Tag: مغلیہ دور

  • تختِ‌ طاؤس کی کہانی اور کوہِ نور کا تذکرہ

    دنیا کے مختلف خطّوں میں بادشاہ اور سلاطین اپنی جنگی مہمات کے علاوہ خاص طور پر فنِ تعمیر، مختلف یادگاروں، قیمتی اشیاء اور زر و جواہر میں اپنی دل چسپی کے لیے بھی مشہور رہے ہیں ہندوستان میں مغلیہ دور کی تاریخ دیکھی جائے تو اس میں محلّات، مقابر، باغات، بارہ دری اور دوسری مختلف یادگار عمارتوں کے ساتھ ہمیں ایک تختِ شاہی کا ذکر بھی ملتا ہے جسے دلّی سے ایران منتقل کر دیا گیا تھا مگر پھر اسے غائب کر دیا گیا۔

    ہم بات کررہے ہیں تختِ طاؤس کی جس پر کبھی شاہجہاں رونق افروز ہوتا تھا۔ لیکن وقت نے کروٹ لی اور اس تخت کو مغل خاندان سے چھین لیا گیا۔ محققین کا کہنا ہے کہ 1739ء میں مسلم دنیا کی تین عظیم سلطنتوں عثمانی، فارس اور مغل میں سے مغل سلطنت سب سے زیادہ امیر تھی۔ دلّی دنیا کے عظیم دارالحکومتوں میں سے ایک تھا۔ شاہجہاں، سلطنتِ مغلیہ کا پانچواں شہنشاہ تھا جس نے 1628ء سے 1658ء تک حکومت کی۔ اسے مؤرخین نے فنِ تعمیر کا دلدادہ لکھا ہے اور اسی بناء پر شاہجہاں کو ہندوستان میں معمار شہنشاہ بھی کہا جاتا تھا۔ شہنشاہ نے آگرہ میں دو عظیم مساجد بنام موتی مسجد اور جامع مسجد کے علاوہ تاج محل بھی تعمیر کروایا جسے دنیا کے عجائبات میں سے ایک کہا جاتا ہے۔

    طاؤس سے مراد ایک پرندہ ہے جو رنگین اور بڑے پروں کے ساتھ خوب صورتی میں اپنی مثال ہے اور اکثر اس سے مراد مور لیا جاتا ہے۔ شہاب الدّین محمد المعروف "شاہجہاں” نے اپنے لیے جو تخت بنوایا تھا، اسے تختِ‌ طاؤس اس لیے کہا کہ اس پر بڑے بڑے دو مور بنائے گئے تھے۔ محققین کا خیال ہے کہ اسی مناسبت سے یہ تختِ طاؤس مشہور ہوا۔

    کہتے ہیں کہ یہ ایک بڑی اور کشادہ کرسی کی طرح تھا، لیکن تقریباً چھ فٹ لمبا اور چار فٹ چوڑا جس کے چار پائے تھے اور یہ سونے کے بنے ہوئے تھے۔ تختِ طاؤس کی ہر سطح پر جواہرات جڑے گئے تھے۔ ان میں کچھ بہت بڑے، کچھ کبوتر کے انڈوں کے برابر دکھائی دیتے تھے۔ اس کی چھت کو زمرد سے مرصع 12 ستونوں نے تھام رکھا تھا اور اس چھت پر بھی ہیرے موتی جڑے ہوئے تھے۔ محققین کا خیال ہے کہ اس کی چھت کو سہارا دینے والے ہر ستون پر جواہرات سے جڑے دو مور بنائے گئے تھے اور ہر مور کے درمیان ہیرے، زمرد، یاقوت اور موتیوں سے ڈھکا ایک درخت بنایا گیا تھا۔ موروں کی چونچ میں موتیوں کی لڑی تھی اور ان موروں کے سینے میں سرخ یاقوت لگائے گئے تھے۔

    اسی تخت سے متعلق مشہور ہے کہ اس میں ایک بہت بڑا ہیرا کوہِ نور لگایا گیا تھا جس کے اطراف میں یاقوت اور زمرد جڑے گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ تختِ طاؤس پر چڑھنے کے لیے تین چھوٹے چھوٹے زینے بھی بنائے گئے تھے۔

    تختِ طاؤس کا ذکر ہوتا ہے تو کوہِ نور کی کہانی بھی سامنے آتی ہے جو بعد میں ملکۂ برطانیہ کی ملکیت بنا اور کبھی یہ ہیرا اس تخت کا حصّہ تھا۔ یہ تخت دہلی کے لال قلعے کے دیوانِ خاص میں رکھا گیا تھا۔ ایران کے بادشاہ نادر شاہ درانی کا دلّی پر حملہ اور دلّی کے اجڑنے کی داستان تو شاید آپ نے بھی سنی ہوگئی۔ اسی نادر شاہ نے ہندوستان کے شاہی خاندان کو اس تخت کے ساتھ مشہورِ زمانہ کوہِ نور سے بھی محروم کر دیا تھا۔ تخت طائوس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب اسے نادر شاہ درانی اپنے ساتھ لے گیا تو پھر اس کا کچھ پتہ نہ چلا۔ جب اصل تختِ طاؤس دلّی میں نہیں رہا تو اس کی جگہ ایک اور تخت لال قلعے کے اندر رکھ دیا گیا اور اسی کو 1857 کی جنگِ آزادی تک تختِ طاؤس کہا جاتا رہا لیکن ابتدا میں اسے تختِ مرصع کہا گیا تھا۔

    مؤرخین کے مطابق تختِ طاؤس 1635ء میں مکمل ہوا تھا اور شاہجہاں اس پر عید الفطر کے روز پہلی مرتبہ رونق افروز ہوئے تھے۔ شاہجہاں کی وفات کے بعد مغلیہ سلطنت کا جو زوال شروع ہوا اس نے نادر شاہ کے حملے میں تخت ہی نہیں اپنی شان و شوکت، عظمت اور دولت سبھی کچھ گنوا دی۔ 1739ء میں نادر شاہ کوہِ نور سمیت تختِ طاؤس یہاں سے لے گیا تھا۔ بعض تاریخی کتب میں ہے کہ 1747ء میں نادر شاہ کے قتل کے ساتھ ہی تختِ طاؤس کو غائب کر دیا گیا۔ غالباً اس تخت میں جڑے جواہر اور اس پر منڈھے سونے کو حاصل کرنے کے لیے ایسا کیا گیا ہو۔ لیکن اس تخت کا حتمی طور پر کچھ پتہ نہ چل سکا، البتہ کوہِ نور ہیرا ملکۂ برطانیہ کی ملکیت بن گیا۔ تاہم اس ہیرے کے حوالے سے دوسرے قصّے بھی مشہور ہیں اور کہا جاتا ہے کہ مغلیہ دور میں کوہِ‌ نور کو تختِ طاؤس کا حصّہ نہیں بنایا گیا تھا۔

  • مایا علی کی اداؤں نے مغلیہ دور کی یاد تازہ کردی

    مایا علی کی اداؤں نے مغلیہ دور کی یاد تازہ کردی

    پاکستان کی معروف اداکارہ مایا علی کی مغلیہ دور کے انداز میں تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔

    فوٹو ایند شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر  پاکستان کی معروف اداکارہ مایا علی نے تصاویر شیئر کی ہے، ان کی اداؤں نے  مغلیہ دور کی یاد تازہ کردی۔

    مایا علی کا یہ شوٹ ایک فنکارانہ اظہار ہے جس کا  تاریخ سے تعلق ہے، اور ایک جدید تاریخ کا عکس بھی موجود ہے جس میں لازوال خوبصورتی ہے۔

    انہوں نے چند گھنٹوں قبل یہ تصویر شیئر کی جسے ہزاروں کی تعداد میں مداح دیکھ چکے ہیں اور اس پر تعریفی کمنٹس بھی کررہے ہیں۔

    مایا علی سوشل میڈیا پر کافی متحرک رہتی ہیں اور اکثر اپنی تصاویر شیئر کرتی رہتی ہیں جسے ان کے مداح بھی پسند کرتے ہیں۔

    واضح رہے کہ مایا علی نے اے آر وائی ڈیجیٹل کے ڈرامہ سیریل ’پہلی سی محبت‘ میں (رخشی) اور شہریار منور نے (اسلم) کا کردار نبھایا تھا، ڈرامے کی دیگر کاسٹ میں شبیر جان، حسن شہریار یاسین، نوشین شاہ، صبا فیصل ودیگر شامل تھے۔

  • نجانے کیسی برکت تھی کہ ہن برستا، ایک کماتا، دَس کھاتے!

    نجانے کیسی برکت تھی کہ ہن برستا، ایک کماتا، دَس کھاتے!

    مرزا غالب نے کہا ہے، شمع بجھتی ہے تو اس میں سے دھواں اٹھتا ہے۔ یہی حال مغلیہ سلطنت کا بھی ہُوا۔ آخری وقت کچھ اس طرح کا دھواں اٹھا کہ ساری محفل سیاہ پوش ہو گئی۔

    یوں تو اورنگ زیب کے بعد ہی اس عظیم الشّان مغلیہ سلطنت میں انحطاط کے آثار پیدا ہو چکے تھے لیکن ان کے بعد تو وہ افراتفری اور بیر اکھیری پھیلی کہ بادشاہ صرف نام کے بادشاہ رہ گئے۔ محمد شاہ رنگیلے ’’پیا‘‘ کہلائے۔ ان کے عہد میں در و دیوار سے نغمے برستے اور شعر و شاعری کے اکھاڑے جمتے۔ نعمت خاں سدا رنگ انہی کے دربار کا بین کار اور کلاونت تھا جس نے دھرپد کے مقابلے میں خیال کی گائیکی کو فروغ دیا۔ آج تک گویے اس کے نام پر کان پکڑتے ہیں، ولیؔ اپنا دیوان لے کر انہی کے زمانے میں دلّی آئے تھے اور ان ہی کے دربار میں انہوں نے اپنے طالع چمکائے تھے۔

    گھر گھر شعر اور موسیقی کا چرچا تھا۔ بادشاہ کو دوم ڈھاڑیوں نے باور کرا دیا تھا کہ آدمی تیر تلوار کا مارا بھی مرتا ہے اور تان تلوار کا بھی۔ لہٰذا ایک فوج گویوں کی بھی تیار کر لی گئی تھی۔ ان رنگ رلیوں میں تلواریں لہو چاٹنا بھول گئیں اور نیاموں میں پڑے پڑے سو گئیں۔ نادر شاہ نے اس موقع کو غنیمت جانا اور قہر و غضب کی آندھی بن کر دلّی کی طرف جھپٹا۔ پرچہ لگا کہ نادر شاہ دلی کے قریب آ پہنچا۔ گویوں کی فوج مقابلے کے لیے بھیج دی گئی۔ نادر شاہ کے جانگلو محمد شاہی فوجیوں کی بغلوں میں بڑے بڑے طنبورے دیکھ کر پہلے تو ڈرے کہ خدا جانے یہ کیا ہتھیار ہے مگر جب جاسوسوں نے بھانڈا پھوڑا کہ یہ ہتھیار نہیں، ایک ساز ہے، تو دَم کے دَم میں انہوں نے محمد شاہی فوج کو کھیرے ککڑی کی طرح کاٹ کر ڈال دیا۔ نادر شاہ نے دھڑی دھڑی کر کے دلّی کو لوٹا اور دلّی کھک ہو گئی۔ قتلِ عام کیا تو ایسا کہ گھوڑوں کے سم خون میں ڈوب گئے۔ آخر وزیر با تدبیر بوڑھے نظامُ الملک کو نادری جلال فرو کرنے کے لیے نادر شاہ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنا پڑا کہ

    کسے نہ ماند کہ دیگر بہ تیغِ ناز کشی
    مگر تو زندہ کنی خلق را و باز کشی

    نادر شاہ لوٹ لاٹ کابل چلا گیا، اور اپنے ساتھ شاہجہانی تخت طاؤس بھی لے گیا۔ شاہ عالم ثانی کی آنکھیں روہیلے نے نکالیں۔ بادشاہ آنکھوں کے ساتھ ساتھ عقل کے بھی اندھے ہو گئے۔ ان کے درباریوں نے انہیں یقین دلایا کہ حضور والا بیٹھے بیٹھے ایک دم سے غائب ہو جایا کرتے ہیں۔ جب چاہتے ہیں دلّی سے مکہ مدینہ پہنچ جاتے ہیں۔ ایلو! بادشاہ سلامت بھی یہ سمجھنے لگے کہ واقعی میں مجھ میں یہ کرامت سما گئی ہے۔ پیری مریدی کرنے لگے اور مریدوں کے وظائف مقرر ہونے لگے۔ حکومت تباہ اور خزانے ویران ہو گئے۔ مثل مشہور ہوئی کہ ’’سلطنت شاہ عالم از دہلی تا پالم۔‘‘ یعنی صرف چند میل کی بادشاہت رہ گئی۔ سودا نے اپنے شہر آشوب میں ان کے زمانے کا خاکہ اڑایا۔

    اکبر شاہ ثانی جاٹوں کے حملے سے ایسے ناچار ہوئے کہ انگریزوں کے وظیفہ خوار ہو گئے۔ یہی لیل ونہار تھے کہ بہادر شاہ عالم وجود میں آئے۔ بہادر شاہ کی پوری جوانی اور ادھیڑ عمر تخت و تاج کی راہ تکتے بیت گئی۔ اکبر شاہ ثانی کی ایک بیگم تھیں ممتاز محل۔ ان بیگم کے ایک چہیتے بیٹے تھے مرزا جہانگیر۔ بادشاہ بھی انہیں بہت چاہتے تھے اور انہی کو ولی عہد مقرر کرنا چاہتے تھے مگر مرزا جہانگیر اپنی بے ہودہ حرکتوں سے باز نہ آتے۔ انگریز حاکم اعلیٰ سیٹن کو لولو کہہ دیا۔ اس کی پاداش میں مرزا نظر بند کر کے الہ آباد بھیج دیے گئے۔ یہ ایک الگ قصہ ہے۔

    ہاں تو بہادر شاہ ہی ولی عہد رہے اور ایک نہ دو، پورے باسٹھ سال تک ولی عہد رہے۔ جب کسی بادشاہ کا انتقال ہو جاتا تھا تو اس کے مرنے کی خبر مشہور نہیں کرتے تھے، یہ بات کہی جانے لگی تھی کہ ’’گھی کا کپا لنڈھ گیا۔‘‘ خاموشی کے ساتھ میت کو نہلا دھلا کفنا کر قلعہ کے طلاقی دروازے سے جنازہ دفن کرنے بھیج دیا جاتا۔ نوبت نقارے الٹے کر دیے جاتے اور چولہوں پر سے کڑہائیاں اتار دی جاتیں۔ اکبر شاہ ثانی کے وقت تک یہ رسم چلی آتی تھی کہ بادشاہ کے جنازے کو تخت کے آگے لا کے رکھتے تھے۔ دوسرا بادشاہ جو کوئی ہوتا تھا، مردے کے منہ پر پاؤں رکھ کر تخت پر بیٹھتا تھا۔ دوسرے بادشاہ کے تخت پر بیٹھتے ہی شادیانے بجنے لگتے۔ سلامی کی توپیں چلنے لگتیں۔ تب کہیں سب کو معلوم ہوتا کہ بادشاہ مر گیا اور دوسرا بادشاہ تخت پر بیٹھ گیا۔

    باسٹھ سال کی عمر میں بہادر شاہ کو تخت نصیب ہوا تو مغلوں کا جلال رخصت ہو رہا تھا اور آفتابِ اقبال لبِ بام آ چکا تھا۔ بہادر شاہ کہنے کو تو بادشاہ تھے، لیکن بالکل بے دست و پا تھے۔ فرنگی سرکار کے نمک خوار تھے۔ انہیں اس شرط پر ایک لاکھ روپیہ ماہانہ دیا جاتا تھا کہ ان کے بعد دلّی کی شاہی ختم ہو جائے گی اور دلّی بھی انگریزی عمل داری میں شامل ہو جائے گی۔ لال حویلی کے باہر بادشاہ کا حکم نہیں چلتا تھا اور اگر شہر والوں میں سے کوئی ان کے پاس فریاد لے کر آتا تو بادشاہ اپنی مجبوری ظاہر کر دیتے اور کہتے، ’’بھئی انگریزوں کی عدالت میں جاؤ۔‘‘

    لیکن اس بے بسی کے باوجود دلّی والے ہی نہیں باہر والے بھی بادشاہ سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے۔ شہر کی بیشتر آبادی لال قلعہ کے متوسلین پر مشتمل تھی۔ شہزادوں اور سلاطین زادوں کے علاوہ امیر امراء اور رؤسا کا خدم و حشم کیا کم تھا؟ دلّی میں، لٹتے لٹتے بھی الغاروں دولت بھری پڑی تھی۔ ڈیوڑھیوں پر ہاتھی جھولتے، تخت رواں، ہوا دار، پالکی، نالکی، تام جھام، ہر حویلی میں موجود۔ لاؤ لشکر کا کیا ٹھکانہ! چوب دار، عصا بردار، پیادے، مردھے، کہار، لونڈیاں، باندیاں، ودّائیں، چھوچھوئیں، مغلانیاں، ترکنیں، حبشنیں، جسولنیاں، قلماقنیاں، خواجہ سرا، دربان، پاسبان، ہر امیر کے ہاں آخور کی بھرتی کی طرح بھرے پڑے تھے۔

    سستا سمے، کاروبار خوب چمکے ہوئے، نہ جانے کیسی برکت تھی کہ ہن برستا تھا۔ ایک کماتا اور دس کھاتے۔ اجلے پوشوں تک کے خرچ اجلے تھے۔ رعایا خوش حال اور فارغ البال تھی۔ رہن سہن، ادب آداب، نشست و برخاست، بول چال، رسم و رواج، تیج تہوار، میلے ٹھیلے، سیر تماشے، ان سب میں کچھ ایسا سلیقہ اور قرینہ تھا کہ دلّی کی تہذیب ایک مثالی نمونہ سمجھی جاتی تھی۔ یہاں کے ہیروں کی چمک دمک تو آنکھوں میں کبھی کبھی ہی جاتی تھی، باہر سے جو بھی کھڑ آتی یا انگھڑ جواہر پارے آتے، یہاں ان کی تراش خراش کچھ اس انداز سے ہوتی اور اس پر ایسی جلا چڑھتی کہ اس کی چھوٹ سے آنکھیں خیرہ ہونے لگتیں۔ یہاں آکر گونگوں کو زبان مل جاتی، جن کی منقار زیر پَر ہوتی وہ ہزار داستاں بن جاتے، جو پر شکستہ ہوتے وہ فلک الافلاک پر، پَر مارنے لگتے۔ علوم و فنون کے چشمے اس سرزمین سے پھوٹتے اور حکمت و دانش یہاں کی فضا میں گھلتی رہتی۔ غرض ہندوستان کا دلّی ایک عجیب پُرکیف مقام تھا جو بہت کچھ برباد ہو جانے پر بھی جنّت بنا ہوا تھا۔

    (ماخذ: دلّی جو ایک شہر تھا، از شاہد احمد دہلوی)

  • مغل شہزادے کے فرانسیسی معالج فرانسوا برنیئر کی کہانی

    مغل شہزادے کے فرانسیسی معالج فرانسوا برنیئر کی کہانی

    "ٹریولز ان دا مغل امپائر” کو شہنشاہ شاہ جہاں کے دور اور مغل دربار کے حالات و واقعات پر مستند اور قابلِ توجہ تصنیف سمجھا جاتا ہے۔ یہ فرانسیسی معالج اور مؤرخ فرانسوا برنیئر کی کتاب ہے۔

    وہ شاہ جہاں کے لاڈلے بیٹے دارا شکوہ کا معالج تھا جو عالم گیر کے ہندوستان کا حکم راں بننے کے بعد اس کے دربار سے بھی وابستہ رہا۔ برنیئر نے 1688ء میں آج ہی کے دن وفات پائی۔

    ہندوستان میں مفکّر، باصلاحیت شاعر، فنونِ لطیفہ کے شائق اور صوفی شہزادے کے طور پر مشہور ہونے والے دارا شکوہ کی موت کے بعد فرانسوا برنیئر بادشاہ اورنگزیب عالم گیر کے دربار منسلک ہوگیا۔ وہ فرانس کا باشندہ تھا جو سیروسیّاحت کا شوقین اور پیشے کے اعتبار سے طبیب تھا۔ ہندوستان میں اس کا قیام لگ بھگ 12 رہا اور اس عرصے میں اس نے مغل خاندان کے کئی راز جانے اور تخت و تاج کے لیے سازشوں کا گواہ بنا۔

    ہندوستان کے مغل دور کی تاریخ پر مبنی مذکورہ کتاب کے علاوہ 1684ء میں برنیئر کی ایک کتاب شایع ہوئی تھی جس میں انسانوں کی مختلف نسلوں یا خاندانوں‌ کی درجہ بندی کی گئی تھی اور اس کتاب کو مابعد کلاسیکی دور پہلی تصنیف سمجھا جاتا ہے۔

    اس کا دوسرا تصنیفی کارنامہ دارا شکوہ اور عالم گیر کے عہد کا احوال ہے۔ برنیئر کی مغل دور کی یہ تاریخ یا سفر نامہ اس کی آنکھوں دیکھے واقعات، مشاہدات اور معلومات پر مبنی ہے جو اس نے قابلِ بھروسا اور اہم مغل درباریوں سے حاصل کی تھیں اور اکثر مقامات پر ان کے بیانات بھی درج کیے ہیں۔

    برنیئر 68 سال کی عمر میں پیرس میں چل بسا تھا۔

  • باغ و بہار: جادوئی اسلوب والی دو صدی پرانی کتاب

    باغ و بہار: جادوئی اسلوب والی دو صدی پرانی کتاب

    باغ و بہار (قصہ چہار درویش) کے مؤلف میر امن دہلوی جدید اردو نثر کے بانیوں میں سے ہیں۔

    باغ و بہار وہ کتاب ہے جس کی مقبولیت دو صدی گزرنے کے باوجود آج بھی برقرار ہے۔ اس کے مقدمے میں مؤلف نے اپنا تعارف کروایا ہے جو ان کے نثری اسلوب کی خوب صورت جھلک ہے۔

    اردو کے متوالے، ادب کے شائق اور داستان کے رسیا اس تعارف کو پڑھ کر ضرور خود کو کتاب پڑھنے پر مجبور پائیں‌ گے۔ وہ لکھتے ہیں:

    "پہلے اپنا احوال یہ عاصی گنہگار، میر امن دلی والا بیان کرتا ہے کہ میرے بزرگ ہمایوں بادشاہ کے عہد سے ہر ایک بادشاہ کی رکاب میں، پشت بہ پشت، جاں فشانی بجا لاتے رہے اور وہ بھی پرورش کی نظر سے، قدر دانی جتنی چاہیے، فرماتے رہے۔

    جاگیر و منصب اور خدمات کی عنایات سے سرفراز کر کر، مالا مال اور نہال کر دیا اور خانہ زاد موروثی، اور منصب دار قدیمی، زبانِ مبارک سے فرمایا، چنانچہ یہ لقب بادشاہی دفتر میں داخل ہوا۔ جب ایسے گھر کی (کہ سارے گھر اس گھر کے سبب آباد تھے) یہ نوبت پہنچی، ظاہر ہے۔ (عیاں را چہ بیاں) تب سورج مل جاٹ نے جاگیر کو ضبط کر لیا اور احمد شاہ درانی نے گھر بار تاراج کیا۔ ایسی ایسی تباہی کھا کر ویسے شہر سے (کہ وطن اور جنم بھوم میرا ہے، اور آنول نال وہیں گڑا ہے) جلا وطن ہوا، اور ایسا جہاز کہ جس کا ناخدا بادشاہ تھا، غارت ہوا۔

    میں بے کسی کے سمندر میں غوطے کھانے لگا۔ ڈوبتے کو تنکے کا آسرا بہت ہے۔ کتنے برس بلدۂ عظیم آباد میں دم لیا۔ کچھ بنی کچھ بگڑی، آخر وہاں بھی پاؤں اکھڑے، روزگار نے موافقت نہ کی۔ عیال و اطفال کو چھوڑ کر تن تنہا کشتی پر سوار ہوا، اشرف البلاد کلکتے میں آب و دانے کے زور سے آ پہنچا۔ چندے بیکاری گزری۔

    اتفاقاً نواب دلاور جنگ نے بلوا کر، اپنے چھوٹے بھائی میر محمد کاظم خاں کی اتالیقی کے واسطے مقرر کیا۔ قریب دو سال کے وہاں رہنا ہوا، مگر نباہ اپنا نہ دیکھا۔ تب منشی میر بہادر علی جی کے وسیلے سے، حضور تک، جان گلکرسٹ صاحب بہادر (دام اقبالہ) کے، رسائی ہوئی۔

    بارے، طالع کی مدد سے ایسے جواں مرد کا دامن ہاتھ لگا ہے، چاہیے کہ دن کچھ بھلے آویں۔ نہیں تو یہ بھی غنیمت ہے کہ ایک ٹکڑا کھا کر، پاؤں پھیلا کر سو رہتا ہوں اور گھر میں دس آدمی، چھوٹے بڑے، پرورش پا کر دعا اس قدردان کو کرتے ہیں۔ خدا قبول کرے۔

  • شاعر کی ذہانت اور تاجر کی سخاوت

    شاعر کی ذہانت اور تاجر کی سخاوت

    شاہانِ وقت، رؤسا اور منصب داروں کی اپنے زمانے میں قابل شخصیات، داناؤں اور اہلِ علم و ہنر کی عزت افزائی، ان پر عنایات اور لطف و کرم کے بے شمار قصّے ہم نے پڑھے ہیں۔ شاہی درباروں اور امرا کی محافل میں دین اور معاملاتِ زمانہ پر ایسے لوگوں کی پُرمغز اور دلیل و منطق کے ساتھ حکمت بھری گفتگو اور مباحث کے یہ تذکرے سبق آموز ہی نہیں، اکثر پُرلطف اور دل چسپ بھی ہیں۔ یہ بھی ایک ایسا ہی قصّہ ہے جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔

    بخارا، ایک زمانے میں علم و فنون کا مرکز اور اہلِ علم پر امرائے وقت کی عنایات کے لیے بھی مشہور تھا۔ اسی شہر میں کپڑے کا ایک دولت مند تاجر ابونصر بھی رہتا تھا جو شعر و ادب کا بھی دلدادہ تھا۔ اس کے ساتھ وہ سخی اور غریب پرور بھی مشہور تھا۔

    ابو نصر قریبی ملکوں میں‌ تجارت کی غرض سے سفر پر جاتا رہتا تھا۔ ایک مرتبہ سخاوت اور بخشش میں مشہور ابو نصر کا تجارتی قافلہ بخارا لوٹ رہا تھا کہ شہر کے قریب ہی شدید تھکن کے باعث آرام کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ بخارا سے قریب ہی ایک قصبہ تھا۔ ابو نصر اور اس کے ساتھیوں نے کچھ دیر تھکن اتارنے کے بعد دسترخوان سجایا تو دیکھا کہ ایک شخص ان کی طرف آرہا ہے۔

    وہ چہرے مہرے اور حلیے سے ایک مفلس اور حالات کا ستایا ہوا انسان نظر آتا تھا۔ اس نے ان کے قریب پہنچ کر ابونصر کی بابت دریافت کیا اور شناخت ہونے پر نہایت ادب سے اپنا تعارف کروایا۔ معلوم ہوا کہ وہ شاعر ہے۔ نام تاباں سلجی ہے اور قریبی قصبے کا رہائشی ہے۔

    اس نے ابو نصر کی شان میں چند اشعار پیش کرنے کی اجازت طلب کی اور ایک قصیدہ پڑھ ڈالا۔ ابونصر شاعری کا عمدہ ذوق رکھتا تھا۔ وہ اس شاعر کے کلام سے بہت متاثر ہوا۔ اس کے ساتھی بھی تاباں کو داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔

    ابونصر نے اسے اشرفیوں (رائج سکے) سے نوازا اور شہر میں آکر دوبارہ ملاقات کرنے کو کہا۔

    تاباں سلجی عمدہ شاعر ہی نہیں قابل اور ذہین بھی تھا۔ وہ گفتگو کا سلیقہ جانتا تھا۔ انعام وصول کرنے کے بعد اس نے ابونصر کو کہا۔

    بندہ پرور، آپ کی اہلِ علم پر عنایات کا کیا کہنا۔ یہ انعام بہت زیادہ ہے، لیکن آپ کچھ بھول رہے ہیں۔

    اب ابو نصر کی نظریں اس کے چہرے پر ٹک گئیں۔ تاباں نے نہایت ادب سے کہا۔

    میرا کلام آپ نے پسند کیا اور گویا ایک شاعر کی قدر افزائی کی، اسے انعام بھی دیا۔ حضور، وہ شاعر جو تاباں سلجی مشہور ہے وہ تو آپ سے بہت خوش ہے، مگر سنا تھاکہ آپ غریب پرور بھی ہیں۔ اب اس نے ذرا توقف کے ساتھ کہا۔

    یقین جانیے، میرا گزر بسر بہت مشکل سے ہوتا ہے۔ آپ نے ایک شاعر کو تو نواز دیا، مگر کیا آپ کے دروازے سے غریب اور مجبور انسان خالی ہاتھ لوٹ جائے؟

    ابونصر نے اس کی بات تحمل سے سنی اور مسکرا کر کہا، تم باکمال شاعر ہی نہیں، ذہین بھی ہو۔ تم توجہ حاصل کرنا بھی جانتے ہو اور تقاضہ کرنے کا سلیقہ بھی خوب آتا ہے، یہ کہہ کر ابونصر اسے مزید کچھ رقم دی اور نہایت عزّت اور احترام سے رخصت کیا۔

    مصنّف:‌ عارف عزیز