Tag: معروف ادیب

  • ممتاز ادیب، شاعر، نقّاد اور ماہرِ تعلیم سجّاد باقر رضوی کی برسی

    ممتاز ادیب، شاعر، نقّاد اور ماہرِ تعلیم سجّاد باقر رضوی کی برسی

    اردو زبان و ادب میں سجّاد باقر رضوی شاعر، ادیب، نقّاد اور مترجم کی حیثیت سے معروف ہیں۔ وہ ترقّی پسند تحریک سے وابستہ تھے۔ سجّاد باقر رضوی 1992ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    سجّاد باقر رضوی کا تعلق اعظم گڑھ، یو پی سے تھا جہاں‌ انھوں نے 4 اکتوبر 1928ء کو آنکھ کھولی۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ کراچی آگئے اور یہاں‌ جامعہ کراچی سے اپنی تعلیم کا سلسلہ مکمل کیا، بعد ازاں وہ لاہور چلے گئے اور اسلامیہ کالج سول لائنز اور اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی سے وابستہ ہوگئے۔ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہونے کے بعد انھوں نے ادب کے ساتھ تعلیم کے شعبے کے لیے بھی خدمات انجام دیں۔

    سجّاد باقر رضوی کا تنقیدی کام نہایت وقیع اور اہمیت رکھتا ہے۔ اس ضمن میں ان کی کتب مغرب کے تنقیدی اصول اور تہذیب و تخلیق اردو تنقید میں اہم شمار کی جاتی ہیں۔

    ان کے دو شعری مجموعے ’’تیشۂ لفظ‘‘ اور ’’جوئے معانی‘‘ کے نام سے شایع ہوئے جب کہ تراجم میں داستانِ مغلیہ، افتاد گانِ خاک، حضرت بلال اور بدلتی دنیا کے تقاضے کے نام سے کتابیں‌ علم و ادب کا سرمایہ اور ان کی یادگار ہیں۔

    لاہور میں وفات پانے والے ڈاکٹر سجّاد باقر رضوی ماڈل ٹائون کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • پھول والے دادا جی…

    پھول والے دادا جی…

    کسی گاؤں میں ایک بوڑھا اور بڑھیا رہا کرتے تھے۔ ان کے پاس پوچی نام کا ایک کتّا تھا۔ اس کو دونوں بہت پیار کرتے تھے۔

    ایک دن جب بوڑھا اپنے کھیت میں کام کر رہا تھا، پوچی اسے کھینچ کر ایک طرف لے گیا اور بھونک بھونک کر پنجوں سے زمین کریدنے لگا۔ بوڑھا جتنا بھی اسے ہٹانے کی کوشش کرتا پوچی اتنے ہی زور سے بھوں بھوں کرتے ہوئے پھر زمین کریدنے لگتا۔ آخر بوڑھے نے پھاوڑا اٹھا کر اس جگہ کو کھودنا شروع کیا۔ کھودنے پر وہاں سے ہیرے اور موتیوں سے بھرا ہوا گھڑا نکلا جسے پاکر بوڑھا بہت خوش ہوا اور سارا خزانہ لے کر اپنے گھر آگیا۔

    بوڑھے کا ایک پڑوسی تھا۔ بے حد لالچی۔ اس نے بوڑھے کو خزانہ لاتے ہوئے دیکھا تو پوچھ لیا۔ بوڑھا تھا سیدھا سادہ۔ اس نے پڑوسی کو خزانہ ملنے کا سارا واقعہ کہہ سنایا۔ جلن کی وجہ سے پڑوسی کی نیند اڑ گئی۔

    اگلے دن اس نے میٹھی میٹھی باتیں کر کے بوڑھے سے ایک دن کے لیے پوچی کو مانگ لیا۔ اسے لے کر وہ سیدھے اپنے کھیت میں گیا اور بار بار کتّے کو تنگ کرنے لگا کہ وہ اسے بھی خزانہ دکھائے۔ آخر پوچی نے ایک جگہ کر پنجوں سے زمین کریدنی شروع ہی کی تھی کہ پڑوسی نے جھٹ پھاوڑے سے وہ جگہ کھود ڈالی۔ کھونے پر ہیرے موتیوں کے بجائے اسے ملا کوڑا اور گندا کچرا۔ پڑوسی نے جھلاہٹ میں آؤ دیکھا نہ تاؤ اور پوچی کو مار کر پھینک دیا۔

    جب پوچی کے مالک بوڑھے کو معلوم ہوا تو وہ بہت دکھی ہوا۔ اس نے پوچی کی لاش کو گاڑ کر وہاں پر ایک پیڑ اگا دیا۔ حیرانی کی بات کہ دو دن میں ہی وہ بڑھ کر پورا پیڑ بن گیا۔ بوڑھے نے اس پیڑ کی لکڑی سے اوکھلی بنائی۔ نئے سال کے پکوان بنانے کے لیے اس میں دھان کوٹنے لگا تو اوکھلی میں پڑا دھان سونے اور چاندی کے سکّوں میں بدلنے لگا۔

    پڑوسی کو بھی معلوم ہوا تو وہ اوکھلی ادھار مانگ کر لے گیا۔ جب اس نے اوکھلی میں دھان کوٹے تو دھان گندگی اور کوڑے میں بدل گیا۔ پڑوسی نے غصّے میں اوکھلی کو آگ میں جلا ڈالا۔ بوڑھے نے دکھے ہوئے دل سے جلی ہوئی اوکھلی کی راکھ اکٹھا کی اور اسے اپنے آنگن میں چھڑک دیا۔ وہ راکھ جہاں جہاں پڑی وہاں سوکھی گھاس ہری ہوگئی اور سوکھے ہوئے پیڑوں کی ڈالیاں پھولوں سے لد گئیں۔

    اسی وقت وہاں سے بادشاہ کی سواری نکل رہی تھی۔ بادشاہ نے پھولوں سے لدے پیڑوں کو دیکھا۔ اس کا دل خوش ہوگیا اور اس نے بوڑھے کو اشرفیوں کی تھیلی انعام میں دی۔

    حاسد پڑوسی نے یہ دیکھا تو بچی ہوئی راکھ اٹھالی اور بادشاہ کے راستے میں جاکر ایک سوکھے پیڑ پر راکھ ڈالی۔ پیڑ ویسا ہی ٹھنٹ بنا رہا پر راکھ اڑ کر بادشاہ کی آنکھوں میں جا پڑی۔ بادشاہ کے سپاہیوں نے اسے پکڑ لیا اور اسے خوب پیٹا۔

    بوڑھا آس پڑوس میں پھول والے دادا جی کے نام سے مشہور ہوگیا۔

    (اس کہانی کے خالق اردو کے ممتاز شاعر، ادیب اور نقّاد افسر میرٹھی ہیں۔ وہ بامقصد اور تعمیری ادب کے قائل تھے اور اسی خیال کے تحت انھوں نے بچّوں کے لیے کئی نظمیں اور کہانیاں لکھیں)

  • گورکھپور کے مجنوں سے ملیے

    گورکھپور کے مجنوں سے ملیے

    اردو زبان و ادب میں اپنی تخلیقی کاوشوں اور علمی خدمات کی وجہ سے ممتاز اور نمایاں مقام حاصل کرنے والوں میں ایک نام مجنوں گورکھپوری کا بھی ہے جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    مجنوں‌ گورکھپوری 1988 میں آج ہی کے روز ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہوئے تھے۔ وہ اردو کے ممتاز نقاد، محقق، مترجم، شاعر اور افسانہ نگار کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔

    ان کا اصل نام احمد صدیق تھا۔ 10 مئی 1904 کو متحدہ ہندوستان کے شہر گورکھپور میں آنکھ کھولنے والے مجنوں گورکھپوری ماہرِ تعلیم بھی تھے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ کراچی سے بحیثیت استاد وابستہ رہے۔

    مجنوں گورکھپوری اردو کے چند بڑے نقادوں میں سے ایک تھے۔ ان کی تنقیدی کتب میں نقوش و افکار، نکاتِ مجنوں، تنقیدی حاشیے، تاریخِ جمالیات، ادب اور زندگی، شعر و غزل سرِفہرست ہیں۔ وہ افسانہ نگار بھی تھے اور ان کی نگارشات خواب و خیال، مجنوں کے افسانے، سرنوشت کے نام سے کتابی شکل میں‌ شایع ہوچکی ہیں۔

    مجنوں‌ گورکھپوری نے جہاں اردو ادب کو تنقید سے مالا مال کیا اور اسے نکھارنے کے لیے دماغ سوزی کی، وہیں انگریزی ادب کو بھی اردو تراجم کے ذریعے قارئین تک پہنچایا۔

    شیکسپیئر، ٹالسٹائی، بائرن، برنارڈ شا اور جان ملٹن کی تخلیقات کو مجنوں گورکھپوری نے اردو کے قالب میں ڈھالا جو ان کا بڑا کام ہے۔

    مجنوں گورکھپوری کی آخری آرام گاہ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں ہے۔

  • دہلی کے سنگم تھیٹر سے متصل اردو منزل والے بھیا احسان الحق

    دہلی کے سنگم تھیٹر سے متصل اردو منزل والے بھیا احسان الحق

    بھیا احسان الحق سے، جن کے ہاں میں بستی نظام الدین (دہلی) میں مقیم تھا، میرے بزرگوں کے پرانے مراسم تھے۔ ان کا لقب فقیر عشقی نظامی تھا اور عرف عام میں انھیں‌ بھیا جی کہتے تھے۔

    ایک زمانے میں شعر بھی کہتے تھے اور فلسفی تخلص کرتے تھے۔ وہ میرٹھ کے مشہور بھیا خاندان سے تعلق رکھتے تھے جس کے تمول اور امارت کا بہت شہرہ تھا۔ اپنے والد کی زندگی میں بھیا احسان الحق میرٹھ میں رہتے تھے، مگر 1918ءمیں ان کے انتقال کے بعد جائیداد اور بعض دوسرے امور کی دیکھ بھال کے سلسلے میں انھیں دہلی میں مستقل سکونت اختیار کرنا پڑی۔

    میرٹھ سے دہلی آکر وہ اس مکان میں قیام پذیر ہوئے جو جامع مسجد کے سامنے اردو بازار میں سنگم تھیٹر سے متصل تھا اور انھیں اپنے والد کے ترکے میں ملا تھا۔ اس مکان کو بھیا احسان الحق نے ”اردو منزل “ کا نام دیا اور اس کا ایک حصہ دس پندرہ سال تک خواجہ حسن نظامی کے لیے وقف رہا۔

    خواجہ صاحب بستی نظام الدین میں اپنے گھر سے روزانہ صبح یہاں آجاتے، دن بھر اپنا دفتر جماتے اور کام کرتے اور رات کو اپنے گھر واپس جاتے۔ ان سے ملنے جلنے والے بھی یہیں آتے۔ اردو منزل میں اکثر و بیش تر علمی و ادبی صحبتیں جمتیں اور نشستیں برپا ہوتیں جن کے باعث اسے دہلی کے ایک اہم ثقافتی مرکز کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی۔

    سردار دیوان سنگھ مفتون نے 1960 میں بھیا احسان الحق کی وفات کے بعد اپنے تعزیتی مضمون میں اس زمانے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ دوپہر کے کھانے، شام کی چائے اور رات کے کھانے پر دس پندرہ افراد کا ہونا روز کا معمول تھا اور سارے اخراجات بھیا احسان الحق اٹھاتے تھے۔

    خواجہ حسن نظامی سے بھیا احسان الحق کی پہلی ملاقات اس زمانے میں ہوئی تھی جب وہ کالج کے طالب علم تھے۔ یہ ملاقات تاحیات رفاقت کی بنیاد بن گئی اور بہت جلد خواجہ صاحب کے مقربین خاص میں ملا واحدی کے ساتھ بھیا احسان الحق سرفہرست ہوگئے۔

    بھیا احسان الحق کو شروع ہی سے تصوف، ادب اور صحافت سے بہت دل چسپی تھی۔ وہ وحدتُ الوجود کے قائل اور قول و فعل میں صوفیائے کرام کی انسان دوست تعلیمات پر پوری طرح عمل پیرا تھے۔ شعر و ادب کا اچھا ذوق رکھتے تھے اور صحافت کے ذریعے قوم کے سماجی شعور کو نکھارنے اور سنوارنے کے خواہش مند تھے۔

    خواجہ حسن نظامی کی شخصیت سے متاثر تھے اور ان کے طرزِ تحریر کو پسند کرتے تھے۔ چنانچہ 1913میں انھوں نے خواجہ غلام الثقلین کی معیت میں ہفت روزہ ”توحید“ نکالا تو اس کی ادارت کے لیے خواجہ حسن نظامی کو میرٹھ بلایا۔ مسجد مچھلی بازار کانپور کی تحریک کے سلسلے میں جو اثر انگیز مضامین اس پرچے میں شائع ہوئے ان کی بنا پر حکومت نے اسے بند کردیا جب تک یہ پرچہ نکلتا رہا، خواجہ حسن نظامی میرٹھ میں بھیا احسان الحق کے مہمان رہے۔


    (معروف افسانہ نگار، شاعر اور فلم ساز خلیق ابراہیم خلیق کے قلم سے، یہ سطور ان کے دہلی میں قیام کے دوران اہلِ علم اور صاحبانِ کمال سے ملاقاتوں کے ایک تذکرے سے لی گئی ہیں)

  • کس احمق نے آپ کو اس جگہ بٹھایا ہے؟

    کس احمق نے آپ کو اس جگہ بٹھایا ہے؟

    سندھی ادبی بورڈ میں میرا واسطہ سب سے زیادہ پیر حسام الدین راشدی سے پڑا۔

    میری اس نئی ملازمت کو دو چار ہی دن گزرے تھے کہ بورڈ میں ایک صاحب تشریف لائے۔ سوٹ بوٹ میں ملبوس، ہیٹ سَر پر، نفاست پسندی چہرے اور مہرے سے عیاں، پیکرِ شرافت و سیادت، کچھ کتابیں بغل میں دبائے ہوئے میری میز کے پاس آکر کھڑے ہوگئے۔ کتابیں میز پر رکھ کر کہنے لگے جہاں جہاں میں نے نشان ڈالے ہیں براہِ کرم آپ ان اقتباسات کو نقل کردیجیے، مگر غلطی بالکل نہ ہو، تین چار روز میں مجھے یہ کام ختم کرکے دے دیجیے۔

    پیر حسام الدین راشدی کا نام اور ان کے کتب خانے کی شہرت میں نے سب سے پہلے مولوی عبدالحلیم چشتی سے سنی تھی، جب میں مولانا احتشام الحق تھانوی کے یہاں اپنی ہجرت کے شروع زمانے میں پندرہ دن کے لیے ملازم ہوا تھا۔ وہ ہر بات میں کہتے تھے کہ میں نے یہ کتاب راشدی صاحب کے کتب خانے میں دیکھی ہے۔

    میرے ذہن میں راشدی صاحب کی جو تصویر ابھرتی وہ عبا و قبا، جبّہ و دستار اور مریدین کی فوج ظفر موج کے ساتھ ابھرتی تھی، لیکن آج پہلی مرتبہ یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ وہ تو پیرِ طریقتِ جدید ہیں۔

    چند روز کے بعد وہ پھر آئے اور میری میز کے سامنے کھڑے ہوکر کہا،
    "غالباً آپ نے وہ مسودات تیار کر دیے ہوں گے۔”
    میں نے کہا جی ہاں وہ تیار ہیں۔ پھر وہ انہیں عقاب کی نظر سے دیکھتے رہے۔ میں نے ان کے چہرے پر طمانیت کے آثار پائے۔ ان تمام مسودات کا انہوں نے بغور جائزہ لیا اور پھر کہنے لگے۔

    "آپ کو کس احمق نے اس جگہ پر بٹھایا ہے، آپ تو اس قابل ہیں کہ مسودات کو ایڈٹ کریں۔”

    میں نے کہا، "اس جگہ مجھ کو میری قسمت نے بٹھایا ہے۔ آپ چاہیں تو بورڈ میں میری صلاحیتوں کی تصدیق کرکے میری ترقی کی سفارش کریں۔”

    راشدی صاحب نے کہا کہ میں ضرور آپ کی سفارش کروں گا۔ انہوں نے اپنا وعدہ پورا کیا اور دو ماہ کے بعد میری تنخواہ 120 روپے ہوگئی۔

    میں پہلی مرتبہ جمشید روڈ پر کسی سرکاری کام سے ان کے گھر گیا۔ بڑے تپاک سے ملے اور چلتے ہوئے رکشا کرایا پیش کیا۔ ہر چند میں نے انکار کیا، مگر ان کا اصرار بڑھتا گیا۔ آخر میں نے یہ کہہ کر رکھ لیے کہ یہ پیروں کا تبرک ہے، اس لیے انکار کرتے نہیں بنتی۔

    تکلف اور افسری ماتحتی کی حدود ٹوٹی، بے تکلفی اور دوستی ان کی جگہ لیتی گئی۔ یہاں تک کہ ہم دونوں اس منزل میں آگئے کہ جہاں ہماری دوستی علمی دنیا میں مشہور ہوگئی۔ ہم نے دوستی اور افسری و ماتحتی کے خانوں کو دو حصوں میں تقسیم کرلیا تھا جو ایک دوسرے پر اثر انداز نہیں ہوتے تھے۔

    (معروف ادیب، محقق، مترجم اور شاعر اعجاز الحق قدوسی کی یادداشتوں پر مبنی کتاب سے ایک ورق)