Tag: مطالعہ کا شوق

  • عالمی یومِ کتاب: پاکستان میں کتب بینی کے رجحان میں کمی کیوں؟

    عالمی یومِ کتاب: پاکستان میں کتب بینی کے رجحان میں کمی کیوں؟

    آج دنیا کتابوں کا عالمی دن منا رہی ہے جس کا مقصد علم و ادب کا فروغ اور کتب بینی کا شوق پیدا کرنا ہے۔ اس دن مصنّفین کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان کی تخلیقات کو خاص طور پر سراہا جاتا ہے۔

    اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو کی جنرل کونسل نے 1995ء میں فرانس میں اجلاس کے دوران 23 اپریل کو ‘ورلڈ بک اینڈ کاپی رائٹس ڈے‘ منانے کا اعلان کیا تھا اور رواں صدی کے آغاز پر اس روز دنیا کے کسی ایک شہر کو کتابوں کا عالمی دارُالحکومت بھی قرار دیا جانے لگا ہے۔

    دنیا کے مختلف علوم اور فنون و مہارت کے شعبوں پر مفید اور معلوماتی کتب عام دست یاب ہیں جب کہ کئی اہم موضوعات پر صدیوں پرانی کتابیں اور موجودہ دور میں جدید تحقیق کے بعد لکھی گئی کتابیں سرکاری اور اکثر شائقینِ مطالعہ کی ذاتی لائبریریوں میں‌ موجود ہوتی ہیں۔ یہ کتب خاص طور پر طالبِ علموں کے لیے معلومات کا خزانہ ہیں اور ترقیّ یافتہ معاشروں میں ایسے کتب خانوں سے استفادہ کیا جاتا ہے، لیکن اس دن کو منانے کے فیصلے سے ان ممالک میں بھی کتب بینی کو فروغ دینے اور فروغِ علم میں مدد ملی ہے جہاں مطالعہ کا رجحان کم ہے۔

    بدقسمتی سے پاکستان میں کتب بینی اور مفید و معلوماتی خزانے سے استفادہ کرنے کی شرح بہت کم ہے جس کی ایک بڑی وجہ کم شرحِ خواندگی، صارفین کی کم زور قوّتِ خرید اور انٹرنیٹ اور الیکٹرونک میڈیا کا بڑھتا ہوا استعمال بھی ہے۔ دوسری طرف کاغذ کی قیمت بڑھنے کے بعد کتابوں کی طباعت اور اشاعت کا سلسلہ بھی کم ہوگیا ہے جب کہ سرکاری لائبریریوں کا حال سبھی جانتے ہیں۔ حکومتی سطح پر کتب بینی کے فروغ کی کوششیں نہ کرنا، مصنفین اور پبلشرز کی حوصلہ افزائی نہ ہونے، انھیں سہولیات اور وسائل کی عدم فراہمی بھی مطالعے کے رجحان میں‌ کمی کا سبب ہے۔

    موجودہ دور میں تفریحی مقاصد کے لیے انٹرنیٹ کے بڑھتے ہوئے رجحان نے بھی کتاب اور مطالعے کے شوق پر اثر ڈالا ہے۔ ملک میں لائبریریوں کا قیام اور کتاب کلچر کو فروغ دینے کے لیے مناسب اور ضروری وسائل کی فراہمی پر حکومت کو توجہ دینا ہو گی۔

    اساتذہ اور والدین بھی اس ضمن میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اسکول اور کالج کی سطح پر اساتذہ اور گھروں میں‌ والدین بچوں کو کتب بینی کی طرف راغب کرکے معاشرے میں تبدیلی لاسکتے ہیں۔

    کہتے ہیں کہ مطالعہ انسانی ذہن کی بند گرہ کو کھولتا ہے اور شعور بیدار کرتا ہے جو کسی بھی معاشرے میں خصوصاً نوجوانوں کو کارآمد اور ہونہار بناتا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ موجودہ دور میں‌ انٹرنیٹ پر اور ڈیجیٹل لائبریریوں کی شکل میں کتابیں پڑھی جارہی ہیں، لیکن کتب بینی کی اس شکل کو بھی تحریک دینے اور اسے زیادہ مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔

  • مطالعے کا شوق، عالمی فہرست میں دو عرب ممالک نمایاں پوزیشن پر

    مطالعے کا شوق، عالمی فہرست میں دو عرب ممالک نمایاں پوزیشن پر

    علم و فنون اور دنیا کے مختلف شعبوں سے متعلق معلومات کے حصول کے مختلف ذرایع ہوسکتے ہیں، جن میں کتب بینی اور مطالعے کو نہایت اہم اور ضروری سمجھا جاتا ہے۔ ڈیجیٹل ذرایع ابلاغ اور سوشل میڈیا کے اس دور میں‌ یہ سننے میں‌ آتا ہے دنیا کے مختلف ممالک میں کتب بینی کا رجحان کم ہوگیا ہے اور مطالعے کا شوق دَم توڑ رہآ ہے، لیکن آج بھی بعض ممالک میں‌ خاص طور پر طالبِ علم اور مختلف موضوعات میں دل چسپی رکھنے والے مطالعے کی عادت اور روایت قائم رکھے ہوئے ہیں۔

    اسی حوالے سے نوپ ورلڈ کلچر اسکور انڈیکس نے برطانوی اسپیشلسٹ کمپنی اور برطانوی جریدے انڈیپنڈنٹ کے اشتراک سے ثقافتی کارکردگی کے عالمی گراف کے تازہ اعداد و شمار جاری کیے ہیں جن کے مطابق مصر اور سعودی عرب دنیا کے سب سے زیادہ مطالعہ کرنے والے ممالک ہیں۔

    ایک خیال یہ ہے کہ عرب شہری بہت کم مطالعہ کرتے ہیں، تاہم حالیہ دس برسوں کے دوران اس حوالے سے عرب دنیا میں تبدیلی آئی ہے۔

    یونیسکو نے 2003ء سے متعلق فروغِ افرادی قوّت رپورٹ میں بتایا تھا کہ 80 عرب شہری سال میں ایک کتاب پڑھتے ہیں جب کہ ایک یورپی شہری سال میں 35 کتابیں زیر مطالعہ رکھتا ہے۔

    اسکائی نیوز کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ مطالعہ کرنے والے ممالک میں مصر پانچویں اور سعودی عرب گیارہویں نمبر پر آگیا ہے۔

    بھارت کے بعد تھائی لینڈ دوسرے اور چین تیسرے نمبر پر ہے۔ یہ بات تعجب خیز ہے امریکا جیسا ملک مطالعے کے حوالے سے دنیا بھر میں 23 ویں نمبر پر ہے۔

    مصری پبلشرز آرگنائزیشن کے چیئرمین اور عرب پبلشرز آرگنائزیشن کے سعید عبدہ کے مطابق عرب اور مصری خاص طور پر دنیا کی ان اقوام میں شامل ہیں جو مطالعے میں دل چسپی رکھتے ہیں۔

    انہوں نے خبر رساں ادارے کو بتایا کہ ہمارے اس دعوے کا سب سے بڑا ثبوت متحدہ عرب امارات کا مطالعہ چیلنج پروگرام ہے۔ اس کے ذریعے پہلے سال میں عرب ممالک کی سطح پر 5 لاکھ مطالعہ کرنے والے سامنے آئے۔