Tag: معذور افراد کا عالمی دن

  • معذور افراد کا عالمی دن: سماجی ناانصافیاں قبل از وقت موت سے ہمکنار کرسکتی ہیں

    معذور افراد کا عالمی دن: سماجی ناانصافیاں قبل از وقت موت سے ہمکنار کرسکتی ہیں

    آج دنیا بھر میں معذور افراد کا عالمی دن منایا جارہا ہے، عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ معاشرتی و طبی ناانصافیاں اور سہولیات کی عدم دستیابی معذور افراد کو قبل از وقت موت سے ہمکنار کرسکتی ہے۔

    معذور افراد کا عالمی دن منانے کا آغاز سنہ 1992 میں اقوام متحدہ میں معذور افراد کی داد رسی کے لیے قرارداد منظور کر کے کیا گیا۔

    اس دن کو عالمی سطح پر منانے کا مقصد معذور افراد کے ساتھ اظہار یکجہتی اور انہیں کسی بھی طرح کے احساس کمتری کا شکار ہونے سے بچا کر ان کو زندگی کے دھارے میں شامل کرنا ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت 65 کروڑ کے قریب افراد کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں، یہ تعداد کل آبادی کا 10 فیصد ہے۔

    اس وقت دنیا بھر میں تقریباً 2 کروڑ نومولود بچے ماؤں کی کمزوری اور دوسری وجوہات کی بنا پر معذور پیدا ہوتے ہیں۔

    حال ہی میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ طبی ناانصافیاں اور ان سہولیات کی عدم دستیابی معذور افراد کو قبل از وقت موت سے ہمکنار کرسکتی ہے اور ان کی عمر کا دورانیہ کم از کم 20 سال کم ہوسکتا ہے۔

    رپورٹ میں اس کی وجوہات میں سماجی رویوں، معاشی حالات کو بہتر نہ کر پانے کی استعداد، نقل و حرکت کے ذرائع اور سہولیات کی عدم دستیابی، آگے بڑھنے کے مواقع نہ مل پانا اور تفریحی سہولیات تک رسائی نہ ہونا بھی قرار دیا گیا ہے۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ معذور افراد کی 80 فیصد تعداد مختلف ترقی پذیر ممالک میں رہائش پذیر ہے جہاں انہیں کسی قسم کی سہولیات میسر نہیں۔ ان افراد کو عام افراد کی طرح پڑھنے لکھنے اور آگے بڑھنے کے مواقع بھی میسر نہیں۔

    اس کے برعکس ترقی یافتہ ممالک میں موجود 20 فیصد معذور افراد کو دنیا بھر کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں جبکہ ان کا علاج معالجہ بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔

    آج کا دن منانے کا مقصد یہی ہے کہ رنگ، نسل اور ذات سے بالاتر ہو کر خصوصی افراد کی بحالی میں انفرادی و اجتماعی طور پر بھر پور کردار ادا کیا جائے۔

  • معذور افراد کا عالمی دن: 80 فیصد معذور افراد مناسب سہولیات سے محروم

    معذور افراد کا عالمی دن: 80 فیصد معذور افراد مناسب سہولیات سے محروم

    آج دنیا بھر میں معذور افراد کا عالمی دن منایا جارہا ہے، رواں برس اس دن کا مرکزی خیال معذور افراد کی مختلف شعبوں میں شمولیت کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔

    معذور افراد کا عالمی دن منانے کا آغاز سنہ 1992 میں اقوام متحدہ میں معذور افراد کی داد رسی کے لیے قرارداد پاس کر کے کیا گیا۔ اس دن کو عالمی سطح پر منانے کا مقصد معذور افراد کے ساتھ اظہار یکجہتی اور انہیں کسی بھی طرح کے احساس کمتری کا شکار ہونے سے بچا کر ان کو زندگی کے دھارے میں شامل کرنا ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت 65 کروڑ کے قریب افراد کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہے۔ یہ تعداد کل آبادی کا 10 فیصد ہے یعنی ہر 10 میں سے ایک شخص معذور ہے۔

    اس وقت دنیا بھر میں تقریباً 2 کروڑ نومولود بچے ماؤں کی کمزوری اور دوسری وجوہات کی بنا پر معذور پیدا ہوتے ہیں۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ معذور افراد کی 80 فیصد تعداد مختلف ترقی پذیر ممالک میں رہائش پذیر ہے جہاں انہیں کسی قسم کی سہولیات میسر نہیں۔ ان افراد کو عام افراد کی طرح پڑھنے لکھنے اور آگے بڑھنے کے مواقع بھی میسر نہیں۔

    اس کے برعکس ترقی یافتہ ممالک میں موجود 20 فیصد معذور افراد کو دنیا بھر کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں جبکہ ان کا علاج معالجہ بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔

    آج کا دن منانے کا مقصد یہی ہے کہ رنگ، نسل اور ذات سے بالاتر ہو کر خصوصی افراد کی بحالی میں انفرادی و اجتماعی طور پر بھر پور کردار ادا کیا جائے۔

  • دنیا میں 1 ارب افراد معذوری کا شکار

    دنیا میں 1 ارب افراد معذوری کا شکار

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج معذور اور خصوصی افراد کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ وو تمام کام جو کوئی نارمل انسان باآسانی انجام دے سکتا ہے، انہیں کرنے میں کسی قسم کی رکاوٹ یا مشکل معذوری کے زمرے میں آتی ہے۔ اس لحاظ سے دنیا کی 15 فیصد آبادی یعنی ایک ارب افراد کسی نہ کسی قسم کی معذوری کا شکار ہیں۔

    ان ایک ارب افراد میں سے 9 کروڑ سے زائد تعداد بچوں کی ہے۔

    پیدائشی معذور بہنیں حکومتی امداد کی منتظر *

    پاکستان میں مردم شماری نہ ہونے کے باعث معذوری کا شکار افراد کی صحیح تعداد بتانا مشکل ہے تاہم ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 50 لاکھ سے زائد افراد کسی نہ کسی قسم کی معذوری کا شکار ہیں۔ یہ تعداد ناروے، کویت، نیوزی لینڈ اور لبنان کی کل آبادی سے بھی زائد ہے۔

    عالمی ادارہ صحت، عالمی بینک اور اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق دنیا میں غربت میں اضافے، صحت اور تعلیم سے محرومی، غیر محفوظ طریقے سے کام کرنے، آلودگی اور پینے کے صاف پانی سے محرومی سمیت دیگر سہولتوں کے فقدان سے دنیا بھر میں ذہنی و جسمانی طور پر معذور ہونے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا۔

    دنیا کے کئی ممالک میں معذوروں اور خصوصی افراد کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ انہیں تعلیم اور نوکری سمیت دیگر سہولیات میں کوٹے کے تحت مواقع فراہم کیے جاتے ہیں لیکن کچھ عرصہ قبل دنیا کے 45 مختلف ممالک نے معذور اور خصوصی افراد کا کوٹہ ختم کر کے انہیں عام افراد کی طرح مواقع فراہم کرنے کا قانون بنایا ہے۔

    خیبر پختونخواہ میں معذور افراد کی تعداد 1 لاکھ سے تجاوز *

    کچھ عرصہ قبل پاکستانی طبی محققین نے 30 ایسے جینز کی دریافت کی تھی جو ذہنی معذوری کا سبب بنتے ہیں۔

    تحقیق میں شامل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا تھا کہ پاکستان میں خاندان میں شادی کے باعث ذہنی معذوری کی شرح دیگر دنیا سے نسبتاً بلند ہے۔ ’خاندانوں میں آپس میں شادیاں مختلف جینیاتی و ذہنی بیماریوں کا سبب بنتی ہیں‘۔

    ان کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم کا ارادہ ہے کہ حکومت پاکستان پر زور دیں کہ وہ شادی سے قبل چند جینیاتی ٹیسٹوں کو ضروری بنائیں اور اس کو قانون کو حصہ بنائیں تاکہ نئی آنے والی نسلوں کو مختلف ذہنی امراض سے بچایا جاسکے اور ان کی پیدائش سے قبل ان امراض کی روک تھام یا ان کا علاج کیا جاسکے۔