Tag: معدومی

  • زمین کے طویل قامت جانور کا دن آج ہی کیوں منایا جاتا ہے؟

    زمین کے طویل قامت جانور کا دن آج ہی کیوں منایا جاتا ہے؟

    آج دنیا بھر میں تیزی سے معدومی کی طرف بڑھتے زرافوں کے تحفظ کے حوالے سے عالمی دن منایا جارہا ہے۔ سنہ 1980 سے اب تک اس معصوم جانور کی آبادی میں 40 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔

    اس دن کو منانے کا آغاز عالمی فاؤنڈیشن برائے تحفظ زرافہ جی سی ایف نے کیا جس کے تحت ہر سال، سال کے سب سے طویل دن اور طویل رات یعنی 21 جون کو زمین کے سب سے طویل القامت جانور کا دن منایا جاتا ہے۔

    زرافہ ایک بے ضرر جانور ہے جس کا گھر افریقہ کے جنگلات ہیں۔ عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این نے زرافے کو معدومی کے خطرے کا شکار جانوروں کی فہرست میں شامل کردیا ہے۔

    آئی یو سی این کے مطابق لگ بھگ 35 سال قبل دنیا بھر میں زرافوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زائد تھی تاہم اب یہ تعداد گھٹ کر صرف 98 ہزار رہ گئی ہے۔

    کچھ عرصہ قبل زرافوں کے تحفظ کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی گئی جس میں بتایا گیا کہ زرافوں کی آبادی میں سب سے زیادہ کمی افریقہ کے صحرائی علاقوں سے ہوئی اور بدقسمتی سے یہ اتنی خاموشی سے ہوئی کہ کسی کی نظروں میں نہ آسکی۔

    رپورٹ کے مطابق ان جانوروں کی معدومی کی دو بڑی وجوہات ہیں۔

    ایک تو ان کی پناہ گاہوں کو انسانوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے زرعی زمینوں میں تبدیل کردینا جس کے باعث یہ اپنے فطری گھر سے محروم ہوجاتے ہیں، دوسرا ان کے گوشت کے لیے کیا جانے والا ان کا شکار، جس کی شرح جنوبی سوڈان میں سب سے زیادہ ہے۔

    آئی یو سی این کی سرخ فہرست کے نگران کریگ ہلٹن کا کہنا ہے کہ تنازعوں اور خانہ جنگیوں سے انسانوں کے ساتھ اس علاقے کا ماحول اور وہاں کی جنگلی حیات بھی متاثر ہوتی ہے اور بدقسمتی سے براعظم افریقہ کا بڑا حصہ ان کا شکار ہے۔

    علاوہ ازیں موسموں میں تبدیلی یعنی کلائمٹ چینج اور قحط، خشک سالی وغیرہ بھی زرافوں سمیت دیگر جانوروں کی معدومی کی وجہ ہیں۔

    اقوام متحدہ نے منتبہ کیا ہے کہ انسانوں کی وجہ سے دنیا کی جنگلی حیات شدید خطرات کا شکار ہے جس میں سب سے بڑا خطرہ ان کی پناہ گاہوں سے محرومی ہے۔ مختلف جنگلی حیات کی پناہ گاہیں آہستہ آہستہ انسانوں کے زیر استعمال آرہی ہیں۔

  • سنہری بالوں والا معصوم بندر

    سنہری بالوں والا معصوم بندر

    کیا آپ سنہری بالوں والے بندر کے بارے میں جانتے ہیں؟

    چین کے جنوبی صوبے یونن میں پائے جانے والے بندر کی ایک قسم کو اپنی ناک اور خوبصورت بالوں کی وجہ سے نہایت منفرد سمجھا جاتا ہے۔ غیر معمولی ہیئت کی ناک کی وجہ سے اسے سنب نوزڈ منکی کہا جاتا ہے۔

    یہ بندر ماحول سے مطابقت کرنے کی زبردست صلاحیت رکھتے ہیں اور منفی درجہ حرارت میں بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔

    ان بندروں کو اپنی پناہ گاہوں کے چھن جانے کی وجہ سے معدومی کا خطرہ ہے، اسی خطرے کو دیکھتے ہوئے چین میں ان بندروں کے ڈی این اے کا تجزیہ کیا جارہا ہے تاکہ ان کی حفاظت کے لیے اقدامات اٹھائے جاسکیں۔

    1980 کی دہائی میں ان بندروں کا بے دریغ شکار کیا گیا تاہم اس کے بعد سے ان بندروں کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے، لیکن اب بھی ان کی تعداد مستحکم نہیں کہلائی جاسکتی۔

    چین اور میانمار کی سرحد پر رہنے والے ان جانداروں کے تحفظ کے لیے چینی حکومت بڑے پیمانے پر اقدامات کر رہی ہے۔

  • ننھے شکاریوں کے تربیتی مراحل

    ننھے شکاریوں کے تربیتی مراحل

    دنیا کے تیز ترین جانوروں میں سے ایک سمجھا جانے والا جانور چیتا شکار پر اپنی زندگی گزارتا ہے، نہایت چالاکی کے ساتھ خاموشی سے شکار کی طرف جانا اور بجلی کی سی تیزی سے اس پر جھپٹنا اس کی نمایاں خصوصیت ہے۔

    شکار چیتے کی فطرت ہے اور یہ خاصیت اس وقت بھی ان میں نظر آتی ہے جب وہ بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور اپنی ماں پر انحصار کرتے ہیں۔

    ننھے چیتے آپس میں ہی لڑتے، ایک دوسرے پر جھپٹتے اور ایک دوسرے کے کان کاٹتے دکھائی دیتے ہیں جیسے زیر نظر اس ویڈیو میں دکھائی دے رہا ہے۔

    گو کہ ان ننھے چیتوں کی رفتار اور طاقت کم ہے مگر ابھی وہ اپنی تربیت کے ابتدائی مرحلے میں ہیں، ایک مخصوص عمر تک پہنچنے کے بعد وہ گھاگ شکاریوں میں تبدیل ہوچکے ہوں گے۔

    سوسائٹی برائے تحفظ جنگلی حیات ڈبلیو سی ایس اور زولوجیکل سوسائٹی آف لندن کی ایک رپورٹ کے مطابق افریقی ملک زمبابوے میں گزشتہ 16 سال میں چیتوں کی آبادی میں 85 فیصد سے زائد کمی آچکی ہے۔

    کچھ عرصہ قبل جاری کی جانے والی اس رپورٹ  میں تجویز کیا گیا تھا کہ چیتے کو عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این کی خطرے کا شکار جنگلی اقسام کی سرخ فہرست (ریڈ لسٹ) میں خطرے کا شکار جنگلی حیات کی فہرست سے نکال کر شدید خطرے کا شکار جنگلی حیات کی فہرست میں رکھا جائے۔

    نیشنل اکیڈمی آف سائنس کے جریدے میں چھپنے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بیسویں صدی کے آغاز میں دنیا بھر میں کم از کم 1 لاکھ چیتے موجود تھے لیکن اب ان کی تعداد میں خطرناک کمی واقع ہوچکی ہے، اور اس وقت دنیا بھر میں اس تعداد کا نو فیصد یعنی صرف 7 ہزار 100 چیتے موجود ہیں۔

    لندن کی زولوجیکل سوسائٹی کا کہنا ہے کہ چیتا اپنی جس تیز رفتاری کے باعث مشہور ہے، اسی تیز رفتاری سے یہ معدومی کی جانب بڑھ رہا ہے۔

  • پانڈا کے ننھے منے بچوں نے رینگنا سیکھ لیا

    پانڈا کے ننھے منے بچوں نے رینگنا سیکھ لیا

    چین میں بڑے (جائنٹ) پانڈا کے ننھے منے بچوں نے رینگنا اور پرورش پانا شروع کردیا جن کی تصاویر و ویڈیوز سوشل میڈیا پر بے حد وائرل ہورہی ہیں۔

    جنوبی چین میں واقع شہر گوانگ ژو کے بریڈنگ سینٹر میں رہنے والی پانڈا ٹنگ ٹنگ کو وینگ چنگ میں آنے والے زلزلے کے بعد یہاں منتقل کیا گیا تھا۔

    اس وقت ایک ہی بچہ اس کے ساتھ تھا جو بہت ننھا سا تھا۔

    گوانگ ژو میں آنے کے بعد پانڈا کے پاس ایک اور بچے کی پیدائش ہوئی اور اب دونوں بچے نہایت صحت مند ہیں اور پرورش پا رہے ہیں۔

    بریڈنگ سینٹر کی جانب سے جاری کی جانے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ دونوں پانڈا رینگنا سیکھ رہے ہیں۔

    یاد رہے کہ پانڈا چین کا قومی جانور ہے اور عالمی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات آئی یو سی این نے اس جانور کو معدومی کے خطرے کا شکار جانوروں کی فہرست میں شامل کر رکھا تھا۔

    تاہم چین نے پانڈا کے تحفظ اور نسل میں اضافے کے لیے مؤثر ہنگامی اقدامات اٹھائے جس کے بعد یہ معصوم جانور اب معدومی کے خطرے سے باہر نکل آیا ہے۔

  • پرندوں کی 8 اقسام معدوم ہونے کے قریب

    پرندوں کی 8 اقسام معدوم ہونے کے قریب

    بدلتے موسموں اور گرم ہوتے درجہ حرارت نے جہاں انسانوں کی زندگی دشوار بنا دی ہے وہیں جانوروں اور پرندوں کے لیے بھی بے شمار خطرات پیدا کردیے ہیں۔

    اس میں بڑا حصہ انسانوں کا ہے جو ان جانوروں کی قدرتی پناہ گاہوں یعنی جنگلات کو بے دریغ کاٹ رہے ہیں جس کے باعث مختلف اقسام کے جانداروں کی معدومی کا خدشہ بڑھ رہا ہے۔

    حال ہی میں ایک رپورٹ میں تصدیق کی گئی کہ رواں دہائی میں پرندوں کی 8 اقسام معدوم ہوجائیں گی۔

    برڈ لائف انٹرنیشل کی جانب سے کی جانے والی تجزیاتی تحقیق میں معلوم ہوا کہ اس دہائی کے اندر براعظم امریکا میں پائے جانے والے پرندوں کی 8 اقسام معدوم ہوجائیں گی۔

    مزید پڑھیں: مسلسل 10 ماہ تک اڑنے والا پرندہ

    اس فہرست میں مکاؤ، پوالی، ایک قسم کا الو اور کرپٹک ٹری ہنٹر نامی پرندے شامل ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بعض پرندے اس لیے بھی معدوم ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کی آبادی کم ہوجاتی ہے اور بڑے پرندے انہیں کھا لیتے ہیں تاہم اس فہرست میں کچھ پرندے ایسے بھی شامل ہیں جو جنگلات کے خاتمے کی وجہ سے معدوم ہورہے ہیں۔

    فہرست میں اس کے علاوہ بھی 26 ہزار پرندوں و جانوروں کی اقسام ایسی ہیں جو معدومی کے خطرے کا شکار ہیں۔

    مزید پڑھیں: کھڑکیوں پر چہچہانے والی چڑیا کہاں غائب ہوگئی؟

    تحقیق میں شامل سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ان پرندوں کے لیے تو اب کچھ نہیں کیا جاسکتا تاہم دیگر خطرے کا شکار جانوروں کی حفاظت اور بچاؤ کے لیے ہنگامی اقدامات اٹھانے ضروری ہیں۔

  • کھڑکیوں پر چہچہانے والی چڑیا کہاں غائب ہوگئی؟

    کھڑکیوں پر چہچہانے والی چڑیا کہاں غائب ہوگئی؟

    کیا آپ کو یاد ہے کہ آپ نے آخری بار چڑیا کب دیکھی تھی؟ ننھی منی سی بھورے رنگ کی چڑیا اکثر و بیشتر ہمارے گھروں کی کھڑکیوں پر آ کر چہچہاتی تھی مگر اب ایک طویل عرصے سے جیسے یہ چڑیائیں غائب ہوگئی ہیں۔

    آج ان چڑیاؤں کو یاد کرنے کے لیے ان کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔

    ماہرین ماحولیات اور جنگلی حیات کا کہنا ہے کہ تیزی سے ہوتی اربنائزیشن اور شہروں کے بے ہنگم پھیلاؤ نے اس معصوم پرندے کی نسل کو خطرے کا شکار بنا دیا ہے۔

    sparrow-3

    ان چڑیاؤں کی معدومی کی وجہ وہی انسانوں کی خود غرضانہ ترقی ہے جو ماحول اور جنگلی حیات کو داؤ پر لگا کر کی جارہی ہے۔

    ہاؤس اسپیرو کہلانے والی ان چڑیاؤں کی پہلی آماجگاہ انسانی آبادی ہے تاہم یہ نسبتاً پرسکون آبادیوں کا انتخاب کرتی ہیں۔ اگر یہاں شور شرابہ، ہجوم اور آلودگی میں اضافہ ہوجائے تو یہ چڑیائیں وہاں سے چلی جاتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: مسلسل 10 ماہ تک اڑنے والا پرندہ

    جنوبی امریکی بریڈنگ برڈ سروے کے مطابق سنہ 1966 سے 2012 تک ان چڑیاؤں کی آبادی میں خاصی کمی آچکی ہے۔ صرف برطانوی دارالحکومت لندن میں سنہ 1994 سے 2001 کے دوران ان چڑیاؤں کی آبادی میں 70 فیصد کمی ہوئی۔

    sparrow-4

    اس عرصے میں کئی ممالک میں ان چڑیاؤں کی تعداد میں 50 فیصد سے زائد کمی واقع ہوچکی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بے ہنگم شور شرابہ اور ہجوم کے علاوہ ہمارے شہروں کی روشنیاں بھی اس معصوم پرندے کے لیے نقصان دہ ہے۔

    سورج ڈھلتے ہی روشنیوں کا سیلاب، جسے اب ماہرین روشنی کی آلودگی کا نام دیتے ہیں، نہ صرف رات کے قدرتی اور خوبصورت نظاروں کو ہم سے چھین رہی ہے بلکہ یہ پرندوں کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔

    sparrow-2

    ایک تحقیق کے مطابق مصنوعی روشنیاں پرندوں کی تولیدی صحت پر اثر انداز ہو رہی ہیں جس سے ان کی آبادی میں کمی واقع ہونے کا خدشہ ہے۔

    چلتے چلتے آپ کو امریکی یونیورسٹی میں کی جانے والی ایک اور دلچسپ تحقیق سے آگاہ کرتے چلیں جس کے مطابق پرندوں کی موجودگی کسی گھر کی مالیت میں اضافہ کردیتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق گھر خریدنے والے بلبل، چڑیا یا دیگر پرندوں کی چہچاہٹ سننا بہت پسند کرتے ہیں اور جتنے زیادہ پرندے آپ کے گھر میں ہوں گے، اتنی ہی زیادہ آپ کے گھر کی مالیت میں اضافہ ہوتا جائے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • معدومی کا شکار جانور اور انہیں لاحق خطرات ایک تصویر میں قید

    معدومی کا شکار جانور اور انہیں لاحق خطرات ایک تصویر میں قید

    ماہرین کے مطابق جیسے جیسے ہماری زمین پر غیر فطری عوامل جیسے کلائمٹ چینج یعنی موسمیاتی تغیر اور گلوبل وارمنگ یعنی عالمی حدت میں اضافہ ہورہا ہے ویسے ویسے کرہ ارض پر رہنے والے ہر جاندار کی بقا خطرے میں پڑ رہی ہے۔

    اسی صورتحال کی طرف توجہ دلانے کے لیے ناروے سے تعلق رکھنے والے ایک آرٹسٹ اینڈریاس لی نے جنگلی حیات کی دہری عکسی تصاویر تخلیق کی ہیں۔ جنگلی حیات کی تصاویر کی نمائش کا مرکزی خیال گلوبل وارمنگ تھا۔

    مزید پڑھیں: فطرت کے تحفظ کے لیے آپ کیا کرسکتے ہیں؟

    مزید پڑھیں: غیر قانونی فارمز چیتوں کی بقا کے لیے خطرہ

    ان کا کہنا تھا کہ کلائمٹ چینج کے باعث جنگلی حیات کی کئی اقسام کو معدومی کا خطرہ لاحق ہے اور انہوں نے اسی خطرے کو اجاگر کرنے کا سوچا۔

    انہوں نے اپنی نمائش میں 5 ایسے جانوروں کی دہرے عکس میں تصاویر پیش کیں جنہیں ماہرین خطرے کا شکار قرار دے چکے ہیں۔ ان جانوروں کو بدلتے موسموں کے باعث معدومی کا شدید خطرہ لاحق ہے۔

    art-5

    بارہ سنگھا۔

    art-1

    برفانی ریچھ۔

    art-2

    چیتا۔

    اینڈریاس نے ان جانوروں کی شبیہہ میں انہیں لاحق خطرات کو ایک اور عکس کی صورت میں پیش کیا۔

    art-3

    ہاتھی۔

    art-4

    برفانی چیتا۔

    واضح رہے کہ ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ درجہ حرارت میں اضافے کے باعث دنیا میں موجود ایک چوتھائی جنگلی حیات 2050 تک معدوم ہوجائے گی۔ اس سے قبل کلائمٹ چینج کے باعث آسٹریلیا میں پائے جانے والے ایک چوہے کی نسل بھی معدوم ہوچکی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کچھوے کے بارے میں حیران کن اور دلچسپ حقائق

    کچھوے کے بارے میں حیران کن اور دلچسپ حقائق

    کچھوا بظاہر ایک سست مگر ہمارے ماحول کے لیے نہایت فائدہ مند جانور ہے۔ اس کی حیثیت پانی میں ویسی ہی ہے، جیسے خشکی میں گدھ کی ہے، جسے فطرت کا خاکروب کہا جاتا ہے۔

    گدھ دراصل جابجا پھینکے جانے والے مردہ اجسام (جانور، انسان) کو کھا جاتا ہے جس کے باعث ان اجسام سے تغفن پھیلنے یا خطرناک بیماریاں پھوٹنے کا خدشہ نہیں رہتا۔

    یہی کام کچھوا پانی کے اندر کرتا ہے۔ یہ پانی کے اندر مضر اشیا اور جراثیم کو بطور خوراک استعمال کرتا ہے جس سے پینے کا پانی مختلف بیماریاں پیدا کرنے کا باعث نہیں بنتا۔

    سندھ وائلڈ لائف میں کچھوؤں کے حفاظتی یونٹ کے انچارج عدنان حمید خان کے مطابق کراچی میں کچھ عرصہ قبل عفریت کی طرح پھیلنے والا نیگلیریا وائرس دراصل ان کچھوؤں کی عدم موجودگی کے باعث ہی پھیل سکا۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں کچھوے کی اسمگلنگ پر تفصیلی رپورٹ

    ان کے مطابق کچھ عرصہ قبل تک کچھوؤں کی تعداد میں بے تحاشہ کمی واقع ہوگئی تھی اور یہ وہی وقت تھا جب پانی میں نیگلیریا وائرس کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ تاہم کچھوؤں کی حفاظت کے لیے ہنگامی اقدامات اٹھائے گئے جس کے بعد ان کی آبادی مستحکم ہوگئی۔

    کچھوے کی اسی خصویت کے باعث اسے چاول کی کھڑی فصلوں میں بھی چھوڑا جاتا ہے جب فصلوں میں کئی فٹ تک پانی کھڑا ہوتا ہے۔ ایسے میں پانی کے مختلف کیڑے یا جراثیم فصل کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، تاہم کچھوے کی موجودگی ان کیڑوں یا جراثیموں کو طاقتور ہونے سے باز رکھتی ہے۔

    کچھوا ہمارے لیے فائدہ مند ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت حیران کن جانور بھی ہے۔ آج ہم آپ کو اس کی زندگی کے متعلق ایسے ہی کچھ حقائق بتانے جارہے ہیں جو آپ کے لیے معلوماتی ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت دلچسپ بھی ہیں۔

    زمین کے قدیم جانوروں میں سے ایک

    کچھوا زمین پر پائے جانے والے سب سے قدیم ترین رینگنے والے جانداروں میں سے ایک ہے۔ یہ اس زمین پر آج سے لگ بھگ 21 کروڑ سال قبل وجود میں آیا تھا۔

    طویل العمر جاندار

    کچھوؤں کی اوسط عمر بہت طویل ہوتی ہے۔ عام طور پر ایک کچھوے کی عمر 30 سے 50 سال تک ہوسکتی ہے۔ بعض کچھوے 100 سال کی عمر بھی پاتے ہیں۔ سمندری کچھوؤں میں سب سے طویل العمری کا ریکارڈ 152 سال کا ہے۔

    تاریخ کا سب سے طویل العمر کچھوا بحر الکاہل کے ٹونگا جزیرے میں پایا جاتا تھا جو اپنی موت کے وقت 188 سال کا تھا۔

    پیٹ پر خول

    کچھوا اپنی پشت پر سخت خول کی وجہ سے مشہور اور منفرد سمجھا جاتا ہے، لیکن شاید آپ کے علم میں نہ ہو کہ ایک خول کچھوے کے پیٹ پر بھی موجود ہوتا ہے جو پلاسٹرون کہلاتا ہے۔

    کچھوے کے دونوں خول بے شمار ہڈیوں سے مل کر بنتے ہیں۔

    تمام براعظموں پر پایا جانے والا جانور

    کچھوے دنیا کے تمام براعظموں پر پائے جاتے ہیں سوائے براعظم انٹار کٹیکا کے۔ اس کی وجہ یہاں کا سرد ترین اور منجمد کردینے والا موسم ہے جو کچھوؤں کے لیے ناقابل برداشت ہے۔

    گو کہ کچھوے سرد خون والے جاندار ہیں یعنی موسم کی مناسبت سے اپنے جسم کا درجہ حرارت تبدیل کرسکتے ہیں، تاہم انٹارکٹیکا کے برفیلے موسم سے مطابقت پیدا کرنا ان کے لیے ناممکن ہے۔

    انڈے دینے کا عمل

    تمام کچھوے بشمول سمندری کچھوے خشکی پر انڈے دیتے ہیں۔

    انڈے دینے کے لیے مادہ کچھوا جب ریت پر آتی ہے تو سب سے پہلے ریت میں گڑھا کھودتی ہے۔ اس عمل میں اسے لگ بھگ 1 گھنٹہ لگتا ہے۔ گڑھا کھودنے کے بعد وہ اندر جا کر بیٹھ جاتی ہے۔

    مادہ کچھوا ایک وقت میں سے 60 سے 100 کے درمیان انڈے دیتی ہے۔ انڈے دینے کے بعد وہ گڑھے کو ریت یا دوسری اشیا سے ڈھانپ کر غیر نمایاں کردیتی ہے تاکہ انڈے انسانوں یا جانوروں کی دست برد سے محفوظ رہ سکیں۔

    انڈے دینے کے بعد مادہ کچھوا اس جگہ سے دور چلی جاتی ہے اور واپس پلٹ کر نہیں آتی۔ بچے خود ہی انڈوں سے نکلتے اور اپنی زندگی کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔

    سمندری کچھوے چونکہ انڈے سے نکلتے ہی سمندر کی طرف جاتے ہیں لہٰذا اس سفر کے دوران زیادہ تر کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ اندازاً 100 میں سے 1 یا 2 سمندری کچھوے ہی بلوغت کی عمر تک پہنچ پاتے ہیں۔

    اس کے برعکس خشکی پر رہنے والے کچھوؤں میں زندگی کا امکان اور زندہ رہنے کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔

    جائے پیدائش کی طرف واپسی

    یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ مادہ کچھوا جس ساحل پر پیدا ہوتی ہے، انڈے دینے کے لیے اسی ساحل پر لوٹ کر آتی ہے۔

    آپ کو ایک اور دلچسپ بات سے آگاہ کرتے چلیں۔ کراچی کے ساحل پر سندھ وائلڈ لائف اور ادارہ برائے تحفظ جنگلی حیات ڈبلیو ڈبلیو ایف، جو کچھوؤں کے تحفظ کے لیے قابل تعریف اقدامات کر رہے ہیں، ننھے کچھوؤں کے سمندر میں جانے کے دوران علاقے کو روشنیوں سے نہلا دیتے ہیں۔

    یہ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ رات کے وقت سمندر میں جانے والے ننھے کچھوے تیز روشنی میں اس علاقے کو اچھی طرح دیکھ لیں اور وہ ان کے ذہن میں محفوظ ہوجائے۔ بعد میں مادہ کچھوؤں کو انڈے دینے کے لیے اپنی جائے پیدائش کی طرف لوٹتے ہوئے بھٹکنے، یا بھولنے کا خطرہ نہ رہے۔

    افزائش نسل کی انوکھی خصوصیت

    مادہ کچھوا نر کچھوے سے ملاپ کے کافی عرصے بعد بھی انڈے دے سکتی ہے۔ یہ اسپرمز کو اپنے جسم کے مخصوص حصوں میں کئی سالوں تک محفوظ رکھ سکتی ہے اور حالات موافق ہونے کے بعد انڈے دے سکتی ہے۔

    موسم جنس کی تعین کا ذمہ دار

    کچھوے کی جنس کا تعین اس موسم پر ہوتا ہے جو انڈوں سے بچے نکلنے کے دوران ہوتا ہے۔

    اس عمل کے دوران اگر موسم گرم ہوگا یا درجہ حرارت بڑھتا جائے گا تو تمام انڈوں میں موجود کچھوے، مادہ کچھوے بن جائیں گے۔ معتدل موسم نر کچھوؤں کی پیدائش میں مددگار ہوتا ہے۔

    یہ انوکھی خصوصیت کچھوؤں کے علاوہ کسی اور جاندار میں نہیں پائی جاتی۔

    ننھے کچھوؤں پر پروٹین کا خول

    کیا آپ جانتے ہیں، ماں کی جانب سے چھوڑ دیے جانے کے بعد ننھے کچھوے اپنی غذائی ضروریات کیسے پوری کرتے ہیں؟ قدرت نے ان معصوموں کے لیے غذا کا نہایت بہترین انتظام کر رکھا ہے۔

    پیدائش کے وقت ننھے کچھوؤں کی پیٹھ پر جو خول موجود ہوتا ہے وہ پروٹین سمیت مختلف غذائی اجزا پر مشتمل ہوتا ہے۔ اسے پروٹین اسپاٹ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ کچھوؤں کو غذا فراہم کرتا ہے۔

    جیسے جیسے کچھوے بڑے ہوتے جاتے ہیں ویسے ویسے خول کی ساخت مختلف ہوتی جاتی ہے۔ کچھوؤں کے اپنی غذا خود تلاش کرنے کی عمر تک پہنچنے کے بعد یہ خول صرف حفاظتی ڈھال کا کام انجام دینے لگتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: گرمی سے ننھے کچھوے انڈے کے اندر جل کر بھسم

    میٹھے پانی کے شوقین

    کچھوے اپنے پیئے جانے والے پانی کو قدرتی طریقے سے میٹھا بنا دیتے ہیں۔

    دراصل سمندری کچھوؤں کے گلے میں خصوصی قسم کے غدود موجود ہوتے ہیں جو اس پانی سے نمک کو علیحدہ کردیتے ہیں، جو کچھوے پیتے ہیں۔

    حساس ترین جانور

    کچھوؤں کی دیکھنے اور سونگھنے کی صلاحیت نہایت تیز ہوتی ہے۔ ان کی لمس کو محسوس کرنے اور سننے کی صلاحیت بھی اول الذکر دونوں صلاحیتوں سے کم، تاہم بہترین ہوتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ گہرے رنگوں میں تمیز کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لہٰذا تحقیقاتی مقاصد یا تحفظ کے اقدامات کے سلسلے میں کچھوؤں پر گہرے رنگوں سے نشانات لگائے جاتے ہیں۔

    بقا کی جدوجہد میں مصروف

    بدقسمتی سے اس وقت کچھوؤں کی زیادہ تر اقسام معدومی کے خطرے سے دو چار ہیں۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این کے مطابق دنیا بھر میں کچھوؤں کی 300 میں سے 129 اقسام اپنی بقا کی جدوجہد کر رہی ہیں۔ یہ اقسام معمولی یا شدید قسم کے خطرات سے دو چار ہیں۔

    کچھوؤں کی ممکنہ معدومی اور ان کی آبادی میں کمی کی وجوہات ان کا بے دریغ شکار، غیر قانونی تجارت، اور ان پناہ گاہوں میں کمی واقع ہونا ہے۔

  • کیا زمین پر چھٹی عظیم معدومی رونما ہورہی ہے؟

    کیا زمین پر چھٹی عظیم معدومی رونما ہورہی ہے؟

    ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ زمین پر ایک اور عظیم معدومی کا وقت تیزی سے قریب آتا جارہا ہے اور اس کی رفتار ہمارے گمان سے بھی تیز ہے۔

    عظیم معدومی ایک ایسا عمل ہے جو کسی تباہ کن آفت یا زمینی و جغرافیائی عوامل کی وجہ سے رونما ہوتی ہے اور اس کے بعد زمین سے جانداروں کی 60 فیصد سے زائد آبادی ختم ہوجاتی ہے۔ بچ جانے والی حیاتیات اس قابل نہیں ہوتی کہ ہھر سے اپنی نسل میں اضافہ کرسکے۔

    مزید پڑھیں: جانوروں کی عظیم معدومی کا ذمہ دار حضرت انسان

    زمین پر اب تک 5 عظیم معدومیاں رونما ہوچکی ہیں۔ سب سے خوفناک معدومی 25 کروڑ سال قبل واقع ہوئی جب زمین کی 96 فیصد آبی اور 70 فیصد زمینی حیات صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔

    آخری معدومی اب سے ساڑھے 6 کروڑ سال قبل رونما ہوئی جس میں ڈائنوسارز سمیت زمین کی ایک تہائی حیاتیات ختم ہوگئی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اب زمین چھٹی معدومی کی طرف بڑھ رہی ہے، لیکن یہ عمل جس تیزی سے واقع ہورہا ہے وہ ہمارے وہم و گمان سے کہیں آگے ہے۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک جامع تحقیق کے نتائج کے مطابق زمین کی 30 فیصد ریڑھ کی ہڈی والے جاندار جن میں مچھلیاں، پرندے، دیگر آبی حیات، رینگنے والے جانور اور کچھ ممالیہ جاندار شامل ہیں، کی آبادی میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے۔

    یہ تحقیق امریکا کی نیشنل اکیڈمی آف سائنس میں پیش کی گئی۔

    یاد رہے کہ گزشتہ دہائی تک کہا جارہا تھا کہ زمین پر جانوروں کے خاتمے کا عمل رونما ہونے والا ہے۔ اب خیال کیا جارہا ہے کہ یہ عمل شروع ہوچکا ہے اور حالیہ تحقیق سے علم ہورہا ہے کہ اس عمل میں تیزی آچکی ہے اور اسے کسی طرح نہیں روکا جاسکتا۔

    مزید پڑھیں: زمین پر آباد جانور کب سے یہاں موجود ہیں؟

    تحقیق میں بتایا گیا کہ معدومی کے خطرے کی طرف بڑھتے ان جانداروں میں گوریلا، چیتے، بندر اور گینڈے وغیرہ شامل ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اب چونکہ معدومی کا یہ عمل شروع ہوچکا ہے تو ایک اوسط اندازے کے مطابق ہر سال ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے 2 جانداروں کی اقسام معدوم ہوجاتی ہے۔

    پناہ گاہوں کی تباہی

    ماہرین نے اس عظیم معدومی کی سب سے بڑی وجہ جانداروں کی پناہ گاہوں یا ان کے گھروں کی تباہی کو قرار دیا ہے۔

    تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں جاری کلائمٹ چینج کے باعث بڑھتا ہوا درجہ حرارت گرم علاقے کے جانداروں کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ صدیوں سے اپنی رہائش کو چھوڑ کر نئی رہائش اختیار کریں۔

    ہجرت کا یہ عمل جانوروں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے اور نئے ماحول سے مطابقت نہ ہونے کے باعث تیزی سے ان کی اموات واقع ہوتی ہیں۔

    پناہ گاہوں کی تباہی کی ایک اور وجہ دنیا بھر میں تیزی سے ہونے والی جنگلات کی کٹائی بھی ہے جس سے جنگلوں میں رہنے والے جانور بے گھر ہوتے جارہے ہیں۔

    گوریلا سمیت دیگر افریقی جانور مختلف افریقی ممالک میں جاری خانہ جنگیوں کی وجہ سے بھی خطرات کا شکار ہیں جس کے باعث ان کے غذائی ذخائر میں بھی کمی آرہی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کیا ہم جانوروں کو معدومی سے بچا سکیں گے؟

    کیا ہم جانوروں کو معدومی سے بچا سکیں گے؟

    آج دنیا بھر میں جانوروں کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بدلتے موسموں کے باعث انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں اور دنیا میں موجود ایک چوتھائی جنگلی حیات 2050 تک معدوم ہوسکتی ہے۔

    جانوروں کا دن منانے کا مقصد جانوروں سے محبت کا برتاؤ رکھنے اور ان کا خیال رکھنے کے متعلق آگاہی و شعور پیدا کرنا ہے۔ جانوروں کی کھالوں اور دیگر اعضا کے انسانوں کے لیے فائدہ مند ہونے کے باعث ان کے شکار کی وجہ سے مختلف جانور معدومی کے خطرے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔

    leopard

    ماہرین کے مطابق برطانیہ کی ہر 10 میں سے 1 جنگلی حیات کو معدومی کا شدید خطرہ لاحق ہے۔ سنہ 1970 سے برطانیہ کی خطرے کا شکار جنگلی حیات کا بھی ایک تہائی خاتمہ ہوچکا ہے۔

    ادھر افریقہ میں ہاتھی دانت کی تجارت عروج پر ہے جس کے باعث ہاتھیوں اور گینڈوں کی نسل کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ افریقہ میں ہر سال ہاتھی دانت کے حصول کے لیے 30 ہزار ہاتھی مار دیے جاتے ہیں۔

    elephant3

    ان کا کہنا ہے کہ ہاتھی اور افریقی گینڈے کے جسمانی اعضا کی تجارت ان کی نسل کو مکمل طور پر ختم کر سکتی ہے۔

    ایشیائی ممالک میں غیر قانونی فارمنگ کے باعث چیتوں کی آبادی میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔ جنگلی حیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پچھلے 100 سالوں میں چیتوں کی آبادی میں 97 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔ اس سے قبل دنیا بھر میں تقریباً 1 لاکھ کے قریب چیتے موجود تھے جو اب گھٹ کر 4 ہزار سے بھی کم رہ گئے ہیں۔ چیتوں کی کئی اقسام پہلے ہی معدوم ہوچکی ہیں۔

    جانوروں کی بقا کو سب سے بڑا خطرہ بدلتے موسموں اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت یعنی گلوبل وارمنگ سے بھی ہے۔ قطب شمالی کے درجہ حرات میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جس سے برفانی ریچھ اور پینگوئن کی نسل کو بھی خطرہ لاحق ہے۔

    penguin

    تاہم مختلف حکومتوں اور اداروں نے خطرے کا شکار جنگلی حیات کے لیے حفاظتی اقدامات بھی اٹھائے ہیں جن کے باعث کئی جانور معدومی کے خطرے سے باہر نکل آئے۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات آئی یو سی این کے مطابق چینی حکومت نے پانڈا کے تحفظ کے لیے ان کی پناہ گاہوں اور رہنے کے جنگلات میں اضافہ کیا اور غیر معمولی کوششیں کی جس کے باعث پانڈا کی آبادی میں اضافہ دیکھنے میں آیا اور وہ معدومی کے خطرے سے باہر نکل آیا۔

    گزشتہ عشرے میں پانڈا کی تعداد میں 17 فیصد اضافہ ہوا جس کے بعد اب ان کی تعداد 2000 ہوگئی ہے۔

    panda-21

    امریکا میں بھی کیلیفورنیا میں پائی جانے والی لومڑیوں کی ایک قسم کو، جن کا قد چھوٹا ہوتا ہے اور انہیں ننھی لومڑیاں کہا جاتا ہے، اگلے عشرے تک معدومی کا 50 فیصد خطرہ لاحق تھا اور اسے خطرے سے دو چار نسل کی فہرست میں رکھا گیا تھا۔

    تاہم ماہرین کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات اور حفاظتی منصوبوں کے باعث چند سال میں اس لومڑی کی نسل میں تیزی سے اضافہ ہوا جو اب بھی جاری ہے۔

    چند روز قبل جانوروں کی تجارت کے خلاف ہونے والی عالمی کانفرنس میں دنیا کے سب سے زیادہ غیر قانونی طور پر شکار کیے جانے والے ممالیہ پینگولین کی تجارت پر مکمل پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پینگولین افریقہ اور ایشیا کے گرم حصوں میں پایا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اسمگلنگ کی وجہ سے گذشتہ عشرے میں 10 لاکھ سے زائد پینگولین موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں۔

    پاکستان میں بھی معدومی کے خطرے کا شکار جانوروں کے تحفظ کے لیے حفاظتی اقدامات جاری ہیں اور حال ہی میں وزیر اعظم گرین پاکستان پروگرام کے تحت جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے 2 ارب روپے کی منظوری دی گئی ہے۔