Tag: مصور کی برسی

  • نام وَر پاکستانی مصوّرہ لیلیٰ شہزادہ کی برسی

    نام وَر پاکستانی مصوّرہ لیلیٰ شہزادہ کی برسی

    پاکستان کی نام وَر مصوّرہ لیلیٰ شہزادہ 1994ء میں‌ آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ اپنے فن پاروں کی بدولت عالمی شہرت حاصل کرنے والی لیلیٰ شہزادہ کا موضوع سندھ کی تہذیب اور ثقافت رہا۔ وہ تجریدی آرٹ کے حوالے سے پہچانی جاتی ہیں‌۔

    لیلیٰ شہزادہ 1925ء میں انگلستان میں لٹل ہیمپٹن میں پیدا ہوئی تھیں۔ انھوں نے ڈرائنگ سوسائٹی، لندن سے مصوّری کی تعلیم حاصل کی اور اس فن کو باقاعدہ سیکھا۔ 1958ء سے 1960ء کے دوران وہ مشہور مصوّر اے ایس ناگی سے ملیں‌ اور ان سے مصوّری کی مزید تربیت حاصل کی۔

    لیلیٰ شہزادہ نے 1960ء میں کراچی میں اپنے فن پاروں‌ کی پہلی انفرادی نمائش منعقد کی جس نے انھیں یہاں قدر دانوں اور ناقدین میں متعارف کروایا، بعد کے برسو‌ں میں‌ ان کے فن پاروں‌ کو پاکستان کے مختلف شہروں کی آرٹ گیلریز میں سجایا گیا اور انھیں بہت پذیرائی ملی، اسی عرصے میں بیرونِ ملک بھی آرٹ گیلریوں تک ان کے فن پارے پہنچے اور وہاں‌ ان کی کام یاب نمائش کی گئی۔

    2006ء میں پاکستان پوسٹ نے‌ لیلیٰ شہزادہ یادگاری‌ ٹکٹ کا اجرا کیا تھا جب کہ حکومتِ‌ پاکستان نے اس مصورہ کو تمغہ امتیاز اور تمغہ حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔ لیلیٰ شہزادہ نے بیرونِ ملک بھی اپنے منفرد فن پاروں کی بدولت مختلف اعزازات اپنے نام کیے۔

  • معروف پاکستانی مصوّر اینا مولکا کی برسی

    معروف پاکستانی مصوّر اینا مولکا کی برسی

    پاکستان میں فائن آرٹ کے شعبے میں تعلیم و تربیت اور فنِ مصوّری کے فروغ کے لیے اینا مولکا احمد کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ آج اس نام ور مصوّرہ کی برسی ہے۔ وہ 20 اپریل 2005ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئی تھیں۔

    اینا مولکا نے 1917ء میں ایک یہودی جوڑے کے گھر میں آنکھ کھولی جو ان دنوں لندن میں مقیم تھا۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب انھوں نے رائل کالج آف آرٹس، لندن میں داخلہ لیا تو وہاں ان کی ملاقات شیخ احمد سے ہوئی جو خود بھی ایک اچھے مصوّر تھے۔ یہ 1935ء کی بات ہے۔ شیخ احمد سے دوستی محبت میں بدل گئی اور انھوں نے عمر بھر کے لیے ایک دوسرے کی رفاقت قبول کرلی۔ اینا مولکا نے اسلام قبول کیا اور 1939ء میں شیخ احمد سے شادی کے بعد تمام عمر پاکستان میں گزرا دی۔

    یہاں لاہور میں قیام کے دوران اینا مولکا نے پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ فنونِ لطیفہ کی بنیاد رکھی۔ اینا مولکا 1940ء سے 1972ء تک اس شعبے کی چیئرپرسن رہیں۔

    فن کی دنیا میں اس وقت کے ناقدین اور باذوق شخصیات نے اینا مولکا کے فن پاروں اور مصوّری کے شعبے میں ان کی‌ خدمات کو بہت سراہا اور ان کی شہرت ایک ایسی فن کار کے طور پر ہوئی جو یورپی طرزِ مصوّری میں ماہر تھیں، اس میں برش کے چھوٹے چھوٹے اسٹروکس سے تصویر مکمل کی جاتی ہے۔

    حکومتِ پاکستان نے اینا مولکا کو مصوّری کے شعبے میں ان کی خدمات کے اعتراف میں تمغہ امتیاز اور صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔ اینا مولکا لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • مشہور پاکستانی مصّور استاد شجاع اللہ کی برسی

    مشہور پاکستانی مصّور استاد شجاع اللہ کی برسی

    20 اپریل 1980ء کو پاکستان کے مشہور مصور استاد شجاع اللہ وفات پاگئے تھے۔ وہ جامعہ پنجاب کے فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ اور نیشنل کالج آف آرٹس میں استاد رہے اور منی ایچر پینٹنگز میں اپنے کمالِ فن کے سبب پہچانے گئے۔

    استاد شجاع اللہ کی پیدائش الور کی ہے جہاں ان کے بزرگ دہلی سے آکر بسے تھے۔ انھوں نے 1912ء میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے دوران انھیں‌ مصوّری کا شوق ہو گیا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ان کے والد بھی اچھے مصوّر تھے اور انھیں دیکھ کر استاد شجاع کو بھی اس فن میں دل چسپی پیدا ہوئی۔

    شجاع اللہ کو ان کے والد نے منی ایچر پینٹنگ بنانے کے ساتھ اس پینٹنگ کے لیے خصوصی کاغذ، جسے وصلی کہا جاتا ہے، تیّار کرنے کی بھی تربیت دی۔ قیامِ پاکستان کے بعد استاد شجاع اللہ ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور راولپنڈی میں‌ سکونت اختیار کی، بعد میں لاہور منتقل ہوگئے اور وہیں‌ وفات پائی۔

    استاد شجاع اللہ منی ایچر پینٹنگ کے مختلف اسالیب جن میں دکنی اور مغل شامل ہیں، ان کے ماہر تھے۔ انھیں پاکستان میں حاجی محمد شریف کے بعد منی ایچر پینٹنگ کا سب سے بڑا مصوّر تسلیم کیا جاتا ہے۔

  • نام وَر مصوّر حاجی محمد شریف کا یومِ وفات

    نام وَر مصوّر حاجی محمد شریف کا یومِ وفات

    آج پاکستان کے نام وَر مصوّر حاجی محمد شریف کی برسی ہے۔ حاجی محمد شریف 9 دسمبر 1978ء کو لاہور میں انتقال کرگئے تھے۔

    حاجی محمد شریف 1889ء میں ریاست پٹیالہ کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا اور والد دونوں ہی فنِ مصوّری میں‌ شہرت رکھتے تھے اور پٹیالہ کے درباری مصوّر تھے۔ یوں‌ انھیں‌ مو قلم اور رنگوں کا شوق بچپن ہی سے ہو گیا۔

    حاجی محمد شریف کو مصوّری کا فن ان کے والد بشارت اللہ خان کے ایک شاگرد لالہ شائو رام اور استاد محمد حسین خان نے سکھایا۔ 1906ء میں وہ بھی مہاراجہ پٹیالہ کے دربار سے وابستہ ہوگئے۔

    1924ء میں لندن میں‌ منی ایچر پینٹنگز کی نمائش منعقد ہوئی جس میں‌ حاجی محمد شریف کے فن پارے بھی شائقین و ناقدین کی نظر میں آئے اور انھیں زبردست پزیرائی ہوئی۔ انھیں ممبر آف برٹش ایمپائر کا اعزاز عطا کیا گیا۔

    1945ء میں وہ لاہور آگئے اور میو اسکول آف آرٹ میں مصوّری کی تعلیم دینے لگے۔ 1965ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد پنجاب یونیورسٹی کے فائن آرٹس ڈپارٹمنٹ سے بطور وزیٹنگ پروفیسر منسلک ہوئے اور طویل عرصہ تک مصوّری سکھاتے رہے۔

    حاجی صاحب کے فن کا شہرہ اتنا تھا کہ صدر ایوب خان اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو بھی ان کے قدر دانوں‌ میں شامل تھے۔ حکومتِ پاکستان نے فنِ مصوّری میں خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حاجی محمد شریف کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔

    حاجی محمد شریف لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔