Tag: معروف شاعر

  • کیا آپ پنڈت برج موہن دتاتریہ کو جانتے ہیں؟

    کیا آپ پنڈت برج موہن دتاتریہ کو جانتے ہیں؟

    پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی دہلوی اردو کے عاشقوں میں سے تھے۔

    انجمن ترقی اردو (ہند) کا مرکزی دفتر حیدر آباد دکن سے دہلی منتقل ہوا تو وہ انجمن کے ہمہ وقتی رکن بن گئے اور اردو کی ترقی اور فروغ کی کوششوں میں بابائے اردو کا ہاتھ بٹانے لگے۔

    بڑے عالم فاضل شخص تھے۔ اردو، فارسی، عربی اور انگریزی پر تو عبور رکھتے ہی تھے، سنسکرت اور ہندی میں بھی خاصی استعداد تھی۔ اعلیٰ پائے کے ادیب اور شاعر تھے۔

    ابتدا میں اپنے کلام پر انھوں نے مولانا حالی سے اصلاح لی تھی۔ تنقید میں بھی حالی کی پیروی کرتے تھے۔ معاش کے لیے پنڈت کیفی نے درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ عرصہ دراز تک کشمیر میں قیام پذیر رہے۔ کچھ عرصہ لائل پور (موجودہ فیصل آباد) میں بھی گزارا۔ ان کی شخصیت میں ایسی کشش تھی کہ جہاں بھی رہے وہاں کے شاعر اور ادیب ان کے پاس آئے اور ان کی صحبت سے فیض اٹھایا۔

    پنڈت کیفی ان بوڑھوں میں سے تھے جن کی صحبت میں بوڑھوں، جوانوں، بچوں سبھی کا دل لگتا۔ میری ان سے خاصی دوستی ہوگئی تھی۔ دلی تو ان کا گھر ہی تھا۔ اس کے چپے چپے کی تاریخ سے وہ واقف تھے۔ اپنے بچپن اور جوانی کی دلی کے قصے مزے لے لے کے سنایا کرتے تھے۔ کشمیر اور لائل پور کے بھی قصے سناتے اور لائل پور کے اپنے بعض دوستوں اور شاگردوں کا ذکر بہت محبت سے کرتے تھے۔

    کیفی دہلوی نے ادب و شعر کی مختلف اضاف میں متعدد کتابیں لکھیں جن میں سے بعض نصاب میں بھی شامل رہیں۔ وہ 13 دسمبر 1866 کو دہلی میں پیدا ہوئے اور یکم نومبر 1955 کو نواسی سال کی عمر میں دہلی کی ایک نواحی بستی غازی آباد میں وفات پائی۔

    (معروف شاعر، افسانہ نگار اور فلم ساز خلیق ابراہیم خلیق کی یادداشتوں سے ایک ورق)

  • نامورشاعرمنیرنیازی کوہم سےبچھڑے11 برس بیت گئے

    نامورشاعرمنیرنیازی کوہم سےبچھڑے11 برس بیت گئے

    شاعری میں جداگانہ اسلوب رکھنے والے اردو اور پنجابی زبان کے معروف شاعر منیر نیازی کو ہم سے بچھڑے گیارہ برس بیت گئے۔

    اردو اور پنجابی زبان کے معروف شاعر منیر نیازی مشرقی پنجاب کے ضلع ہوشیار پور کے ایک گاؤں میں 1928 میں پیدا ہوئے۔

    قیام پاکستان کے بعد وہ لاہور آگئے اور یہاں وہ کئی اخبارات، ریڈیو اور بعد میں ٹیلی ویژن سے وابستہ رہے وہ بیک وقت شاعر، ادیب اور صحافی تھے۔

    منیر نیازی اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں شاعری کرتے تھے، اردو میں ان کے تیرہ شعری مجموعے شائع ہوئےجن میں تیزہوا اور تنہا پھول، دشمنوں کے درمیان شام، جنگل میں دھنک، سفید دن کی ہوا، ماہ منیر، سیاہ شب کا سمندر، چھ رنگین دروازے، آغاز زمستاں اور ساعت سیار شامل ہیں۔

    معروف شاعر کے پنجابی میں‌ بھی تین شعری مجموعے شائع ہوئے اس کے علاوہ کلیات منیر کی بھی اشاعت ہوئی جس میں ان کا مکمل کلام شامل ہے۔

    منیر نیازی کا سیاسی اور سماجی شعور انہیں احتجاجی شاعری کرنے کے لیے اکساتا تھا اسی لیے غزل میں بھی ان کا لب ولہجہ بلند آہنگ ہوجاتا ہے۔

    ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
    ضروری بات کہنی ہو، کوئی وعدہ نبھانا ہو
    کسی سے دور رہنا ہو کسی کے پاس جانا ہو
    کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
    حقیقت اور تھی کچھ، اس کو جا کر یہ بتانا ہو
    ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

    معروف شاعر منیر نیازی کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی، ستارہ امتیاز اور اکادمی ادبیات پاکستان نے کمال فن ایوارڈ سے نوازا تھا۔

    شاعری میں جداگانہ اسلوب رکھنے والے شاعر 26 دسمبر سنہ 2006 کو لاہور میں وفات پاگئے۔

    شاعری میں احتجاج کی آواز جب بھی بلند ہوگی منیر نیازی کا نام ضرور یاد آئے گا، ان کی اپنی زندگی کی بہترین اور بھرپور عکاسی اس شعرسے ہوتی ہے۔

    اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو

    میں ایک دریا کے پار اترا تومیں نے دیکھا


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • معروف شاعر، ادیب امجداسلام امجد کی آج 72 ویں سالگرہ

    معروف شاعر، ادیب امجداسلام امجد کی آج 72 ویں سالگرہ

    کراچی : ممتاز پاکستانی شاعر، ادیب اور ڈرامہ نگار امجد اسلام امجد آج اپنی 72 ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔

    ممتاز شاعرامجد اسلام امجد چار اگست 1944ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے جبکہ ابتدائی تعلیمی مراحل لاہور میں طے کیے، امجد اسلام نے گریجویشن گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور سے کیا۔

    نجانے کب تھا! کہاں تھا! مگر یہ لگتا ہے
    یہ وقت پہلے بھی ہم نے کبھی گزارا ہے

    پنجاب یونیورسٹی سے اردو میں ماسٹرز کرنے کے بعد انہوں نے ایک استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کا آغاز لاہور ہی کے ایم اے او کالج سے کیا۔ 1975ء سے لے کر 1979ء تک وہ پاکستان ٹیلی وژن سے بطور ڈائریکٹر وابستہ رہے۔ وہ ’اردو سائنس بورڈ‘ اور ’چلڈرن لائبریری کمپلیکس‘ سمیت متعدد سرکاری اداروں میں سرکردہ عہدوں پر ذمے داریاں نبھاتے رہے ہیں۔

    ایک آزار ہوئی جاتی ہے شہرت ہم کو
    خود سے ملنے کی بھی ملتی نہیں فرصت ہم کو

    55790ac000f1c

    ریڈیو پاکستان سے بطور ڈرامہ نگار چند سال وابستہ رہنے کے بعد امجد اسلام امجد نے پی ٹی وی کے لیے کئی سیریلز لکھیں جن میں چند نام یہ ہیں:’برزخ‘، ’عکس‘، ’ساتواں در‘، ’فشار‘، ’ذراپھر سے کہنا‘(شعری مجموعے)، ’وارث‘، ’دہلیز‘(ڈرامے)، ’آنکھوں میں تیرے سپنے‘(گیت) ، ’شہردرشہر‘(سفرنامہ)، ’پھریوں ہوا‘ ،’سمندر‘، ’رات‘، ’وقت‘،’اپنے لوگ‘،’یہیں کہیں‘۔

    جو کچھ دیکھا جو سوچا ہے وہی تحریر کر جائیں!
    جو کاغذ اپنے حصے کا ہے وہ کاغذ تو بھر جائیں!

    amjad-islam-amjad

    علاوہ ازیں تنقیدی مضامین کی ایک کتاب ’تاثرات‘ بھی ان کی تصنیف کردہ ہے۔

    ہُوا ہے وہ اگر مُنصف تو امجد احتیاطًا ہم
    سزا تسلیم کرتے ہیں کسی الزام سے پہلے

    نظم و نثر میں اُن کی 40 سے زیادہ کتابیں زیورِ طبع سے آراستہ ہو چکی ہیں جبکہ وہ اپنی ادبی خدمات کے بدلے میں ’صدارتی تمغۂ حسن کارکردگی‘ اور ’ستارہ امتیاز‘ کے علاوہ کئی مرتبہ ٹیلی وژن کے بہترین رائٹر، گریجویٹ ایوارڈ اور دیگر متعدد ایوارڈ حاصل کرچکے ہیں۔

     

    اوجھل سہی نِگاہ سے ڈوبا نہیں ہوں میں
    اے رات ہوشیار کہ ہارا نہیں ہوں میں

    دَرپیش صبح و شام یہی کَشمکش ہے اب
    اُس کا بَنوں میں کیسے کہ اپنا نہیں ہوں میں

    مجھ کو فرشتہ ہونے کا دعویٰ نہیں مگر
    جِتنا بُرا سمجھتے ہو اُتنا نہیں ہوں میں

    اِس طرح پھیر پھیر کہ باتیں نہ کیجیئے
    لہجے کا رُخ سمجھتا ہوں بچہ نہیں ہوں میں

    مُمکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِ مُنافقت
    دُنیا تیرے مزاج کا بَندہ نہیں ہوں میں

    امجدؔ تھی بھیڑ ایسی کہ چلتے چلے گئے
    گِرنے کا ایسا خوف تھا ٹِھہرا نہیں ہوں میں