Tag: مصور مشرق

  • یومِ وفات: ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن کے ’لوگو‘ عبدالرّحمٰن چغتائی کی اختراع ہیں

    یومِ وفات: ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن کے ’لوگو‘ عبدالرّحمٰن چغتائی کی اختراع ہیں

    ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن کے ’لوگو‘ عبدالرّحمٰن چغتائی کی اختراع ہیں۔ انھیں مصوّرِ مشرق بھی کہا جاتا ہے۔ آج پاکستان کے اس ممتاز مصوّر کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 1975ء میں وفات پاگئے تھے۔

    عبدالرّحمٰن چغتائی کا یومِ پیدائش 21 ستمبر 1897ء ہے۔ ان کا تعلق لاہور سے تھا۔ ان کے بزرگ شاہجہاں دور میں مشہور معمار رہے تھے۔ 1914ء میں میو اسکول آف آرٹس، لاہور سے امتحان پاس کرنے والے عبدالرّحمٰن چغتائی نے استاد میراں بخش سے فنِ مصوّری میں استفادہ کیا۔ وہ رنگوں اور موقلم کے ساتھ تخلیقی کام کرنے لگے اور ساتھ ہی میو اسکول میں تدریس کا سلسلہ بھی شروع کردیا۔

    1919ء میں لاہور میں ہندوستانی مصوّری کی ایک نمائش منعقد ہوئی جس نے عبدالرّحمٰن چغتائی کو باقاعدہ فنی سفر شروع کرنے پر آمادہ کیا اور اس کے بعد انھوں نے اپنی تصاویر کلکتہ کے رسالے ماڈرن ریویو میں اشاعت کے لیے بھیجیں۔ ان کی یہ تصاویر شایع ہوئیں اور چغتائی صاحب کا فن شائقین اور ناقدین کے سامنے آیا تو ہر طرف ان کی دھوم مچ گئی۔

    عبدالرّحمن چغتائی نے اسی زمانے میں فنِ مصوّری میں اپنے اس جداگانہ اسلوب کو اپنایا جو بعد میں‌ چغتائی آرٹ کے نام سے مشہور ہوا اور ان کی پہچان و شناخت بن گیا۔ وہ دو روایتو ں کے امین تھے، ایک طرف ترک، ایرانی اور مغل مصوری تھی تو دوسری جانب ہندوستانی مصوری کی بنیاد پر مبنی بنگالی آرٹ تھا، جس کا سرا دو ہزار سال پہلے کے ایلورا اور اجنتا کے غاروں میں بنائی گئی تصاویر سے جا ملتا ہے۔ یہ اسکول آف آرٹ اٹھارہویں صدی کے درمیان سے لے کر انیسویں صدی کے آغاز تک ہندوستانی مصوری کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھا، جب کہ شوخ رنگوں والی ترکی اور ایرانی مصوری کے اثرات جب منی ایچر میں منتقل ہوئے تو ان کے اثر سے چغتائی بھی نہ بچ سکے۔ اسی لیے ہمیں چغتائی کے اسلوب میں دونوں فن ملے جلے نظر آتے ہیں۔

    مصوّرِ مشرق نے اسلامی، ہندو، بدھ ازم، مغل اور پنجاب کے موضوعات پر فن پارے تخلیق کیے۔ ان کی تصاویر آج بھی دنیا کی ممتاز آرٹ گیلریوں میں آویزاں ہیں۔ علّامہ اقبال، پکاسو اور ملکہ الزبتھ دوم جیسی شخصیات بھی ان کے فن کی معترف تھیں۔ 1924ء کی ویمبلے نمائش میں لاکھوں شائقین نے ان کے فن پاروں کو دیکھا اور سراہا۔

    1928ء میں مرقعِ چغتائی شایع ہوا جس میں عبدالرّحمٰن چغتائی نے غالب کے کلام کی کینوس پر تشریح کی تھی۔ گویا انھوں نے شاعری کو رنگوں سے آراستہ کیا تھا اور یہ اردو میں اپنے طرز کی پہلی کتاب تھی جسے بڑی پذیرائی ملی۔ 1935ء میں غالب کے کلام پر مبنی ان کی دوسری کتاب نقشِ چغتائی شایع ہوئی۔ یہ کتاب بھی بے حد مقبول ہوئی۔

    عبدالرّحمٰن چغتائی موقلم ہی نہیں‌ قلم بھی تھامے رہے۔ انھوں نے افسانہ نگاری کی اور دو افسانوی مجموعے شایع کروائے۔

  • مصوّرِ مشرق، پتنگ بازی اور کلیجی کا رنگ!

    مصوّرِ مشرق، پتنگ بازی اور کلیجی کا رنگ!

    "چغتائی صاحب سرورق بنانے کا کوئی معاوضہ قبول نہیں کرتے تھے۔ وہ یہ کام اس نیّت سے کرتے تھے کہ ان کے فن کی زکوٰۃ نکلتی رہے۔ تقسیمِ ہند سے قبل برصغیر بھر سے جو فرمائش بھی انہیں ملی، انہوں نے اس کا احترام کیا اور سرورق بنا کر بھجوا دیا۔

    جان، انجان کی بات ہی نہیں تھی۔ اس پر میں نے کئی لوگوں کو حیران ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ انہیں یقین نہیں آتا تھا کہ واقعی چغتائی صاحب ان کی کتاب کا سرورق بنا دیں گے۔ اور وہ بھی بلا معاوضہ! لوگ سمجھتے تھے وہ کم از کم ہزاروں روپے مانگیں گے۔

    چغتائی صاحب کی کرم نوازی کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ وہ سرورَق بنانے کے لیے زیادہ وقت نہیں لیتے تھے۔ لاہور کے باہر آئے ہوئے لوگوں کو اسی روز یا دوسرے تیسرے دن فارغ فرما دیتے تھے۔ اور لاہور والوں کے ساتھ بھی اکثر و بیش تر یہی سلوک روا رکھتے تھے۔ ہاں ان کی طبیعت ناساز ہو یا کوئی اور گھریلو یا نمایشی مجبوری ہو تو بات دوسری تھی۔ وہ جو وعدہ فرماتے اس سے پہلے ہی کام تیار رکھتے بلکہ سرورق تیار کرتے ہی اپنے بھائی جناب عبدالرحیم چغتائی کے ہاتھ ہمیں بھجوا دیتے۔

    چغتائی صاحب پتنگ بازی کے بھی بے حد شوقین تھے۔ ہمیشہ سفید رنگ کی ایک خاص سائز کی پتنگ اڑاتے تھے۔ ہوا کا رُخ ہمارے گھر کی طرف ہوتا تو ان کی پتنگ کو دیکھتے ہی ہم پہچان جاتے کہ چغتائی صاحب شوق پورا کر رہے ہیں۔

    کبھی میں ابا جی (نذیر احمد چودھری) کی طرف سے سرورق بنانے کے لیے کہنے جاتا یا ان کے وعدے کے مطابق سرورق لینے کے لیے جاتا تو دروازے پر لگی گھنٹی بجاتا۔ وہ تیسری منزل کی کھڑکی کھول کر نیچے جھانکتے، مجھے دیکھتے اور کھڑکی بند کر کے خود سیڑھیاں اتر کر نیچے تشریف لاتے۔ ایسا وہ اس صورت میں کرتے تھے جب سر ورق کے بارے میں کوئی بات سمجھانی ہوتی تھی۔ بصورتِ دیگر سر ورق ایک چھینکے میں رکھ کر نیچے لٹکا دیتے تھے۔ سبزی بھی وہ یونہی خریدا کرتے تھے۔

    چغتائی صاحب تکلفات سے بے نیاز تھے۔ وہ اکثر بنیان اور دھوتی پہنے ہوتے۔ آخر میں انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا، شاید آسانی کی خاطر، کہ سرورق کو کلر اسکیم نہیں لگاتے تھے۔ مجھے کہتے: ”ریاض، بلاک بن جائے تو چار چھ پروف نکال لانا، اسی وقت رنگ لگا دوں گا۔ تُو نے کون سا دور سے آنا ہے۔ سامنے ہی تو پریس ہے۔“ میں کہتا: ”جی بہتر۔“

    ان کی ہدایت کے مطابق پروف لے کر جاتا تو دیکھتے ہی دیکھتے رنگ لگا کر میرے سپرد کر دیتے۔ اور مشکل رنگوں کے بارے میں سمجھا بھی دیتے کہ کن رنگوں کے امتزاج سے بنیں گے۔ اور اس میں کیا احتیاط ضروری ہے۔

    مجھے اچھی طرح یاد ہے ادا جعفری صاحبہ کے مجموعہ کلام ”میں ساز ڈھونڈتی رہی“ کے پروفوں کو رنگ لگا کر ایک رنگ کے بارے میں سمجھانے لگے کہ کیسے بنے گا۔ انہوں نے جب یہ دیکھا کہ میں ان کی بات سمجھ نہیں سکا ہوں تو فوراً ہنستے ہوئے کہنے لگے: ”گوشت والے کی دکان پر جا کر کلیجی دیکھ لینا۔ میں نے کلیجی کا رنگ لگایا ہے۔ بس ویسا ہی چھاپنا۔ نہیں تو بات نہیں بنے گی۔“

    اچھا چھپا ہوا سرورق دیکھ کر بے خوش ہوتے تھے اور دل کھول کر داد دیتے تھے۔ بلاک بننے میں بھی کوئی کسر رہ گئی ہوتی تو وہ فوراً بھانپ جاتے اور اس کی نشان دہی فرما دیتے۔”

    (ممتاز مصور عبدالرحمٰن چغتائی کے فن اور شخصیت سے متعلق ریاض احمد کی یادوں سے چند جھلکیاں)