تصویر ہزار الفاظ سے بہتر ہوتی ہے، تو یہ تصویر کسی کو بھی نئے زاویوں سے سوچنے پر مجبور کرسکتی ہے۔

    دوسری فوٹو گرافر نور خان معروف فرانسیسی فوٹو گرافر مارک ربود کا جملہ سناتی ہیں، ’تصویر کھینچنا زندگی کے ایک ایک سیکنڈ کے سوویں حصہ کا بھی لطف دوبالا کردیتا ہے‘۔

    1

    4

    2

    نور کہتی ہیں کہ سیاہ اور سفید رنگ میں جو معنویت اور گہرائی نظر آتی ہے جو کسی اور رنگ میں نہیں ملتی۔

    سولہ سالہ صلہ سہگل اور 15 سالہ نور خان اپنے جنون کو کامیابی کے آسمان تک پہنچانے کے لیے پرعزم ہیں اور انہیں یقین ہے کہ وہ اسی سیاہی اور سفیدی سے زندگی کے رنگوں کو بہترین انداز میں پیش کرنے میں کامیاب ہوجائیں گی۔

  • ڈھلتے سورج، درختوں اور بارش کے شوخ رنگ

    ڈھلتے سورج، درختوں اور بارش کے شوخ رنگ

    آپ نے ایسے بے شمار فن پارے دیکھے ہوں گے جو قدرتی مناظر کو اجاگر کرتے ہیں۔ سنہرے، نارنجی، زرد اور کبھی کبھار گلابی رنگوں بھرے یہ فن پارے نہایت خوبصورت معلوم ہوتے ہیں۔

    اگر آپ نے فطرت پر غور کیا ہوگا تو آپ کو معلوم ہوگا کہ صبح، شام، رات، ہر پہر کا الگ رنگ ہے جسے صرف انسانی آنکھ ہی دیکھ سکتی ہے۔

    لیکن بہرحال یہ رنگ مخصوص ہی ہوتے ہیں۔ جیسے رات کو سیاہ، سفید اور سرمئی رنگ میں پیش کیا جاتا ہے۔ ڈھلتے یا ابھرتے سورج کے مناظر زرد، نارنجی اور سنہری رنگوں سے رنگے جاتے ہیں۔

    حسن ۔ کاملیت اور توازن یا بصیرت کے اظہار کا نام؟ *

    چند لمحوں میں فطرت کے حسین رنگوں کا سفر *

    اسی طرح درختوں کے پتے بھی سبز، زرد یا نارنجی ہوسکتے ہیں۔

    لیکن کیا ہوگا اگر شام کے سنہرے، زرد رنگوں میں گہرے اور شوخ رنگ شامل کردیے جائیں؟ یا رات کی سیاہی میں عمارتیں زرد کے بجائے جامنی سبز اور سرخ رنگ دکھانے لگیں؟

    یقیناً یہ ایک نہایت منفرد اور خوش کن نظارہ ہوگا جسے دیکھ کر آپ دل تھام کر رہ جائیں گے۔ تو لیجیئے پھر، ہم نے آپ کے لیے ایسی ہی کچھ منفرد تصاویر کو جمع کیا ہے۔

    1

    اٹلی کے تاریخی اور ترچھے پیسا ٹاور کو بارش میں خوبصورت رنگوں میں ملفوف دکھایا گیا ہے۔

    2

    پانیوں کے شہر وینس میں نامعلوم سمت سے آتے جامنی رنگ۔

    3

    ایک جنگل میں موجود جھونپڑی اور آسمان پر جامنی اور نیلے بادل۔

    4

    سورج ڈھلتے ہوئے آسمان کے گلابی رنگ۔

    5

    فن پارے میں موجود سورج، سمندر، چٹانیں اور آسمان، ہر شے الگ رنگ پیش کر رہی ہے۔

    6

    8

    یہ دو تصاویر دو مختلف شہروں میں واقع پلوں کی ہیں لیکن بظاہر یہ ایک جیسی لگتی ہیں۔ البتہ دونوں تصاویر میں موجود درختوں، پتوں اور پانی کے رنگ بالکل مختلف ہیں جو نہایت خوش کن معلوم ہورہے ہیں۔

    7

    اس قدر رنگین درخت اور پتے حقیقی دنیا میں تو موجود نہیں۔

  • حسن ۔ کاملیت اور توازن یا بصیرت کے اظہار کا نام؟

    حسن ۔ کاملیت اور توازن یا بصیرت کے اظہار کا نام؟

    حسن یا خوبصورتی کی تعریف ہر شخص کی نظر میں مختلف ہوتی ہے۔ آپ خوبصورتی کی کیا تعریف کریں گے؟ 

    بعض افراد کے مطابق خوبصورتی کاملیت کا نام ہے۔ کسی چیز کی زیادتی یا کمی اسے بدصورت بنادیتی ہے۔ ان کی نظر میں مکمل شے خوبصورت کہلاتی ہے۔

    بعض افراد اسے ذہن پر ایک خوشگوار تاثر چھوڑنے والی شے کہتے ہیں۔ بعض فلسفیوں کا کہنا ہے کہ انسانی بصیرت اور عقل و شعور کے اظہار کا نام حسن ہے۔ بعض کے مطابق خوبصورتی وہ بھی کہلائے گی جو کسی کو بدصورتی کو چھپا دے۔

    جس طرح ہر شخص کی نظر میں خوبصورتی کا معیار اور پیمانہ مختلف ہے، اسی طرح ہر مصور بھی خوبصورتی کی الگ الفاظ میں تشریح کرتا ہے۔ مصور کے خیالات اس کے برش اور کینوس سے تخلیق کی جانے والی تصویر سے جھلکتے ہیں۔ ایک فن پارہ اپنے تخلیق کار کی فکر کا بہترین عکاس ہوتا ہے۔

    ایسے ہی ایک مصور عمران زیب بھی ہیں جن کے فن پارے نہ صرف فطرت کی خوبصورتی کو بہترین انداز میں پیش کرتے ہیں، بلکہ اپنے بنانے والے کے خیالات کی خوبصورتی کا بھی اظہار ہیں۔

    عمران زیب خوبصورتی کی تکمیل کے لیے ایک اور پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہیں، اور وہ ہے محبت۔ ان کے مطابق جس شے کو محبت، اور لطف کی نظر سے دیکھا جائے وہ خوبصورت معلوم ہوتی ہے۔

    ان کا ماننا یہ بھی ہے کہ خوبصورتی توازن کا دوسرا نام ہے۔ ہر وہ شے جو توازن میں ہوگی خوبصورتی کہلائے گی۔

    پاکستان اور بیرون ملک اپنے فن پاروں کی پذیرائی حاصل کرنے والے عمران زیب اس وقت پاکستانی مصوری کا ایک اہم نام ہیں۔ انہیں اب تک سندھ ثقافتی ایوارڈ اور صادقین ایوارڈ سمیت کئی ایوارڈز مل چکے ہیں جبکہ پاکستان اور پاکستان سے باہر ان کے فن پاروں کی متعدد نمائشیں منعقد ہوچکی ہیں۔

    اپنے بارے میں بتاتے ہوئے عمران زیب کا کہنا تھا کہ ان کے نانا کو مصوری اور دادا کو شاعری سے شغف تھا، لہٰذا گھر کا ماحول فن و ادب کی پرورش کے لیے نہایت موزوں تھا۔ ان کے بڑے بھائی انعام راجا بھی مصور تھے اور عمران نے مصوری کی باریکیاں و پیچدگیاں انہی سے سیکھیں۔

    عمران نے بچپن میں روایتی رسمی تعلیم حاصل کی۔ بچپن سے ان کا رجحان آرٹ کی طرف تھا جس کا اظہار وہ مکی ماؤس اور ڈونلڈ ڈک وغیرہ کے کارٹون بنا کر کیا کرتے۔

    انہوں نے مصوری کی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی۔ بقول ان کے، وہ کراچی کے ایک آرٹ اسکول میں داخلہ لینے کی غرض سے گئے تو پرنسپل صاحبہ ان کی مصوری کی صلاحیت دیکھ کر متاثر تو بہت ہوئیں، مگر انہوں نے نہایت ہی بچگانہ سوالات شروع کردیے۔ ’حتیٰ کہ انہوں نے پوچھا کہ میں تصویر دن کی روشنی میں بناتا ہوں یا رات میں۔ میں ان کے یہ سوالات سن کر الٹے قدموں پلٹ آیا اور دوبارہ وہاں کا رخ نہیں کیا‘۔

    عمران کے فن پاروں میں خوبصورتی کا بڑا دخل ہے۔ بقول ان کے، ان کے آس پاس موجود حسن نے انہیں مصوری پر مہمیز کیا۔ اب چاہے وہ حسن صنف نازک کا ہو، قدرت کا یا کسی خوبصورت جذبے کا۔

    بقول ان کے انہیں مصوری کی تحریک اس خوبصورتی نے ہی دی تاہم وہ اسے ’تحریک‘ ماننے کی نفی کرتے ہیں۔ ’مصوری جنون ہے جو حسن جمالیات اور حسن لطافت سے پروان چڑھتا ہے‘۔

    وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ کے مصداق صنف نازک کے بغیر خوبصورتی کی تعریف ادھوری ہے اور عمران کے فن پارے بھی بارہا یہ باور کرواتے ہیں۔

    یہاں بھی وہ توازن کو حسن کا لازمی جز خیال کرتے ہیں اور بار بار اس کا اظہار کرتے ہیں۔

    صادقین ایوارڈ حاصل کرنے والے عمران زیب صادقین کے بھی بہت بڑے مداح ہیں۔ وہ ان کے فن سے بے حد متاثر ہیں۔

    عمران نے ڈیجیٹل آرٹ میں بھی طبع آزمائی کی اور اس کے ذریعہ ملالہ یوسفزئی، عبدالستار ایدھی اور فیض احمد فیض کا پورٹریٹ بھی تخلیق کیا ہے۔

    بعض مصور اس فن میں اب بھی روایتی طریقوں کے حامی ہیں اور اس شعبہ میں آنے والی جدید ٹیکنالوجی سے نالاں نظر آتے ہیں، تاہم عمران اس ٹیکنالوجی کو اپنے فن کو نکھارنے کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ ’گرافکس، اینی میشن یا ڈیجیٹل پینٹنگ، یہ وہ ذرائع ہیں جس کے باعث مصور کی محنت اور کمپیوٹر کی مہارت یکساں ہوکر آرٹ کا ایک شاہکار تخلیق کر ڈالتی ہے‘۔

    وہ اسے شارٹ کٹ تو نہیں مانتے، لیکن کسی مصور کی کامیابی کے لیے محنت اور مشق کو ہی اصل جز قرار دیتے ہیں۔


    مصور کے بارے میں

    عمران زیب کراچی سے تعلق رکھنے والے مصور ہیں۔ انہوں نے مصوری کی باقاعدہ تعلیم تو حاصل نہیں کی تاہم انہیں مصوری کی خداداد صلاحیت حاصل ہے۔

    ان کے بھائی انعام راجا بھی مصور ہیں۔ ان کی مصوری پر مبنی کتابیں پڑھ پڑھ کر اپنی صلاحیت کو مہمیز کرنے والے عمران زیب کو اب تک سندھ ثقافتی ایوارڈ اور صادقین ایوارڈ سمیت کئی ایوارڈ مل چکے ہیں۔ ان کے فن پاروں کی نمائش نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی کی جاچکی ہے۔

    انہیں انجینئر بننے کا شوق تھا، لیکن کوٹہ سسٹم کی وجہ سے انہیں انجینئرنگ میں داخلہ نہ مل سکا، جس کے بعد انہوں نے اپنے شوق کو آگےبڑھانے کا سوچا۔

  • موت برسانے والے جنگی ہتھیار گہرے رنگوں میں رنگ گئے

    موت برسانے والے جنگی ہتھیار گہرے رنگوں میں رنگ گئے

    ایک جنگ زدہ مقام پر زندگی کیسی ہوسکتی ہے؟ خوف و دہشت اور بے یقینی سے بھرپور، بے رنگ، اور ایسی زندگی جس میں کوئی خوشی نہ ہو۔ لیکن جب یہ جنگ طویل ہوجائے تو آہستہ آہستہ زندگیوں کا حصہ بن جاتی ہے اور پھر یہ ایک معمول کی بات بن جاتی ہے۔

    انسانی فطرت حالات سے کسی نہ کسی طور مطابقت کرنا سیکھ ہی لیتی ہے۔ جب خوشی ملنے کا کوئی بیرونی ذریعہ نہ ہو تو پھر یہ خوشی کو تلاشنے کے لیے ایسی ایسی چیزیں تخلیق کر ڈالتا ہے جس کا عام حالات میں تصور بھی ممکن بھی نہ ہوں۔

    مزید پڑھیں: شامی بچوں کے لیے مسکراہٹ لانے والا ٹوائے اسمگلر

    ایسا ہی خوشیوں کا تخلیق کار ایک شامی فنکار بھی ہے جو موت لانے والے جنگی ہتھیاروں کو فن کے نمونوں میں بدل کر انہیں خوشی حاصل کرنے کا ذریعہ بنا دیتا ہے۔

    اکرم ابو الفیض نامی یہ فنکار مارٹر گولوں اور راکٹ کے خول کو آرٹ کے شاہکار میں بدل دیتا ہے۔

    shell-10

    shell-6

    شام کے جنگ زدہ صوبے رف دمشق کا یہ فنکار ایک عام سا فنکار تھا۔ سنہ 2011 میں جنگ شروع ہونے سے قبل وہ شیشوں پر روایتی نقش و نگاری کیا کرتا تھا۔ یہ شام کا ایک روایتی آرٹ ہے جو دنیا بھر میں مشہور ہے۔

    لیکن پھر جنگ شروع ہوگئی۔ آسمان سے موت برسنے لگی اور فن و ثقافت، ادب، خوشی، سکون اور اطمینان جنگ کی دھول میں دفن ہوگیا۔

    اکرم کا کہنا ہے کہ جب اس کے صوبے میں جنگ شروع ہوئی تو ہر روز گھر سے باہر نکلنے پر اسے بڑی تعداد میں جابجا مارٹر گولوں اور راکٹ کے خول بکھرے ہوئے ملتے تھے۔

    مزید پڑھیں: پناہ گزین بچوں کے خواب

    ابتدا میں وہ انہیں اپنے ہم وطنوں کی موت کو یاد رکھنے کے لیے نشانی کے طور پر گھر لے آتا۔ پھر جب جنگ ان کی زندگیوں کا حصہ بن گئی، اور اپنوں کی موت کے زخم کچھ مندمل ہونے لگے تو اکرم کو اپنی بھولی بسری صلاحیت کا خیال آیا۔

    اس نے سوچا کہ اپنی مصوری کی خداداد صلاحیت کو کام میں لاتے ہوئے ان خولوں سے کچھ منفرد تخلیق کیا جائے۔

    اس نے دھول مٹی سے اٹا مصوری کا سامان نکالا اور ان خولوں کو گہرے رنگ میں رنگ دیا۔ ساتھ ہی ان پر منفرد نقش نگاری بھی کی۔

    shell-9

    shell-7

    shell-4

    اکرم ان خولوں پر نہایت گہرے رنگ کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس طرح وہ ان پر سے خون کے ان نادیدہ چھینٹوں کو مٹانے کی کوشش کرتا ہے جو ان کے گرنے کے بعد فضا میں پھیل گئے۔

    shell-5

    shell-8

    shell-2

    shell-3

    خوبصورت رنگوں سے سجے اور یہ منقش خول اس نے اپنے دوستوں اور خاندان کو تحفتاً بھی دیے لیکن زیادہ تر اس نے اپنے گھر پر ہی رکھے ہیں جنہیں اب دیکھ کر لگتا ہے کہ یہاں کوئی آرٹ کی نمائش ہورہی ہے۔

    اس کا کہنا ہے کہ اس قسم کے آرٹ سے وہ دنیا کو بتانا چاہتا ہے کہ شامی اب جنگ سے تنگ آچکے ہیں اور انہیں امن چاہیئے۔

    اکرم نے مصوری کی کوئی باقاعدہ تعلیم تو حاصل نہیں کی لیکن اس کی یہ صلاحیت خداداد ہے۔ وہ بہت چھوٹی عمر سے ہی کاغذ پر رنگ بکھیرنے کا شوقین ہے۔

    واضح رہے کہ شام کے لوگ پچھلے 5 سال سے خانہ جنگی کا شکار ہیں اور اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس خانہ جنگی کے دوران اب تک 4 لاکھ شامی ہلاک ہوچکے ہیں۔

    شام اور عراق کے جنگ زدہ علاقوں سے ہجرت کرنے والے افراد کی تعداد تاریخ میں مہاجرین کی سب سے بڑی تعداد ہے اور دنیا نے اس سے قبل کبھی اتنی زیادہ تعداد میں مہاجرین کی میزبانی نہیں کی۔