Tag: مظفر علی سید کی برسی

  • مظفر علی سید:‌ یادوں کی سرگم کا سَر ورق

    مظفر علی سید:‌ یادوں کی سرگم کا سَر ورق

    اردو زبان کے ممتاز نقّاد، محقّق اور مترجم مظفّر علی سیّد کے ادبی دنیا میں کے مقام و مرتبہ کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ سلیم احمد، انتظار حسین اور مشفق خواجہ جیسی شخصیات ان کی قدر داں تھیں۔ ان کے علمی ذوق و شوق اور مطالعہ کی شہرت بھی ایسی تھی کہ کالج میں بھی طلبا فنونِ لطیفہ سے متعلق کوئی سوال اور گفتگو انہی سے کرتے تھے۔ آج مظفر علی سیّد کی برسی ہے۔

    مصنّف اور معروف ادبی شخصیت مظفر علی سید نے 28 جنوری 2000ء کو وفات پائی۔ ان کا تعلق امرتسر سے تھا۔ 1929ء میں‌ پیدا ہونے والے مظفر علی سیّد نے تنقید کے ساتھ مترجم کی حیثیت سے نام بنایا اور تصنیف و تالیف کے میدان میں قابلِ ذکر کام کیا۔ ان کی تصانیف میں ‘تنقید کی آزادی’ اور تراجم میں ‘فکشن، فن اور فلسفہ’ اور ‘پاک فضائیہ کی تاریخ’ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ مظفر علی سید نے نام ور ادیب مشفق خواجہ کے کالموں کے تین مجموعے خامہ بگوش کے قلم سے، سخن در سخن اور سخن ہائے گفتنی کے عنوان سے مرتب کیے۔

    خاکہ نگاری مظفر علی سید کا ایک نمایاں حوالہ ہے اور ان کے خاکوں‌ کا مجموعہ ‘یادوں کی سرگم’ کے نام سے موجود ہے۔ انھوں نے معلوماتِ عامّہ پر بھی کتاب تصنیف کی تھی۔ ڈی ایچ لارنس کے تنقیدی مضامین کا ترجمہ فکشن، فن اور فلسفہ کے نام سے کیا اور سید عابد علی عابد کی ایک کتاب پر تنقید بھی لکھی۔

    کہتے ہیں کہ ان کی ساری زندگی مطالعہ کرتے ہوئے گزری۔ یعنی بہت کم ایسا ہوا کہ مظفر علی سید نے کسی روز کوئی کتاب نہ کھولی ہو اور پڑھا نہ ہو۔ وہ ایک آزاد منش انسان تھے جس نے اپنی تحریروں کو سنبھال کے نہیں‌ رکھا، لیکن خاکوں کی شکل میں ان کی جو تحریریں‌ ہم تک پہنچیں وہ انھیں ایک بے باک اور منہ زور قلم کا حامل مصنّف ثابت کرتی ہیں تاہم مظفر علی سید کا وصف یہ ہے کہ اپنے خاکوں میں انھوں نے کسی کی شخصی کم زوری اور اس کی خامیوں کو نہیں اچھالا بلکہ وہ شخصیات کو اپنے قلم سے اسی طرح پیش کرتے ہیں جیسے وہ مظفر علی سید کو دکھائی دیے۔ یہ کہا جانا چاہیے کہ مظفر علی سید نے بِلا کم و کاست اپنے ممدوحین کو قاری کے سامنے پیش کیا۔

    مظفر علی سید کو لاہور کے کیولری گراؤنڈ قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • ‘یادوں کی سرگم’ اور آزاد منش مظفّر علی سیّد!

    ‘یادوں کی سرگم’ اور آزاد منش مظفّر علی سیّد!

    چراغ حسن حسرت، صوفی تبسم، خواجہ منظور حسین، محمد حسن عسکری اور ن۔ م راشد جیسے علم و ادب کے درخشاں ستاروں پر شخصی مضامین اور ان کے خاکے پہلے بھی لکھے گئے، لیکن خاکہ نگار کا قلم ‘محتاط’ رہا ہے جب کہ مظفّر علی سیّد نے بڑی بے باکی سے اپنے ممدوح کی شخصیت کو کریدا اور اس کے اندرون اور بیرون کو بلاکم و کاست قاری کے سامنے پیش کرنے میں‌ کام یاب ہوئے۔

    مظفّر علی سیّد کو اردو زبان کے ممتاز نقّاد، محقّق اور مترجم تھے جنھیں آج ہی کے دن سنہ 2000 میں دستِ اجل نے ہم سے چھین لیا تھا۔ پاکستان میں وہ شہر لاہور کے باسی تھے، لیکن ان کا تعلق امرتسر سے تھا جہاں وہ 1929ء میں‌ پیدا ہوئے تھے۔

    مظفّر علی سیّد کا بڑا حوالہ تنقید نگاری ہے۔ خاکوں پر مشتمل ان کی کتاب ‘یادوں کی سرگم’ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسانی شخصیت کیسی پُر پیچ اور تہ در تہ ہوتی ہے جس میں غور اور مطالعہ کرنے سے ہم پر پرتیں کھلتی ہی چلی جاتی ہیں۔

    مشہور ہے وہ ایک آزاد منش انسان تھے اور اپنی اکثر تحریریں اور مضامین سنبھال کر نہیں رکھ سکے، لیکن مظفر علی سیّد کا جنتا بھی علمی و ادبی کام اور تصنیف و تالیف کردہ کتب سامنے آئی ہیں، وہ قابل توجہ ہیں۔ ان کی تصانیف میں ‘تنقید کی آزادی’ اور تراجم میں ‘فکشن، فن اور فلسفہ’ اور ‘پاک فضائیہ کی تاریخ’ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے نام ور ادیب مشفق خواجہ کے کالموں کے تین مجموعے خامہ بگوش کے قلم سے، سخن در سخن اور سخن ہائے گفتنی کے نام سے مرتب کیے تھے۔ اس کے علاوہ شخصی خاکے، معلوماتِ عامّہ پر کتاب جب کہ فکشن، فن اور فلسفہ ان کے ڈی ایچ لارنس کے تنقیدی مضامین کا ترجمہ ہے۔ انھوں نے اپنے زمانے کے ممتاز ادیب، شاعر، محقق اور مترجم سیّد عابد علی عابد کی کتاب پر تنقید بھی لکھی تھی۔

    اردو زبان و ادب کی دو قد آور شخصیات کے درمیان ایک مکالمہ پڑھیے جس سے معلوم ہو گاکہ دورِ جوانی میں مرحوم نقّاد کا علمی و ادبی ذوق شوق کیسا تھا، یہ دل چسپ مکالمہ نام وَر ادیب اور ناول نگار انتظار حسین کی زبانی کچھ یوں‌ ہے: عسکری صاحب ایک روز کہنے لگے کہ "یار ایک عجب نوجوان ہے۔ میں مال روڈ سے کسی وقت بھی گزروں وہ کتابیں بغل میں دابے کسی طرف سے آن پہنچتا ہے اور پھر عالمانہ انداز میں ادب پر گفتگو شروع کر دیتا ہے۔”

    میرے کان کھڑے ہوئے۔ پوچھا "کیا حلیہ ہے اس کا۔”

    "عینک لگاتا ہے۔ کچھ گول مٹول سا ہے۔ بغل میں کتابیں ہوتی ہیں۔”

    "میں سمجھ گیا۔” میں نے اعتماد سے کہا "وہ گورنمنٹ کالج کا طالبِ علم ہے مظفّر علی سیّد۔”

    "یار بہت عالمانہ گفتگو کرتا ہے۔”

  • ”یادوں کی سرگم” والے مظفّر علی سیّد کی برسی

    ”یادوں کی سرگم” والے مظفّر علی سیّد کی برسی

    اردو زبان کے ممتاز نقّاد، محقّق اور مترجم مظفّر علی سیّد 28 جنوری 2000ء کو وفات پاگئے تھے۔ ان کا تعلق امرتسر سے تھا جہاں‌ وہ 1929ء میں‌ پیدا ہوئے۔

    مظفر علی سیّد نے تنقید کے ساتھ مترجم کی حیثیت سے علمی و ادبی سرگرمیاں اور تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری رکھا اور قابلِ ذکر کام کیا۔ ان کی تصانیف میں ‘تنقید کی آزادی’ اور تراجم میں ‘فکشن، فن اور فلسفہ’ اور ‘پاک فضائیہ کی تاریخ’ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے نام ور ادیب مشفق خواجہ کے کالموں کے تین مجموعے خامہ بگوش کے قلم سے، سخن در سخن اور سخن ہائے گفتنی کے نام سے مرتب کیے۔

    مظفر علی سید کی تصانیف میں‌ خاکوں‌ کا مجموعہ یادوں کی سرگم بھی شامل ہے۔ معلوماتِ عامّہ پر بھی ان کی ایک کتاب شایع ہوئی جب کہ فکشن، فن اور فلسفہ ان کے ڈی ایچ لارنس کے تنقیدی مضامین کا ترجمہ ہے۔ انھوں نے اپنے زمانے کے ممتاز ادیب، شاعر، محقق اور مترجم سید عابد علی عابد کی کتاب پر تنقید بھی لکھی تھی۔

    مشہور ہے وہ ایک آزاد منش انسان تھے اور اپنی تحریروں سنبھال کے نہیں‌ رکھا، لیکن ان کے جو خاکے قارئین تک پہنچے، ان‌ میں وہ خاصے بے باک اور ان کا قلم منہ زور ہے، تاہم ان کا وصف یہ ہے کہ انھوں نے کسی کی شخصی کم زوری اور اس کی خامیوں پر اسے نہیں‌ گھسیٹا بلکہ شخصیات کو اپنے قلم سے اسی طرح جیسا کہ وہ انھیں دکھائی دیے، بِلا کم و کاست قاری کے سامنے پیش کیا اور ان کی یہ کوشش کام یاب رہی۔