Tag: مغلیہ تعمیرات

  • عہدِ شاہ جہاں میں لاہور شہر کے مدارس

    عہدِ شاہ جہاں میں لاہور شہر کے مدارس

    شاہ جہاں کا عہد مغلیہ سلطنت کے عروج کا دور تھا۔ اُس کے زمانے کی کئی عمارتیں یا ان کے کھنڈرات فنِ معماری میں شہنشاہِ ہند کی دل چسپی کا ثبوت اور اس دور کی یادگار ہیں۔ شاہ جہاں کی وجہِ شہرت تاج محل بھی ہے جو ملکہ ممتاز محل سے اُس کی لازوال محبّت کی داستان کا ایک نقشِ عظیم ہے۔

    1627 میں بادشاہ کی وفات کے بعد شاہ جہاں نے حکم رانی کا تاج اپنے سَر پر سجایا تھا۔ لال قلعہ، شاہ جہانی مسجد بھی اسی کے دور کی یادگار عمارتیں‌ ہیں۔

    شہنشاہِ ہند شہاب الدّین، شاہ جہاں کے زمانے میں لاہور ایک بڑا علمی، ادبی اور تمدنی مرکز تھا۔ بادشاہ بھی علوم و فنون کا شیدائی اور سَرپرستی کرنے والا تھا۔ شاہ جہاں کے عہدِ حکومت میں ہندوستان کے طول و عرض میں کئی اسلامی مدارس قائم ہوئے۔ گلی کوچوں میں مکتب کھلے اور تعلیم عام ہوئی۔

    محمد صادق ’’طبقاتِ شاہجہانی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اس وقت گاؤں گاؤں میں مدرسہ تھا، کوئی قصبہ تعلیمی چرچے سے خالی نہ تھا۔ یہ عام حالات تھے۔ یہ تمام مدرسے آزاد تھے جہاں کوئی فیس، کوئی اخراجات نہ تھے۔ ان میں بعض مدارس کو مقامی لوگ اور مخیّر حضرات اپنے مصارف سے قائم رکھے ہوئے تھے۔ شاہ جہاں کے دور میں قائم ہونے والے مدارس کی ایک بڑی تفصیل ہے جس میں سے چند کا مختصراً ذکر ہم یہاں کررہے ہیں۔

    مدرسہ دائی لاڈو
    دائی لاڈو شہنشاہ شاہ جہاں کی دایہ تھی۔ یہ نہایت پرہیزگار اور مال دار خاتون تھیں۔ شیخ سلیم چشتی کی مرید تھیں۔ ان کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ 1631ء میں انھوں نے ایک مسجد تعمیر کروائی تھی جس کے صحن میں ہی ان کی اور ان کے شوہر کی تدفین بعد میں کی گئی۔ اسی مسجد کے ساتھ دائی لاڈو نے ایک بڑا مدرسہ بھی تعمیر کروایا اور اس کے اخراجات کے لیے اپنی جائیداد کا ایک حصّہ بھی وقف کیا۔ بعد میں‌ سکھوں نے لاہور کو تاراج کیا تو کئی مدارس کی طرح یہ مدرسہ بھی ختم ہو گیا۔

    مدرسہ نواب وزیر خان
    لاہور کے اس مشہور مدرسہ کے بانی نواب علیم الدین انصاری تھے جنھیں شاہ جہاں نے وزیر خان کا لقب دیا تھا۔ وہ اس دور میں لاہور کے گورنر کے عہدے پر فائز تھے۔ انہوں نے 1634ء میں جامع مسجد اندرونِ دہلی دروازہ تعمیر کروائی تھی۔ اور اس کے اندر ہی یہ مدرسہ قائم کیا تھا جو انہی سے موسوم ہے۔ نواب وزیر خان نے 1641ء میں خاصی جائیداد اور املاک اس مسجد اور مدرسہ کے اخراجات کے لیے وقف کر دی تھی۔ اس مدرسہ کے بارے میں زیادہ معلومات اور اس کی مکمل تاریخ تو دست یاب نہیں البتہ قدیم کتابوں میں اس کی شہرت کا ذکر ضرور ملتا ہے۔

    مدرسہ تیل واڑہ درس میاں وڈا
    یہ اہم مدرسہ شاہ جہاں کے دور میں محلہ تیل واڑہ میں قائم ہوا تھا۔ یہ مغلپورہ کا ایک حصہ تھا جہاں مغل امراء کے بڑے بڑے محلات اور حویلیاں تھیں۔ اسے درس میاں وڈا کے نام سے جانا گیا۔ اس درس کا آغاز مولانا حضرت اسماعیل ؒسہروردی نے کیا تھا جن کی شہرت اس زمانے میں خاصی ہوئی۔ ان کی وفات 1674ء میں ہوئی۔

    مدرسہ شیخ جان محمدؒ حضوری
    عہدِ شاہ جہاں میں دھرم پورہ کے قریب جہاں گردوارہ چوبچہ صاحب رام رائے تھا اس کے سامنے ایک مقام پر یہ مدرسہ قائم تھا۔ اس سے ملحق ایک عظیم الشان مسجد بھی وہاں تھی جسے قصاب خانہ والی مسجد کہا جاتا تھا، کیونکہ یہ محلّہ قصاباں مشہور تھا۔ یہ قصاب عہدِ جہانگیر میں یہاں آن بسے تھے۔ مسجد قصاب خانہ سے متصل اس مدرسے میں حضرت جان شاہ حضوری درس دیا کرتے تھے جو خود بھی بڑے متقی تھے اور حضرت میاں وڈا کے مرید تھے۔

    مدرسہ خیر گڑھ
    لاہور کے مشہور و معروف علاقے گڑھی شاہو کو اکبر اعظم کے زمانے میں شیخو کی گڑھی کہا جاتا تھا۔ شاہ جہاں کے زمانہ میں بغداد سے ایک نہایت فاضل اور جید عالم مولانا ابوالخیرؒ لاہور آئے، اور حکومت کے ایماء پر انھوں نے درس و تدریس کے لیے ایک مدرسہ شیخو کی گڑھی میں بنوایا جس کا تمام خرچ لاہور کے شاہی خزانے سے ادا کیا جاتا تھا۔ مولانا نے 1723ء میں وفات پائی۔ آپ کے بعد بھی یہ مدرسہ جاری رہا لیکن سکھ دور میں جہاں دوسرے اسلامی مدارس کو نقصان پہنچا وہاں یہ علاقہ بھی ویران ہو گیا اور آج اس مدرسے کا نام و نشان تک باقی نہیں‌ بلکہ اس کا اصل مقام تک کسی کو معلوم نہیں۔

    ان مدارس کے علاوہ مدرسہ ابو الحسن خان تربتی، مدرسہ شیخ بہلولؒ، مدرسہ مُلا فاضل ؒ اور دیگر مدارس شاہ جہانی عہد کے مشہور مدارس تھے۔

    (مآخذ: تاریخِ لاہور، شاہجہانی عہد اور دیگر کتب)

  • شاہانِ وقت کی بیگمات اور شاہزادیاں‌ جو کشور کُشا اور ادب نواز تھیں!

    شاہانِ وقت کی بیگمات اور شاہزادیاں‌ جو کشور کُشا اور ادب نواز تھیں!

    ہندوستان پر سیکڑوں سال تک حکومت کرنے والے سلاطین جہاں رزم و بزم میں یکتائے روزگار تھے، اُسی طرح ان کی بیگمات اور شہزادیاں بھی منفردُ المثال تھیں۔

    جس طرح یہ سلاطین اور شہزادے فاتح اور کشور کشا نیز علم دوست اور ادب نواز تھے، اُسی طرح شاہی محلوں سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی فنِ حرب و ضرب میں ماہر اور علم و ادب کی دلدادہ تھیں۔

    ملک کی پہلی خاتون حکم راں رضیہ سلطانہ سے لے کر آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کی ملکہ زینت محل اور اودھ کے نواب واجد علی شاہ کی ملکہ حضرت محل تک کی داستانِ حرب و ضرب اور واقعاتِ علم پروری تاریخ کے صفحات پر جگمگا رہے ہیں۔

    ہندوستان کے شاہی محلات ہر دور میں فکر و فن اور علم و ادب کے مراکز رہے ہیں۔ یہاں اہلِ علم کی قدر افزائی ہوتی رہی ہے۔ اسی کے ساتھ اپنے دور کے نام ور دانش ور اور حکماء و علماء شہزادوں اور شہزادیوں کی تربیت کے لیے رکھے جاتے تھے۔ فنِ حرب اور شہسواری نہ صرف شہزادوں کو سکھائے جاتے تھے بلکہ شہزادیوں کو بھی ان فنون میں یکتائے روزگار بنایاجاتا تھا۔ حالاں کہ خواتین کو جنگوں میں حصہ لینے کے مواقع کم ہی ملتے تھے، مگر علمی محفلوں میں ان کی شرکت خوب خوب ہوا کرتی تھی۔ ایسے ماحول میں تربیت پانے والی خواتین یکتائے روزگار ہوا کرتی تھیں اور پسِ پردہ رہ کربھی اپنے دور کی سیاست پر اثرانداز ہوا کرتی تھیں۔

    رضیہ سلطانہ ہندوستانی تاریخ کی تنہا خاتون حکم راں تھی۔ اس کے بعد یہ موقع کسی شہزادی کو نصیب نہیں ہوا مگر ساتھ ہی ساتھ تاریخ ایسے واقعات سے بھی خالی نہیں کہ خواتین نے ہندوستان کی سیاست پر اثر ڈالا اور بلاواسطہ نہ سہی لیکن بالواسطہ ملک پر حکومت کی۔ اس ضمن میں ملکہ نور جہاں، چاند بی بی اور ملکہ حضرت محل جیسی کئی شاہی بیگمات کے نام آتے ہیں۔

    محلاتی سازشوں میں بھی شاہی بیگمات پیش پیش رہا کرتی تھیں اور اپنے بیٹوں کو مسندِ شاہی تک پہنچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کیا کرتی تھیں۔ کئی بار ان بیگمات کے ناخنِ تدبیر ہی سیاسی گتھیوں کو سلجھایا کرتے تھے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب شہزادہ سلیم نے اپنے باپ جلال الدّین محمد اکبر کے خلاف بغاوت کی تو اس مسئلے کو سلجھانے کے لیے اکبر کی ذی فہم ملکہ سلیمہ سلطانہ بیگم سامنے آئی اور اسی کی سمجھ داری نے سلیم کو مصالحت پر مجبور کیا۔

    ہندوستان کی شاہی بیگمات چونکہ پردے میں رہتی تھیں اور انہیں میدان جنگ میں لڑنے کے مواقع کم ہی ملتے تھے، لہٰذا ان کی بیشتر توجہ علم وادب کی طرف تھی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اچھی شاعرات اورنثر نگار ثابت ہوئیں۔ ان بیگمات میں کئی اچھی ادیبہ، اور صاحبِ دیوان شاعرہ تھیں تو کئی مؤرخ اور عالمہ تھیں۔ ان میں گلبدن بیگم، جاناں بیگم، ملکہ نور جہاں، ملکہ ممتاز محل، جہاں آرا بیگم، زیب النساء بیگم، اور زینت النساء بیگم کے نام لیے جاسکتے ہیں۔

    شاہی خواتین کو علم و ادب کے ساتھ ساتھ فنِ مصوّری، خطاطی اور عمارت سازی کا بھی شوق تھا اور انھوں نے اس میدان میں بھی کار ہائے نمایاں انجام دیے۔ رضیہ سلطانہ نے اپنے باپ شمسُ الدّین التمش کے مقبرے کو تعمیر کرایا۔ آج اس مقبرے کا بیشتر حصہ منہدم ہو چکا ہے مگر جو کچھ باقی ہے وہ رضیہ کے ذوق کی بلندی کا پتہ دینے کے لیے کافی ہے۔ بادشاہ ہمایوں کی بیوہ حاجی بیگم نے اپنے شوہر کی قبر پر جو عمارت تعمیر کرائی وہ تاج محل کی تعمیر کے لیے مشعل راہ ثابت ہوئی۔

    اسی طرح نور جہاں نے اعتماد الدّولہ کا عظیم الشّان مقبرہ تعمیر کروا کے اپنے ذوقِ عمارت سازی سے دنیا کو آگاہ کیا۔ دلّی کی معروف فتح پوری مسجد کی تعمیر، شاہ جہاں کی ایک ملکہ نے کرائی تو دریا گنج کی گٹھا مسجد ایک شہزادی کی کوشش کا نتیجہ ہے۔ الغرض ہندوستان کی شاہی خواتین کے کارنامے بھی بے شمار ہیں، مگر انہیں سامنے لانے کی کوشش بہت کم ہوئی ہے۔

    رضیہ سلطان، ملک کی اوّلین خاتون حکم راں تھی، جس نے ملک پر شان دار حکم رانی کی مگر اسے صرف اس لیے تخت سے ہٹنا پڑا کہ وہ مرد نہیں تھی۔ جس زمانے میں بھارت میں خواتین کو ’’ستی‘‘ ہونا پڑتا تھا اس دور میں رضیہ سلطان نے حکم رانی کی۔ وہ حکم رانی کی اہل بھی تھی مگر مردوں کے اقتدار والے سماج نے صرف اس لیے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ ایک عورت تھی۔ اس نے مقبرہ التمش کی تعمیر بھی کرائی۔ باحوصلہ شاہی بیگمات میں ایک نام حاجی بیگم کا ہے جو، بادشاہ ہمایوں کی بیوی تھی اور مشکل حالات میں اپنے شوہر کا سہارا بنی رہی۔ شوہر کے انتقال کے بعد اس نے اپنے کم عمر بیٹے اکبر کی سرپرستی کرتے ہوئے حکومت سنبھالی، اس نے مقبرہ ہمایوں کی تعمیر کرایا۔ جو بعد میں تاج محل کے لیے ماڈل ثابت ہوا۔ اکبر کو بہت کم عمری میں حکومت مل گئی تھی جو اس کے اتالیق کے ذریعے چلتی تھی مگر اس حکومت میں حاجی بیگم کی مرضی بھی شامل رہتی تھی اور ہندوستان کے سیاہ و سپید میں اس کے اختیارات بھی شامل رہتے تھے۔

    شاہ جہاں کی بیگمات ہی نہیں بلکہ اس کی بیٹیاں بھی بہت پڑھی لکھی اور دین دار تھیں۔ جہاں آرا بیگم، شاہ جہاں کی بیٹی تھی اور ادیبہ و شاعرہ تھی۔ اس نے اجمیر میں کئی تعمیرات کرائیں۔ مغل شہزادیوں میں ایک نام زینتُ النّساء کا بھی ہے جس نے دریا گنج کی گٹھا مسجد تعمیر کرائی تھی۔ یہیں شہزادی کی قبر بھی ہے۔ مغل شہزادی روشن آراء نے روشن آرا باغ کی تعمیر کرائی، اس شہزادی کی اہمیت کئی اعتبار سے مسلم ہے۔ اورنگ آبادی بیگم، بادشاہ اورنگ زیب کی بیوی تھی، اس نے دلّی میں کئی تعمیرات کرائیں۔ اسی طرح بیگم اکبر آبادی نے اکبر آبادی مسجد کی تعمیر کرائی اور فخرُالنّساء خانم نے فخرُ المساجد بنوایا۔ تعمیرات کا شوق رکھنے والی بیگمات میں ایک تھی ماہم اتکہ، جو بادشاہ اکبر کی رضاعی ماں تھی۔ بادشاہ اس کا بے حد احترام کرتا تھا، اس نے مسجد خیرُالمنازل تعمیر کرائی تھی جو پرانا قلعہ کے سامنے واقع ہے اور آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے کنٹرول میں ہونے کے باوجود آباد ہے۔ یہاں مسجد کے ساتھ ایک مدرسہ بھی تعمیرکیا گیا تھا جس کے کھنڈرات آج بھی موجود ہیں۔

    امراء کی بیگمات بھی علم و فن اور مصوری، خطاطی و آرکٹکچر کا شوق رکھتی تھیں جن میں ایک نام نواب قدسیہ زمانی کا ہے۔ انھوں نے دلّی میں کئی تعمیرات کرائیں جن میں درگاہ شاہ مرداں اور کچھ دیگر تعمیرات شامل ہیں۔ یہ علم و ادب کا شوق رکھتی تھیں اور نیک کاموں میں اپنی دولت خرچ کرتی تھیں۔ عہد مغل اور اس سے قبل کی سلطنت میں بڑی تعداد ایسی خواتین کی تھی جو علم و ادب سے گہری وابستگی رکھتی تھیں اور اپنی دولت بھی اس کے لیے خرچ کرتی تھیں۔ ان بیگمات اور شہزادیوں میں چند نام یہ ہیں، گلبدن بیگم، گل رخ بیگم، سلیم سلطان بیگم، ماہم بیگم، جاناں بیگم، زیب النساء بیگم، حمیدہ بانو، گیتی آرا، سعیدہ بانو، مبارکہ وغیرہ۔

    (محقّق و مصنّف: غوث سیوانی)