Tag: مصور

  • بے روزگاری نے فنکار بنا دیا

    بے روزگاری نے فنکار بنا دیا

    کہتے ہیں خالی دماغ شیطان کا کارخانہ ہے۔ فارغ بیٹھنا اور کچھ نہ کرنا دماغ میں شیطانی خیالات کو جنم دیتا ہے اور دماغ مختلف منفی منصوبے بناتا ہے۔

    لیکن قازقستان سے تعلق رکھنے والے اس شخص نے اس مقولے کو غلط ثابت کردیا۔ قازقستان کے دارالحکومت آستانہ کے رہائشی کانت نامی اس شخص کا آرٹ سے کوئی تعلق نہیں اس کے باوجود اس نے آرٹ کے شاہکار تخلیق کر ڈالے۔

    بقول کانت، اس نے کبھی آرٹ کی تعلیم حاصل نہیں کی۔ وہ اپنی بیچلرز کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بے روزگار تھا تب ہی اسے کچھ نیا سیکھنے اور کچھ مختلف کرنے کا خیال آیا۔

    پہلے اس نے سیب پر مختلف اشکال تخلیق کر ڈالیں۔ اس کے لیے اسے کافی محنت اور پریکٹس کرنی پڑی لیکن آہستہ آہستہ وہ اس فن میں طاق ہوتا گیا۔

    1

    5

    2

    3

    اس کے بعد اس نے کاغذ پر مختلف شکلیں بنا کر انہیں مختلف طرح سے ترتیب دے ڈالا جس کے بعد وہ نہایت خوبصورت آرٹ کے نمونوں میں تبدیل ہوگئیں۔

    9

    10

    11

    12

    13

    7

    تو پھر کیا خیال ہے؟ اگر آپ بھی بے روزگار ہیں تو اس وقت سے فائدہ اٹھائیں اور اس فنکار کی طرح آپ بھی کچھ نیا تخلیق کر ڈالیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • عربی سے نابلد ہونے کے باوجود آپ ان الفاظ کا مطلب جان جائیں گے

    عربی سے نابلد ہونے کے باوجود آپ ان الفاظ کا مطلب جان جائیں گے

    لفظوں کو ان کے لغوی معنوں میں ڈھلتے دیکھنا ایک نہایت ہی دلچسپ مرحلہ ہوگا جو یقیناً لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرے گا۔

    مثال کے طور پر لفظ ’بلی‘ کو اگر آپ کے سامنے ایسی صورت میں پیش کیا جائے کہ پہلی نظر میں وہ آپ کو دیکھنے پر ایک بلی ہی معلوم ہو، تو یہ یقیناً ایک خوشگوار اور دلچسپ تجربہ ہوگا۔

    ایک عربی فنکار محمد السید نے ایسا ہی کچھ دلچسپ فن تخلیق کیا۔

    اس نے مختلف عربی الفاظ کو ان کے لغوی معنوں کی تصویر میں اس طرح ڈھالا کہ عربی سے نابلد افراد اسے دیکھتے ہی اس لفظ کا مطلب جان جائیں۔

    اس نے ان تصاویر کے ساتھ ان کا تلفظ اور انگریزی مطلب بھی پیش کیا۔

    محمد نے اس طرح کے 40 الفاظ کو رنگوں اور تصاویر میں ڈھالا۔ ان میں سے کچھ ہم آپ کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔

    6

    3

    2

    1

    5

    7

    10

    11

    13

    14

    4

    15

    12

    9

    8


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • کتابوں میں چھپی خفیہ مصوری

    کتابوں میں چھپی خفیہ مصوری

    کتاب یوں تو معلومات کا ذخیرہ ہوتی ہے اور پڑھنے والے کے علم میں بے پناہ اضافہ کرتی ہے، لیکن اگر کتاب کو مصوری کی صنف کے ساتھ جوڑ دیا جائے تو وہ فن کا شاہکار بن جاتی ہے۔

    انسانی تہذیب کے آغاز کے ساتھ ساتھ جہاں ہمیں ہر شعبے میں مختلف اور اپنے زمانے کے لحاظ سے جدید تکنیکیں نظر آتی ہیں وہیں فن مصوری میں بھی بے شمار جہتیں نظر آتی ہیں۔

    ایسی ہی ایک جہت فور ایڈج پینٹنگ ہے جو کتاب کے صفحوں کے بالکل کناروں پر کی جاتی ہے۔

    مزید پڑھیں: آرٹ گیلری میں قوس قزح

    یہ تصاویر کتاب کو ایک خاص زاویے پر رکھنے کے بعد ہی نظر آسکتی ہیں۔ اگر کتاب کو بند کردیا جائے یا مکمل کھولا جائے تب ان پینٹنگز کو دیکھنا ناممکن ہے۔

    انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کا کہنا ہے کہ اس فن کا آغاز یورپی قرون وسطیٰ کے دور میں ہوا مگر یہ سترہویں سے انیسویں صدی کے درمیان اپنے عروج پر پہنچا۔

    امریکی شہر بوسٹن کی پبلک لائبریری میں ایسی ہی کئی کتابوں کو مختلف مقامات سے لا کر جمع کیا گیا ہے جن پر مصوری کی یہ صنف کی گئی ہے۔

    آئیے آپ بھی یہ حیرت انگیز تصاویر دیکھیں۔

    art-1

    art-2

    art-3

    art-5

    art-4

    اور اب دیکھیں کہ یہ پینٹنگز بنائی کس طرح جاتی ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ضائع شدہ مومی رنگوں کا شاندار استعمال

    ضائع شدہ مومی رنگوں کا شاندار استعمال

    سان فرانسسکو: آپ کے بچے ڈرائنگ کرنے کے لیے موم کے بنے ہوئے یعنی کریون کلرز ضرور استعمال کرتے ہوں گے۔ استعمال کرنے کے بعد جب وہ چھوٹے ہوجاتے ہوں گے تو یقیناً آپ انہیں پھینک دیتے ہوں گے۔

    امریکا میں ایسے ہی ایک والد نے ان ضائع شدہ کریون کلرز کا شاندار استعمال ڈھونڈ نکالا۔

    c2

    سنہ 2011 میں برائن ویئر نامی یہ شخص اپنے بچوں کی سالگرہ کے موقع پر ایک ریستوران میں گیا جہاں اس کے بچوں کو کھانے کے ساتھ ایک ڈرائنگ بک اور کلرز بطور تحفہ دیے گئے۔

    بچوں نے خوشی کے مارے وہیں ڈرائنگ بک پر رنگ بھرے اور جاتے ہوئے کلرز وہیں چھوڑ گئے جنہیں بعد ازاں ریستوران انتظامیہ نے پھینک دیا۔

    مزید پڑھیں: رنگوں کے ذریعے ذہنی کیفیات میں خوشگوار تبدیلی

    برائن نے تھوڑی سی تحقیق کی تو اسے پتہ چلا کہ ہر سال ایسے بے شمار استعمال شدہ کریون کلرز پھینک دیے جاتے ہیں جن کا وزن 75 ہزار پاؤنڈز ہوتا ہے۔

    اس کے بعد برائن نے کریون اینیشی ایٹو کا آغاز کیا جس کے تحت اس نے ان استعمال شدہ رنگوں کو دوبارہ قابل استعمال بنا کر ان بچوں کو دینا شروع کردیا جو مختلف بیماریوں کا شکار ہوتے۔

    c3

    c4

    c5

    اس کے لیے وہ ان موم کے رنگوں کو پگھلا کر مشینوں میں نئے رنگوں میں ڈھال دیتا اور انہیں پیک کر کے کیلیفورنیا کے مختلف اسپتالوں میں دے دیتا۔

    c6

    c7

    c8

    اسپتالوں میں داخل بچے اسے پا کر بہت خوش ہوتے ہیں۔ یہ رنگ عارضی طور پر انہیں ان کی تکلیف بھلا دیتے ہیں اور وہ رنگوں اور تصاویر کی دنیا میں مگن ہوجاتے ہیں۔

    c9

    c10


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • نقیب اللہ محسود: مظلوم نوجوان کو مصوروں‌ کا خراج تحسین

    نقیب اللہ محسود: مظلوم نوجوان کو مصوروں‌ کا خراج تحسین

    کراچی: جعلی پولیس مقابلے کا نشانہ بننے والے بے گناہ نوجوان نقیب اللہ محسود کے لیے یوں‌ تو ہر پلیٹ فورم سے آواز اٹھی، مگر جو پہلا پلیٹ فورم اس کے حامیوں کو میسر آیا، وہ سوشل میڈیا تھا.

    یہ فیس بک اور ٹویٹر تھے، جہاں‌ سماجی مبصرین اور کارکنوں نے اس ظالمانہ اقدام کے خلاف آواز اٹھائی اور سندھ پولیس میں‌ موجود کالی بھیڑوں‌ کو بے نقاب کیا.جلد اس تحریک کو مرکزی دھارے کے میڈیا کا ساتھ مل گیا اور نقیب کا نام اعلیٰ ایوانوں‌ میں‌ بھی گونجنے لگا.

    اگر نقیب کے اہل خانہ کو سوشل میڈیا کا ساتھ نہ ملتا، تب نہ تو سابق ایس ایس پی ملیر کو معطل کرکے تحقیقات شروع کی جاتیں، نہ ہی کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں‌پختون قومی جرگہ ہوتا، جو آج لاپتا افراد کے اہل خانہ کی امیدوں‌ کا مرکز بن گیا ہے.

    نقیب اللہ محسود کی حمایت میں‌ جب ٹیوٹر پر Naqeeb اور JusticeForNaqib کے ہیش ٹیگ کے ساتھ ٹویٹ کا سلسلہ شروع ہوا، تو چند افراد نے اس خوبرو نوجوان کو رنگوں سے بھی خراج تحسین پیش کیا.

    ایک صارف عرفان آفریدی نے مذکورہ ٹیگ کے ساتھ ایک تصویر شیئر کی، جس میں‌ ٹرک کے پیچھے ایک مصور نقیب کی تصور پینٹ کر رہا ہے.

    یاد رہے کہ پاکستان میں‌ ٹرکوں‌ کو سجانے کا چلن عام ہے، فوجی حکمرانوں اور معروف فلمی ہستیوں کی تصاویر پینٹ کرنے کا سلسلہ برسوں سے جاری ہے. اب نقیب اللہ کا چہرہ ان مصوروں کی توجہ کا مرکز بن گیا، جو ہمیں‌ پیغام دیتا ہے کہ ظلم کے خلاف ہمیشہ آواز اٹھانی چاہیے.

    انسانی حقوق کمیشن نے نقیب اللہ کا قتل ماورائے عدالت قراردیدیا

    اسی طرح ایک ٹویٹر صارف نے یاسر چوہدری نے افغان مصور کی دو پینٹنگز شیئر کیں۔ ایک پینٹنگ میں زخمی نقیب کو دیکھا جاسکتا ہے، جس کے سر کے گرد منڈلاتا کوا قاتل کی علامت  ہے.

     

    یاد رہے کہ 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے خطرناک ملزمان کی گرفتاری کے لیے شاہ لطیف ٹاؤن میں چھاپے کا دعویٰ سامنے آیا تھا، دعوے میں‌ کہا گیا تھا کہ پولیس پارٹی پر دہشت گردوں نے فائرنگ کردی تھی، جس پر پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے 4 دہشت گردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا. ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا.

    بعد کی تحقیقات سے ثابت ہوا کہ نہ صرف نقیب اللہ، بلکہ مقابلے میں‌ قتل ہونے والے باقی افراد بھی بے گناہ تھے.


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔

  • پرانی کتابیں تاریخی مقامات میں تبدیل

    پرانی کتابیں تاریخی مقامات میں تبدیل

    جیسے جیسے دنیا آگے بڑھ رہی ہے کتاب پڑھنے کا رواج ختم ہورہا ہے اور اس کی جگہ اسمارٹ فونز اور ای بکس نے لے لی ہے۔

    ایسی کتابیں جو بہت زیادہ پرانی ہوجائیں، خستہ حال اور پڑھنے کے قابل نہ ہوں انہیں عموماً ردی میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ایسی ہی کتابوں کو دوبارہ قابل توجہ بنانے کے لیے ایک فرانسیسی نژاد آرٹسٹ نے نہایت انوکھا طریقہ ڈھونڈ نکالا۔

    گائے لارامی نامی یہ آرٹسٹ پرانی کتابوں کو جمع کر کے انہیں مشہور مقامات کی شکل میں تراش دیتا ہے۔

    وہ بہت سی کتابوں کو جمع کر کے انہیں کاٹ کر کسی مشہور تاریخی مقام (نقل) کی شکل دے دیتا ہے۔ ان کتابوں پر وہ قدیم قلعے، پہاڑ، دیواریں اور میدان تراشتا ہے۔

    لارامی نے اردن کے تاریخی مقام پیٹرا، دیوار چین اور بدھ مت کی قدیم عبادت گاہوں سمیت بے شمار تاریخی مقامات کو تخلیق کیا ہے۔

    وہ بتاتے ہیں کہ جب وہ ان کتابوں کو خوبصورت شکل میں ڈھال لیتے ہیں تو لوگ اسے بہت شوق سے خریدتے ہیں۔ ’لیکن پرانی کتابوں کو کوئی نہیں خریدنا چاہتا‘۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • افریقہ کے گاؤں میں مٹی کے خوبصورت منقش گھر

    افریقہ کے گاؤں میں مٹی کے خوبصورت منقش گھر

    مغربی افریقی ملک برکینا فاسو کے ایک گاؤں طیبیل میں یوں تو لوگ عام سے مٹی سے بنے ہوئے گھروں میں رہتے ہیں، لیکن ان گھروں کی دیواروں پر نہایت دیدہ زیب اور انوکھی نقش نگاری کر کے انہیں نہایت خوبصورت بنا دیا گیا ہے۔

    برکینا فاسو کا یہ گاؤں دنیا بھر میں اپنے ان خوبصورت منقش گھروں کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس گاؤں کو 15 صدی عیسوی میں بسایا گیا تھا۔

    یہاں کے لوگ گھر کی دیواروں پر نقش نگاری کے لیے مٹی اور چونے میں مختلف رنگوں کی آمیزش کردیتے ہیں۔ مردوں کو دفن کرنے کے لیے مخصوص مقام بھی اسی طرح کی نقش و نگاری سے آراستہ ہے۔

    دیواروں پر بنائے جانے والے یہ نقش، اشکال اور پیٹرنز قدیم افریقی ثقافت و مصوری کا حصہ ہیں۔ یہاں موجود افراد کے مطابق گھروں کی بیرونی دیواروں کو اس طرح رنگوں سے آراستہ کرنے کی روایت کا آغاز 16 صدی عیسوی سے ہوا۔

    ان گھروں کی ایک اور خاص بات ان کے چھوٹے دروازے ہیں۔ گھروں کا داخلی دروازہ نہایت مختصر سا ہوتا ہے جو دراصل دشمنوں سے بچنے کے مقصد کے پیش نظر رکھا جاتا ہے۔

    یہاں ایک اور روایت ہے کہ کسی گھر کے مکمل ہونے کے بعد گھر کا مالک رہائش اختیار کرنے سے قبل 2 دن تک انتظار کرتا ہے۔ اگر ان 2 دنوں میں گھر میں کوئی چھپکلی نظر آئے تو ایسے گھر کو قابل رہائش سمجھا جاتا ہے۔

    لیکن اگر گھر میں کوئی چھپکلی نہ دکھے تو اسے بدشگونی قرار دے گھر کو ڈھا دیا جاتا ہے۔

    اس گاؤں کے ثقافتی ورثے اور روایات کو دیکھتے ہوئے اسے سیاحتی مقام کا درجہ دینے پر غور کیا جارہا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ساون کے اس قدر حسین رنگ آپ نے پہلے کبھی نہیں دیکھے ہوں گے

    ساون کے اس قدر حسین رنگ آپ نے پہلے کبھی نہیں دیکھے ہوں گے

    بارش، برکھا رت، ساون، برسات۔۔ یہ الفاظ خود اپنے اندر ایک سحر انگیزی اور رومانویت سمیٹے ہوئے ہیں۔ یہ موسم آتے ہی ماحول نہایت خوبصورت ہوجاتا ہے اور ہمیں عام سی چیزوں میں وہ خوبصورتی نظر آنے لگتی ہے جو عام طور پر دکھائی نہیں دیتی۔

    تاہم ایک مصور کی نظر اور اس کا برش اس حسن کو دوبالا کردیتا ہے، جب وہ چند لمحوں پر محیط ان خوبصورت دھلے دھلائے مناظر کو اپنے کینوس میں ہمیشہ کے لیے قید کریتا ہے۔

    امریکی مصور جیف رولینڈ بھی ایسا ہی ایک مصور ہے جس کے آرٹ کی سب سے بڑی تحریک بارش کے حسین مناظر ہیں۔

    امریکا سے تعلق رکھنے والا جیف رولینڈ آرٹ اور تاریخ کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد عملی میدان میں آیا اور آہستہ آہستہ اس کا فن مقبول ہوتا چلا گیا۔

    جیف کہتا ہے، ’میں نے سینما کے پردے پر بارش کو نہایت مسحور کن اثر انداز میں دیکھا ہے۔ بارش اور بارش کے بعد خوبصورت دھلی دھلائی سڑکوں نے مجھے ہمیشہ بہت متاثر کیا ہے اور اسی خوبصورتی کو میں نے اپنے کینوس پر اتارنے کی کوشش کی ہے‘۔

    جیف کی اب تک امریکا اور برطانیہ میں کئی نمائشیں منعقد ہو چکی ہیں جنہیں بے حد تعریف اور پذیرائی ملی۔

    آئیں آپ بھی ان کی خوبصورت تصاویر دیکھیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • مفکر و شاعر خلیل جبران کا 135 واں یوم پیدائش

    مفکر و شاعر خلیل جبران کا 135 واں یوم پیدائش

    معروف مفکر، شاعر، اور مصور خلیل جبران کا آج 135 واں یوم پیدائش ہے۔ خلیل جبران شیکسپیئر کے بعد سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شاعر ہیں۔

    لبنان کے شہر بشری میں پیدا ہونے والے خلیل جبران نے اپنے خاندان کے ساتھ بہت کم عمری میں امریکا کی طرف ہجرت کرلی تھی۔ ان کی نصف ابتدائی تعلیم لبنان، جبکہ نصف امریکا میں مکمل ہوئی۔

    خلیل جبران مفکر شاعر ہونے کے ساتھ ایک مصور بھی تھے۔ انہوں نے اپنی مصوری میں قدرت اور انسان کے فطری رنگوں کو پیش کیا۔

    art-1

    جبران کی شہرہ آفاق کتاب ’دا پرافٹ (پیغمبر)‘ ہے جس میں انہوں نے شاعرانہ مضامین تحریر کیے۔ یہ کتاب بے حد متنازعہ بھی رہی۔ بعد ازاں یہ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن گئی۔

    خلیل جبران ایک مفکر بھی تھے۔ انہوں نے اپنے اقوال میں زندگی کے ایسے پہلوؤں کی طرف توجہ دلائی جو عام لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل تھے۔

    آئیے ان کے کچھ اقوال سے آپ بھی فیض حاصل کریں۔

    اگر تمہارا دل آتش فشاں ہے، تو تم اس میں سے پھول کھلنے کی توقع کیسے کرسکتے ہو؟

    میں نے باتونی سے خاموشی سیکھی، شدت پسند سے برداشت کرنا سیکھا، نامہربان سے مہربانی سیکھی، اور کتنی حیرانی کی بات ہے کہ میں ان استادوں کا شکر گزار نہیں ہوں۔

    خود محبت بھی اپنی گہرائی کا احساس نہیں کرپاتی جب تک وہ جدائی کا دکھ نہیں سہتی۔

    بے شک وہ ہاتھ جو کانٹوں کے تاج بناتے ہیں، ان ہاتھوں سے بہتر ہیں جو کچھ نہیں کرتے۔

    کیا یہ عجیب بات نہیں کہ جس مخلوق کی کمر میں مہرے نہیں، وہ سیپی کے اندر مہرہ دار مخلوق سے زیادہ پر امن زندگی بسر کرتی ہے۔

    تم جہاں سے چاہو زمین کھود لو، خزانہ تمہیں ضرور مل جائے گا۔ مگر شرط یہ ہے کہ زمین کامیابی کے یقین کے ساتھ کھودو۔

    گزرنے والا کل آج کی یاد ہے، آنے والا کل آج کا خواب ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • فرانس میں نہ ختم ہونے والی انوکھی آرٹ پرفارمنس

    فرانس میں نہ ختم ہونے والی انوکھی آرٹ پرفارمنس

    پیرس: یورپی ملک فرانس کے دارالحکومت پیرس میں آرٹ کے شائقین ایک انوکھی نمائش دیکھ کر حیران رہ گئے جس میں چند ڈانسرز ایک ترپال سے چھلانگ کر گردش کرنے والی سیڑھی پر چڑھ اور اتر رہے تھے۔

    پیرس میں پینٹھون تھیٹر میں ایک انوکھی آرٹ کی نمائش پیش کی گئی۔

    اس میں ایک ترپال کے گرد گردش کرتی ہوئی سیڑھیاں نظر آرہی ہیں جن پر کچھ ڈانسرز کھڑے ہیں۔ یہ ڈانسرز ترپال پر گرتے ہیں اور اچھل کر واپس سیڑھیوں پر پہنچ جاتے ہیں۔

    سیڑھیوں کی گردش کے ساتھ ان ڈانسرز کا مقام بھی تبدیل ہوتا جاتا ہے اور بظاہر یوں لگتا ہے کہ ترپال سے سیڑھی تک کا یہ سفر کبھی ختم نہیں ہوگا۔

    یہ آرٹ پرفارمنس اس قدیم یونانی بادشاہ سسیفس کی یاد دلاتی ہے جو ایک دھوکے کے آسرے میں ایک بڑے گول پتھر کو لڑھکا کر پہاڑ کی چوٹی تک لے جاتا اور جب وہ وہاں سے واپس پلٹ کر لڑھکتا ہوا آتا تو اس سے خود کو زخمی کرتا۔

    سسیفس کا خیال تھا کہ اس طرح سے وہ ہمیشہ زندہ رہ سکے گا تاہم اس کے اس گمراہ کن خیال کی وجہ سے اسے سزاوار قرار دیا گیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔