Tag: مصور برسی

  • آذر زوبی: معروف پاکستانی مصور اور مجسمہ ساز

    آذر زوبی: معروف پاکستانی مصور اور مجسمہ ساز

    پاکستان میں فنِ مصوری اور مجسمہ سازی میں جو چند نام اپنے کام کی بدولت ممتاز ہوئے ان میں آذر زوبی کا نام بھی شامل ہے۔ آذر زوبی کی ایک وجہِ شہرت درونِ خانہ آرائش بھی ہے اور یہ اس زمانہ کی بات ہے جب اس کام کو بہت کم ایک شعبہ کے طور پر توجہ دی جاتی تھی۔

    پاکستان کے اس معروف مصور اور مجسمہ ساز کو فائن آرٹسٹوں کے ساتھ ساتھ ادیبوں اور شاعروں میں بھی پہچانا جاتا تھا۔ اس کی وجہ آذر زوبی کا ادبی ذوق بھی تھا۔ آذر زوبی یکم ستمبر 2001ء کو کراچی میں انتقال کر گئے تھے۔ ان کی تدفین کراچی میں ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں کی گئی۔ اشفاق احمد جیسے افسانہ نگار اور ادیب زوبی کے دوستوں میں سے تھے۔اپنے ایک مضمون میں اشفاق احمد اپنی دوستی اور آذر زوبی کے فن سے متعلق لکھتے ہیں:

    زوبی میرا دوست نہ بھی ہوتا تو بھی میں اس کو ایک بڑا فن کار ہی سمجھتا۔ حالانکہ میرے سمجھنے اور نہ سمجھنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ پھر بھی اس کو اصرار ہے کہ میں چار گواہوں کے سامنے اس امر کا اعلان کروں کہ زوبی ایک عظیم آدمی، ایک عظیم فن کار اور ایک عظیم تخلیقی قوت ہے۔ یہ بالکل زوبی کا بچپنا ہے ورنہ آپ خود دلیلِ آفتاب کے طور پر اس کے مرقعات کا جائزہ لے چکے ہیں۔ اب جب کہ ہم زندگی کے اس دور میں پہنچ چکے ہیں جہاں بس ایک جست کی کسر رہ جاتی ہے تو کچھ پرانی باتیں کہ دینے اور کر دینے میں کوئی مضایقہ نہیں۔

    میٹرک پاس کرنے کے بعد میں نے اور روبی نے عہد کیا تھا کہ ہم اپنی اپنی لائن میں بڑے آدمی بننے اور شمالی ہندوستان کے Who’s Who میں داخل ہونے کے لیے سر توڑ کوشش کریں گے اور اگر نیا ملک پاکستان بن گیا تو اس کے دونوں حصوں کے معروف لوگوں کی صف اوّل یا زیادہ سے زیادہ صفِ دوم میں اپنا اپنا مقام ضرور حاصل کریں گے۔ میں تو خیر نوکریوں اور ملازمتوں کی ذلّتوں میں لتھڑتا رہا۔ اس لیے اس معاہدے کو پورے طور پر نبھا نہ سکا، لیکن زوبی نے اپنے زورِ عمل سے اور اپنی دن رات کی محنت سے یہ ثابت کر دیا کہ وہ شمشیر زن جس میدان کو فتح کرنے کا تہیہ کرتا ہے اس کو فتح کر کے چھوڑتا ہے۔

    زوبی بڑے غضب کا مصور ہے۔ اپنی شہرت اور ناموری کے لیے، اس نے جو تصویریں، جو مرقع اور جو مجسمے بنائے ہیں وہ آپ نے دیکھے ہیں، انھیں پسند کیا ہے، ان کی داد دی ہے۔ ان سے مسحور ہوئے ہیں، لیکن اس کی وہ تصویریں جو اس نے اپنی معصومیت کے دور میں بنائی تھیں وہ آپ کی نظر سے نہیں گزریں۔ شکوے کو آپ نے بہت قریب سے دیکھا ہے لیکن یہ زوبی نہیں ہے۔ اس کا اصل وہ رنگ دار مرقعے ہیں جو وہ شہرت ناموری، جہدِ مسلسل، کوششِ پیہم اور تجویز اور پلاننگ کی سیڑھی سے اتر کر بناتا ہے اور کسی کو دکھاتا نہیں۔ کہا کرتا ہے یہ میری عبادت ہے اور عبادت کسی کو دکھا کر نہیں کیا کرتے۔ عبادت، ترقی کے لیے نہیں، سرخ روئی کے لیے کی جاتی ہے۔

    آذر زوبی کا اصل نام عنایت اللہ تھا۔ انھوں نے 28 اگست 1922ء کو قصور کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم و تربیت کے مراحل طے کرتے ہوئے 1943ء میں میو اسکول آف آرٹ لاہور سے فائن آرٹ کی تعلیم مکمل کی اور پھر اسکالر شپ پر اٹلی چلے گئے۔1950ء سے 1953ء تک اٹلی میں زیرِ تعلیم رہے اور 1954ء میں پاکستان لوٹے تو یہاں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فائن آرٹس میں اپنے فن پاروں کی پہلی سولو نمائش کی۔ بعد ازاں کراچی منتقل ہوگئے۔ ان کے مُو قلم نے کئی کتابوں کے سرورق، طغرا بنائے اور تزئین و آرائش بھی کی۔

    آخری ایام میں آذر زوبی نے بڑے سائز کی ڈرائنگ بنانے کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا جس کے بارے میں صحافی، آرٹ نقاد اور مضمون نگار شفیع عقیل لکھتے ہیں: ” یہ ڈرائینگیں یا اسکیچ بے لباس انداز کے تھے جو زوبی کا پسندیدہ موضوع تھا۔ وہ عورت کا بے لباس جسم بنانے میں کچھ زیادہ ہی دل چسپی لیتا تھا…. جو نیوڈ (nude) اسکیچ یا ڈرائینگیں بنا رہا تھا اور جس طرح کی بنا رہا تھا ان میں چار پانچ کا مزید اضافہ ہو جاتا تھا۔ نہ موضوع میں کوئی تبدیلی ہوتی تھی، نہ اشکال میں کوئی فرق آتا تھا۔ نہ اجسام کے زاویے بدلتے تھے اور نہ خطوط میں کوئی تفریط ہوتی تھی۔ ایک عورت بیٹھی ہوتی تھی یا دو ہوتی تھیں اور چہروں کے خدوخال میں وہی یکسانیت ملتی تھی۔ اس نے یہ ڈرائینگیں سو کے لگ بھگ بنائی تھیں“ ایک اور جگہ لکھا ہے کہ ” تجریدی کام کرنے سے پہلے رئیلسٹک (realistic) میں مہارت ہونا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ اناٹمی (anatomy) سیکھنا بھی ضروری ہے الٹے سیدھے برش لگا دینے سے پینٹنگ نہیں بن جاتی۔“ انھوں نے ایک مقام اور آذر زوبی کے حوالے سے مزید لکھا: ” زوبی تجریدی آرٹ کے بہت خلاف تھا اور تجریدی کام کرنے والوں کو بے نقط سناتا رہتا تھا۔ اس سلسلے میں دل چسپ بات یہ ہے کہ خود اس کے اپنے اپنے بعض فن پارے ایسے ہیں جو تجریدی یا نیم تجریدی انداز میں بنے ہوئے ہیں۔ اس کا وہ کام جو پین ورک میں ہے، اس میں بہت سے اسکیچ اور ڈرائینگیں تجریدی (abstract) ہیں۔ خاص طور پر اس کی وہ السٹریشنز جو اس نے بعض کتابوں میں بنائی ہیں- مثلاً” جنم کنڈلی“ ، ”سرخ فیتہ“ اور ” موت سے پہلے“ وغیرہ میں۔ جب وہ تازہ تازہ اٹلی سے آیا تھا تو اس نے کئی اسکریپر ڈرائینگیں (scraper drawings ) بنائی تھیں- وہ سب تجریدی انداز کی ہیں جن میں سے بیشتر کو دیکھ کر مجسمے کا تصور اُبھرتا ہے۔“

    آذر زوبی نے کراچی میں‌ 1956ء میں شعور کے نام سے ایک ادبی جریدہ بھی جاری کیا تھا۔ انھوں نے کراچی میں آرٹس کونسل آف پاکستان کے اسکول آف آرٹس میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیے اور اس اسکول کے پرنسپل رہے۔ 1968ء میں آذر زوبی نے اسکول آف ڈیکور کے نام سے مصوری، مجسمہ سازی اور درون خانہ آرائش کی تربیت کا ایک ادارہ قائم کیا تھا۔

    1980ء میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے آذر زوبی کو صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔

  • شاکر علی: جدت کے باوصف روایت کو نبھانے والے پاکستانی مصوّر کا تذکرہ

    شاکر علی: جدت کے باوصف روایت کو نبھانے والے پاکستانی مصوّر کا تذکرہ

    شاکر علی وہ ممتاز پاکستانی مصوّر تھے جنھیں تجریدی آرٹ کا بانی کہا جاتا ہے۔ روایت اور جدت کے امتزاج کے ساتھ شاکر علی کے فن پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے جدت کے باوصف روایت کو نبھانے میں پاکستانی مصوروں کے درمیان اپنی انفرادیت کو منوایا ہے۔ شاکر علی نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے پرنسپل بھی رہے اور فنِ‌ خطاطی میں بھی اپنے ذوق و تخلیق کا اظہار کیا۔ آج اس مصور کی برسی منائی جارہی ہے۔

    لاہور میں شاکر علی کی رفاقت اپنے زمانے کے کئی مشاہیر اور اہلِ علم و فن سے رہی جنھوں نے اس مصور کے فن کو سراہا اور ان کی شخصیت کے کئی دل چسپ پہلوؤں کو بھی اپنی تحریروں میں اجاگر کیا جن میں سے چند پارے آپ یہاں‌ پڑھ سکیں‌ گے۔ شاکر علی کا انتقال 27 جنوری 1975ء کو ہوا تھا۔

    آرٹ میں دل چسپی اور فنِ‌ مصوری کا شوق شاکر علی کو شروع ہی سے تھا۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1937ء میں نئی دہلی کے ایک اسٹوڈیو میں کام کرنے لگے۔ مصوری کی باقاعدہ تعلیم انھوں نے 1938ء میں ممبئی کے جے جے اسکول آف آرٹس میں داخلہ لے کر حاصل کی۔ یہ سلسلہ 7 سال تک جاری رہا اور میورل ڈیکوریشن میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ لینے کے بعد مزید تعلیم کے لیے 1948ء میں لندن چلے گئے۔ لندن میں شاکر علی نے رسیلیڈ اسکول آف آرٹ یونیورسٹی کالج سے فائن آرٹس میں ڈپلومہ کیا۔

    شاکر علی کا آبائی وطن رام پور تھا۔ وہ 6 مارچ 1914ء کو پیدا ہوئے۔ کم عمر تھے جب ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا، اور شاکر علی جو کہ حساس طبیعت کے مالک تھے، نہایت رنجیدہ رہنے لگے، اسی صدمے نے شاید انھیں خاموش طبع بنا دیا تھا۔ لیکن بعد میں برش اور پینٹ کے ذریعے اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار خوب کیا۔

    1949ء میں شاکر علی نے فرانس کا رُخ کیا اور فرانس کے ممتاز مصور آندرے لاہوتے (Andre L’Hote) کے ساتھ ایک سال کام کیا۔ پھر 1951ء میں پاکستان آئے اور لاہور کے میو اسکول آف آرٹس سے وابستہ ہوگئے جسے آج نیشنل کالج آف آرٹس کہا جاتا ہے۔ 1961ء میں اس کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ شاکر علی کے فن پاروں کی پہلی نمائش 1956ء میں شعبہ فائن آرٹ پنجاب یونیورسٹی لاہور کے تحت ہوئی۔ 1957ء میں آرٹس کونسل کراچی اور لاہور میں بھی ان کے فن پاروں کی نمائش منعقد کی گئی۔ پاکستان کے علاوہ ان کے فن پارے امریکا، برازیل، ایران، اٹلی اور انگلستان میں بھی آرٹ گیلریز میں نمائش کے لیے رکھے گئے۔

    شاکر علی کے تجریدی آرٹ کی خاص بات ان کا منفرد زاویۂ فکر ہے۔ وہ التامیرا کے غار دیکھ چکے تھے اور قدیم دور کی شاہکار تصاویر سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے تھے۔ انھوں نے فطرت کی رنگینیوں، چاند ستاروں، چڑیوں اور پھولوں وغیرہ میں ایسے خوب صورت رنگ بھرے کہ انہیں دیکھ کر حقیقت کا گمان ہوتا ہے۔

    معروف محقق، نقاد اور مترجم مظفر علی سید ان کے دوستوں میں سے تھے اور ان کا خاکہ بھی لکھا ہے، جس میں وہ رقم طراز ہیں، شاکر کی چند ایک تصویریں دیکھ کر ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ جعلی تجرید پسند نہیں ہے، نہ اینٹی کلاسیکل۔ اس کے یہاں ایک کلاسیکی طمانیت ایک جد ید شکستگی سے سر بہ گریبان نظر آتی ہے۔ یوں اس دور کی تصویروں میں تناؤ کی کیفیت بہت تھی جیسے دو برابر کی قوتیں آپس میں ٹکرا رہی ہوں۔ عسکری صاحب نے ٦۰ء تک کی تصویریں دیکھ کر تضادات کے تصادم کی طرف توجہ دلائی تھی۔ تقریباً اسی برس صفدر میر نے لکھا تھا کہ شاکر کے نقوش تجریدی صورت میں بھی با معنی ڈرامائی کیفیتوں کا اظہار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہ ’’میں نے ایسا کوئی فن کار نہیں دیکھا جس سے اس کے معاصرین نے اتنی ٹوٹ کر محبت کی ہو جیسی شاکر علی کو لاہور کے مصوروں اور قلم کاروں سے ملی۔‘‘

    تاہم یہ محبت فوراً کے فوراً ہی نہیں مل گئی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس زمانے میں على امام جب بھی لاہور آتے تو اپنے دوست معین نجمی سے مل کر شاکر کے ساتھ شدید بحث کرتے اور تجرید، مکعبیت اور سر رئیلزم کو بیک وقت رد کرنے کی کوشش۔ کراچی میں صادقین کی بھی ان دنوں یہی کیفیت تھی۔ یہ لوگ کسی نہ کسی طرح تاثریت کی روشنی تو دریافت کر چکے تھے لیکن اس سے زیادہ جاننے کو تیار نہیں تھے۔ میں نے علی امام سے پوچھا کہ شاکر سے آپ کیسے ملے؟ انہوں نے کہا کہ بڑے بھیا یعنی رضا نے پیرس سے لکھا تھا کہ شاکر لاہور میں ہے، اس سے ملتے رہا کرو۔ پھر ایک دن شاکر علی نے زچ ہو کر علی امام سے کہا کہ تم تجرید وغیرہ کو جانے دو، یہ بتاؤ کہ تمہیں تاثریت کے بعد سیزان بھی نظر آیا کہ نہیں؟ خود علی امام نے شاکر کی موت کے بعد لکھا ہے کہ اس ایک بات نے اس کے پورے رویے کو بدل کر رکھ دیا۔ تقریباً ایسی ہی کیفیت آہستہ آہستہ صادقین کے یہاں بھی نظر آئی۔ اگرچہ بعد میں صادقین شاکر علی سے خاصا مختلف ہو جاتے ہیں۔

    مظفر علی سیّد مزید لکھتے ہیں، جیسا کہ انتظار حسین نے لکھا ہے شاکر علی عسکری صاحب کی طرح بہت کم گفتگو کرتے تھے اور فن کے بارے میں دانشورانہ بحث میں تو بالکل کوئی حصہ نہیں لیتے تھے۔ یقیناً یہ بات بڑی حد تک درست ہے لیکن جس طرح عسکری صاحب مجلسی کم سخنی کے باوجود پڑھاتے بھی تھے، اسی طرح شاکر علی تھوڑے سے لفظوں میں بہت کچھ سمجھا جاتے تھے۔ میرے ساتھ تو لگتا ہے انہوں نے خاصی شفقت برتی اور فرانسیسی سیکھنے میں میری رغبت دیکھ کر جد ید مصوری کے فن پر اپنے استاد آندرے لوت کی فرنچ کتاب بھی مجھے عنایت کر دی۔ مصوری کے مطالعے اور تفہیم کے لیے انہوں نے مجھ پر جو محنت کی اور جو وقت صرف کیا وہ میرے خیال میں خود یورپ جا کر بھی شاید ہی کہیں سے ملتا تو ملتا۔ انہوں نے مصوری کے علاوہ ادب میں اعلیٰ تعلیم کی تحصیل پر بھی بہت زور دیا۔،،

    خاکے کے یہ پارے ہمیں ممتاز پاکستانی مصور شاکر علی کے فن و شخصیت کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ شاکر علی ایسے فن کار تھے جنھیں زندگی میں کینوس کے سوا کچھ بھی شاید عزیز نہ رہا ہوگا۔ انھوں نے اپنے گھر کو بھی تخلیقی ذوق اور شوقِ اختراع کا نمونہ بنا دیا تھا۔ یہ گارڈن ٹاؤن میں ان کا وہ مکان تھا جسے لوگ دور دور سے دیکھنے آتے تھے۔ دراصل شاکر علی نے اس گھر میں جلی ہوئی اینٹیں استعمال کی تھیں اور اسے آرٹ کا نمونہ بنا دیا تھا۔ ایسی اینٹیں عام لوگ تو پھینک دیا کرتے تھے۔ مگر افسوس کہ اس گھر کو تعمیر کرنے کے بعد شاکر علی زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ سکے۔ حکومت نے بعد میں اس گھر کو ’شاکر علی میوزیم‘ کا درجہ دے دیا۔

    شاکر علی فنِ خطّاطی میں جدّت اور خوش رنگ تجربات کرنے والے پاکستانی مصوّروں میں‌ سے بھی ایک ہیں۔ انھوں نے قرآنی آیات کو تجریدی انداز میں کینوس پر اتارا اور بہت متاثر کن کام کیا۔ شاکر علی نے آیاتِ قرآنی کو جس طرح کینوس پر اتارنے کا سلسلہ شروع کیا تھا، اس سے متاثر ہو کر پاکستان کے دیگر مصوّروں جن میں‌ حنیف رامے، صادقین، آفتاب احمد، نیر احسان رشید، گل جی کے نام شامل ہیں، نے بھی اپنی کاوش کی اور اس فن کو ترقی دی۔

    حکومتِ پاکستان نے شاکر علی کے فن اور خدمات کے اعتراف میں انھیں‌ 1962ء میں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا۔ 1971ء میں وہ ستارۂ امتیاز سے نوازے گئے اور بعد میں‌ شاکر علی یادگاری ٹکٹ کا اجرا کیا گیا۔ مصور شاکر علی لاہور میں گارڈن ٹاؤن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • عبدالرّحمٰن چغتائی: عالمی شہرت یافتہ مصوّر کا تذکرہ

    عبدالرّحمٰن چغتائی: عالمی شہرت یافتہ مصوّر کا تذکرہ

    پاکستان میں فنِ مصوّری میں عبدالرّحمٰن چغتائی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ انھوں نے اسلامی، ہندو مت، بدھ ازم کے ساتھ مغل دور اور پنجاب میں زندگی کو اس تسلسل اور کمال سے اپنے فن پاروں میں پیش کیا کہ مصوّرِ مشرق مشہور ہوئے۔ عبدالرحمٰن چغتائی کے فن پارے دنیا کی مشہور آرٹ گیلریوں میں موجود ہیں۔

    17 جنوری 1975ء کو عبدالرحمٰن چغتائی لاہور میں انتقال کرگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن کے ’لوگو‘ عبدالرّحمٰن چغتائی کی ہی اخترا ع اور ان کے کمالِ فن کا نمونہ ہیں۔

    نام ور مصوّر عبدالرّحمٰن چغتائی نے 21 ستمبر 1897ء کو لاہور میں آنکھ کھولی۔ ان کا تعلق عہدِ شاہ جہانی کے مشہور معمار خاندان سے تھا، اور اس گھرانے کے ہنر مندوں نے تاج محل، جامع مسجد دہلی، اور لال قلعہ دہلی کے نقشے تیار کیے تھے۔ عبدالرحمٰن چغتائی کے دادا رنجیت سنگھ کے میرِ تعمیرات بھی رہے۔ چغتائی صاحب کو مصوری کا شوق ہوا تو ابتدائی کوششوں کے ساتھ انھوں نے باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے 1914ء میں میؤ اسکول آف آرٹس لاہور میں داخلہ لیا اور ڈرائنگ کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کرلیا، پھر استاد میراں بخش سے مصوّری کے اسرار و رموز سیکھے اور پھر میؤ اسکول میں ہی تدریس کے پیشے سے وابستہ ہوئے۔ 1919ء میں جب انھوں نے ہندوستانی مصوّری کی ایک نمائش میں شرکت کی تو اپنے فن کی پذیرائی نے بڑا حوصلہ دیا۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے فن پارے کلکتہ کے رسالے ’’ماڈرن ریویو‘‘ میں اشاعت کے لیے بھیجے جنھیں بہت سراہا گیا۔ یوں چغتائی کا پہلا شاہکارِ فن 1919ء میں وجود میں آیا اور دنیائے مصوری میں ان کی آمد کا شور بھی ہوا۔ چغتائی صاحب نے اس فن میں جداگانہ اسلوب اور فن کارانہ روش اختیار کی اور یہ اس قدر مشہور ہوا کہ اس اسلوب کو ’’چغتائی آرٹ ‘‘ کا نام دے دیا گیا۔ انھوں نے اقبال اور غالب کی شاعری کو اپنے فن کی بدولت نقشِ‌ دل پذیر بنا دیا۔ ان کی یہ کاوش ہم عصروں میں چغتائی صاحب کی انفرادیت اور امتیاز بن گئی۔ ناقدین نے چغتائی صاحب کو دو روایتوں کا امین کہا ہے جو ایک طرف ترک، ایرانی اور مغل مصوری پر مبنی تھا تو دوسری جانب ہندوستانی مصوری کی بنیاد پر مبنی بنگالی آرٹ تھا۔

    عبدالرّحمٰن چغتائی کی برسی پر ان کی یاد تازہ کرتے ہوئے ہم ریاض احمد کی کتاب سے چند یادیں نقل کررہے ہیں جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنیں گی۔ وہ لکھتے ہیں:

    "چغتائی صاحب سرورق بنانے کا کوئی معاوضہ قبول نہیں کرتے تھے۔ وہ یہ کام اس نیّت سے کرتے تھے کہ ان کے فن کی زکوٰۃ نکلتی رہے۔ تقسیمِ ہند سے قبل برصغیر بھر سے جو فرمائش بھی انہیں ملی، انہوں نے اس کا احترام کیا اور سرورق بنا کر بھجوا دیا۔

    جان، انجان کی بات ہی نہیں تھی۔ اس پر میں نے کئی لوگوں کو حیران ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ انہیں یقین نہیں آتا تھا کہ واقعی چغتائی صاحب ان کی کتاب کا سرورق بنا دیں گے۔ اور وہ بھی بلا معاوضہ! لوگ سمجھتے تھے وہ کم از کم ہزاروں روپے مانگیں گے۔

    چغتائی صاحب ع کے بھی بے حد شوقین تھے۔ ہمیشہ سفید رنگ کی ایک خاص سائز کی پتنگ اڑاتے تھے۔ ہوا کا رُخ ہمارے گھر کی طرف ہوتا تو ان کی پتنگ کو دیکھتے ہی ہم پہچان جاتے کہ چغتائی صاحب شوق پورا کر رہے ہیں۔

    کبھی میں ابا جی (نذیر احمد چودھری) کی طرف سے سرورق بنانے کے لیے کہنے جاتا یا ان کے وعدے کے مطابق سرورق لینے کے لیے جاتا تو دروازے پر لگی گھنٹی بجاتا۔ وہ تیسری منزل کی کھڑکی کھول کر نیچے جھانکتے، مجھے دیکھتے اور کھڑکی بند کر کے خود سیڑھیاں اتر کر نیچے تشریف لاتے۔ ایسا وہ اس صورت میں کرتے تھے جب سرورق کے بارے میں کوئی بات سمجھانی ہوتی تھی۔ بصورتِ دیگر سرورق ایک چھینکے میں رکھ کر نیچے لٹکا دیتے تھے۔ سبزی بھی وہ یونہی خریدا کرتے تھے۔

    چغتائی صاحب تکلفات سے بے نیاز تھے۔ وہ اکثر بنیان اور دھوتی پہنے ہوتے۔ آخر میں انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا، شاید آسانی کی خاطر، کہ سرورق کو کلر اسکیم نہیں لگاتے تھے۔ مجھے کہتے: ”ریاض، بلاک بن جائے تو چار چھ پروف نکال لانا، اسی وقت رنگ لگا دوں گا۔ تُو نے کون سا دور سے آنا ہے۔ سامنے ہی تو پریس ہے۔“ میں کہتا: ”جی بہتر۔“

    اچھا چھپا ہوا سرورق دیکھ کر بے خوش ہوتے تھے اور دل کھول کر داد دیتے تھے۔ بلاک بننے میں بھی کوئی کسر رہ گئی ہوتی تو وہ فوراً بھانپ جاتے اور اس کی نشان دہی فرما دیتے۔”

    وہ ایک اچھے افسانہ نگار بھی تھے اور ان کے افسانوں پر مشتمل دو مجموعے بھی شایع ہوئے تھے۔

  • عسکری میاں ایرانی: پاکستان میں منی ایچر آرٹ کا بڑا نام

    عسکری میاں ایرانی: پاکستان میں منی ایچر آرٹ کا بڑا نام

    فنِ مصوّری کا ایک معروف نام عسکری میاں ایرانی کا ہے، جن کا خاص موضوع منی ایچر آرٹ رہا ہے۔ نیشنل کالج آف آرٹس سے فارغ التحصیل عسکری میاں ایرانی نے اس میڈیم میں خوب جم کر کام کیا اور ان کے فن پارے آج بھی مختلف آرٹ گیلریز کی زینت ہیں۔ آج عسکری میاں ایرانی کی برسی ہے۔

    مصوری کی دنیا میں عسکری میاں ایرانی کا نام ایسے پاکستانی کے طور پر لیا جاتا ہے جنھوں نے منی ایچر آرٹ کو بڑی لگن اور سنجیدگی سے آگے بڑھایا اور فن پارے تخلیق کیے۔ اس فن سے متعلق محققین کا خیال ہے کہ گیارھویں اور بارھویں صدی عیسوی میں کتابوں میں شامل تصویروں سے جس مصوری کا آغاز ہوا تھا وہ آگے چل کر مِنی ایچر آرٹ کی شکل میں سامنے آئی۔ ہندوستان میں مغلیہ دور اور پھر برطانوی راج میں بھی مصوری کی اس صنف یعنی مِنی ایچر آرٹ پر توجہ نہیں‌ دی گئی، جب کہ قیامِ پاکستان کے بعد بھی 1980ء میں جا کر نیشنل کالج آف آرٹس نے مِنی ایچر پیٹنگز کو عجائب گھروں سے آرٹ گیلریوں تک پہنچانا شروع کیا تھا۔ 1982ء میں پہلی مرتبہ نیشنل کالج آف آرٹس نے مِنی ایچر آرٹ کا ڈیپارٹمنٹ قائم کیا۔ اس فن کے استاد بھی بہت اس زمانے میں‌ گنے چنے تھے۔

    عسکری میاں ایرانی 10 جنوری 2004ء کو لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ ان کا اصل نام عسکری میاں زیدی تھا۔ 30 جنوری 1940ء کو سہارن پور میں پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد عسکری میاں ایرانی لاہور میں رائل پارک کے علاقے میں آن بسے۔ اس دور میں فلمی دنیا میں بڑے بڑے ہورڈنگز اور پوسٹروں کا رواج تھا اور کئی چھوٹے فن کار ہی نہیں ماہر مصور بھی یہ کام کرتے تھے۔ ان کے ساتھ اکثر وہ لوگ بھی ہاتھ بٹاتے تھے جو فنِ مصوّری سیکھنا چاہتے تھے۔ عسکری میاں ایرانی بھی اکثر فلمی پینٹرز کو ہورڈنگ بناتے دیکھتے۔ یہیں سے ان کو مصوّری کا شوق ہوا۔ ابتدائی کوششوں اور اس فن میں دل چسپی لینے کے بعد میں انھوں نے نیشنل کالج آف آرٹس سے باقاعدہ مصوّری کی تعلیم حاصل کی اور پھر بسلسلۂ روزگار کراچی چلے گئے۔ اس شہر میں ان کا فنی سفر بھی جاری رہا اور عسکری میاں ایرانی نے 1976ء میں نیشنل کالج آف آرٹس میں تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ وہ سنہ 2000ء تک اس ادارے میں فنِ مصوّری کی تعلیم دیتے رہے اور نئے آرٹسٹوں کی تربیت کی۔ عسکری میاں ایرانی ایک ماہر خطاط بھی تھے۔ فنِ مصوّری میں ان کا خاص موضوع تو منی ایچر پینٹنگ ہی رہا لیکن اسی فن کو اسلامی خطاطی سے ہم آمیز کر کے انھوں نے شہرت بھی پائی۔ 1984ء سے 1992ء تک عسکری میاں ایرانی کے فن پاروں کی نمائش’’نقش کہنہ برنگِ عسکری‘‘ کے نام سے ہوتی رہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے عسکری میاں ایرانی کو 2002ء میں صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی دیا اور بعد از مرگ 2006ء میں محکمۂ ڈاک نے ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا۔ عسکری میاں ایرانی لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • احمد سعید ناگی: فنِ مصوّری کا ایک بڑا نام

    احمد سعید ناگی: فنِ مصوّری کا ایک بڑا نام

    پاکستان میں فنِ مصوّری میں نام و مقام بنانے والوں میں احمد سعید ناگی بھی شامل ہیں جو کو بانیِ پاکستان کا پورٹریٹ بنانے کا اعزاز حاصل ہوا۔ آج احمد سعید ناگی کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ یکم ستمبر 2006ء کو وفات پاگئے تھے۔

    پاکستانی مصوّر احمد سعید ناگی کو عام طور پر اے ایس ناگی لکھا بھی جاتا ہے۔ وہ 1916ء میں متحدہ ہندوستان کے مشہور شہر امرتسر میں پیدا ہوئے۔ احمد سعید ناگی 1944ء میں لاہور منتقل ہوگئے تھے۔ یہاں وہ مسلم لیگ کے شعبۂ تشہیر و تعلقات کے لیے کام کرتے رہے۔ تاہم چند برس بعد امرتسر چلے گئے اور وہاں شادی کر لی۔ لیکن اسی زمانے میں تقسیمِ‌ ہند کا اعلان ہوا اور قیامِ پاکستان کے بعد 1947ء میں اے ایس ناگی پاکستان آگئے۔ ہجرت کے بعد انھوں نے کراچی میں سکونت اختیار کی۔ احمد سعید ناگی نے دہلی کیمبرج اسکول دریا گنج کی استانی مس بکلے سے آرٹ کی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور ساتھ ہی رقص بھی سیکھا۔ مجسمہ سازی شیخ احمد سے جب کہ ایس جی ٹھاکر سنگھ سے رنگوں کو برتنا سیکھا۔ بعدازاں‌ فرانس کے شہرۂ آفاق شہر پیرس چلے گئے جہاں‌ پورٹریٹ بنانے کا سلسلہ جاری رہا اور ان کے کام میں نکھار آتا چلا گیا۔ کراچی لوٹنے پر احمد سعید ناگی نے پاکستان کے دیہی ماحول اور ثقافتی پس منظر کو پینٹ کرنے کا مشغلہ اپنایا۔

    پاکستانی مصور احمد سعید ناگی نے ہڑپّہ، موہن جو دڑو، ٹیکسلا کو بھی فنِ مصوّری میں موضوع بنایا۔ پاکستان اور اس کی ثقافت سے دل چسپی رکھنے والے احمد سعید ناگی کو حکومت نے ہوائی اڈّوں اور ان کے وی آئی پی لاؤنجز کی تزئین و آرائش کا کام بھی سونپا۔ انھوں نے پلاسٹر آف پیرس اور دھاتوں سے مجسمہ سازی بھی کی۔ احمد سعید ناگی نے اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک دوروں‌ میں‌ مشہور عمارتوں‌، دفاتر اور ہوٹلوں کی تزئین و آرائش کی اور میورلز بنائے۔ اے ایس ناگی اس پر نازاں رہے کہ قائد اعظم کی پہلی اور واحد پورٹریٹ انھوں نے بنائی تھی۔ یہ 1944ء کی بات ہے۔

    احمد سعید ناگی خوش لباس، ہنس مکھ، ملنسار اور محبّت والے انسان مشہور تھے۔ اس باکمال مصوّر کے فن پاروں کی نمائش ملک اور بیرونِ ملک بھی ہوئی جن میں پیرس، برطانیہ، امریکا، ایران، بھارت شامل ہیں جہاں شائقین اور ناقدینِ فن نے ان کے کام کو سراہا۔ احمد سعید ناگی کے بنائے ہوئے فن پارے زیارت ریذیڈنسی جب کہ کوئٹہ، کراچی، اور پشاور کے گورنر ہاؤس میں‌ سجائے گئے۔ ان کا کام موہٹہ پیلس، قصر ناز اور لاہور میں‌ پنجاب اسمبلی بلڈنگ میں‌ بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • پکاسو: جنگ اور نفرت کے خلاف رنگوں کو استعمال کرنے والا مصوّر

    پکاسو: جنگ اور نفرت کے خلاف رنگوں کو استعمال کرنے والا مصوّر

    شہرۂ آفاق مصوّر پابلو پکاسو کو دنیا امن کے پیام بر کی حیثیت سے بھی جانتی ہے بیسویں صدی کا لینن انعام یافتہ یہ مصوّر 8 اپریل 1973ء کو چل بسا۔ فنِ مصوّری میں پکاسو کو اس کے کمال کے سبب شہرت ہی نہیں ملی بلکہ اس کے فن پارے بھی مہنگے داموں فروخت ہوئے۔

    ہسپانوی مصوّر پکاسو کے فن پارے دنیا بھر کی مشہور و معروف آرٹ گیلریوں زینت ہیں اور آج بھی ان کی نمائش کے موقع پر بڑی تعداد میں لوگ ان گیلریوں کا رخ کرتے ہیں اور بڑے بڑے میوزیم میں پکاسو کے شاہ کاروں کے لیے ایک گوشہ مخصوص کیا گیا ہے۔

    پابلو پکاسو 1881ء میں ملاگا، اسپین میں پیدا ہوا۔ اس کے والد ایک آرٹ ٹیچر تھے۔ پکاسو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ غیر معمولی ذہین بچّہ تھا۔ اس کا خاندان بارسلونا منتقل ہو گیا تھا جہاں فرانس اور شمالی یورپ سے آرٹ اور اس فن میں‌ نئے تصورات پر مباحث شروع ہوچکے تھے۔ کم عمری ہی میں پکاسو ڈرائنگ میں‌ دل چسپی لینے لگا تھا اور اس کے والد نے اپنے بیٹے کے اس شوق کو دیکھتے ہوئے اس کی حوصلہ افزائی کی اور اسے خاکہ نویسی اور ڈرائنگ سکھانا شروع کردی۔ والد نے پکاسو کو آرٹ اکیڈمی میں داخلہ دلوا دیا۔ وہاں پکاسو کو باقاعدہ ڈرائنگ اور فائن آرٹ سیکھنے اور بڑے بڑے مصوّرں کے فن کو جاننے اور سمجھنے کا موقع بھی ملا۔ بعد کے برسوں میں‌ پکاسو نے اپنے فن کی بدولت تجریدی آرٹ کی دنیا میں نام و مرتبہ پایا۔

    1900ء میں پکاسو پیرس چلا گیا جہاں بڑے بڑے مصوّر اور آرٹ کے قدر دان بھی موجود تھے۔ اس وقت تک پکاسو اپنے فنی سفر کا آغاز کرچکا تھا اور پیرس جاکر وہاں کی زندگی کو کینوس پر اتارنے لگا۔ پکاسو اسپین میں اس فن کی باریکیوں اور رنگوں کا استعمال اچھی طرح سیکھنے کے بعد جب پیرس پہنچا تو یہاں اسے فن و فکر کے نئے زاویے اور انداز کو قریب سے دیکھنے اور اسے سمجھنے کا موقع ملا اور پھر 1907ء میں اس کی ملاقات ایک اور مصوّر براک سے ہوئی۔ انھوں نے مل کر بڑا کام کیا اور پھر جنگِ عظیم چھڑ گئی۔ اس دوران پکاسو نے مختلف سیاسی نظریات، سماجی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا اور اسے خود بھی بہت کچھ سہنا پڑا جس کو پکاسو نے اپنی تصویروں میں اجاگر کیا۔ پکاسو نے پیرس کے مشہور فن کاروں سے تعلقات استوار کر لیے تھے اور ان کی حوصلہ افزائی سے پکاسو نے فن مصوّری میں مزید اپنی صلاحیتوں کو آزمایا۔

    ’’گورنیکا‘‘ اس کا وہ شاہ کار ہے جو 1937ء میں سامنے آیا جس میں کٹے ہوئے سر والے بیل، کٹے ہوئے ہاتھ اور پیر کی ایک شکل کے ذریعے اس نے فاشزم اور جنگ کی بربریت اور تباہ کاریوں کی انتہائی مؤثر تصویر پیش کی۔ یہ فن پارہ دنیا بھر میں مشہور ہے۔ پکاسو نے جنگ اور اس کی تباہ کاریاں دیکھی تھیں اور اسی لیے وہ امن کا داعی بن گیا تھا۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہٹلر کی مخالف قوتوں کا مددگار رہا۔ پکاسو نے فاشزم کے خلاف مزاحمت کی اور اپنی فکر اور زاویۂ نگاہ سے دنیا کو متاثر کرنے والے سیکڑوں تصویریں اور خاکے بنائے جنھیں آج بھی دنیا کی بڑی اور مشہور گیلریوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کی امن پسندی اور اس کے لیے عملی کوششوں پر اسے لینن پرائز دیا گیا تھا۔

  • عسکری میاں‌ ایرانی: پاکستان میں‌ مِنی ایچر آرٹ کا ایک معروف نام

    عسکری میاں‌ ایرانی: پاکستان میں‌ مِنی ایچر آرٹ کا ایک معروف نام

    فنِ مصوّری اور منی ایچر آرٹ کے حوالے سے عسکری میاں ایرانی کا نام پاکستان کے چند معروف مصوّروں‌ میں شامل ہے۔ وہ نیشنل کالج آف آرٹس سے فارغ التحصیل تھے اور مِنی ایچر آرٹ ان کا خاص موضوع تھا۔ آج عسکری میاں ایرانی کی برسی ہے۔

    کہا جاتا ہے کہ عسکری میاں ایرانی ان آرٹسؤں میں سے ایک تھے جنھوں نے پاکستان میں منی ایچر آرٹ کو بڑی لگن اور سنجیدگی سے اپنایا اور خوب جَم کر کام کیا۔ محققین کا خیال ہے کہ گیارھویں اور بارھویں صدی عیسوی میں کتابوں میں شامل تصویروں سے جس فن کا آغاز ہوا تھا وہ آگے چل کر مِنی ایچر آرٹ کہلایا۔ ہندوستان میں مغلیہ دور اور پھر برطانوی راج میں بھی مِنی ایچر آرٹ پر توجہ نہیں‌ دی گئی، اور قیامِ پاکستان کے بعد بھی 1980ء میں جاکر نیشنل کالج آف آرٹس نے مِنی ایچر پیٹنگز کو عجائب گھروں سے آرٹ گیلریوں تک پہنچانا شروع کیا تھا۔ 1982ء میں پہلی مرتبہ نیشنل کالج آف آرٹس نے مِنی ایچر آرٹ کا ڈیپارٹمنٹ قائم کیا۔ اس فن کے اساتذہ بھی بہت اس زمانے میں‌ بہت کم تھے۔

    عسکری میاں ایرانی 10 جنوری 2004ء کو لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ ان کا اصل نام عسکری میاں زیدی تھا۔ وہ 30 جنوری 1940ء کو سہارن پور میں پیدا ہوئے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد عسکری میاں ایرانی لاہور میں رائل پارک کے علاقے میں اقامت پذیر ہوئے۔ اس دور میں فلمی دنیا میں بڑے بڑے ہورڈنگز اور پوسٹروں کا رواج تھا اور کئی چھوٹے بڑے فن کار یہ کام کرتے تھے۔ ان کے ساتھ اکثر وہ لوگ بھی ہاتھ بٹاتے تھے جو فنِ مصوّری سیکھنا چاہتے تھے۔ عسکری میاں ایرانی بھی اکثر فلمی پینٹرز کو ہورڈنگ بناتے دیکھتے تھے۔ یہیں سے ان کو مصوّری سے شغف ہوا۔ بعد میں انھوں نے نیشنل کالج آف آرٹس سے باقاعدہ مصوّری کی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد ملازمت کے سلسلے میں کراچی چلے گئے۔

    عسکری میاں ایرانی نے 1976ء میں نیشنل کالج آف آرٹس میں تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا۔ وہ سنہ 2000ء تک اس ادارے میں فنِ مصوّری کی تعلیم اور نئے آرٹسٹوں کی تربیت کرتے رہے۔ عسکری میاں ایرانی صرف مصوّر ہی نہیں ماہر خطاط بھی تھے۔ فنِ مصوّری میں ان کا خاص موضوع تو منی ایچر پینٹنگ ہی رہا جب کہ اپنے اسی فن کو انھوں نے بہت خوب صورتی سے اسلامی خطاطی سے ہم آمیز کرکے شہرت پائی۔ 1984ء سے 1992ء تک عسکری میاں ایرانی کے فن پاروں کی نمائش’’نقش کہنہ برنگِ عسکری‘‘ کے نام سے ہوتی رہیں۔

    عسکری میاں ایرانی کو حکومتِ پاکستان نے 2002ء میں صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا جب کہ ان کی وفات کے بعد 2006ء میں محکمۂ ڈاک نے ان کی تصویر اور ایک فن پارے سے مزین یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا تھا۔

    پاکستان میں فنِ مصوّری اور منی ایچر کے حوالے سے معروف عسکری میاں ایرانی لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • استاد اللہ بخش:‌ فنِ‌ مصوّری میں پاکستان کی پہچان

    استاد اللہ بخش:‌ فنِ‌ مصوّری میں پاکستان کی پہچان

    خداداد صلاحیتوں کے مالک اور فنِ مصوّری میں پاکستان کا نام روشن کرنے والے اللہ بخش کو ‘بابائے فطرت’ کہا جاتا ہے۔ استاد اللہ بخش نے ماڈرن لینڈ اسکیپ اور تشبیہی نقّاشی (Figurative painting) میں اپنے فن و کمال کی بدولت بین الاقوامی سطح پر توجہ اور شہرت پائی۔ 1978ء میں آج ہی کے دن استاد اللہ بخش وفات پاگئے تھے۔

    استاد اللہ بخش کی فنِ مصوّری میں مہارت اور کمال اُن کی لگن، ریاضت اور مسلسل مشق کا نتیجہ تھا۔ انھوں نے کم عمری میں پینٹ اور برش کا استعمال سیکھ لیا تھا، لیکن فنِ‌ مصوّری کی بنیادی تعلیم منی ایچر پینٹنگ کے ماہر استاد عبد اللہ سے حاصل کی۔ وہ نوعمری میں تشہیری بورڈ پینٹ کرنے کا کام کرنے لگے تھے۔ بعد میں استاد اللہ بخش نے بمبئی، کلکتہ میں مختلف ایسے اداروں سے وابستگی اختیار جو تشہیری پینٹنگ، سینری اور پورٹریٹ بنانے کا کام کرتے تھے۔ اس دوران ان کا رنگوں اور برش سے گہرا تعلق قائم ہوا اور وہ تجربہ کار پینٹر بن گئے۔ کچھ عرصہ بعد وہ لاہور لوٹے اور ایک اخبار میں کمرشل آرٹسٹ کے طور پر کام کرنے لگے اور بعد میں ایک مصوّر کی حیثیت سے انھوں نے پنجاب کی دیہاتی زندگی اور ثقافت کو کینوس پر اتارنا شروع کیا اور یہی پینٹنگ دنیا بھر میں ان کی وجہِ‌ شہرت بنیں۔ استاد اللہ بخش نے پنجاب کی رومانی داستانوں کو اپنی تصاویر کا موضوع بنایا اور مشہوور کرداروں جن میں ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال اور مرزا صاحباں شامل ہیں، انھیں اپنے مصوّرانہ تخیل سے کینوس پر منتقل کرکے خوب داد پائی۔

    استاد اللہ بخش کا تعلق پنجاب کے شہر وزیر آباد سے تھا جہاں انھوں نے 1895ء میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد کرم دین محکمہ ریلوے کی ورک شاپ میں رنگ ساز تھے۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ شروع ہی سے استاد اللہ بخش کو گھر میں رنگ اور برش سے کھیلنے کا موقع ملا تھا۔ وہ دیہات کے حسن اور قدرتی ماحول میں‌ پلے بڑھے تھے جس نے انھیں فطرت کا دلدادہ بنا دیا تھا۔ والد کا انتقال اس وقت ہوا جب اللہ بخش صرف سات برس کے تھے اور اب گھر چلانے کی ذمہ داری ان کی تھی۔ وہ اپنی بہنوں میں اکلوتے بھائی تھے۔ اللہ بخش نے انگریزی حروف تہجی لکھنا سیکھے اور ریلوے میں ہی ٹرین کے ڈبوں پر لکھنے اور روغن کرنے کا کام کرنے لگے۔ یوں روزی روٹی کا آسرا ہوگیا۔ اس دوران اللہ بخش نے تصویریں بنانا شروع کر دیں اور مسلسل مشق جاری رکھی۔ نقل کرتے ہوئے ان کا ہاتھ اتنا صاف ہوگیا کہ انھیں لاہور میں تھیٹر کے پردے بنانے کی آفر ہوئی جسے اللہ بخش نے قبول کرلیا اور بعد میں ان کو آغا حشر کے تھیٹر سے بھی وابستہ ہونے کا موقع ملا۔

    ایک بار بمبئی سے کچھ فن کار لاہور آئے اور وہاں استاد اللہ بخش کے بنائے ہوئے پردے دیکھے۔ انہی کے کہنے پر اللہ بخش نے قسمت آزمانے کے لیے بمبئی کا رخ کیا تھا۔ وہاں ابتداً ایک پینٹر کی دکان پر چہرے اور ہندو دیوتاؤں کی تصویریں بنانے کا کام کرنے لگے۔ یہ تصاویر شاید اس زمانے میں وہاں کے لیے لوگوں کے لیے نئی چیز تھی۔ ان کا خوب شہرہ ہوا۔ لوگ دھڑا دھڑ ان سے تصویر بنانے لگے اور کاروبار خوب چمکا۔ 1919ء میں انھیں شملہ فائن آرٹس سوسائٹی کی جانب سے انعام سے نوازا گیا تھا اور اخبارات نے انھیں بمبئی کا ماسٹر پینٹر کہا، مگر اس حوصلہ افزائی کے باوجود وہ سب کچھ چھوڑ کر لاہور واپس آگئے۔ وہ سیلانی طبیعت کے سبب کسی ایک جگہ جم کر کام نہیں کر پائے۔ استاد اللہ بخش آبی، روغنی ، ٹیمپرا اور پوسٹر رنگوں کے علاوہ چاک وغیرہ میں بھی بڑی مہارت سے کام کرتے تھے۔ پنجاب کے دیہات کی روزمرّہ زندگی کی تصویر کشی کے علاوہ انھوں نے زرخیز میدانی علاقوں اور وہاں کی لوک داستانوں کو اپنے فن میں پیش کیا۔ ان کی حقیقت سے قریب تر پینٹنگز رنگوں، زندگی اور جیتے جاگتے لوگوں سے بھرپور تھیں، جس نے دیکھنے والوں کو بہت متاثر کیا۔

    1924ء میں مہاراجہ جموں کشمیر نے انھیں کورٹ پینٹر کی ملازمت کی پیشکش کی، جہاں وہ تقریباً 1938ء تک خدمات انجام دیتے رہے۔ اس عرصے میں انھوں نے بہت سی تصاویر بنائیں، جب کہ ماقبل 1928ء میں ممبئی میں ایک تصویری نمائش میں ان کی ایک تصویر کو اوّل انعام دیا گیا تھا۔ استاد اللہ بخش کا کام فنِ‌ مصوری میں‌ عالمی سطح پر بھی زیرِ بحث آیا۔

    استاد اللہ بخش کے لاہور میوزیم میں کئی فن پارے رکھے گئے ہیں جو شائقین کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔ حکومت پاکستان نے استاد اللہ بخش کو ’تمغائے حسنِ کارکردگی‘ سے نوازا تھا۔

  • اے ایس ناگی: قائدِ‌اعظم کا پورٹریٹ بنانے والے ممتاز پاکستانی مصوّر

    اے ایس ناگی: قائدِ‌اعظم کا پورٹریٹ بنانے والے ممتاز پاکستانی مصوّر

    پاکستان میں فنِ مصوّری کے میدان میں‌ اپنے کام کی بدولت شناخت بنانے والوں‌ میں‌ احمد سعید ناگی بھی شامل ہیں جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ یکم ستمبر 2006ء میں وفات پانے والے احمد سعید ناگی کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ بانیِ پاکستان نے ان سے اپنا پورٹریٹ بنوایا۔

    وہ اے ایس ناگی کے نام سے بھی معروف تھے۔ 1916ء میں متحدہ ہندوستان کے مشہور شہر امرتسر میں پیدا ہونے والے احمد سعید ناگی 1944ء میں لاہور منتقل ہوگئے تھے۔ یہاں وہ مسلم لیگ کے شعبۂ تشہیر و تعلقات کے لیے کام کر رہے تھے۔ تاہم چند برس بعد امرتسر چلے گئے اور وہاں شادی کر لی۔ لیکن اسی زمانے میں تقسیمِ‌ ہند اور قیامِ پاکستان عمل میں‌ آیا اور یوں‌ 1947ء میں اے ایس ناگی پاکستان آگئے اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔

    احمد سعید ناگی نے دہلی کیمبرج اسکول دریا گنج کی استانی مس بکلے سے آرٹ کی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور ساتھ ہی رقص بھی سیکھا۔ مجسمہ سازی شیخ احمد سے جب کہ ایس جی ٹھاکر سنگھ سے رنگوں کو برتنا سیکھا۔ بعدازاں‌ فرانس کے شہرۂ آفاق شہر پیرس چلے گئے جہاں‌ پورٹریٹ بنانے کی مشق کی۔ کراچی لوٹنے پر احمد سعید ناگی نے پاکستان کے دیہی ماحول اور ثقافتی پس منظر کو پینٹ کرنے کا مشغلہ اپنایا۔

    پاکستانی مصور احمد سعید ناگی نے ہڑپّہ، موہن جو دڑو، ٹیکسلا کو بھی اپنے فنِ مصوّری کا موضوع بنایا۔ پاکستان اور اس کی ثقافت سے دل چسپی رکھنے والے احمد سعید ناگی کو حکومت نے ہوائی اڈّوں اور ان کے وی آئی پی لاؤنجز کی تزئین و آرائش کا کام بھی سونپا۔ انھوں نے پلاسٹر آف پیرس اور دھاتوں سے مجسمہ سازی بھی کی۔ احمد سعید ناگی نے اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک دوروں‌ میں‌ مشہور عمارتوں‌، دفاتر اور ہوٹلوں کی تزئین و آرائش کی اور میورلز بنائے۔ اے ایس ناگی اس پر نازاں رہے کہ قائد اعظم کی پہلی اور واحد پورٹریٹ انھوں نے بنائی تھی۔ یہ 1944ء کی بات ہے۔

    احمد سعید ناگی باکمال مصوّر تو تھے ہی، وہ خوش لباس شخصیت، ہنس مکھ، ملنسار اور محبّت کرنے والے انسان بھی مشہور تھے۔

    پاکستان کے اس باکمال مصوّر کے فن پاروں کی نمائش ملک کے مختلف شہروں کے علاوہ پیرس، برطانیہ، امریکا، ایران، بھارت میں‌ کی گئی جہاں شائقینِ فن اور ناقدین نے ان کے کام کو بہت پسند کیا۔

    احمد سعید ناگی کے بنائے ہوئے فن پارے زیارت ریذیڈنسی جب کہ کوئٹہ، کراچی، اور پشاور کے گورنر ہاؤسز میں‌ سجائے گئے اور موہٹہ پیلس، قصر ناز اور لاہور میں‌ پنجاب اسمبلی بلڈنگ میں‌ بھی موجود ہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • پاکستان کے نام وَر مصوّر اور خطّاط شاکر علی کی برسی

    پاکستان کے نام وَر مصوّر اور خطّاط شاکر علی کی برسی

    شاکر علی پاکستان کے ممتاز مصوّر تھے جو 27 جنوری 1975ء کو اس جہانِ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوئے۔ انھیں پاکستان میں تجریدی مصوّری کا بانی کہا جاتا ہے۔ شاکر علی خطّاطی کے فن میں جدّت اور اپنے تجربات کے لیے بھی مشہور ہوئے۔

    نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے پرنسپل کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے شاکر علی کا وطن رام پور تھا جہاں انھوں نے 6 مارچ 1914ء کو آنکھ کھولی۔ مصوّری کی ابتدائی تعلیم جے جے اسکول آف آرٹس، بمبئی سے حاصل کی اور بعد میں برطانیہ سے فن مصوّری کا تین سالہ کورس مکمل کیا۔ مصوّری کی باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ وہ کچھ عرصہ فرانس کے ممتاز مصوّر آندرے لاہوتے (Andre L’Hote) کے زیرِ تربیت بھی رہے اور ان سے بہت کچھ سیکھا۔

    1951ء میں پاکستان آنے کے بعد شاکر علی لاہور کے میو اسکول آف آرٹس سے وابستہ ہوگئے جسے آج نیشنل کالج آف آرٹس کہا جاتا ہے۔ 1961ء میں وہ اس کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے اور اپنی وفات سے دو برس قبل تک 1973ء اسی عہدے پر فائز رہے۔

    شاکر علی نے آیاتِ قرآنی کو تجریدی انداز میں کینوس پر اتارنے کا جو سلسلہ شروع کیا اس سے متاثر ہوکر پاکستان کے دیگر نام ور مصوّروں جن میں‌ حنیف رامے، صادقین، آفتاب احمد، نیر احسان رشید، گل جی کے نام شامل ہیں، بھی اس طرف متوجہ ہوئے اور اس فن کو بامِ عروج تک پہنچایا۔

    پاکستان کے اس نام ور مصور اور خطّاط کی رفاقت میں گزرے دنوں کی یاد تازہ کرتے ہوئے ایک جگہ ڈاکٹر محمد اجمل لکھتے ہیں: ’’یہ مجھے یاد ہے کہ شاکر علی سے میری پہلی ملاقات غالباً 1949ء میں لندن میں ہوئی تھی۔ یہ بھی مجھے یاد ہے کہ ڈاکٹر مقبول احمد اور مسعود کے توسط سے ہوئی تھی، لیکن بہت جلدی واسطے پیچھے رہ گئے اور بلاواسطہ ہم دوست بن گئے۔

    شاکر علی کی شخصیت میں ایک خاص قسم کی معصومیت اور بے تکلفی تھی، جو صرف غالباً صحیح اور فطری فن کاروں میں ہوتی ہے۔ جب وہ سلیڈ اسکول میں پڑھتے تھے تو اکثر مجھے اپنے کمرے میں لے جاتے کہ میں ان کی نئی تصویر دیکھوں۔ جب وہ مجھے تصویر دکھاتے تو ان کے چہرے پر خوشی کی ایک سرخ موج دوڑ جاتی اور آنکھوں میں ایک چمک پیدا ہو جاتی۔ بعض اوقات میں تعریف کے ساتھ کوئی تنقیدی فقرہ بھی کہہ دیتا تو وہ کہتے ”یار کہتے تو تم ٹھیک ہو لیکن یہ مجھے اسی طرح اچھی لگتی ہے۔“

    ان سے پوچھتے کہ فن کیا ہوتا ہے؟ فن کار کیا ہوتا ہے تو ان کے ماتھے پر پسینہ آ جاتا اور وہ کوئی جواب نہ دیتے یا یہ کہہ دیتے، ”یار مجھے نہیں معلوم۔“

    حکومتِ پاکستان نے شاکر علی کو ان کی خدمات کے اعتراف میں 1962ء میں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا جب کہ 1971ء میں انھیں ستارۂ امتیاز سے نوازا گیا۔

    شاکر علی لاہور کے گارڈن ٹاؤن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔