Tag: مصور

  • معروف فیشن برانڈ پاکستانی ٹرک آرٹ سے متاثر

    معروف فیشن برانڈ پاکستانی ٹرک آرٹ سے متاثر

    پاکستانی ٹرک آرٹ کی شہرت پاکستانی حدود کو پار کر کے دیگر ممالک تک بھی جا پہنچی۔ 2 مشہور بین الاقوامی برانڈز نے اپنی نئی مصنوعات کو ٹرک آرٹ کی طرز پر پیش کردیا۔

    معروف اطالوی مینو فیکچرر کمپنی سمیگ نے کچن مشینری کی نئی رینج کو پاکستانی ٹرک آرٹ سے مماثلت رکھنے والے رنگوں میں ڈھال کر پیش کیا۔

    اس ڈیزائن کو متعارف کروانے کا سہرا معروف فیشن کمپنی ڈولچے اینڈ گبانا کے سر ہے اور دونوں برانڈز نے مشترکہ تعاون سے یہ خوبصورت مشینری پیش کی ہے۔

    گو کہ ڈولچے اینڈ گبانا کا کہنا ہے کہ یہ آرٹ اطالوی شہر سسلی کا روایتی آرٹ ہے اور تصاویر میں پیش کیے جانے والے مناظر بھی وہیں کے ہیں، تاہم اس میں دنیا بھر میں مشہور ہوجانے والے پاکستانی ٹرک آرٹ کی آمیزش اور اس سے مماثلت کا عنصر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

    جاری کیے جانے والے نہایت رنگا رنگ اور خوبصورت ٹوسٹر، کافی مشین، جوسر اور بلینڈر وغیرہ نے فوراً ہی لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروالی ہے۔

    یہ پہلی بار نہیں ہے کہ جب ڈولچے اینڈ گبانا نے اس قدر خوش رنگ مصنوعات کو پیش کیا ہے۔ اس سے پہلے بھی ایک نمائش میں یہ برانڈ پاکستانی ٹرک آرٹ سے مشابہہ ایک رنگین ٹرک میں اپنی میک اپ مصنوعات پیش کرچکا ہے۔

    یاد رہے کہ پاکستانی ٹرکوں پر بنائی جانے والی خوش رنگ تصاویر اور رنگوں سے ڈھلے الفاظ و اشعار کو اب ٹرک آرٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: پاکستانی ٹرک پر کینیڈا کے وزیر اعظم کی تصویر

    مختلف پاکستانی فنکاروں نے اس آرٹ میں مزید نکھار پیش کر کے اسے دنیا بھر میں پیش کیا جس کے بعد اب یہ دنیا بھر میں پاکستانی ٹرک آرٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

  • بادشاہی مسجد کے اوپر اڑتا ڈریگن

    بادشاہی مسجد کے اوپر اڑتا ڈریگن

    کیا آپ نے کبھی تصور کیا ہے کہ مستقبل میں پاکستان کیسا ہوگا؟ یا اگر کوئی ایسی سائنس فکشن فلم بنائی جائے جس میں پاکستان کو دکھایا جائے گا، تو وہ پاکستان کیسا ہوگا؟

    تصور کرنے کو تو کچھ بھی کیا جا سکتا ہے، لیکن ایک پاکستانی مصور نے اس تصور کو حقیقت میں ڈھال دیا۔

    عمر گیلانی نامی یہ فنکار پیشے سے تو مکینکل انجینئر ہیں تاہم انہیں مصوری کا جنون ہے۔ عمر نے اپنی تعلیمی تجربات اور اپنی پرواز تخیل کو جوڑ کر فن کے کچھ نادر نمونے تخلیق کیے ہیں جن میں وہ یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مستقبل کا پاکستان کیسا ہوگا۔

    مزید پڑھیں: مچھلی پر سواری کرتا اور سائیکل چلاتا مغل بادشاہ

    دراصل انہوں نے پاکستان کی سڑکوں اور فضاؤں میں سائنسی رنگ کی آمیزش کرنے کی کوشش کی ہے اور ان کی یہ کوشش نہایت شاندار ہے۔

    آیئے آپ بھی ان کی سائنس فکشن تصاویر دیکھیں۔

    ایک کچی آبادی میں کرکٹ کھیلی جارہی ہے۔ پس منظر میں بلند و بالا جدید عمارات نظر آرہی ہیں۔

    8

    لاہور کی بادشاہی مسجد کے اوپر ایک ڈریگن اڑتا دکھائی دے رہا ہے۔

    2

    ایک گاؤں سے خلا میں راکٹ فائر کرنے کا منظر۔

    5

    ایک خان صاحب اپنے روایتی لباس اور ٹوپی میں اسٹار وارز کے مشہور کردار کے مدمقابل۔

    3

    پاکستان کے مشہور لکی ایرانی سرکس میں ایک ڈریگن کو سدھایا جارہا ہے۔

    6

    اس تصویر میں دکھائی دی جانے والی مخلوق کو عمر باؤنٹی ہنٹر کا نام دیتے ہیں۔ پس منظر میں لاہور کا پرہجوم بازار اور سڑک پر چلتے رکشے نظر آرہے ہیں۔

    9

    ایک روبوٹ تاریخی پس منظر رکھنے والی کسی عمارت میں ستار بجا رہا ہے۔ گویا روبوٹ بھی اپنی روایات سے غافل نہیں ہے۔

    7

    تنگ اور گنجان آباد گلیوں میں پگڑی پہنے ایک شخص کی جدید موٹر سائیکل پر سواری۔

    11

    ایک ننھی بچی سڑک پر بھیک مانگتی نظر آ رہی ہے اور اس کا ایک بازو مشینی ہے۔

    4

    اور تو اور مستقبل کے پاکستان میں اڑنے والے ٹرک بھی ایجاد ہوچکے ہیں، جو روایت کے مطابق مقررہ حد سے زیادہ وزن اٹھا کر محو سفر ہیں۔ فضا میں اڑنے والا یہ ٹرک روایتی ٹرک آرٹ سے مزین ہے۔

    10

    تو کہیئے، کیسی لگی آپ کو مستقبل کے پاکستان کی منظر کشی؟ ہمیں کمنٹس میں ضرور بتایئے۔

  • سنہری سائیکل اور ہوا میں اڑنے کی خواہش

    سنہری سائیکل اور ہوا میں اڑنے کی خواہش

    دنیا میں موجود ہر شخص اپنی زندگی میں مختلف حالات سے گزرتا ہے۔ ان حالات میں مماثلت تو ضرور ہوسکتی ہے مگر ان حالات کا سہنے والے پر کیا اثر پڑتا ہے یہ یقیناً ایک مختلف امر ہے۔

    لیکن ایک فنکار اپنے اوپر گزرنے والے حالات کو مختلف انداز سے محسوس کرتا ہے۔ اگر وہ ان حالات کو تصویر کرنے بیٹھے تو ان کا انداز بیاں عام افراد سے بالکل مختلف ہوگا۔

    ایسی ہی کچھ تصویر ہمیں کراچی میں 7 فنکاروں کی نمائش میں ملتی ہے جو زندگی کے مختلف حالات کو مختلف انداز سے پیش کر رہے ہیں۔

    کراچی کی مقامی آرٹ گیلری میں جاری یہ نمائش جس کا عنوان ’دل تو پاگل ہے‘ زندگی کے مختلف رنگوں اور ایک فنکار کے انہیں محسوس کرنے کے انداز کو پیش کر رہی ہے۔

    6

    5

    یہ نمائش 7 فنکاروں احمد جاوید، ارسلان فاروقی، حیدر علی نقوی، جوویتا الواریز، نعمان صدیقی، قادر جتھیال، اور رزن روبن کے فن پاروں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے کچھ نیشنل کالج آف آرٹس سے فارغ التحصیل ہیں۔

    ان فنکاروں نے اپنے فن کو منی ایچر کی شکل میں پیش کیا ہے۔ اپنے خیالات کو متاثر کن انداز میں پیش کرنا اور وہ بھی آرٹ کی ایک منفرد شکل میں پیش کرنا نہایت مشکل کام ہے۔

    یہ نمائش اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس کے فنکار 6 ہفتوں تک دنیا سے کٹ کر ایک جگہ پر رہے اور اس دوران انہوں نے اپنے فن پارے تخلیق کیے۔ نمائش کا انعقاد محمد ذیشان نامی فنکار نے کیا جو دن رات فنکاروں کے ساتھ ان کے فن کی تخلیق کے دوران موجود رہے۔

    نمائش میں پیش کیے گئے فن پاروں میں روایتی آرٹ اور گہرے رنگوں کی مدد سے ناسٹلجیا (یاد ماضی)، امن، موت اور شناخت کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔

    فنکار قادر جھتیال نے 99 ہاؤس ہولڈ آبجیکٹس نامی فن پارے میں عام زندگی میں استعمال ہونے والی مختلف اشیا کی اہمیت بتانے کی کوشش کی ہے۔

    99-house-hold-objects

    4

    کراچی کے فنکار نعمان صدیقی نے اپنا فن پارہ نہایت خوبصورت انداز میں پیش کیا جس میں سنہری سائیکل پر رنگے برنگے غباروں کو باندھا گیا ہے۔ اس فن پارے کا نام خواہش ہے۔

    3

    2

    یہ خواہش غباروں کی طرح ہوا میں اڑنے اور آزاد ہونے کی بھی ہوسکتی ہے۔

    نمائش میں شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور فنکاروں کے خیالات اور منفرد فن کو سراہا۔

  • نیلگوں رنگ میں یونانی ثقافت اور بانی پاکستان قائد اعظم

    نیلگوں رنگ میں یونانی ثقافت اور بانی پاکستان قائد اعظم

    پانی زندگی کی علامت ہے۔ اس کا نیلا رنگ بھی نہ صرف زندگی کی طرف اشارہ کرتا ہے بلکہ ماہرین نفسیات اس رنگ کو بے چین اور انتشار کا شکار انسانی دماغ کو سکون اور آرام پہنچانے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔

    اسی گہرے رنگ کو استعمال کرتے ہوئے فنکار کمیل اعجاز الدین زندگی کے مختلف رنگوں کو پیش کر رہے ہیں۔

    کراچی کی ایک مقامی آرٹ گیلری میں ان کے فن پاروں کی نمائش ’آوٹ آف دا بلو‘ کے نام سے جاری ہے۔

    12

    لاہور کے رہنے والے کمیل نے نیویارک یونیورسٹی سے آرٹ اور اس کی تاریخ کی تعلیم حاصل کی ہے۔ دو الگ ثقافتوں کے حامل شہروں میں طویل عرصہ گزارنے کے بعد کمیل اب ذہنی و روحانی طور پر نیویارک اور لاہور دونوں میں رہائش پذیر ہیں۔

    اپنی تصاویر میں انہوں نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو بھی اسی رنگ میں رنگ کر پیش کیا ہے۔

    2

    6

    یونان اور روم کی فن و ثقافت پڑھنے والے کمیل کے فن پاروں میں یونانی اور رومی رنگ نظر آتا ہے۔ ان کی مذکورہ نمائش میں رکھے گئے فن پارے قدیم یونان کے فن اور اس کی ثقافت سے متاثر ہیں۔

    3

    ان کے فن پاروں کا بنیادی خیال کانٹے ہیں جو آپ کو ہر فن پارے میں نظر آئیں گے۔

    کمیل کے مطابق کانٹے خطرے اور خوبصورتی دونوں کی علامت ہیں۔ یہ ایک طرف تو اپنے حصار میں موجود شے کو حفاظت فراہم کرتے ہیں، دوسری جانب اس حصار سے باہر موجود ہر شے کے لیے خطرے کی صورت ہیں۔

    5

    4

    کمیل نے اس نمائش میں درختوں کو فرش پر کی گئی کندہ کاری کی طرح پیش کیا ہے۔ فرش پر کندہ کاری یونانیوں سمیت ہر ثقافت کا اہم جز تھا جو اس دور کے ثقافتی و فنی عروج کی نشانی تھا۔

    9

    7

    انہوں نے چاروں موسم سردی، گرمی، خزاں اور بہار کے درختوں کو اس شکل میں پیش کیا ہے۔

    10

    8

    گہرے نیلے رنگ پر مشتمل فن پاروں کی یہ نمائش مزید چند روز جاری رہے گی۔

  • کافی سے بنی خوبصورت تصاویر

    کافی سے بنی خوبصورت تصاویر

    ایک مصور و فنکار کو ہر شے میں کچھ تخلیقی نظر آتا ہے۔ یہ وہ نظر ہوتی ہے جو کسی عام انسان کو میسر نہیں ہوتی، یہی وجہ ہے کہ فنکار اپنے فن کی انوکھی اور منفرد جہتوں کی بدولت دنیا سے جانے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں۔

    امریکا سے تعلق رکھنے والی 28 سالہ ڈیانا بھی ایسی ہی فنکار ہے جس نے کافی سے منفرد آرٹ تخلیق کیا ہے۔

    ڈیانا کے دو ہی شوق ہیں، کافی اور موسیقی، اور اپنے ان دونوں مشغلوں کی تکمیل نے اسے ایک منفرد فنکار بھی بنادیا۔ وہ کافی سے اپنے پسندیدہ موسیقاروں کی تصویر کشی کرتی ہے۔

    اس منفرد آرٹ کے لیے ڈیانا عموماً بچی ہوئی کافی استعمال کرتی ہے۔ بعض اوقات وہ ان کے ساتھ واٹر کلرز کی آمیزش بھی کرتی ہے۔

    ڈیانا نے آرٹ کی باقاعدہ تعلیم تو حاصل نہیں کی، تاہم اس کے شوق، مسلسل محنت اور لگن نے اسے اپنی نوعیت کا منفرد مصور بنا دیا ہے۔

    آپ بھی ڈیانا کی بنائی ہوئی تصاویر سے لطف اندوز ہوں۔

  • مونا لیزا کا ثقافتی ارتقا

    مونا لیزا کا ثقافتی ارتقا

    کراچی: تعلیمی اداروں میں غیر نصابی سرگرمیاں جیسے مختلف کھیلوں، تقاریر، مباحثوں اور سائنس و فنون کی نمائشوں کا انعقاد طلبا کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کے اظہار اور ان کو مہمیز کرنے کا سبب بنتا ہے۔

    یہی وہ وقت اور مقام ہوتا ہے جہاں سے طلبا، ان کے والدین اور اساتذہ بچوں میں چھپی صلاحیتوں سے واقف ہوتے ہیں اور انہیں آئندہ زندگی کے لیے شعبہ کا انتخاب کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔

    کراچی کے خاتون پاکستان گورنمنٹ اسکول میں بھی ایک نمائش کا انعقاد کیا گیا جس میں طلبا نے مختلف فنی و سائنسی فن پاروں کے ذریعہ اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔

    1

    نمائش میں شہرہ آفاق مونا لیزا کی تصویر کشی نے سب کی توجہ سمیٹ لی جس میں مونا لیزا کو مختلف ثقافتوں کے لباس میں ملبوس دکھایا گیا۔

    5

    9

    طلبا نے قدیم مصر میں پہنے جانے والے زیورات کی طرز پر خود زیورات بنائے اور انہیں نمائش میں پیش کیا۔

    2

    نمائش میں مختلف ماحولیاتی مسائل جیسے آلودگی اور پانی کی کمی وغیرہ کو بھی مختلف پروجیکٹس کے ذریعہ پیش کیا گیا۔

    7

    نمائش میں طلبا کے والدین، دیگر اسکولوں کے طلبا اور معززین شہر نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

    8

    3

    شرکا نے بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو سراہا اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ بچوں کے طبعی رجحان کو دیکھتے ہوئے اسی شعبے میں ان کی مزید تعلیم و تربیت انہیں زندگی میں کامیاب بنانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔

  • آلودگی سے پریشان جنگجو حکمران

    آلودگی سے پریشان جنگجو حکمران

    ماضی اور حال کا ایک ساتھ چلنا گو کہ مشکل لگتا ہے تاہم تخیل کی دنیا ہر حد سے ماورا ہوتی ہے، اور اس میں وقت کے کئی ادوار بیک وقت چل سکتے ہیں۔

    ایک فنکار کا فن اور تخیل حدود و قیود سے آزاد ہوتا ہے۔ اس کا فن وقت کے گم گشتہ اوراق بھی دکھا سکتا ہے، اور اگر وقت گزشتہ کو حال کے ساتھ ملادیا جائے تو بعض اوقات نہایت ہی حیرت انگیز شے سامنے آتی ہے جو کسی عام انسان کی قوت تخیل سے پرے ہوتی ہے۔

    ایسے ہی دو فنکار آصف احمد اور محمد عاطف خان اپنی قوت تخیل کو نہایت شاندار انداز میں پیش کر رہے ہیں۔ دونوں فنکاروں کے فن پاروں کی نمائش کراچی کی ایک مقامی آرٹ گیلری میں ’خاموش گفتگو‘ کے نام سے جاری ہے۔

    آصف احمد اپنے فن پاروں کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ماضی کی روایات و شخصیات ہمیشہ سے ان کے فن کا موضوع رہا ہے۔ وہ ان کے ساتھ دور جدید کی روایات و زندگی کو ملا کرمنفرد فن پارے تخلیق کرتے ہیں۔

    نمائش میں رکھے جانے والے ان فن پاروں کا موضوع ’ایک دور کا اختتام‘ ہے۔

    اپنی تصاویر میں انہوں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اگر ماضی کے جنگجو حکمران اور بادشاہ اگر آج کے دور میں ہوتے تو سب سے پہلے انہیں اپنے لیے ایک ماسک کی ضرورت پڑتی تاکہ وہ آلودہ و زہریلی فضا سے خود کو بچا سکیں۔

    01-asif-ahmed-2017-end-of-an-era-gouache-on-wasli-paper-5-5-x-5-5-inches-approx

    02-asif-ahmed-2017-end-of-an-era-gouache-on-wasli-paper-5-5-x-5-5-inches-approx

    03-asif-ahmed-2017-end-of-an-era-gouache-on-wasli-paper-5-5-x-5-5-inches-approx

    یہ تصاویر اس جانب بھی اشارہ کرتی ہیں کہ اپنے دور کے مضبوط، جنگجو، عزم و ہمت کا پیکر اور کسی کو خاطر میں نہ لانے والے بادشاہ فضائی آلودگی کے ہاتھوں سخت پریشان ہوتے، گویا انسان کی پیدا کردہ فضائی آلودگی ان بہادر بادشاہوں سے بھی زیادہ طاقتور ہے۔

    دوسرے فنکار محمد عاطف خان بھی تاریخی و دور جدید کے مختلف پہلوؤں کی آمیزش کر کے رنگین و خوبصورت فن پارے تخلیق کرتے ہیں۔

    اس سے قبل اے آر وائی نیوز کو دیے جانے والے ایک خصوصی انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے فن پاروں میں مختلف تصاویر کے مختلف پہلوؤں کو شامل کر لیتے ہیں۔

    وہ پرانی تصاویر جو کسی اور نے بنائیں، پاکستانی ٹرک آرٹ، یہاں تک کہ کتابوں، پوسٹرز اور کرنسی نوٹوں تک پر چھپے نقوش کی اپنی تصاویر میں آمیزش کر کے انہیں نئے سرے سے تخلیق کرتے ہیں جن کے بعد یہ فن پارے نئے مطالب وا کرتے ہیں۔

    10-atif-khan-2017-fragmentation-2-archival-inkjet-print-on-hahnemuhle-paper-24-5-x-22-inches-edition-1-of-9

    15-atif-khan-2017-landscape-3-archival-inkjet-print-on-hahnemuhle-paper-18-x-24-inches-edition-1-of-9

    11-atif-khan-2017-fragmentation-1-archival-inkjet-print-on-hahnemuhle-paper-24-5-x-22-inches-edition-1-of-9

    عاطف خان کے مطابق ان کی تصاویر کو ’ری سائیکلنگ‘ کہا جاسکتا ہے۔

    کراچی کی مقامی آرٹ گیلری میں یہ نمائش مزید چند روز جاری رہے گی۔

  • ہاتھ کے اشارے سے رنگ بکھیرتا جادوئی کینوس

    ہاتھ کے اشارے سے رنگ بکھیرتا جادوئی کینوس

    مصوروں کے لیے اپنے فن اور تخیل کو وجود میں لانا ایک دقت طلب مرحلہ ہے جس میں ان کے جسم اور دماغ کی پوری توانائی صرف ہوجاتی ہے۔

    لیکن کیا ہی اچھا ہو، کہ اگر مصور صرف اپنے ہاتھ کو حرکت دے، اور اس کی مطلوبہ تصویر رنگوں کے ساتھ کینوس پر بکھر جائے؟ گو کہ یہ کسی جادوئی فلم میں دکھائی جانے والی صورتحال لگتی ہے مگر مائیکرو سافٹ نے اسے حقیقت میں تبدیل کر دکھایا، آخر سائنس بھی تو جادو ہی کا دوسرا نام ہے۔

    گزشتہ برس اکتوبر میں جاری کیا جانے والا مائیکرو سافٹ کا آل ان ون ونڈوز 10 ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر سرفیس اسٹوڈیو ایسی ہی جادوئی صلاحیت کا حامل ہے جو مصوروں کے تخیل کو ان کی ایک جنبش انگشت سے وجود میں لاسکتا ہے۔

    surface-6

    surface-7

    surface-2

    ایلومینیم سے تیار کردہ اس کمپیوٹر کی اسکرین 28 انچ کی پکسل سنس ڈسپلے ٹچ اسکرین ہے جس کی موٹائی محض 12.5 ملی میٹر ہے۔

    surface-4

    surface-5

    surface-3

    اس کے ساتھ ایک سرفیس ڈائل بھی موجود ہے جو ٹریک پیڈ کی طرح کام کرتا ہے، اور اسے اسکرین پر رکھ کر اس سے رنگوں اور تصاویر کا انتخاب یا تصویروں کی تشکیل بھی کی جاسکتی ہے۔

  • مرنے کے بعد رنگین ٹیٹو زدہ جلد نمائش کے لیے فروخت

    مرنے کے بعد رنگین ٹیٹو زدہ جلد نمائش کے لیے فروخت

    جلد پر ٹیٹو بنانا تو ایک عام سی بات ہے اور آپ نے بیشتر افراد کی جلد پر ٹیٹو دیکھا ہوگا۔ یہ ٹیٹو (تصاویر) کسی بھی قسم کی ہوسکتی ہیں، اور یہ تمام رنگوں میں اور ہر سائز کے ہوسکتے ہیں۔

    لیکن سوئٹزر لینڈ کے ایک شہری نے اپنی جلد پر اس قدر وسیع اور رنگین ٹیٹو بنوایا کہ اسے محفوظ رکھنے کے لیے اس نے اپنی جلد کو فروخت کردیا تاکہ مرنے کے بعد اس کی ٹیٹو زدہ جلد کو یادگار کے طور پر محفوظ کرلیا جائے۔

    tattoo-2

    زیورخ کا ٹم اسٹینر کچھ عرصہ قبل تک خود بھی ایک ٹیٹو پالر کا نگران تھا جہاں ٹیٹو بنائے جاتے تھے۔ یہ کام کرتے اور دیکھتے ٹم کو خود بھی ٹیٹو کا شوق ہوگیا نتیجتاً اس نے اپنی پیٹھ کی پوری جلد پر رنگین ٹیٹو بنوا ڈالا جو کسی طور آرٹ کے کسی شاہکار سے کم نہیں۔

    ٹم کا یہ ٹیٹو بیلجیئم سے تعلق رکھنے والے ایک مصور نے بنایا ہے۔

    تاہم اب ٹم کے خیال میں اس کے مرنے کی صورت میں اس کی جلد، جو اب ایک فن پارے میں تبدیل ہوچکی ہے، مٹی کا حصہ بن جائے گی اور اس کے حل کے لیے اس نے اپنی جلد کو ایک جرمن آرٹ کلیکٹر کے ہاتھ ڈیڑھ لاکھ یوروز میں فروخت کردیا۔

    tattoo-6

    ٹم نے اس سے معاہدہ کیا ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کی جلد کو جسم سے علیحدہ کر کے فریم کروا کر کسی آرٹ گیلری میں رکھ دیا جائے گا۔

    ٹم کا کہنا ہے کہ جب لوگوں کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے اسے کسی حد تک بھیانک خیال کیا۔ ’آپ کسی فن پارے کو دیکھنے کے لیے رکیں اور آپ کو علم ہو کہ یہ کوئی کاغذ کا ٹکڑا نہیں بلکہ ایک انسانی جلد ہے تو یقیناً آپ کا خوف و کراہیت سے برا حال ہوجائے گا‘۔

    لیکن ٹم کے خیال میں اگر وہ ایسا نہ کرتا تو وہ آرٹ کے ایک خوبصورت فن پارے کو ضائع کردیتا۔

    لیکن اس سے قبل اس معاہدے کے تحت ٹم ایک اور کام کے لیے مجبور ہے۔ اسے اپنی بقیہ تمام زندگی آرٹ کی نمائشوں میں اپنی جلد کی نمائش بھی کرنی ہے۔ ٹم اسے ’زندہ کینوس‘ بننے کا نام دیتا ہے۔

    معاہدے کی اس شق کے تحت ٹم سال میں 3 بار کسی بڑی آرٹ کی نمائش میں، اسٹول پر مجسمے کی طرح ساکت بیٹھ جاتا ہے۔ یوں اس کی ٹیٹو زدہ جلد بھی فن پاروں میں شمار ہوتی ہے۔

    tattoo-3

    tattoo-4

    وہ بتاتا ہے کہ لوگ پہلے پہل اسے مجسمہ سمجھتے ہیں، لیکن جب وہ حرکت کرتا ہے اور لوگوں کو اس حکمت عملی کا علم ہوتا ہے تو وہ بہت حیران ہوتے ہیں۔

    tattoo-5

    tattoo-7

    ٹم کا کہنا ہے کہ یہ بہت دقت طلب اور اکتا دینے والا کام ہے، ’کئی گھنٹوں تک ایک ہی پوزیشن پر بیٹھے رہنا، اس دوران لوگ مجھے چھوتے بھی ہیں اور میرے بارے میں ہر قسم کی آرا کا اظہار کرتے ہیں‘۔

    گو کہ آرٹ کے دلدادہ ٹم کے لیے یہ سب کافی مشکل ہے لیکن وہ فن و مصوری کی ترویج کے لیے یہ مشکل کام بھی کر رہا ہے۔

  • کاغذ سے تصویر اور تکمیل کا مرحلہ

    کاغذ سے تصویر اور تکمیل کا مرحلہ

    کاغذ پر تصویر کی تشکیل اور پھر اس کی تکمیل تک کا مرحلہ کوئی آسان عمل نہیں، تخلیق کار کی تخلیق کا سارا کرب اس دوران ان کاغذوں پر بکھر آتا ہے، اور پھر یہ کرب فن پارے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔

    انہی تینوں مراحل کے نام سے اپنی نمائش منعقد کرنے والے 3 فنکار افشر ملک، انور سعید اور محبوب شاہ نے اپنے فن میں اسی کرب کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔

    لاہور کے نیشنل کالج آف آرٹ سے تعلیم حاصل کرنے والے اور زندہ دلان کے شہر میں رہنے والے ان فنکاروں نے اپنے فن کی نمائش کے لیے اس بار کراچی کو چنا۔

    کراچی کی مقامی آرٹ گیلری میں لوگوں کی بڑی تعداد نے متضاد خیالات کے حامل فن پاروں کی نمائش کو سراہا۔

    افشر ملک نے اپنے فن پاروں میں زندگی کے مختلف رنگوں کو پیش کیا۔

    afshar-1

    afshar-2

    afshar-3

    انور سعید کے اس فن پارے کا عنوان ہے’ جسم اور اس کے اندر رہنے والی چیزیں‘۔ وہ چیزیں جذبات، احساسات اور خیالات ہیں۔

    anwar-1

    محبوب شاہ نے مختلف تصاویر کو ایک نئے زاویہ نظر سے پیش کیا۔

    mehboob-1

    mehboob-2

    mehboob-4

    نمائش کراچی کی مقامی آرٹ گیلری میں مزید چند روز تک جاری رہے گی۔