Tag: مظاہرے

  • عراق: احتجاج شدت اختیار کر گیا، مظاہرین اور پولیس میں تصادم، 100 سے زاید افراد ہلاک

    عراق: احتجاج شدت اختیار کر گیا، مظاہرین اور پولیس میں تصادم، 100 سے زاید افراد ہلاک

    بعداد: حکومت مخالفین احتجاج شدت اختیار کر گیا، جس سے خانہ جنگی کا خطرہ پیدا ہوگیا.

    تفصیلات کے مطابق مہنگائی اور حکومتی پالیسیوں کے خلاف شروع ہونے والے مظاہروں نے پرتشدد شکل اختیار کر لی.

    [bs-quote quote=”کئی روز سے نافذ کرفیو آج ہفتے کے روز جزوی طور پر اٹھا دیا گیا، البتہ شاہراہوں تک رسائی تاحال محدود ہے” style=”style-8″ align=”left”][/bs-quote]

    مظاہرین اور  سیکیورٹی اہل کاروں کے درمیان ہونے  والے تصادم میں سو سے زاید افراد کی ہلاکتوں کی اطلاع ہے، زخمیوں کی تعداد سیکڑوں‌ میں‌ ہے.

    عراقی پارلیمنٹ کے انسانی حقوق کمیشن نے مظاہروں کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 93 بتائی ہیں۔

    کمیشن کے مطابق زخمیوں کی تعداد چار ہزار کے قریب ہے.

    کئی روز سے نافذ کرفیو آج ہفتے کے دن جزوی طور پر اٹھا دیا گیا، البتہ شاہراہوں تک رسائی تاحال محدود ہے۔

    مزید پڑھیں: عراق میں ہونے والے پر تشدد مظاہروں کے پس پردہ اسرائیل ہے، ایران کا الزام

    دوسری جانب بڑے شہروں‌ میں انٹرنیٹ سروس معطل ہے، داخلی اور خارجی حصوں‌ پر سخت سیکیورٹی ہے.

    خیال کیا جارہا ہے کہ اطلاعات تک رسائی نہ ہونے کے باعث ہلاکتوں کی صحیح تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے.

  • ایرانی وزیرخارجہ کی سویڈن آمد پر مظاہرے، متعدد افراد گرفتار

    ایرانی وزیرخارجہ کی سویڈن آمد پر مظاہرے، متعدد افراد گرفتار

    اسٹاک ہوم : ایرانی وزیرخارجہ کے دورہ سویڈن کے موقع پر سول سوسائٹی کی طرف سے سخت احتجاج کیا گیا۔ پولیس اور مظاہرین کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں متعدد افراد زخمی ہوئے جب کہ متعدد کو حراست میں لے لیا گیا۔

    عرب ٹی وی کے مطابق ایرانی وزیرخارجہ محمد جواد ظریف کے اسٹاک ہوم پہنچنے پربڑی تعداد میں لوگ ایران کے خلاف نعرے لگاتے سڑکوں پرنکل آئے۔مظاہرین نے اسٹاک ہوم میں ایرانی وزیرخارجہ اور حکومتی نمائندوں کے درمیان ہونے والے اجلاس کے مقام کی طرف جانے کی کوشش کی جس پر پولیس کو حرکت میں آنا پڑا۔

    پولیس اور مظاہرین کے درمیان پرتشد جھڑپیں ہوئیں جس کے نتیجے میں متعدد مظاہرین زخمی ہوئے ہیں۔ کم سے کم تین مظاہرین کو زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیاگیا ہے۔ پرتشدد مظاہروں کے بعد 62 افراد کو مظاہرے کے مقام سے منتشر کیا گیا۔

    یہ مظاہرین دارالحکومت اسٹاک ہوم کے وسطی علاقے سولنا میں جمع تھے اور ایرانی وزیرخارجہ کی آمد کے خلاف نعرے بازی کر رہے تھے۔سماجی کارکنوں نے سویڈیش پولیس اور مظاہرین کے درمیان ہونے والے تصادم کی تصاویر اور فوٹیج سوشل میڈیا پر پوسٹ کی ہیں۔

    اسٹاک ہوم پولیس کی ترجمان ایوا نیلسن نے کہا کہ لوگوں کو احتجاج کی اجازت دی گئی مگرجب انہوں نے پرامن احتجاج کی حدود کو پامال کرنے کی کوشش کی تو ان کے خلاف پولیس کو حرکت میں آنا پڑا۔

    سویڈن کی اپوزیشن جماعتوں اور ارکان پارلیمنٹ نے بھی ایرانی وزیرخارجہ کی اسٹاک ہوم آمد کے خلاف احتجاج کے ساتھ جواد ظریف کا استقبال کرنے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

  • غزہ میں حق واپسی مظاہرے قومی اصولوں پر ثابت قدمی کا ثبوت ہے، عیسائی پادری

    غزہ میں حق واپسی مظاہرے قومی اصولوں پر ثابت قدمی کا ثبوت ہے، عیسائی پادری

    یروشلم : فلسطین کے سرکردہ عیسائی پادری اور آرتھوڈوکس چرچ کے بشپ عطا اللہ حنا نے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی میں جاری حق واپسی ریلیاں فلسطینی قوم کے دیرینہ اصولوں پرثابت قدمی کا ٹھوس ثبوت ہے۔

    تفصیلات کے مطابق فلسطینی عیسائی پادری کا کہنا تھا کہ فلسطینی قوم اپنے دیرینہ اصولوں اور بنیادی مطالبات پرقائم ہے۔ غزہ کی پٹی میں پناہ گزینوں کے اپنے آبائی علاقوں میں واپس جانے کےلیے جاری مظاہرے اس بات کا ثبوت ہیں، وقت گذرنے کے ساتھ فلسطینیوں کےدیرینہ حقوق ساقط نہیں ہوسکتے۔

    عیسائی رہ نما نے ایک ریڈیو بیان میں کہا کہ غزہ میں حق واپسی مظاہرے فرزندان عرب اقوام، عرب ممالک، زندہ ضمیر انسانیت، مشرق ومغرب میں پھیلے انسان دوست سب کے لیے پیغام ہے کہ فلسطینی قوم اپنے حقوق پرکوئی سودے بازی نہیں کرے گی۔

    بشپ عطا اللہ حنا کا کہنا تھا کہ اسرائیلی حکام عیساویہ کے فلسطینی باشندوں کو ان کے گھروں سے نکال باہر کرنا اور وہاں کے باسیوں کی قوم روح کو قتل کرنا چاہتےہیں مگر غاصب صہیونی دشمن اپنے مذموم عزائم میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔

    عیسائی مذہبی رہ نما نے عیساویہ کا دورہ کیا اوراسرائیلی ریاست کے جبر کے شکار فلسطینیوں سے ملاقات میں انہیں اپنے ہرممکن تعاون کا یقین دلایا۔ بشپ عطا اللہ حنا کا کہنا تھا کہ بیت المقدس فلسطینی قوم کا شہر ہے جس پرغاصبوں کا کوئی تعلق نہیں، القدس کے باشندے اپنے جذبہ استقامت سے صہیونی دشمن کے عزائم کو ناکام بنا دیں گے۔

  • لندن: مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف تاریخی احتجاج

    لندن: مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف تاریخی احتجاج

    لندن: برطانوی شہر لندن میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف تاریخ ساز احتجاج جاری ہے.

    تفصیلات کے مطابق آج لندن میں بھارتی ہائی کمیشن کے سامنے کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی کے لیے بھرپور احتجاج کیا گیا.

    مظاہرے میں کشمیری عوام کے ساتھ پاکستانیوں کی بڑی تعداد شریک ہے، دیگر مسلم ممالک سے تعلق رکھنے والے مظاہرین بھی ریلی میں موجود ہیں.

    مظاہرین میں سکھ افراد کی بھی بڑی تعداد نے شرکت کی، ہندوبرادری اور دیگرمذاہب کے ماننے والے کشمیریوں سے اظہار یک جہتی کے لیے موجود ہیں۔ 

    مظاہرین نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ ہم بھارتی غیرقانونی اقدامات کی مذمت کرتے ہیں، چاہتے ہیں کہ کشمیریوں کوحق خودارایت دیا جائے، کشمیریوں کے ساتھ ہیں، کرفیو  فوری طورپر ختم کیا جائے.

    مزید پڑھیں: لندن میں اجتماع تاریخی ہوگا، وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی

    احتجاجی مظایرن کا کہنا تھا کہ ہم بھارت کا یوم آزادی آج یوم سیاہ کےطور پر منا رہے ہیں، بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں پرعمل کرے.

    احتجاجی مظاہرین نے کشمیرکو آزادی دو کشمیر بنے گا پاکستان کے بینرز اٹھا رکھے ہیں. ریلی میں برطانیہ کے تعلیم یافتہ طبقے کی بڑی تعداد بھی شریک ہے، جس کی جانب سے نریندر مودی کے غاضبانہ اقدام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے.

  • فرانس میں اقتصادی معاشی پالیسوں کے خلاف پیلی جیکٹ کے مظاہرے

    فرانس میں اقتصادی معاشی پالیسوں کے خلاف پیلی جیکٹ کے مظاہرے

    پیرس :فرانس میں اقتصادی معاشی پالیسوں کے خلاف پیلی جیکٹ کے مظاہرے بدستور جاری ہیں, رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مہنگائی اور حکومت کی معاشی پالیسیو کے خلاف یلو جیکٹ مظاہرے نومبر 2018 سے جاری ہیں۔

    میڈیارپورٹس کے مطابق فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں کی اقتصادی معاشی پالیسوں کے خلاف پیلی جیکٹ کی مہم بدستور جاری ہے، گزشتہ نومبر سے شروع ہونے والی یہ مہم عروج پر پہنچنے کے بعد سخت قانون کے باعث اتنی تیز نظر نہیں آتی تاہم سلکتی آگ کی طرح جاری ہے جس کے نتیجہ میں فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون کی مقبولیت کو دھچکا لگ گیا ہے۔

    یاد رہے کہ فرانس میں یلو جیکٹ مظاہرے نومبر 2018 کے وسط میں مہنگائی اور حکومت کی معیشتی پالیسیوں کے خلاف شروع ہوئے جو بعد میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف منظم تحریک میں تبدیل ہوگئے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف فرانس میں شروع ہونے والی پیلی جیکٹ تحریک دوسرے یورپی ملکوں میں بھی پہنچ گئی ہے اور ہر سنیچر کو فرانس کے ساتھ ہی متعدد دیگر یورپی ملکوں میں بھی لوگ پیلی جیکٹیں پہن کے مظاہرے کرتے ہیں۔

  • فرانس کا قومی دن، تقریب کے اختتام پر مظاہرے، پولیس کی شیلنگ

    فرانس کا قومی دن، تقریب کے اختتام پر مظاہرے، پولیس کی شیلنگ

    پیرس : فرانس کے قومی دن کے موقع پر یلو ویسٹ تحریک کے مظاہرین کو منتشر کرنے کےلیے پولیس نے آنسو گیس کی بے دریغ شیلنگ کی، پریڈ دیکھنے والے تماشائی اور سیاحوں نے خوف کے باعث محفوظ مقامات پر پناہ لی۔

    تفصیلات کے مطابق فرانس کے قومی دن برسٹل ڈے کی پریڈ کی خوبصورت اور منظم تقریبات کا اختتام پولیس اور مظاہرین کے مابین پر تشدد جھڑپوں پر ہوا۔اتحاد کے مظاہرے کے لیے نو یورپی افواج کے نمائندوں پر مشتمل پریڈ دیکھنے کے لیے فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کے ساتھ دیگر یورپی رہنما جرمن چانسلر اینجیلا مرکل، نیدر لینڈ کے وزیراعظم مارک روٹ بھی موجود تھے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ قومی دن کی تقریبات کا اختتام مظاہرین اور پولیس کے مابین جھڑپوں پر ہوا جس نے یلو ویسٹ (زرد وردی) احتجاجی تحریک کی شدت کے دن کی یاد تازہ کردی۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس فائر کی جبکہ پریڈ دیکھنے والے تماشائیوں اور خوفزدہ غیر ملکی سیاح نے محفوظ مقامات پر پناہ لی۔

    خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ مظاہرین نے سیکیورٹی رکاوٹیں توڑیں، کچرا دانوں اور قابل منتقل ٹوائلٹس کو نذرِ آتش کردیا اس کے ساتھ وہ حکومت مخالف نعرے بھی لگا رہے تھے مثلاً میکرون استعفیٰ دو۔

    پیرس پولیس نے ایک بیان میں کہا کہ پولیس کی مداخلت کی بدولت شاہراہ پر صورتحال معمول پر آگئی جبکہ پورے دن کے دوران 175 افراد کو حراست میں لیا گیا۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ پریڈ کا انعقاد بغیر کسی رکاوٹ کے ہوا جس میں مسلح افواج کے تقریباً 4 ہزار 300 اہلکاروں نے روایتی شاہراہ پر مارچ کیاتاہم اس دوران بھی فرانسیسی چیف آف اسٹاف جنرل فرانکوئس لیکوئنٹر کے ساتھ کھڑے میکرون کو یلو ویسٹ تحریک کے حمایتیوں کی جانب سے سیٹیوں اور طنز کا سامنا کرنا پڑا۔

    اس احتجاجی تحریک کے 3 نمایاں اراکین جیروم روڈریگوس، میکسم نکولے، ایرک ڈروئٹ کو حراست میں لیا گیا بعدازاں کئی گھنٹوں بعد چھوڑ دیا گیا تھا۔

  • لندن میں تحفظ ماحول کے لیے مظاہرے جاری، 700 افراد گرفتار

    لندن میں تحفظ ماحول کے لیے مظاہرے جاری، 700 افراد گرفتار

    لندن : برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں تحفظِ ماحول کی تحریک کے زیر اہتمام مسلسل چھٹے روز بھی مظاہرے جاری رہے، اس دوران میں پولیس نے بلووں، نقضِ امن اور املاک کو نقصان پہنچانے کے الزام میں 718 افراد کو گرفتار کر لیا۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق مظاہرین نے بھی شہر میں واٹرلو پل اور آکسفورڈ سرکس جنکشن کو بلاک کیے رکھا حالانکہ پولیس نے گلابی رنگ کی تیرتی کشتی کو وہاں سے ہٹا دیا تھا۔ یہ کشتی تحریک کے مرکزی فطری نقطہ کے طور پر استعمال ہورہی تھی۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ پولیس نے 28 افراد پر مظاہروں اور نقضِ امن کے الزام میں فرد ِجرم عاید کردی ہے، ان مظاہروں کا اہتمام گذشتہ سال برطانیہ میں ماہرین تعلیم وتدریس کے قائم کردہ گروپ ”معدومی بغاوت“ کررہا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ یہ دنیا میں تحفظِ ماحول کے لیے ایک بڑی تحریک بن چکی ہے، اس مہم کے قائدین و کارکنان حکومتوں سے ماحول کے تحفظ کے لیے ہنگامی حالت کے نفاذ کے اعلان ، 2025 تک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو صفر تک لانے اور حیاتیاتی تنوع کے ضیاع کو روکنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔

    پولیس نے لندن میں مظاہرین کو ہائیڈ پارک کے ایک کونے ماربل آرچ تک محدود کرنے کی کوشش کی ہے لیکن انھوں نے گرفتاری کی دھمکیوں کو نظر انداز کردیا ہے اور دوسری جگہوں کو بھی بلاک کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔

    پولیس کا کہنا تھا کہ ہم کاروبارِ زندگی کو معمول پرلانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن اس مظاہرے کے دوران میں ایک غیر معمولی بات دیکھنے میں آئی ہے اور وہ یہ کہ اس کے شرکاء گرفتار ی کے لیے تیار ہیں اور وہ گرفتاری کے وقت کوئی مزاحمت بھی نہیں کرتے ہیں۔

    پولیس کا مزید کہنا تھا کہ بڑے پیمانے پر گرفتاریوں سے خود اس کے لیے بھی لاجسٹیکل مسئلہ پیدا ہوگیا ہے کیونکہ جیل کوٹھڑیوں اور حوالاتوں میں تو اتنے زیادہ زیر حراست افراد کو رکھنے کے لیے جگہ نہیں رہی ہے اور فوجداری نظامِ انصاف کے لیے بھی مسئلہ پیدا ہوگیا ہے۔

  • شمالی آئرلینڈ میں پُرتشدد مظاہرے، خاتون صحافی گولی لگنے سے ہلاک

    شمالی آئرلینڈ میں پُرتشدد مظاہرے، خاتون صحافی گولی لگنے سے ہلاک

    لندن : برطانیہ کے علاقے لندن ڈیری میں مظاہرین نے دوران فسادات خاتون کو صحافی کو قتل کردیا، پولیس نے قتل کو دہشت گردانہ کارروائی قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی ریاست شمالی آئرلینڈ کے علاقے لندن ڈیری میں جمعرات کی رات برطانوی پولیس کے سرچ آپریشن کے بعد شروع ہونے والے پُر تشدد مظاہروں کے دوران ریپبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے مظاہرین نے 29 سالہ صحافی لیرا میکّی کو قتل کردیا۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ احتجاج میں شریک مظاہرین نے پولیس کے خلاف آزادنہ طور پر پیڑول بم استعمال کیے۔

    برطانوی پولیس کے اسسٹنٹ چیف کانسٹیبل مارک ہمیلٹن کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی اداروں نے صحافی کے قتل کی تحقیقات شروع کردیں ہیں۔

    پولیس اسسٹنٹ چیف نے بتایا کہ گزشتہ رات تقریباً 11 بجے مسلح افراد نے پولیس کی جانب متعدد فائر کیے، جس کے نتیجے میں 29 سالہ نوجوان خاتون صحافی لیرا میکّی شدید زخمی ہوگئیں۔

    مارک ہمیلٹن کا کہنا تھا کہ پولیس اہلکاروں نے پولیس جیپ میں زخمی صحافی کو جائے وقوعہ سے اٹھاکر قریبی اسپتال منتقل کیا تاہم وہ جانبر نہ ہوسکی۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ پُرتشدد مظاہرے اس وقت شروع ہوئے جب پولیس نے مُلروئے پارک اور گلیگا کے علاقے میں متعدد گھروں میں شرچ آپریشن کیا۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق ریپبلیکن پارٹی کے مظاہرین نے پولیس کی گاڑیوں پر 50 پیٹرول بم پیھنکے تھے جبکہ دو پولیس جیپوں کو اپنے قبضے میں لے کر نذر آتش بھی کیا ہے۔

    برطانیہ کی کی متعدد سیاسی جماعتوں باالخصوص شمالی آئرلینڈ کی سیاسی جماعت ڈی یو پی نے خاتون صحافی کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتےہوئے کہا کہ اس مشکل گھڑی اہل خانہ کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔

  • برطانیہ میں‌ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے مظاہرے، 300 افراد گرفتار

    برطانیہ میں‌ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے مظاہرے، 300 افراد گرفتار

    لندن : برطانوی پولیس نے موسمیاتی تبدیلی کے سلسلے میں جاری مظاہرے کے دوران سڑک بلاک کر نے والے 300 مظاہرین کو حراست میں لے لیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی دارالحکومت لندن میں موسمیاتی تبدیلی کےلیے کام کرنے والے رضاکاروں کا دنیا میں پیدا ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کے خلاف تیسرے روز بھی احتجاج جاری ہے، مظاہرین لندن احتجاج کے دوران دارالحکومت کو بند کرنا چاہتے ہیں۔

    پولیس حکام نے بتایا کہ مظاہرین نے 55 سے بس راستوں کو بند کردیا جس کی وجہ سے پانچ لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں جبکہ مظاہرین نے ماربل آرچ، واٹرلوپُل، پارلیمنٹ اسکوائر اور آکسفورڈ کرکس پیر سے بند پڑا ہے۔

    پولیس کا کہنا تھا کہ زیادہ تر مظاہرین کی گرفتاری ماربل پارک تک اپنے مظاہرے کو محدود کرنے کی خلاف ورزی پر کی گئی، لندن پولس کے چیف سپرنٹنڈنٹ کولن ونگرو نے بتایا کہ مظاہرے کی وجہ سے پبلک گاڑیوں کی آمدورفت، مقامی تاجروں اور لندن کے رہنے والے شہریوں کے لئے سنگین مسئلہ پیدا ہورہا ہے۔

    انہوں نے واضح کیا کہ ہمارے پاس کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لئے پورے وسائل ہیں۔

    برطانوی دارالحکومت لندن کے میئر صادق خان نے مظاہرین پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’ٹیوب سروس بند کرنے سے متعلق دوبارہ سوچیں، آپ لندن کے شہریوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال رہے ہیں‘۔

    ٹویٹر پر پوسٹ کردہ اپنے پیغام میں ان کا کہنا ہے کہ مزید لوگوں کو پبلک ٹرانسپورٹ کے استعمال پر ، پیدل چلنے اور سائیکل چلانے پر راغب کرنا یقیناً ایک مشکل امر ہے، اور اسی کے ذریعے اس موسمیاتی ایمرجنسی کا سدباب کیا جاسکتا ہے۔ لندن کے لاکھوں باشندے اپنے معمولاتِ زندگی انجام دینے کے لیے روز مرہ کی بنیاد پر انڈر گراؤنڈ نیٹ ورک استعمال کرتے ہیں۔

  • یونان میں پڑوسی ملک کا نام جمہوری شمالی مقدونیہ رکھنے پر مظاہرے

    یونان میں پڑوسی ملک کا نام جمہوری شمالی مقدونیہ رکھنے پر مظاہرے

    ایتھنز: مقدونیہ نام کی تبدیلی کے خلاف یونان میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور حکومت کے خلاف مظاہرہ کیا۔

    تفصیلات کے مطابق یونان کے دارالحکومت ایتھنز میں ہزاروں افراد پڑوسی ملک مقدونیہ کا نام تبدیل کرکے شمالی مقدونیہ رکھے جانے کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔

    احتجاجی مظاہرین کی جانب سے پٹرول بم اور پتھروں کا استعمال کیا گیا جبکہ پولیس نے جوابی کارروائی میں آنسو گیس کا استعمال کیا۔

    یونانی پارلیمنٹ کے سامنے مظاہرین نے جھنڈے لہرا کر مقدنیہ یونا ہے کے نعرے بلند کیے اور پڑوسی ملک کے ساتھ کیے گئے تاریخی معاہدے کے خلاف احتجاج کیا۔

    مقدونیہ کا سرکاری نام جمہوری شمالی مقدونیہ رکھ دیا گیا

    یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے مقدونیہ کےاراکین پارلیمنٹ نے کثرت رائے سے ملک کا نام تبدیل کرکے سرکاری نام جمہوری شمالی مقدونیہ رکھنے کی منظوری دی تھی۔

    دارالحکومت اسکوپیے میں حکومت کی جانب سے نام تبدیلی کی قرار داد پیش کی گئی تھی، ایک سو بیس رکنی پارلیمان میں سے اکیاسی اراکین نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

    واضح رہے کہ گزشتہ سال جون میں مقدونیہ نام کی تبدیلی یونان کے ساتھ ایک معاہدے کے بعد عمل میں آئی یونان اور مقدونیہ کے درمیان اس نام پر تنازعہ چلا آرہا ہے کیونکہ یونان کے ایک صوبے کا نام بھی مقدونیہ ہے۔