Tag: مغل بادشاہ

  • بیگم ملکہ الزمانی کا تذکرہ جنھوں‌ نے اپنے سوتیلے بیٹے کو اقتدار دلوایا

    بیگم ملکہ الزمانی کا تذکرہ جنھوں‌ نے اپنے سوتیلے بیٹے کو اقتدار دلوایا

    پادشاہ بیگم کے خطابِ پرشکوہ سے سرفراز ہونے والوں میں پہلی خاتون مغل سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر کی ملکہ ماہم بیگم تھیں جب کہ آخری مقتدر پادشاہ بیگم ملکہ الزّمانی تھیں۔ وہ مغل شہنشاہ محمد شاہ کی زوجہ تھیں۔ 14 دسمبر 1789ء میں ملکہ الزمانی کا انتقال کرگئی تھیں۔

    یہ عالی شان شاہی خطاب حاصل کرنے والی بیگم ملکہ الزمانی خاتونِ اوّل یا سلطنتِ مغلیہ کی ملکہ تھیں اور اس خطاب نے مغل حرم میں اُن کی حیثیت سب پر نمایاں اور واضح کردی تھی۔

    ہندوستان کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے کہ شاہی خاندان کی عورتوں نے خواہ وہ ملکہ ہوں یا شہزادیاں سلطنت کے امور اور سیاست پر گہرا اثر ڈالا اور بلاواسطہ نہ سہی لیکن بالواسطہ ملک پر حکومت کی۔ مؤرخین نے اس ضمن میں ملکہ نور جہاں، چاند بی بی اور ملکہ حضرت محل کے ساتھ کئی دوسری شاہی بیگمات کے نام لیے ہیں۔ یہ خواتین محلاتی سازشوں میں بھی پیش پیش رہا کرتی تھیں اور ان کا مقصد اپنے بیٹوں کو مسندِ شاہی تک پہنچانا ہوتا تھا۔ اس کے لیے سازشیں رچانے کے ساتھ قتل تک کیے گئے، لیکن انہی میں بعض خواتین نے ملک کی سرحدوں کو وسعت دینے اور اپنے فہم و فراست سے کام لے کر جھگڑے نمٹانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ہندوستان کی شاہی بیگمات میں کچھ ایسی بھی ہیں جنھوں نے علم و ادب اور فن و ثقافت کے فروغ میں‌ بڑا کردار ادا کیا اور خود بھی شاعرہ اور نثر نگار تھیں۔

    سلطنتِ مغلیہ کی بیگم ملکہ الزمانی نے مغل شہنشاہ محمد شاہ کی زوجیت کے ساتھ تاریخ میں‌ بحیثیت مغل ملکہ 26 سال حکومت کرنے والی بڑی زیرک خاتون کے طور پر جگہ پائی۔ انھوں نے ہندوستان کی تاریخ کے کئی نشیب و فراز دیکھے۔ پادشاہ بیگم کی پیدائش 1703ء میں بنگال صوبہ میں ہوئی۔ اُس وقت ہندوستان پر اورنگزیب عالمگیر کی حکومت قائم تھی۔ بادشاہ بیگم کے والد فرخ سیر تھے جو بعد ازاں مغل شہنشاہ بنے۔ پادشاہ بیگم کی والدہ گوہر النساء بیگم تھیں۔ پادشاہ بیگم کا خطاب پانے والی مغل ملکہ کو اعلیٰ تعلیم دی گئی اور انھیں ذہین اور عالی دماغ لکھا گیا ہے جو اپنے شوہر محمد شاہ کے دور میں سیاسی و خارجی معاملات میں شریک رہیں۔ ان کا نکاح 1721ء میں محمد شاہ سے ہوا۔ نکاح کے بعد پہلے وہ ملکہ الزمانی کہلائیں اور پھر پادشاہ بیگم کا خطاب پایا۔ پادشاہ بیگم کا ایک فرزند شہریار شاہ بہادر متولد ہوا مگر وہ کم سنی میں انتقال کرگیا اور اس کے بعد کوئی اولاد نہ ہوئی۔ مغل شہنشاہ محمد شاہ کو قدسیہ بیگم کے بطن سےایک بیٹا احمد شاہ بہادر عطا ہوا اور اس کی تربیت ملکہ الزمانی نے کی اور محمد شاہ کی وفات کے بعد احمد شاہ بہادر کو تخت نشیں کروایا۔ یہ سیاسی طور پر ایک منظم حکمت عملی تھی جسے بیگم ملکہ الزمانی نے نبھایا۔

    پادشاہ بیگم سلطنت مغلیہ کے زوال کے دور میں وہ آخری ملکہ تھیں جن کو مکمل اختیار و اقتدار میسر رہا۔ وہ دربارِ شاہی، عدالتی نظام اور سیاسی معاملات میں بااقتدار ملکہ تھیں جن کی رائے واجب الاحترام سمجھی جاتی تھی۔ وہ محمد شاہ کے ابتدائی دورِ حکومت ہی میں نظام سلطنت سے وابستہ ہو گئی تھیں اور معاملات و انتظامات میں اپنی رائے دیتی تھیں۔ بعد میں پادشاہ بیگم کے خطاب سے سرفراز ہونے پر اُن کا اثر رسوخ بہت بڑھ گیا۔ 1748ء سے 1789ء تک وہ مغل دربار کی معزز ترین بزرگ ملکہ تصویر کی جاتی تھیں اور ان کو بہت عزت و احترام حاصل تھا۔

    بیگم ملکہ الزمانی نے دہلی کے لال قلعہ میں وفات پائی اور پرانی دہلی کے تیس ہزاری باغ میں ان کی تدفین کی گئی۔

  • دریائے راوی کے کنارے شہنشاہِ ہند کے جاہ و جلال کی ایک یادگار

    دریائے راوی کے کنارے شہنشاہِ ہند کے جاہ و جلال کی ایک یادگار

    برصغیر میں مغلیہ دورِ حکومت اور شاہانِ‌ وقت کی ذاتی زندگی اور ان کے انجام سے متعلق تاریخ بہت سی کہانیاں سمیٹے ہوئے ہے۔ یہاں ہم ذکر کریں گے مغل خاندان کے چوتھے شہنشاہ نور الدین محمد سلیم کی شخصیت، ان سے منسوب قصوں اور اس مقبرے کی جو آج بھی پرشکوہ اور قابلِ دید عمارت ہے۔ محمد سلیم نور الدین جہانگیر مشہور ہوئے اور لاہور میں ان کا مدفن اس عہدِ رفتہ کی یاد دلاتا ہے جس میں مغل خاندان بڑی شان و شوکت سے نسل در نسل راج کرتا رہا۔

    مؤرخین نے جہانگیر کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ حکمت عملی بنانے اور سلطنت کو مضبوط کرنے میں بہت اچھا تھا لیکن اسے فنون لطیفہ میں بہت دلچسپی تھی۔ شہنشاہ نے کئی پینٹنگز بھی تیار کیں جن میں ان کے پورٹریٹ بھی شامل تھے۔ برٹش میوزیم نے اس دور کی 74 پینٹنگز اکٹھی کی ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جہانگیر نے بنائی تھیں۔ اسی طرح‌ تزک جہانگیری بزبانِ‌ فارسی وہ کتاب ہے جو نورالدین جہانگیر کی تصنیف کردہ ہے اور اس میں شہنشاہ نے اپنے حالات و واقعات کو قلم بند کیا ہے۔

    مغل شہزادہ کا اصل نام سلیم تھا، اور اس کا سنہ پیدائش 1564ء بتایا جاتا ہے۔ وہ شہنشاہِ ہند اکبر کی رانی مریم الزّمانی کے بطن سے پیدا ہوا۔ شہزادہ سلیم نور الدین جہانگیر کے لقب سے 1605ء میں تخت نشین ہوا اور تین دہائیوں تک نہایت شان و شوکت سے ہندوستان پر حکومت کی۔ 8 نومبر 1627ء کو جہانگیر وفات پاگیا اور اُسے دریائے راوی کے کنارے واقع ملکہ نور جہاں کے باغ دلکشا کے وسط میں دفن کیا گیا۔ جہانگیر کا مقبرہ اُس کے بیٹے شاہجہاں نے مکمل کروایا تھا۔ اس مقبرہ کو مغل دور کی خوب صورت عمارتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ حسین یادگار دریائے راوی کے دوسرے کنارے یعنی شاہدرہ کی طرف سے لاہور آتے ہوئے نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔

    مؤرخین کے مطابق مقبرۂ جہانگیر کی تعمیر کا آغاز ملکہ نور جہاں نے کیا تھا، لیکن اس کی تکمیل شاہ جہاں کے زیرِ نگرانی اور اس کے حکم پر ہوئی۔ جہانگیر ہندوستان کے مشہور ترین مغل بادشاہوں میں سے ایک ہے جس نے تخت نشینی کے بعد ملکی اداروں میں کئی اصلاحات کیں۔ بادشاہ سے متعلق کئی قصے بھی مشہور ہیں جن میں مبالغہ آرائی بھی ہے اور اکثر مستند واقعات نہیں ہیں۔ البتہ مشہور ہے کہ اپنے محل کی دیوار کے ساتھ فریادیوں کے لیے بادشاہ نے ایک زنجیر لگوا دی تھی اور اسے زنجیرِ عدل کا نام دیا تھا۔ یوں اس عہد میں ہر کوئی اپنی شکایت بآسانی بادشاہ تک پہنچا سکتا تھا۔ اس زنجیر کو ہلا کر شہنشاہ جہانگیر تک اپنی شکایت پہنچانے والوں کو انصاف بھی ملا یا یہ محض نمائشی زنجیر تھی اس پر مؤرخین اور محققین نے بہت کچھ لکھا ہے، لیکن صدی دو صدی پہلے بھی جو کتابیں‌ مغل خاندان اور حکم رانوں پر تحریر کی گئی ہیں ان میں بادشاہوں کی رحم دلی، سخاوت اور ان کے انصاف پر مبنی کئی قصّے پڑھنے کو ملتے ہیں اور جہانگیر کی ایک اچھی تصویر ہمارے سامنے لاتے ہیں۔ اس شہنشاہ کے حکم پر ملک کے طول و عرض میں شاہراہیں، سرائے، کنویں اور مساجد بھی تعمیر کروائی گئیں۔

    کہتے ہیں‌ کہ شہنشاہ جہانگیر کو بھی اپنے باپ اکبر کی طرح لاہور سے بہت زیادہ انسیت اور لگاؤ تھا۔ اس نے 1622ء میں لاہور کو دارالسلطنت بنایا اور اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ اسے موت کے بعد لاہور میں دفن کیا جائے۔ یہ بھی مشہور ہے کہ جہانگیر کی قبر پر روزانہ قرآن خوانی کی جاتی تھی اور اس کے لیے حفاظ مقرر تھے۔ بعد میں پنجاب پر سکھوں نے حکومت قائم کی تو یہ سلسلہ ترک کر دیا گیا۔

    جہانگیر کی چہیتی ملکہ نور جہاں نے اس مقبرہ کےساتھ ایک خوبصورت مسجد بھی تعمیر کروائی تھی۔ اس احاطے میں‌ کئی رہائشی کمرے بھی تھے اور نور جہاں بھی یہیں دفن ہوئی۔ آج بھی مقبرۂ جہانگیر لاہور کی قدیم عمارت اور مغل دور کی ایک عظیم یادگار کے طور پر دیدنی ہے اور ملک بھر سے سیر و سیاحت کے لیے آنے والے یہاں ضرور حاضری دیتے ہیں۔ اس مقبرہ کے چاروں کونوں پر خوبصورت مینار موجود ہیں۔ ہر مینار 100 فٹ بلند ہے اور اس کی 61 سیڑھیاں ہیں۔ مقبرے کی عمارت ایک مربع نما چبوترے پر ہے۔ قبر کا تعویذ سنگ مرمر کا ہے اور اس پر عقیق، لاجورد، نیلم، مرجان اور دیگر قیمتی پتھروں سے گلکاری کی گئی ہے۔ جہانگیر کے مزار کے چاروں جانب سنگِ مرمر کی جالیاں دکھائی دیتی ہیں جن کی وجہ سے سخت گرم موسم میں بھی یہ ہال حدّت سے محفوظ رہتا ہے۔ مقبرے کا اندرونی فرق مختلف قیمتی پتھروں سے مزین ہے۔ مقبرۂ جہانگیر کا غربی دروازہ اتنا بلند ہے کہ اس میں سے ہاتھی مع سوار کے گزر سکتا تھا۔

    بعد میں ہندوستان اور پنجاب پر نادر شاہ اور احمد شاہ کی افواج کے حملوں اور سکھوں کے دور میں مقبرۂ جہانگیر کو بہت نقصان پہنچا۔ اس کے باوجود آج بھی اس عمارت کی شان و شوکت برقرار ہے اور یہ ہمیں عہدِ رفتہ کی یاد دلاتی ہے۔

  • اورنگزیب عالمگیر: مغل بادشاہ جس نے مذہبی رواداری کو فروغ دیا

    اورنگزیب عالمگیر: مغل بادشاہ جس نے مذہبی رواداری کو فروغ دیا

    اورنگزیب عالمگیر کا دورِ حکومت 49 سال پر محیط ہے اور ان کے دور میں پہلی بار تقریباً پورا برصغیر مغلیہ سلطنت کا حصّہ بن گیا تھا۔ احمد نگر میں بیماری کے باعث 3 مارچ 1707ء کو اورنگزیب عالمگیر نے اس فانی دنیا کو خیرباد کہا۔ آج اس مغل بادشاہ کا یومِ وفات ہے۔ اورنگزیب عالمگیر کو ان کی وصیت کے مطابق خلد آباد میں دفن کیا گیا۔

    زندگی کے آخری دنوں میں اورنگزیب اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کامبخش کی ماں ادے پوری کے ساتھ رہے جو ایک گلوکارہ تھی۔ مؤرخین کے مطابق بسترِ مرگ پر مغل بادشاہ نے اپنے بیٹے کو ایک خط میں لکھا کہ ادے پوری بیماری کے اس وقت میں ان کے ساتھ ہیں اور موت کے موقع پر بھی ساتھ ہوں گی۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ اورنگزیب کو ایک کچی قبر میں اتارا گیا تھا۔ اسی سال جب اورنگزیب کے انتقال کو چند ماہ گزرے تھے ادے پوری بھی چل بسی تھی۔

    مغل بادشاہ اورنگزیب تین نومبر 1618 میں پیدا ہوئے۔ اس وقت ان کے دادا جہانگیر ہندوستان کے حکم راں تھے۔ عالمگیر شاہجہاں کی تیسری اولاد تھے اور ممتاز محل ان کی ماں تھیں۔

    مشاہیر سے متعلق کئی قصّے اور باتیں مشہور ہیں، تاہم صدیوں بعد ہم تک پہنچنے والے اکثر واقعات اور حالات کی صحت بھی بہت حد تک مشکوک ہوگئی ہے۔ اگرچہ تاریخ کی مستند کتب اور معتبر مؤرخیں یا سیاح وغیرہ کی تصانیف میں مغل دور اور بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی ذاتی زندگی اور اس کے دور حکومت سے متعلق بہت کچھ پڑھنے کو ملتا ہے، مگر عام لوگوں میں کئی غلط فہمیاں بھی پائی جاتی ہیں اور بہت واقعات جو ہم تواتر سے سنتے اور پڑھتے رہے ہیں من گھڑت ہیں۔ تاریخ کی مستند کتابوں‌ میں‌ جس ہندوستان کا ذکر ملتا ہے وہ دنیا کا امیر ترین ملک تھا۔ اس عہد کے مؤرخین نے اس ملک کی معاشرت اور حکم رانی کا آنکھوں دیکھا حال رقم کیا اور مغل خاندان، شاہی دربار کے فیصلے اور اشرافیہ کے حالات بھی تحریر کیے ہیں۔ مگر عوام میں اورنگزیب عالمگیر سے ایسے قصّے بھی منسوب ہیں‌ جن کا کوئی مستند حوالہ موجود نہیں۔ اگر بات کی جائے مسلمانوں کے دور میں ہندوستان میں مذہبی رواداری کی تو غیرمسلم رعایا جن میں ہندو، سکھ، عیسائی اور دیگر عقائد کے ماننے والے شامل ہیں، وہ اس سے اختلاف کرتے ہیں۔

    ہندوستان کے تختِ شاہی پر محی الدّین اورنگزیب کے لقب سے متمکن ہوئے۔ ان کے والد شاہجہان نے ان کو عالمگیر کا خطاب دیا۔ اورنگزیب عالمگیر نے قرآن حفظ کیا اور اسلامی علوم کے علاوہ ترکی ادب کی تعلیم بھی حاصل کی۔ وہ ایک ماہر خطاط بھی تھے۔ دوسرے مغل بادشاہوں کی طرح اورنگزیب بھی بچپن سے ہی ہندوی میں فراٹے کے ساتھ گفتگو کرتے تھے۔ انھوں نے گھڑ سواری، تیراندازی اور فنونِ سپہ گری بھی سیکھے۔ عالمگیر سترہ برس کے ہوئے تو 1636ء میں انھیں دکن کا صوبیدار مقرر کردیا گیا۔ اس منصب پر رہتے ہوئے کئی بغاوتوں کو فرو کرنے والے عالمگیر نے چند علاقے بھی فتح کیے۔ بادشاہ شاہجہان کی بیماری کے بعد افراتفری اور سلطنت کے کچھ دور دراز کے علاقوں میں انفرادی حکومت قائم ہونے کا سلسلہ شروع ہوا تو عالمگیر نے کئی معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے اور تخت کے حصول کی کوشش شروع کردی۔ اس کے لیے انھوں نے اپنے والد شاہجہاں کی بیماری کا فائدہ اٹھاکر اپنے بھائیوں سے جنگ کی۔ شاہجہاں کے چاروں بیٹے خود کو تخت کا حق دار سمجھنے لگے تھے۔ شاہجہاں کی خواہش تھی کہ وہ اپنے سب سے بڑے بیٹےا دارا شکوہ کو اپنا جانشین مقرر کریں، لیکن اورنگزیب سمجھتا تھا کہ بھائیوں کے مقابلے میں بادشاہت اس کا حق ہے۔ اورنگزیب نے تلوار کے زور مختلف بغاوتوں کچلنے کے بعد پر ہندوستان کا شاہی تخت بھی حاصل کرلیا۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ اقتدار میں آکر اورنگزیب عالمگیر نے ہندوؤں اور مسلمانوں میں‌ رائج کئی فضول رسموں کا خاتمہ کیا اور نشہ آور اشیاء پر پابندی عائد کردی تھی۔ اسی طرح‌ کھانے پینے کی مختلف اجناس سے محصول ختم کرکے رعایا کی خوش نودی حاصل کی۔ اکثر مؤرخین نے بادشاہ کو پرہیز گار، مدبر اور اعلیٰ درجے کا منتظم لکھا ہے۔ ان کے بارے میں‌ یہ بھی مشہور ہے کہ وہ قرآن مجید لکھ کر اور ٹوپیاں سی کر گزارہ کرتے تھے۔ بادشاہ فارسی کے اچھے مضمون نویس تھے جن کے خطوط رقعاتِ عالمگیر کے نام سے مرتب ہوئے۔ ہندوستان کی اسلامی تاریخ میں اس مغل بادشاہ کی کتاب فتاویٰ عالمگیری کو بھی خاص اہمیت اور شہرت حاصل ہے۔

  • مرزا اظفری: قلعہ مبارک سے فرار ہو جانے والا مغل شہزادہ

    مرزا اظفری: قلعہ مبارک سے فرار ہو جانے والا مغل شہزادہ

    ہندوستان میں مغل سلطنت کی ایک عظیم نشانی دلّی کا وہ لال قلعہ ہے جسے کبھی قلعۂ مبارک کہا جاتا تھا۔ اسی قلعے میں میرزا علی بخت بہادر محمد ظہیر الدّین اظفری گورگانی نے 1758ء میں آنکھ کھولی۔ وہ بیک وقت اُردو، ترکی اور فارسی زبانوں میں شاعری کرتے تھے اور ایک نثر نگار اور انشاء پرداز تھے۔

    ہندوستان میں مغلیہ حکومت کو اس دور میں‌ نہ صرف بیرونی حملہ آوروں کا خطرہ تھا بلکہ اقتدار کی خاطر آپس میں‌ لڑنے اور سازشوں‌ میں‌ گھرے مغل بادشاہ، شہزادے اور شاہی خاندان کی شخصیات محفل عیش و طرف اور ایسی کئی خرافات کے عادی ہوچکے تھے جو ہندوستان پر ان کی گرفت کم زور کررہے تھے۔ اسی دور کے مرزا اظفری بھی مغل شاہ زادگان میں سے ایک تھے جن کا اصل نام محمد ظہیر الدّین اور لقب علی بخت بہادر گورگانی تھا۔ دہلی میں انھیں میرزائے کلاں کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ ان کے والد کا نام سلطان محمد ولی تھا جو منجھلے صاحب مشہور تھے۔ مرزا اظفری کی والدہ حضرت میر ابو العلاء اکبرآبادی کی اولاد میں سے تھیں۔ مرزا اظفری کی تعلیم و تربیت دہلی کے لال قلعہ میں ہوئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مغلیہ سلطنت کی شمالی سرحدوں سے احمد شاہ ابدالی کے حملوں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ اس دور کے رواج کے مطابق قرآن اور ضروری دینی تعلیم ابتدائی عمر ہی میں دی گئی اور مرزا بڑے ہوئے تو علم و ادب کا شوق پیدا ہوا اور مطالعہ کی عادت بھی پختہ ہوگئی۔

    مرزا گورگانی قلعۂ معلّٰی کے تمام شہزادوں میں لائق فائق تھے۔ انھوں نے عربی کے علاوہ ترکی، فارسی اور اردو زبان پر عبور حاصل کیا اور کہتے ہیں‌ کہ عربی سے ترکی، فارسی اور اردو زبانوں میں ترجمہ بھی کر لیتے تھے۔ انھوں‌ نے بعد میں‌ مدراس میں رہتے ہوئے انگریزی زبان بھی سیکھ لی تھی۔ مرزا کی علم و فنون میں دل چسپی اور سیکھنے کا شوق ایسا تھا کہ علومِ ادبیہ کے ساتھ ساتھ طبّ اور علاج معالجہ بھی سیکھ لیا۔ وہ اس فن میں حکیم عنایت اللہ اور حکیم میر حسن دہلوی کے شاگرد تھے۔ مختلف ادبی تذکروں اور مغل دور کی تاریخ پر مبنی کتب میں لکھا ہے کہ مرزا گورگانی قلعۂ مبارک میں سرکاری اطبا کی نیابت میں شاہی خاندان کی شخصیات اور متعلقین کا علاج بھی کرتے تھے۔

    تیموری خاندان کے دوسرے شہزادوں کی طرح انھوں نے بھی اپنی نوجوانی کا سنہرا زمانہ قلعۂ مبارک میں شاہی پابندیوں کے ساتھ گزار دیا۔ دوسری طرف غلام قادر روہیلہ کے لال قلعہ پر قابض ہو جانے کے بعد اور شہنشاہ شاہ عالم ثانی کی معزولی اور ان پر دردناک مظالم کے وقت مرزا اظفری نے بہت بہادری سے محل کی عصمت و ناموس کی مگر بعد میں‌ حالات بہتر ہونے پر کٹھ پتلی بن کر تخت پر بیٹھنے والے شاہ عالم ثانی نے اظفری سے کچھ اچھا سلوک نہ کیا۔ وہ اپنے وعدوں سے مکر گئے۔ دراصل مرزا اور دیگر شہزادے ایک شاہی دستور کے تحت قید قلعۂ مبارک میں قیدی تھے اور انھیں سلاطین کہا جاتا تھا۔ یہ سب تخت اور تاج کی لڑائیوں کے لیے کیا جاتا تھا اور شہزادوں کو دربار اور حکومت میں منصب و عہدہ اور ہر قسم کے اثر و رسوخ سے دور رکھا جاتا تھا۔ اسی دستور سے بیزار ہو کر اظفری 1788ء کو لال قلعہ سے فرار ہوگئے اور تاریخی کتب میں‌ آیا ہے کہ وہاں سے نکل کر وہ جے پور، جودھ پور اور اودے پور کے راجاؤں کے مہمان بنے۔ بعد میں‌ مرزا اظفری لکھنؤ پہنچے جہاں اودھ کے حکم ران آصف الدّولہ نے خوش آمدید کہا۔ وہاں‌ کئی برس عزّت و آبرو سے بسر کیے۔ اسی دوران مرزا کے بھائی اور تمام متعلقین، قلعہ میں‌ رہ جانے والی بیوی اور اولاد کے ساتھ والدہ بھی قلعہ چھوڑ کر بخیریت لکھنؤ پہنچ گئے تھے۔ بعد میں‌ مرزا مدراس گئے اور وہیں مستقل قیام کیا۔ مدراس میں مرزا کو نواب عمدۃ الامراء سے بڑی توجہ اور شفقت ملی اور نواب انھیں اپنی مسند پر بٹھاتے اور ادب ملحوظ رکھتے تھے۔

    مدراس میں مرزا گورگارنی نے ایک پٹھان کی لڑکی سے شادی کر لی تھی اور اس کے بطن سے کئی اولادیں ہوئیں جن میں سے ایک لڑکے کا نام اعلیٰ بخت تھا۔

    مرزا فارسی، ترکی اور اُردو میں شعر کہا کرتے تھے۔ اشعار میں رعایتِ روزمرّہ اور محاورہ بندی اچھی ہے لیکن بلندیٔ تخیل کا فقدان ہے۔ مدراس میں‌ قیام کے دوران مرزا نے دہلی اور لکھنؤ میں اپنے متعلقین اور احباب کے علاوہ جو خطوط راجاؤں اور نوابوں کو لکھے ہیں، اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ فارسی زبان پر بڑی قدرت رکھتے تھے۔ ریختہ میں‌ خود کو میر تقی میر کا شاگرد بتاتے تھے۔

    1801ء کو نواب کرناٹک نواب عمدۃُ الامراء کا انتقال ہوگیا تو مرزا کو بڑا رنج ہوا اور وہ لکھتے ہیں‌ کہ ان کی زندگی بے کیف و بے لطف گزرنے لگی۔ 1819ء میں مرزا اظفری نے مدراس ہی میں وفات پائی۔

    مرزا نے اپنی زندگی کے کچھ حالات اور واقعات بھی قلم بند کیے ہیں‌ اور ان کی کتاب کے نسخے لندن اور مدراس میں‌ موجود ہیں جس میں‌ دہلی کے قلعۂ مبارک کی لفظی جھلکیاں ان کی شان دار نثر کا ثبوت ہیں۔ اس کا اردو ترجمہ کیا گیا ہے جب کہ ایک دیوان بھی دستیاب ہے۔

  • اکبر شاہ ثانی: ”بادشاہت کا خیال اس کے خواب میں بھی نہ آئے”

    اکبر شاہ ثانی: ”بادشاہت کا خیال اس کے خواب میں بھی نہ آئے”

    اٹھارہویں مغل بادشاہ اکبر شاہ ثانی کو برائے نام اختیارات حاصل تھے۔ شاہ عالم ثانی کے بعد تخت پر رونق افروز ہونے والے اکبر شاہ ثانی کا زمانہ ہر لحاظ سے ابتری اور انتشار کا زمانہ تھا اور انگریزوں کی ریشہ دوانیاں بڑھ گئی تھیں۔ بادشاہت دہلی تک محدود ہوگئی تھی جسے اب انگریز مٹانے کے منصوبے بنا رہا تھا۔

    اکبر شاہ ثانی نے 1837ء میں آج ہی کے دن وفات پائی۔ شاہ عالم ثانی کے زمانے تک انگریز بظاہر سہی بادشاہت کا احترام اور تخت و تاج کی تعظیم کرتے تھے۔ یہ بات اہم ہے کہ اس وقت تک بادشاہ کے دربار میں دہلی کے ریذیڈنٹ، اسٹین کی حیثیت ایک معمولی امیر سے زیادہ نہیں تھی۔ وہ شاہی خاندان کے ہر فرد کی بے انتہا عزت کرتا تھا، لیکن اسٹین کا نائب، چارلس مٹکاف، بادشاہ کے اس احترام سے سخت ناخوش تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ہم اس طرح بادشاہ کی تعظیم کر کے اس کی غیرت و حمیت کو نہیں سلا سکتے، جو ہمارا اوّلین مقصد ہے۔

    ادیب اور تذکرہ نگار مولوی ذکاءُ اللہ چارلس مٹکاف کے الفاظ میں لکھتے ہیں:’’میں اس پالیسی کے ساتھ موافقت نہیں کرتا جو اسٹین صاحب نے شاہی خاندان کے ساتھ اختیار رکھی ہے۔ جو شخص برٹش گورنمنٹ کی طرف سے دہلی میں حکم رانی کے لیے مقرر ہو، وہ بادشاہ کی تعظیم اس طرح کرتا ہے جس سے بادشاہی قوت کے بیدار ہونے کا اندیشہ ہے۔ حالاں کہ ہم اس کو ہمیشہ کے لیے سلا دینا چاہتے ہیں۔ ہمارا مقصود نہیں کہ بادشاہ کو بادشاہی کے دوبارہ اختیارات حاصل ہوں۔ اس لیے ہم کو ایسی حرکتیں نہیں کرنی چاہییں جن سے اس کے دل میں اپنی بادشاہی حاصل کرنے کی تمنا پیدا ہو، اگر ہم نہیں چاہتے کہ اس کی حکومت کو پھر دوبارہ قائم کریں تو ہم کو چاہیے کہ بادشاہت کا خیال اس کے خواب میں بھی نہ آنے دیں۔‘‘

    اکبر شاہ ثانی کی تخت نشینی کو ایک سال بیت چکا تھا، اور 1807ء تک یہ حالات پیدا ہوچکے تھے جس کی طرف مولوی صاحب نے اشارہ کیا ہے۔ 1809ء میں بادشاہ نے اپنا وظیفہ بڑھانے کا مطالبہ کیا جسے کورٹ آف ڈائریکٹرز نے منظور کرلیا۔ لیکن اتنی بڑا دربار پنشن اور وظائف پر نہیں چل سکتا تھا۔ حقیقت یہی ہے کہ انگریزوں کی طرف سے بادشاہ کو جو وظیفہ ملتا تھا وہ ناکافی تھا اور اسی لیے بادشاہ نے اب مزید اضافہ چاہا تھا۔ اس سلسلے میں انھوں نے فرماں روائے اودھ سے بھی مدد چاہی تھی۔

    چناں چہ 1812ء میں بادشاہ کی والدہ قدسیہ بیگم اور صاحب زادے مرزا جہانگیر کسی بہانے لکھنؤ پہنچے اور وہاں پہنچ کر نواب وزیر کو اپنی مدد کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ انگریزوں نے اس کار گزاری کے جواب میں کہا کہ اس وقت تک اضافہ کی امید نہ رکھی جائے جب تک بادشاہ انگریز کی تمام شرائط کو نہیں‌ مان لیتے۔ بادشاہ کو تمام معاملات سے بے دخل کر دیا گیا، یہاں تک کہ انھیں اپنے ولی عہد یا جانشین کی تقرری کا اختیار بھی نہیں‌ رہا تھا۔

    1814ء میں اکبر شاہ ثانی نے انگریز سرکار سے مطالبہ کیا کہ ان کا مرتبہ گورنر جنرل سے زیادہ ہونا چاہیے۔ انگریزوں کے کان پر اس بار جوں تک نہیں رینگی۔ آخرکار اکبر شاہ ثانی نے مشہور برہمو سماج لیڈر رام موہن رائے کو اپنا سفیر بنا کر انگلستان بھیجا تاکہ وہ ان کا مقدمہ لڑ سکیں۔ رام موہن رائے انگلستان تو گئے، لیکن مقصد میں انھیں کام یابی حاصل نہیں ہوئی۔ اس کے بعد ہندوستان میں انگریز افسر اکبر شاہ ثانی سے اور بدگمان ہوگئے۔ چنانچہ بادشاہ کو باقی ماندہ زندگی لال قلعے میں بے یارو مددگار انسان کی طرح گزارنا پڑی۔

    دہلی کے تخت پر ان کا ‘راج’ 31 برس رہا اور مرضِ اسہال کے سبب ان کی زندگی تمام ہوئی۔ وہ درگاہ خواجہ قطب الدّین بختیار کاکی کے ساتھ مہراؤلی (دہلی) میں پیوندِ خاک ہوئے۔

  • دن کو بھی یہاں شب کی سیاہی کا سماں ہے!

    دن کو بھی یہاں شب کی سیاہی کا سماں ہے!

    ملکہ نور جہاں کی شخصیت میں تاریخ اور رومان اس طرح گھل مل گئے ہیں کہ تاریخ کے ساتھ ساتھ شعر و ادب میں بھی وہ ایک اہم موضوعِ سخن کے طور پر زندہ ہے۔

    وہ خود بھی سخن فہم، معاملہ فہم، امورِ مملکت سے باخبر اور شاعرہ تھی۔ وہ مرزا غیاث الدین بیگ کی بیٹی تھی جو صفوی عہد میں اپنے والد کے ایران سے ہندوستان تک کے سفر کے دوران میں قندھار کے مقام پر پیدا ہوئی اور مہرُ النّسا نام پایا۔ مرزا غیاث کی اکبر بادشاہ کے دربار تک رسائی ہوئی اور وہیں مہرُ النّسا کی شہزادہ سلیم کے دل تک رسائی ہوئی۔

    اکبر کو یہ بات پسند نہ آئی اور اس نے اپنے ایک اہل کار علی قلی خان (جس کو شیر افگن کا خطاب بھی ملا) سے اس کی شادی کر دی اور اسے بنگال میں تعنیات کر دیا۔ شیر افگن وہیں ایک معرکے میں مارا گیا۔ بعض لوگ اس کے قتل کا الزام جہانگیر کو دیتے ہیں۔ جہانگیر کے عہد میں مہر النّسا کو واپس بلا لیا گیا اور جہانگیر نے اس سے شادی کر لی اور وہ مہرالنّسا سے نور جہاں بیگم ہو گئی۔ اس کے بعد تاریخ گواہ ہے کہ وہ کس طرح امورِ مملکت میں شامل اور دخیل ہوئی بلکہ کہا جاتا ہے جہانگیر کے پردے میں اصل حکمران وہی تھی۔

    1645 میں اس کی وفات کے بعد اس کی وصیت کے مطابق اسے لاہور میں دفن کیا گیا اور راوی کنارے اس کا مزار اب بھی موجود ہے۔ اس کے قریب ہی جہانگیر کا مقبرہ ہے۔ ملکہ کو لاہور بہت پسند تھا اور یہ شعر بھی ملکہ سے ہی منسوب کیا جاتا ہے:

    لاہور را بہ جان برابر خریدہ ایم
    جان دادہ ایم و جنت دیگر خریدہ ایم

    (لاہور کو ہم نے جان کے برابر قیمت پر حاصل کیا ہے، ہم نے جان قربان کرکے ایک نئی جنت خریدی ہے)

    تاریخ اور رومان کا ملاپ دیکھیں تو ایسا لگتا ہے تو ملکہ نور جہاں اردو شعر و ادب میں جا بجا جلوہ گر ہے۔ مثال کے طور پر امتیاز علی تاج نے اپنے معروف ڈرامے ”انار کلی“ میں نور جہاں اور انار کلی کی کہانی کو اس طرح گھلا ملا دیا ہے کہ دونوں ایک ہی کردار کے طور پر نظر آتی ہیں اور اسی موضوع پر پاکستان میں ”انار کلی“ کے نام سے ایک تاریخی، رومانوی اور نغماتی فلم بنی تو ہندوستان میں ”مغلِ اعظم“ جیسی فلم بنی جس کی شہرت کبھی کم نہیں ہوئی۔ تاریخی طور پر انارکلی ایک فرضی کردار ہے، جس کی وجہ سے بہت سے لوگ اسے نور جہاں کی ہی کہانی کی ایک بدلی ہوئی ڈرامائی تشکیل قرار دیتے ہیں۔

    ملکہ نور جہاں کو کئی شعرا نے بھی موضوع سخن بنایا۔ ان شعرا میں شبلی نعمانی بھی شامل ہیں۔ ان کی طویل نظم ”عدلِ جہانگیری“ دراصل نور جہاں ہی کی کہانی ہے۔ جو واقعہ اس میں منظوم کیا گیا ہے اس کا ذکر یہاں طوالت کا باعث ہو گا تاہم ساری نظم ملکہ ہی کی کہانی پیش کرتی ہے۔ نمونے کے طور پر اس کے یہ اشعار ملکہ نور جہاں کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں:

    یہ وہی نور جہاں ہے کہ حقیقت میں یہی
    تھی جہانگیر کے پردے میں شہنشاہِ زمن
    اس کی پیشانیِ نازک پہ جو پڑتی تھی گرہ
    جا کے بن جاتی تھی اوراقِ حکومت پہ شکن

    شاعرِ رومان اختر شیرانی کی نظم ”نور جہاں“ بھی ملکہ کی اہمیت اور اس کے تاریخی کردار کو اجاگر کرتی ہے۔ اس طویل نظم کے صرف تین اشعار یہاں پیش کیے جا رہے ہیں:

    اسی سنسان نخلستاں میں اک اجڑی عمارت ہے
    جہاں دفن ایک شہنشاہِ گرامی کی محبت ہے
    یہاں وہ بانوئے عفّت نشاں سوتی ہے تربت میں
    کٹی تھی جس کی ساری عمر آغوشِ حکومت میں
    ادب، اے دل ادب کر، روضۂ نورِ جہاں ہے یہ
    مقدس خواب گاہِ ملکۂ نورجہاں ہے یہ

    معروف شاعر ساحر لدھیانوی کی نظم ”نور جہاں کے مزار پر“ ان کے مخصوص سیاسی نظریات کی عکاسی کرتی ہے۔ ساحر نے نور جہاں کو دخترِ جمہور قرار دیا ہے کہ اس کا تعلق کسی شاہی خانوادے سے نہیں بلکہ ایک عام خاندان سے تھا۔ اس نظم کا ایک بند دیکھیے:

    پہلوئے شاہ میں یہ دخترِ جمہور کی قبر
    کتنے گم گشتہ زمانوں کا پتہ دیتی ہے
    کتنے خوں ریز حقائق سے اٹھاتی ہے نقاب
    کتنی کچلی ہوئی جانوں کا پتہ دیتی ہے

    پہلوئے شاہ کا اشارہ جہانگیر کے مقبرے کی طرف ہے جو نور جہاں کے مزار کے قریب ہی ہے اور خوں ریز حقائق کے پس پردہ غالباً وہی کہانی ہے جس میں شیر افگن کی موت واقع ہوئی اور اس کے علاوہ وہ ساری تاریخ ہے جس میں محکوم و مجبور عوام بادشاہوں کے قہر و غضب کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔

    ان نظموں کی اہمیت اپنی جگہ مگر اس موضوع پر تلوک چند محروم کی نظم ”ملکہ نور جہاں کا مزار“ بے مثال ہے۔ اس میں جو دل سوزی، دردمندی اور جذبہ و احساس کی شدت ہے وہ اسے ایک ایسی نظم بنا دیتی ہے کہ شاید ہی اس موضوع پر کوئی اور نظم اس کی ہم پلہ ہو۔ تلوک چند محروم نے اپنے زورِ قلم اور قادرُالکلامی سے اسے لازوال بنا دیا ہے۔ مسدس کی ہیئت میں اس طویل نظم کے نو بند ہیں اور ہر بند اپنی مثال آپ ہے۔ نظم کا بنیادی خیال مزار کی خستہ حالی، انسانی زندگی کا حسرت ناک انجام، نورجہاں کے ماضی کی عظمت و شوکت اور مرنے کے بعد کی کسمپرسی کی زندگی ہے۔

    غالباً جس زمانے میں تلوک چند محروم نے اس مزار کو دیکھا، اس کی حالت انتہائی خستہ تھی۔ پنجاب میں سکھوں کے عہد حکومت میں اس مزار کو بہت زیادہ نقصان پہنچا تھا اور پھر دیکھ بھال کی کمی کی وجہ سے وہاں ویرانی کا سماں تھا اور ایک زمانے تک اس کی حالت ایسی ہی رہی۔ 1950 کی دہائی میں یا 1960 کی دہائی میں غالباً شاہِ ایران رضا شاہ پہلوی کی لاہور آمد پر اس عمارت کی کچھ مرمت اور آرائش و زیبائش کی گئی۔ شاید نور جہاں کو اس صورت حال کا وقت سے پہلے کچھ اندازہ تھا، اسی تناظر میں اکثر یہ شعر پڑھنے کو ملتا ہے جو اسی سے منسوب ہے:

    بر مزارِ ما غریباں نے چراغ، نے گلے
    نے پرِ پروانہ سوزد، نے صدائے بلبلے

    (ہم غریبوں کے مزار پر نہ کوئی چراغ جلتا ہے اور نہ کوئی پھول رکھتا ہے، کوئی پروانہ بھی نہیں جو اس چراغ کی لو پر اپنی جان دے اور نہ کوئی بلبل ہے جو ان پھولوں کی محبت میں نغمے گائے)

    تلوک چند محروم نظم اور غزل دونوں کے شاعر تھے اور کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ وہ 1887 میں تحصیل عیسیٰ خیل، ضلع میانوالی کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ 1908 میں مشن ہائی اسکول ڈیرہ اسماعیل خان میں انگریزی کے استاد مقرر ہوئے۔ کنٹونمنٹ بورڈ مڈل اسکول راوالپنڈی کے ہیڈ ماسٹر رہے۔ اس کے علاوہ عرصۂ دراز تک گورڈن کالج راولپنڈی میں اردو اور فارسی کے لیکچرار رہے۔ تقسیم ملک کے بعد وہ ہندوستان چلے گئے اور پنجاب یونیورسٹی کیمپ کالج دھلی میں طویل عرصے تک اردو پڑھاتے رہے۔ جنوری 1966 میں ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کے صاحب زادے جگن ناتھ آزاد بھی معروف شاعر تھے۔

    نظم کے پہلے بند میں مختلف متضاد مناظر اور تلازمات سے کلام میں حسن اور دل کشی پیدا کی گئی ہے۔ دن اور شب کا سماں اور اندھیرے کے ساتھ نور کا تعلق اور نورجہاں کے ساتھ اس کی مناسبت، شمع جو بجھ گئی مگر اس کا دھواں ابھی باقی ہے، پھر طور کی روشنی اور شبِ دیجور کا ذکر ایسے متضاد تلازمات ہیں جو پڑھنے والوں کے دلوں کے ذوق و شوق کو دعوت دیتے ہیں:

    دن کو بھی یہاں شب کی سیاہی کا سماں ہے
    کہتے ہیں یہ آرام گہِ نور جہاں ہے
    مدت ہوئی وہ شمع تہِ خاک نہاں ہے
    اٹھتا مگر اب تک سرِ مرقد سے دھواں ہے

    دوسرا بند پہلے بند سے اس طرح جڑا ہوا ہے کہ اسے الگ کرنا دشوار ہے۔ اس میں ملکہ کے حسن و جمال کی توصیف اور اس کے زوال کا شکار ہونے کا دل گداز تذکرہ ہے:

    اے حسنِ جہاں سوز کہاں ہیں وہ شرارے
    کس باغ کے گل ہو گئے کس عرش کے تارے
    کیا بن گئے اب کرمکِ شب تاب وہ سارے
    ہر شام چمکتے ہیں جو راوی کے کنارے
    یا ہو گئے وہ داغ جہانگیر کے دل کے
    قابل ہی تو تھے عاشقِ دل گیر کے دل کے

    اس کے بعد کئی بندوں میں مزار کی خستہ حالی، موت کے بعد کے عالمِ بے چارگی، مزار کے احاطے میں اڑتی ہوئی خاک، ماحول کی اداسی اور تنہائی، تعویذِ لحد کی ٹوٹ پھوٹ اور عمارت کی شکستگی کا ذکر ہے۔ ویرانی کا یہ عالم ہے کہ گرمی کی شدت میں مال مویشی یہاں گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں اور شام کو یہاں چمگادڑوں کا بسیرا ہوتا ہے:

    چو پائے جو گھبراتے ہیں گرمی سے تو اکثر
    آرام لیا کرتے ہیں اس روضے میں آ کر
    اور شام کو بالائی سیہ خانوں کے شپر
    اڑ اڑ کے لگاتے ہیں در و بام پہ چکر
    معمور ہے یوں محفلِ جانانہ کسی کی
    آباد رہے گورِ غریبانہ کسی کی

    ملکہ کے حسن و جمال کی روداد، ماضی کی پُرآسائش زندگی کے احوال، ناز برداریوں کے وسائل کی کثرت کا بیان، مرنے کے بعد کی کس مپرسی، زمانے کی ناقدری اور انسانی زندگی کے حسرت ناک انجام کا تذکرہ تلوک چند محروم نے اس انداز میں کیا ہے کہ دل بھر آتا ہے۔ یہاں انہوں نے اپنا پورا زورِ قلم اپنے جذبات و احساسات کی پوری شدت کے ساتھ اس طرح صرف کیا ہے کہ یہ دو بند حاصلِ نظم کہے جاسکتے ہیں:

    آراستہ جن کے لیے گلزار و چمن تھے
    جو نازکی میں داغ دہِ برگ سمن تھے
    جو گل رخ و گل پیرہن و غنچہ دہن تھے
    شاداب گلِ تر سے کہیں جن کے بدن تھے
    پژمردہ وہ گل دب کے ہوئے خاک کے نیچے
    خوابیدہ ہیں خار و خس و خاشاک کے نیچے

    اور یہ بند دیکھیے:
    رہنے کے لیے دیدہ و دل جن کے مکاں تھے
    جو پیکرِ ہستی کے لیے روح رواں تھے
    محبوبِ دلِ خلق تھے جاں بخشِ جہاں تھے
    تھے یوسفِ ثانی کہ مسیحائے زماں تھے
    جو کچھ تھے کبھی تھے مگر اب کچھ بھی نہیں ہیں
    ٹوٹے ہوئے پنجر سے پڑے زیرِ زمیں ہیں

    نظم کا آخری بند اس داستان کا خلاصہ ہے کہ انسانی زندگی کا انجام بالآخر موت ہے جو ہر چھوٹے بڑے انسان کا مقدر ہے۔ جس سے کسی کو مفر نہیں اور یہ مزار ہمیں زندگی کے اسی حسرت ناک انجام کی یاد دلاتا ہے اور یہ بھی کہ دنیا کے سب مال و اسباب اور شان و شوکت سب عارضی اور فانی ہیں:

    دنیا کا یہ انجام ہے دیکھ اے دلِ ناداں
    ہاں بھول نہ جائے تجھے یہ مدفنِ ویراں
    باقی ہیں نہ وہ باغ، نہ وہ قصر، نہ ایواں
    آرام کے اسباب نہ وہ عیش کے ساماں
    ٹوٹا ہوا اک ساحلِ راوی پہ مکاں ہے
    دن کو بھی جہاں شب کی سیاہی کا سماں ہے

    پوری نظم کی فضا حزنیہ اور ملال انگیز ہے اور اپنے موضوع کے لحاظ سے بے مثال ہے۔ بغیر تشریح و توضیح کے پڑھی جائے تو اس کا اپنا ایک لطف ہے جو انبساط کا باعث بنتا ہے۔ اس کی روانی، الفاظ کا چناؤ، مصرعوں اور اشعار کا باہمی ربط اور پس منظر میں اعلیٰ درجے کی جذبات نگاری اس نظم کو یقیناً لا زوال بنا دیتی ہے۔ خود تلوک چند محروم کو بھی یہ نظم بہت پسند تھی۔ یہ نظم ایک زمانے تک، اندازاً 1940 سے 1960 تک پنجاب یونیورسٹی کے میٹرک کے اردو نصاب میں شامل رہی۔ واضح رہے کہ اس زمانے میں میٹرک کا امتحان بھی یونیورسٹی ہی لیتی تھی۔

    (تحریر: ڈاکٹر احمد فاروق مشہدی)

  • کشمیر اور مغل شہنشاہ جہانگیر کا فرمان

    کشمیر اور مغل شہنشاہ جہانگیر کا فرمان

    مغل شہنشاہ جہانگیر اکثر کہا کرتا تھا کہ کشمیر میری قلمرو میں بہشتِ روئے زمیں ہے اور اسی لیے ہر سال کشمیر کی سیر کو جاتا تھا۔ اس نے کشمیر کی بہت تعریف کی ہے۔

    وہ لکھتا ہے: کشمیر ایک باغ ہے سدا بہار، قلعہ ہے آہنی حصار۔ بادشاہوں کے لیے ایک گلشنِ عشرت افزا ہے، درویشوں کے لیے ایک خلو ت کدۂ دلکشا ہے۔ چمن خوش، آبشارِ دل کش۔ آب ہائے رواں شرح و بیان سے زیادہ اور چشمہ سار حساب و شمار سے باہر ہیں۔ بہار میں کوہ و دشت اقسامِ شگوفہ سے مالا مال۔ در و دیوار اور صحن و بام گھروں کے مشعلِ لالہ سے بزم افروز ہیں۔

    جہانگیر میں یہ بہت بڑی خوبی تھی کہ وہ جن مشہور اضلاع و مقامات میں سے گزرتا تھا، ان کے تاریخی حالات کی خوب تحقیقات کرتا اور وہاں کے باشندوں کی حالتیں، رسم و رواج، طرزِ معاشرت، آب و ہوا، غرض ہر چیز کا بیان لکھتا۔

    چنانچہ واپسی کے وقت جب وہ تھنہ میں پہنچا، جو پیر پنجال کے نشیب میں واقع ہے اور وہاں سے راجوری کو روانہ ہوا، تو اس منزل کی کیفیت میں لکھتا ہے کہ یہاں کے آدمی فارسی اور ہندی دونوں زبانیں بولتے ہیں۔ اصل زبان ان کی ہندی ہے۔ قرب و جوار کے سبب سے کشمیری بھی عام طور پر بولی جاتی ہے۔

    یہاں کی عورتیں پشمینہ کا لباس نہیں پہنتیں۔ ہندوستان کی عورتوں کی طرح ناک میں نتھ کا استعمال کرتی ہیں۔ راجور کے باشندے پہلے زمانے میں ہندو تھے۔ یہاں کے رئیس کو راجا کہتے ہیں۔ ہر چند یہاں مسلمان کثرت سے ہیں، لیکن ہندو پنے کی رسمیں اُن میں جاری تھیں۔ یہاں تک ہوتا تھا کہ ہندو عورتوں کی طرح مسلمان عورتیں بھی اپنے خاوند کے ساتھ زندہ دفن ہو جاتی تھیں۔ اکثر بے بضاعت اور جاہل آدمی اپنی لڑکیوں کو ہلاک کر ڈالتے تھے۔

    ہندوؤں سے رشتہ داری بھی جاری تھی۔ لڑکی دیتے بھی تھے اور لیتے بھی تھے۔ جہانگیر لکھتا ہے کہ یہ حالات جب میرے گوش گزار ہوئے تو میں نے سختی سے ایک فرمان جاری کیا کہ پھر یہ باتیں نہ ہونے پائیں اور جو کوئی ان کاموں کا مرتکب ہو اس کو خوب سزا دی جائے۔ کسی مسلمان کا کسی ہندو کو لڑکی دے دینا سخت جرم قرار دیا گیا۔

    (نام وَر مؤرخ محمد الدین فوق کی شاہی سیرِ کشمیر نامی کتاب کا ایک ورق)

  • یومِ وفات: آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا سب سے بڑا ورثہ ان کی شاعری ہے

    یومِ وفات: آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا سب سے بڑا ورثہ ان کی شاعری ہے

    بہادر شاہ ظفر کے پاس فوج کا لشکر تھا، نہ تیر اندازوں کا دستہ، ایسے تیر انداز جن کا نشانہ خطا نہ جاتا۔ شمشیر زنی میں ماہر سپاہی یا بارود بھری بندوقیں تان کر دشمن کا نشانہ باندھنے والے بھی نہیں تھے، لیکن ان کی آواز پر جنگِ آزادی لڑنے کے لیے ہندو اور مسلمان دونوں اٹھ کھڑے ہوئے اور تاجِ شاہی کے لیے اپنی جانیں قربان کر دیں۔

    1837ء میں اکبر شاہ ثانی کے بعد ابوالمظفر سراج الدّین محمد بہادر شاہ غازی نے مغلیہ سلطنت کا تاج اپنے سَر پر سجایا، لیکن اپنے مرحوم باپ اور مغل بادشاہ کی طرح‌ بے اختیار، قلعے تک محدود اور انگریزوں کے وظیفہ خوار ہی رہے۔ عظیم مغل سلطنت اب دہلی و گرد و نواح میں‌ سمٹ چکی تھی، لیکن لوگوں کے لیے وہ شہنشاہِ ہند تھے۔

    پیری میں‌ اقتدار سنبھالنے والے بہادر شاہ ظفرؔ کو اندازہ ہوگیا تھا کہ ان کے ہاتھ کچھ نہیں۔ مسند نشینی سے 1857ء کی جنگِ آزادی تک ان کا دور ایک نہ ختم ہونے والی شورش کی داستان سے پُر تھا۔

    وہ ایسے شہنشاہ تھے جنھیں زر و جواہر سے معمور شاہی خزانہ ملا، نہ بیش قیمت ہیرے۔ پکھراج کے قبضے والی وہ تلواریں بھی نہیں‌ جنھیں خالص سونے کے بنے ہوئے نیام میں رکھا جاتا ہو، لیکن رعایا ان سے بے پناہ عقیدت رکھتی تھی اور ان کی تعظیم کی جاتی تھی۔ البتہ ظفرؔ کے مزاج میں شاہی خُو بُو نام کو نہ تھی۔ انھیں ایک دین دار، نیک صفت اور بدنصیب بادشاہ مشہور ہیں۔

    بہادر شاہ ظفر، شیخ فخرالدّین چشتی کے مرید تھے اور ان کے وصال کے بعد قطب الدّین چشتی سے بیعت لی۔ انگریزوں کے برصغیر سے جانے کے بعد ان کا عرس ہر سال باقاعدگی سے منایا جانے لگا اور بالخصوص برما کے مسلمان انھیں صوفی بابا ظفر شاہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

    بہادر شاہ ظفرؔ 14 اکتوبر 1775ء کو ہندوستان کے بادشاہ اکبر شاہ ثانی کے گھر پیدا ہوئے۔ بہادر شاہ ظفر نے 1840ء میں زینت محل کو اپنا شریکِ حیات بنایا جن کے بطن سے مرزا جواں بخت پیدا ہوئے تھے۔

    بہادر شاہ ظفرؔ کو اپنے دادا شاہ عالم ثانی کی صحبت میں رہنے اور سیکھنے کا بھرپور موقع ملا۔ انھوں نے اردو، فارسی، عربی اور ہندی پر دست گاہ حاصل کی۔ وہ خطّاط اور خوش نویس بھی تھے۔ گھڑ سواری، تیر اندازی، شمشیر زنی میں بھی اپنا لوہا منوایا۔ انھیں ایک غیرمتعصب حکم ران بھی کہا جاتا ہے۔

    انگریزوں نے 1857ء میں‌ غدر، یعنی جنگِ‌‌ آزادی کی ناکامی پر بہادر شاہ ظفر کو جلا وطن کر کے رنگون(برما) بھیج دیا تھا جہاں‌ وہ بے یار و مددگار، عسرت اور وا ماندگی کے عالم میں وفات پاگئے۔

    بہادر شاہ نے زندگی کے آخری چار سال اپنی بیوی زینت محل کے ساتھ رنگون میں شویڈاگون پاگوڈا کے جنوب میں ملٹری کنٹونمنٹ میں گزارے۔ ان کے معتقدین اور پیروکاروں کے اشتعال اور بغاوت کے خطرے کے پیشِ نظر انگریزوں نے انھیں اسی گھر کے ایک کونے میں دفن کردیا اور ان کی قبر کو بے نام و نشان رہنے دیا۔

    بہادر شاہ ظفر کا یہ شعر آخری ایّام میں عالمِ حسرت و یاس اور ان کے صدمہ و کرب کا عکاس ہے۔

    بھری ہے دل میں جو حسرت، کہوں تو کس سے کہوں
    سنے ہے کون، مصیبت کہوں تو کس سے کہوں

    بادشاہ نے میانمار کے شہر رنگون کے ایک خستہ حال چوبی مکان میں اپنے خاندان کے گنے چنے افراد کی موجودگی میں دَم توڑا تھا۔ 7 نومبر 1862ء کو بہارد شاہ ظفر کی برسی منائی جاتی ہے۔ ان کا یہ شعر دیکھیے۔

    ہے کتنا بدنصیب ظفر دفن کے لیے
    دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

    ہندوستان کے آخری بے تخت و تاج مغل بادشاہ کا سب سے بڑا ورثہ ان کی اردو شاعری ہے۔ ان کی غزلیں برصغیر بھر میں مشہور ہوئیں۔ ان کا کلام نام ور گلوکاروں نے گایا اور ان کی شاعری پر مقالے اور مضامین تحریر کیے گئے۔

    مولانا حالیؔ نے کہا ظفر کا تمام دیوان زبان کی صفائی اور روزمرّہ کی خوبی ہیں، اوّل تا آخر یکساں ہے۔‘‘ اسی طرح آبِ بقا کے مصنّف خواجہ عبد الرّؤف عشرت کا کہنا ہے کہ ’’اگر ظفر کے کلام پر اس اعتبار سے نظر ڈالا جائے کہ اس میں محاورہ کس طرح ادا ہوا ہے، روزمرہ کیسا ہے، اثر کتنا ہے اور زبان کس قدر مستند ہے تو ان کا مثل و نظیر آپ کو نہ ملے گا۔

    ظفر بحیثیت شاعر اپنے زمانہ میں مشہور اور مقبول تھے۔ ‘‘ منشی کریم الدین ’’ ’’طبقاتِ شعرائے ہند‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’شعر ایسا کہتے ہیں کہ ہمارے زمانہ میں ان کے برابر کوئی نہیں کہہ سکتا۔

    بہادر شاہ ظفر کے ساتھ بطور شاعر بھی ناانصافی روا رکھی گئی۔ وہ اپنے دور کے معروف شعرا میں سے ایک تھے، لیکن بدقسمتی سے انھیں کلاسیکی شاعروں کے تذکروں میں وہ مقام نہیں‌ دیا گیا جس کے وہ حق دار تھے۔ اکثر بلاتحقیق اور غیرمستند یا سنی سنائی باتوں کو ضبطِ تحریر میں لاتے ہوئے قلم کاروں نے ان کے کلام کو استاد ذوق سے منسوب کیا ہے۔

    بہادر شاہ ظفر نے استاد ذوق سے بھی اصلاح لی اور اسی لیے یہ بات مشہور ہوئی۔ تاہم ادبی محققین اور بڑے نقّادوں نے اسے غلط قرار دیتے ہوئے ظفر کی شاعرانہ عظمت کو تسلیم کیا ہے۔ ان کی شاعری میں زندگی کے سارے رنگ نمایاں ہیں لیکن یاسیت اور جمالیات کے رنگوں کا درجہ سب سے بلند ہے۔

    معروف ادبی محقّق منشی امیر احمد علوی کے مطابق بہادر شاہ ظفر نے پانچ دیوان چھوڑے جن میں ایک ہنگاموں کی نذر ہوگیا اور چار دیوان کو لکھنؤ سے منشی نول کشور نے شایع کیا۔

    بہادر شاہ ظفر کی مسند نشینی سے جلاوطنی اور بعد کے واقعات پر مؤرخین کے علاوہ ادیبوں اور نقّادوں نے بھی ان کے فنِ شاعری پر کئی کتابیں لکھی ہیں۔

  • شاہ عالم ثانی: بدنصیب مغل بادشاہ، مشّاق شاعر

    شاہ عالم ثانی: بدنصیب مغل بادشاہ، مشّاق شاعر

    مغل فرماں روا شاہ عالم ثانی نے اپنی سلطنت کو زوال کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا اور شاعری اور موسیقی سے دل بہلاتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوگئے۔ وہ فارسی اور اردو میں آفتاب اور بھاشا میں شاہ عالم تخلص کرتے تھے۔ شاہ عالم ثانی کو ایسا مغل بادشاہ کہا جاتا ہے جس نے لال قلعہ اور دربار میں شاعری کا سلسلہ شروع کیا اور اردو کو فروغ دی۔

    وہ مشّاق شاعر تھے۔ ان کے اشعار میں پیچ داری، مشکل فقرے یا الفاظ اور دور از کار تشبیہیں نہیں ملتیں بلکہ رواں اور سیدھے سادے الفاظ میں‌ حالِ دل بیان کر دیتے تھے۔ یہاں ہم شاہ عالم ثانی کی ایک غزل باذوق قارئین کی نذر کررہے ہیں۔

    عاجز ہوں ترے ہاتھ سے کیا کام کروں میں
    کر چاک گریباں تجھے بدنام کروں میں

    ہے دورِ جہاں میں مجھے سب شکوہ تجھی سے
    کیوں کچھ گلۂ گردشِ ایّام کروں میں

    آوے جو تصرّف میں مرے مے کدہ ساقی
    اک دَم میں خموں کے خمیں انعام کروں میں

    حیراں ہوں ترے ہجر میں کس طرح سے پیارے
    شب روز کو اور صبح کے تئیں شام کروں میں

    مجھ کو شہِ عالم کیا اس ربّ نے، نہ کیونکر
    اللہ کا شکرانہ انعام کروں میں

  • مغل شہنشاہ کی روداد جو اپنا جانشین تک خود مقرّر نہیں کرسکتا تھا

    مغل شہنشاہ کی روداد جو اپنا جانشین تک خود مقرّر نہیں کرسکتا تھا

    سلطنت مغلیہ کے اٹھارھویں شہنشاہ اکبر شاہ ثانی تھے جنھیں برائے نام اختیارات حاصل تھے۔ وہ شاہ عالم ثانی کے بعد تخت پر رونق افروز ہوئے تھے۔

    اکبر شاہ ثانی کے سنِ پیدائش میں اختلاف ہے۔ کچھ مؤرخین اور تذکرہ نویسوں نے 1759ء اور بعض نے 1755ء لکھا ہے، لیکن ان کی وفات 1837ء میں آج ہی کے دن ہوئی تھی۔

    اکبر شاہ ثانی کے زمانے میں انگریزوں کی سیاسی ریشہ دوانیاں اور زیادہ تیز ہو گئی تھیں۔ انھوں نے‌ دہلی کی بادشاہت کو رفتہ رفتہ محدود کیا اور اسے ختم کرنے کے لیے ہر کوشش کی۔

    شاہ عالم ثانی کے زمانے تک انگریز، مغل بادشاہ اور اس کے دربار کی تعظیم کرتے تھے۔ اس وقت بادشاہ کے دربار میں دہلی کے ریذیڈنٹ، اسٹین کی حیثیت ایک معمولی امیر سے زیادہ نہیں تھی۔ وہ شاہی خاندان کے ہر فرد کی بے انتہا عزت کرتا تھا لیکن اسٹین کا نائب، چارلس مٹکاف، بادشاہ کے اس احترام سے سخت ناخوش تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ہم اس طرح بادشاہ کی تعظیم کر کے اس کی غیرت و حمیت کو نہیں سلا سکتے، جو ہمارا اوّلین مقصد ہے۔

    ادیب اور تذکرہ نگار مولوی ذکاءُ اللہ چارلس مٹکاف کے الفاظ میں لکھتے ہیں:’’میں اس پالیسی کے ساتھ موافقت نہیں کرتا جو اسٹین صاحب نے شاہی خاندان کے ساتھ اختیار رکھی ہے۔ جو شخص برٹش گورنمنٹ کی طرف سے دہلی میں حکم رانی کے لیے مقرر ہو، وہ بادشاہ کی تعظیم اس طرح کرتا ہے جس سے بادشاہی قوت کے بیدار ہونے کا اندیشہ ہے۔ حالاں کہ ہم اس کو ہمیشہ کے لیے سلا دینا چاہتے ہیں۔ ہمارا مقصود نہیں کہ بادشاہ کو بادشاہی کے دوبارہ اختیارات حاصل ہوں۔ اس لیے ہم کو ایسی حرکتیں نہیں کرنی چاہییں جن سے اس کے دل میں اپنی بادشاہی حاصل کرنے کی تمنا پیدا ہو، اگر ہم نہیں چاہتے کہ اس کی حکومت کو پھر دوبارہ قائم کریں تو ہم کو چاہیے کہ بادشاہت کا خیال اس کے خواب میں بھی نہ آنے دیں۔‘‘

    یہ حالات اکبر شاہ ثانی کی تخت نشینی کے ٹھیک ایک سال بعد یعنی 1807ء میں پیدا ہونے شروع ہو گئے تھے۔ 1809ء میں بادشاہ نے اپنے لیے مزید وظیفے کا مطالبہ کیا جسے کورٹ آف ڈائریکٹرز نے بخوشی منظور کر لیا۔ لیکن اتنی بڑی بادشاہت پنشن اور وظائف پر نہیں چل سکتی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ انگریزوں کی طرف سے بادشاہ کو جو وظیفہ ملتا تھا وہ ناکافی تھا۔ لہٰذا بادشاہ نے پھر کوشش کی کہ وظیفے میں مزید اضافہ کیا جائے۔ بادشاہ نے اس سلسلے میں حکومت اودھ کی بھی مدد حاصل کرنے کی کوشش کی۔

    چناں چہ 1812ء میں بادشاہ کی والدہ قدسیہ بیگم اور صاحب زادے مرزا جہانگیر کسی بہانے لکھنؤ پہنچے اور وہاں پہنچ کر نواب وزیر کو اپنی مدد کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ انگریزوں نے اس کارگزاری کے جواب میں بادشاہ کے الاؤنس میں اس وقت تک کے لیے اضافے سے انکار کر دیا، جب تک وہ انگریزوں کی شرائط پر کاربند نہ ہوں۔ بادشاہ کو تمام معاملات سے بے دخل کر دیا گیا، یہاں تک کہ بادشاہ کو یہ اختیار بھی نہیں رہا کہ وہ اپنا ولی عہد یا جانشین خود مقرر کر سکیں۔

    1814ء میں اکبر شاہ ثانی نے گورنمنٹ سے مطالبہ کیا کہ ان کا مرتبہ گورنر جنرل سے زیادہ ہونا چاہیے۔ انگریزوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔

    آخر کار اکبر شاہ ثانی نے مشہور برہمو سماجی لیڈر راجا رام موہن رائے کو راجا کا خطاب دے کر اپنا سفیر بنا کر انگلستان بھیجا اور انھیں اپنا مقدمہ لڑنے کو کہا۔ راجا رام موہن رائے جب انگلستان پہنچے تو ان کا زبردست استقبال ہوا۔ وہ ایک دانش ور تھے لیکن جس مقصد کے لیے وہ انگلستان گئے تھے اس میں انھیں کام یابی حاصل نہیں ہو سکی۔

    اس کے بعد ہندوستان میں انگریز افسر اکبر شاہ ثانی سے اور بدگمان ہوگئے۔ چنانچہ اکبر شاہ ثانی نے اپنی زندگی کے باقی دن لال قلعے میں ایک بے یارو مددگار انسان کی طرح پورے کیے۔

    وہ دہلی کے تخت پر 31 برس رونق افروز رہے اور کہتے ہیں کہ مرضِ اسہال کے سبب وفات پائی۔