بھارت کے سابق چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت کی ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاکت کا معمہ تین سال بعد حل ہو گیا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق بھارت کے چیف آف ڈیفنس سٹاف جنرل بپن راوت کی ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاکت کے 3 سال بعد پارلیمان کے ایوانِ زیریں لوک سبھا میں پیش کی گئی پارلیمانی کمیٹی برائے دفاع کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 8 دسمبر 2021 کو پیش آنے والا ایم آئی 17 کا حادثہ انسانی غلطی (ایئرکریو) کی وجہ سے ہوا تھا۔
پارلیمانی پینل کی ایک رپورٹ نے حادثے کو انسانی غلطی قرار دیا ہے، 2021 میں بپن راوت اپنی اہلیہ اور دیگر 8 فوجی اہلکاروں سمیت ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے۔
رپورٹ کے مطابق 2018 سے 2022 کی دوران بھارتی فضائیہ کے طیاروں کے حادثے 34 رہے، رپورٹ میں ’ریزن یعنی وجہ‘ کے عنوان سے ایک کالم بھی شامل ہے جس میں ہوائی جہاز کی قسم تاریخ اور حادثے کی وجہ بتائی گئی ہے۔
کچھ تصاویر ایسی ہوتی ہیں جو ہوتی تو بالکل نارمل ہیں لیکن وہ ایک معمے کی شکل اختیار کر جاتی ہیں۔
ایسی ہی ایک تصویر فیس بک پر ایک خاتون صارف نے شیئر کی ہے، جسے دیکھ کر لوگ حیران رہ گئے، اور وہ اس مخمسے میں پڑ گئے کہ یہ سمندر یا بادل؟
تصویر سوشل میڈیا پر شیئر ہوتے ہی وائرل ہو گئی ہے، صارفین کے لیے یہ ایک معمہ تھا کہ آسمان میں سمندر ہے یا سمندر کے بیچ سڑک جا رہی ہے، اور تصویر حقیقی ہے یا پھر اسے فوٹو شاپ کیا گیا ہے؟
یہ تصویر امریکی ریاست مینیسوٹا سے تعلق رکھنے والی خاتون تھریسا برگن لوکس نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر شیئر کی تھی، اسے دیکھ کر لگتا ہے جیسے سمندر میں سونامی آیا ہو اور ایک بہت اونچی موج سڑک کو نگلنے کے لیے آ رہی ہو۔
خاتون نے اس تصویر کی حقیقت بتاتے ہوئے ایک دل چسپ کہانی سنائی، تھریسا لوکس نے بتایا کہ انھیں گھر پہنچنے کی جلدی تھی، اور انھیں اپنی بیٹی کو راستہ سمجھانا تھا، اس مقصد کے لیے انھوں نے سیل فون سے جلدی سے راستے کی ایک تصویر لے لی، اور بیٹی کو بھیج دی۔
خاتون کے مطابق انھیں اس وقت بالکل اندازہ نہیں تھا کہ طوفان کے باعث بننے والے بادل لہروں کی طرح دکھائی دے رہے ہیں، تاہم جب وہ گھر پہنچ گئیں تو بیٹی نے بتایا کہ یہ بہت خوب صورت تصویر کلک ہوئی ہے۔
بعد ازاں خاتون نے اسے سوشل میڈیا پر شیئر کر دیا جو تیزی سے وائرل ہوگئی۔
پہیلیاں بوجھنا اور چیزوں کو دوسری نگاہ سے دیکھنا ایک اچھی دماغی ورزش ہوسکتی ہے جو دماغ کو فعال رکھتی ہے، آج ہم آپ کو ایسا ہی ایک معمہ بتانے جارہے ہیں۔
زیر نظر ویڈیو میں میز کے اوپر ایک نوٹ بک، کیمرہ، شیشہ، ریوبک کیوب، ٹوپی اور بلی کی فریم شدہ تصویر رکھی ہے۔
ویڈیو دیکھنے پر آپ کو لگے گا کہ یہ سب کچھ اصلی ہے، تاہم جیسے ہی ان شیا کی سمت تبدیل کی جائے گی آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ یہ ایک بصری دھوکا ہے۔
میز پر صرف ایک ہی اصلی شے موجود ہے جس کا علم جلد ہی آپ کو ہوجائے گا۔
اس ویڈیو کو یوٹیوب پر 75 لاکھ سے زائد بار دیکھا جاچکا ہے اور صارفین اس پر مختلف تبصرے کر رہے ہیں۔
تصویری پہیلیوں کو حل کرنا ایک دماغی مشق ہے جو کبھی کبھی کر لینی چاہیئے، اس سے دماغ کی ورزش ہوجاتی ہے۔
گزشتہ دنوں انٹرنیٹ پر سامنے آنے والی پہیلی نے بھی لوگوں کو سر کھجانے پر مجبور کردیا ہے۔
یہ ایک تصویر ہے جس میں 7 بالٹیاں پائپس سے منسلک ہیں اور سب سے اوپر ایک نلکے سے پانی بہہ رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ سب سے پہلے کون سی بالٹی بھرے گی؟
کچھ کو لگتا ہے کہ یہ چاروں کپ ایک ہی وقت میں بھریں گے، جبکہ اکثریت کے خیال میں 2 یا 7 وہ بالٹیاں ہیں جنھیں سب سے پہلے بھرنا چاہیئے۔
کیا آپ نے اس کا جواب ڈھونڈ لیا؟ اگر نہیں تو جواب نیچے تصویر میں دیکھ سکتے ہیں۔
بالٹی نمبر 4 کو جانے والا پائپ بند ہے، 5 کو جانے والا پائپ بھی بند ہے جبکہ 6 کی جانب جانے والا پائپ بھی بند ہے۔
2 کے مقابلے میں ایک نمبر سے 3 کی جانب جانے والا پائپ نیچے ہے تو اس کا جواب ہے کہ 3 نمبر بالٹی سب سے پہلے بھرے گی، کیونکہ اس سے نکلنے والے دونوں پائپس بند ہیں۔
مختلف پہیلیاں اور معمے حل کرنا دماغ کے لیے بہترین ورزش ہوسکتی ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ دماغی طور پر فعال رہنے اور مختلف دماغی بیماریوں سے بچنے کے لیے مختلف دماغی مشقیں کرتے رہنا چاہیئے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جس طرح جسم کو ورزشوں کی مدد سے چاک و چوبند رکھا جاتا ہے اسی طرح دماغ کو بھی چاک و چوبند رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس سے کام لیا جائے۔
اس کا سب سے آسان حل مختلف پہیلیاں بوجھنا، معمے حل کرنا اور حساب کی آسان مشقیں کیلکولیٹر کی مدد کے بغیر حل کرنا ہے۔
دماغ کی اسی ورزش کے لیے یہاں آپ کو ایک مشق دی جارہی ہے۔
نیچے موجود تصویر کو دیکھیں اور بتائیں کہ اس میں خاتون کے چہرے کے علاوہ کتنے چہرے چھپے ہوئے ہیں۔
تصویر بشکریہ: برائٹ سائیڈ
آپ کی آسانی کے لیے بتا دیں کہ چھپے ہوئے ان چہروں کی تعداد 4 ہے۔
یہ چہرے تصویر میں بہت اچھے طریقے سے چھپائے گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ اکثر افراد اس کا درست جواب بتانے سے قاصر رہے۔
برلن : جرمنی کے ایک گیسٹ ہاؤس میں تین مہمانوں کی تیروں کی مدد سے پراسرار ہلاکت کا معمہ مزید پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے اور اب پولیس کو مزید دو خواتین کی لاشیں ملی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق جرمن پولیس نے ایک بیان میں کہاکہ مزید دو لاشیں ان تین افراد میں سے ایک کے اپارٹمنٹ سے ملی ہیں، جو پساؤ شہر کے ایک گیسٹ ہاؤس میں مردہ حالت میں ملے تھے اور ان کی لاشوں میں تیر پیوست تھے۔
پولیس کو ان تین لاشوں کے قریب سے دو کمانیں بھی ملیں، جرمن شہر پساؤ میں ریاستی پراسیکیوٹرز کا کہنا تھا اب دونوں خواتین کی لاشیں ویٹینگن شہر سے ملیں۔
غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ پساو میں مردہ حالت میں ملنے والی ایک تیس سالہ خاتون بھی اسی شہر میں رہتی تھی۔ پساؤ میں ملنے والی تین لاشوں میں سے ایک مرد کی تھی اور دو خواتین کی۔
برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ مرد کی عمر 53 سال تھی اور دونوں خواتین کی عمریں 33 اور 30 برس، یہ تینوں مہمان گزشتہ جمعے کی شام ایک سفید پک اپ ٹرک میں سوار ہو کر اس گیسٹ ہاؤس میں شب گذاری کے لیے آئے تھے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ہفتے کی صبح جب اس گیسٹ ہاوس کے ملازمین کو ان کی لاشیں ان کے کمرے سے ملیں تو ان میں تیر بھی چبھے ہوئے تھے اور ساتھ ہی دو کمانیں بھی ان کے نزدیک پڑی ہوئی تھیں۔
پولیس کے مطابق بظاہر اس امر کے کوئی شواہد نہیں کہ ان پانچوں انسانی اموات میں کسی چھٹے فرد کا کوئی ہاتھ تھا، اس کے علاوہ یہ بھی غیر واضح ہے کہ دو مختلف وفاقی صوبوں سے تعلق رکھنے والے ان افراد کا آپس میں کیا تعلق تھا۔
مزید یہ کہ اگر ان ہلاکتوں میں کوئی چھٹا فرد ملوث نہیں تھا تو مرنے والوں میں سے کس نے ممکنہ طور پر کس کو قتل کیا؟ جو ایک اور سوال پولیس کے لیے معمہ بنا ہوا ہے، وہ یہ ہے کہ ان لاشوں میں تیر کیوں چبھے ہوئے تھے اور آیا اس مرد اور دونوں خواتین کی موت تیر لگنے سے ہی ہوئی تھی؟
پولیس نے اس گیسٹ ہاؤس کے ان متوفی مہمانوں کے کمرے سے ملنے والی دونوں کمانیں شہادتی مواد کے طور پر اپنے قبضے میں لے لی ہیں۔
جرمنی کی شوٹنگ اور تیر اندازی کے کھیل کی قومی تنظیم کے مطابق ملک میں تیر اندازی کے لیے استعمال ہونے والی کمانیں خریدنے پر کوئی پابندی نہیں ہے اور 18 سال سے زائد عمر کا کوئی بھی فرد ایسے تیر کمان خرید سکتا ہے۔
کراچی: شہر قائد کے علاقے انڈہ موڑ پر مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والی میڈیکل کی طالبہ نمرہ کی موت کا معمہ حل نہ ہوسکا.
تفصیلات کے مطابق کراچی میں پولیس کی بے حسی اور غیر پیشہ ورانہ رویہ پھر عیاں ہوگیا، انڈہ موڑ پر گولی لگنے سے میڈیکل کی طالب نمرہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی۔
22 سالہ نمرہ بیگ کو سر میں گولی لگی، نمرہ کو جناح اسپتال لایا گیا تاہم وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئی، البتہ یہ تعین نہیں ہوسکا کہ وہ ڈاکوؤں کی گولی کا نشانہ بنی تھی یا پولیس کی فائرنگ کی زد میں آئی.
عینی شاہدین کے بیانات میں بھی تضاد ہے،کچھ افراد کا کہنا تھا کہ نمرہ ڈاکوؤں کی فائرنگ کا نشانہ بنی، ایک عینی شاہد کا کہنا ہے لوٹ مار کے دوران لڑکی نے شور مچایا تو ڈاکوؤں نے گولی چلادی۔ البتہ مقتولہ کے گھر تعزیت کے لیے آنے والی عینی شاہد خاتون نے اس کا ذمے دار پولیس کی فائرنگ کو قرار دیا۔
زخمی ہونے کے بعد نمرہ کی فوری موت واقع نہیں ہوئی، مگر فوری ایمبولینس نہ ملنے کے باعث اسے درکار طبی امداد نہ مل سکی.
لڑکی کے ماموں کا کہنا ہے کہ موبائل میں بیٹھے پولیس اہل کار کہہ رہے تھے کہ بڑی غلطی ہوگئی۔ مبینہ مقابلےمیں زخمی ڈاکو آئی سی یو میں زیر علاج ہے۔
ابتدائی تفتیش میں پولیس نے دعویٰ کیا کہ نمل کو چھوٹے ہتھیاروں سے نشانہ بنایا گیا۔ یاد رہے کہ پولیس کےپ اس نائن ایم ایم اور ایس ایم جی دونوں ہتھیار تھے۔
کیا امل کی قربانی رائیگاں گئی؟
یاد رہے کہ گزشتہ دنوں سندھ اسمبلی میں امل بل بھی پاس ہوا تھا، لیکن کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی، ننھی امل اور مقصود کے بعد نمرہ بھی پولیس کے اناڑی پن اور قانون کے جبر کا شکار ہوگئی۔
نمرہ کی جان بچائی جاسکتی تھی ،لیکن عباسی شہید اسپتال میں وینٹی لیٹر نہیں تھا، جناح اسپتال میں لیڈی ایم ایل او نے پوسٹ مارٹم سے انکار کردیا، حالاں کہ قانون موجود ہے۔
یوں لگتا ہے کہ حکومت اپنے قوانین پر عمل درآمد کرنے میں سنجیدہ نہیں اور انتظامیہ نے پچھلے واقعات سےکوئی سبق نہیں سیکھا۔
دوسری طرف حکومتی نمایندے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے نظر آئے۔
کچھ کتابوں کو پڑھنا مشکل ہوتا ہے۔ اس میں بتائے گئے دقیق فلسفہ مبہم ہوتے ہیں اور بہت کم لوگ انہیں سمجھ پاتے ہیں۔
لیکن کیا آپ نے ایسی کتاب دیکھی ہے جسے پڑھنے کے لیے اسے حل کرنا پڑے؟
امریکی ریاست پنسلوینیا کے رہائشی وٹنی بریڈی نے ایسی کتاب بنائی ہے جس کے اگلہ صفحہ تک پہنچنے کے لیے اسے ’حل‘ کرنا پڑتا ہے۔
ایک پزل کی طرح بنائی گئی یہ کتاب لکڑی سے بنی ہوئی ہے اور اس کے صرف 5 صفحات ہیں۔
اس کے ہر صفحہ میں مشکل اور پیچیدہ بھول بھلیوں جیسے نٹ اور بولٹ لگائے گئے ہیں اور صفحہ پلٹنے کے لیے ذہانت سے ان سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔
کتاب میں مشہور مصور لیونارڈو ڈاونچی کا ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح وہ اپنی پینٹنگز کو چوروں سے بچانے کے لیے جال بچھایا کرتا تھا۔ اس کی پینٹنگز چرانے کے لیے آنے والے چور اگر ذہین ہوتے تو اس جال سے بچ نکلتے ورنہ پکڑے جاتے۔
یہ کہانی اتنی دلچسپ ہے کہ پڑھنے والا مجبوراً لکڑی کی اس کتاب کو ’حل‘ کر کے آگے پڑھنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
بظاہر دیکھنے میں یہ کتاب جادوئی فلموں میں دکھائی جانے والی کتاب جیسی لگتی ہے جس میں بے شمار راز چھپے ہوتے ہیں۔
اس کے خالق وٹنی بریڈی کا ارادہ ہے کہ وہ اس طرح کی ایک بڑی کتاب تشکیل دے گا جو کئی صفحات پر مشتمل ہوگی۔
کراچی: قومی ادارہ برائےاطفلال میں انتطامیہ کی مبینہ غفلت کےباعث چار نومولود بچوں کی ہلاکت کا واقعہ معمہ بن گیا۔۔وزیر اور سیکریٹری صحت سمیت اسپتال انتظامیہ نےبچوں کی ہلاکت کی تردیدکی ہے۔
بچوں کی صحت کےقومی ادارے این آئی سی ایچ میں بجلی بند ہونےکے باعث انکوبیٹرمیں موجود چار بچوں کی مبینہ ہلاکت کا واقعہ معمہ بن گیا ہے۔بجلی کی بندش سےآکسیجن نہ ملنےکےباعث دم گھٹنےسے انکوبیٹر میں بچوں کے انتقال کی خبر نشر ہوتےہی این آئی سی ایچ انتظامیہ جاگ گئی اور سب سے پہلےمیڈیا کا اسپتال میں داخلہ بندکیاگیا۔
ذرائع کےمطابق بجلی بند ہونےکےبعد اسٹینڈ بائی جنریٹرز موجود ہونےکے باوجود اسےبروقت نہیں چلایاگیا۔جس سے انکوبیٹر میں آکسیجن کی فراہمی متاثر ہوئی۔
تیمار دار این آئی سی ایچ کے اندورونی ذرائع انکوبیٹر میں آکسیجن کی فراہمی متاثر ہونے سےدو بچوں کی ہلاکت بتارہےہیں تاہم چار بچوں کے انتقال کرجانے کی تصدیق نہیں ہوسکی۔
وزیر صحت کا کہنا ہےکہ بجلی بند ہوئی تھی لیکن بریک ڈاؤن سےکوئی بچہ نہیں مرا۔ ادھر این آئی سی ایچ کی انتظامیہ اور سیکریٹری صحت ایسے کسی واقعے کو تسلیم ہی نہیں کررہے۔
سیکریٹری صحت اقبال درانی کا اس بارے میں کہنا تھا کہ صرف ایک بچے کا انتقال ہوا ہے وہ بھی طبعی موت مرا ہے۔این آئی سی ایچ میں پیش آنے والا یہ افسوسناک ہے ۔واقعہ کی شفاف تحقیقات اور ذمےداروں کا تعین بہرحال وزارت صحت کی ذمے داری بنتی ہے۔
لاہور : آڈٹ اینڈ اکاؤنٹ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ میں زیر تربیت سی ایس ایس پاس خاتون پراسرار طور پر جھلس کر جاں بحق ہوگئی، متوفیہ کی موت خودکشی ہے یا قتل پولیس تحقیقات کررہی ہے۔
تفصیلات کے مطابق لاہور کے علاقے گرومانگٹ میں آڈٹ اینڈ اکاؤنٹ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ میں زیر تربیت سی ایس ایس پاس خاتون نبیحہ چوہدری کی ہلاکت پولیس کیلئے معمہ بن گئی۔
متوفیہ نبیحہ چوہدری اپنے دفتر میں جھلسی ہوئی پائی گئی، پولیس نے دروازہ توڑ کر نعش نکالی، ابتدائی تحقیقات میں پولیس کا کہنا ہے کہ واقعہ خود کشی کا نتیجہ ہے، متوفیہ کراچی کی رہائشی تھیں۔
اطلاعات کے مطابق نبیحہ کے والد اسلم چوہدری کو بھی دو ماہ قبل ایم اے جناح روڈ پر قتل کردیا گیا تھا، مقتول داؤد کالج کے پرنسپل تھے، پولیس مختلف زاویوں سے تفتیش کر رہی ہے، مزید تحقیقات جاری ہیں۔