Tag: مطالعہ

  • ’گہرا مطالعہ‘ کیا ہے اور کیوں ضروری ہے؟

    ’گہرا مطالعہ‘ کیا ہے اور کیوں ضروری ہے؟

    ناٹنگھم یونیورسٹی کے پروفیسر گریجری کیوری (Gregory Currie) نے نیویارک ٹائمز میں لکھا تھا کہ ہم یہ دعویٰ نہیں کرسکتے کہ ادب کا مطالعہ ہمیں ایک بہتر انسان بناتا ہے؛ کیوں کہ ’’خارج میں اس بات کا کوئی اطمینان بخش ثبوت نہیں ملتا کہ لوگ ٹالسٹائی یا دوسری عظیم ادبی تخلیقات کو پڑھ کر اخلاقی یا سماجی اعتبار سے بہتر انسان بن گئے۔‘‘

    حالاں کہ یہ بات انتہائی غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے ثبوت موجود ہیں۔ یارک یونیورسٹی، کناڈا کے ماہر نفسیات ریمنڈ مار ( Raymond Mar) اور ٹورنٹو یونیورسٹی میں علمی نفسیات کے پروفیسر ایمرٹس کیتھ اوٹلی(Keith Oatley) نے 2006 اور 2009 میں ایک مشترکہ اسٹڈی شائع کروائی، جس میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ جو لوگ زیادہ تر فکشن کا مطالعہ کرتے ہیں، وہ دوسروں کو سمجھنے کی بہتر صلاحیت رکھتے ہیں، ان کے اندر لوگوں کے تئیں ہمدردی کا جذبہ بھی دوسروں سے زیادہ ہوتا ہے اور وہ دنیا کو دوسروں کے نظریے سے دیکھنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کا سرا محققین کی اس دریافت سے بھی جڑتا ہے کہ جو لوگ زیادہ ہمدردانہ جذبات کے حامل ہوتے ہیں، وہ ناول پڑھنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ 2010 میں ریمنڈ نے بچوں کے سلسلے میں شائع شدہ اپنی اسٹڈی میں بھی اسی قسم کی باتیں لکھی تھیں، ان کے مطابق: ان کے سامنے جتنی زیادہ کہانیاں پڑھی گئیں، ان کے اذہان دوسروں کے خیالات کو سمجھنے کے اتنے ہی قریب ہوتے گئے۔

    مطالعے کی ایک قسم ہے، جسے Deep reading یا ’’گہرا مطالعہ ‘‘کہتے ہیں، اس کے مقابلے میں ’’سطحی مطالعہ‘‘(superficial reading) کی اصطلاح کا استعمال ہوتا ہے، جس کا اطلاق عموماً انٹرنیٹ، ویب سائٹس وغیرہ کے مطالعے پر کیا جاتا ہے۔ محققین اور مطالعہ و علمی نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بہ تدریج گہرے مطالعے کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے اور اسے خطرات لاحق ہیں، اس کے تحفظ کے لیے ویسی ہی کوشش کی ضرورت ہے، جیسی کہ ہم کسی تاریخی عمارت یا فنی و تہذیبی شہ پارے کے تحفظ کے لیے کرتے ہیں۔ اگر گہرے مطالعے کا رجحان ختم ہوجاتا ہے تو اس سے نہ صرف آن لائن نشو و نما پانے والی ہماری نسلوں کا عقلی و جذباتی خسارہ ہوگا بلکہ اس سے ہماری تہذیب و ثقافت کے اہم جز مثلاً ناول، شاعری اور دوسری قسم کے ایسے ادب کی بقا کو بھی خطرات لاحق ہوجائیں گے، جس کے فروغ میں صرف وہ قارئین حصہ لیتے ہیں، جن کے اندر خاص طور پر لٹریچر کو سمجھنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔

    دماغی سائنس، نفسیات اور نیورو سائنس سے متعلق ایک حالیہ تحقیق میں یہ بتایا گیا ہے کہ ’’گہرا مطالعہ‘‘(جو دھیرے دھیرے، کتاب میں ڈوب کر کیا جاتا ہے اور جو محسوس تفصیلات اور اخلاقی و جذباتی اتار چڑھاؤ سے مالا مال ہوتا ہے) ایک منفرد تجربہ اور الفاظ کی ظاہری سمجھ سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ حالاں کہ گہرے مطالعے کے لیے لازمی طور پر کسی مانوس اور پسندیدہ کتاب کا ہونا ضروری نہیں ہے، مطبوعہ صفحات میں فطری طور پر ایسی انفرادی صلاحیت ہوتی ہے، جو گہرے مطالعے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ہائپر لنک سے آزاد کتاب قاری کو فیصلہ سازی کے تذبذب سے بچاتی ہے (کہ میں اس لنک پر کلک کروں یا نہ کروں؟) اور اسے پوری طرح مصنف کے بیانیے میں محو کر دیتی ہے۔

    یہ محویت یا استغراق ایک ایسے طریقۂ کار سے مربوط ہے جس کے ذریعے انسان کا دماغ کتاب میں مذکور مختلف تفصیلات، تلمیحات و استعارات سے مالا مال زبان سے معاملہ کرتا ہے۔ بایں طور کہ وہ ذہن کے پردے پر ایک عقلی نقشہ بناتا ہے جو کتاب کے ان مباحث پر قائم ہوتا ہے، جو اُس وقت ایکٹیو ہوسکتے ہیں جب وہ منظر حقیقی زندگی میں بھی سامنے ہو۔جذباتی احوال اور اخلاقی مسائل جو کہ ادب کے لازمی اجزا ہوتے ہیں، وہ بھی زبردست دماغی مشق کا ذریعہ ہیں، وہ ہمیں خیالی اور تصوراتی اشخاص کے دماغوں تک پہنچاتے اور جیسا کہ مطالعات و تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے، ہماری باہمی ہمدردی کی حقیقی صلاحیت میں اضافے کا سبب بھی بنتے ہیں۔ مگر یہ سب اس وقت نہیں ہوتا جب ہم انٹرنیٹ پر کوئی ویب سائٹ اسکرول کررہے ہوتے ہیں۔ گرچہ ہم اسے بھی پڑھنے سے تعبیر کر سکتے ہیں، مگر کتابوں کا گہرا مطالعہ اور منتشر معلومات پر مبنی ویب سائٹ کو دیکھنا، پڑھنا دونوں میں تجربے، نتائج اور ان سے حاصل ہونے والی صلاحیتوں کے اعتبار سے بہت فرق ہے۔ بہت سی ایسی دلیلیں ہیں، جو یہ بتاتی ہیں کہ آن لائن مطالعے میں قاری کا انہماک کم سے کم ہوتا ہے اور یہ ان لوگوں کے لیے بھی بہت زیادہ اطمینان بخش نہیں ہوتا، جو انٹرنیٹ کی دنیا سے کافی مانوس ہیں۔

    گہرا مطالعہ کرنے والا انسان ذہنی انتشار سے محفوظ ہوتا ہے اور وہ دورانِ مطالعہ سامنے آنے والے الفاظ کے درمیان پائے جانے والے باریک لغوی فرق کو بھی بخوبی سمجھتا ہے، پھر دورانِ مطالعہ بہ تدریج اس پر ایسی کیفیت طاری ہوجاتی ہے جسے ماہر نفسیات وکٹر نیل (Victor Nell) نے مطالعے سے لطف اندوزی کی نفسیات سے متعلق اپنی ایک تحقیق میں’’خواب آور کیفیت‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ نیل کی تحقیق یہ کہتی ہے کہ جب ایک قاری مطالعے سے لطف اندوز ہونے لگتا ہے، تو اس کے مطالعے کی رفتار دھیمی ہو جاتی ہے۔ الفاظ کو سرعت کے ساتھ سمجھنا اور صفحے پر آہستگی سے آگے بڑھنا دونوں مل کر گہرائی کے ساتھ مطالعہ کرنے والے کو تحلیل و تجزیہ، چیزوں کو یاد رکھنے اور آرا و افکار کو نتیجہ خیز بنانے کا کافی وقت فراہم کرتے ہیں۔ اس طرح قاری کو مصنف کے ساتھ گہرا تعلق قائم کرنے کا وقت ملتا ہے، جس کے زیر اثر دو محبت کرنے والوں کی طرح یہ دونوں ایک طویل و گرم جوشانہ گفتگو میں منہمک ہوجاتے ہیں۔

    یہ وہ مطالعہ نہیں ہے جسے بہت سے نوجوان جانتے ہیں۔ ان کا مطالعہ وقتی فائدے کا حامل ہے اور دونوں میں وہی فرق ہے، جسے معروف ادبی نقاد فرینک کرموڈ (Frank Kermode) نے ’’جسمانی مطالعہ‘‘ اور ’’روحانی مطالعہ‘‘ کے ذریعے بیان کیا ہے۔ اگر ہم اپنی نئی نسل کو یہی باور کراتے رہے کہ ’’جسمانی مطالعہ‘‘ ہی سب کچھ ہے اور ابتدائی دور میں ہی مشق و ممارست کے ذریعے ہم نے انھیں روحانی مطالعے کا عادی نہیں بنایا، تو ہم انھیں ایک لطف انگیز و سرور بخش تجربے سے محروم رکھ کر دھوکے میں ڈالیں گے۔ ہم انھیں ایسے اعلیٰ اور روشنی بخش تجربے سے محروم کر دیں گے جو بطور انسان انھیں بلند کرسکتے ہیں۔

    ڈیجیٹل آلات سے نئی نسل کی وابستگی کو دیکھتے ہوئے بعض ترقی پسند معلمین اور کسل مند والدین بچوں کی عادتوں کے ساتھ چلنے اور ان کی تعلیم کو بھی آن سکرین لانے کی باتیں کرتے ہیں، حالاں کہ یہ غلطی ہے۔ اس کی جگہ ضرورت ہے کہ ہم انھیں ایسی جگہیں دکھائیں جہاں وہ کبھی نہیں گئے۔ ایسی جگہیں جہاں وہ محض ’’گہرے مطالعے‘‘ کے ذریعے پہنچ سکتے ہیں۔

    (دی ٹائم میگزین کے ایک مضمون کا یہ ترجمہ نایاب حسن نے کیا ہے)

  • ایک ایسا کام جس سے قیدیوں کی سزا کم ہو سکتی ہے

    ایک ایسا کام جس سے قیدیوں کی سزا کم ہو سکتی ہے

    سوکرے: ایک وسطی جنوبی امریکی ملک میں حکام نے انوکھا پروگرام شروع کیا ہے کہ جیلوں میں قید شہریوں کی سزا کم ہو جائے گی اگر وہ کتابیں پڑھیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق بولیویا دنیا کا ایک ایسا ملک ہے جہاں جیل میں کتاب پڑھنے والوں کی سزا کم کر دی جاتی ہے، یعنی قیدی کتابوں کی مخصوص تعداد پڑھ کر اپنی سزا کو کم کروا سکتا ہے۔

    بولیویا میں حکومت نے اس انوکھے پروگرام کا آغاز قیدیوں کو خواندہ کرنے کے لیے کیا، اس پروگرام کا نام ‘بکس بی ہائنڈ بارز’ رکھا گیا ہے، یہ پروگرام قیدیوں کی سزا کم کر سکتا ہے تاہم اس کا اصل مقصد لوگوں کو خواندہ کرنا ہے۔

    خیال رہے کہ بولیویا میں سزائے موت اور عمر قید کی سزا نہیں دی جاتی، تاہم وہاں عدالتی نظام نہایت سست ہونے کی وجہ سے قیدیوں کو طویل عرصے جیلوں میں رہنا پڑتا ہے۔

    مذکورہ پروگرام کا آغاز بولیویا کے تقریباً 47 جیلوں میں کیا جا چکا ہے، جہاں 800 سے زائد قیدی مطالعہ شروع کر چکے ہیں اور کئی افراد لکھنا بھی سیکھ چکے ہیں۔

    جیل انتظامیہ کے مطابق قیدیوں میں ایک خاتون قیدی جیکولین بھی ہیں جو 8 کتابیں پڑھ چکی ہیں اور پڑھنے کے 4 ٹیسٹ بھی پاس کر چکی ہیں۔

    اس منصوبے کا ہدف وہ غریب اور ان پڑھ قیدی ہیں جو کسی وجہ سے لکھ اور پڑھ نہ سکے، رپورٹس کے مطابق قیدیوں کی بڑی تعداد نے اس پروگرام میں دل چسپی کا اظہار کیا ہے۔

  • ویڈیو گیمز کھیلنے کا یہ فائدہ جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    ویڈیو گیمز کھیلنے کا یہ فائدہ جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    بچوں اور نوجوانوں کا ویڈیو گیمز کھیلنا بڑوں کے لیے ناپسندیدہ عادت ہوسکتی ہے لیکن آپ یہ جان کر حیران ہوجائیں گے کہ یہ عادت ہمارے مطالعے کی صلاحیت کو بہتر بنا سکتی ہے۔

    یونیورسٹی آف سیسکچیوان کے ماہرین کے مطابق ویڈیو گیمز کھیلنا ممکنہ طور پر توجہ دینے کی صلاحیت کو بہتر کر سکتا ہے، جو پڑھنے کی صلاحیت کے لیے ضرورتی ہوتی ہے۔

    تحقیق کی سربراہ شیلین کریس کا کہنا ہے کہ توجہ کامیاب مطالعے کا ایک اہم حصہ ہے، آپ کی آنکھیں پورے صفحے پر ایک منظم انداز میں اسکین کرتی ہیں تاکہ درست طریقے سے الفاظ اور جملوں کو دیکھ سکیں۔

    انہوں نے کہا کہ وہ سرگرمیاں جو توجہ کے عمل پر اثر ڈالتی ہیں جیسے کہ ویڈیو گیمز کھیلنا وغیرہ، ان کا مطالعے پر بھی اثر ہوتا ہے۔

    تحقیق میں ماہرین نے یہ سمجھنا شروع کیا کہ کس طرح گیمنگ مطالعے کی صلاحیت پر اثرات مرتب کرتی ہے، ماہرین کو امید ہے کہ ان کی ہونے والی دریافت بہتر ویڈیو گیم ڈیزائن تک لے جا سکے گی جو صحت مند عادات کو فروغ دے گا۔

  • سعودی استاد کی اپنے ہم وطنوں کی بھلائی کے لیے قابل فخر کوشش

    سعودی استاد کی اپنے ہم وطنوں کی بھلائی کے لیے قابل فخر کوشش

    ریاض: سعودی عرب میں ایک استاد نے قابل تقلید قدم اٹھا کر اپنے گھر کی بیرونی دیوار پر عوامی بک شیلف بنا دیا، شیلف سے مقامی شہری کتابیں لے بھی جاتے ہیں اور وہاں نئی کتابیں رکھنے بھی لگے ہیں۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق ایک سعودی استاد حسن آل حمادہ نے اپنے گھر کی دیوار پر کتابوں کے تبادلے کے لیے بک شیلف نصب کیا ہے، مذکورہ استاد مشرقی سعودی عرب کی کمشنری القطیف کے رہتے ہیں۔

    ان کے قائم کردہ اس شیلف سے مقامی شہری کتابیں لے بھی جاتے ہیں اور وہاں نئی کتابیں رکھنے بھی لگے ہیں۔

    ایک مقامی ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے حسن آل حمادہ نے اس حوالے بتایا کہ انہوں نے اپنی پہلی کتاب سنہ دراصل 1997 میں شائع کی تھی، تب سے وہ یہ سوچتے رہے کہ لوگوں میں کس طرح مطالعے کی عادت کو فروغ دیا جائے۔

    انہوں نے بتایا کہ 3 برس قبل مکان کی دیوار میں بک شیلف قائم کرنے کا خیال آیا تھا مگر کئی رکاوٹیں ایسی آئیں کہ اس پر عملدر آمد نہ ہوسکا۔ اس سال سعودی عرب کے 90 ویں قومی دن کے موقع پر اپنے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کردیا۔

    ان کے مطابق پہلے دن 90 کتابیں بک شیلف میں رکھی تھیں جو اب بڑھ کر 270 ہوچکی ہیں۔ مقامی شہری اس میں بے حد دلچسپی لے رہے ہیں۔

    آل حماد کا کہنا تھا کہ گھر کی دیوار میں بک شیلف قائم کرنے کی وجہ یہ بھی تھی کہ بعض لوگ کتابیں پڑھتے ہیں اور پھر ان کے گھروں میں انہیں رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ ایسے افراد بجائے ان کتابوں کو ضائع کرنے کے یہاں بک شیلف میں لا کر رکھ سکتے ہیں۔

    اسی طرح کئی افراد مطالعہ کرنا چاہتے ہیں مگر وہ کتاب خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے، انہی تمام افراد کے لیے یہ بک شیلف تعلیم اور مطالعے کا ایک ذریعہ ثابت ہورہا ہے۔

  • ٹی وی دیکھنا زیادہ فائدہ مند ہے یا مطالعہ کرنا؟

    ٹی وی دیکھنا زیادہ فائدہ مند ہے یا مطالعہ کرنا؟

    ہم میں سے اکثر افراد اپنا فارغ وقت ٹی وی دیکھتے ہوئے گزارتے ہیں جبکہ کچھ افراد یہ وقت کتاب پڑھتے ہوئے گزارتے ہیں، سماجی ماہرین کا خیال ہے کہ مطالعہ کرنا ٹی وی دیکھنے سے بہتر ہے۔

    مختلف سماجی و نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ جب بھی ہم ٹی وی دیکھتے ہیں تو ضروری نہیں کہ وہ ہر وقت کچھ ایسا ہو جس سے ہم کچھ نیا سیکھیں۔

    اس کے برعکس جب ہم کوئی کتاب مکمل کر کے اٹھتے ہیں تو یہ ہمیں کاملیت کا احساس دیتی ہے، ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ ہم نے مطالعے سے کچھ نہ کچھ نیا سیکھا ہوتا ہے اور ہم اپنی معلومات میں اضافہ محسوس کرتے ہیں۔

    سنہ 2013 میں جاپان میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق وہ بچے جو اپنا زیادہ وقت ٹی وی دیکھتے ہوئے گزارتے تھے ان کے آئی کیو لیول میں کمی دیکھی گئی۔

    اس کے برعکس امریکا میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق کتاب مکمل کرلینے کے بعد اگلے 5 روز تک پڑھنے والے کا دماغ چاک و چوبند اور تخلیقی راہ پر گامزن رہتا ہے۔

    مطالعہ کرنے سے پڑھنے والے کے ذخیرہ الفاظ میں بھی اضافہ ہوتا ہے جبکہ اس کے اندر لکھنے کی صلاحیت بیدار (یا اگر پہلے سے ہو تو) بہتر ہوتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق زیادہ ٹی وی دیکھنے کے مختلف طبی نقصانات بھی ہیں جن میں سر فہرست وزن میں اضافہ اور آنکھوں کو نقصان پہنچنا ہے، لہٰذا بہتر یہی ہے کہ ٹی وی دیکھنے کا وقت کم کر کے مطالعے کا وقت بڑھایا جائے۔

    آپ اپنے فارغ وقت میں دونوں میں سے کس کام کو ترجیح دیتے ہیں؟

  • وہ عادات جو دماغی استعداد میں اضافے کے ساتھ آپ کو تازہ دم کردیں

    وہ عادات جو دماغی استعداد میں اضافے کے ساتھ آپ کو تازہ دم کردیں

    دن بھر تھکے ہارے ہونے کے بعد جب آپ گھر پہنچتے ہیں تو قدرتی طور پر آرام کرنا چاہتے ہیں۔ آرام کرنے کے لیے سونا، اور لیٹنا تو معمول کی بات ہے لیکن بعض افراد کوئی ایسا کام سر انجام دیتے ہیں جو ان کو پسند ہوتا ہے۔

    اس طریقے سے دراصل وہ اپنے ذہن کو تازہ دم کرتے ہیں۔ کچھ افراد ٹی وی دیکھتے ہیں، کچھ موسیقی، پینٹنگ یا لکھنے لکھانے کا کام کرتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھ کام ایسے ہیں جنہیں کر کے ہم بیک وقت اپنی تھکن میں کمی اور دماغی استعداد میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں وہ کام کون سے ہیں۔

    ٹی وی کی جگہ کتاب پڑھیں

    2

    کتاب پڑھنا اور مطالعہ کرنا آپ کی معلومات اور تخلیقی صلاحیت میں اضافہ کرتا ہے جبکہ اس کے لیے آپ کو کوئی خاص مشقت بھی نہیں کرنی پڑتی۔ آپ اپنی سہولت کے مطابق آرام دہ حالت میں لیٹ یا بیٹھ کر مطالعہ کرسکتے ہیں۔

    اس کے برعکس ٹی وی دیکھنا آپ کے دماغ پر بوجھ ڈالتا ہے اور زیادہ دیر تک ٹی وی دیکھنا موٹاپے اور امراض قلب سمیت دیگر بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔

    کمپیوٹر گیمز

    3

    ویسے تو ماہرین کمپیوٹر گیمز کھیلنے کو نقصان دہ عادت خیال کرتے ہیں لیکن کم وقت کے لیے کمپیوٹر گیمز کھیلے جائیں تو یہ آپ کی فوری فیصلہ کرنے اور حالات کے مطابق حکمت عملی اپنانے کی صلاحیت میں اضافہ کرتا ہے۔

    غیر ملکی زبان میں فلمیں

    4

    غیر ملکی فلموں کو ڈب کے بجائے ان کی اصل زبان میں ہی دیکھا جائے۔ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ مختلف زبانیں سیکھنے، بولنے اور سننے سے دماغ فعال ہوتا ہے اور اس کی کارکردگی اور استعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔

    دن میں کچھ وقت کا وقفہ

    5

    دن بھر کام کے دوران کچھ دیر کا وقفہ لیں اور اس دوران چائے یا گرین ٹی سے لطف اندوز ہوں۔ یہ آپ کے تھکے ہوئے اعضا کو پرسکون کرے گا اور آپ دوبارہ کام کرنے کے لیے تازہ دم ہوجائیں گے۔

    قیلولہ

    sleep

    دن میں 20 سے 30 منٹ کا قیلولہ نہ صرف آپ کی جسمانی توانائی میں اضافہ کرے گا بلکہ آپ کے دماغ کو بھی چاق و چوبند بنائے گا۔

    ذہین لوگوں کے ساتھ وقت گزارنا

    6

    ایسے لوگ جن کا علم، تجربہ اور مطالعہ آپ سے وسیع ہو ان کے ساتھ وقت گزاریں اور گفتگو کریں۔ اس سے آپ کی دماغی وسعت میں اضافہ ہوگا اور آپ چیزوں کو نئے زاویوں سے دیکھنے اور پرکھنے کے قابل ہوسکیں گے۔

    بحث و مباحث میں حصہ لیں

    8

    اپنے جیسی دماغی استعداد کے حامل افراد سے مختلف موضوعات پر بحث و مباحثے کریں۔ بحث آپ کے خیالات اور نظریات کو نئے زاویے فراہم کرے گی۔

    تازہ ہوا میں چہل قدمی

    7

    روز صبح تازہ ہوا میں چہل قدمی کریں۔ یہ آپ کے دماغ سے منفی خیالات کو ختم کر کے اس کی استعداد اور آپ کی تخلیقی صلاحیت میں اضافہ کرے گی۔

  • مطالعہ ڈپریشن کم کرنے میں مددگار

    مطالعہ ڈپریشن کم کرنے میں مددگار

    آج کل کی مصروف زندگی میں ڈپریشن نہایت ہی عام مرض بن چکا ہے اور ہر دوسرا شخص اس مرض کا شکار ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زندگی میں مطالعے کی عادت ڈپریشن کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔

    یونیورسٹی آف سسکیس میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق مطالعہ کرنا دل کی دھڑکن کو کم کرتا ہے جبکہ اعصاب کو پرسکون کرتا ہے جس سے ذہنی تناؤ میں کمی واقع ہوتی ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ مطالعہ کسی بھی اور طریقے سے زیادہ 68 فیصد تک ڈپریشن میں کمی کرسکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ مطالعے کے دوران ڈپریشن کا شکار افراد کا دماغ حقیقی زندگی کے مسئلے سے ہٹ کر کتاب میں دی گئی صورتحال میں محو ہوجاتا ہے جس سے ان کے ذہنی دباؤ اور تناؤ میں کمی واقع ہوتی ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی کہا گیا کہ باقاعدگی سے مطالعہ کرنے والے افراد بڑھاپے میں یادداشت کی بیماریوں یعنی ڈیمنشیا اور الزائمر سے محفوظ رہتے ہیں۔

    ماہرین کی تجویز ہے کہ روزانہ صرف 6 منٹ کا مطالعہ ڈپریشن سے خاصی حد تک تحفظ فراہم کرسکتا ہے۔

  • مطالعے کا وقت نہیں‌ ملتا؟ پریشان مت ہوں، آڈیو بکس حاضر ہیں

    مطالعے کا وقت نہیں‌ ملتا؟ پریشان مت ہوں، آڈیو بکس حاضر ہیں

    عام شکایت ہے کہ کتب بینی کا چلن کم ہوتا جارہا ہے، لوگ اب مطالعہ نہیں کرتے، کتابوں کی فروخت میں واضح کمی آئی ہے۔

    اعدادوشمار ایک حد تک اس گھٹتے رجحان کی تصدیق کرتے ہیں، البتہ اس کے اسباب بھی ہیں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کا بڑھتا دائرہ اثر ایک اہم وجہ ہے۔

    یہ سچ ہے کہ سوشل میڈیا کی سرگرمیاں اور سنیما، ٹی وی اور تھیٹر جیسے تفریح کے ذرایع ہمارا خاصا وقت نگل لیتے ہیں، پیشہ ورانہ مصروفیات اور زندگی کی تیزرفتاری کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

    ایک اہم وجہ کتابوں کی خریدی پر آنے والے خرچے کے ساتھ ساتھ انھیں پڑھنے کے لیے درکار صبر اور یکسوئی بھی ہے۔

    ایسے میں آڈیو بکس یا صوتی کتب اس مسئلے کا جامع حل پیش کرتی ہیں۔ ٹیکنالوجی کے طفیل آپ اب کتابیں ڈرائیورنگ کرتے ہوئے، کھانا پکاتے، یہاں تک کہ ٹیسٹ میچ دیکھتے ہوئے بھی سن سکتے ہیں۔

    ورزش کرتے ہوئے جین اسٹن کے تکبر و تعصب، بس میں سفر کرتے ہوئے گارسیا مارکیز کے تنہائی کے سو سال اور استری کرتے ہوئے اورحان پامک کے مائی نیم از ریڈ جیسے ناولز کا پڑھنا ان ہی آڈیو بکس کے ذریعے ممکن ہے۔

    ایک تجزیے کے مطابق آڈیو بکس سننے کے رجحان میں گذشتہ بیس برس میں خاصا اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے اس شعبے نے باقاعدگی انڈسٹری کی شکل اختیار کر لی ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے نے اپنی رپورٹ میں صوتی کتب سے وابستہ بارہ فوائد کا ذکر کیا ہے، جیسے آپ دیگر کام کرتے ہوئے صوتی کتابیں سن سکتے ہیں، یہ اچھے صداکاروں کی آواز میں ریکارڈ کی جاتی ہیں، جن کی مہارت  ان کتب کا لطف دوبالا کر دیتی ہے۔

    یہ کتابیں ہینڈز فری ہوتی ہیں، یوں بزرگ بھی ان سے استفادہ کرسکتے ہیں، یہ اچھی صحبت فراہم کرتی ہی، ان کی مدد سے بیزار کن کام بھی دلچسپ ہو جاتے ہیں، یہاں وغیرہ وغیرہ۔

    الغرض اگر آپ کو یہ قلق ہے کہ آپ مصروفیات کے باعث کتابوں سے دور ہوگئے ہیں، تو فوری طور پر آڈیو بکس سے رجوع کیجیے، ایسی بہت سے ویب سائٹس موجود ہیں، جو یہ سروس بلامعاوضہ فراہم کرتی ہیں۔

  • کامیاب افراد کی زندگی کا ایک لازمی اصول

    کامیاب افراد کی زندگی کا ایک لازمی اصول

    کامیاب افراد میں کئی عادات مشترک ہوتی ہیں۔ دراصل یہ مثبت عادات ہی کسی شخص کے زندگی میں کامیاب یا ناکام ہونے کا تعین کرتی ہیں۔ لیکن ان میں ایک عادت ایسی ہوتی ہے جو ان کی کامیابی کی ضمانت ہوتی ہے۔

    وہ عادت اگر عام افراد میں بھی موجود ہو تو انہیں کامیاب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

    مزید پڑھیں: کامیاب اور ناکام افراد میں فرق

    کیا آپ جانتے ہیں وہ عادت کون سی ہے؟

    وہ عادت ہے ہر وقت کچھ نیا سیکھنے کی۔ جب ہم عملی زندگی میں آتے ہیں تو ہمارے پاس وقت کی قلت ہوجاتی ہے اور اس کا سب سے منفی اثر یہ ہوتا ہے کہ ہم کچھ نیا سیکھنا چھوڑ دیتے ہیں۔

    ہم کتاب پڑھنا، انٹرنیٹ یا ٹی وی سے کوئی معلوماتی چیز سیکھنا اور ایسے لوگوں سے ملنا چھوڑ دیتے ہیں جن سے ہمیں کچھ سیکھنے کا موقع ملے۔

    لیکن یہی وہ عادت ہے جس نے ایک اوسط درجے کے طالب علم کو امریکا کی تاریخ کا ایک کامیاب سیاستدان بنا دیا۔

    جی ہاں، بینجمن فرینکلن جو ایک معروف سیاستدان، سائنسدان، تاجر، مصنف اور مفکر تھا، زمانہ طالبعلمی میں ایک اوسط درجے کا طالب علم تھا۔ وہ جیسے تیسے امتحانات پاس کرتا تھا اور اسے کتابیں پڑھنے سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔

    لیکن عملی زندگی میں آنے کے بعد اس نے ایک چیز کو اپنی زندگی کا لازمی اصول بنالیا تھا۔ وہ اصول ہمیشہ کچھ نیا سیکھنے کا تھا جس کے لیے وہ بے تحاشہ مطالعہ کیا کرتا۔ اس نے دنیا پر اپنے ان مٹ نقوش چھوڑے اور اس کے لیے جو اس نے واحد راستہ اپنایا وہ کتابیں پڑھ کر سب کچھ سیکھنے کا تھا۔

    وہ روز صبح جلدی اٹھ کر کچھ وقت لکھنے اور پڑھنے میں صرف کیا کرتا تھا اور یہی اس کی کامیابی کی وجہ تھی۔

    صرف ایک بینجمن فرینکلن پر ہی کیا موقوف، دنیا کا ہر کامیاب شخص اپنے دن کا کچھ حصہ مطالعہ کے لیے ضرور وقف کرتا ہے۔

    دنیا کی سب سے بڑی ملٹائی نیشنل کمپنی تشکیل دینے والے وارن بفٹ اپنے دن کے 5 سے 6 گھنٹے مطالعہ میں صرف کرتے ہیں۔ اس دوران وہ 5 اخبار اور کارپوریٹ رپورٹس کے 500 صفحات پڑھتے ہیں۔

    مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس ہر ہفتے ایک کتاب پڑھتے ہیں۔

    فیس بک کے بانی مارک زکر برگ 2 ہفتوں میں ایک کتاب پڑھتے ہیں۔

    اسپیس ایکس کے سی ای او ایلن مسک بچپن سے دن میں 2 کتابیں پڑھتے ہیں۔

    مشہور ٹی وی میزبان اوپرا ونفرے اپنی کامیابی کی وجہ کتابوں کو قرار دیتی ہیں۔

    طبی ماہرین نے بھی مطالعہ کو ذہنی صحت کے لیے نہایت مفید قرار دیا ہے۔ یہ آپ کی دماغی کارکردگی اور اس کے افعال میں اضافہ کرتی ہے جبکہ آپ کی قوت تخیل کو وسیع کرتی ہے جس کے باعث آپ نئے نئے آئیڈیاز سوچ سکتے ہیں۔

    امریکا میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق روزانہ صرف آدھے گھنٹے کا مطالعہ آپ کی زندگی میں کئی برس کا اضافہ بھی کر سکتا ہے۔

    تو پھر آپ کب سے اس اصول کو اپنی زندگی کا حصہ بنا رہے ہیں؟


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ذہین بنانے والے 6 مشغلے

    ذہین بنانے والے 6 مشغلے

    ایک عام خیال ہے کہ ذہانت قدرت کا تحفہ ہے اور ہم اپنی ذہانت میں اضافہ یا کمی نہیں کر سکتے۔ لیکن یہ سراسر ایک غلط خیال ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دماغ ہمارے جسم کا وہ واحد حصہ ہے جسے جتنا زیادہ استعمال کیا جائے اتنا ہی اس کی افادیت اور کارکردگی میں اضافہ ہوگا۔

    دماغ کی کارکردگی میں اضافہ کرنے کے لیے ہمیں فلموں میں دکھائے جانے والے تصوراتی عملیات کرنے کی ضرورت نہیں، بلکہ ہم روزمرہ زندگی میں مختلف ذہنی مشقیں کر کے، کوئی نئی چیز سیکھ کر یا کوئی ایسا کام کر کے جس میں دماغ کا استعمال کیا جائے، بھی دماغ کو متحرک اور چاک و چوبند کرسکتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ذہانت میں اضافہ کرنے کے 10 طریقے

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھ مشغلے بھی ایسے ہیں جو دماغی کارکردگی اور ذہانت میں اضافہ کرتے ہیں۔ اگر آپ ان میں کسی بھی مشغلے کو پسند نہیں کرتے تو اسے ایک ضروری کام سمجھ کر اپنا لیجیئے، یقیناً آپ کی ذہانت و سمجھداری میں اضافہ ہوگا۔

    آلہ موسیقی بجانا

    music

    موسیقی ہمارے دماغ کے خلیات کو متحرک کرتی ہے۔ ماہرین کے مطابق موسیقی سننا یا کوئی آلہ موسیقی بجانا دماغ کو فعال بناتا ہے اور وہ پہلے سے زیادہ چست ہوجاتا ہے۔

    ایک ریسرچ کےمطابق آلہ موسیقی بجانا یادداشت کو بھی بہتر کرتا ہے۔

    مطالعہ

    read

    مطالعہ اپنی ذہانت و معلومات میں اضافہ کرنے کا نہایت آسان طریقہ ہے۔ لیکن کسی ایک موضوع سے جڑے رہنا اور اسی کے بارے میں کتابیں پڑھتے رہنا بھی غلط عادت ہے۔

    کوشش کریں کہ ہر موضوع پر پڑھیں چاہے وہ آپ کو دلچسپ لگے یا نہیں، اس طرح آپ کی معلومات میں اضافہ ہوگا، اور ان معلومات کو محفوظ کرنے کے لیے دماغ متحرک ہوجائے گا۔

    مزید پڑھیں: مطالعہ کامیاب افراد کی زندگی کا لازمی اصول

    لکھنا

    write

    آپ دن بھر میں مختلف کیفیات و جذبات سے گزرتے ہیں جن کا بعض اوقات اظہار نہیں کر پاتے۔ لیکن اگر آپ روز ڈائری لکھنے کے عادی ہیں، اور اپنے جذبات کو قلمبند کر لیتے ہیں تو یہ ایک بہترین مشغلہ ہے۔

    لکھنے کی عادت آپ کی تخیلاتی قوت، زبان دانی، تخلیقی صلاحیت اور توجہ مرکوز رکھنے کی صلاحیت میں اضافہ کرتی ہے نتیجتاً آپ بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

    سفر کرنا

    travel

    سفر وسیلہ ظفر ہے۔ نئی جگہوں کے سفر کرنا، نئے لوگوں سے ملنا آپ کی معلومات اور تخلیقی صلاحیت میں اضافہ کرتا ہے۔ سفر کرنا آپ کے ڈپریشن میں کمی کرتا ہے۔

    اگر سفر کرنا آپ کا مشغلہ ہے تو ہر سفر آپ کو مختلف ثقافتوں، افراد، روایات اور طرز زندگی سے روشناس کروائے گا جو آپ کے دماغ کو حد درجہ متحرک کرتا ہے۔

    مزید پڑھیں: سیاحت کرنے کے فوائد

    مختلف کھیل

    sports-2

    کھیل کود جسمانی و دماغی صحت دونوں کے لیے فائدہ مند ہے۔ یہ آپ کے لیے بیک وقت ورزش اور وقت گزاری کا کام کرتا ہے۔

    کھانا پکانا

    cooking

    اگر آپ کھانے پکانے کا شوق رکھتے ہیں تو ہفتے میں ایک سے دو بار کوئی مختلف اور نئی ترکیب سے کھانا بنائیں۔ یہ آپ کے دماغ کو نئی چیزیں یاد رکھنے اور کھانا جلنے یا خراب ہونے کی صورت میں فوری فیصلہ کرنے پر مجبور کرتا ہے جس سے آپ کا دماغ چست ہوجاتا ہے۔

    کھانا پکاتے ہوئے بیک وقت مختلف کام سر انجام دینا جیسے چولہے پر توجہ دینا، سبزی کاٹنا، مختلف چیزیں مکس کرنا وغیرہ زندگی کے دیگر معاملات میں بھی بیک وقت کئی کاموں پر توجہ مرکوز رکھنے پر مدد کرسکتا ہے۔