Tag: مصور

  • جذبات کی ترجمانی کرتی سیاہی

    جذبات کی ترجمانی کرتی سیاہی

    سیاہی یا اندھیرا روشنی کی نوید سناتی ہے۔ ہر اندھیری رات اس بات کا یقین دلاتی ہے کہ سحر ضرور ہوگی اور اجالا ضرور پھیلے گا۔

    اندھیرے اور اجالے یا سیاہ اور سفید کے امتزاج میں بھی ایک منفرد حسن ہے جو اہل نظر کو ہی دکھائی دے سکتا ہے۔

    کچھ اسی خیال کو پیش کرتی کراچی کی ان دو نوجوان فوٹوگرافرز سے ملیے جو سیاہ تصاویر کھینچ کر ان میں سفیدی کی آمیزش کر کے ان تصاویر کو آرٹ کا شاہکار بنا دیتی ہیں۔

    صلہ سہگل اور نور خان کچھ عرصہ قبل کراچی میں اپنی تصاویر کی نمائش بھی کرچکی ہیں جہاں حاضرین نے ان کے فن اور اس کی وسعت کو بے حد سراہا۔

    3

    صلہ سہگل اپنے بارے میں بتاتی ہیں کہ انہیں فوٹو گرافی کا جنون ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ فوٹو گرافی ایک ایسا ہنر ہے جس میں آپ بالکل سادہ سی شے کو اس زاویے سے پیش کر سکتے ہیں کہ وہ کوئی ماورائی شے معلوم ہونے لگتی ہے۔

    8

    7

    انہیں سیاہ اور سفید یعنی بلیک اینڈ وائٹ تصاویر کھینچنا پسند ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ دو رنگ اپنے اندر بے پناہ وسعت معنی رکھتے ہیں اور ان ہی دو رنگوں کے ذریعہ جذبات کو بہترین انداز میں پیش کیا جاسکتا ہے۔

    9

    6

    وہ کہتی ہیں جس طرح ایک تصویر ہزار الفاظ سے بہتر ہوتی ہے، تو یہ تصویر کسی کو بھی نئے زاویوں سے سوچنے پر مجبور کرسکتی ہے۔

    دوسری فوٹو گرافر نور خان معروف فرانسیسی فوٹو گرافر مارک ربود کا جملہ سناتی ہیں، ’تصویر کھینچنا زندگی کے ایک ایک سیکنڈ کے سوویں حصہ کا بھی لطف دوبالا کردیتا ہے‘۔

    1

    4

    2

    نور کہتی ہیں کہ سیاہ اور سفید رنگ میں جو معنویت اور گہرائی نظر آتی ہے جو کسی اور رنگ میں نہیں ملتی۔

    سولہ سالہ صلہ سہگل اور 15 سالہ نور خان اپنے جنون کو کامیابی کے آسمان تک پہنچانے کے لیے پرعزم ہیں اور انہیں یقین ہے کہ وہ اسی سیاہی اور سفیدی سے زندگی کے رنگوں کو بہترین انداز میں پیش کرنے میں کامیاب ہوجائیں گی۔

  • ڈھلتے سورج، درختوں اور بارش کے شوخ رنگ

    ڈھلتے سورج، درختوں اور بارش کے شوخ رنگ

    آپ نے ایسے بے شمار فن پارے دیکھے ہوں گے جو قدرتی مناظر کو اجاگر کرتے ہیں۔ سنہرے، نارنجی، زرد اور کبھی کبھار گلابی رنگوں بھرے یہ فن پارے نہایت خوبصورت معلوم ہوتے ہیں۔

    اگر آپ نے فطرت پر غور کیا ہوگا تو آپ کو معلوم ہوگا کہ صبح، شام، رات، ہر پہر کا الگ رنگ ہے جسے صرف انسانی آنکھ ہی دیکھ سکتی ہے۔

    لیکن بہرحال یہ رنگ مخصوص ہی ہوتے ہیں۔ جیسے رات کو سیاہ، سفید اور سرمئی رنگ میں پیش کیا جاتا ہے۔ ڈھلتے یا ابھرتے سورج کے مناظر زرد، نارنجی اور سنہری رنگوں سے رنگے جاتے ہیں۔

    حسن ۔ کاملیت اور توازن یا بصیرت کے اظہار کا نام؟ *

    چند لمحوں میں فطرت کے حسین رنگوں کا سفر *

    اسی طرح درختوں کے پتے بھی سبز، زرد یا نارنجی ہوسکتے ہیں۔

    لیکن کیا ہوگا اگر شام کے سنہرے، زرد رنگوں میں گہرے اور شوخ رنگ شامل کردیے جائیں؟ یا رات کی سیاہی میں عمارتیں زرد کے بجائے جامنی سبز اور سرخ رنگ دکھانے لگیں؟

    یقیناً یہ ایک نہایت منفرد اور خوش کن نظارہ ہوگا جسے دیکھ کر آپ دل تھام کر رہ جائیں گے۔ تو لیجیئے پھر، ہم نے آپ کے لیے ایسی ہی کچھ منفرد تصاویر کو جمع کیا ہے۔

    1

    اٹلی کے تاریخی اور ترچھے پیسا ٹاور کو بارش میں خوبصورت رنگوں میں ملفوف دکھایا گیا ہے۔

    2

    پانیوں کے شہر وینس میں نامعلوم سمت سے آتے جامنی رنگ۔

    3

    ایک جنگل میں موجود جھونپڑی اور آسمان پر جامنی اور نیلے بادل۔

    4

    سورج ڈھلتے ہوئے آسمان کے گلابی رنگ۔

    5

    فن پارے میں موجود سورج، سمندر، چٹانیں اور آسمان، ہر شے الگ رنگ پیش کر رہی ہے۔

    6

    8

    یہ دو تصاویر دو مختلف شہروں میں واقع پلوں کی ہیں لیکن بظاہر یہ ایک جیسی لگتی ہیں۔ البتہ دونوں تصاویر میں موجود درختوں، پتوں اور پانی کے رنگ بالکل مختلف ہیں جو نہایت خوش کن معلوم ہورہے ہیں۔

    7

    اس قدر رنگین درخت اور پتے حقیقی دنیا میں تو موجود نہیں۔

  • موت برسانے والے جنگی ہتھیار گہرے رنگوں میں رنگ گئے

    موت برسانے والے جنگی ہتھیار گہرے رنگوں میں رنگ گئے

    ایک جنگ زدہ مقام پر زندگی کیسی ہوسکتی ہے؟ خوف و دہشت اور بے یقینی سے بھرپور، بے رنگ، اور ایسی زندگی جس میں کوئی خوشی نہ ہو۔ لیکن جب یہ جنگ طویل ہوجائے تو آہستہ آہستہ زندگیوں کا حصہ بن جاتی ہے اور پھر یہ ایک معمول کی بات بن جاتی ہے۔

    انسانی فطرت حالات سے کسی نہ کسی طور مطابقت کرنا سیکھ ہی لیتی ہے۔ جب خوشی ملنے کا کوئی بیرونی ذریعہ نہ ہو تو پھر یہ خوشی کو تلاشنے کے لیے ایسی ایسی چیزیں تخلیق کر ڈالتا ہے جس کا عام حالات میں تصور بھی ممکن بھی نہ ہوں۔

    مزید پڑھیں: شامی بچوں کے لیے مسکراہٹ لانے والا ٹوائے اسمگلر

    ایسا ہی خوشیوں کا تخلیق کار ایک شامی فنکار بھی ہے جو موت لانے والے جنگی ہتھیاروں کو فن کے نمونوں میں بدل کر انہیں خوشی حاصل کرنے کا ذریعہ بنا دیتا ہے۔

    اکرم ابو الفیض نامی یہ فنکار مارٹر گولوں اور راکٹ کے خول کو آرٹ کے شاہکار میں بدل دیتا ہے۔

    shell-10

    shell-6

    شام کے جنگ زدہ صوبے رف دمشق کا یہ فنکار ایک عام سا فنکار تھا۔ سنہ 2011 میں جنگ شروع ہونے سے قبل وہ شیشوں پر روایتی نقش و نگاری کیا کرتا تھا۔ یہ شام کا ایک روایتی آرٹ ہے جو دنیا بھر میں مشہور ہے۔

    لیکن پھر جنگ شروع ہوگئی۔ آسمان سے موت برسنے لگی اور فن و ثقافت، ادب، خوشی، سکون اور اطمینان جنگ کی دھول میں دفن ہوگیا۔

    اکرم کا کہنا ہے کہ جب اس کے صوبے میں جنگ شروع ہوئی تو ہر روز گھر سے باہر نکلنے پر اسے بڑی تعداد میں جابجا مارٹر گولوں اور راکٹ کے خول بکھرے ہوئے ملتے تھے۔

    مزید پڑھیں: پناہ گزین بچوں کے خواب

    ابتدا میں وہ انہیں اپنے ہم وطنوں کی موت کو یاد رکھنے کے لیے نشانی کے طور پر گھر لے آتا۔ پھر جب جنگ ان کی زندگیوں کا حصہ بن گئی، اور اپنوں کی موت کے زخم کچھ مندمل ہونے لگے تو اکرم کو اپنی بھولی بسری صلاحیت کا خیال آیا۔

    اس نے سوچا کہ اپنی مصوری کی خداداد صلاحیت کو کام میں لاتے ہوئے ان خولوں سے کچھ منفرد تخلیق کیا جائے۔

    اس نے دھول مٹی سے اٹا مصوری کا سامان نکالا اور ان خولوں کو گہرے رنگ میں رنگ دیا۔ ساتھ ہی ان پر منفرد نقش نگاری بھی کی۔

    shell-9

    shell-7

    shell-4

    اکرم ان خولوں پر نہایت گہرے رنگ کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس طرح وہ ان پر سے خون کے ان نادیدہ چھینٹوں کو مٹانے کی کوشش کرتا ہے جو ان کے گرنے کے بعد فضا میں پھیل گئے۔

    shell-5

    shell-8

    shell-2

    shell-3

    خوبصورت رنگوں سے سجے اور یہ منقش خول اس نے اپنے دوستوں اور خاندان کو تحفتاً بھی دیے لیکن زیادہ تر اس نے اپنے گھر پر ہی رکھے ہیں جنہیں اب دیکھ کر لگتا ہے کہ یہاں کوئی آرٹ کی نمائش ہورہی ہے۔

    اس کا کہنا ہے کہ اس قسم کے آرٹ سے وہ دنیا کو بتانا چاہتا ہے کہ شامی اب جنگ سے تنگ آچکے ہیں اور انہیں امن چاہیئے۔

    اکرم نے مصوری کی کوئی باقاعدہ تعلیم تو حاصل نہیں کی لیکن اس کی یہ صلاحیت خداداد ہے۔ وہ بہت چھوٹی عمر سے ہی کاغذ پر رنگ بکھیرنے کا شوقین ہے۔

    واضح رہے کہ شام کے لوگ پچھلے 5 سال سے خانہ جنگی کا شکار ہیں اور اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس خانہ جنگی کے دوران اب تک 4 لاکھ شامی ہلاک ہوچکے ہیں۔

    شام اور عراق کے جنگ زدہ علاقوں سے ہجرت کرنے والے افراد کی تعداد تاریخ میں مہاجرین کی سب سے بڑی تعداد ہے اور دنیا نے اس سے قبل کبھی اتنی زیادہ تعداد میں مہاجرین کی میزبانی نہیں کی۔

  • دوہرے پہلوؤں کی ترجمانی کرتے فن پارے

    دوہرے پہلوؤں کی ترجمانی کرتے فن پارے

    کائنات میں ہر شے کی دو انتہائیں ہیں۔ انہیں ہم دو رخ، دو پہلو یا دو سرحدیں بھی کہہ سکتے ہیں۔ لیکن ان دونوں سرحدوں، انتہاؤں، پہلوؤں اور رخوں کے درمیان بھی کوئی نہ کوئی شے موجود ہے جو اپنے اندر پوری کائنات رکھتی ہے۔ اسی خیال کو آرٹسٹ عدیل الظفر نے اپنی تخلیقات میں بہترین انداز سے پیش کیا۔

    کراچی کی مقامی آرٹ گیلری میں معروف آرٹسٹ عدیل الظفر کے فن پاروں کی نمائش کی گئی۔

    cat-post-5

    cat-post-7

    عدیل نے اپنے فن پاروں میں دہرے پہلوؤں اور احساسات کی ترجمانی کی ہے۔ ان کا تخلیق کردہ آرٹ موجود اور عدم موجود، سچ اور طاقت، تاریخ اور عصر حاضر اور ظاہری جنس اور اندرونی پہچان کی ترجمانی کرتا ہے۔

    cat-post-2

    cat-post-1

    عدیل کے مطابق ان متضاد چیزوں کی سرحد پر ایک نئی شے تخلیق ہوتی ہے۔ یہ شے اپنی خالق دونوں چیزوں کا آپس میں تعلق جوڑتی ہے لیکن بہرحال وہ ایک الگ اور تیسری شے ہے اور اس کی اپنی پہچان ہے۔

    جس طرح سیاہ اور سفید کے درمیان سرمئی رنگ یا جیومیٹری میں ’اے‘ اور ’بی‘ نامی زاویوں کے درمیان ایک نیا زاویہ، جو نہ اے ہوتا ہے نہ بی، لیکن وہ ’اے بی‘ کہلاتا ہے۔

    یہیں پر دیکھنے والا سوچنے اور ان میں چھپے ہوئے پیغام کو سمجھنے پر مجبور ہوتا ہے۔

    عدیل نے اس پہلو پر بھی توجہ دلانے کی کوشش کی ہے کہ جب دو متضاد پہلو یکساں رفتار سے چل رہے ہوں، تو ان میں سے طاقتور اور حاوی پہلو کون سا ہے۔ جو پہلو یا یا جو رخ طاقتور ہوگا وہی مثبت یا منفی اثرات پیدا کرنے کا تعین کرے گا، اور یہی کائنات کی حقیقت ہے جو روز اول سے موجود ہے۔

    cat-new

    اس فن پارے میں عدیل نے ایک کھلونے کو پٹیوں سے ڈھکا ہوا دکھا کر اس معصومیت کی طرف اشارہ کیا ہے جو چھن جائے یا عمر کے ساتھ ختم ہوجائے۔

    یہ معصومیت تا عمر کہیں ظاہر اور کہیں چھپی ہوئی ملتی ہے۔ پٹیوں سے ڈھکا ہونا اس کھلونے کی تخلیق سے اس کی تباہی تک کے سفر کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔

    cat-post-3

    یہ ماسک انسان کے دو چہروں کی طرف اشارہ ہیں کہ ماسک پر الگ تاثرات ہیں، اس کے اندر چھپے چہرے کے تاثرات مختلف ہوسکتے ہیں۔

    عدیل الظفر اس سے قبل بھی پاکستان اور بیرون ملک اپنے فن پاروں کی نمائش کر چکے ہیں۔

  • بونوں کے دیس کی سیر کریں

    بونوں کے دیس کی سیر کریں

    آپ نے مختلف فوٹوگرافرز کی مختلف تکنیکوں سے کھینچی گئی تصاویر دیکھی ہوں گی جو دیکھنے میں آرٹ کا شاہکار لگتی ہیں۔ آج ہم آپ کو ایسی ہی کچھ مختلف تصاویر دکھانے جارہے ہیں۔

    تھائی فوٹوگرافر اکاچی سیلو کی کھینچی گئی تصاویر ہمیں ایک تصوراتی دنیا میں لے جاتی ہیں جو بونوں کی دنیا ہے۔

    دراصل وہ ایک تکنیک کے ذریعہ تصویر میں موجود افراد کو پستہ قد کردیتا ہے جس کے بعد اس کی تصاویر دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے بونوں کے دیس کی سیر کی جارہی ہے۔

    عام تصاویر کو فلم کے پوسٹر میں بدلنے والا فنکار *

    انگوٹھی پر منعکس تصاویر *

    خوبصورت تصاویر کھینچنے کی تکنیک *

    یہ دراصل تصاویر کھینچنے کی ایک تکنیک ہے جسے ٹلٹ شفٹ فوٹوگرافی کہا جاتا ہے۔ اکاچی اس میں مزید اضافہ یہ کرتا ہے کہ وہ مختلف اشیا اور افراد کی الگ الگ تصاویر کھینچ کر انہیں ایک تصویر میں یکجا کردیتا ہے۔

    اس کی اس فنکاری کے بعد اس کی تخلیق کردہ تصاویر نہایت انوکھی اور خوبصورت معلوم ہوتی ہیں۔

    آئیے آپ بھی اس کی تصاویر سے لطف اندوز ہوں۔

    1

    2

    3

    4

    5

    6

    7

    8

    9

    10

    11

    12

    13

    14

  • وین گوف کے چوری شدہ فن پارے برآمد

    وین گوف کے چوری شدہ فن پارے برآمد

    روم: اطالوی پولیس نے مشہور مصور وین گوف کے 2 چوری شدہ مشہور فن پارے برآمد کرلیے ہیں۔ یہ فن پارے 2002 میں ایمسٹر ڈیم کے ایک میوزیم سے چرائے گئے تھے۔

    اطالوی پولیس کا کہنا ہے کہ یہ دو پینٹنگز ’نیپلز مافیا‘ نامی گروہ سے برآمد کی گئی ہیں۔ اس گروہ کے علاوہ ایک اور گروہ سے بھی لاکھوں یوروز مالیت کے کئی نوادرات برآمد کیے گئے۔

    van-1
    برآمد شدہ فن پارہ ۔ سمندر کا نظارہ

    ان کا کہنا ہے کہ یہ برآمدگی اٹلی کے منظم مجرمانہ گروہوں سے طویل تفتیش کے بعد عمل میں لائی گئی۔

    واضح رہے کہ ان فن پاروں کی چوری نے ایمسٹر ڈیم کے مشہور میوزیم کی سیکیورٹی پر سوالیہ نشان اٹھادیے تھے۔

    میوزیم کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ انہیں علم نہیں کہ ان کی ملکیت یہ فن پارے انہیں کب واپس ملیں گے تاہم انہیں اس بات کی خبر دی گئی ہے کہ برآمد شدہ فن پارے اپنی اصلی شکل میں موجود ہیں اور انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا۔

    van-2
    برآمد شدہ فن پارہ ۔ چرچ ان اویرس

    ونسنٹ وین گوف نیدر لینڈز سے تعلق رکھنے والا انیسویں صدی کا مشہور مصور تھا جس کے فن مصوری نے اس دور کی مصوری پر اہم اثرات مرتب کیے۔ وہ مشہور مصور پکاسو سے متاثر تھا۔

  • وین گوف کی تاروں بھری رات

    وین گوف کی تاروں بھری رات

    آپ نے مشہور مصور وین گوف کا شاہکار ’تاروں بھری رات‘ ضرور دیکھا ہوگا۔ یہ شاہکار وین گوف نے 1889 میں تخلیق کیا تھا۔

    اس آئل پینٹنگ میں ایک شہر کے پس منظر میں آسمان کو دکھایا گیا ہے جس میں خوبصورت تارے جھلملاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

    vg3

    چلی میں کچھ ایسا ہی نظارہ دیکھا گیا جس نے وین گوف کے اس شاہکار کی یاد تازہ کردی۔ یورپی جنوبی اوبزرویٹری نے چلی کے آسمان کی ایک تصویر جاری کی ہے جو بالکل وان گوگ کی تخلیق کردہ پینٹنگ کی طرح نظر آرہی ہے۔

    یہ نظارہ کچھ تو قدرتی تھا کچھ اس میں جدید ٹیکنالوجی کا استعال کیا گیا۔ فوٹوگرافر نے کیمرے کو جنوبی کیلسٹیل پول (زمین کے گرد قائم تصوراتی مقام جہاں سے زمین اور ستاروں کی گردش کا نظارہ کیا جاسکتا ہے) پر رکھا اور ’لیپس فوٹو گرافی‘ کی تکنیک اپنائی۔

    vg-2

    اس تکنیک کے ذریعہ وقت کو تیزی سے آگے بڑھا کر پورے دن کی تصویر یا ویڈیو چند سیکنڈز میں تخلیق کی جاسکتی ہے۔

    اس طریقہ سے جو تصویر حاصل ہوئی وہ بالکل وین گوف کے مشہور شاہکار ’تاروں بھری رات‘ جیسی ہے۔

    ونسنٹ وین گوف نیدر لینڈز سے تعلق رکھنے والا ایک مصور تھا جس کے فن مصوری نے اس دور کی مصوری پر اہم اثرات مرتب کیے۔ وہ مشہور مصور پکاسو سے متاثر تھا۔

  • رنگوں سے نئے جہان تشکیل دینے والی مصورات کے فن پارے

    رنگوں سے نئے جہان تشکیل دینے والی مصورات کے فن پارے

    زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو، خواتین کی نمائندگی کے بغیر ادھورا ہے۔ کسی شعبہ میں اگر خواتین کی آواز نہیں ہوگی تو اس کا مطلب ہے ہم دنیا کی نصف سے زائد آبادی کے خیالات جاننے سے محروم ہیں۔

    فن و ادب بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ اردو شاعری پر یہ الزام ہے کہ اس میں خواتین صرف نسوانی جذبات کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں۔ زندگی کی تلخ حقیقتوں سے روشناس بھی اسی صورت میں کرواتی ہیں جب ان کا تعلق صنف نازک سے ہو۔

    شاید اس کی وجہ یہ ہے عورت فطرتاً نرم دل اور حساس ہے۔ وہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی باتوں میں بڑی بات تلاش کرلیتی ہے۔ جب زندگی پہلے ہی مصائب سے گھری ہو، ہر طرف دکھ و الم ہو، بم دھماکے ہوں اور خون خرابہ ہو، تو ایسے میں جذبوں سے متعلق بات کرنا مزید مصیبت سے بچا لے گا۔

    ایسا ہی کچھ اظہار کرن شاہ، زینب مواز اور شاہانہ منور نے بھی اپنی پینٹنگز کے ذریعے کیا۔ نیشنل کالج آف آرٹس سے پڑھنے اور پڑھانے والی تینوں فنکارائیں اپنے فن کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کرتی ہیں۔

    اپنے فن کے بارے میں بتاتے ہوئے زینب مواز کہتی ہیں کہ پینٹنگ اپنے جذبات کے اظہار کا بہترین ذریعہ ہے۔ جب میں چھوٹی تھی تو خیالی دنیا میرے رہنے کی پسندیدہ جگہ تھی۔ تب میرے والدین اور ٹیچرز نے فیصلہ کیا کہ آرٹ کے ذریعے میں اپنی اس خیالی دنیا کو حقیقت میں لے آؤں۔

    ان کے کچھ فن پارے تجریدی آرٹ کا نمونہ ہیں۔ یہ دیکھنے والے پر منحصر ہے کہ وہ اس کے کیا معنی لیتا ہے۔

    ایک فنکار اپنے ارد گرد کے حالات کا اظہار کیسے کرتا ہے؟ اس کا جواب زینب مواز کا وہ فن پارہ ہے جس میں انہوں نے ایک کوے کو ایک پرندے سے نوالہ چھینتے ہوئے دکھایا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’کوا خودغرضی، لالچ اور بدفطرتی کی ایک مثال ہے۔ جب قصور میں بچوں کے ساتھ زیادتی کا ویڈیو اسکینڈل سامنے آیا تو اس نے مجھ پر گہرا اثر ڈالا۔ انسانوں کی اس بدفطرتی کو علامتی اظہار میں پیش کرنے کے لیے مجھے کوے سے بہتر اور کوئی چیز نہیں لگی۔‘

    البتہ شاہانہ منور اس بات کی نفی کرتی ہیں۔

    ان کے خیال میں زندگی میں بے شمار دکھ، بے شمار مسائل ہیں، تو اپنی ذاتی زندگی کے مسائل کا آرٹ کے ذریعے اظہار کر کے دوسروں کے مسائل میں اضافہ کرنا نا انصافی ہے۔ کیوں نہ انہیں رنگوں کی خوبصورتی دکھائی جائے تاکہ وہ چند لمحوں کے لیے ہی سہی، لیکن خوشی محسوس کر سکیں۔

    زینب اپنی ایک پینٹنگ کے ذریعے لوگوں کی فطرت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

    ان کا کہنا ہے، ’لوگ بے رحم حد تک نکتہ چیں ہوتے ہیں۔ وہ منصفی کی ایک خود ساختہ کرسی پر بیٹھ کر ہر شخص کو جج کرتے ہیں۔‘ ان کی اس پینٹنگ میں ایک عورت طوطے کو ہاتھ پر بٹھا کر فرصت سے اس میں خامیاں تلاش کر رہی ہے۔

    شاہانہ منور اپنی پینٹنگز میں عورت کی خوبصورتی کو بیان کرتی ہیں۔ ان کے فن پارے ’وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘ کی عملی تصویر نظر آتے ہیں۔ گہرے اور شوخ رنگوں سے انہوں نے لفظ’عورت‘ میں قید رنگینی، خوبصورتی اور دلکشی کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔

    گہرے رنگوں کو استعمال کرنے والی کرن شاہ اپنے فن کے بارے میں بتاتی ہیں، کہ ان کا مزاج بدلتا رہتا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے فن پارے بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔

    ایک طرف وہ ان فن پاروں کے ذریعے انسانی فطرت کی بدصورتی کو اجاگر کر رہی ہیں تو دوسری طرف شوخ رنگوں سے مزین یہ فن پارے زندگی کے روشن رخ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

    یہ تینوں مصورات اپنے اپنے تصورات اور تخیلات کے سہارے فن مصوری کی نئی جہتوں اور نئے جہانوں کی تلاش میں ہیں اور ان کی تصویروں میں استعمال ہونے والے رنگوں کا اعتماد بتاتا ہے کہ ایک نہ ایک دن یہ تینوں اپنی منزل ضرور حاصل کرلیں گی۔