Tag: مصور وفات

  • عسکری میاں‌ ایرانی: پاکستان میں‌ مِنی ایچر آرٹ کا ایک معروف نام

    عسکری میاں‌ ایرانی: پاکستان میں‌ مِنی ایچر آرٹ کا ایک معروف نام

    فنِ مصوّری اور منی ایچر آرٹ کے حوالے سے عسکری میاں ایرانی کا نام پاکستان کے چند معروف مصوّروں‌ میں شامل ہے۔ وہ نیشنل کالج آف آرٹس سے فارغ التحصیل تھے اور مِنی ایچر آرٹ ان کا خاص موضوع تھا۔ آج عسکری میاں ایرانی کی برسی ہے۔

    کہا جاتا ہے کہ عسکری میاں ایرانی ان آرٹسؤں میں سے ایک تھے جنھوں نے پاکستان میں منی ایچر آرٹ کو بڑی لگن اور سنجیدگی سے اپنایا اور خوب جَم کر کام کیا۔ محققین کا خیال ہے کہ گیارھویں اور بارھویں صدی عیسوی میں کتابوں میں شامل تصویروں سے جس فن کا آغاز ہوا تھا وہ آگے چل کر مِنی ایچر آرٹ کہلایا۔ ہندوستان میں مغلیہ دور اور پھر برطانوی راج میں بھی مِنی ایچر آرٹ پر توجہ نہیں‌ دی گئی، اور قیامِ پاکستان کے بعد بھی 1980ء میں جاکر نیشنل کالج آف آرٹس نے مِنی ایچر پیٹنگز کو عجائب گھروں سے آرٹ گیلریوں تک پہنچانا شروع کیا تھا۔ 1982ء میں پہلی مرتبہ نیشنل کالج آف آرٹس نے مِنی ایچر آرٹ کا ڈیپارٹمنٹ قائم کیا۔ اس فن کے اساتذہ بھی بہت اس زمانے میں‌ بہت کم تھے۔

    عسکری میاں ایرانی 10 جنوری 2004ء کو لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ ان کا اصل نام عسکری میاں زیدی تھا۔ وہ 30 جنوری 1940ء کو سہارن پور میں پیدا ہوئے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد عسکری میاں ایرانی لاہور میں رائل پارک کے علاقے میں اقامت پذیر ہوئے۔ اس دور میں فلمی دنیا میں بڑے بڑے ہورڈنگز اور پوسٹروں کا رواج تھا اور کئی چھوٹے بڑے فن کار یہ کام کرتے تھے۔ ان کے ساتھ اکثر وہ لوگ بھی ہاتھ بٹاتے تھے جو فنِ مصوّری سیکھنا چاہتے تھے۔ عسکری میاں ایرانی بھی اکثر فلمی پینٹرز کو ہورڈنگ بناتے دیکھتے تھے۔ یہیں سے ان کو مصوّری سے شغف ہوا۔ بعد میں انھوں نے نیشنل کالج آف آرٹس سے باقاعدہ مصوّری کی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد ملازمت کے سلسلے میں کراچی چلے گئے۔

    عسکری میاں ایرانی نے 1976ء میں نیشنل کالج آف آرٹس میں تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا۔ وہ سنہ 2000ء تک اس ادارے میں فنِ مصوّری کی تعلیم اور نئے آرٹسٹوں کی تربیت کرتے رہے۔ عسکری میاں ایرانی صرف مصوّر ہی نہیں ماہر خطاط بھی تھے۔ فنِ مصوّری میں ان کا خاص موضوع تو منی ایچر پینٹنگ ہی رہا جب کہ اپنے اسی فن کو انھوں نے بہت خوب صورتی سے اسلامی خطاطی سے ہم آمیز کرکے شہرت پائی۔ 1984ء سے 1992ء تک عسکری میاں ایرانی کے فن پاروں کی نمائش’’نقش کہنہ برنگِ عسکری‘‘ کے نام سے ہوتی رہیں۔

    عسکری میاں ایرانی کو حکومتِ پاکستان نے 2002ء میں صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا جب کہ ان کی وفات کے بعد 2006ء میں محکمۂ ڈاک نے ان کی تصویر اور ایک فن پارے سے مزین یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا تھا۔

    پاکستان میں فنِ مصوّری اور منی ایچر کے حوالے سے معروف عسکری میاں ایرانی لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • عظیم مصوّر عبدالرّحمٰن چغتائی اور پتنگ بازی

    عبدالرّحمٰن چغتائی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ فنِ‌ مصوّری میں انھوں نے اسلامی، ہندو، بدھ ازم، مغل اور پنجاب کی زندگی کو اس تسلسل اور کمال سے پیش کیاکہ مصوّرِ مشرق کہلائے۔ چغتائی صاحب کی تصاویر دنیا کی مشہور آرٹ گیلریوں میں موجود ہیں۔

    آج اس عظیم مصوّر کی برسی ہے۔ وہ 17 جنوری 1975ء کو لاہور میں انتقال کرگئے تھے۔ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن کے ’لوگو‘ عبدالرّحمٰن چغتائی کی ہی اخترا ع اور ان کے کمالِ فن کا نمونہ ہیں۔

    پاکستان کے عظیم مصوّر عبدالرّحمٰن چغتائی نے 21 ستمبر 1897ء کو لاہور میں آنکھ کھولی۔1914ء میں میؤ اسکول آف آرٹس لاہور سے ڈرائنگ کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کرنے کے بعد استاد میراں بخش سے مصوّری کے اسرار و رموز سیکھے اور پھر میؤ اسکول میں ہی تدریس کے پیشے سے منسلک ہو گئے۔ 1919ء میں جب انھوں نے ہندوستانی مصوّری کی ایک نمائش میں شرکت کی تو اپنے فن کی پذیرائی نے بڑا حوصلہ دیا۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے فن پارے کلکتہ کے رسالے ’’ماڈرن ریویو‘‘ میں اشاعت کے لیے بھیجے جنھیں بہت سراہا گیا۔ یوں چغتائی کا پہلا شاہکارِ فن 1919ء میں وجود میں آیا اور دنیائے مصوری میں ان کی آمد کا شور بھی ہوا۔ چغتائی صاحب نے اس فن میں جداگانہ اسلوب اور فن کارانہ روش اختیار کی اور یہ اس قدر مشہور ہوا کہ اس اسلوب کو ’’چغتائی آرٹ ‘‘ کا نام دے دیا گیا۔ انھوں نے اقبال اور غالب کی شاعری کو اپنے فن کی بدولت نقشِ‌ دل پذیر بنا دیا۔ ان کی یہ کاوش ہم عصروں میں چغتائی صاحب کی انفرادیت اور امتیاز بن گئی۔ ناقدین نے چغتائی صاحب کو دو روایتوں کا امین کہا ہے جو ایک طرف ترک، ایرانی اور مغل مصوری پر مبنی تھا تو دوسری جانب ہندوستانی مصوری کی بنیاد پر مبنی بنگالی آرٹ تھا۔

    عبدالرّحمٰن چغتائی کی برسی پر ان کی یاد تازہ کرتے ہوئے ہم ریاض احمد کی کتاب سے چند یادیں نقل کررہے ہیں جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنیں گی۔ وہ لکھتے ہیں:

    "چغتائی صاحب سرورق بنانے کا کوئی معاوضہ قبول نہیں کرتے تھے۔ وہ یہ کام اس نیّت سے کرتے تھے کہ ان کے فن کی زکوٰۃ نکلتی رہے۔ تقسیمِ ہند سے قبل برصغیر بھر سے جو فرمائش بھی انہیں ملی، انہوں نے اس کا احترام کیا اور سرورق بنا کر بھجوا دیا۔

    جان، انجان کی بات ہی نہیں تھی۔ اس پر میں نے کئی لوگوں کو حیران ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ انہیں یقین نہیں آتا تھا کہ واقعی چغتائی صاحب ان کی کتاب کا سرورق بنا دیں گے۔ اور وہ بھی بلا معاوضہ! لوگ سمجھتے تھے وہ کم از کم ہزاروں روپے مانگیں گے۔

    چغتائی صاحب ع کے بھی بے حد شوقین تھے۔ ہمیشہ سفید رنگ کی ایک خاص سائز کی پتنگ اڑاتے تھے۔ ہوا کا رُخ ہمارے گھر کی طرف ہوتا تو ان کی پتنگ کو دیکھتے ہی ہم پہچان جاتے کہ چغتائی صاحب شوق پورا کر رہے ہیں۔

    کبھی میں ابا جی (نذیر احمد چودھری) کی طرف سے سرورق بنانے کے لیے کہنے جاتا یا ان کے وعدے کے مطابق سرورق لینے کے لیے جاتا تو دروازے پر لگی گھنٹی بجاتا۔ وہ تیسری منزل کی کھڑکی کھول کر نیچے جھانکتے، مجھے دیکھتے اور کھڑکی بند کر کے خود سیڑھیاں اتر کر نیچے تشریف لاتے۔ ایسا وہ اس صورت میں کرتے تھے جب سرورق کے بارے میں کوئی بات سمجھانی ہوتی تھی۔ بصورتِ دیگر سرورق ایک چھینکے میں رکھ کر نیچے لٹکا دیتے تھے۔ سبزی بھی وہ یونہی خریدا کرتے تھے۔

    چغتائی صاحب تکلفات سے بے نیاز تھے۔ وہ اکثر بنیان اور دھوتی پہنے ہوتے۔ آخر میں انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا، شاید آسانی کی خاطر، کہ سرورق کو کلر اسکیم نہیں لگاتے تھے۔ مجھے کہتے: ”ریاض، بلاک بن جائے تو چار چھ پروف نکال لانا، اسی وقت رنگ لگا دوں گا۔ تُو نے کون سا دور سے آنا ہے۔ سامنے ہی تو پریس ہے۔“ میں کہتا: ”جی بہتر۔“

    اچھا چھپا ہوا سرورق دیکھ کر بے خوش ہوتے تھے اور دل کھول کر داد دیتے تھے۔ بلاک بننے میں بھی کوئی کسر رہ گئی ہوتی تو وہ فوراً بھانپ جاتے اور اس کی نشان دہی فرما دیتے۔”

  • ‘دا نائٹ واچ‘ کے خالق ریمبرانٹ کا تذکرہ

    ‘دا نائٹ واچ‘ کے خالق ریمبرانٹ کا تذکرہ

    ریمبرانٹ کو دنیا بھر میں‌ ہالینڈ کے سب سے زیادہ مشہور مصوّر کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ اس کی موت کو ساڑھے تین سو سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن آج بھی ریمبرانٹ کا فن اور بالخصوص سیلف پورٹریٹ زیرِ‌ بحث رہتے ہیں۔

    مصوّری کے فن میں‌ اپنی شاہ کار تصاویر کی بدولت نام پانے والے ریمبرانٹ نے 4 اکتوبر 1669ء کو یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔ فنونِ لطیفہ کے ماہرین اور مصوّری کے نقّاد ریمبرانٹ کو ایک نابغہ تسلیم کرتے ہیں اور اسے متاثر کن حد تک جدّت پسند مصوّر کہا جاتا ہے۔

    کہتے ہیں دنیا بھر میں ہالینڈ کے کسی اور مصوّر کی تخلیقات اتنی مشہور نہیں ہیں، جتنی کہ ریمبرانٹ کی ہیں۔ وہ اپنے پورٹریٹ بنانے کے لیے بھی مشہور ہے جنھیں اس مصوّر کے کمالِ فن کا شاہ کار مانا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ریمبرانٹ روزانہ کئی گھنٹے اپنی تصویر بنانے کے لیے کھڑا رہتا تھا۔

    عالمی شہرت یافتہ ریمبرانٹ کی ایک مشہور پینٹنگ ‘دا نائٹ واچ‘ کے نام سے آج بھی ڈچ شہر ایمسٹرڈم کے ‘رائکس میوزیم‘ میں موجود ہے۔ اس کی بنائی ہوئی چند دیگر تصاویر دنیا کی بڑی آرٹ گیلریز کی زینت ہیں اور شائقین کے ساتھ نوآموز فن کاروں کی توجہ کا مرکز بنتی ہیں۔

    ریمبرانٹ کے ابتدائی حالات اور اس کے خاندان کے بارے میں جو معلومات ملتی ہیں ان کے مطابق اس کے والد اناج پیسنے والی ایک چکّی کے مالک تھے۔ وہ ہالینڈ کے باسی تھے۔ ریمبرانٹ 1609ء میں پیدا ہوا اور ریمبرانٹ وان رائن کے نام سے زندگی کا سفر شروع کیا۔ اسے شروع ہی سے نقّاشی اور ایسے مختلف فنون سے لگاؤ پیدا ہو گیا تھا جو اسے مصوّری کی طرف لے گئے۔ ریمبرانٹ نے آئل پینٹنگز اور اسکیچز بھی بنائے اور اس میں مختلف تجربات کیے۔

    ماہرین کے مطابق وہ 16 ویں صدی کے اطالوی مصوّروں سے بہت زیادہ متاثر نظر آتا ہے۔ جب اس نے اپنے ہاتھ میں برش تھاما تو انہی مصوّروں کے زیرِ اثر تصویروں بنانا شروع کیں‌۔ تاہم اس کے فن کی خاص بات مختلف تخلیقی تجربات ہیں جس سے اس کے جنون اور وفورِ شوق کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہی وہ خصوصیت ہے جس نے ریمبرانٹ کے فن کو آج بھی زندہ رکھا ہے۔ نقّادوں کے مطابق وہ ایک ایسا اختراع پسند تھا جس نے تکنیکی طور پر اپنے فن پاروں کو جدّت اور انفرادیت سے سجایا اور یہی وجہ ہے کہ وہ تین صدیوں‌ سے زائد عرصہ بیت جانے کے باوجود بھی توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔ اس کی تصویریں زندہ و متحرک محسوس ہوتی ہیں اور اسی خوبی نے ریمبرانٹ کی شہرت برقرار رکھی ہے۔

    اس مصوّر کی انفرادیت اور اس کی تصاویر کا قابلِ‌ ذکر پہلو یہ بھی ہے کہ اس نے پینٹنگز کے ذریعے داستان گوئی اور قدیم و تاریخی واقعات کو خوب صورتی سے کینوس پر اتارا۔

    فنِ مصوّری کے ماہر اس بات کو ریمبرانٹ کا امتیازی وصف قرار دیتے ہیں کہ اس کی پینٹنگز میں‌ جسمانی حرکات و سکنات کو نہایت فن کارانہ چابک دستی اور مؤثر انداز سے پیش کیا گیا ہے، اور یہ کردار بولتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس کے فن پاروں میں روشنی اور مختلف رنگوں کا وہ متنوع تأثر ملتا ہے جسے مصوّر کی اختراع پسندی نے بے مثال بنا دیا ہے۔

    ریمبرانٹ کے سیلف پورٹریٹ کسی بھی دوسرے مصوّر کے مقابلے بہت زیادہ ہیں اور یہ شاید اسے بہت پسند تھا۔ اس مصوّر نے خود کو ایک ماڈل کے طور پر پیش کر کے فنِ مصوّری میں اپنی مہارت کا اظہار اور مختلف تجربات کیے۔ یہ اس کے زرخیز ذہن اور اس فن میں اس کے جنون کی علامت بھی ہے۔

  • مشہور پاکستانی مصّور استاد شجاع اللہ کی برسی

    مشہور پاکستانی مصّور استاد شجاع اللہ کی برسی

    20 اپریل 1980ء کو پاکستان کے مشہور مصور استاد شجاع اللہ وفات پاگئے تھے۔ وہ جامعہ پنجاب کے فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ اور نیشنل کالج آف آرٹس میں استاد رہے اور منی ایچر پینٹنگز میں اپنے کمالِ فن کے سبب پہچانے گئے۔

    استاد شجاع اللہ کی پیدائش الور کی ہے جہاں ان کے بزرگ دہلی سے آکر بسے تھے۔ انھوں نے 1912ء میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے دوران انھیں‌ مصوّری کا شوق ہو گیا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ان کے والد بھی اچھے مصوّر تھے اور انھیں دیکھ کر استاد شجاع کو بھی اس فن میں دل چسپی پیدا ہوئی۔

    شجاع اللہ کو ان کے والد نے منی ایچر پینٹنگ بنانے کے ساتھ اس پینٹنگ کے لیے خصوصی کاغذ، جسے وصلی کہا جاتا ہے، تیّار کرنے کی بھی تربیت دی۔ قیامِ پاکستان کے بعد استاد شجاع اللہ ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور راولپنڈی میں‌ سکونت اختیار کی، بعد میں لاہور منتقل ہوگئے اور وہیں‌ وفات پائی۔

    استاد شجاع اللہ منی ایچر پینٹنگ کے مختلف اسالیب جن میں دکنی اور مغل شامل ہیں، ان کے ماہر تھے۔ انھیں پاکستان میں حاجی محمد شریف کے بعد منی ایچر پینٹنگ کا سب سے بڑا مصوّر تسلیم کیا جاتا ہے۔

  • 8 اپریل: ’’گورنیکا‘‘ کے خالق نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لیں

    8 اپریل: ’’گورنیکا‘‘ کے خالق نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لیں

    بیسویں صدی کے مشہور مصوّر پابلو پکاسو 8 اپریل 1973ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج بھی دنیا بھر میں‌ اس ہسپانوی مصوّر کے فن پاروں کی نہ صرف نمائش کی جاتی ہے بلکہ مشہور میوزیموں میں پکاسو کے فن پاروں کے لیے ایک گوشہ مخصوص ہے۔

    پابلو پکاسو 1881ء میں ملاگا، اسپین میں ایک آرٹ ٹیچر کے ہاں پیدا ہوا۔ وہ غیر معمولی ذہین تھا۔ اس کا خاندان بارسلونا منتقل ہو گیا جہاں فرانس اور شمالی یورپ سے آرٹ اور اس فن میں‌ نئے تصورات پر مباحث شروع ہوچکے تھے۔ پکاسو نے کم عمری ہی میں ڈرائنگ میں‌ اپنی دل چسپی ظاہر کردی تھی اور والد نے بھی اس کے شوق کو دیکھتے ہوئے اسے آگے بڑھنے کا خوب موقع دیا۔

    وہ اس کی مدد کرتے، سکھاتے اور سمجھاتے جس کے بعد اس نے اکیڈمی میں داخلہ لے کر آرٹ سیکھا اور تصویریں بنانے لگا۔ بعد میں اس کے حصّے میں‌ وہ شہرت آئی جو اس زمانے کے کسی اور مصوّر کو نہیں ملی، اسے تجرید کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔

    1900ء میں پکاسو پیرس گیا۔ اس زمانے میں اس نے پیرس کی زندگی کو کینوس پر اتارا۔ وہ اس وقت تک فن کی بعض باریکیوں اور رنگوں کے استعمال کو اچھی طرح سمجھ چکا تھا اور 1907ء میں پکاسو کی ملاقات ایک اور مصوّر براک سے ہوئی۔ دونوں نے مل کر ایک طرز ایجاد کی، یہ سفر جاری رہا، جنگِ عظیم شروع ہوئی۔ مختلف سیاسی نظریات، سماجی تبدیلیوں اور بہت کچھ سہنے اور دیکھنے والے پکاسو نے اپنی تصویروں میں اس کا اظہار کیا۔

    1937ء میں اس کا شاہ کار فن پارہ ’’گورنیکا‘‘ سامنے آیا جس میں کٹے ہوئے سر والے بیل، کٹے ہوئے ہاتھ اور پیر کی ایک شکل کے ذریعے اس نے فاشزم اور جنگ کی بربریت اور تباہ کاریوں کو انتہائی مؤثر انداز میں پیش کیا۔ اس فن پارے کو دنیا بھر میں شہرت ملی۔ وہ امن کا داعی تھا، وہ ہٹلر کی مخالف طاقتوں کی مدد کرتا رہا۔ اس نے فاشزم کے خلاف مزاحمت کی۔ غرض یہ کہ پکاسو نے ہر سطح پر اپنی فکر اور زاویہ نگاہ سے دنیا کو متاثر کیا، اس نے سیکڑوں تصویریں اور خاکے بنائے جو دنیا کی بڑی اور مشہور گیلریوں میں موجود ہیں۔

    اس نے اپنی امن پسندی اور اس کے لیے عملی جدوجہد پر لینن پرائز بھی حاصل کیا، اس نے رنگوں کے علاوہ شاعری کو اپنے افکار اور جذبات کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ آرٹ کی دنیا اسے باکمال آرٹسٹ اور اس کے فن پاروں کو لازوال مانتی ہے۔