Tag: مغل اعظم

  • وہ فلم جس کے 15 کروڑ ٹکٹس بکے، آج بنتی تو 4 ہزار کروڑ کا بزنس کرتی!

    وہ فلم جس کے 15 کروڑ ٹکٹس بکے، آج بنتی تو 4 ہزار کروڑ کا بزنس کرتی!

    بھارتی فلم انڈسٹری کی ایک فلم ایسی بھی ہے جس کے 15 کروڑ ٹکٹس بکے تھے اور وہ آج کے دور میں بنتی تو 4 ہزار کروڑ روپے کماتی۔

    فلم کی مذکورہ کمائی کا حساب آج کے دور کے افراطِ زر کے حساب سے لگایا گیا ہے اور وہ ہندی سینما کی بلاک بسٹر فلموں شعلے، دنگل، باہوبلی، یا آر آر آر میں سے کوئی بھی نہیں ہے بلکہ وہ شاہکار ترین فلم ’مغل اعظم‘ ہے جس کے لوگ آج بھی مداح ہیں۔

    سنیما میں ٹکٹ کی اوسط قیمت 2023 میں 130 روپے تھی اسی لحاظ سے پچھلے 10 سالوں میں سب سے 10 سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلمیں ریلیز ہوئی ہیں اور روپوں میں ان کی کمائی زیادہ ہونے کا سبب افراطِ زر بھی ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ فلموں کی مجموعی آمدنی کو افراط زر کے حساب سے ایڈجسٹ کرکے ہی ان کی صحیح معنوں میں اصل کمائی کا پتا لگایا جاسکتا ہے۔

     

    مغل اعظم، کے آصف کی شاہکار فلم جو ہندوستان کی سب سے زیادہ پسند کی جانے والی اور کامیاب فلموں میں سے ایک ہے، جب یہ 1960 میں سینما گھروں میں ریلیز ہوئی تو اس فلم نے دنیا بھر میں 11 کروڑ روپے کمائے تھے، جو اس وقت سب سے زیادہ کمانے والی ہندوستانی فلم بن گئی تھی۔

    اس دور میں ٹکٹ کی اوسط قیمت ایک روپے سے بھی کم تھی اور فلم کا 11 کروڑ روپے کمانا یہ ایک بہت بڑی تعداد تھی۔ اگر 2024 کے لیے افراط زر کو ایڈجسٹ کیا جائے تو یہ اعداد و شمار 4000 کروڑ روپے کے برابر بنتے ہیں۔

    ایک اندازے کے مطابق مغل اعظم کے دنیا بھر میں 15 کروڑ سے زیادہ ٹکٹیں فروخت ہوئی تھیں، جو آج کے دور میں ناقابل تصور تعداد ہے، شاہ رخ خان کی فلم جوان کے اس کے مقابلے میں محض 5 کروڑ ٹکٹ فروخت ہوئے

    کہتے ہیں کہ فلم مغل اعظم کا جنون اتنا زیادہ تھا کہ ممبئی کے مراٹھا مندر میں کچھ ٹکٹ بلیک میں اس وقت 100 روپے میں فروخت ہوئے جو آج 9000 کے برابر بنتے ہیں۔

    ویسے اگر ہم ہندوستانی سنیما کی تاریخ کے سب سے بڑے بلاک بسٹرز کی بات کی جائے تو اس میں سب سے زیادہ کمائی کرنے والی بھارتی فلم کا ٹیگ دنگل کے نام ہے جس نے دنیا بھر سے 2920 روپے کمائے تھے۔

  • کراچی میں بننے والی پہلی فلم اور بابائے اردو مولوی عبدُالحق

    کراچی میں بننے والی پہلی فلم اور بابائے اردو مولوی عبدُالحق

    تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان میں‌ فلمی صنعت کے قیام کے ساتھ ہی ایسے اسٹوڈیوز کی بھی ضرورت تھی جو فلم سازی کے جدید آلات اور مشینری کے ساتھ وسیع اور تمام سہولیات سے آراستہ ہوں۔ اس وقت کئی نام ور اور مال دار فلم سازوں نے اسٹوڈیو بنائے اور پاکستان میں فلمی صنعت کے سفر کا آغاز ہوا۔ یہاں ہم اُس فلم کا تذکرہ کررہے ہیں‌ جسے عروسُ البلاد کراچی میں بننے والی پہلی فلم کہا جاتا ہے۔

    اس فلم کا نام ”ہماری زبان” تھا۔ اس فلم کی ایک اہم بات یہ تھی کہ اس کے چند مناظر میں‌ مولوی عبدالحق بھی بہ طور اداکار نظر‌ آئے۔ انھیں‌ بابائے اردو کہا جاتا ہے اور اس وقت بھی ان کا نام زبان اور ادب کے حوالے سے نہایت معتبر تھا۔ لوگ ان کی بڑی عزّت کرتے تھے اور اس موضوعاتی فلم میں بطور اداکار ان کا نام شامل ہونا عام لوگوں کے لیے ایک نہایت مختلف بات تھی۔

    اس فلم میں‌ پاکستان کی قومی زبان اردو سے متعلق یہ کلام شامل تھا:

    ہماری زبان اردو، قومی زبان اردو
    اونچا رہے گا ہر دم نام و نشانِ اردو

    یہ فلم 10 جون 1955ء کو نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ فلم ساز کا نام ایم آر خان تھا جب کہ مصنّف اور ہدایت کار شیخ حسن تھے۔ کراچی میں بننے والی اس فلم کے اداکاروں میں بینا، شیخ حسن، نعیم ہاشمی، رشیدہ، لڈن اور بندو خان شامل تھے۔ بدقسمتی سے یہ ایک ناکام فلم ثابت ہوئی اور چند ہفتوں سے زیادہ اس کی نمائش جاری نہ رہ سکی، لیکن ہماری زبان نامی اس فلم نے شہر کراچی میں فلمی صنعت کی بنیاد ضرور رکھ دی۔

    یہ ڈاکیومینٹری کے طرز کی ایک فلم تھی، جس کا دورانیہ ایک عام فیچر فلم سے کم تھا۔ اوّلین ریلیز کے بعد یہ فلم دوبارہ پردے پر پیش نہیں کی جاسکی اور نہ ہی بعد میں‌ اس کا کوئی ذکر کہیں ہوا۔

  • سنیما اور اردو زبان….

    سنیما اور اردو زبان….

    ہندوستانی فلموں پر ہونے والی گفتگو اردو زبان اور اس کی تہذیب کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ ہندوستانی فلموں نے اردو کی آغوش میں آنکھیں کھولیں اور اردو زبان کو اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا۔

    پہلی ہندوستانی فلم ’عالم آرا‘ پر غور کیا جائے تو یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اس کی کہانی، مکالمے، نغمے، برتاؤ وغیرہ سب کے سب اردو کے رنگ میں ہیں۔ اس فلم کے مکالمے کی زبان اردو تھی جسے عوامی سطح پر بے حد مقبولیت حاصل تھی۔ اس فلم کے ہِٹ ہونے میں مکالمے کا اہم رول رہا۔ اس پہلی متکلم فلم ’عالم آرا‘ کے مکالمے منشی ظہیر نے لکھے تھے جو اردو میں تھے۔

    عالم آرا سے لے کر اب تک کی تمام ہندوستانی فلمیں اگر کام یابی سے ہم کنار ہوئیں تو اس میں مکالمے کا رول اہم رہا ہے۔ ابتدا میں موسیقی سے لبریز فلمیں شائقین کے لیے لطف اندوزی کا ذریعہ تھیں، مگر سنیما صنعت کی ترقی کے ساتھ رواں دواں زندگی کی پیش کاری کے لیے جہاں کئی ذرائع اظہار استعمال کیے گئے، وہیں جذبات و احساسات کے حسین اور پُر اثر اظہار کے لیے مکالمے کو بہترین آلۂ کار مانا گیا۔ بولتی فلموں کے آغاز سے اب تک مکالمے کی اہمیت برقرار ہے۔ ہزاروں مکالمے پسندیدگی کی سند پا چکے ہیں اور خاص و عام کی زبان پر جاری ہیں۔ جہاں بھی فلموں میں پُر اثر اداکاری کا ذکر ہوتا ہے وہیں مشہور ڈائلاگ برسوں تک شائقین بھول نہیں پاتے۔

    آخر مکالمے میں ایسی کیا بات ہے کہ فلموں میں اس کی اتنی اہمیت ہے۔ اس کو تعریف کا جامہ کس طرح عطا کر سکتے ہیں، اس سلسلے میں فلموں سے وابستہ فن کاروں کی رائے سود مند ہو سکتی ہے اور ان نکات پر گفتگو کی جا سکتی ہے جن کی طرف آرٹسٹوں نے توجہ دلائی ہے۔ جناب احسن رضوی جنھوں نے فلم مغلِ اعظم کے کچھ مکالمے لکھے، ان کے مطابق ’’مکالمہ وہ پیرایۂ گفتگو ہے جو کہانی کی تمام ضرورتوں پر حاوی ہو۔‘‘ انھوں نے کہانی اور منظرنامے میں مکالمے کی بنیادی حیثیت کو قبول کیا ہے۔ جدید شاعری کا اہم ترین نام اخترالایمان تقریباً چالیس سال تک فلموں سے وابستہ رہے۔ کہانیاں، شاعری اور مکالمے انھوں نے فلموں کے لیے لکھے۔

    فلم کی کام یابی کے لیے جن نکات پر محنت کی جاتی رہی ہے ان میں مکالمہ بھی ایک ہے۔ مکالمے صرف تحریر نہیں کیے جاتے ہیں بلکہ اس کی قرأت کو ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ مکالمہ نویس اور اداکار کے درمیان مکالمے پر تبادلۂ خیال کو ضروری تصور کیا جاتا ہے۔ اداکار کو اس بات کے لیے تیّار کیا جاتا ہے کہ مکالمے اس انداز سے ادا کیے جائیں جو اس زبان کی اصلیت کو برقرار رکھے۔ اس کے لیے باضابطہ طور پر آدمی بحال کیے جاتے ہیں۔

    اردو زبان کی ہمہ گیری اور مقبولیت کے پیشِ نظر فلموں کے مکالمے میں صرف الفاظ استعمال نہیں ہوتے ہیں بلکہ لہجہ بھی اردو والا ہی ہوا کرتا ہے۔ چند مکالمے ملاحظہ کیجیے اور ان میں اردو کی جلوہ گری محسوس کیجیے۔

    ’’آج میرے پاس گاڑی ہے، بنگلہ ہے، پیسہ ہے، تمہارے پاس کیا ہے؟‘‘۔۔۔۔ ’’میرے پاس، میرے پاس ماں ہے۔‘‘

    ’’آپ کے پاؤں بہت حسین ہیں، انھیں زمین پر مت اتاریے گا، میلے ہو جائیں گے۔‘‘ (فلم پاکیزہ)

    ’’انار کلی، سلیم کی محبّت تمہیں مرنے نہیں دے گی اور ہم تمہیں جینے نہیں دیں گے۔‘‘ (فلم مغلِ اعظم)

    ’’بڑے بڑے شہروں میں چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔‘‘ (فلم دل والے دلہنیا لے جائیں گے)

    کبھی کبھی کچھ جیتنے کے لیے کچھ ہارنا پڑتا ہے۔ اور ہار کر جیتنے والے کو بازی گر کہتے ہیں۔‘‘ (فلم بازی گر)

    یہ وہ مکالمے ہیں جو فلم دیکھنے والے حضرات کو ازبر ہیں۔ عوام میں ان مکالموں کا استعمال روزمرّہ کی طرح ہوتا ہے۔ کسی زبان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس کو بولنے والے سے اثر انداز ہو کر اس کو جاننے کی سعی کرنا۔ اردو زبان کی خصوصیت ہے کہ دوسری زبانوں کو جاننے والے جب ان الفاظ کو سنتے ہیں تو اس کو سیکھنے کی للک ہوتی ہے۔ ہندی یا دوسری علاقائی زبانوں کو جاننے اور بولنے والے اردو کے الفاظ کا استعمال کرکے خوش ہوتے ہیں اور اس کے حُسن کی تعریف کرتے ہیں۔

    ہندوستانی فلموں کی ایک صد سالہ تاریخ کا مطالعہ کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ ’عالم آرا‘ سے اب تک کی فلموں میں مکالمے کی حیثیت کلیدی رہی ہے۔ بے حد کام یاب فلمیں یا باکس آفس پر سپر ہٹ ہو نے والی فلموں کی کام یابی کی وجہ اگر تلاش کی جائے تو جہاں دوسرے عناصر کا نام آئے گا وہیں مکالمے کو کسی طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

    (محمد منور عالم کے مضمون سے انتخاب)

  • فیاض اور دلیر ہدایت کار کے آصف کا تذکرہ

    فیاض اور دلیر ہدایت کار کے آصف کا تذکرہ

    فلموں کی تاریخ میں ‘کے آصف’ نے بڑی اونچی جگہ پائی ہے۔ وہ بڑے ہی فیاض اوردلیر آدمی تھے۔ انھوں نے ہلچل اور مغلِ اعظم بنائی۔ اس وقت جب کہ پچیس تیس لاکھ میں ایک عمدہ فلم مکمل ہوجاتی تھی، انھوں نے ایک کروڑ کی لاگت سے مغلِ اعظم بنائی۔

    اس فلم کا ہر کردار انگوٹھی کے نگینہ کی طرح فٹ تھا۔ مغل شہنشاہ اکبر کے رول میں پرتھوی راج کپور، رعب و دبدبہ میں اصلی شہنشاہ معلوم پڑتے تھے۔ شہزادہ سلیم کے رول میں دلیپ کمار، انار کلی کی رول میں مدھوبالا اور مہارانی کے رول میں درگا کھوٹے، وزیر اعظم راجہ مان سنگھ کے رول میں مراد، سپہ سالار کے رول میں اجیت اور سنگ تراش کے رول میں کمار تھے۔

    امتیاز علی تاج کے ڈرامے پر مبنی اس فلم کی نوک و پلک کو سنوارنے کے لیے ادیبوں کی ایک ٹیم تھی جن میں امان اللہ خان، وجاہت مرزا، اخترالایمان، کمال امروہی اور احسن رضوی شامل تھے۔ جب کہ ان میں سے ہر ایک رائٹر اپنی فلم کی کام یابی کے لیے اکیلا ہی کافی تھا۔

    ایک ہی سین کو ہر رائٹر اپنے اپنے ڈھنگ سے لکھتا اور جو سب سے اچھا اور مناسب ہوتا بااتفاقِ رائے اسے منتخب کرکے فلم میں شامل کیا جاتا۔ اس فلم کے سارے نغمے شکیل بدایونی نے لکھے تھے اور موسیقی نوشاد نے ترتیب دی تھی۔

    اس میں شامل نعت شریف ’بے کس پہ کرم کیجیے سرکارِ مدینہ‘ اور قوالی کا مقابلہ ”تیری محفل میں قسمت آزماکر ہم بھی دیکھیں گے“ اس کے علاوہ سارے نغمے فلم ریلیز ہونے سے قبل ہی مقبول ہوچکے تھے۔

    مغل حکومت کے رواج کے مطابق اس فلم میں انارکلی کو لسان الغیب خواجہ حافظ شیرازی کے دیوان سے فال کھولتے بھی دکھایا گیا ہے۔

    اس فلم کی تکمیل میں کے آصف نے فنانسر کے علاوہ اپنا مکان تک گروی رکھ دیا تھا۔ لیکن فلم کی کام یابی نے ان کے سارے قرضے چکا دیے۔ اس کے مکالمے اپنی فارسی زدگی کے باوجود جس طرح مقبول ہوئے وہ اردو کی چاشنی ہی کرامت تھی۔