Tag: مصور برسی

  • فطرت اور پنجاب کی دیہی زندگی کے حُسن کو کینوس پر اتارنے والے غلام رسول کا تذکرہ

    فطرت اور پنجاب کی دیہی زندگی کے حُسن کو کینوس پر اتارنے والے غلام رسول کا تذکرہ

    لینڈ اسکیپ فن پارے غلام رسول کے تخلیقی جوہر اور فنی مہارت کا وہ نمونہ ہیں جن کا مشاہدہ اور مطالعہ نوآموز اور فائن آرٹسٹ کے طالبِ علموں کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع دیتا ہے۔ انھوں نے اپنے ان فن پاروں میں‌ پنجاب کی دیہی زندگی کو پیش کیا ہے۔

    آج غلام رسول کی برسی ہے۔ پاکستان کے اس نام وَر مصوّر نے 2009ء میں وفات پائی تھی۔

    غلام رسول کا تعلق جالندھر سے تھا۔ انھوں نے 20 نومبر 1942ء کو اس جہانِ رنگ و بُو میں‌ آنکھ کھولی۔ وہ شروع ہی سے فطرت اور قدرتی مناظر میں‌ کشش محسوس کرتے تھے اور زندگی کے مختلف رنگوں میں دل چسپی لیتے تھے۔ ان کے مشاہدے کی عادت اور تخلیقی شعور نے انھیں آرٹ کی طرف مائل کیا اور ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے باقاعدہ فائن آرٹ کی تعلیم حاصل کی۔

    1964ء میں غلام رسول نے پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ فنونِ لطیفہ سے ایم اے کی سند حاصل کی تھی اور اسی شعبے میں تدریس کا سلسلہ شروع کردیا۔ بعد میں امریکا چلے گئے جہاں غلام رسول نے فائن آرٹس کے شعبے میں‌ داخلہ لیا اور 1972ء میں ڈگری لے کر وطن لوٹے۔

    اس وقت تک وہ فن پارے تخلیق کرنے اور اپنی پینٹنگ کے لیے پہچان بناچکے تھے۔ 1974ء میں وہ پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس سے وابستہ ہوئے اور ڈائریکٹر جنرل کے عہدے تک ترقّی پائی۔

    غلام رسول نے مصوّری میں لینڈ اسکیپ کو اپنی توجہ اور دل چسپی کا محور بنایا اور خوب کام کیا۔ انھیں پنجاب کی دیہی زندگی کو اپنے کینوس پر اتارنے والے مصوّروں میں اہم جانا جاتا ہے۔ دیہی ماحول اور فطرت کے حُسن پر غلام رسول کے فن پارے بے حد متاثر کن ہیں۔ انھیں‌ شائقین اور آرٹ کے ناقدین نے سراہا اور ان کے کام کی پذیرائی ہوئی۔

    غلام رسول کی فائن آرٹ کے شعبے میں خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • پاکستان کے نام وَر مصوّر اور مجسمہ ساز آذر زوبی کی برسی

    پاکستان کے نام وَر مصوّر اور مجسمہ ساز آذر زوبی کی برسی

    آذر زوبی پاکستان کے نام وَر مصوّر اور مجسمہ ساز تھے جن کا آج یومِ وفات ہے۔وہ یکم ستمبر 2001ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

    ان کا اصل نام عنایت اللہ تھا۔ وہ 28 اگست 1922ء کو قصور میں پیدا ہوئے۔ 1943ء میں میو اسکول آف آرٹ لاہور سے مصوّری کی تعلیم مکمل کی اور اسکالر شپ پر اٹلی سے فنِ مصوّری کی مزید تعلیم حاصل کرنے چلے گئے۔ 1950ء سے 1953ء تک اٹلی میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1954ء میں وطن لوٹے اور پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فائن آرٹس میں اپنے فن پاروں کی پہلی سولو نمائش کی۔ بعد ازاں کراچی منتقل ہوگئے۔

    آذر زوبی نے کراچی میں‌ 1956ء میں شعور کے نام سے ایک ادبی جریدہ بھی جاری کیا۔ انھوں نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے اسکول آف آرٹس میں تدریس کے فرائض انجام دیے اور اس اسکول کے پرنسپل رہے۔ 1968ء میں آذر زوبی نے اسکول آف ڈیکور کے نام سے مصوری، مجسمہ سازی اور درون خانہ آرائش کی تربیت کا ایک ادارہ قائم کیا۔

    انھیں 1980ء میں حکومتِ پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ آذر زوبی کراچی میں ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

  • یومِ وفات: مصوّر احمد سعید ناگی جن سے قائدِاعظم نے اپنا پورٹریٹ بنوایا

    یومِ وفات: مصوّر احمد سعید ناگی جن سے قائدِاعظم نے اپنا پورٹریٹ بنوایا

    یکم ستمبر 2006ء کو پاکستان کے نام و‌َر مصوّر احمد سعید ناگی کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ انھیں قائدِ اعظم کو روبرو بٹھا کر ان کا پورٹریٹ بنانے کا اعزاز حاصل تھا۔

    احمد سعید ناگی باکمال مصوّر، ایک خوش لباس، ہنس مکھ، ملن سار اور محبّت کرنے والے فن کار مشہورتھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    احمد سعید ناگی لاہور سے معاش کی تلاش میں‌ کراچی آئے تھے اور زندگی کا سفر اسی شہر میں تمام کیا۔ وہ 2 فروری 1916ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے امرتسر، لاہور، دہلی کی درس گاہوں سے تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد پیرس کا رخ کیا اور اعلیٰ تعلیم مکمل کر کے وطن لوٹے۔

    احمد سعید ناگی نے 1944 میں قائدِاعظم کا پورٹریٹ بنایا تھا۔

    پاکستان کے اس باکمال مصوّر کے فن پاروں کو ملک کے مختلف شہروں کے علاوہ پیرس، برطانیہ، امریکا، ایران، بھارت میں‌ نمائش کے لیے سجایا گیا جہاں شائقین اور ناقدین نے ان کے کام کو دیکھا اور سراہا۔

    احمد سعید ناگی کے مختلف فن پارے زیارت ریذیڈنسی، گورنر ہائوس کوئٹہ، گورنر ہائوس کراچی، موہٹہ پیلس، قصر ناز، گورنر ہائوس پشاور اور پنجاب اسمبلی بلڈنگ لاہور میں آویزاں ہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے فنِ مصوری میں ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • نام وَر مصوّر اور خطّاط شاکر علی کا یومِ وفات

    نام وَر مصوّر اور خطّاط شاکر علی کا یومِ وفات

    پاکستان کے ممتاز مصوّر اور نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے پرنسپل شاکر علی 27 جنوری 1975ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ شاکر علی پاکستان میں تجریدی مصوّری کے بانی کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ انھوں نے فنِ خطّاطی میں‌ تجرید کے لیے بھی شہرت پائی۔

    6 مارچ 1914ء کو رام پور میں پیدا ہونے والے شاکر علی نے مصوّری کی ابتدائی تعلیم جے جے اسکول آف آرٹس، بمبئی سے حاصل کی۔ اس کے بعد انھوں نے انگلستان سے فن مصوّری کا تین سالہ کورس کیا۔ شاکر علی نے مصوّری کی باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ کچھ عرصہ فرانس کے ممتاز مصوّر آندرے لاہوتے (Andre L’Hote) کے ساتھ بھی کام کیا اور ان سے بہت کچھ سیکھا۔

    1951ء میں شاکر علی پاکستان آنے کے بعد لاہور کے میو اسکول آف آرٹس سے وابستہ ہوگئے جسے آج نیشنل کالج آف آرٹس کہا جاتا ہے۔ 1961ء میں وہ اس کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے اور اپنی وفات سے دو برس قبل 1973ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔

    شاکر علی نے آیاتِ قرآنی کو تجریدی انداز میں کینوس پر اتارنے کا جو سلسلہ شروع کیا اس سے متاثر ہوکر پاکستان کے دیگر نام ور مصوّروں جن میں‌ حنیف رامے، صادقین، آفتاب احمد، نیر احسان رشید، گل جی کے نام شامل ہیں، انھوں نے اپنایا اور اس فن کو بامِ عروج تک پہنچایا۔

    حکومتِ پاکستان نے شاکر کے فن اور اس حوالے سے ان کی خدمات کے اعتراف میں 1962ء میں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا اور 1971ء میں ستارہ امتیاز سے نوازا۔ شاکر علی لاہور کے گارڈن ٹائون کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔