Tag: مغلیہ سلطنت

  • مظفرآباد میں مغلیہ سلطنت کا ‘لال قلعہ’ زبوں حالی کا شکار، ویڈیو رپورٹ

    مظفرآباد میں مغلیہ سلطنت کا ‘لال قلعہ’ زبوں حالی کا شکار، ویڈیو رپورٹ

    آزاد کشمیر میں اپنے اندر صدیوں کی تاریخ سمیٹے مختلف آثار قدیمہ دنیا بھر میں کشمیر کی پہچان ہیں، جن میں دارلحکومت مظفرآباد میں مغلیہ سلطنت کا ‘لال قلعہ’ اپنی مثال آپ ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق متعلقہ اداروں کی بے حسی کے باعث یہ نایاب شاہکار ‘لال قلعہ’ اب مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہوتا جارہا ہے، افسوس کی بات یہ ہے کہ کئی سال گزرنے کے باوجود اس کی مرمت کا کام بھی آج تک مکمل نہیں ہوسکا ہے۔

    وہاں آئے ایک نوجوان کا کہنا تھا کہ یہ شاہی قلعہ آزاد کشمیر میں ایک مفرد حیثیت رکھتا ہے، بدقسمتی سے حکومت اس کی تزین و آرائش نہیں کررہی، اگر حکومت اس طرف توجہ دے تو سیاحت کو فروغ مل سکتا ہے اور پورے پاکستان سے آکر لوگ لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔

    ایک خاتون نے بتایا کہ ہم گوجرانوالہ سے اسے قلعے کو دیکھنے کےلیے آئے ہیں مگر اس کی حالت بہت بری ہے، اس کو ٹھیک کرنا چاہیے۔

    اس کی تعمیر 1559 میں شروع ہوئی اور مختلف ادوار میں اس کی تعمیر جاری رہی، اسے چک سلطنت کا قلعہ کہا جاتا تھا، بعد میں راجہ مظفر خان نے اسکی تعمیر مکمل کی، چاروں اطراف سے اسے دریائے نیلم نے اسے گھیر رکھا ہے۔

    مقامی نوجوان نے کہا کہ حکومت سے ہماری اپیل ہے کہ جلد از جلد اسکی تعمیر مکمل کی جائے تاکہ جو لوگ یہاں آتے ہیں وہ کشمیر کی ثقافت کو دیکھ سکیں اور تاریخ کے بارے میں جان سکیں۔

    رپورٹ: سردار رضا خان

  • مرزا اظفری: قلعہ مبارک سے فرار ہو جانے والا مغل شہزادہ

    مرزا اظفری: قلعہ مبارک سے فرار ہو جانے والا مغل شہزادہ

    ہندوستان میں مغل سلطنت کی ایک عظیم نشانی دلّی کا وہ لال قلعہ ہے جسے کبھی قلعۂ مبارک کہا جاتا تھا۔ اسی قلعے میں میرزا علی بخت بہادر محمد ظہیر الدّین اظفری گورگانی نے 1758ء میں آنکھ کھولی۔ وہ بیک وقت اُردو، ترکی اور فارسی زبانوں میں شاعری کرتے تھے اور ایک نثر نگار اور انشاء پرداز تھے۔

    ہندوستان میں مغلیہ حکومت کو اس دور میں‌ نہ صرف بیرونی حملہ آوروں کا خطرہ تھا بلکہ اقتدار کی خاطر آپس میں‌ لڑنے اور سازشوں‌ میں‌ گھرے مغل بادشاہ، شہزادے اور شاہی خاندان کی شخصیات محفل عیش و طرف اور ایسی کئی خرافات کے عادی ہوچکے تھے جو ہندوستان پر ان کی گرفت کم زور کررہے تھے۔ اسی دور کے مرزا اظفری بھی مغل شاہ زادگان میں سے ایک تھے جن کا اصل نام محمد ظہیر الدّین اور لقب علی بخت بہادر گورگانی تھا۔ دہلی میں انھیں میرزائے کلاں کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ ان کے والد کا نام سلطان محمد ولی تھا جو منجھلے صاحب مشہور تھے۔ مرزا اظفری کی والدہ حضرت میر ابو العلاء اکبرآبادی کی اولاد میں سے تھیں۔ مرزا اظفری کی تعلیم و تربیت دہلی کے لال قلعہ میں ہوئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مغلیہ سلطنت کی شمالی سرحدوں سے احمد شاہ ابدالی کے حملوں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ اس دور کے رواج کے مطابق قرآن اور ضروری دینی تعلیم ابتدائی عمر ہی میں دی گئی اور مرزا بڑے ہوئے تو علم و ادب کا شوق پیدا ہوا اور مطالعہ کی عادت بھی پختہ ہوگئی۔

    مرزا گورگانی قلعۂ معلّٰی کے تمام شہزادوں میں لائق فائق تھے۔ انھوں نے عربی کے علاوہ ترکی، فارسی اور اردو زبان پر عبور حاصل کیا اور کہتے ہیں‌ کہ عربی سے ترکی، فارسی اور اردو زبانوں میں ترجمہ بھی کر لیتے تھے۔ انھوں‌ نے بعد میں‌ مدراس میں رہتے ہوئے انگریزی زبان بھی سیکھ لی تھی۔ مرزا کی علم و فنون میں دل چسپی اور سیکھنے کا شوق ایسا تھا کہ علومِ ادبیہ کے ساتھ ساتھ طبّ اور علاج معالجہ بھی سیکھ لیا۔ وہ اس فن میں حکیم عنایت اللہ اور حکیم میر حسن دہلوی کے شاگرد تھے۔ مختلف ادبی تذکروں اور مغل دور کی تاریخ پر مبنی کتب میں لکھا ہے کہ مرزا گورگانی قلعۂ مبارک میں سرکاری اطبا کی نیابت میں شاہی خاندان کی شخصیات اور متعلقین کا علاج بھی کرتے تھے۔

    تیموری خاندان کے دوسرے شہزادوں کی طرح انھوں نے بھی اپنی نوجوانی کا سنہرا زمانہ قلعۂ مبارک میں شاہی پابندیوں کے ساتھ گزار دیا۔ دوسری طرف غلام قادر روہیلہ کے لال قلعہ پر قابض ہو جانے کے بعد اور شہنشاہ شاہ عالم ثانی کی معزولی اور ان پر دردناک مظالم کے وقت مرزا اظفری نے بہت بہادری سے محل کی عصمت و ناموس کی مگر بعد میں‌ حالات بہتر ہونے پر کٹھ پتلی بن کر تخت پر بیٹھنے والے شاہ عالم ثانی نے اظفری سے کچھ اچھا سلوک نہ کیا۔ وہ اپنے وعدوں سے مکر گئے۔ دراصل مرزا اور دیگر شہزادے ایک شاہی دستور کے تحت قید قلعۂ مبارک میں قیدی تھے اور انھیں سلاطین کہا جاتا تھا۔ یہ سب تخت اور تاج کی لڑائیوں کے لیے کیا جاتا تھا اور شہزادوں کو دربار اور حکومت میں منصب و عہدہ اور ہر قسم کے اثر و رسوخ سے دور رکھا جاتا تھا۔ اسی دستور سے بیزار ہو کر اظفری 1788ء کو لال قلعہ سے فرار ہوگئے اور تاریخی کتب میں‌ آیا ہے کہ وہاں سے نکل کر وہ جے پور، جودھ پور اور اودے پور کے راجاؤں کے مہمان بنے۔ بعد میں‌ مرزا اظفری لکھنؤ پہنچے جہاں اودھ کے حکم ران آصف الدّولہ نے خوش آمدید کہا۔ وہاں‌ کئی برس عزّت و آبرو سے بسر کیے۔ اسی دوران مرزا کے بھائی اور تمام متعلقین، قلعہ میں‌ رہ جانے والی بیوی اور اولاد کے ساتھ والدہ بھی قلعہ چھوڑ کر بخیریت لکھنؤ پہنچ گئے تھے۔ بعد میں‌ مرزا مدراس گئے اور وہیں مستقل قیام کیا۔ مدراس میں مرزا کو نواب عمدۃ الامراء سے بڑی توجہ اور شفقت ملی اور نواب انھیں اپنی مسند پر بٹھاتے اور ادب ملحوظ رکھتے تھے۔

    مدراس میں مرزا گورگارنی نے ایک پٹھان کی لڑکی سے شادی کر لی تھی اور اس کے بطن سے کئی اولادیں ہوئیں جن میں سے ایک لڑکے کا نام اعلیٰ بخت تھا۔

    مرزا فارسی، ترکی اور اُردو میں شعر کہا کرتے تھے۔ اشعار میں رعایتِ روزمرّہ اور محاورہ بندی اچھی ہے لیکن بلندیٔ تخیل کا فقدان ہے۔ مدراس میں‌ قیام کے دوران مرزا نے دہلی اور لکھنؤ میں اپنے متعلقین اور احباب کے علاوہ جو خطوط راجاؤں اور نوابوں کو لکھے ہیں، اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ فارسی زبان پر بڑی قدرت رکھتے تھے۔ ریختہ میں‌ خود کو میر تقی میر کا شاگرد بتاتے تھے۔

    1801ء کو نواب کرناٹک نواب عمدۃُ الامراء کا انتقال ہوگیا تو مرزا کو بڑا رنج ہوا اور وہ لکھتے ہیں‌ کہ ان کی زندگی بے کیف و بے لطف گزرنے لگی۔ 1819ء میں مرزا اظفری نے مدراس ہی میں وفات پائی۔

    مرزا نے اپنی زندگی کے کچھ حالات اور واقعات بھی قلم بند کیے ہیں‌ اور ان کی کتاب کے نسخے لندن اور مدراس میں‌ موجود ہیں جس میں‌ دہلی کے قلعۂ مبارک کی لفظی جھلکیاں ان کی شان دار نثر کا ثبوت ہیں۔ اس کا اردو ترجمہ کیا گیا ہے جب کہ ایک دیوان بھی دستیاب ہے۔

  • قطب الدّین ایبک: کھیل کے میدان میں جان دینے والا ایک دلیر اور سخی حکم راں

    قطب الدّین ایبک: کھیل کے میدان میں جان دینے والا ایک دلیر اور سخی حکم راں

    قطب الدّین ایبک وہ مسلم حکم راں ہے جس نے ہندوستان میں ایک مسلم سلطنت کی بنیاد ڈالی اور مسلمانوں‌ کی حکومت انگریزوں کے خلاف 1857ء میں ناکام بغاوت تک جاری رہا۔ ایبک کا نام اپنے زمانے میں فیّاضی اور سخاوت کے لیے بھی مشہور ہے۔

    مؤرخین کے مطابق قطب الدّین ایبک کا تعلق ترک قبیلے ایبک سے تھا۔ اسے بچپن میں غلام بنا کر فروخت کردیا گیا تھا۔ اس غرض سے ایبک کو نیشا پور لایا گیا جہاں اسے اپنے زمانے کے ایک تعلیم یافتہ شخص قاضی فخر الدّین عبد العزیز کوفی نے خریدا۔ تاریخ‌ کے اوراق بتاتے ہیں‌ کہ وہ ایک بااثر اور قابل شخص تھے جنھوں نے اس غلام سے اچھا سلوک کیا اور اس لڑکے کی تعلیم و تربیت کی۔ قطب الدّین کے والد اور اس کے خاندان کے بارے میں‌ تاریخ کے صفحات خالی ہیں۔

    قطب الدّین ایبک نے قاضی صاحب کے ساتھ رہتے ہوئے قرآن کی تعلیم بھی پائی اور اس زمانے کے دستور کے مطابق سواری و تیر اندازی بھی سیکھی۔ ایبک کی استعداد اور قابلیت سے قاضی صاحب بھی خوش رہے۔ وہ اچھے اوصاف کا حامل اور مطیع و فرماں بردار تھا۔ لیکن قاضی صاحب کی وفات کے بعد ان کی اولاد نے اس غلام لڑکے کو ایک تاجر کے ہاتھ فروخت کر دیا جس نے ایبک کو غزنہ کے بازار میں لاکر سلطان غازی معزالدّین سام المعروف سلطان محمد غوری سے اس کے دام لے لیے اور یوں اس غلام کی زندگی بدل گئی۔

    تاریخ کی کتابوں میں قطب الدّین ایبک کا سنِ پیدائش 1150 درج ہے تاہم مؤرخین کو اس میں‌ اختلاف ہے۔ ادھر سلطان کے ساتھ زندگی کا سفر شروع ہوا تو اس نے پایا کہ وہ اپنے ترکی غلاموں کو بہت اہمیت دیتا ہے اور ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے ایبک کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا گیا اور اسے بہادر اور خوش خصلت و صاحبِ کمال پایا تو اسے منصب پر فائز کیا۔ مؤرخین کے مطابق جب سلطان محمد غوری 1206ء میں جہلم کے قریب ایک مہم میں جان سے گیا تو یہ قابل غلام اپنی سیاسی فہم و فراست کے سبب اس کا جانشین بن گیا۔

    قطب الدین نے رفتہ رفتہ اپنی صلاحیتوں سے ہر شعبے میں اپنی گرفت مضبوط کی اور اس کا ستارہ اوج پر پہنچا۔ اس کی فوجیں گجرات، راجپوتانہ، گنگا جمنا کے دوآبہ، بہار اور بنگال میں فاتح بنیں۔ ایبک نے 1206ء میں لاہور میں اپنی تخت نشینی کا اعلان کیا تھا اور بعد میں اس کا زیادہ تر وقت لاہور ہی میں گزرا۔ اس کی تاج پوشی لاہور کے قلعے میں ہوئی تھی، لیکن ایبک نے کبھی سلطان کا خطاب نہیں اپنایا اور نہ ہی اپنے نام سے کوئی سکہ جاری کیا۔

    قطب الدّین کی زندگی کا سفر 1210ء تک جاری رہا۔ تاہم اس حکم راں‌ کی تاریخِ وفات میں‌ اختلاف ہے۔ اکثر مؤرخین نے 4 نومبر اور بعضوں‌ نے وفات کی مختلف تاریخ‌ یا مہینہ بھی دسمبر لکھا ہے۔ اس حکم راں کی موت حادثاتی تھی۔ اس زمانے میں امراء میں چوگان کا کھیل بڑا مقبول تھا۔ قطب الدّین کو بھی چوگان کا بڑا شوق تھا۔ ایک دن وہ اس کھیل سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ اپنے گھوڑے سے گرا اور اس کے نیچے دب گیا اور کہتے ہیں کہ گھوڑے کی زین کا پیش کوہہ اس کے سینے میں پیوست ہونے سے موت واقع ہوئی۔

    قطب الدّین ایبک کو لاہور میں دفن کیا گیا جہاں آج بھی اس کا مزار موجود ہے۔ اس کے جانشین سلطان شمس الدّین التمش نے اس کے مدفن پر عالی شان مقبرہ تعمیر کرایا تھا۔

    قطب الدّین ایبک کی سخاوت اور دریا دلی بھی مشہور ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دہلی میں کوئی بھی ایسا نہیں تھا جس نے اس حکم راں کی فیّاضی اور سخاوت نہ سمیٹی ہو۔

  • اکبر شاہ ثانی: ”بادشاہت کا خیال اس کے خواب میں بھی نہ آئے”

    اکبر شاہ ثانی: ”بادشاہت کا خیال اس کے خواب میں بھی نہ آئے”

    اٹھارہویں مغل بادشاہ اکبر شاہ ثانی کو برائے نام اختیارات حاصل تھے۔ شاہ عالم ثانی کے بعد تخت پر رونق افروز ہونے والے اکبر شاہ ثانی کا زمانہ ہر لحاظ سے ابتری اور انتشار کا زمانہ تھا اور انگریزوں کی ریشہ دوانیاں بڑھ گئی تھیں۔ بادشاہت دہلی تک محدود ہوگئی تھی جسے اب انگریز مٹانے کے منصوبے بنا رہا تھا۔

    اکبر شاہ ثانی نے 1837ء میں آج ہی کے دن وفات پائی۔ شاہ عالم ثانی کے زمانے تک انگریز بظاہر سہی بادشاہت کا احترام اور تخت و تاج کی تعظیم کرتے تھے۔ یہ بات اہم ہے کہ اس وقت تک بادشاہ کے دربار میں دہلی کے ریذیڈنٹ، اسٹین کی حیثیت ایک معمولی امیر سے زیادہ نہیں تھی۔ وہ شاہی خاندان کے ہر فرد کی بے انتہا عزت کرتا تھا، لیکن اسٹین کا نائب، چارلس مٹکاف، بادشاہ کے اس احترام سے سخت ناخوش تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ہم اس طرح بادشاہ کی تعظیم کر کے اس کی غیرت و حمیت کو نہیں سلا سکتے، جو ہمارا اوّلین مقصد ہے۔

    ادیب اور تذکرہ نگار مولوی ذکاءُ اللہ چارلس مٹکاف کے الفاظ میں لکھتے ہیں:’’میں اس پالیسی کے ساتھ موافقت نہیں کرتا جو اسٹین صاحب نے شاہی خاندان کے ساتھ اختیار رکھی ہے۔ جو شخص برٹش گورنمنٹ کی طرف سے دہلی میں حکم رانی کے لیے مقرر ہو، وہ بادشاہ کی تعظیم اس طرح کرتا ہے جس سے بادشاہی قوت کے بیدار ہونے کا اندیشہ ہے۔ حالاں کہ ہم اس کو ہمیشہ کے لیے سلا دینا چاہتے ہیں۔ ہمارا مقصود نہیں کہ بادشاہ کو بادشاہی کے دوبارہ اختیارات حاصل ہوں۔ اس لیے ہم کو ایسی حرکتیں نہیں کرنی چاہییں جن سے اس کے دل میں اپنی بادشاہی حاصل کرنے کی تمنا پیدا ہو، اگر ہم نہیں چاہتے کہ اس کی حکومت کو پھر دوبارہ قائم کریں تو ہم کو چاہیے کہ بادشاہت کا خیال اس کے خواب میں بھی نہ آنے دیں۔‘‘

    اکبر شاہ ثانی کی تخت نشینی کو ایک سال بیت چکا تھا، اور 1807ء تک یہ حالات پیدا ہوچکے تھے جس کی طرف مولوی صاحب نے اشارہ کیا ہے۔ 1809ء میں بادشاہ نے اپنا وظیفہ بڑھانے کا مطالبہ کیا جسے کورٹ آف ڈائریکٹرز نے منظور کرلیا۔ لیکن اتنی بڑا دربار پنشن اور وظائف پر نہیں چل سکتا تھا۔ حقیقت یہی ہے کہ انگریزوں کی طرف سے بادشاہ کو جو وظیفہ ملتا تھا وہ ناکافی تھا اور اسی لیے بادشاہ نے اب مزید اضافہ چاہا تھا۔ اس سلسلے میں انھوں نے فرماں روائے اودھ سے بھی مدد چاہی تھی۔

    چناں چہ 1812ء میں بادشاہ کی والدہ قدسیہ بیگم اور صاحب زادے مرزا جہانگیر کسی بہانے لکھنؤ پہنچے اور وہاں پہنچ کر نواب وزیر کو اپنی مدد کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ انگریزوں نے اس کار گزاری کے جواب میں کہا کہ اس وقت تک اضافہ کی امید نہ رکھی جائے جب تک بادشاہ انگریز کی تمام شرائط کو نہیں‌ مان لیتے۔ بادشاہ کو تمام معاملات سے بے دخل کر دیا گیا، یہاں تک کہ انھیں اپنے ولی عہد یا جانشین کی تقرری کا اختیار بھی نہیں‌ رہا تھا۔

    1814ء میں اکبر شاہ ثانی نے انگریز سرکار سے مطالبہ کیا کہ ان کا مرتبہ گورنر جنرل سے زیادہ ہونا چاہیے۔ انگریزوں کے کان پر اس بار جوں تک نہیں رینگی۔ آخرکار اکبر شاہ ثانی نے مشہور برہمو سماج لیڈر رام موہن رائے کو اپنا سفیر بنا کر انگلستان بھیجا تاکہ وہ ان کا مقدمہ لڑ سکیں۔ رام موہن رائے انگلستان تو گئے، لیکن مقصد میں انھیں کام یابی حاصل نہیں ہوئی۔ اس کے بعد ہندوستان میں انگریز افسر اکبر شاہ ثانی سے اور بدگمان ہوگئے۔ چنانچہ بادشاہ کو باقی ماندہ زندگی لال قلعے میں بے یارو مددگار انسان کی طرح گزارنا پڑی۔

    دہلی کے تخت پر ان کا ‘راج’ 31 برس رہا اور مرضِ اسہال کے سبب ان کی زندگی تمام ہوئی۔ وہ درگاہ خواجہ قطب الدّین بختیار کاکی کے ساتھ مہراؤلی (دہلی) میں پیوندِ خاک ہوئے۔

  • عہدِ عالمگیر میں‌ زیرِ‌عتاب آنے والے خان جہاں بہادر کا تذکرہ

    عہدِ عالمگیر میں‌ زیرِ‌عتاب آنے والے خان جہاں بہادر کا تذکرہ

    مغلیہ تاریخ کا ایک کردار خان جہاں بہادر ظفر جنگ کوکلتاش کے نام سے مشہور ہے جس کے حالاتِ زندگی، شاہی عہد میں اس کے مقام و رُتبہ اور خدمات سے متعلق حقائق بہت کم دست یاب ہیں۔ تاہم مؤرخین نے اسے شہر لاہور کا ایسا مغل صوبے دار اور سالار لکھا ہے جو عہدِ عالمگیر میں‌ زیرِعتاب آیا اور اسی حال میں‌ دنیا سے چلا گیا۔

    مشہور مؤرخ خافی خان نظامُ الملک کی تصنیف منتخبُ اللباب میں خانِ جہاں کا مختصر تعارف پڑھنے کو ملتا ہے۔ ان کے مطابق عہدِ عالمگیر کے اس بڑے منصب دار کا اصل نام میر ملک حسین تھا۔ وہ بہادر خان، خانِ جہاں اور کوکلتاش کے ناموں سے بھی پہچانے گئے۔ انھوں نے 1673ء میں مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر سے ’’خانِ جہاں بہادر کوکلتاش‘‘ اور 1675ء میں ظفر جنگ کا خطاب پایا۔

    1680ء میں لاہور کی نظامت کے سلسلے میں اختلافات پیدا ہونے پر مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر نے انھیں دور کرنے کے لیے شہزادہ محمد اعظم کو لاہور کا صوبے دار مقرر کیا تھا۔ بعد ازاں اِس منصب پر مکرم خان اور سپہ دار خان بھی مقرر کیے گئے۔ اور 1691ء میں خان جہاں بہادر کو لاہور کی یہ منصب دیا گیا۔

    وہ تقریباً ڈھائی سال تک لاہور کی نظامت پر مقّرر رہا اور 1693ء میں عالمگیر نے اسے معزول کرکے چار سال تک زیرِ عتاب رکھا۔

    خان جہاں بہادر با وقار شخصیت کا مالک اور صاحبِ تدبیر امیر تھا۔ اس نے مغل دور میں متعدد بڑی جنگوں میں حصّہ لیا اور سالار کی حیثیت سے محاذ پر آگے آگے رہا۔ وہ مغلوں کے لیے اپنی خدمات میں نیک نام اور بادشاہ کا وفادار تھا۔

    معزولی کے بعد خانِ جہاں بہادر نے بڑی مشکل زندگی بسر کی اور 23 نومبر 1697ء کو لاہور ہی میں وفات پائی۔ اسے لاہور میں مغل پورہ کے نزدیک ایک مقام پر دفن کیا گیا تھا جہاں بعد میں اس کا شان دار مقبرہ تعمیر کیا گیا۔

    کوکلتاش کا یہ مقبرہ آج خستہ حالی کا شکار ہے، لیکن مغل طرزِ تعمیر کا یہ نمونہ اُس زمانے کے بہادر سالار اور مغلوں کے ایک وفادار کی یادگار اور نشانی کے طور پر ضرور موجود ہے۔

  • مغل شہنشاہ کی روداد جو اپنا جانشین تک خود مقرّر نہیں کرسکتا تھا

    مغل شہنشاہ کی روداد جو اپنا جانشین تک خود مقرّر نہیں کرسکتا تھا

    سلطنت مغلیہ کے اٹھارھویں شہنشاہ اکبر شاہ ثانی تھے جنھیں برائے نام اختیارات حاصل تھے۔ وہ شاہ عالم ثانی کے بعد تخت پر رونق افروز ہوئے تھے۔

    اکبر شاہ ثانی کے سنِ پیدائش میں اختلاف ہے۔ کچھ مؤرخین اور تذکرہ نویسوں نے 1759ء اور بعض نے 1755ء لکھا ہے، لیکن ان کی وفات 1837ء میں آج ہی کے دن ہوئی تھی۔

    اکبر شاہ ثانی کے زمانے میں انگریزوں کی سیاسی ریشہ دوانیاں اور زیادہ تیز ہو گئی تھیں۔ انھوں نے‌ دہلی کی بادشاہت کو رفتہ رفتہ محدود کیا اور اسے ختم کرنے کے لیے ہر کوشش کی۔

    شاہ عالم ثانی کے زمانے تک انگریز، مغل بادشاہ اور اس کے دربار کی تعظیم کرتے تھے۔ اس وقت بادشاہ کے دربار میں دہلی کے ریذیڈنٹ، اسٹین کی حیثیت ایک معمولی امیر سے زیادہ نہیں تھی۔ وہ شاہی خاندان کے ہر فرد کی بے انتہا عزت کرتا تھا لیکن اسٹین کا نائب، چارلس مٹکاف، بادشاہ کے اس احترام سے سخت ناخوش تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ہم اس طرح بادشاہ کی تعظیم کر کے اس کی غیرت و حمیت کو نہیں سلا سکتے، جو ہمارا اوّلین مقصد ہے۔

    ادیب اور تذکرہ نگار مولوی ذکاءُ اللہ چارلس مٹکاف کے الفاظ میں لکھتے ہیں:’’میں اس پالیسی کے ساتھ موافقت نہیں کرتا جو اسٹین صاحب نے شاہی خاندان کے ساتھ اختیار رکھی ہے۔ جو شخص برٹش گورنمنٹ کی طرف سے دہلی میں حکم رانی کے لیے مقرر ہو، وہ بادشاہ کی تعظیم اس طرح کرتا ہے جس سے بادشاہی قوت کے بیدار ہونے کا اندیشہ ہے۔ حالاں کہ ہم اس کو ہمیشہ کے لیے سلا دینا چاہتے ہیں۔ ہمارا مقصود نہیں کہ بادشاہ کو بادشاہی کے دوبارہ اختیارات حاصل ہوں۔ اس لیے ہم کو ایسی حرکتیں نہیں کرنی چاہییں جن سے اس کے دل میں اپنی بادشاہی حاصل کرنے کی تمنا پیدا ہو، اگر ہم نہیں چاہتے کہ اس کی حکومت کو پھر دوبارہ قائم کریں تو ہم کو چاہیے کہ بادشاہت کا خیال اس کے خواب میں بھی نہ آنے دیں۔‘‘

    یہ حالات اکبر شاہ ثانی کی تخت نشینی کے ٹھیک ایک سال بعد یعنی 1807ء میں پیدا ہونے شروع ہو گئے تھے۔ 1809ء میں بادشاہ نے اپنے لیے مزید وظیفے کا مطالبہ کیا جسے کورٹ آف ڈائریکٹرز نے بخوشی منظور کر لیا۔ لیکن اتنی بڑی بادشاہت پنشن اور وظائف پر نہیں چل سکتی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ انگریزوں کی طرف سے بادشاہ کو جو وظیفہ ملتا تھا وہ ناکافی تھا۔ لہٰذا بادشاہ نے پھر کوشش کی کہ وظیفے میں مزید اضافہ کیا جائے۔ بادشاہ نے اس سلسلے میں حکومت اودھ کی بھی مدد حاصل کرنے کی کوشش کی۔

    چناں چہ 1812ء میں بادشاہ کی والدہ قدسیہ بیگم اور صاحب زادے مرزا جہانگیر کسی بہانے لکھنؤ پہنچے اور وہاں پہنچ کر نواب وزیر کو اپنی مدد کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ انگریزوں نے اس کارگزاری کے جواب میں بادشاہ کے الاؤنس میں اس وقت تک کے لیے اضافے سے انکار کر دیا، جب تک وہ انگریزوں کی شرائط پر کاربند نہ ہوں۔ بادشاہ کو تمام معاملات سے بے دخل کر دیا گیا، یہاں تک کہ بادشاہ کو یہ اختیار بھی نہیں رہا کہ وہ اپنا ولی عہد یا جانشین خود مقرر کر سکیں۔

    1814ء میں اکبر شاہ ثانی نے گورنمنٹ سے مطالبہ کیا کہ ان کا مرتبہ گورنر جنرل سے زیادہ ہونا چاہیے۔ انگریزوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔

    آخر کار اکبر شاہ ثانی نے مشہور برہمو سماجی لیڈر راجا رام موہن رائے کو راجا کا خطاب دے کر اپنا سفیر بنا کر انگلستان بھیجا اور انھیں اپنا مقدمہ لڑنے کو کہا۔ راجا رام موہن رائے جب انگلستان پہنچے تو ان کا زبردست استقبال ہوا۔ وہ ایک دانش ور تھے لیکن جس مقصد کے لیے وہ انگلستان گئے تھے اس میں انھیں کام یابی حاصل نہیں ہو سکی۔

    اس کے بعد ہندوستان میں انگریز افسر اکبر شاہ ثانی سے اور بدگمان ہوگئے۔ چنانچہ اکبر شاہ ثانی نے اپنی زندگی کے باقی دن لال قلعے میں ایک بے یارو مددگار انسان کی طرح پورے کیے۔

    وہ دہلی کے تخت پر 31 برس رونق افروز رہے اور کہتے ہیں کہ مرضِ اسہال کے سبب وفات پائی۔

  • ہندوستان کے شاہی خاندان کا بدنصیب ماہِ عالم

    ہندوستان کے شاہی خاندان کا بدنصیب ماہِ عالم

    ماہِ عالم ایک شہزادے کا نام تھا، جو شاہِ عالم بادشاہِ دلّی کے نواسوں میں تھا اور غدر میں اس کی عمر گیارہ برس کی تھی۔

    شہزادہ ماہِ عالم کے باپ مرزا نو روز حیدر دیگر خاندانِ شاہی کی طرح بہادر شاہ کی سرکار سے سو روپے ماہوار تنخواہ پاتے تھے، مگر ان کی والدہ کے پاس قدیم زمانہ کا بہت سا اندوختہ تھا، اس لیے ان کو روپیہ کی چند اں پروا نہیں تھی اور وہ بڑی بڑی تنخواہوں کے شہزادوں کی طرح گزر اوقات کرتے تھے۔

    جب غدر پڑا تو ماہِ عالم کی والدہ بیمار تھیں۔ علاج ہورہا تھا، مگر مرض برابر ترقّی کرتا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ عین اس روز جب کہ بہادر شاہ قلعہ سے نکلے اور شہر کی تمام رعایا پریشان ہو کر چاروں طرف بھاگنے لگی، ماہِ عالم کی والدہ کا انتقال ہوگیا۔ ایسی گھبراہٹ کے موقع پر سب کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ اس موت نے عجیب ہراس پیدا کر دیا۔

    اس وقت نہ کفن کا سامان ممکن تھا نہ دفن کا، نہ غسل دینے والی عورت میّسر آسکتی تھی، نہ کوئی مردے کے پاس بیٹھنے والا تھا۔ شہزادوں میں رسم ہوگئی تھی کہ وہ مردے کے پاس نہ جاتے۔ سب کام پیشہ وروں سے لیا جاتا تھا، جو اس وقت کے لیے ہمیشہ موجود تیار رہتے تھے۔

    غدر کی عالم گیر مصیبت کے سبب کوئی آدمی ایسا نہ ملا جو تجہیز و تکفین کی خدمت میں انجام کو پہنچاتا۔ گھر میں دو لونڈیاں تھیں، لیکن وہ بھی مردے کو نہلانا نہ جانتی تھیں۔ خود مرزا نو روز حیدر اگر چہ پڑھے لکھے شخص تھے مگر چوں کہ ان کو ایسا کام پیش نہ آیا تھا، اس لیے اسلامی طریق پر غسل و کفن سے واقفیت نہ رکھتے تھے۔

    القصّہ ان لوگوں کو اسی حیرانی و پریشانی میں کئی گھنٹے گزر گئے۔ اتنے میں سنا کہ انگریزی لشکر شہر میں گھس آیا ہے اور اب عنقریب قلعہ میں آیا چاہتا ہے۔ اس خبر سے مرزا کے رہے سہے اوسان اور بھی جاتے رہے اور جلدی سے لاش کو چارپائی پر ہی کپڑے اتار کر نہلانا شروع کیا۔ نہلایا کیا، بس پانی کے لوٹے بھر بھر کر اوپر ڈال دیے۔ کفن کہاں سے ملتا، شہر تو بند تھا۔ پلنگ پر بچھانے کی دو اُجلی چادریں لیں اور ان میں لاش کو لپیٹ دیا۔

    اب یہ فکر ہوئی کہ دفن کہاں کریں۔ باہر لے جانے کا تو موقع نہیں۔ اسی سوچ میں تھے کہ گوروں اور سکھوں کی فوج کے چند سپاہی گھر میں آگئے اور آتے ہی مرزا اور ان کے لڑکے ماہِ عالم کو گرفتار کر لیا۔ اس کے بعد گھر کا سامان لوٹنے لگے۔ صندوق توڑ ڈالے۔ الماریوں کے کواڑا کھیڑ دیے۔ کتابوں کو آگ لگا دی۔

    دونوں لونڈیاں غسل خانے میں جا چھپی تھیں۔ ایک سپاہی کی ان پر نگاہ پڑ گئی جس نے دیکھتے ہی اندر گھس کر سر کے بال پکڑے اور بچاریوں کو گھسیٹتا ہوا باہر لے آیا۔ اگرچہ ان فوجیوں کو لاش کا حال معلوم ہو گیا تھا، مگر انہوں نے اس کی مطلق پروا نہ کی اور برابر لوٹ مار کرتے رہے۔ آخر قیمتی سامان کی گٹھریاں، لونڈیوں اور خود مرزا نو روز حیدر اور ان کے لڑکے ماہِ عالم کے سَر پر رکھیں اور بکریوں کی طرح ہانکتے ہوئے گھر سے باہر لے چلے۔ اس وقت مرزا نے اپنے لٹے ہوئے گھر کو آخری حسرت بھری نگاہوں سے دیکھا اور اپنی بیوی کی بے گور و کفن لاش کو اکیلا چارپائی پر چھوڑ کر سپاہیوں کے ساتھ کوچ کیا۔

    لونڈیوں کو تو بوجھ اٹھانے اور چلنے پھرنے کی عادت تھی۔ مرزا نو روز حیدر بھی قوی اور توانا تھے۔ بوجھ سَر پر اٹھائے بے تکان چل رہے تھے، مگر غریب ماہِ عالم کی بری حالت تھی۔ اوّل تو اس کے سَر پر بوجھ اس کی عمر اور بساط سے زیادہ تھا۔ اس کے علاوہ یہ شہزادہ قدرتی طور پر نہایت نازک اور کم زور واقع ہوا تھا۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ماں کے مرنے کا غم تھا۔ رات سے روتے روتے آنکھیں سوج گئی تھیں۔ خالی ہاتھ چلنے سے چکّر آتے تھے، کجا یہ نوبت کہ سَر پر بوجھ، پیچھے چمکتی ہوئی تلواریں اور جلدی چلنے کی قہر ناک تاکید۔ بچارے کے پاؤں لڑکھڑاتے تھے۔ دَم چڑھ گیا تھا۔ بدن پسینہ پسینہ ہو گیا تھا۔

    آخر نہایت مجبوری کی حالت میں باپ سے کہا، ’’ابّا حضرت! مجھ سے تو چلا نہیں جاتا۔ گردن بوجھ کے مارے ٹوٹے جاتی ہے۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا آ رہا ہے۔ ایسا نہ ہو گر پڑوں۔‘‘

    باپ سے اپنے لاڈلے اکلوتے بچّے کی یہ مصیبت بھری باتیں سنی نہ گئیں۔ اس نے مڑ کر سپاہی سے کہا، ’’صاحب! اس بچّے کا اسباب بھی مجھ کو دے دو۔ یہ بیمار ہے گر پڑے گا۔‘‘ گورا مرزا کی زبان بالکل نہ سمجھا اور اس طرح ٹھہرنے اور بات کرنے کو گستاخی اور بد نیتی سمجھ کر دو تین مکّے کمر میں مارے اور آگے دھکا دیا۔

    مظلوم مرزا نے مار بھی کھائی، مگر مامتا کے مارے لڑکے کا بوجھ بغل میں لے لیا۔ گورے کو یہ حرکت بھی پسند نہ آئی اور اس نے جبراً مرزا سے گٹھری لے کر ماہِ عالم کے سَر پر رکھ دی اور ایک گھونسا اس بیکس و ناتواں کے بھی مارا۔ گھونسا کھا کر ماہِ عالم آہ کہہ کر گر پڑا اور بے ہوش ہوگیا۔

    مرزا نو روز اپنے لختِ جگر کی حالت دیکھ جوش میں آگئے اور اسباب پھینک کر ایک مکّا گورے کے کلّے پر رسید کیا اور پھر فوراً ہی دوسرا گھونسا اس کی ناک پر مارا جس سے گورے کی ناک کا بانسہ پھٹ گیا اور خون کا فوّارہ چلنے لگا۔ سکھ سپاہی دوسری طرف چلے گئے تھے۔ اس وقت فقط دو گورے ان قیدیوں کے ساتھ تھے اور کیمپ کو لیے جا رہے تھے۔ دوسرے گورے نے اپنے ساتھی کی یہ حالت دیکھ کر مرزا کے ایک سنگین ماری مگر خدا کی قدرت سنگین کا وار اوچھا پڑا اور وہ مرزا کی کمر کے پاس سے کھال چھیلتی ہوئی نکل گئی۔

    تیموری شہزادہ نے اس موقع کو غنیمت جانا اور لپک کر ایک مکّا اس گورے کی ناک پر بھی مارا۔ یہ مکّا بھی ایسا کاری پڑا کہ ناک پچک گئی اور خون بہنے لگا۔ گورے یہ حالت دیکھ کر پستول و کرچ تو بھول گئے اور یک بارگی دونوں کے دونوں مرزا کو چمٹ گئے اور گھونسوں سے مارنے لگے۔

    لونڈیوں نے جو یہ حالت دیکھی تو اسباب پھینک رستہ کی خاک مٹھیوں میں بھر کر گوروں کی آنکھوں میں جھونک دی۔ اس ناگہانی آفت سے گورے تھوڑی دیر کے لیے بیکار ہوگئے اور ان کی کرچ مرزا کے ہاتھ آگئی۔ مرزا نے فوراً کرچ گھسیٹ لی۔ ایک ایسا بھر پور ہاتھ مارا کہ کرچ نے شانہ سے سینے تک کاٹ ڈالا۔ اس کے بعد دوسرے گورے پر حملہ کیا اور اسے بھی ذبح کر دیا۔ ان دونوں کو ہلاک کر کے ماہِ عالم کی طرف متوجہ ہوئے۔ وہ بالکل بے ہوش تھا۔ باپ کے گود میں لیتے ہی آنکھیں کھول دیں اور باہیں گلے میں ڈال کر رونے لگا۔

    مرزا اسی حالت میں تھے کہ پیچھے سے دس بارہ گورے اور سکھ سپاہی آگئے اور انہوں نے اپنے دوساتھیوں کو خون میں نہایا دیکھ کر مرزا کو گھیر لیا اور لڑکے سے جدا کر کے حال پوچھا۔ مرزا نے سارا واقعہ سچ سچ کہہ دیا۔ سنتے ہی گوروں کی حالت غصّہ سے غیر ہوگئی۔ انہوں نے پستول کے چھے فائر ایک دم کر دیے، جن سے زخمی ہو کر مرزا گر پڑے اور آناً فاناً میں تڑپ کر مرگئے۔ مرزا نو روز کی لاش کو وہیں چھوڑ دیا گیا اور ماہِ عالم کو لونڈیوں سمیٹ پہاڑی کے کیمپ میں لے گئے۔

    جب دہلی کی فتح سے اطمینان ہو گیا تو لونڈیاں دو مسلمان پنجابی افسروں کو دے دی گئیں اور ماہِ عالم ایک انگریز افسر کی خدمت گاری پر مامور ہوئے۔ جب تک یہ انگریز دہلی میں رہے، ماہِ عالم کو زیادہ تکلیف نہ تھی، کیوں کہ صاحب کے پا س کئی خانساماں اور نوکر چاکر تھے۔ اس واسطے زیادہ کام کاج نہ کرنا پڑتا تھا لیکن چند روز کے بعد یہ صاحب رخصت لے کر ولایت چلے گئے اور ماہِ عالم کو ایک دوسرے افسر کے حوالے کر گئے، جو میرٹھ چھاؤنی میں تھے۔

    ان افسر کا مزاج تند تھا۔ بات بات پر ٹھوکریں مارتے تھے۔ ماہِ عالم اس مار دھاڑ کو برداشت نہ کر سکے اور ایک دن بھاگنے کا ارادہ کیا۔ چنانچہ پچھلی رات کو گھر سے نکلے۔ پہرے دار نے ٹوکا تو کہہ دیا فلاں صاحب کا نوکر ہوں اور ان کے کام کو فلاں گاؤں میں جاتا ہوں تاکہ سویرے ہی پہنچ جاؤں۔ اس حیلہ سے جان بچائی اور جنگل کا راستہ لیا۔

    چھوٹی عمر، راستہ سے بے خبر، پکڑے جانے کا خوف، عجب مایوسی کا عالم تھا۔ آخر بہ ہزار دقّت صبح ہوتے ہوتے میرٹھ سے تین چار کوس کے فاصلہ پر پہنچ گئے۔ سامنے گاؤں تھا۔ وہاں جاکر ایک مسجد میں ٹھہر گئے۔ مُلا صاحب نے سوالات شروع کیے، تُو کون ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟ کہاں جائے گا؟ ماہِ عالم نے ان کو بھی باتوں میں ٹالا۔ یہاں ایک فقیر بھی ٹھہرے ہوئے تھے۔ انہوں نے جو ماہِ عالم کی شریفانہ صورت دیکھی تو محبت سے پاس بلایا اور رات کی بچی ہوئی روٹی سامنے رکھی۔ ماہِ عالم نے شاہ صاحب کو ہمدرد پا کر اپنی مصیبت کی داستان اوّل سے آخر تک سنائی۔ شاہ صاحب یہ کیفیت سن کر رونے لگے اور ماہِ عالم کو سینہ سے لگا کر بہت پیار کیا اور تسلّی کی باتیں کرنے لگے۔ اس کے بعد کہا اب تم فکر نہ کرو میرے ساتھ رہو۔ خدا حافظ و ناصر ہے۔

    چناں چہ انہوں نے ایک رنگین کُرتا ان کو پہنا دیا اور ساتھ لے کر چل کھڑے ہوئے۔ دو چار روز تو یہ حالت رہی کہ جہاں ماہِ عالم نے کہا، ’’حضرت! اب تو میں تھک گیا۔‘‘ تو کسی گاؤں میں ٹھہر جاتے، لیکن پھر ان کو بھی چلنے کی عادت ہو گئی اور پوری منزل چلنے لگے۔ مہینہ بھر میں اجمیر شریف پہنچے۔ یہاں ان صاحب کے پیر جو بغداد کے رہنے والے تھے، ملے۔ ان پیر صاحب کو جب ماہِ عالم کا حال معلوم ہوا تو وہ بھی مہربانی سے پیش آئے اور ان دونوں کو ساتھ لے کر بمبئی چلے گئے۔ بمبئی کے قریب باندرہ میں شاہ صاحب رہتے تھے۔ وہیں ان کو بھی رکھا اور کئی برس یہاں رہ کر ماہِ عالم نے قرآن شریف اور مسئلہ مسائل کی کتابیں پڑھیں اور نماز روزے سے خوب واقف ہوگئے۔

    (ممتاز ادیب، صحافی اور مضمون نگار خواجہ حسن نظامی کے قلم سے، انھوں‌ نے غدر 1857ء کے بعد شاہی خاندان کی شخصیات پر پڑنے والی افتاد کا تذکرہ نہایت درد ناک انداز میں‌ کیا ہے، یہ تحریر ان کے ایک مجموعہ مضامین سے منتخب کی گئی ہے)

  • مسجد جسے اسلحہ ڈپو، کوٹھی اور ریلوے کنٹرول روم کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا

    مسجد جسے اسلحہ ڈپو، کوٹھی اور ریلوے کنٹرول روم کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا

    لاہور کی دائی آنگہ مسجد شاہ جہاں کی ایک دایہ کی یادگار اور مغل دور کی نشانی ہے۔

    مشہور ہے کہ دائی آنگہ یا دائی انگہ کے خاندان کی شخصیات مغلیہ دربار سے وابستہ تھیں اور پیدائش کے بعد شاہ جہاں‌ کو دائی آنگہ کے سپرد کیا گیا تھا۔ دایہ کا اصل نام زیبُ النسا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کے شوہر مراد خان شہنشاہ جہاں گیر کے دور میں بیکانیر کے منصف کے عہدے پر فائز تھے، ان کی زوجہ کا شاہی محل میں‌ آنا جانا تھا جنھیں مغل شہزادے کی دایہ منتخب کیا گیا۔

    کہتے ہیں‌ کہ دائی آنگہ نے حج پر جانے سے قبل یہ مسجد تعمیر کروائی تھی جب کہ بعض جگہ لکھا ہے کہ دائی آنگہ کی خواہش پر مغل شہزادہ نے یہ عبادت گاہ تعمیر کرنے کا حکم دیا تھا۔

    اس مسجد کی دیواروں اور میناروں پر پچی کاری کا کام کیا گیا ہے۔ مسجد کا ایک بڑا صحن اور اس میں بنایا گیا تالاب اس کی خوب صورتی اور حُسن بڑھاتا تھا۔ یہ مسجد 1045ء میں تعمیر کی گئی تھی۔

    مغل دور کی یہ نشانی اور شاہی محل تک رسائی رکھنے والی دائی آنگہ کی اس یادگار کو مہاراجا رنجیت سنگھ کے زمانے میں گولہ بارود جمع کرنے کے لیے استعمال کیا جانے لگا تھا جس سے مسلمانوں‌ کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچی اور وہ رنجیدہ و ملول ہوئے، لیکن اس کے خلاف کچھ کر نہیں‌ سکے۔ پھر ہندوستان پر انگریز راج قائم ہوگیا اور لاہور کے کمشنر ہنری کوپ نے بھی اس بات کی پروا نہ کی کہ یہ مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے۔ اس نے انتظامیہ کی اجازت سے مسجد دائی آنگہ کو کوٹھی میں تبدیل کردیا اور اسے رہائش گاہ کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔

    بعد میں‌ جب یہاں ریلوے اسٹیشن بنایا گیا تو مسجد کو ریلوے سپرنٹنڈنٹ کے سپرد کر دیا گیا جو اسے کنٹرول روم کے طور پر استعمال کرنے لگا۔

    نومبر 1901ء میں منشی دین محمد نے اپنے اخبار کے ذریعے انگریز سرکار سے احتجاج کیا اور اس عمل کے خلاف آواز اٹھائی تو اس وقت کے مسلمان اکابرین اور دیگر پریس نے بھی ان کا ساتھ دیا، مسلمانوں‌ کا یہ احتجاج شدّت اختیار کرگیا تو انگریز سرکار نے 1903ء میں اس مسجد کو مسلمانوں کے حوالے کر دیا اور اسے دوبارہ عبادت گاہ کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔

  • "بندوبست دوامی” کیا ہے؟

    "بندوبست دوامی” کیا ہے؟

    1800 میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال میں زمینوں کا محصول اکٹھا کرنے کی غرض سے نئے قانون کے تحت ایک نیا زمین داری نظام شروع کیا جسے بندوبست دوامی (Permanent Settlement) کہا جاتا ہے۔

    ایسٹ انڈیا کمپنی سے پہلے ہندوستان کی مغلیہ حکومت مختلف علاقے ایک ایک سال کے لیے پٹے پر دیا کرتی تھی اور ہر سال ان علاقوں کی نیلامی ہوتی تھی۔ سب سے زیادہ بولی لگانے والے کو ایک سال کے لیے زمین داری مل جاتی تھی۔

    مغلوں کے دیوان (اہل کار) نہ صرف بولی لگانے والے زمین داروں سے ٹیکس وصول کرتے تھے بلکہ وہ اس بات کا بھی خیال رکھتے تھے کہ کہیں رعایا کے ساتھ غیر ضروری سختی نہ برتی جائے۔

    دیوان کو یہ اختیار بھی تھا کہ عوامی شکایات اور ان کی بے چینی کو دیکھتے ہوئے زمین داری کا معاہدہ ختم کر دیں۔

    بعد میں معاہدہ الٰہ باد میں شاہ عالم دوّم نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو پورے بنگال کی دیوانی عطا کی اور اس کے علاوہ 50 لاکھ روپے بطور تاوان جنگ بھی انگریزوں کو ادا کیے گئے تو انگریزوں نے ٹیکس اکٹھا کرنے کا قانونی اختیار حاصل کرلیا، لیکن ماہر اسٹاف کی کمی کی وجہ سے انگریزوں کو اس میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ 1770 کا قحط پڑا تو انتظامیہ کی امور میں‌ کم زوریاں بھی سامنے آئیں۔

    اس کے بعد 1786 میں لارڈ چارلس کارنوالس گورنر جنرل بن کر ہندوستان آیا اور اسی نے 1790 میں دس سال کے لیے بندوبست دوامی (Permanent Settlement) کا نظام نافذ کیا جسے 1800 میں مستقل کر دیا گیا۔

    اس نظام میں ہر سال نیلامی کے بجائے ایک بار نیلامی اور آئندہ ہر سال اسی بولی کو زمین کا ٹیکس مقرر کیا گیا تھا۔

  • سعدُاللہ نے شاہ جہاں کی مشکل کا کیا حل نکالا؟

    سعدُاللہ نے شاہ جہاں کی مشکل کا کیا حل نکالا؟

    خاندان مغلیہ کے نام ور حکم راں شاہ جہاں جب سریر آرائے سلطنت ہوئے تو اس وقت کے شاہِ ایران نے بہ ذریعہ قاصد ایک خط روانہ کیا اور اعتراضاً لکھا کہ آپ تو ہند کے فرماں روا ہیں، ہند کو آپ نے ”جہاں“ کس طرح تصور کرلیا ہے۔

    اعتراض معقول تھا۔ بادشاہ کو متردد دیکھ کر اعیانِ سلطنت بھی پریشان ہوگئے۔ شاہ جہاں نے پورے اپنے زیرِ قبضہ ملک میں ڈھنڈورا پٹوا دیا کہ جو صاحب بھی اس کا مدلل جواب دینا چاہیں بلاتکلف دہلی تشریف لائیں، انہیں منہ مانگا انعام دیا جائے گا۔

    ہر شخص عوام و خواص میں غور و فکر کرنے لگا، لیکن معقول جواب کسی کی سمجھ میں نہ آسکا۔

    پنجاب میں ”چنیوٹ“ ایک علاقہ ہے، وہاں ایک اوسط درجے کے زمین دار سعدُ اللہ نے بھی یہ اعلان سنا اور ایک نکتہ اس مسئلہ کے حل میں سوجھ گیا۔

    وہ فوراً دہلی پہنچے، اس وقت شاہ جہاں کے درباری شاعر ملک الشعرا ابوطالب کلیم تھے، ان سے سعدُ ﷲ کی ملاقات ہوگئی۔ وہ بھی اسی فکر میں تھے، ان دنوں ہر طرف اسی بات کا تذکرہ تھا چوں کہ سعد ﷲ کی شخصیت اس وقت گم نام تھی، انہوں نے کہا میں جواب دے سکتا ہوں۔

    کلیم کو تعجب ہوا اور خوشی میں پوچھا کس طرح؟ سعدُ ﷲ نے صرف دو سطریں کاغذ پر لکھ کر دے دیں تاکہ کوئی اور نہ جان سکے۔

    ابوطالب کلیم نے اسی وقت شاہ جہاں کی طرف سے دعا سلام کے بعد ایک شعر اسی مضمون کو سمیٹتے ہوئے جو سعدُ ﷲ نے بتایا تھا، فی البدیہہ موزوں کیا، صفحہ قرطاس پر رقم کرکے ریشمی غلاف میں لپیٹ کر شاہ جہاں سے مہر لگوا کر قاصد کے ہاتھ شاہَ ایران کو بھیج دیا۔ اس وقت شاہ جہاں کو بھی تفصیل نہیں بتائی۔ بس اتنا کہا مدلل جواب ہے۔ آپ اطمینان رکھیں، جلد شکریہ کا خط آئے گا۔

    چند دن میں قاصد واپس آگیا۔ شاہ ایران نے لکھا تھا، جس نے بھی یہ مضمون تلاش کیا اگر آپ کے یہاں وہ کوئی حیثیت کا حامل نہیں تو بھیج دیں، میں اس کو وزیراعظم بناؤں گا وہ اس کا مستحق ہے۔

    اب شاہ جہاں نے اس خوشی کے موقع پر دربار سجایا۔ ملک الشعرا ابوطالب کلیم اپنے ساتھ سعدُ ﷲ خاں کو لے کر دربار میں پہنچے۔

    شاہ جہاں نے کلیم سے دریافت کیاکہ کیا لکھ کر روانہ کیا تھا۔ ابوطالب کلیم نے سعدُ ﷲ کا تعارف کراتے ہوئے کہا۔ یہ صاحب آپ کا اعلان سن کر چنیوٹ سے تشریف لائے تھے۔ انہوں نے ایسی مدلل بات بتائی جسے میں نے ایک شعر میں موزوں کرکے بھیج دیا تھا۔ وہی شعر پھر لکھ کر پیش کردیا۔

    ہند و جہاں زروئے عدد چوں برابر است
    برما خطاب شاہ جہاں زان مسلم است

    (حساب ابجد کے طریقے سے ہند و جہاں ہم عدد ہوتے ہیں، دونوں کے عدد ”59“ ہوتے ہیں اس لیے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہند لکھوں کہ جہاں)

    شاہ جہاں نے اس نکتے کی بہت تعریف کی، کلیم کو انعام سے مالا مال کردیا اور جس نے یہ نکتہ بتایا اس کو پورے چنیوٹ کا نواب کردیا اور اپنا وزیراعظم۔

    یہ تھے نواب سعدُ ﷲ خاں جو ساری عمر شاہ جہاں کے وزیراعظم رہے۔

    ("کتاب نما”، نئی دہلی، فروری 2001 کے شمارے سے انتخاب)