Tag: معروف قوال

  • معروف قوال امجد صابری کی شہادت کو تین برس بیت گئے

    معروف قوال امجد صابری کی شہادت کو تین برس بیت گئے

    کراچی : محبت بھراانداز  رکھنے والے معروف قوال امجد صابری کو ہم سے بچھڑے تین سال بیت گئے مگر اس لازوال شخصیت کی یاد ابھی تک دلوں میں تازہ ہے۔

    معروف قوال امجد صابری کو 16 رمضان المبارک 23 جون 2016 کو لیاقت آباد نمبر 10 پر نامعلوم مسلح ملزمان نے فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا، کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے حکیم اللہ محسود گروپ کے ترجمان قاری سیف اللہ محسود نے امجد صابری پر حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

    بعد ازاں27 نومبر2016 کو وزیراعلیٰ سندھ نے اعلان کیا کہ کاؤنٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ نے امجد صابری قتل کیس میں دو دہشت گردوں اسحاق بوبی اور عاصم کیپری کو گرفتار کرلیا ہے۔

    امجد صابری کے قتل میں ملوث دہشت گردوں نے تفتیش کے دوران فوجی جوانوں، پولیس اہلکاروں سمیت دیگر افراد کے قتل کا بھی اعتراف کیا، دونوں دہشت گردوں کے مقدمات انسداد دہشت گردی کی عدالت میں زیر سماعت تھے جہاں سے انہیں ملٹری عدالتوں میں منتقل کیا گیا تھا۔

    رواں سال دو اپریل کو آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے امجد صابری کے قاتلوں سمیت 10دہشت گردوں کے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط کردیے تھے، تمام دہشت گردسنگین نوعیت کےدہشت گردحملوں میں ملوث تھے ۔ پاک فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے دہشت گردوں میں اسحاق اور عاصم،عریش خان،رفیق، حبیب الرحمان ، فیاض،اسماعیل شاہ،فضل محمد،علی ولد محمدعلی،حبیب شامل ہیں۔

    امجد صابری نے والد فرید صابری کی جدائی کے بعد ان کا نام زندہ رکھنے والے کیلئے والد کی وراثت کا حق ادا کیا،اور قوالی میں نام کمایا۔ امجد صابری نے بچپن سے ہی گھر میں تصوف کو پروان چڑھتے دیکھا ۔فن قوالی میں اپنے والد سے تربیت حاصل کرتے ہوئے محض آٹھ سال کی عمر سے ہی گائیکی کا آغاز کردیا تھا۔

    اللہ اور اس کے اولیا سے محبت نے امجد صابری کی آواز میں ایسی مٹھاس اور سرور بھر دیا کہ سننے والے آواز کے سحر میں کھو جاتے ہیں۔ امجد صابری نے پاکستان اور بھارت میں کئی کلام پڑھے۔انہیں اب تک کئی ایوارڈز کے ساتھ بہترین پرفارمنس کا ایوارڈ پرائڈ آف پرفارمنس بھی ملا۔

    امجد صابری کہتے ہیں کہ تاجدار حرم۔ جب بھی پڑھی آنکھوں میں آنسو آئے۔یہ پڑھتے ہوئے انہیں شدت سے والد کی یاد آئی۔فن قوالی میں اپنا منفرد مقام رکھنے والے امجد صابری اپنی آواز سے دلوں میں خاص مقام رکھتے ہپں۔

  • معروف قوال غلام فرید صابری کو بچھڑے 25 برس بیت گئے

    معروف قوال غلام فرید صابری کو بچھڑے 25 برس بیت گئے

    کراچی: قوالی کو نئی جہت دینے والے معروف قوال غلام فرید صابری کو بچھڑے پچیس برس بیت گئے۔

    پاکستان میں قوالی کے فن کوبام عروج تک پہنچانے والے استاد غلام فرید صابری کو ہم سے بچھڑے 25 برس بيت چکے ہيں مگر ان کا مسحور کن کلام آج بھی دل ميں اتر جاتا ہے۔

    قوالی کی دنیا کے بے تاج بادشاہ اورعہد ساز شخصیت غلام فرید صابری کی آج 25 برسی منائی جارہی ہے، ان کا گایا ہوا کلام آج بھی سننے والوں پر وجد طاری کردیتا ہے۔

    غلام فرید صابری 1930 میں بھارتی صوبے مشرقی پنجاب میں پیدا ہوئے،انھیں بچپن سے ہی قوالی گانے کا شوق تھا، انہوں نے قوالی کی باقاعدہ تربیت اپنے والد عنایت صابری سے حاصل کی۔ 70 اور 80 کی دہائی ان کے عروج کا سنہری دور تھا، انھوں نے “بھر دو جھولی میری یا محمد” جیسی قوالی گا کر دنیا بھر میں اپنے فن کا لوہا منویا۔

    قوالی کے فن ميں يکتا حاجی غلام فريد صابری نے 1946ميں پہلی دفعہ مبارک شاہ کے عرس پر ہزاروں لوگوں کے سامنے قوالی گائی، جہاں ان کے انداز کوبے پناہ سراہا گيا۔

    قوالی کے فن میں استاد کا درجہ رکھنے والے غلام فريد صابری نعتیہ قوالی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے، جب آپ محفل سماع سجاتے تو سننے والوں پر سحر طاری ہوجاتا۔70 اور 80 کی دہائی میں غلام فرید صابری اور ان کے بھائی مقبول صابری کی جوڑی کا کوئی ہم پلہ نہ تھا۔

    دنيا بھر ميں ان کے مداح محفل سماع کے منتظر رہتے، ان کی قوالياں پاکستانی اور بھارتی فلموں کا بھی حصہ بنيں۔غلام فرید صابری 5 اپریل 1994ء کو دل کا دورے ميں خالق حقيقی سے جاملے لیکن ان کا فن شائقین موسیقی کے دلوں میں آج بھی زندہ ہے۔

    غلام فرید صابری کی قوالیوں میں تاجدارِحرم، بھردو جھولی،سرِلامکاں سے طلب ہوئی، ملتا ہے کیا نماز میں مشہورِ زمانہ کلام رہے۔

  • معروف قوال نصرت فتح علی خان کا 70واں یوم پیدائش

    معروف قوال نصرت فتح علی خان کا 70واں یوم پیدائش

    معروف صوفی قوال اور گائیکی کی دنیا میں اپنا الگ مقام بنانے والے نصرت فتح علی خان کی آج 70 ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے وہ 17 اگست 1997 میں لندن میں انتقال کر گئے تھے۔

    استاد نصرت فتح علی خاں 13 اکتوبر 1948ء کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے، آپ کے والد کا نام فتح خاں تھا وہ خود بھی نامور گلوکار اور قوال تھے۔ نصرت فتح علی خاں نے بین الاقوامی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

    ان کے آباؤ اجداد نے کلاسیکی موسیقی اور بالخصوص قوالی کے حوالے سے بڑا نام کمایا تھا اور انہیں مقبول بنانے میں ان کے والد استاد فتح علی خاں نے بے پناہ کام کیا تھا۔ نصرت فتح علی نے موسیقی کی ابتدائی تربیت اپنے والد اور اپنے تایا استاد مبارک علی خاں سے حاصل کی اور اپنی پہلی باقاعدہ پرفارمنس اپنے والد کے انتقال کے بعد استاد مبارک علی خان کے ساتھ گا کر دی۔

    وہ طویل عرصے تک روایتی قوالوں کی طرح گاتے رہے مگر پھر انہوں نے اپنی موسیقی اور گائیکی کو نئی جہت سے آشنا کیا اورپاپ اور کلاسیکی موسیقی کو یک جاں کردیا۔

    نصرت فتح علی خاں کی عالمی شہرت کا آغاز 1980ء کی دہائی کے آخری حصے سے ہوا جب پیٹر جبریل نے ان سے مارٹن اسکورسس کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم دی لاسٹ ٹیمپٹیشن آف کرائسٹ کا ساؤنڈ ٹریک تیار کرنے کی خواہش کا اظہار کیا، یہ ان کے فنی سفر کا نیا رخ تھا۔ 90 کی دہائی میں انہوں نے پاکستان اور ہندوستان میں اپنی موسیقی کی دھوم مچادی۔ انہیں کئی بھارتی فلموں کی موسیقی ترتیب دینے اور ان میں گائیکی کا مظاہرہ کرنے کی دعوت دی گئی۔

    نصرت فتح علی خاں کی معروف قوالیاں*

    ٹائم میگزین نے 2006 میں ایشین ہیروز کی فہرست میں ان کا نام بھی شامل کیا، بطور قوال اپنے کریئر کے آغاز میں اس فنکار کو کئی بین الاقوامی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔

    قوال کی حیثیت سے ایک سو پچیس آڈیو البم ان کا ایک ایسا ریکارڈ ہے، جسے توڑنے والا شاید دوردورتک کوئی نہیں، جن کی شہرت نے انہیں گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں جگہ دلوائی، دم مست قلندر مست ، علی مولا علی ، یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے، میرا پیاگھر آیا، اللہ ہو اللہ ہو اور کینا سوہنا تینوں رب نے بنایا، جیسے البم ان کے کریڈٹ پر ہیں، ان کے نام کے ساتھ کئی یادگار قوالیاں اور گیت بھی جڑے ہیں‘ اس کے علاوہ مظفر وارثی کی لکھی ہوئی مشہور حمد کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے ۔

    خاں صاحب کو ہندوستان میں بھی بے انتہا مقبولیت اور پذیرائی ملی، جہاں انہوں نے جاوید اختر، لتا مینگیشکر، آشا بھوسلے اور اے آر رحمان جیسے فنکاروں کے ساتھ کام کیا۔

    یورپ میں ان کی شخصیت اور فن پر تحقیق کی گئی اور کئی کتابیں لکھی گئیں، 1992 ء میں جاپان میں شہنشاہ قوالی کے نام سے ایک کتاب شائع کی گئی۔

    قوالی کے اس بے تاج شہنشاہ نے دنیا بھر میں اپنی آواز کا جادو جگایا ۔حکومت پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا‘ اس کے علاوہ دیگر کئی ممالک اور اقوام متحدہ نے ان کی شاندار فنی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں متعدد سرکاری اعزازات سے نوازا۔

    جگر و گردوں کے عارضہ سمیت مختلف امراض میں مبتلا ہونے کے باعث صرف 49 سال کی عمر میں 16 اگست 1997 کو شہنشاہ قوالی نصرت فتح علی خاں لندن کے ایک اسپتال میں وفات پا گئے، ان کی یادیں آج بھی ان کے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ وہ فیصل آباد میں آسودہ خاک ہیں۔

  • معروف قوال غلام فرید صابری کو بچھڑے 24 برس بیت گئے

    معروف قوال غلام فرید صابری کو بچھڑے 24 برس بیت گئے

    پاکستان میں قوالی کے فن کوبام عروج تک پہنچانے والے استاد غلام فرید صابری کو ہم سے بچھڑے 24 برس بيت چکے ہيں مگر ان کا مسحور کن کلام آج بھی دل ميں اتر جاتا ہے۔

    قوالی کی دنیا کے بے تاج بادشاہ اورعہد ساز شخصیت غلام فرید صابری کی آج 24 برسی منائی جارہی ہے، ان کا گایا ہوا کلام آج بھی سننے والوں پر وجد طاری کردیتا ہے۔

    غلام فرید صابری 1930 میں بھارتی صوبے مشرقی پنجاب میں پیدا ہوئے،انھیں بچپن سے ہی قوالی گانے کا شوق تھا، انہوں نے قوالی کی باقاعدہ تربیت اپنے والد عنایت صابری سے حاصل کی۔ 70 اور 80 کی دہائی ان کے عروج کا سنہری دور تھا، انھوں نے “بھر دو جھولی میری یا محمد” جیسی قوالی گا کر دنیا بھر میں اپنے فن کا لوہا منویا۔

    قوالی کے فن ميں يکتا حاجی غلام فريد صابری نے 1946ميں پہلی دفعہ مبارک شاہ کے عرس پر ہزاروں لوگوں کے سامنے قوالی گائی، جہاں ان کے انداز کوبے پناہ سراہا گيا۔

    قوالی کے فن میں استاد کا درجہ رکھنے والے غلام فريد صابری نعتیہ قوالی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے، جب آپ محفل سماع سجاتے تو سننے والوں پر سحر طاری ہوجاتا۔70 اور 80 کی دہائی میں غلام فرید صابری اور ان کے بھائی مقبول صابری کی جوڑی کا کوئی ہم پلہ نہ تھا۔

    دنيا بھر ميں ان کے مداح محفل سماع کے منتظر رہتے، ان کی قوالياں پاکستانی اور بھارتی فلموں کا بھی حصہ بنيں۔غلام فرید صابری 5 اپریل 1994ء کو دل کا دورے ميں خالق حقيقی سے جاملے لیکن ان کا فن شائقین موسیقی کے دلوں میں آج بھی زندہ ہے۔

    غلام فرید صابری کی قوالیوں میں تاجدارِحرم، بھردو جھولی،سرِلامکاں سے طلب ہوئی، ملتا ہے کیا نماز میں مشہورِ زمانہ کلام رہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات  کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • معروف قوال غلام فریدصابری کو بچھڑے 22 برس بیت گئے

    معروف قوال غلام فریدصابری کو بچھڑے 22 برس بیت گئے

    کراچی :پاکستان میں قوالی کے فن کوبام عروج تک پہنچانے والے استاد غلام فرید صابری کو ہم بچھڑے اکیس برس بيت چکے ہيں مگر ان کا مسحور کن کلام آج بھی دل ميں اتر جاتا ہے۔

    قوالی کے فن ميں يکتا حاجی غلام فريد صابری نے 1946ميں پہلی دفعہ مبارک شاہ کے عرس پر ہزاروں لوگوں کے سامنے قوالی گائی، جہاں ان کے انداز کوبے پناہ سراہا گيا۔

    قوالی کے فن میں استاد کا درجہ رکھنے والے غلام فريد صابری نعتیہ قوالی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے، جب آپ محفل سماع سجاتے تو سننے والوں پر سحر طاری ہوجاتا۔70 اور 80 کی دہائی میں غلام فرید صابری اور ان کے بھائی مقبول صابری کی جوڑی کا کوئی ہم پلہ نہ تھا۔

    دنيا بھر ميں ان کے مداح محفل سماع کے منتظر رہتے، ان کی قوالياں پاکستانی اور بھارتی فلموں کا بھی حصہ بنيں۔غلام فرید صابری 5 اپریل 1994ء کو دل کا دورے ميں خالق حقيقی سے جاملے لیکن ان کا فن شائقین موسیقی کے دلوں میں آج بھی زندہ ہے۔

    غلام فرید صابری کی قوالیوں میں تاجدارِحرم، بھردو جھولی،سرِلامکاں سے طلب ہوئی، ملتا ہے کیا نماز میں مشہورِ زمانہ کلام رہے۔




  • معروف قوال غلام فرید صابری کی آج اکیسویں برسی منائی جارہی ہے

    معروف قوال غلام فرید صابری کی آج اکیسویں برسی منائی جارہی ہے

     پاکستان میں قوالی کے فن کوبام عروج تک پہنچانے والے استاد غلام فرید صابری کو ہم بچھڑے اکیس برس بيت چکے ہيں مگر ان کا مسحور کن کلام آج بھی دل ميں اتر جاتا ہے۔

    قوالی کے فن ميں يکتا حاجی غلام فريد صابری نے 1946ميں  پہلی دفعہ مبارک شاہ کے عرس پر ہزاروں لوگوں کے سامنے قوالی گائی، جہاں ان کے  انداز کوبے پناہ سراہا گيا۔

    قوالی کے فن میں استاد کا درجہ رکھنے والے غلام فريد صابری نعتیہ قوالی میں  اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے، جب آپ محفل سماع سجاتے تو  سننے والوں پر سحر طاری ہوجاتا۔70 اور 80 کی دہائی میں غلام فرید صابری  اور ان کے بھائی مقبول صابری  کی جوڑی کا کوئی ہم پلہ نہ تھا۔

    دنيا بھر ميں  ان کے مداح محفل سماع کے منتظر رہتے، ان کی قوالياں پاکستانی اور بھارتی فلموں کا بھی حصہ بنيں۔غلام فرید صابری  5 اپریل 1994ء کو دل کا دورے ميں خالق حقيقی سے جاملے لیکن ان کا فن  شائقین موسیقی کے دلوں میں آج بھی زندہ ہے۔

    غلام فرید صابری کی قوالیوں میں تاجدارِحرم، بھردو جھولی،سرِلامکاں سے طلب ہوئی، ملتا ہے کیا نماز میں مشہورِ زمانہ کلام رہے۔