Tag: مصور انتقال

  • اے ایس ناگی: قائدِ‌اعظم کا پورٹریٹ بنانے والے ممتاز پاکستانی مصوّر

    اے ایس ناگی: قائدِ‌اعظم کا پورٹریٹ بنانے والے ممتاز پاکستانی مصوّر

    پاکستان میں فنِ مصوّری کے میدان میں‌ اپنے کام کی بدولت شناخت بنانے والوں‌ میں‌ احمد سعید ناگی بھی شامل ہیں جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ یکم ستمبر 2006ء میں وفات پانے والے احمد سعید ناگی کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ بانیِ پاکستان نے ان سے اپنا پورٹریٹ بنوایا۔

    وہ اے ایس ناگی کے نام سے بھی معروف تھے۔ 1916ء میں متحدہ ہندوستان کے مشہور شہر امرتسر میں پیدا ہونے والے احمد سعید ناگی 1944ء میں لاہور منتقل ہوگئے تھے۔ یہاں وہ مسلم لیگ کے شعبۂ تشہیر و تعلقات کے لیے کام کر رہے تھے۔ تاہم چند برس بعد امرتسر چلے گئے اور وہاں شادی کر لی۔ لیکن اسی زمانے میں تقسیمِ‌ ہند اور قیامِ پاکستان عمل میں‌ آیا اور یوں‌ 1947ء میں اے ایس ناگی پاکستان آگئے اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔

    احمد سعید ناگی نے دہلی کیمبرج اسکول دریا گنج کی استانی مس بکلے سے آرٹ کی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور ساتھ ہی رقص بھی سیکھا۔ مجسمہ سازی شیخ احمد سے جب کہ ایس جی ٹھاکر سنگھ سے رنگوں کو برتنا سیکھا۔ بعدازاں‌ فرانس کے شہرۂ آفاق شہر پیرس چلے گئے جہاں‌ پورٹریٹ بنانے کی مشق کی۔ کراچی لوٹنے پر احمد سعید ناگی نے پاکستان کے دیہی ماحول اور ثقافتی پس منظر کو پینٹ کرنے کا مشغلہ اپنایا۔

    پاکستانی مصور احمد سعید ناگی نے ہڑپّہ، موہن جو دڑو، ٹیکسلا کو بھی اپنے فنِ مصوّری کا موضوع بنایا۔ پاکستان اور اس کی ثقافت سے دل چسپی رکھنے والے احمد سعید ناگی کو حکومت نے ہوائی اڈّوں اور ان کے وی آئی پی لاؤنجز کی تزئین و آرائش کا کام بھی سونپا۔ انھوں نے پلاسٹر آف پیرس اور دھاتوں سے مجسمہ سازی بھی کی۔ احمد سعید ناگی نے اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک دوروں‌ میں‌ مشہور عمارتوں‌، دفاتر اور ہوٹلوں کی تزئین و آرائش کی اور میورلز بنائے۔ اے ایس ناگی اس پر نازاں رہے کہ قائد اعظم کی پہلی اور واحد پورٹریٹ انھوں نے بنائی تھی۔ یہ 1944ء کی بات ہے۔

    احمد سعید ناگی باکمال مصوّر تو تھے ہی، وہ خوش لباس شخصیت، ہنس مکھ، ملنسار اور محبّت کرنے والے انسان بھی مشہور تھے۔

    پاکستان کے اس باکمال مصوّر کے فن پاروں کی نمائش ملک کے مختلف شہروں کے علاوہ پیرس، برطانیہ، امریکا، ایران، بھارت میں‌ کی گئی جہاں شائقینِ فن اور ناقدین نے ان کے کام کو بہت پسند کیا۔

    احمد سعید ناگی کے بنائے ہوئے فن پارے زیارت ریذیڈنسی جب کہ کوئٹہ، کراچی، اور پشاور کے گورنر ہاؤسز میں‌ سجائے گئے اور موہٹہ پیلس، قصر ناز اور لاہور میں‌ پنجاب اسمبلی بلڈنگ میں‌ بھی موجود ہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • جمیل نقش: ‘وہ آرٹ کے لیے جیے!’

    جمیل نقش: ‘وہ آرٹ کے لیے جیے!’

    آرٹ کے ناقد قدوس مرزا کہتے ہیں کہ ‘اگر ہم جمیل نقش کی زندگی اور آرٹ کو دیکھیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے لیے زندگی اور آرٹ میں کوئی فرق نہیں تھا، وہ آرٹ کے لیے جیے۔’ آج جمیل نقش کی برسی ہے۔

    جمیل نقش کو فنِ مصوّری کے ایک لیجنڈ کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جن کے فن پاروں سے آرٹ میں مصوّر کی مقصدیت، نئی فکر اور اس کے سیاسی اور سماجی شعور کا بھی اظہار ہوتا ہے۔

    پاکستان کے اس نام ور آرٹسٹ کے نزدیک فنِ مصوّری ایک بامقصد اور نہایت سنجیدہ کام رہا جس کے ذریعے وہ اپنی فکر کا اظہار اور سوچ کے مختلف زاویوں کو ہر خاص و عام تک پہنچا سکتے تھے۔ جمیل نقش نے پینٹنگز کے ساتھ خطّاطی کے شاہکار بھی تخلیق کیے اور متعدد کتابوں کے سرورق بنائے۔ ان کی مصوّری میں استعاروں کی خاص بات بامعنیٰ اور نہایت پُراثر ہونا ہے۔ فن پاروں کے منفرد انداز کے علاوہ جمیل نقش نے اسلامی خطاطی میں بھی جداگانہ اسلوب وضع کیا۔ ان کے شان دار کام کی نمائش پاکستان اور بھارت کے علاوہ برطانیہ اور متحدہ عرب امارات میں ہوئی۔ جمیل نقش ایک مصوّر ہی نہیں شعر و ادب کا ذوق بھی رکھتے تھے اور وسیع مطالعہ کے ساتھ بلند فکر انسان تھے۔ وہ مشہور ادبی جریدے سیپ کے لیے بھی پینٹنگز بناتے رہے۔ جمیل نقش نے 1970ء سے 1973ء تک پاکستان پینٹرز گلڈ کی صدارت کا منصب بھی سنبھالا تھا۔

    خداداد صلاحیتوں کے مالک جمیل نقش 1939 میں کیرانہ انڈیا میں پیدا ہوئے اور تقسیم ہند کے بعد لاہور میں رہائش اختیار کر لی۔ جمیل نقش نے میو اسکول آف آرٹ لاہور سے ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی۔ بعد میں وہ اپنی طرز کے منفرد مصوّر کہلائے اور اپنے تخلیقی ذہن سے اس فن میں بڑا کمال حاصل کیا۔ ان کے موضوعات ناقدین کی نظر میں اہمیت رکھتے ہیں اور قابلِ‌ ذکر ہیں۔

    جمیل نقش 2019ء میں آج ہی کے دن لندن میں انتقال کر گئے تھے۔ ان کی عمر 80 سال تھی۔ حکومت پاکستان نے انھیں تمغائے حسنِ کارکردگی اور ستارۂ امتیاز سے نوازا اور جمیل نقش کے نام پر میوزیم لاہور میں ان کے فن پارے محفوظ ہیں۔ جمیل نقش نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا نام روشن کیا اور فنِ مصوری کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔

    جمیل نے جن موضوعات کا چناؤ کیا ان کی اہمیت کئی لحاظ سے ہے۔ ان کے فن پاروں میں‌ گھوڑے، عورت اور کبوتر کو نمایاں دیکھا جاسکتا ہے۔ برہنہ عورت اور محوِ پرواز پرندے ان کا خاص موضوع رہے۔ ان اجسام کو انھوں نے بار بار پینٹ کیا اور انھیں‌ زندگی بخشی۔

  • پاکستان کے ممتاز مصوّر اور خطّاط شاکر علی کی برسی

    شاکر علی پاکستان کے ممتاز مصوّر اور تجریدی آرٹ کے بانی تھے جن کی آج برسی ہے۔ وہ نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے پرنسپل بھی رہے۔ 27 جنوری 1975ء کو شاکر علی اس جہانِ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔ فنِ خطّاطی بھی ان کی وجہِ شہرت ہے۔

    ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ فنِ مصوری میں دل چسپی کے سبب 1937ء میں نئی دہلی کے ایک اسٹوڈیو میں کام کرنے لگے۔ مصوری کی باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے انھوں نے 1938ء میں ممبئی کے جے جے اسکول آف آرٹس میں داخلہ لیا۔ 7 سال تک اس ادارے میں زیرِ تعلیم رہے اور میورل ڈیکوریشن میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ حاصل کیا۔ مزید تعلیم کے لیے وہ 1948ء میں لندن چلے گئے، جہاں انھوں نے ر سیلیڈ اسکول آف آرٹ یونیورسٹی کالج سے فائن آرٹس میں ڈپلومہ حاصل کیا۔

    6 مارچ 1914ء کو رام پور میں پیدا ہونے والے شاکر علی نے کچھ عرصہ فرانس کے ممتاز مصوّر آندرے لاہوتے (Andre L’Hote) کے ساتھ بھی کام کیا اور ان سے بہت کچھ سیکھا۔

    1951ء میں شاکر علی پاکستان آئے اور لاہور کے میو اسکول آف آرٹس سے وابستہ ہوگئے جسے آج نیشنل کالج آف آرٹس کہا جاتا ہے۔ 1961ء میں انھیں اس کالج کا پرنسپل مقرر کردیا گیا۔ شاکر علی کے فن پاروں کی پہلی نمائش 1956ء میں شعبہ فائن آرٹ پنجاب یونیورسٹی لاہور کے تحت ہوئی۔ 1957ء میں آرٹس کونسل کراچی اور لاہور میں بھی ان کے فن پاروں کی نمائش منعقد کی گئی۔ پاکستان کے علاوہ ان کے فن پارے امریکا، برازیل، ایران، اٹلی اور انگلستان میں بھی آرٹ گیلریز میں نمائش کے لیے رکھے گئے۔

    شاکر علی کے تجریدی آرٹ کی خاص بات ان کا منفرد زاویۂ فکر ہے۔ وہ التامیرا کے غار دیکھ چکے تھے اور قدیم دور کی شاہکار تصاویر سے متاثر تھے۔ شاکر علی نے فطرت کی رنگینیوں، چاند ستاروں، چڑیوں اور پھولوں وغیرہ میں ایسے خوب صورت رنگ بھرے کہ انہیں دیکھ کر حقیقت کا گمان ہوتا ہے۔

    شاکر علی کا گھر بھی ان کے تخلیقی ذوق اور شوقِ اختراع کا نمونہ تھا۔ لیکن وہ اس گھر کی تعمیر کے بعد زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ سکے تھے۔ گارڈن ٹاؤن میں ان کا مکان لوگ دور دور سے دیکھنے آتے تھے۔ دراصل شاکر علی نے اس گھر میں جلی ہوئی اینٹوں کا استعمال کیا تھا اور اسے آرٹ کا نمونہ بنا دیا تھا۔ ان کی موت کے بعد حکومت نے اس گھر کو ’شاکر علی میوزیم‘ کا درجہ دے دیا۔

    عالمِ اسلام میں فنِ خطّاطی میں جدّت اور خوش رنگ تجربات کرنے والے پاکستانی مصوّروں میں‌ شاکر علی بھی مشہور ہیں۔ انھوں نے قرآنی آیات کو تجریدی انداز میں کینوس پر اتارا اور اس فن کو بامِ عروج تک پہنچایا۔ شاکر علی نے آیاتِ قرآنی کو جس طرح کینوس پر اتارنے کا سلسلہ شروع کیا تھا، اس سے متاثر ہوکر پاکستان کے دیگر مصوّروں جن میں‌ حنیف رامے، صادقین، آفتاب احمد، نیر احسان رشید، گل جی کے نام شامل ہیں، نے بھی اپنی کاوش کی اور اس فن کو ترقی دی۔

    حکومتِ پاکستان نے شاکر علی کے فن اور خدمات کے اعتراف میں انھیں‌ 1962ء میں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا۔ 1971ء میں وہ ستارۂ امتیاز سے نوازے گئے اور بعد میں‌ شاکر علی یادگاری ٹکٹ کا بھی اجرا کیا گیا۔ وفات کے بعد پاکستان کے اس نام ور مصوّر کو لاہور کے گارڈن ٹاؤن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • ‘دا نائٹ واچ‘ کے خالق ریمبرانٹ کا تذکرہ

    ‘دا نائٹ واچ‘ کے خالق ریمبرانٹ کا تذکرہ

    ریمبرانٹ کو دنیا بھر میں‌ ہالینڈ کے سب سے زیادہ مشہور مصوّر کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ اس کی موت کو ساڑھے تین سو سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن آج بھی ریمبرانٹ کا فن اور بالخصوص سیلف پورٹریٹ زیرِ‌ بحث رہتے ہیں۔

    مصوّری کے فن میں‌ اپنی شاہ کار تصاویر کی بدولت نام پانے والے ریمبرانٹ نے 4 اکتوبر 1669ء کو یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔ فنونِ لطیفہ کے ماہرین اور مصوّری کے نقّاد ریمبرانٹ کو ایک نابغہ تسلیم کرتے ہیں اور اسے متاثر کن حد تک جدّت پسند مصوّر کہا جاتا ہے۔

    کہتے ہیں دنیا بھر میں ہالینڈ کے کسی اور مصوّر کی تخلیقات اتنی مشہور نہیں ہیں، جتنی کہ ریمبرانٹ کی ہیں۔ وہ اپنے پورٹریٹ بنانے کے لیے بھی مشہور ہے جنھیں اس مصوّر کے کمالِ فن کا شاہ کار مانا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ریمبرانٹ روزانہ کئی گھنٹے اپنی تصویر بنانے کے لیے کھڑا رہتا تھا۔

    عالمی شہرت یافتہ ریمبرانٹ کی ایک مشہور پینٹنگ ‘دا نائٹ واچ‘ کے نام سے آج بھی ڈچ شہر ایمسٹرڈم کے ‘رائکس میوزیم‘ میں موجود ہے۔ اس کی بنائی ہوئی چند دیگر تصاویر دنیا کی بڑی آرٹ گیلریز کی زینت ہیں اور شائقین کے ساتھ نوآموز فن کاروں کی توجہ کا مرکز بنتی ہیں۔

    ریمبرانٹ کے ابتدائی حالات اور اس کے خاندان کے بارے میں جو معلومات ملتی ہیں ان کے مطابق اس کے والد اناج پیسنے والی ایک چکّی کے مالک تھے۔ وہ ہالینڈ کے باسی تھے۔ ریمبرانٹ 1609ء میں پیدا ہوا اور ریمبرانٹ وان رائن کے نام سے زندگی کا سفر شروع کیا۔ اسے شروع ہی سے نقّاشی اور ایسے مختلف فنون سے لگاؤ پیدا ہو گیا تھا جو اسے مصوّری کی طرف لے گئے۔ ریمبرانٹ نے آئل پینٹنگز اور اسکیچز بھی بنائے اور اس میں مختلف تجربات کیے۔

    ماہرین کے مطابق وہ 16 ویں صدی کے اطالوی مصوّروں سے بہت زیادہ متاثر نظر آتا ہے۔ جب اس نے اپنے ہاتھ میں برش تھاما تو انہی مصوّروں کے زیرِ اثر تصویروں بنانا شروع کیں‌۔ تاہم اس کے فن کی خاص بات مختلف تخلیقی تجربات ہیں جس سے اس کے جنون اور وفورِ شوق کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہی وہ خصوصیت ہے جس نے ریمبرانٹ کے فن کو آج بھی زندہ رکھا ہے۔ نقّادوں کے مطابق وہ ایک ایسا اختراع پسند تھا جس نے تکنیکی طور پر اپنے فن پاروں کو جدّت اور انفرادیت سے سجایا اور یہی وجہ ہے کہ وہ تین صدیوں‌ سے زائد عرصہ بیت جانے کے باوجود بھی توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔ اس کی تصویریں زندہ و متحرک محسوس ہوتی ہیں اور اسی خوبی نے ریمبرانٹ کی شہرت برقرار رکھی ہے۔

    اس مصوّر کی انفرادیت اور اس کی تصاویر کا قابلِ‌ ذکر پہلو یہ بھی ہے کہ اس نے پینٹنگز کے ذریعے داستان گوئی اور قدیم و تاریخی واقعات کو خوب صورتی سے کینوس پر اتارا۔

    فنِ مصوّری کے ماہر اس بات کو ریمبرانٹ کا امتیازی وصف قرار دیتے ہیں کہ اس کی پینٹنگز میں‌ جسمانی حرکات و سکنات کو نہایت فن کارانہ چابک دستی اور مؤثر انداز سے پیش کیا گیا ہے، اور یہ کردار بولتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس کے فن پاروں میں روشنی اور مختلف رنگوں کا وہ متنوع تأثر ملتا ہے جسے مصوّر کی اختراع پسندی نے بے مثال بنا دیا ہے۔

    ریمبرانٹ کے سیلف پورٹریٹ کسی بھی دوسرے مصوّر کے مقابلے بہت زیادہ ہیں اور یہ شاید اسے بہت پسند تھا۔ اس مصوّر نے خود کو ایک ماڈل کے طور پر پیش کر کے فنِ مصوّری میں اپنی مہارت کا اظہار اور مختلف تجربات کیے۔ یہ اس کے زرخیز ذہن اور اس فن میں اس کے جنون کی علامت بھی ہے۔

  • رنگوں‌ سے باتیں‌ کرنے والی لیلیٰ شہزادہ کا تذکرہ

    رنگوں‌ سے باتیں‌ کرنے والی لیلیٰ شہزادہ کا تذکرہ

    فنِ مصوّری میں‌ اپنی پہچان بنانے والے پاکستان کے فائن آرٹسٹوں میں لیلیٰ شہزادہ ایک اہم نام ہے جنھوں نے بالخصوص سندھ کی تہذیب اور ثقافت کو اپنے فن میں‌ نمایاں کیا۔ لیلیٰ شہزادہ 1994 میں آج ہی کے دن انتقال کرگئی تھیں‌۔ آج ان کی برسی ہے۔ اس مصورہ کو تجریدی آرٹ کے حوالے سے بھی پہچانا جاتا ہے۔

    لیلیٰ شہزادہ 1925 میں انگلستان میں لٹل ہیمپٹن میں پیدا ہوئی تھیں۔ ڈرائنگ سوسائٹی، لندن سے مصوری کے فن کی تعلیم اور تربیت مکمل کرنے والی لیلیٰ شہزادہ کو 1958 سے 1960 کے دوران معروف مصوّر اے ایس ناگی کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور یہاں ان کا فن مزید نکھرا اور وہ مقامی فن و تہذیب سے آشنا ہوئیں۔

    لیلیٰ شہزادہ نے 1960 میں کراچی میں اپنے فن پاروں‌ کی پہلی انفرادی نمائش منعقد کی۔ انھوں نے اپنے فن پاروں‌ کی بدولت جلد ہی آرٹ کے قدر دانوں اور ناقدین کو اپنی طرف متوجہ کر لیا اور بعد میں پاکستان کے مختلف شہروں اور بیرونِ ملک بھی ان کا کام نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔

    پاکستان میں‌ لیلیٰ شہزادہ کو ان کے فن اور آرٹ کے شعبے میں‌ خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے تمغائے امتیاز اور تمغائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا جب کہ 2006 میں پاکستان پوسٹ نے‌ لیلیٰ شہزادہ یادگاری‌ ٹکٹ بھی جاری کیے تھے۔ اس مصورہ نے بیرونِ ملک بھی اپنے فن پر داد سمیٹی مختلف اعزازات اپنے نام کیے۔

  • مصوّری اور اسلامی خطّاطی میں شہرت کے ہفت خواں طے کرنے والے صادقین کی برسی

    مصوّری اور اسلامی خطّاطی میں شہرت کے ہفت خواں طے کرنے والے صادقین کی برسی

    مصوّری میں مہارتِ تامّہ اور اسلامی خطّاطی میں مجتہدانہ اسلوب کے ساتھ صادقین شہرۂ آفاق فن کاروں کی صف میں‌ کھڑے نظر آتے ہیں۔ وہ ایسے فن کار تھے جن کی تخلیقات اور فن پاروں کو پرت در پرت سمجھنے کی کوشش میں معنی و مفاہیم کی ایک نئی دنیا دریافت ہوتی ہے۔

    آج اس عالمی شہرت یافتہ مصوّر، خطّاط اور نقّاش کا یومِ وفات ہے۔ 10 فروری 1987ء کو صادقین نے اس دارِ فانی سے کوچ کیا تھا۔ امروہہ سے تعلق رکھنے والے اس باکمال مصوّر کا پورا نام سید صادقین حسین نقوی تھا۔ وہ 20 جون 1930ء کو پیدا ہوئے۔ 1943ء میں میٹرک اور بعد میں‌ انٹر کا امتحان بھی امروہہ سے پاس کیا۔ 1948ء میں‌ آگرہ یونی ورسٹی سے بی اے کی سند حاصل کی۔ اور اس کے ساتھ ہی ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔

    انھوں نے 1944 سے 46ء تک آل انڈیا ریڈیو میں اسٹاف آرٹسٹ کی حیثیت سے کام کیا اور 1946ء میں امام المدارس انٹر کالج میں آرٹ ٹیچر کے طور پر تدریس کا فریضہ بھی انجام دینے لگے۔ اس وقت تک صادقین اپنے اساتذہ اور طالبِ علم ساتھیوں میں ایک مصوّر اور شاعر کے طور پر متعارف ہوچکے تھے۔ تقسیم کے بعد پاکستان کے شہر کراچی میں‌ قیام کے بعد انھیں‌ نئے سرے سے زندگی کے لیے بھاگ دوڑ کرنا پڑی۔ یہاں بھی جلد ہی وہ اپنی مصوّری اور خطّاطی کے حوالے سے پہچان بنانے میں کام یاب ہوگئے۔ کم عمری ہی سے صادقین کو منظر کشی پسند تھی۔ سو، گھر کی دیواروں پر نقش و نگار بناتے اور اس پر ڈانٹ اور مار بھی کھائی، لیکن اپنے شوق کی دیواروں پر مشق کا یہ سلسلہ رائیگاں نہ گیا اور بعد کے برسوں میں‌ یہی ان کا فن ٹھیرا۔ صادقین 24 سال کے تھے جب ان کے فن پاروں‌ کی پہلی نمائش ہوئی۔

    پاکستان آنے کے بعد ان کی اصل شہرت کا آغاز میورلز سے ہوا جو انھوں نے کراچی ایئر پورٹ، سینٹرل ایکسائز لینڈ اینڈ کسٹمز کلب، سروسز کلب اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی لائبریری میں بنائیں۔ لاہور کے عجائب گھر کی چھت بھی صادقین کی لازوال مصوّری کا نمونہ ہے۔

    صادقین نے مصوّری اور خطاّطی دونوں‌ اصناف میں اپنے فن و کمال کے اظہار کی بالکل نئی راہ نکالی کی۔ رفتہ رفتہ لوگ ان کے نام اور کام سے واقف ہوتے چلے گئے۔ 1950ء کی دہائی کے وسط سے انفرادی نمائشوں کا سلسلہ شروع کیا اور ساٹھ کے عشرے میں صادقین کی شہرت مغرب تک پہنچ گئی۔ ان کا کام دنیا بھر میں فائن آرٹس کے ناقدین کی نظر میں‌ آیا اور انھیں خوب سراہا گیا۔ وہ پیرس بھی گئے جہاں اپنے فن پارے نمائش کے لیے پیش کیے اور ناقدین و شائقین سے داد وصول کی۔

    1969ء میں غالب کی صد سالہ برسی کے موقع پر صادقین نے کلامِ غالب کو مصورانہ کمال کے ساتھ نہایت خوب صورتی سے پیش کیا۔ یہ کسی مصّور کی پہلی اور نہایت خوب صورت کاوش تھی جس نے سبھی کی توجہ حاصل کی۔ 1970ء میں صادقین نے سورۂ رحمٰن کی آیات کو مصوّرانہ خطّاطی میں یوں نمایاں‌ کیا کہ دیکھنے والے داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔

    صادقین کے فن پاروں کی دنیا بھر میں‌ نمائش ہوئی۔ ان کی مصوّری اور خطّاطی کے نمونے آج بھی بڑی گیلریوں کا حصّہ ہیں۔ 1986ء میں انھوں نے کراچی کے جناح ہال کو اپنی مصوری سے آراستہ کرنے کا آغاز کیا تھا، لیکن اجل نے اسے پایۂ تکمیل کو پہنچانے کی مہلت نہ دی۔

    وہ ایک بہت اچھے شاعر بھی تھے۔ رباعی ان کی محبوب صنفِ سخن تھی۔ ان کی کئی رباعیاں مشہور ہوئیں اور صادقین نے اپنا کلام بھی مصوّرانہ انداز میں‌ کینوس پر اتارا۔

    حکومتِ پاکستان کی جانب سے صادقین کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔ یہ نابغۂ روزگار مصوّر کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہے۔

  • پاکستان کے نام وَر مصوّر اور خطّاط شاکر علی کی برسی

    پاکستان کے نام وَر مصوّر اور خطّاط شاکر علی کی برسی

    شاکر علی پاکستان کے ممتاز مصوّر تھے جو 27 جنوری 1975ء کو اس جہانِ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوئے۔ انھیں پاکستان میں تجریدی مصوّری کا بانی کہا جاتا ہے۔ شاکر علی خطّاطی کے فن میں جدّت اور اپنے تجربات کے لیے بھی مشہور ہوئے۔

    نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے پرنسپل کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے شاکر علی کا وطن رام پور تھا جہاں انھوں نے 6 مارچ 1914ء کو آنکھ کھولی۔ مصوّری کی ابتدائی تعلیم جے جے اسکول آف آرٹس، بمبئی سے حاصل کی اور بعد میں برطانیہ سے فن مصوّری کا تین سالہ کورس مکمل کیا۔ مصوّری کی باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ وہ کچھ عرصہ فرانس کے ممتاز مصوّر آندرے لاہوتے (Andre L’Hote) کے زیرِ تربیت بھی رہے اور ان سے بہت کچھ سیکھا۔

    1951ء میں پاکستان آنے کے بعد شاکر علی لاہور کے میو اسکول آف آرٹس سے وابستہ ہوگئے جسے آج نیشنل کالج آف آرٹس کہا جاتا ہے۔ 1961ء میں وہ اس کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے اور اپنی وفات سے دو برس قبل تک 1973ء اسی عہدے پر فائز رہے۔

    شاکر علی نے آیاتِ قرآنی کو تجریدی انداز میں کینوس پر اتارنے کا جو سلسلہ شروع کیا اس سے متاثر ہوکر پاکستان کے دیگر نام ور مصوّروں جن میں‌ حنیف رامے، صادقین، آفتاب احمد، نیر احسان رشید، گل جی کے نام شامل ہیں، بھی اس طرف متوجہ ہوئے اور اس فن کو بامِ عروج تک پہنچایا۔

    پاکستان کے اس نام ور مصور اور خطّاط کی رفاقت میں گزرے دنوں کی یاد تازہ کرتے ہوئے ایک جگہ ڈاکٹر محمد اجمل لکھتے ہیں: ’’یہ مجھے یاد ہے کہ شاکر علی سے میری پہلی ملاقات غالباً 1949ء میں لندن میں ہوئی تھی۔ یہ بھی مجھے یاد ہے کہ ڈاکٹر مقبول احمد اور مسعود کے توسط سے ہوئی تھی، لیکن بہت جلدی واسطے پیچھے رہ گئے اور بلاواسطہ ہم دوست بن گئے۔

    شاکر علی کی شخصیت میں ایک خاص قسم کی معصومیت اور بے تکلفی تھی، جو صرف غالباً صحیح اور فطری فن کاروں میں ہوتی ہے۔ جب وہ سلیڈ اسکول میں پڑھتے تھے تو اکثر مجھے اپنے کمرے میں لے جاتے کہ میں ان کی نئی تصویر دیکھوں۔ جب وہ مجھے تصویر دکھاتے تو ان کے چہرے پر خوشی کی ایک سرخ موج دوڑ جاتی اور آنکھوں میں ایک چمک پیدا ہو جاتی۔ بعض اوقات میں تعریف کے ساتھ کوئی تنقیدی فقرہ بھی کہہ دیتا تو وہ کہتے ”یار کہتے تو تم ٹھیک ہو لیکن یہ مجھے اسی طرح اچھی لگتی ہے۔“

    ان سے پوچھتے کہ فن کیا ہوتا ہے؟ فن کار کیا ہوتا ہے تو ان کے ماتھے پر پسینہ آ جاتا اور وہ کوئی جواب نہ دیتے یا یہ کہہ دیتے، ”یار مجھے نہیں معلوم۔“

    حکومتِ پاکستان نے شاکر علی کو ان کی خدمات کے اعتراف میں 1962ء میں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا جب کہ 1971ء میں انھیں ستارۂ امتیاز سے نوازا گیا۔

    شاکر علی لاہور کے گارڈن ٹاؤن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • پاکستان کے باکمال مصوّر اور استاد حاجی محمد شریف کا تذکرہ

    پاکستان کے باکمال مصوّر اور استاد حاجی محمد شریف کا تذکرہ

    حاجی محمد شریف پاکستان کے نام وَر مصوّر تھے جنھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔ ایک استاد کی حیثیت سے انھوں نے پاکستان میں فنِ‌ مصوّری کی تعلیم اور آرٹ کے فروغ کے لیے بھی خدمات انجام دیں اور اپنا تخلیقی سفر بھی جاری رکھا۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

    9 دسمبر 1978ء کو حاجی محمد شریف لاہور میں انتقال کرگئے۔ وہ 1889ء میں ریاست پٹیالہ کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے دادا اور والد دونوں ہی فنِ مصوّری میں‌ کمال رکھتے تھے اور پٹیالہ کے دربار سے منسلک فن کار تھے۔ یوں‌ محمد شریف کو شروع ہی سے رنگوں سے کھیلنے اور اس فن کو سمجھنے کا موقع ملا اور بڑے ہوئے تو باقاعدہ مصوّری سیکھی۔

    حاجی محمد شریف کو ان کے والد بشارت اللہ خان کے ایک شاگرد لالہ شاؤ رام اور استاد محمد حسین خان نے مصوّری سکھائی۔ 1906ء میں وہ بھی مہاراجہ پٹیالہ کے دربار سے وابستہ ہوگئے۔

    1924ء میں لندن میں‌ منی ایچر پینٹنگز کی نمائش منعقد ہوئی جس میں‌ حاجی محمد شریف کے فن پارے بھی شائقین و ناقدین کی نظر میں آئے اور ان کے کام کو بہت پزیرائی ملی۔ وہ پاکستان کے ان مصوّروں میں سے تھے جنھیں ممبر آف برٹش ایمپائر کا اعزاز دیا گیا۔

    1945ء میں تقسیمِ ہند سے قبل محمد شریف لاہور آگئے جہاں انھوں نے میو اسکول آف آرٹ میں مصوّری کی تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ 1965ء میں وہ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد پنجاب یونیورسٹی کے فائن آرٹس ڈپارٹمنٹ سے بطور وزیٹنگ پروفیسر منسلک ہوگئے اور طویل عرصے تک طلبا کو فنِ مصوّری کی تعلیم دیتے رہے۔ انھیں استاد حاجی محمد شریف بھی کہا جاتا ہے۔

    حاجی محمد شریف کے فن کا اتنا شہرہ ہوا کہ اس وقت صدر ایوب خان اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو بھی ان کے قدر دانوں‌ میں شامل ہوگئے تھے۔ انھیں وفات کے بعد لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • فطرت اور پنجاب کی دیہی زندگی کے حُسن کو کینوس پر اتارنے والے غلام رسول کا تذکرہ

    فطرت اور پنجاب کی دیہی زندگی کے حُسن کو کینوس پر اتارنے والے غلام رسول کا تذکرہ

    لینڈ اسکیپ فن پارے غلام رسول کے تخلیقی جوہر اور فنی مہارت کا وہ نمونہ ہیں جن کا مشاہدہ اور مطالعہ نوآموز اور فائن آرٹسٹ کے طالبِ علموں کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع دیتا ہے۔ انھوں نے اپنے ان فن پاروں میں‌ پنجاب کی دیہی زندگی کو پیش کیا ہے۔

    آج غلام رسول کی برسی ہے۔ پاکستان کے اس نام وَر مصوّر نے 2009ء میں وفات پائی تھی۔

    غلام رسول کا تعلق جالندھر سے تھا۔ انھوں نے 20 نومبر 1942ء کو اس جہانِ رنگ و بُو میں‌ آنکھ کھولی۔ وہ شروع ہی سے فطرت اور قدرتی مناظر میں‌ کشش محسوس کرتے تھے اور زندگی کے مختلف رنگوں میں دل چسپی لیتے تھے۔ ان کے مشاہدے کی عادت اور تخلیقی شعور نے انھیں آرٹ کی طرف مائل کیا اور ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے باقاعدہ فائن آرٹ کی تعلیم حاصل کی۔

    1964ء میں غلام رسول نے پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ فنونِ لطیفہ سے ایم اے کی سند حاصل کی تھی اور اسی شعبے میں تدریس کا سلسلہ شروع کردیا۔ بعد میں امریکا چلے گئے جہاں غلام رسول نے فائن آرٹس کے شعبے میں‌ داخلہ لیا اور 1972ء میں ڈگری لے کر وطن لوٹے۔

    اس وقت تک وہ فن پارے تخلیق کرنے اور اپنی پینٹنگ کے لیے پہچان بناچکے تھے۔ 1974ء میں وہ پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس سے وابستہ ہوئے اور ڈائریکٹر جنرل کے عہدے تک ترقّی پائی۔

    غلام رسول نے مصوّری میں لینڈ اسکیپ کو اپنی توجہ اور دل چسپی کا محور بنایا اور خوب کام کیا۔ انھیں پنجاب کی دیہی زندگی کو اپنے کینوس پر اتارنے والے مصوّروں میں اہم جانا جاتا ہے۔ دیہی ماحول اور فطرت کے حُسن پر غلام رسول کے فن پارے بے حد متاثر کن ہیں۔ انھیں‌ شائقین اور آرٹ کے ناقدین نے سراہا اور ان کے کام کی پذیرائی ہوئی۔

    غلام رسول کی فائن آرٹ کے شعبے میں خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • یومِ وفات: زبیدہ آغا کا شمار پاکستان میں تجریری مصوّری کے بانیوں میں ہوتا ہے

    یومِ وفات: زبیدہ آغا کا شمار پاکستان میں تجریری مصوّری کے بانیوں میں ہوتا ہے

    1997ء میں آج ہی کے دن پاکستان کی معروف مصوّرہ زبیدہ آغا لاہور میں وفات پاگئیں۔ وہ پاکستان میں تجریدی مصوّری کے بانیوں میں شمار کی جاتی ہیں۔

    ان کا تعلق فیصل آباد سے تھا۔ وہ 1922 میں پیدا ہوئیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد ملک میں سب سے پہلے جس آرٹسٹ کے فن پاروں کی نمائش منعقد ہوئی، وہ زبیدہ آغا تھیں۔

    لاہور کے کالج سے گریجویشن مکمل کرنے کے بعد انھوں نے بھابیش چندر سانیل جیسے باکمال ہندوستانی پینٹر اور مجسمہ ساز سے فنِ مصوّری سیکھنا شروع کیا۔ یہ سلسلہ زیادہ عرصہ جاری نہ رہ سکا اور 1944ء سے 1946ء تک وہ اس عظیم آرٹسٹ کے ساتھ کام کرسکیں۔ شہرۂ آفاق مصوّر پکاسو کے فن پارے زبیدہ آغا کو اپنی جانب کھینچتے اور وہ برٹش دور کے ایک اٹلی کے جنگی قیدی فن کار میریو پرلنگیرے سے بھی متاثر تھیں۔ یہ بھی پکاسو کا شاگرد تھا۔

    تقسیم سے قبل ہی لاہور میں انھوں نے ایک گروپ نمائش میں اپنی چار پینٹنگز اور دو مجسموں کی نمائش کی جن کی بڑی شہرت ہوئی۔ قیام پاکستان کے بعد انھیں بیرون ملک تربیت حاصل کرنے اور فن پاروں کی نمائش کرنے کا بھی موقع ملا۔

    زبیدہ آغا نے اپنے استاد اور ان باکمالوں کے فن پاروں کو دیکھ کر اور اپنے مشاہدے سے جو کچھ سیکھا اسے کینوس پر نہایت کمال سے منتقل کرتی رہیں اور جلد اپنی پہچان بنا لی۔ سوسائٹی آف فائن آرٹس نے انھیں 1946 میں ماڈرن پینٹنگ پر پہلے انعام سے نوازا۔ 1950 میں وہ سینٹ مارٹن اسکول آف آرٹ، لندن سے منسلک ہو گئیں۔ تاہم یہاں سال ہی گزارا اور پیرس کے ایک آرٹ اسکول کے لیے خدمات انجام دینے لگیں۔ 1961 میں انھیں راولپنڈی میں آرٹ گیلری کا ایگزیکٹو ڈائریکٹر کا عہدہ دے دیا گیا۔

    زبیدہ آغا کو ملک کے ابتدائی دور کے فائن آرٹسٹوں میں سے ایک مانا جاتا ہے جن کا کام ہر سطح پر قابلِ توجہ ٹھیرا۔ یہی نہیں بلکہ وہ ملک میں ماڈرن آرٹ کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔ ابتدائی دور ہی میں ان کے کام نے فائن آرٹسٹوں اور سنجیدہ شائقین کی توجہ حاصل کر لی تھی اور پھر ایک وقت آیا جب زبیدہ آغا سے ان کے معاصرین اور غیر ملکی آرٹسٹ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور ان کے کمالِ فن کو سراہا۔

    ان کے فن کی مہارت یا انفرادیت رنگوں کا بامعنی اور قابلِ توجہ استعمال تھا۔ اس حوالے انھیں ملک میں آرٹ کی دنیا کی کلرسٹ پینٹر کہا جاتا ہے جس سے نہ صرف شائقین پر گہرا تاثر قائم ہوتا بلکہ ان کی یہ مہارت ان کے فن پاروں کو بامعنٰی بناتی تھی۔

    2002ء میں لاہور میں زبیدہ آغا کے فن پاروں کی نمائش منعقد کی گئی تھی جس میں بڑی تعداد میں شائقین فن نے ان کے آرٹ اور اس فن میں مہارت کو سراہا۔ 2006ء میں ان کے فن کا اعتراف کرتے ہوئے یادگاری ٹکٹ کا اجرا بھی کیا گیا۔

    زبیدہ آغا کے فن پارے ملک کی مختلف آرٹ گیلریز میں رکھے گئے ہیں جو اس میدان میں نوواردوں کی راہ نمائی کرتے ہیں اور انھیں اساتذہ کے کام سے روشناس کرواتے ہیں۔

    حکومت پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔