Tag: مصور

  • معروف مصور، قصہ گو اور افسانہ نگار تصدق سہیل انتقال کر گئے

    معروف مصور، قصہ گو اور افسانہ نگار تصدق سہیل انتقال کر گئے

    کراچی: پاکستان کے ممتاز مصور اور افسانہ نگار تصدق سہیل کراچی میں انتقال کر گئے۔ وہ کراچی کے علاقے کلفٹن کے ایک اسپتال میں کافی عرصے سے زیر علاج تھے۔

    تصدق سہیل سنہ 1930 میں بھارتی شہر جالندھر میں پیدا ہوئے۔ ہجرت کے وقت وہ لاہور آبسے، بعد ازاں اپنے خاندان کے ساتھ کراچی میں مقیم ہوگئے۔

    کراچی اس وقت فن و ادب کا مرکز تھا۔ جا بجا فن و ادب اور شاعری کی محفلیں سجتی تھیں۔ تصدق سہیل نے ان محفلوں میں جانا شروع کیا اور یہیں سے ان کا فن قصہ گوئی سامنے آیا۔

    سنہ 1961 میں وہ لندن چلے گئے اور یہاں سے انہوں نے مصوری کا آغاز کیا۔

    غالب کے مصرعے ’سیکھے ہیں مہ رخوں کے لیے ہم مصوری‘ کے مصداق شروع میں انہوں نے اپنے دوستوں کو متاثر کرنے کے لیے مصوری شروع کی، بعد ازاں مصوری ان کا جنون بن گئی۔

    انہوں نے اپنی زندگی میں بے تحاشہ فن پارے تخلیق کیے اور ان کی بے شمار نمائشیں منعقد ہوئیں، تاہم ان کے فن پاروں کا باقاعدہ ریکارڈ نہ رکھا جاسکا۔

    ان کی مصوری متنوع موضوعات پر مشتمل تھی اور انہوں نے برہنہ اجسام سے لے کر فطرت کے مناظر تک تخلیق کیے۔

    تصدق سہیل مصوری میں مغربی مصوروں پکاسو اور وان گوگ سے متاثر تھے جبکہ پاکستانی مصوروں میں کولن ڈیوڈ، صادقین اور بھارتی مصورہ امرتا شیر گل سے متاثر تھے۔

    تصدق سیل نے تجرد کی زندگی گزاری۔ وہ اس سے قبل اسلام آباد کے ایک اسپتال میں زیر علاج تھے جہاں سے ان کی حالت مزید خراب ہونے پر انہیں کراچی منتقل کیا گیا جہاں وہ کل شام 87 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پینٹنگز سے بنائی جانے والی دنیا کی پہلی فیچر فلم

    پینٹنگز سے بنائی جانے والی دنیا کی پہلی فیچر فلم

    کیا آپ جانتے ہیں کہ چند دہائی قبل تک شوق سے دیکھے جانے والے کارٹونز جنہیں 2 ڈی اینی میشن کہا جاتا ہے، کیسے بنائے جاتے تھے؟

    آج کل تو 3 ڈی اینی میٹڈ کارٹونز کا زمانہ ہے جو کمپیوٹر سے تخلیق کرنا بے حد آسان ہے۔ لیکن چند دہائی پہلے تک بنائے جانے والے کارٹونز کو پہلے کاغذ پر بنایا جاتا تھا، اس کے بعد کاغذوں پر بنائی گئی مختلف تصاویر کو اکٹھا کر کے انہیں فلم کی شکل دی جاتی تھی۔

    مثال کے طور پر مشہور زمانہ ٹام اینڈ جیری کارٹون میں جب ٹام جیری کا پیچھا کرتا ہے تو اس بھاگ دوڑ کے لیے تخلیق کاروں کو ٹام کی مختلف حرکات پر مبنی سینکڑوں تصاویر بنانی پڑتی تھیں تب کہیں جا کر ایک منظر مکمل ہوتا تھا۔

    اب اسی تکنیک کو آزماتے ہوئے ایک اور منفرد فلم بنائی گئی ہے جو پینسل سے تیار شدہ تصاویر پر مبنی نہیں، بلکہ انیسویں صدی کے مشہور مصور وان گوگ کی شاہکار پینٹنگز کو دوبارہ تخلیق کر کے بنائی جارہی ہے۔

    اور پینٹنگز میں موجود کرداروں کو حرکت کرتا دکھانے کے لیے، کیا آپ جانتے ہیں کتنے فن پارے تخلیق کیے گئے؟ 65 ہزار فن پارے، جی ہاں جنہیں دنیا بھر کے 100 مختلف مصوروں نے تخلیق کیا۔

    فلم کا نام لونگ ونسنٹ ہے جو دراصل انیسویں صدی کے مصور وان گوگ کا اصل نام تھا۔

    اس آئیڈیے کی خالق اور فلم کی پروڈیوسر ڈوروٹا کوبیلیا کا کہنا ہے کہ وہ یہ کام اکیلی سرانجام نہیں دے سکتی تھیں ورنہ اس میں انہیں 80 سال لگ جاتے۔

    ابتدا میں 7 منٹ کی شارٹ فلم کے آئیڈیے پر مبنی یہ فلم فیچر فلم میں تبدیل ہوگئی ہے جس میں مصور وان گوگ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو پیش کیا جائے گا۔

    پروجیکٹ پر کام کرنے والے مصوروں کے مطابق فلم کا ایک ایک شاٹ اور ایک ایک فریم، آئل پینٹ سے تخلیق کی گئی پینٹنگ پر مشتمل ہے اور ان کا انداز ہو بہو وان گوگ کی پینٹنگز جیسا ہے۔

    مرینہ جوپک بھی پروجیکٹ میں شامل مصوروں میں سے ایک ہیں۔

    وہ ایک گھر کا منظر دکھاتے ہوئے کہتی ہیں کہ مجھے یہاں ایک عورت کو حرکت کرتے ہوئے دکھانا تھا۔ ’اس عورت کی حرکت کے لیے مجھے 12 مختلف مراحل میں لاتعداد پینٹنگز اس طرح بنانی پڑیں کہ آہستہ آہستہ عورت کا ایک کندھا غائب ہوتا اور دوسرا دکھائی دیتا نظر آئے‘۔

    فلم کی باقاعدہ تخلیق سے قبل اصل اداکاروں کو بھی لیا گیا اور ان سے اداکاری کروائی گئی، بعد ازاں ان کے ریکارڈڈ مناظر کو پینٹنگز کی شکل میں ڈھالا گیا۔

    فلم میں مرکزی کردار وان گوگ کا کردار ادا کرنے والے اداکار رابرٹ گل زک کا کہنا ہے کہ جب وہ ان مصوروں سے ملے تو انہوں نے کہا، ’اوہ! ہم تمہیں گزشتہ 6 ماہ سے پینٹ کر رہے ہیں‘۔

    ان کا کہنا تھا کہ اس منفرد ترین فلم کا حصہ بننا ان کی زندگی کا شاندار اور یادگار ترین تجربہ ہے۔

    پینٹنگز پر مشتمل دنیا کی پہلی فیچر فلم اگلے ماہ ریلیز کردی جائے گی۔

    فلم کا ٹریلر دیکھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • فطرت کے اتنے خوبصورت رنگ آپ نے کبھی نہیں دیکھے ہوں گے

    فطرت کے اتنے خوبصورت رنگ آپ نے کبھی نہیں دیکھے ہوں گے

    زمین ہماری ماں ہے جس نے ہمیں اپنے بچوں کی طرح اپنی گود میں سمیٹ رکھا ہے۔ ہماری فطرت بھی اسی ماں کا دیا ہوا خوبصورت تحفہ ہے جس سے جتنا زیادہ جڑا جائے یہ ہماری ذہنی و طبی صحت پر اتنے ہی مثبت اثرات مرتب کرے گی۔

    فرناز راحیل بھی فطرت سے جڑی ہوئی ایسی ہی ایک مصورہ ہیں جو اپنے کینوس پر صرف فطرت کے مختلف رنگوں کو اجاگر کرتی ہیں۔

    لاہور کے نیشنل کالج آف آرٹس سے تعلیم یافتہ فرناز کا ماننا ہے کہ فطرت جہاں ایک طرف بہت خوبصورت ہے، وہیں دوسری طرف بہت خوفناک بھی ہوجاتی ہے، جیسے کسی بڑے جانور کا کسی ننھے جانور کو اپنے جبڑوں میں جکڑ لینا، یا سمندر کی پرشور لہروں کا کنارے سے باہر نکل آنا، یا کسی آتش فشاں کا پھٹنا اور اس سے ہونے والی تباہی۔

    یہ سب فطرت کے ہی مظاہر ہیں اور ہم انسانوں کی طرح جہاں اس میں بے شمار خوبیاں ہیں وہیں کئی خامیاں بھی موجود ہیں۔

    فرناز اپنی تصاویر میں فطرت کے دونوں پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہیں۔ فطرت کی خوفناکی دکھانے کے لیے وہ گہرے شوخ رنگ، جبکہ پرسکون فطرت دکھانے کے لیے ہلکے رنگوں کا استعمال کرتی ہیں۔

    فرناز اپنی تصاویر میں جس فطرت کو دکھاتی ہیں وہ انسانوں کی مداخلت سے آزاد دکھائی دیتا ہے۔ درحقیقت یہ انسان ہی ہے جو فطرت کو تباہ و برباد کر رہا ہے اور اس کی خوبصورتی چھین کر اس کی بدصورتی میں اضافہ کر رہا ہے۔

    کسی قدر تجریدی نوعیت کی یہ تصاویر اپنے آپ کو سمجھنے کے لیے غور و فکر کی دعوت تو دیتی ہیں، تاہم پہلی نظر میں یہ بہت خوبصورت تاثر چھوڑتی ہیں اور فطرت سے دور رہنے والوں کو بھی فطرت کے قریب جانے پر مجبور کردیتی ہیں۔

    فار دی لو آف نیچر کے نام سے فرناز کی ان تصاویر کی نمائش کراچی کی ایک مقامی آرٹ گیلری میں جاری ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ماضی کی تلاش میں سرگرداں حال

    ماضی کی تلاش میں سرگرداں حال

    ماضی کی خوشگوار یادیں کسی صورت ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ ہم چاہے زندگی میں کتنے ہی مشہور، دولت مند یا کامیاب کیوں نہ ہوجائیں، ہمیں ہمارا ماضی ہمیشہ بہترین دکھائی دیتا ہے۔

    ماضی کے ایسے ہی سحر میں گرفتار نوجوان مصورہ رزین روبن نے فن کے ذریعے اپنے ماضی کی ایک جھلک دکھانے کی کوشش کی ہے۔

    کراچی کی ایک مقامی آرٹ گیلری میں جاری آرٹ کی نمائش میں رزین کی تصاویر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہی ہیں اور انہیں ان کے اپنے ماضی کی یاد دلا رہی ہے۔

    وہ ماضی جہاں بچپن تھا، بچھڑنے والے تھے، اور سکھ تھا۔

    رزین کا بچپن صوبہ سندھ کے شہر سکھر میں گزرا۔ سنہ 2013 میں وہ کراچی آبسیں۔ مگر اس دوران وہ اپنے والدین سے جدائی کا صدمہ اٹھا چکی تھیں اور بہت کچھ کھو چکی تھیں۔

    اپنی اس نمائش میں انہوں نے ماضی سے اسی انسیت اور لگاؤ کو پیش کیا ہے جو ہر شخص کی زندگی میں بہر صورت موجود ہوتا ہے۔

    کراچی میں جاری اس نمائش میں 13 نوجوان مصوروں کے فنی شاہکاروں کو پیش کیا گیا ہے۔ اس نمائش کا مقصد خاص طور پر ان مصوروں کا کام پیش کرنا ہے جو ابھی اپنے کیریئر کے ابتدائی مراحل میں ہیں۔

    آمنہ رحمٰن، ارسلان ناصر، ارسلان فاروقی، فہد سلیم، حیدر علی، حسن رضا، حیا زیدی، نعمان صدیقی، انیز تاجی، رزین روبن، صفدر علی، سمیعہ عارف اور سفیان بیگ نامی ان فنکاروں نے نہایت خوبصورتی سے اپنے فن کا اظہار کیا ہے۔

    نمائش کو عدیل الظفر نے پیش کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نئے فنکاروں کے کام کو پیش کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ نئی نسل دنیا کو کس زاویہ نگاہ سے دیکھتی ہے اور انہیں اپنے انداز میں کس طرح پیش کرتی ہے۔

    نوجوان مصور نعمان صدیقی کے کام میں سب سے نمایاں وہ لولی پاپس ہیں جو بقول ان کے قوم کو دی جارہی ہیں۔

    نعمان کا کہنا ہے کہ علامتی طور پر ان لولی پاپس کو پیش کیے جانے کا مطلب اس وقت ہماری قوم کے مزاج کی نشاندہی کرنا ہے۔

    انہوں نے مثال دی کہ ملک کے تمام مسئلے دہشت گردی، شدت پسندی، غربت اور جہالت کو چھوڑ کر پاناما کی لولی پاپ میں پھنسا دیا گیا ہے کہ لو اب اس کو کھاتے رہو۔ اس کی وجہ سے ملک کے تمام اصل مسائل پس پشت ڈال دیے گئے ہیں۔

    ان کے کام کی ایک اور انفرادیت گوشت کے وہ ٹکڑے ہیں جو انہوں نے مختلف رنگوں میں رنگ کر پیش کیے ہیں۔

    مختلف اقسام کی پلیٹس میں ان ٹکڑوں کو پیش کر کے نعمان نے ہمارے معاشرے کے مختلف طبقات میں رائج بد دیانتی کے مختلف طریقوں کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی ہے۔

    وہ کہتے ہیں، ’جس کو جہاں اور جس طرح موقع ملتا ہے وہ وہاں کرپشن کرتا ہے۔ ہر طبقہ کرپشن اور بددیانتی بھی اپنی حیثیت کے مطابق کرتا ہے‘۔

    ایک اور مصورہ سمیعہ عارف نے اپنی پینٹنگ میں مقتول خواتین قندیل بلوچ اور سبین محمود کو خراج تحسین پیش کیا۔


    صفدر علی نے لکڑی اور مختلف دھاتوں سے بنا ہوا ایک خوبصورت رنگین فن پارہ پیش کیا۔

    کراچی کی مقامی آرٹ گیلری میں جاری یہ نمائش 12 اگست تک جاری رہے گی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پاکستان کے گلی کوچوں کو نئی نگاہ سے دیکھیں

    پاکستان کے گلی کوچوں کو نئی نگاہ سے دیکھیں

    گھر میں رہتے ہوئے ہر شخص گھر اور اس کی چیزوں کا عادی ہوجاتا ہے اور وہ اس کی زندگی اور معمول کا حصہ بن جاتی ہیں۔

    جب کسی شے کی عادت ہوجائے تو عموماً ہم اسے نئے زاویوں سے دیکھنے سے محروم ہوجاتے ہیں اور یوں وقت کے ساتھ بدلتے اس کے حسن کو نہیں دیکھ پاتے۔

    اندرونی اور کم ترقی یافتہ علاقوں میں رہنے والے لوگ بھی وہاں کی زندگی کے عادی ہوجاتے ہیں۔ وہاں کے مناظر، صبح و شام کا ڈھلنا، مختلف لوگ، جانور وغیرہ سب کچھ ان کے لیے یکساں حیثیت اختیار کرجاتا ہے اور وہ اس میں نئی جہت ڈھونڈنے میں ناکام رہتے ہیں۔

    لیکن یہ نیا پن اس شخص کو دکھائی دے جاتا ہے جو پہلی بار ان علاقوں میں جائے، یا ایک عرصے پہلے ان گلیوں کو چھوڑ آیا ہو اور پھر لوٹ کر وہاں جائے۔

    در وسیم بھی ایسی ہی مصورہ ہیں جو امریکا سے پلٹ کر اپنے ماضی کی طرف آئیں تو انہیں پرانی یادوں کے ساتھ بہت سی نئی جہتیں بھی دیکھنے کو ملیں۔

    لاہور کی پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کرنے کے بعد وہ امریکی ریاست کیلی فورنیا میں جا بسیں جہاں انہوں نے اپنے شعبے سے متعلق مزید تعلیم حاصل کی اور مختلف اداروں میں کام بھی کیا۔

    اب اپنی وطن واپسی کے بعد اس کی تصویر کشی کو انہوں نے وزیٹنگ ہوم کا نام دیا ہے، اور اس میں پاکستان کو انہوں نے جس طرح پیش کیا، یقیناً وہ رخ ان لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہوگا جو ہمیشہ سے یہیں رہتے آئے ہیں۔

    آئیں آج ان کی نگاہ سے مختلف گلی کوچوں کو دیکھیں۔

    مری کا ایک منظر

    لاہور کی تاریخی ٹولنگٹن مارکیٹ

    اسلام آباد میں واقع گاؤں سید پور کی محرابی گزر گاہیں

    لاہور کا بھاٹی گیٹ

    ڈھلتی شام میں رکشے پر سواری

    سید پور کا ایک منظر

    اندرون لاہور میں ایک سرد سہ پہر

    ریلوے کا پھاٹک

    ٹھیلے پر فروخت ہوتے کیلے

    سید پور کا ایک اور منظر

    مری میں قائم ایک کھوکھا

    خزاں کی ایک شام

    پاکستان کے گلی کوچوں کو ایک نئے زاویے سے پیش کرتی آرٹ کی یہ نمائش کراچی کی ایک مقامی آرٹ گیلری میں 13 جولائی تک جاری ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کافی کے کپ میں وین گوف کا شاہکار

    کافی کے کپ میں وین گوف کا شاہکار

    آپ نے کافی آرٹ کی بے شمار اقسام دیکھی ہوں گی جو پاکستان سمیت مختلف ممالک میں کی جاتی ہیں، تاہم جنوبی کوریا کے اس فنکار کا کافی آرٹ دیکھ کر آپ حیران رہ جائیں گے جو بے حد انوکھا ہے۔

    جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیئول کا رہائشی فنکار لی کنگ بن کافی کے کپ میں معروف مصوروں کے منی ایچر شاہکاروں کی نقل تخلیق کر رہا ہے جو دیکھنے والوں کو دنگ کردیتا ہے۔

    نیدر لینڈز کے معروف مصور وین گوف کی شہرہ آفاق پینٹنگ ’ستاروں بھری رات‘ اور ناروے کے مصور ایڈورڈ منچ کی پینٹنگ ’چیخ‘ کو کافی کے کپ میں اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ دیکھنا ایک نہایت ہی شاندار اور منفرد تجربہ ہوسکتا ہے۔

    مصوری کے ان شاہکاروں کو تخلیق کرنے کے لیے لی کنگ برش اور چمچوں سے فوڈ کلرز کے مختلف اسٹروکس استعمال کرتا ہے۔

    صرف 15 منٹ میں تیار کیے جانے والے ایک کافی کے کپ کی قیمت 10 ہزار ون (کورین سکہ) ہے جسے خریدنے کے لیے شائقین کی ایک لمبی قطار موجود ہے۔

    لی کنگ کا کہنا ہے کہ ابتدا میں وہ شوقیہ طور پر اپنی کافی میں کریم اور جھاگ کو مختلف انداز سے ترتیب دیا کرتا تھا۔ بعد ازاں اسے یہ کام اتنا پسند آیا کہ وہ ایک کافی مشین خرید کر گھر لے آیا اور تجارتی بنیادوں پر یہ کام شروع کردیا۔

    مزید پڑھیں: آپ کی پسندیدہ کافی آپ کے بارے میں کیا بتاتی ہے؟

    آرٹ کا شاہکار یہ کافی خریدنے والے افراد لی سے اپنی پسند کے مصوروں کی پینٹنگ بنانے کی بھی فرمائش کرتے ہیں۔

    پینٹنگ کے ساتھ ساتھ لی مختلف کارٹون کرداروں اور مناظر کو بھی کافی پر تخلیق کرتا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • بارش میں بھیگنے کے حیران کن فوائد

    بارش میں بھیگنے کے حیران کن فوائد

    ملک بھر میں بارشوں کا موسم عروج پر ہے اور پاکستان کے مختلف شہروں میں موسلا دھار برساتیں جاری ہیں۔ بارش کا موسم شاعروں، مصوروں اور تخلیق کاروں سمیت عام افراد کو بھی پسند ہوتا ہے اور ہر شخص اس موسم سے لطف اندوز ہونا پسند کرتا ہے۔

    بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں بارش نا پسند ہوتی ہے۔ وہ بارش میں اپنے تمام منصوبے مؤخر کردیتے ہیں اور گھر میں بیٹھ جاتے ہیں۔ لیکن اس طرح وہ بارش میں بھیگنے کے خوبصورت لمحے ضائع کردیتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق بارش میں بھیگنا نقصان کا سبب نہیں بنتا بلکہ اس کے برعکس اس کے کچھ فائدے ہیں۔ آج ہم آپ کو بارش میں بھیگنے کے نہایت منفرد فائدے بتا رہے ہیں جن سے آپ پہلے واقف نہیں ہوں گے۔

    صاف ہوا سے لطف اندوز ہوں

    بارش کے بعد جہاں تمام چیزیں دھل کر نکھری نکھری محسوس ہوتی ہیں وہیں ہوا بھی نہایت صاف ستھری اور آلودگی سے پاک ہوجاتی ہے۔ اس ہوا میں چہل قدمی کرنا اور اس میں سانس لینا نہایت فرحت بخش احساس ہوتا ہے۔

    نم ہوا جلد کے لیے مفید

    کیا آپ جانتے ہیں بارشوں میں چلنے والی نم اور ٹھنڈی ہوائیں آپ کی جلد کے لیے نہایت مفید ہیں؟ ماہرین کے مطابق یہ ہوا جلد کے اندر موجود مضر مادوں میں کمی کر کے اسے تازگی بخشتی ہے اور جلد نکھری ہوئی محسوس ہوتی ہے۔

    بارش کی خوشبو دماغ کو پرسکون کرنے کا سبب

    بارشوں میں مٹی سے آنے والی سوندھی سوندھی خوشبو دل و دماغ پر حیران کن اثرات مرتب کرتی ہے اور آپ تمام دباؤ اورپریشانیوں سے آزاد ہو کر خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: بارشوں میں مٹی کی سوندھی خوشبو کیوں آتی ہے؟

    موٹاپے میں کمی کا سبب

    انٹرنیشنل جرنل آف اسپورٹس میڈیسن میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق سرد اور نم موسم میں چہل قدمی کرنا عام موسم میں چہل قدمی کرنے کے مقابلے میں زیادہ وزن میں کمی کرتا ہے۔

    اس موسم میں جسم سے اضافی چربی کا تیزی سے اخراج ہوتا ہے اور یوں بارش کا موسم آپ کے وزن میں کمی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

    ڈپریشن سے نجات

    بارش میں بھیگنے سے ڈپریشن سے نجات ملتی ہے۔ بارش کی خوشبو اور اس کی آواز نہایت ہی پرسکون ہوتی ہے اور آپ کی توجہ منفی چیزوں سے ہٹا کر مثبت چیزوں کی طرف مبذول کردیتی ہے۔

    تخلیقی صلاحیت میں اضافہ

    بارش میں تمام مصروفیات زندگی ماند پڑجاتی ہیں۔ سڑکیں خالی اور صاف ستھری ہوجاتی ہیں، نکھرے نکھرے دھلے دھلائے درخت، خاموشی، یہ سب آپ کے اندر نئے احساسات کو جنم دیتی ہے۔

    بارش میں آپ چیزوں کو عام دنوں سے ہٹ کر ایک نئے زاویے سے دیکھتے ہیں۔ یہ آپ کے اندر دبی ہوئی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارتی ہے اور ان میں اضافہ کرتی ہے۔ بارش کے موسم میں، مصوروں، شاعروں اور دیگر تخلیق کاروں کو مہمیز ملتی ہے۔

    پرسکون کیفیت

    بارش میں بھیگنا آپ کو پرسکون کردیتا ہے۔ ٹھنڈی ہوا اور بارش کے قطرے آپ کو پرسکون کرتے ہیں اور آپ کی پریشانیوں کو وقتی طور پر ختم کردیتے ہیں۔

    تو اب جب آپ کے شہر میں بارش ہو تو سب کچھ بھول کر بارش میں ضرور بھیگیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • گھر میں استعمال کی جانے والی ننھی منی خوبصورت اشیا

    گھر میں استعمال کی جانے والی ننھی منی خوبصورت اشیا

    منی ایچر یعنی ننھا منا آرٹ نہایت خوبصورت لگتا ہے لیکن اسے بنانے کے لیے نہایت محنت اور مہارت درکار ہے۔

    مختلف ننھی منی چیزوں پر کام کرنا اور انہیں اپنی مرضی کے مناظر میں تبدیل کرنا نہایت محنت اور توجہ کا متقاضی ہے۔

    لیکن اس انوکھے فن کو تخلیق کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔

    اب نیدر لینڈز کی اس باصلاحیت فنکارہ کو ہی دیکھ لیں جو صرف 2 سینٹی میٹر کے ننھے منے فن پارے تخلیق کر رہی ہے۔

    آلما نامی یہ فنکارہ گھریلو استعمال کی روز مرہ کی اشیا تخلیق کرتی ہے، اور ایسا تخلیق کرتی ہے کہ انہیں دیکھ کر آپ دنگ رہ جائیں گے۔

    آئیں آپ بھی دیکھیں۔

    Hand soap

    A post shared by Alma (@almadejonge) on

    #cupcakes for breakfast #miniature #dollhouse #handmade #oneinchscale

    A post shared by Alma (@almadejonge) on

    I am working on @domestikatethis cheese board but i got hungry and eat the epoisses

    A post shared by Alma (@almadejonge) on

    Itty bitty jam #miniature #dollhouseminiatures #dollhouse #oneinchscale #handmade #fimo

    A post shared by Alma (@almadejonge) on

    #miniature #cupcakes #dollhouse #handmade #fimo #oneinchscale #polymerclay

    A post shared by Alma (@almadejonge) on

    #lavender is ❤️ #miniature #shabbychicbathroom #oneinchscale #handmade #dollhouseaccessories

    A post shared by Alma (@almadejonge) on

    کیسا لگا آپ کو یہ انوکھا فن؟


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • گل جی کا قتل کرنے والے 2 ملزمان کو 25 سال قید کی سزا

    گل جی کا قتل کرنے والے 2 ملزمان کو 25 سال قید کی سزا

    کراچی: معروف مصور اسمعٰیل گل جی کے قتل کا معمہ حل ہوگیا۔ قتل میں ملوث 2 ملزمان کو 25 سال کی سزا سنا دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق ایس ایس پی فاروق اعوان کا کہنا ہے کہ معروف مصور گل جی، ان کی اہلیہ اور گھر میں موجود ملازمہ کے قتل کے مجرمان کو عدالت نے جرم ثابت ہونے پر 25 سال قید کی سزا سنا دی۔

    ایس ایس پی کے مطابق ملزمان اکرم اور انوار کو سنہ 2007 میں ایس آئی یو نے گرفتار کیا تھا۔ گل جی کو قتل کرنے والے ان کے اپنے ہی گھر کے ملازم تھے جن میں ان کا ڈرائیور بھی شامل ہے۔

    پولیس کے مطابق ملازمین قتل کی واردات کے بعد گھر سے قیمتی مالیت کے فن پارے چوری کر کے لے گئے تھے۔

    یاد رہے کہ سنہ 2007 میں گل جی، ان کی اہلیہ اور گھر میں موجود ایک ملازمہ کو رات سوتے میں قتل کردیا گیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • مہران یونیورسٹی میں رنگوں بھری خطاطی کی نمائش

    مہران یونیورسٹی میں رنگوں بھری خطاطی کی نمائش

    جامشورو: مہران یونیورسٹی برائے انجینیئرنگ و ٹیکنالوجی میں شعبہ فنون کے طلبا نے آرٹ کی خوبصورت نمائش کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔

    مہران یونیورسٹی کے شعبہ آرٹ اور ڈیزائن کے طلبا نے فن پاروں کی سالانہ نمائش میں آرٹ سے اپنی محبت اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔

    طلبا نے آرٹ کی مختلف جہتوں پر مبنی خوبصورت پوسٹرز اور خطاطی پر مشتمل فن پارے پیش کیے۔

    تخلیقی ذہنیت کے حامل طلبا نے ڈی وی ڈی کورز، لیٹر ہیڈز، مگ، وزیٹنگ کارڈز اور لفافوں پر بھی خوبصورت نقش و نگار تخلیق کر کے انہیں فن پاروں میں بدل دیا۔

    طلبا نے بیسویں صدی کے اوائل میں چلنے والی آرٹ کی دو بڑی تحریکوں ڈاڈا ازم اور سریئل ازم کو اپنے فن پاروں میں پیش کیا۔

    یہ دنوں تحریکیں سنہ 1920 میں سامنے آئی تھیں جب مصوروں نے حقیقی زندگی کی ناانصافیوں، جنگوں اور تصادم کو نظر انداز کر کے تصوراتی فن تخلیق کرنا شروع کیا۔

    مزید پڑھیں: سریئل ازم کے زیر اثر آرٹ

    ان تحریکوں کے زیر اثر وجود پانے والے آرٹ کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ بالکل ماورائی اور عقل سے بالاتر فنی اظہار تھا جس میں تخیل اور لاشعور میں جنم لینے والے خیالات کو دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔

    طلبا اور اساتذہ کا گروپ

    مہران یونیورسٹی کی اس نمائش کا سرکاری حکام نے بھی دورہ کیا اور طلبا کی تخلیقی صلاحیتوں کو سراہا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔