Tag: مظاہرے

  • امریکا میں بڑی تعداد میں گرفتاریاں شروع

    امریکا میں بڑی تعداد میں گرفتاریاں شروع

    واشنگٹن: امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امیگریشن کریک ڈاؤن کے خلاف مظاہروں میں شدت آ گئی ہے، بڑی تعداد میں گرفتاریاں بھی شروع ہو گئی ہیں۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ امریکا کی مختلف ریاستوں تک پھیل گیا ہے، امیگریشن حکام کے خلاف بالٹی مور، نیویارک، اٹلانٹا اور شکاگو سمیت مختلف شہروں میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔

    پولیس کی جانب سے مظاہرین کی گرفتاریاں بھی شروع ہو گئی ہیں، نیویارک میں ڈھائی ہزار سے زائد افراد کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا، جہاں پولیس نے 83 افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔

    پولیس حکام کا کہنا ہے کہ سان فرانسسکو میں 150 اور شکاگو میں 17 مظاہرین کو گرفتار کیا گیا، گورنر ٹیکساس نے مظاہروں سے نمٹنے کے لیے نیشنل گارڈ تعینات کرنے کا اعلان کر دیا ہے، کیلی فورنیا کے جنوبی علاقوں سے 330 مظاہرین کو گرفتار کیا گیا ہے۔


    ’نیشنل گارڈ تعینات نہ کرتے تو لاس اینجلس اب تک جل رہا ہوتا‘


    امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ لاس اینجلس میں فوج کو شہریوں کو حراست میں رکھنے کا اختیار دے دیا گیا ہے، 700 میرینز اور 4 ہزار نیشنل گارڈ لاس اینجلس میں تعینات کر دیے گئے ہیں۔

    واضح رہے کہ جمعے کے روز امیگریشن اور کسٹمز انفورسمنٹ (آئی سی ای) کے وفاقی ایجنٹوں کے جانب سے متعدد چھاپوں کے دوران درجنوں افراد کی گرفتاری کے بعد پر تشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے، جس پر لاس اینجلس کے بعض علاقوں میں کرفیو نافذ کیا گیا۔

  • مظاہرین ’ٹرمپ گھر جاؤ‘ اور ’ٹرمپ کو ایل سلواڈور ڈیپورٹ کیا جائے‘ کے مطالبات کرنے لگے

    مظاہرین ’ٹرمپ گھر جاؤ‘ اور ’ٹرمپ کو ایل سلواڈور ڈیپورٹ کیا جائے‘ کے مطالبات کرنے لگے

    واشنگٹن: امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی پالیسویں کے خلاف مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا میں ’’ٹرمپ گھر جاؤ‘‘ کے بینرز لہرانے لگے ہیں، ہزاروں مظاہرن ’ٹرمپ گھر جاؤ‘ اور ’ٹرمپ کو ایل سلواڈور ڈیپورٹ کیا جائے‘ کے مطالبات کرنے لگے ہیں۔

    ہفتے کے روز واشنگٹن، نیویارک، شکاگو سمیت دیگر شہروں میں احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں، جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی، وائٹ ہاؤس کے باہر بھی احتجاج کیا گیا، مظاہرین نے ٹرمپ گھر جاؤ کے بینرز اٹھائے رکھے تھے۔


    ڈونلڈ ٹرمپ


    مظاہرین کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کی وجہ سے آزادی خطرے میں ہے، دو لاکھ سرکاری ملازمین کی برطرفیاں، فنڈنگ کی کٹوتی، امیگریشن قوانین میں سختی اور معاشی پالیسیاں ملک کے لیے خطرناک ہیں۔


    ٹرمپ انتظامیہ نے ہارورڈ یونیورسٹی کو جارحانہ مطالبات سے بھرا دوسرا خط بھیج دیا


    ٹرمپ کے خلاف مظاہروں کی کال فائیو زیرو فائیو زیرو ون موومنٹ نے دی ہے، جو پچاس امریکی ریاستوں میں پچاس مظاہروں کی ایک تحریک ہے۔ وائٹ ہاؤس اور ٹیسلا ڈیلرشپ کے باہر اور کئی شہروں کے مراکز پر مظاہرین نے کلمار ایبرگو گارشیا کی واپسی کا مطالبہ کیا، جسے غلطی سے ایل سلواڈور جلا وطن کر دیا گیا تھا۔

    یاد رہے کہ امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کے خلاف سیاسی مظاہرے عام ہوتے جا رہے ہیں، اپریل کے شروع میں ’’ہینڈز آف‘‘ کے مظاہروں نے ملک بھر کے شہروں میں دسیوں ہزار لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔

  • ہفتے کا دن ٹرمپ کے خلاف احتجاج کا ریکارڈ ساز دن، امریکی صدر کا رد عمل آ گیا

    ہفتے کا دن ٹرمپ کے خلاف احتجاج کا ریکارڈ ساز دن، امریکی صدر کا رد عمل آ گیا

    واشنگٹن: امریکا میں ہفتے کا دن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف احتجاج کا ریکارڈ ساز دن رہا، جب مظاہروں نے امریکا بھر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔

    روئٹرز کے مطابق ہفتے کے روز واشنگٹن، ڈی سی اور پورے امریکا میں ہزاروں مظاہرین جمع ہوئے، اور تقریباً 1,200 مقامات پر مظاہرے کیے گئے، توقع کی جا رہی ہے کہ یہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے ارب پتی اتحادی ایلون مسک کے خلاف احتجاج کا سب سے بڑا دن بن جائے گا۔

    ہفتے کو جب ہلکی پھوار ہو رہی تھی، واشنگٹن کی یادگار کی طرف جاتی، نیشنل مال میں ہونے والی ریلی میں 20,000 سے زائد افراد نے شرکت کی، اس احتجاج میں پرنسٹن، نیو جرسی سے تعلق رکھنے والے ایک ریٹائرڈ بائیو میڈیکل سائنس دان ٹیری کلین بھی شریک تھے۔ ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف یہ مظاہرے امریکا بھر میں شروع ہو گئے ہیں۔

    واشنگٹن، نیویارک، شکاگو، لاس اینجلس سمیت متعدد شہروں میں لوگ سڑکوں پر آ گئے ہیں، پرو ڈیموکریسی موومنٹ کے زیر اہتمام امریکا بھر میں احتجاجی مظاہروں کی کال دی گئی تھی، ایونٹ کی ویب سائٹ کے مطابق امریکا کی تمام 50 ریاستوں کے علاوہ کینیڈا اور میکسیکو میں بھی احتجاج کا منصوبہ بنایا گیا۔


    ٹرمپ اور ایلون مسک کے خلاف مختلف ممالک میں مظاہرے


    مظاہرین نے ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف نعرے لگائے، ان کا کہنا تھا کہ دولت مند گروہ نے حکومت پر قبضہ کر لیا ہے، سرکاری ملازمین کی جبری برطرفیاں اور بنیادی حقوق پر قدغن کسی طور قبول نہیں۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ امیگریشن، ٹیرف، تعلیم غرض ہر تمام ادارے حملے کی زد میں ہے، وہ سبھی جو امریکا کو امریکا بناتی ہیں۔

    دوسری طرف صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مظاہرین کو جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ احتجاج کے باوجود وہ اپنی پالیسیاں تبدیل نہیں کریں گے۔

  • غزہ جنگ کو ایک سال مکمل : دنیا بھر میں اسرائیل کیخلاف مظاہرے

    غزہ جنگ کو ایک سال مکمل : دنیا بھر میں اسرائیل کیخلاف مظاہرے

    غزہ پر اسرائیلی حملوں کو ایک سال مکمل ہونے والا ہے، اس جنگ میں غزہ کی بستیاں قبرستان اور مکانات کھنڈروں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ اس موقع پر دنیا بھر میں صیہونی حکومت کی جارحیت کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔

    دنیا کے مختلف ممالک میں ہزاروں افراد نے گزشتہ روز بڑے شہروں میں مظاہرے کیے، جس میں غزہ اور مشرق وسطیٰ میں جاری خونریزی کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا۔

    gaza

    غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق لندن میں تقریباً 40ہزار مظاہرین نے فلسطینیوں کی حمایت میں احتجاجی مارچ کیا جبکہ ہزاروں افراد پیرس، روم، منیلا، کیپ ٹاؤن اور نیویارک سٹی میں بھی جمع ہوئے۔

    اس کے علاوہ واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے قریب بھی مظاہرے ہوئے، جہاں اسرائیل کے فوجی حملوں میں امریکی حمایت کے خلاف احتجاج کیا گیا۔

    fire in Gaza

    لندن میں اسرائیل کے خلاف فلسطین سالیڈیرٹی کیمپین اور دیگر جنگ مخالف تنظیموں نے احتجاجی مظاہرے کا آغاز رسل اسکوائر سے کیا۔ مظاہرے کے شرکاء غزہ پر حملے کے ایک برس مکمل ہونے پر اسرائیل مخالف نعرے لگاتے ہوئے وائٹ ہال پہنچے۔

    اس کے علاوہ امریکا میں بھی ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے، نیویارک سٹی کے ٹائمز اسکوائر پر مظاہرین نے سیاہ اور سفید لباس پہن رکھا تھا اور فلسطینیوں کی حمایت میں نعرے لگا رہے تھے۔

    غزہ جنگ

    مظاہرین نے بینرز اٹھا رکھے تھے جن میں اسرائیل پر اسلحے کی پابندی سے متعلق مطالبات درج تھے۔

    یاد رہے کہ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 7 اکتوبر کو اسرائیل کے غزہ پر جوابی فوجی حملوں میں تقریباً 42ہزار فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں خواتین اور بچوں کی بہت بڑی تعداد شامل ہے۔

    Gaza war

    اسرائیلی حملوں نے 23 لاکھ کی آبادی والے علاقے کے تقریباً تمام افراد کو بے گھر کردیا ہے، اور عالمی عدالت میں اسرائیل پر نسل کشی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں جنہیں اسرائیل نے مسترد کردیا ہے۔

  • امریکا میں فلسطینیوں کی حمایت میں مظاہرے، انٹونی بلنکن کا اہم بیان

    امریکا میں فلسطینیوں کی حمایت میں مظاہرے، انٹونی بلنکن کا اہم بیان

    امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے امریکا میں ہونے والے فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے مظاہروں پرتبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا میں جاری مظاہرے جمہوریت کا حصہ ہیں۔

    عرب میڈیا کے مطابق فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے مظاہروں پربات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مظاہروں کو عوامی حق سمجھتے ہوئے اس کا دفاع کرتا ہوں۔

    واضح رہے کہ امریکا کی جامعات میں فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے احتجاجی تحریک زور پکڑنے لگی ہے، 40 جامعات میں فلسطینیوں کی حمایت میں مظاہروں کے دوران سیکڑو ں طلبہ کو گرفتار کرلیا گیا۔

    عالمی میڈیا کے مطابق احتجاجی طلبہ کو ایمرسن کالج بوسٹن، اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی سے گرفتار کیا گیا، پولیس کی جانب سے اٹلانٹا کی ایموری یونیورسٹی میں احتجاجی طلبہ پر ربڑ کی گولیوں، شیلنگ کااستعمال کیا گیا۔

    پولیس کریک ڈاؤن میں ایموری یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ کی سربراہ کو حراست میں لے لیا گیا، احتجاجی کیمپوں میں موجود طلبہ کی جانب سے غزہ میں فوری جنگ بندی کامطالبہ کیا جارہا ہے۔

    عرب میڈیا کا کہنا ہے کہ طلبہ تحریک سے امریکا میں اسرائیل سے متعلق رائے میں واضح فرق اجاگر ہوگا، عمر رسیدہ افراد کے مقابلے میں امریکی نوجوان فلسطینیوں کے زیادہ حامی ہیں۔

    امریکی یونیورسٹی سے بھارتی طالبہ گرفتار

    81 سالہ امریکی صدرکوغزہ کی صورتحال کی سیاسی قیمت چکانی پڑسکتی ہے، اسرائیل مخالف طلبہ تحریک سے امریکا میں جنریشن گیپ اجاگر ہوا ہے، طلبہ تحریک سے اسرائیل کو حاصل امریکی حکومتی حمایت خطرے میں پڑسکتی ہے۔

  • امریکی جامعات میں فلسطینیوں کی حمایت میں مظاہرے، سیکڑوں طلبہ گرفتار

    امریکی جامعات میں فلسطینیوں کی حمایت میں مظاہرے، سیکڑوں طلبہ گرفتار

    امریکا کی جامعات میں فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے احتجاجی تحریک زور پکڑنے لگی، 40 جامعات میں فلسطینیوں کی حمایت میں مظاہروں کے دوران سیکڑو ں طلبہ کو گرفتار کرلیا گیا۔

    عالمی میڈیا کے مطابق احتجاجی طلبہ کو ایمرسن کالج بوسٹن، اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی سے گرفتار کیا گیا، پولیس کی جانب سے اٹلانٹا کی ایموری یونیورسٹی میں احتجاجی طلبہ پر ربڑ کی گولیوں، شیلنگ کااستعمال کیا گیا۔

    پولیس کریک ڈاؤن میں ایموری یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ کی سربراہ کو حراست میں لے لیا گیا، احتجاجی کیمپوں میں موجود طلبہ کی جانب سے غزہ میں فوری جنگ بندی کامطالبہ کیا جارہا ہے۔

    عرب میڈیا کا کہنا ہے کہ طلبہ تحریک سے امریکا میں اسرائیل سے متعلق رائے میں واضح فرق اجاگر ہوگا، عمر رسیدہ افراد کے مقابلے میں امریکی نوجوان فلسطینیوں کے زیادہ حامی ہیں۔

    امریکا کی غزہ پالیسی پر ایک اور ترجمان نے استعفیٰ دیدیا

    81 سالہ امریکی صدرکوغزہ کی صورتحال کی سیاسی قیمت چکانی پڑسکتی ہے، اسرائیل مخالف طلبہ تحریک سے امریکا میں جنریشن گیپ اجاگر ہوا ہے، طلبہ تحریک سے اسرائیل کو حاصل امریکی حکومتی حمایت خطرے میں پڑسکتی ہے۔

  • جسٹن ٹروڈو فیملی سمیت خفیہ مقام پر منتقل

    جسٹن ٹروڈو فیملی سمیت خفیہ مقام پر منتقل

    اوٹاوا: کینیڈا سمیت دنیا بھر میں کرونا پابندیوں کے خلاف مظاہرے شدید ہو گئے ہیں، سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر جسٹن ٹروڈو کو فیملی سمیت خفیہ مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔

    عالمی میڈیا کے مطابق کرونا پابندیوں کے خلاف دنیا بھر میں مظاہرے شدید ہو گئے، فرانس میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے، کینیڈا میں ٹرکوں کے ذریعے سڑکیں بند کر دی گئیں۔

    مظاہرین کا کہنا ہے کہ انھیں جبری ویکسینیشن قبول نہیں، اور وہ کووِڈ پاس کو نہیں مانتے۔

    فرانس اور کینیڈا میں ہزاروں افراد نے کرونا پابندیوں کے خلاف مظاہرے میں شرکت کی، پیرس میں کووِڈ ویکسین پاس کے خلاف ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے۔

    مظاہرین حکومت سے کرونا پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، کینیڈا میں جبری ویکسینیشن کے خلاف آزادی قافلہ دارالحکومت اوٹاوا پہنچ گیا، سیکڑوں ٹرک ڈرائیوروں اور ہزاروں افراد نے سڑکیں بند کر دیں۔

    سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو اور ان کی فیملی کو خفیہ مقام پر منتقل کر دیا گیا، ہفتے کے روز لوگ پارلیمنٹ کے باہر جمع ہوئے، اور نعرے لگاتے رہے۔

    واضح رہے کہ ویکسین پاسپورٹ کے خلاف برطانیہ، جرمنی، اٹلی، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، امریکا، اسپین، ہالینڈ، سوئٹزرلینڈ اور آسٹریا میں ہر ہفتے ہزاروں افراد مظاہرے کر رہے ہیں۔

  • قازقستان: مظاہرین نے پولیس اہل کار کا سر کاٹ دیا

    قازقستان: مظاہرین نے پولیس اہل کار کا سر کاٹ دیا

    نور سلطان: قازقستان میں مظاہرین نے ایک پولیس اہل کار کا سر کاٹ دیا، جب کہ پُر تشدد مظاہروں کے دوران مجموعی طور پر 12 پولیس اہل کار ہلاک ہوئے۔

    تفصیلات کے مطابق قازقستان میں ایل پی جی قیمتیں بڑھنے کے بعد شروع ہونے والے پرتشدد احتجاج کی لہر کے دوران جمعرات کو 12 پولیس اہل کار اور درجنوں مظاہرین ہلاک ہو گئے، جب کہ 353 مظاہرین زخمی ہو گئے ہیں۔

    اے ایف پی کے مطابق سرکاری ٹی وی چینل نے ہنگامہ آرائی کے دوران درجنوں مظاہرین سمیت 12 پولیس اہل کاروں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے اور بتایا ہے کہ ایک سیکیورٹی آفیسر کی سر کٹی لاش بھی ملی۔

    پولیس کی جانب سے کہا گیا ہے کہ مظاہرین کی ہلاکتیں رات گئے اس وقت ہوئیں، جب انھیں ملک کے سب سے بڑے شہر الماتی میں ایک بڑی انتظامی عمارت میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کی گئی۔

    ادھر پولیس کے ترجمان سلطنت ازیربک کا کہنا تھا کہ درجنوں حملہ آوروں کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔

    جاری پرتشدد مظاہروں کے بعد قازقستان میں تمام بینکوں کا کام بھی معطل کر دیا گیا ہے، نیشنل بیک آف دی ریپبلک کے سرکاری افسر اولزاس رمضانوف نے جمعرات کو کہا یہ فیصلہ مالیاتی اداروں کے ملازمین اور مالیاتی سروسز کے صارفیں کی صحت اور زندگی کی حفاظت کے پیش نظر کیا گیا ہے۔

    ایندھن کی بڑھتی قیمتوں نے قازقستان کی حکومت گرا دی، عوام کا غصہ کم نہ ہوا

    اس اعلان سے قبل، بد امنی کی وجہ سے، مشرق وسطیٰ میں ایئر لائنز نے الماتی جانے والی پروازیں منسوخ کر دی تھیں، ایئر عریبیہ اور فلائی دبئی نے بھی الماتی جانے والی پروازیں روک دی تھیں۔

    واضح رہے کہ ایک کروڑ 90 لاکھ آبادی پر مشتمل ملک میں شدید احتجاج کی لہر اس وقت شروع ہوئی، جب نئے سال کے موقع پر مائع پیٹرولیم گیس (ایل پی جی) کی قیمتوں میں اضافہ سامنے آیا، قازقستان میں زیادہ تر گاڑیوں میں ایل پی جی ہی استعمال ہوتی ہے، قیمتوں میں اضافے کے بعد الماتی اور مغربی صوبے مینگیستاؤ میں ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔

    ان مظاہروں کی وجہ سے حکومت کو بھی مستعفی ہونا پڑا، تاہم لوگوں کو غصہ تاحال ٹھنڈا نہیں ہوا۔

  • سوڈان میں مظاہرے: انٹرنیٹ پر پابندی عائد

    سوڈان میں مظاہرے: انٹرنیٹ پر پابندی عائد

    خرطوم: سوڈان میں فوجی بغاوت کے خلاف بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں سے قبل انٹرنیٹ پر پابندی لگا دی گئی ہے، ملک میں 25 اکتوبر کے بعد سے مظاہرے جاری ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق سیکیورٹی فورسزکی جانب سے دارالحکومت خرطوم اور شہر کو مضافاتی علاقوں سے ملانے والے اہم پلوں اور راستوں کو بند کر دیا گیا تھا۔ اس موقع پر خرطوم کے گورنر نے عوام کو خبردار کیا ہے کہ قانون توڑنے اور افراتفری پھیلانے والوں سے سیکیورٹی فورسز کے ذریعے سختی سے نمٹا جائے گا۔

    25 اکتوبر کے بعد پیدا ہونے والے حالات کے تناظر میں بڑے پیمانے پر عوام فوج مخالف مظاہروں کو منظم کرنے کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال کررہے تھے، مزید یہ کہ ہفتے کے روز ہونے والے مظاہروں کے لیے سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کر کے مظاہروں کی منصوبہ بندی بھی کی جا رہی تھی۔

    یاد رہے کہ سوڈان کی فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح البرہان نے سویلین رہنما وزیر اعظم عبداللہ حمدوک کو ان کے گھر میں نظر بند رکھا جس کے بعد ملک بھر میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا تاہم 21 نومبر کو وزیر اعظم کو دوبارہ بحال کر دیا گیا۔

    اس اقدام کو عبداللہ حمدوک کے بہت سے جمہوریت پسند حامیوں کو ان سے الگ کرتے ہوئے اسے فوجی جنرل کی بغاوت کے لیے جواز فراہم کرنے کے طور پر مسترد کر دیا ہے۔

    مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ فوج کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں جبکہ مظاہروں میں فوجیوں کو دوبارہ اپنی بیرکوں میں واپس جانے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔

    خرطوم کے گورنر نے عوام کو خبردار کیا ہے کہ سرکاری عمارتوں کے قریب جانا یا عمارتوں کو کسی قسم کا نقصان پہنچانا قابل سزا جرم ہے اور ایسے افراد سے سختی سے نمٹا جائے گا۔

    سوڈان میں موجود ڈاکٹروں کی جانب سے بنائی گئی ایک کمیٹی کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ فوج کے قبضے کے بعد سے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے براہ راست گولیاں برسانے اور آنسو گیس کے شیل پھینکنے کے باعث کم از کم 48 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

  • کرونا وائرس کی پابندیاں، یورپ میں ہزاروں افراد کے مظاہرے

    کرونا وائرس کی پابندیاں، یورپ میں ہزاروں افراد کے مظاہرے

    کرونا وائرس کے دوبارہ پھیلاؤ کے پیش نظر متعدد یورپی ممالک میں جزوی لاک ڈاؤن عائد کیا گیا ہے جس کے خلاف ہزاروں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے، مظاہرین نے پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ معاشی سرگرمیاں بحال ہوسکیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق یورپ بھر میں ہفتے کے روز کرونا وائرس کی وجہ سے عائد پابندیوں کے خلاف ہزاروں مشتعل افراد نے ریلیاں نکالیں۔

    کرونا وائرس کی وجہ سے اب تک 27 لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں، اور اس کے پھیلاؤ میں ایک بار پھر ایک دم تیزی آگئی ہے، اسی وجہ سے بہت سے یورپی ممالک میں جزوی لاک ڈاؤن لگا دیا گیا ہے۔

    ان حالات میں پولینڈ اور فرانس کے کچھ حصوں اور یوکرین کے دارالحکومت کیف کے رہائشیوں کو نئی پابندیوں کا سامنا ہے۔

    لیکن لوگ معاشی حالات کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں اور جرمنی، برطانیہ اور سوئٹزر لینڈ میں ہزاروں افراد نے ان پابندیوں کے خلاف مارچ کیا ہے۔

    جرمنی کے شہر کیسل میں انتہائی دائیں بازو، انتہائی بائیں بازو اور وبا اور ویکسین کے خلاف بے بنیاد سازشی تھیوریاں پھیلانے والے کارکنوں کی جانب سے منعقدہ احتجاجی مظاہرے میں لوگوں نے لاک ڈاؤن ختم کرو اور کرونا کے باغی جیسے بینرز اٹھا رکھے تھے۔

    حکام نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن، لاٹھیوں اور مرچوں والے اسپرے کا استعمال کیا۔

    پولیس ترجمان کے مطابق مظاہرین کی تعداد 15 سے 20 ہزار کے درمیان تھی اور یہ اس سال نکلنے والی سب سے بڑی ریلیوں میں سے ایک ہے۔

    لندن میں بھی ہزاروں افراد نے کرونا وائرس کی وجہ سے عائد پابندیوں کے خلاف احتجاج کیا، بہت سے مظاہرین نے کرونا وائرس کے خلاف سازشی تھیوریز والے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے۔

    میٹرو پولیٹن پولیس ترجمان کا کہنا ہے کہ پابندیوں کی خلاف ورزی پر 36 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ 100 کے قریب مظاہرین نے پولیس افسران پر مختلف چیزیں پھینکیں۔

    اس کے علاوہ ایمسٹر ڈیم، ویانا، بلغاریہ کے دارالحکومت صوفیہ اور سوئٹزر لینڈ کے قصبے لیسٹل میں بھی پابندیوں کے خلاف مظاہرے کیے گئے ہیں۔