Tag: معروف نعت گو شاعر

  • سیّد اقبال عظیم کی برسی جو‌ اپنی بے نگاہی پر ملول نہ تھے

    سیّد اقبال عظیم کی برسی جو‌ اپنی بے نگاہی پر ملول نہ تھے

    مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ، نم دیدہ
    جبیں افسردہ، افسردہ، قدم لغزیدہ، لغزیدہ
    چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانبِ طیبہ
    نظر شرمندہ، شرمندہ، بدن لرزیدہ لرزیدہ

    اس مشہور اور مقبولِ عام نعتیہ کلام کے شاعر سید اقبال عظیم ہیں جو‌ 20 برس پہلے اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج اردو زبان کے اس معروف شاعر، ادیب اور محقق کی برسی ہے۔

    سید اقبال عظیم 8 جولائی 1913 کو یو پی کے مردم خیز شہر میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہ علم و ادب میں نمایاں مقام رکھتا تھا۔ ان کے دادا سید فضل عظیم فضل، نانا ادیب میرٹھی اور والد سید مقبول عظیم عرش تھے جو اپنے زمانے میں شعروسخن میں معروف تھے۔

    اقبال عظیم نے شاعری میں صفی لکھنوی اور وحشت کلکتوی سے اکتساب کیا۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے گریجویشن اور آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے والے اقبال عظیم نے قیامِ پاکستان کے بعد ڈھاکا میں سکونت اختیار کی جہاں مختلف کالجوں اور ڈھاکا یونیورسٹی میں‌ ملازمت کے دوران علمی و ادبی مشاغل جاری رکھے اور ان کی تحقیقی کتب جن میں بنگال میں اردو، سات ستارے اور مشرق سرِفہرست ہیں، سامنے آئیں۔ 1970 میں وہ کراچی چلے آئے جہاں اردو زبان و ادب کو اپنے سوزِ سخن اور فکرونظر سے نکھارا اور مالا مال کیا۔

    اقبال عظیم کے شعری مجموعے مضراب، قابِ قوسین، لب کشا، ماحصل، نادیدہ اور چراغِ آخرِ شب اشاعت پذیر ہوئے۔ 22 ستمبر 2000 کو وفات پانے والے اقبال عظیم کراچی کے سخی حسن قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

    سید اقبال عظیم کا ایک مشہور شعر دیکھیے۔

    مجھے ملال نہیں اپنی بے نگاہی کا
    جو دیدہ وَر ہیں انہیں بھی نظر نہیں آتا

  • معروف نعت گو شاعر مظفر وارثی کو ہم سے بچھڑے 8برس بیت گئے

    معروف نعت گو شاعر مظفر وارثی کو ہم سے بچھڑے 8برس بیت گئے

    آج اردو کے ممتاز شاعر مظفر وارثی کی آٹھویں برسی منائی جارہی ہے، آپ کی وجہ شہرت لازوال حمد اورنعتیں تخلیق کرنا ہے، ماضی میں پاکستان کی فلم انڈسٹری بھی ان کے بغیر ادھوری تھی۔

    صدارتی تمغہ حسن کارکردگی حاصل کرنے والے حمد و نعت گو شاعر اور سیکڑوں فلمی گیتوں کے خالق مظفر وارثی کو اس دنیا سے کوچ کئے آٹھ برس بیت گئے۔

    مظفر وارثی 23 دسمبر 1933ءکو میرٹھ میں پیدا ہوئے تھےان کا اصل نام محمد مظفر الدین صدیقی تھا۔ ان کے والد الحاج محمد شرف الدین احمد، صوفی وارثی کے نام سے معروف تھے۔ وہ ایک خوش گو شاعر تھے اورانہیں فصیح الہند اورشرف الشعرا کے خطابات عطا ہوئے تھے،قیام پاکستان کے بعد مظفر وارثی نے لاہور میں اقامت اختیار کی اور جلد ہی ممتاز شعراء کرام میں شمار ہونے لگے۔

    ایک زمانہ تھا کہ پاکستانی فلم انڈسٹری مظفر وارثی کے بغیر ادھوری تھی، میرٹھ کے علمی گھرانے میں جنم لینے والے مظفروارثی کا آواز و انداز گنا چنا شمار ہوتا تھا، مظفر وارثی نغمہ نگار، موسیقار اور نعت نگار تھے۔

    ان کے مشہور فلمی گانوں میں کیا کہوں اے دنیا والو کیا کہوں میں۔۔۔ مجھے چھوڑ کر اکیلا کہیں دور جانے والےاور۔۔۔۔ یاد کرتا ہے زمانہ انہی انسانوں کو ۔۔۔ عوام میں زبردست مقبولیت ملی، فلمی دنیا سے کنارہ کشی کے بعد ان کی ساری توجہ نعت گوئی پرمرکوز ہوگئی تھی، انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی بھی عطا کیاگیا،

    مظفر وارثی کی مشہور نعتوں میں یارحمت اللعالمین، ورفعنالک ذکرک اورتو کجا من کجا اور حمدیہ کلام میں مشہور’حمد کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے وہی خدا ہے‘ سرفہرست ہیں۔ فلمی اور قلمی دنیا کا یہ درخشندہ ستارہ اٹھائیس جنوری سال دو ہزار گیارہ کو اس جہانِ فانی سے کوچ کر گیا۔