Tag: معروف ادیب اطہر پرویز

  • کرشن چندر کو ماسکو جانے کی اجازت کیوں نہیں‌ دی جارہی تھی؟

    کرشن چندر کو ماسکو جانے کی اجازت کیوں نہیں‌ دی جارہی تھی؟

    کرشن چندر کی بیٹی بیمار تھیں۔ وہ ماسکو علاج کے لیے جانا چاہتے تھے، لیکن حکومت ان کو پاسپورٹ دینے کو تیار نہ تھی۔

    میں ”شاہراہ“ کے دفتر میں گیا تو یوسف صاحب مرحوم، مالک شاہراہ، نے بڑی تکلیف کے ساتھ مجھے یہ بات بتائی۔ میری ملاقات کرشن چندر سے نہیں ہوئی۔

    شام کو میں حسبِ معمول قدسیہ آپا کے پاس گیا۔ دورانِ گفتگو کرشن چندر کے پاسپورٹ کی بات آئی۔ میں نے کہا،

    ”آپ کی حکومت عام انسانی معاملات میں بھی سیاست کو داخل کر لیتی ہے۔ کرشن چندر کے ترقی پسند ہونے کے یہ معنٰی نہیں کہ ان کی بیٹی کا علاج نہ ہوسکے، اور کرشن چندر کے خیالات، اس کے آڑے آئیں۔ حالاں کہ ان کے سیاسی خیالات محض ادب تک محدود ہیں۔“

    پہلی مرتبہ قدسیہ آپا لاجواب ہوگئیں۔ کہنے لگیں۔

    ”کافی پیو گے یا چائے۔“ ذرا سی دیر میں کولڈ کافی آگئی، لیکن قدسیہ آپا دوسرے کمرے میں ٹیلی فون پر بات کررہی تھیں۔ بے حد غصّے میں تھیں۔ انھوں نے اندرا گاندھی سے بات کی۔ محمد یونس خان سے بات کی۔ پنڈت نہرو کے سیکریٹری متھائی سے بات کی۔ اور وہی کرشن چندر والی بات۔ ان کی گفتگو سے غم و غصّے کا اظہار ہو رہا تھا۔

    شاید میری بات ان کے دل کو لگ گئی تھی۔ وہ بار بار کرشن چندر کی بیٹی کی بیماری کے بارے میں پوچھتی تھیں۔ ان کے چہرے پر کرب کے آثار نظر آرہے تھے۔

    اس کے بعد اگلے روز بارہ بجے تین مورتی سے قدسیہ آپا کا ٹیلیفون آیا۔ ”کرشن چندر کا پاسپورٹ تیار ہے۔ کرشن چندر کو اطلاع کر دو۔“

    مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ کرشن چندر کہاں رہتے ہیں۔ اب قدسیہ آپا کرشن چندر کا گھر تلاش کررہی تھیں۔

    دو بجے معلوم ہوا کہ کرشن چندر شملہ جا چکے ہیں اور ایک ہفتے بعد واپس آئیں گے۔ اور اس کے بعد کرشن چندر جی پاسپورٹ لے کر ماسکو چلے گئے۔

    (ممتاز ادیب، محقق، نقّاد اور مترجم اطہر پرویز کے شخصی خاکوں کی کتاب کا ایک ورق جس میں انھوں نے نام ور افسانہ نگار کرشن چندر کی پریشانی اور ہندوستانی حکومت کے رویّے کی جھلک پیش کی ہے)

  • ”آپ کی محبوبہ کون ہے؟“

    ”آپ کی محبوبہ کون ہے؟“

    ممتاز حسین نے بی ایڈ کیا۔ کیسے کیا اللہ جانتا ہے یا ہم لوگ۔ ان کا وہ آرام کا سال تھا۔ انھوں نے دیوانِ غالب خریدا اور جتنے دن وہ علی گڑھ رہے، صرف وہی پڑھتے رہے۔ ایک لڑکی پر عاشق ہوگئے اور اسی عشق کی بدولت بی ایڈ ہوگئے۔ ورنہ مجھے یقین تھا کہ وہ علی گڑھ سے یوں ہی چلے جاتے۔

    یہ عشق بھی عجیب و غریب تھا۔ اس زمانے میں علی گڑھ میں لڑکیاں برقع پہنتیں، اور پوسٹ گریجویٹ کلاسوں میں علاحدہ بیٹھتیں۔ بڑی دعاﺅں کے بعد اگر کسی کا برقع سرک جاتا تو ایک ہلکا سا دیدار ہوجاتا۔ دیدار بھی کیا ہوتا۔ یوں سمجھیے کہ غالب کے قول کے مطابق: وہ اک نگہ جو بظاہر نگاہ سے کم ہے

    ایک روز شامتِ اعمال، ایک لڑکی برقع پہنے ممتاز بھائی کے پاس آئی اور اس نے ممتاز بھائی سے نوٹس مانگ لیے۔ چوں کہ وہ اپنی کلاس کے سب سے پڑھے لکھے طالب علم تھے، ان کے استاد بھی ان کے علم کا لوہا مانتے تھے۔ لڑکی کو خیال ہوا کہ طالب علم بھی اچّھے ہوں گے۔ اس نے اظہارِ خیال کردیا۔ ممتاز بھائی نے اس کی شکل نہیں دیکھی اور عاشق ہوگئے۔

    اس کے لیے راتوں رات نوٹس تیار کیے۔ ایک کاپی بھر دی۔ اب تو وہ متاثر ہوئی اور اس نے باقاعدہ ان سے مدد لینا شروع کردی۔ ممتاز حسین نے اردو میں چند بہترین افسانے بھی لکھے ہیں، لیکن وہ عشقیہ خطوط نہیں لکھ سکتے۔ چناں چہ یہ فرض حسن امام، مونس رضا اور راقم الحروف نے ادا کیا۔ بہرحال یہ سلسلہ چلتا رہا۔

    ایک روز ہم لوگوں نے اصرار کیا کہ ممتاز بھائی ہم لوگ اتنا کام کرتے ہیں، مشورے دیتے ہیں، آخر ہم لوگ بھی تو آپ کی محبوبہ کو دیکھیں۔ چناں چہ ایک روز ہم لوگ بھی پہنچے۔ وہاں متعدد برقع پوش عورتیں تھیں۔ ممتاز بھائی سے پوچھا کہ ”ان میں سے آپ کی محبوبہ کون ہے؟“

    ممتاز بھائی خود بھونچکا تھے۔ کہنے لگے میں کیا بتاﺅں۔ میں نے خود کون سی دیکھی ہے؟

    (یہ دل چسپ واقعہ کتاب "علی گڑھ سے علی گڑھ تک” میں‌ شامل ہے)