Tag: مغل بادشاہ

  • مغل شہزادے کے فرانسیسی معالج فرانسوا برنیئر کی کہانی

    مغل شہزادے کے فرانسیسی معالج فرانسوا برنیئر کی کہانی

    "ٹریولز ان دا مغل امپائر” کو شہنشاہ شاہ جہاں کے دور اور مغل دربار کے حالات و واقعات پر مستند اور قابلِ توجہ تصنیف سمجھا جاتا ہے۔ یہ فرانسیسی معالج اور مؤرخ فرانسوا برنیئر کی کتاب ہے۔

    وہ شاہ جہاں کے لاڈلے بیٹے دارا شکوہ کا معالج تھا جو عالم گیر کے ہندوستان کا حکم راں بننے کے بعد اس کے دربار سے بھی وابستہ رہا۔ برنیئر نے 1688ء میں آج ہی کے دن وفات پائی۔

    ہندوستان میں مفکّر، باصلاحیت شاعر، فنونِ لطیفہ کے شائق اور صوفی شہزادے کے طور پر مشہور ہونے والے دارا شکوہ کی موت کے بعد فرانسوا برنیئر بادشاہ اورنگزیب عالم گیر کے دربار منسلک ہوگیا۔ وہ فرانس کا باشندہ تھا جو سیروسیّاحت کا شوقین اور پیشے کے اعتبار سے طبیب تھا۔ ہندوستان میں اس کا قیام لگ بھگ 12 رہا اور اس عرصے میں اس نے مغل خاندان کے کئی راز جانے اور تخت و تاج کے لیے سازشوں کا گواہ بنا۔

    ہندوستان کے مغل دور کی تاریخ پر مبنی مذکورہ کتاب کے علاوہ 1684ء میں برنیئر کی ایک کتاب شایع ہوئی تھی جس میں انسانوں کی مختلف نسلوں یا خاندانوں‌ کی درجہ بندی کی گئی تھی اور اس کتاب کو مابعد کلاسیکی دور پہلی تصنیف سمجھا جاتا ہے۔

    اس کا دوسرا تصنیفی کارنامہ دارا شکوہ اور عالم گیر کے عہد کا احوال ہے۔ برنیئر کی مغل دور کی یہ تاریخ یا سفر نامہ اس کی آنکھوں دیکھے واقعات، مشاہدات اور معلومات پر مبنی ہے جو اس نے قابلِ بھروسا اور اہم مغل درباریوں سے حاصل کی تھیں اور اکثر مقامات پر ان کے بیانات بھی درج کیے ہیں۔

    برنیئر 68 سال کی عمر میں پیرس میں چل بسا تھا۔

  • یومِ وفات: بدنصیب شہزادہ دارا شکوہ جس کی اصل قبر آج بھی تلاش کی جارہی ہے

    یومِ وفات: بدنصیب شہزادہ دارا شکوہ جس کی اصل قبر آج بھی تلاش کی جارہی ہے

    دارا شکوہ مغل شہنشاہ شاہ جہاں اور ملکہ ممتاز محل کا بڑا بیٹا تھا۔

    مؤرخین نے اسے طبعاً صلح جُو، غم گسار، صوفیا کا ارادت مند لکھا ہے۔ وہ فارسی، عربی اور سنسکرت کا عالم اور متعدد کتب کا مصنّف تھا۔

    شہزادہ دارا شکوہ کی نظر میں تمام مذاہب قابلِ احترام تھے۔ وہ جہاں مسلمان علما اور صوفیائے کرام کی مجالس میں شریک رہتا، وہیں ہندو، سکھ اور بدھ مت کے پیروکاروں سے بھی علمی و مذہبی موضوعات پر اظہارِ خیال کرتا تھا۔

    ہندوستان کی تاریخ میں اسے ایک بدنصیب شہزادے کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جسے 1659ء میں آج ہی کے دن قتل کردیا گیا تھا۔

    دارا شکوہ شاہ جہاں کے بعد تخت کا وارث تھا، لیکن شہنشاہ کے چھوٹے بیٹے اورنگزیب نے اسے معزول کرکے قید کر لیا اور بعد میں قتل کر دیا گیا۔

    ہندوستان کے مشہور شہر اجمیر میں 1615ء میں‌ آنکھ کھولنے والا دارا شکوہ شاہ جہاں کا لاڈلا تھا۔ وہ بڑا ہوا تو ایک مفکّر، شاعر اور فنونِ لطیفہ کا شیدائی نکلا، لیکن سلطنت کے انتظام اور خاص طور پر فوجی امور میں اسے کوئی دل چسپی نہیں تھی۔

    مؤرخین نے دارا شکوہ کی شادی کو مغل دور کی مہنگی ترین تقریب لکھا ہے۔ اس شہزادے کا نکاح نادرہ بانو کے ساتھ ہوا۔ 1633ء میں شاہی خاندان میں ہونے والی شادی کی یہ تقریب کئی روز جاری رہی تھی۔

    محمد صالح کمبوہ لاہوری شاہ جہاں کے دربار سے منسلک ایک مؤرخ تھے۔ انھوں نے ’شاہ جہاں نامہ‘ جیسی کتاب لکھی جو بہت مشہور ہے۔

    وہ دارا شکوہ کی گرفتاری اور قتل کے بارے میں لکھتے ہیں، ’شہزادہ کو جب گرفتار کر کے دلّی لایا گیا تو اس کے جسمِ نازنین پر میلا کچیلا لباس تھا۔ یہاں سے اسے نہایت سرگردانی اور برگشتہ بختی کی حالت میں ہاتھی پر سوار کر کے خضر آباد پہنچایا گیا۔ کچھ عرصے ایک تنگ و تاریک گوشے میں رہا اور تھوڑے ہی دنوں بعد اس کے قتل کا حکم صادر ہوا۔‘

    قتل کے بعد اس کی لاش کو کہاں دفنایا گیا، اس بارے میں بتانا کچھ مشکل ہے، کیوں کہ کوشش کی گئی تھی کہ کسی کو اس کی قبر کا علم نہ ہوسکے۔

    دارا شکوہ کی قبر کہاں ہوسکتی ہے؟ اس بارے میں اس وقت کے ایک مؤرخ محمد کاظم ابن محمد امین منشی نے اپنی مشہور کتاب ’عالمگیر نامہ‘ میں لکھا ہے، ’دارا شکوہ کو ہمایوں کے مقبرے میں اس گنبد کے نیچے دفنا دیا گیا جہاں شہنشاہ اکبر کے بیٹے دانیال اور مراد دفن ہیں۔‘

    کسی شہزادے کا موت کے بعد یوں بے نام و نشان ہو جانا تعجب کی بات نہیں کیوں کہ تاریخ کے اوراق میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جب شاہی خاندان میں مخالف کو مرنے کے بعد اس طرح ٹھکانے لگایا گیا ہو کہ کوئی اس کی قبر تک نہ پہنچ سکے۔

    مؤرخین کے مطابق اس بدنصیب شہزادے کا سر قلم کردیا گیا تھا۔ شاہ جہاں کے عہد کے مؤرخین کی تحریر اور بعض دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ دارا شکوہ کا دھڑ دلّی میں ہمایوں کے مقبرے میں کسی جگہ پیوندِ‌ خاک بنا، لیکن اس کا سَر تاج محل کے صحن میں کہیں دفن ہے۔

    رباعیات کے علاوہ دارا شکوہ کی تصنیف کردہ کتابوں میں سفینۃُ الاولیا، سکینۃُ الاولیاء اور حسناتُ العارفین مشہور ہیں۔

  • اورنگزیب عالمگیر کی بیٹی سے متعلق انگریز مصنّفین کی بے سَر و پا باتیں

    اورنگزیب عالمگیر کی بیٹی سے متعلق انگریز مصنّفین کی بے سَر و پا باتیں

    بمبئی کے سفرمیں ایک عزیز دوست نے جو انگریزی تصنیفات پر زیادہ اعتماد رکھتے ہیں انڈین میگزین اینڈ ریویو کا ایک آرٹیکل دکھلایا جو زیبُ النسا کی سوانح عمری کے متعلق تھا۔

    مجھ کو افسوس ہوا کہ ایک ایسے معزز پرچہ کا سرمایۂ معلومات تمام تر بازاری قصّے تھے جس میں سے ایک شرم ناک قصّہ عاقل خان رازی کا بھی ہے، اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ خود مسلمانوں میں بازاری اہلِ قلم نے زیب النسا کے جو حالات تجارتی غرض سے قلم بند کیے، وہ بالکل بے سروپا ہیں۔

    اس بنا پر خیال ہوا کہ زیبُ النسا کے متعلق صحیح معلومات یکجا کر دیے جائیں، جس سے یہ فائدہ ہوگا کہ غلط معلومات کی اصلاح ہو جائے گی۔

    زیبُ النسا کی ولادت
    زیبُ النسا اورنگ زیب (مغل بادشاہ) کی سب سے پہلی اولاد تھی۔ زیب النسا شادی کے دوسرے سال شوال ۱۰۴۸ہجری (1638ء) میں پیدا ہوئی۔ حسبِ دستور سب سے پہلے قرآن مجید کی تعلیم دی۔ تمام تاریخیں اور تذکرے متفق اللفظ ہیں کہ زیب النسا نے عربی اور فارسی کی تعلیم نہایت اعلیٰ درجہ کی حاصل تھی۔

    زیب النسا نے شادی نہیں کی۔ عام طور پر مشہور ہے کہ سلاطینِ تیموریہ لڑکیوں کی شادیاں نہیں کرتے تھے۔ اس غلط روایت کو یورپین مصنّفوں نے بہت شہرت دی ہے اور اس سے ان کو شاہی بیگمات کی بدنامی پھیلانے میں بہت مدد ملی ہے، لیکن یہ قصہ ہی سرے سے بے بنیاد ہے۔ خود عالمگیر کی دو بیٹیاں زبدۃُ النسا بیگم اور مہرالنسا بیگم سپہر شکوہ اور ایزد بخش (پسرِ شہزادہ مراد) سے بیاہی تھیں۔ چناں چہ مآثرِعالمگیری میں دونوں شادیوں کی تاریخیں اور مختصر حالات لکھے ہیں اور خاتمہ کتاب میں بھی اس کا ذکر کیا ہے۔

    عالمگیر زیبُ النسا کی نہایت عزّت کرتا تھا۔ جب وہ کہیں باہر سے آتی تھی تو اس کے استقبال کے لیے شہزادوں کو بھیجتا تھا۔ سفر و حضر میں اس کو ساتھ رکھتا تھا۔

    زیب النساء نے ۱۱۱۰ ہجری (1698 یا 1702ء) میں دلّی میں انتقال کیا۔ عالمگیر اس زمانے میں دکن کی فتوحات میں مصروف تھا۔ یہ خبر سن کر سخت غم زدہ ہوا۔ حکم صادر ہوا کہ اس کے ایصالِ ثواب کے لیے زکوٰۃ و خیرات دیں۔ اور مرحومہ کا مقبرہ تیار کرائیں۔ خانی خان نسخہ مطبوعہ کلکتہ میں زیب النسا کا نام اور اس کے واقعات ۱۱۲۲ ہجری (1710ء) تک آتے ہیں، لیکن یہ صریح غلطی ہے۔ کاتبوں نے غلطی سے زینتُ النسا کو زیبُ النساء سے بدل دیا ہے۔

    کمالاتِ علمی اور عام اخلاق و عادات
    تمام مؤرخین نے بہ تصریح لکھا ہے کہ زیبُ النسا علومِ عربیہ اور فارسی زبان دانی میں کمال رکھتی تھی۔ نستعلیق، نسخ اور شکستہ خط نہایت عمدہ لکھتی تھی۔ لیکن اس کی تصنیفات سے آج کوئی چیز موجود نہیں۔ عام طور پر مشہور ہے کہ وہ مخفی تخلص کرتی تھی۔ اور دیوانِ مخفی جو چھپ کر شائع ہو چکا ہے اسی کا ہے، لیکن یہ صحیح نہیں۔ کسی تاریخ یا تذکرہ میں اس کے تخلص یا دیوان کا ذکر نہیں۔ اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ وہ شاعر تھی لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کلام ضائع ہوگیا۔

    علم پروری
    زیبُ النسا نے خود کوئی تصنیف کی ہو یا نہ کی ہو، لیکن اس نے اپنی نگرانی میں اہلِ فن سے بہت سی عمدہ کتابیں تصنیف کرائیں۔ زیب النسا نے تصنیف و تالیف کا جو محکمہ قائم کیا تھا اس کے ساتھ ایک عظیم الشان کتب خانے کا ہونا بھی ضروری تھا۔ جس سے مصنفین فائدہ اٹھا سکیں۔ چنانچہ بیگم موصوف نے ایک نہایت عظیم الشان کتب خانہ قائم کیا۔

    اخلاق و عادات
    زیب النسا اگرچہ درویشانہ اور منصفانہ مذاق رکھتی تھی، تاہم شاہجہاں کی پوتی تھی۔ اس لیے نفاست پسندی اور امارت کے سامان بھی لازمی تھے۔ عنایت اللہ خاں جو امرائے عالمگیری میں مقربِ خاص تھا، زیب النسا کا میر خانساماں تھا۔ کشمیر میں جا بجا خوشگوار اورخوش منظر چشمے ہیں۔ ان میں سے ایک چشمہ جس کا نام احول تھا، زیب النسا کی جاگیر میں تھا۔ زیب النسا نے اس کے متصل ایک نہایت پُر تکلف باغ اور شاہانہ عمارتیں تیار کرائی تھیں۔

    زیبُ النسا کے متعلق جھوٹے قصّے
    زیبُ النسا کے متعلق متعدد جھوٹے قصّے مشہور ہوگئے ہیں جن کو یورپین مصنفوں نے اور زیادہ آب و رنگ دیا ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ زیب النسا اور عاقل خاں سے عاشقی اور معشوقی کا تعلق تھا اور زیب النسا اس کو چوری چھپے سے محل میں بلایا کرتی تھی۔ ایک دن عالمگیر محل میں موجود تھا کہ اس کو پتہ لگا کہ عاقل خاں محل میں ہے اور حمام کی دیگ میں چھپا دیا گیا ہے۔ عالمگیر نے انجان بن کر اسی دیگ میں پانی گرم کرنے کا حکم دیا۔ عاقل خاں نے اخفائے راز کے لحاظ سے دَم نہ مارا اور جل کر رہ گیا۔

    (اردو کے نام وَر سیرت نگار، مؤرخ، عالمِ دین اور نقّاد شبلی نعمانی کے ایک مضمون سے تالیف کردہ پارے)

  • جب مظاہرِ فطرت و مناظرِ قدرت کا دلدادہ جہانگیر، کشمیر کی سیر کو نکلا

    جب مظاہرِ فطرت و مناظرِ قدرت کا دلدادہ جہانگیر، کشمیر کی سیر کو نکلا

    مغل شہنشاہ جہانگیر میں مظاہرِ فطرت و مناظرِ قدرت کی ایک عجیب استعدادِ خداداد نظر آئے گی۔ اس کو باغوں اور پھولوں کا خاص شوق تھا اور کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ جب کسی نے کوئی گل دَستہ پیش کیا ہے تو اس نے اپنی چلتی سواری ٹھہرا لی ہے اور اس گل دستہ کو خود ہاتھ میں لیا ہے۔ اپنی عظیمُ الشّان سلطنت کے بڑے بڑے تالابوں، جھیلوں اور آبشاروں کی حسن و خوبی کو خوب بیان کرتا ہے اور ہمالیہ پہاڑ کے مناظر و مظاہر کی نہایت دل کش تصویر کھینچتا ہے۔

    وہ کشمیر بھی گیا اور کئی مرتبہ گیا۔ راستوں کی کیفیت، کشمیر کے سبزہ زاروں، مرغزاروں اور ڈل کے نظّاروں سے وہ نہایت محظوظ ہوا۔ یہ تمام حالات اس نے اپنی توزک میں اپنے قلم سے تفصیل کے ساتھ لکھے ہیں۔ یہاں تفنّنِ طبع کے لیے ان کا خلاصہ درج کیا جاتا ہے۔

    حسن ابدال سے کشمیر تک جس راہ سے بادشاہ آیا، پچھتر (75) کوس کی مسافت تھی۔ جس کو بادشاہ نے 19 کوچ اور 9 مقام کرکے 25 روز میں طے کیا۔ حسن ابدال کا حال بادشاہ نے تفصیل سے لکھا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ اس منزل سے آگے پہاڑ کے نشیب و فراز کثرت سے ہیں۔ سارے لشکر کا ایک ہی دفعہ گزرنا محال تھا۔ اس لیے یہ طے پایا کہ حضرت مریم مکانی بیگمات کے ساتھ توقف کریں اور سہولت کے ساتھ تشریف لائیں۔

    بیوتات کے میرِ سامان مدارُ الملک اعتمادُ الدّولہ وغیرہ کو حکم دیا کہ تھوڑے تھوڑے آدمی گزریں۔ رستم مرزا صفوی اور خان اعظم اور ان کی جماعت کو ہدایت ہوئی کہ پونچھ کی راہ سے آؤ۔ بادشاہ خود خدمت گاروں کے ساتھ موضع سلطان پور میں آیا۔ اس ملک کے آدمیوں کی زبانی سنا کہ غیر ایّامِ برسات میں جب کہ بجلی اور بارش کا مطلق اثر نہیں ہوتا، اس پہاڑ سے صدائے ابر کی مانند آواز آتی رہتی ہے جس سے اس کا نام کوہِ گرج مشہور ہو گیا ہے۔

    20 سال ہوئے جب سے یہاں ایک قلعہ بنایا گیا ہے، آواز کا آنا موقوف ہے۔ اس قلعہ کو گندھ گڑھ کہتے ہیں جو بظاہر گنج گڑھ معلوم ہوتا ہے، کیوں کہ یہ پہاڑ درختوں اور سبزہ کے نہ ہونے سے خشک اور برہنہ ہے۔

    اسی طرح‌ اپنی کتاب میں‌ سلہر اور نوشہرہ کے حالات میں بادشاہ لکھتا ہے۔

    جہاں تک نظر کام کرتی تھی، یہ قطعہ سبزہ زاروں سے شگفتہ اور پھولوں سے گُل ریز نظر آتا تھا۔ سلہر میں ایک پھول دیکھاکہ اندام میں گلِ خطمی کے برابر اور رنگ میں سرخ آتشیں تھا۔ اسی رنگ کے اور بھی بہت پھول تھے، لیکن وہ سب چھوٹے تھے۔ دور سے ان پھولوں کا نظّارہ نہایت دل فریب معلوم ہوتا تھا۔

    دامنِ کوہ میں بھی نہایت عجیب منظر تھا۔ یہاں سے گزر کر پگھلی کے علاقہ میں داخل ہوا جہاں معمولی برف باری سے بھی روشناس ہونا پڑا۔ چمبہ اس راہ میں کثرت سے تھا۔ شفتالو اور زرد آلو کے درختوں میں شگوفے لگے ہوئے تھے۔ صنوبر کے درخت مثل سرو کے دیدہ فریب تھے۔

    پگھلی کا رئیس سلطان جبین مرزا زمیں بوس ہوا۔ اس نے اپنےمکان پر مجھے مدعو کیا۔ چوں کہ والدِ ماجد (اکبر) بھی دورانِ سفرِ کشمیر اس کے گھر گئے تھے، اس لیے میں نے اس کی درخواست منظور کر لی اور اس کے ہمسروں میں اس کا درجہ بڑھایا۔ یہاں میوے بغیر پرورش کے خود رو ہوتے ہیں۔ اس علاقہ میں کشمیر کی روش پر خانہ و منازل چوب سے بناتے ہیں۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ چند منزل تک ایسی بستی نہیں ہے کہ وہاں غلّہ اس قدر مل جائے کہ لشکر کفایت کرے، اس لیے ہاتھیوں اور ہمراہیوں کی تخفیف ہوئی جو بعد میں ہمارے ساتھ آ شامل ہوئے۔

    پانچ کوس کے فاصلہ پر نین سُکھ کی ندی آئی جو بدخشاں اور تبت کے درمیانی پہاڑوں سے نکلتی ہے۔ ندی کی دونوں شاخوں پر دو پُل، ایک 17 گز، دوسرا 14 گز طولانی اور عرض میں صرف پانچ گز بنائے گئے۔ ہاتھیوں کو پایاب اُتارا اور سوار اور پیادے پُل پر سے اُترے۔ یہاں پُل لکڑی کے بنائے جاتے ہیں اور سالہا سال برقرار رہتے ہیں۔

    تین کوس کے قریب چل کر دریائے کشن گنگا کے کنارے پر منزل ہوئی۔ راہ میں ایک پہاڑ جس کا ارتفاع ڈیڑھ کوس ہے، واقع ہے۔ پُل سے گزر کر ایک آبشار آتا ہے جو نہایت لطیف و صاف ہے۔ میں نے نہایت شوق سے سایۂ درخت میں اس کا پانی پیا۔ اُس پُل کے محاذ میں دوسرا پُل میں نے بھی تعمیر کرایا۔ پانی عمیق اور تند تھا۔ ہاتھیوں کو ننگا اس دریا سے عبور کرایا گیا۔ دریا کے مشرق میں عین پہاڑ پر میرے باپ کے حکم سے ایک پختہ سرائے پتھر اور چونے کی بنی ہوئی ہے۔

    بادشاہ مقام بھول باس سے کچھ آگے نکل گیا تھا کہ برف و باراں نے اُسے گھیر لیا۔ جہانگیر مع اہلِ حرم اس بلائے آسمانی سے بچنے کے لیے معتمد خاں، مصنّف اقبال نامہ جہانگیری کے خیمہ میں جو بالکل خالی تھا، چلا گیا اور وہاں شبانہ روز رہا۔ جب معتمد خاں کو خبر ہوئی تو وہ پیادہ پا ڈھائی کوس کی مسافت کر کے دوڑا آیا۔ جو کچھ نقد و جنس اس کی بساط میں تھی، بادشاہ کو پیش کی۔ بادشاہ نے نذر معاف کر دی اور فرمایا، متاعِ دنیا ہماری چشمِ ہمّت میں ہیچ ہے۔ ہم جوہرِ اخلاص کو گراں بہا سے خریدتے ہیں۔

    (منشی محمد الدّین فوقؔ اردو کے معروف ادیب و شاعر، مؤرخ اور صحافی تھے جو 1945ء میں وفات پاگئے تھے، انھوں نے مغل بادشاہ جہانگیر کی کشمیر آمد اور اس کے سفر و قیام کا احوال اپنی کتاب میں رقم کیا ہے، پیشِ نظر پارہ اسی تصنیف سے نقل کیا گیا ہے)

  • دربارِ اکبری وہ تصنیف جس پر مولانا آزاد "اکبر پرست” مشہور ہوگئے

    دربارِ اکبری وہ تصنیف جس پر مولانا آزاد "اکبر پرست” مشہور ہوگئے

    دربارِ اکبری اردو کے نام وَر ادیب، انشا پرداز اور شاعر محمد حسین آزاد کی تصنیف ہے جس میں انھوں شہنشاہ اکبرِ اعظم کی زندگی، دربار کے حالات، اراکینِ سلطنت کا احوال اور اُس زمانے کی تہذیب و ثقافت کو نقش کیا ہے۔

    یہ کتاب آزاد کے سحر انگیز اسلوب کا خوب صورت نمونہ ہے۔ دربارِ اکبری کی اشاعت کے بعد آزاد پر سخت نکتہ چینی کی گئی اور کتاب پر کڑی تنقید ہوئی۔ اس زمانے کے محققین نے اس تصنیف کو آزاد کی اکبر پرستی کا ثبوت بھی کہا ہے۔

    اس کتاب میں شامل مولانا محمد حسین آزاد کے قلم سے نکلا ہوا ایک پارہ یہاں‌ نقل کیا جارہا ہے۔

    وہ لکھتے ہیں: "میرے باکمال دوستو۔ میں نے خود دیکھا اور اکثر دیکھا کہ بے لیاقت شیطان جب حریف کی لیاقت اپنی طاقت سے باہر دیکھتے ہیں تو اپنا جتھا بڑھانے کو مذہب کا جھگڑا بیچ میں ڈال دیتے ہیں، کیوں کہ اس میں فقط دشمنی ہی نہیں بڑھتی بلکہ کیسا ہی بالیاقت حریف ہو اس کی جمعیت ٹوٹ جاتی ہے اور ان شیطانوں کی جمعیت بڑھ جاتی ہے۔

    دنیا میں ایسے نافہم بے خبر بہت ہیں کہ بات تو نہیں سمجھتے، مذہب کا نام آیا اور آپے سے باہر ہو گئے۔ بھلا دنیا کے معاملات میں مذہب کا کیا کام؟ ہم سب ایک ہی منزلِ مقصود کے مسافر ہیں۔ اتفاقاً گزر گاہ دنیا میں یکجا ہو گئے ہیں۔ رستہ کا ساتھ ہے۔ بنا بنایا کارواں چلا جاتا ہے۔

    اتفاق اور ملن ساری کے ساتھ چلو گے۔ مل جل کر چلو گے۔ ایک دوسرے کا بوجھ اٹھاتے چلو گے۔ ہم دردی سے کام بٹاتے چلو گے تو ہنستے کھیلتے رستہ کٹ جائے گا۔

    اگر ایسا نہ کرو گے اور ان جھگڑالوؤں کے جھگڑے تم بھی پیدا کرو گے تو نقصان اٹھائو گے۔ آپ بھی تکلیف پاؤ گے۔ ساتھیوں کو بھی تکلیف دو گے۔ جو مزے کی زندگی خدا نے دی ہے، بدمزہ ہو جائے گی۔”

    اکبر کی شخصیت، خاص طور پر اس کے مذہبی عقائد، اس دور کی ثقافت اور مولانا کی تصنیف کے حق و رد میں متعدد کتب سامنے آئیں‌ جن میں محققین نے اپنی رائے اور‌ اپنے مؤقف کے حق میں دلائل پیش کیے ہیں، لیکن آزاد کی علمیت اور قابلیت، ان کی قلمی کاوشوں اور ان کے خلوصِ فکر سے کسی کو انکار نہیں۔

  • شہزادے سے مغل بادشاہ بننے تک پردیپ کمار کا فلمی سفر

    شہزادے سے مغل بادشاہ بننے تک پردیپ کمار کا فلمی سفر

    وہ 1950ء اور 60 کی دہائی تھی جب ہندی سنیما میں پردیپ کمار نے ہیرو کی حیثیت سے شائقین کی توجہ حاصل کی اور اپنے وقت کے مقبول فلمی ہیرو شمار کیے جانے لگے۔

    پردیپ کمار کی فلموں نے باکس آفس پر شان دار کام یابیاں سمیٹیں اور فلم سازوں کو اپنے سرمائے پر زبردست منافع حاصل ہوا۔ یوں انڈسٹری میں ان کی خوب پذیرائی ہونے لگی۔

    پردیپ کمار کا تعلق مغربی بنگال سے تھا جہاں وہ چار جنوری 1925ء کو پیدا ہوئے۔ پردیپ کمار نے ہندی اور بنگالی دونوں زبانوں میں بننے والی فلموں میں کام کیا۔

    17 برس کی عمر میں اداکار کی حیثیت سے کام کرنے کا فیصلہ کرنے والے پردیپ کمار نے بنگالی فلموں سے اپنا کیرئیر شروع کیا۔ 1947ء میں ان کی ایک فلم ریلیز ہوئی جو بہت کام یاب رہی۔ اس کے بعد پردیپ نے مزید چند بنگالی فلمیں کیں اور اپنی اداکاری سے شائقین کو متاثر کرنے میں کام یاب رہے۔ اسی زمانے میں انھوں نے ہندی فلموں میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا اور ممبئی چلے گئے۔

    پردیپ کمار کو ممبئی کی فلم نگری میں زیادہ مشکل پیش نہ آئی اور 1952ء میں فلم ’’آنند ماتھ‘‘ میں انھیں ایک اہم کردار مل گیا۔ 1953ء میں پردیپ کمار کی شہرت اور مقبولیت کا ایک اور باب کھلا جب ان کی فلم ’’انارکلی‘‘ ریلیز ہوئی۔ فلم میں شہزادہ سلیم کے روپ میں انھیں ہندی سنیما کے شائقین نے بہت پسند کیا اور ان کی شان دار پرفارمنس کو ہر کسی نے سراہا۔

    اس فلم کے نغمات بہت مقبول ہوئے اور اس نے زبردست بزنس کیا تھا۔ اگلے سال یعنی 1954ء میں پردیپ کمار نے فلم ناگن میں وجنتی مالا کے ساتھ کام کرکے پھر کام یابی سمیٹی۔ اس فلم میں‌ بھی پردیپ کمار کی اداکاری کو بہت پسند کیا گیا۔ ان کی تاریخی فلموں میں‌ ایک ’’تاج محل‘‘ بھی تھی جس میں وہ شہزادہ خرّم کا کردار نبھاتے نظر آئے۔ پردیپ نے اپنے وقت کی مقبول ترین ہیروئنوں کے ساتھ کردار نبھائے۔

    پردیپ کمار کی 1963ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’’تاج محل‘‘ کو بھی نہیں بھلایا جا سکتا۔ یہ فلم بھی اپنے دور کی سپرہٹ فلم تھی اور اس کے گیتوں نے بھی بہت شہرت حاصل کی۔ پردیپ کمار نے رومانوی کردار بھی ادا کیے اور المیہ بھی اور ہر بار شائقین سے خوب داد سمیٹی۔

    پردیپ کمار نے مدھوبالا، بینا رائے، شکیلہ، مالا سنہا، مینا کماری، نرگس اور وجنتی مالا جیسی ہیروئنوں کے مقابل ہیرو کا کردار ادا کیا۔

    وہ 27 اکتوبر 2001ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ ان کی فلموں میں‌ ’’عدلِ جہانگیر، بندھن، بہو بیگم، نورجہاں، نیا زمانہ، ہیلمٹ، بادشاہ، مٹی میں سونا‘‘ شامل ہیں۔

  • دلّی کے تاجدار اور رعایا کی عقیدت کا عالم

    دلّی کے تاجدار اور رعایا کی عقیدت کا عالم

    یہ جڑوں ہی کی مضبوطی تھی کہ دلّی کا سرسبز و شاداب چمن اگرچہ حوادثِ زمانہ کے ہاتھوں پامال ہو چکا تھا اور فلاکت کی بجلیوں اور بادِ مخالف کے جھونکوں سے سلطنتِ مغلیہ کی شوکت و اقتدار کے بڑے بڑے ٹہنے ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہے تھے، پھر بھی کسی بڑی سے بڑی طاقت کی ہمت نہ ہوتی تھی کہ اس برائے نام بادشاہ کو تخت سے اتار کر دلّی کو اپنی سلطنت میں شریک کر لے۔

    مرہٹوں کا زور ہوا، پٹھانوں کا زور ہوا، جاٹوں کا زور ہوا، انگریزوں کا زور ہوا، مگر دلّی کا بادشاہ دلّی کا بادشاہ ہی رہا اور جب تک دلّی بالکل تباہ نہ ہوئی، اس وقت تک کوئی نہ کوئی تخت پر بیٹھنے والا نکلتا ہی رہا۔

    دلّی کے ریذیڈنٹ نے بہت کچھ چاہا کہ بادشاہ کے اعزاز و احترام میں کمی کر دے، گورنر جنرل نے بڑی کوشش کی کہ شاہی خاندان کو قطب میں منتقل کر کے قلعے پر قبضہ کر لے، کورٹ آف ڈائریکٹرز نے بہت زور مارا کہ دلّی کی باشاہت کا خاتمہ کر دیا جائے، مگر بورڈ والے اس پر کسی طرح تیار نہ ہوئے۔ وہ جانتے تھے کہ دلّی کا بادشاہ کیا ہے اور اس کے اثرات کہاں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ بڑے بڑے مباحثے ہوئے، نوجوانوں نے بہت کچھ جوش و خروش دکھایا، مگر انگلستان کے جہاندیدہ بڈھوں کے سامنے کچھ نہ چلی۔

    جب بورڈ میں مسٹر ملکر نے کھڑے ہو کر کہا، عزیزو! میں پچاس سال ہندوستان میں رہا ہوں۔ میں وہاں کے رنگ سے اچھی طرح واقف ہوں۔ میں جانتا ہوں دلّی کا قلعہ کیا ہے۔ اس کی بنیاد اگر ایک طرف کابل تک گئی ہے تو دوسری طرف راس کماری تک۔ ایک جانب آسام تک ہے تو دوسری جانب کاٹھیا واڑ تک۔ ذرا قلعے کو ہاتھ لگایا تو وہ زلزلہ آئے گا کہ سارا ہندوستان ہل جائے گا۔ یہ برائے نام بادشاہت جس طرح چل رہی ہے اسی طرح چلنے دو۔‘‘

    آخر بورڈ میں بڈھے جیتے اور جوان ہارے۔ دلّی کے بادشاہ کا اقتدار ضرور کم ہو گیا مگر جو عقیدت رعایا کو بادشاہ سے تھی، اس میں ذرّہ برابر فرق نہ آیا اور جو محبت بادشاہ کو رعایا سے تھی وہ جیسی کی ویسی رہی۔ رعایا کی وہ کون سی خوشی تھی جس میں بادشاہ حصہ نہ لیتے ہوں اور بادشاہ کا وہ کون سا رنج تھا جس میں رعایا شریک نہ ہوتی ہو۔ بات یہ تھی کہ دونوں جانتے اور سمجھتے تھے کہ جو ہم ہیں، وہ یہ ہیں اور جو یہ ہیں، وہ ہم ہیں۔

    شاہ عالمگیر ثانی کے قتل کے واقعے ہی پر نظر ڈال لو۔ دیکھو کہ ہندو مرد تو مرد عورتوں کو بھی بادشاہ سے کیسی محبت تھی اور خود بادشاہ اس محبت کی کیسی قدر کرتے تھے۔ عالمگیر ثانی کو فقیروں سے بڑی عقیدت تھی۔ جہاں سن پاتے کہ کوئی فقیر آیا ہوا ہے، اس کو بلاتے۔ نہ آتا تو خود جاتے۔ اس سے ملتے، بہت کچھ دیتے دلاتے اور فقیر نوازی کو توشہ آخرت سمجھتے۔

    غازی الدین خاں اس زمانے میں دلّی کا وزیر تھا۔ خدا جانے اس کو بادشاہ سے کیوں دلی نفرت تھی۔ قلعے میں تو ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہ پڑی، دھوکے سے بادشاہ کو مارنے کا جال پھیلایا۔ قلعے میں مشہور کر دیا کہ پرانے کوٹلے میں ایک بزرگ آئے ہوئے ہیں۔ بڑے صاحبِ کرامات ہیں بڑے خدا رسیدہ ہیں، مگر نہ کہیں خود جاتے ہیں، نہ کسی کو آنے دیتے ہیں۔

    ادھر بادشاہ کو ملنے کا شوق ہوا، ادھر لوگوں نے شاہ صاحب کی کرامتوں کے اور پُل باندھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک دن بادشاہ تن تنہا قلعے سے نکل کر کوٹلے پہنچے۔ ادھر ادھر کھنڈروں میں تلاش کی۔ یہاں تو پہلے ہی سے دشمن لگے ہوئے تھے۔ چار نمک حراموں نے ایک برج میں سے نکل کر بادشاہ کو شہید کر دیا اور لاش جمنا کی ریتی میں پھینک دی۔ خدا کی قدت دیکھو ادھر سے برہمنی رام کنور آ رہی تھی۔ اس نے جو لاش پڑی دیکھی تو ذرا ٹھنکی، بھاگنے کا ارادہ کیا، پھر ذرا غور کیا تو کیا دیکھتی ہے کہ ہیں، یہ تو بادشاہ سلامت کی لاش ہے۔ رات بھر اس بے کس شہید کا سَر زانو پر لیے بیٹھی روتی رہی۔

    صبح جمنا جی کے اشنان کو لوگ آئے۔ انہوں نے بھی لاش کو دیکھ کر پہچانا۔ تمام شہر میں کھلبلی پڑ گئی۔ اس بے کس شہید کی لاش دفن ہوئی۔

    شاہ عالم ثانی بادشاہ ہوئے۔ انہوں نے رام کنور کو بلایا۔ بہت کچھ انعام و اکرام دیا اور اس برہمنی کو اپنی منہ بولی بہن بنا لیا۔ تھوڑے دنوں میں سلونوں کا تہوار آیا۔ بھائی کے لیے بہن موتیوں کی راکھی لے کر پہنچی۔ بادشاہ نے خوشی خوشی راکھی بندھوائی، بہن کو جوڑا دیا، اس کے رشتہ داروں کو خلعت دیے۔ لیجیے راکھی بندھن کی رسم، قلعے کی رسموں میں شریک ہو گئی۔ جب تک قلعہ آباد رہا، اس برہمنی کے خاندان اور قلعے والوں میں بھائی چارہ رہا۔

    (مرزا فرحت اللہ بیگ کی وجہِ شہرت ان کی ظرافت نگاری ہے، پیشِ‌ نظر پارہ اسی انشا پرداز اور صاحبِ اسلوب ادیب کے مضمون "بہادر شاہ اور پھول والوں کی سیر” سے لیا گیا ہے)

  • مغل بادشاہ اور اکوڑہ خٹک کا ایک صاحبِ سیف و قلم

    مغل بادشاہ اور اکوڑہ خٹک کا ایک صاحبِ سیف و قلم

    اکوڑہ خٹک نامی گاؤں کو سولہویں صدی عیسوی میں ملک اکوڑہ خان خٹک نے آباد کیا تھا۔ مغل بادشاہ اکبر نے انھیں اس علاقے کی جاگیر داری اور اٹک کے گھاٹ سے دریائے سندھ عبور کرنے والوں سے راہداری (ٹول ٹیکس) وصول کرنے کا اختیار نامہ دیا تھا جس کے بعد ملک اکوڑہ خٹک نے اسی جگہ مستقل سکونت اختیار کی اور یہ علاقہ انہی سے منسوب ہوگیا۔

    ملک اکوڑہ خٹک پشتو زبان کے مشہور شاعر اور مجاہد خوش حال خان خٹک کے پڑ دادا تھے۔ اب اسے پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ایک تاریخی قصبہ کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے جو ضلع نوشہرہ میں واقع ہے۔

    اس قصبے کے ایک نام وَر اور پشتو کے ممتاز شاعر و ادیب خوش حال خان خٹک کو صاحبِ سیف و قلم بھی کہا جاتا ہے۔ پشتو ادب کو اپنی فکر اور تخلیقات سے مالا مال کرنے والے خوش حال خان خٹک کی تلوار اور سامانِ حرب میں مہارت بھی مشہور ہے۔ انھیں ایک مجاہد کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔

    خوش حال خان خٹک نے ادب کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی اور پشتو زبان میں اپنے کمالِ فن کا مظاہرہ کیا۔ خطاطی ان کا ایک حوالہ ہے، سُر اور ساز سے انھیں لگاؤ تھا اور تلوار کے دستے پر ان کی گرفت مضبوط تھی۔

    وہ 1613 میں اکوڑہ میں پیدا ہوئے تھے۔ اوائل عمری میں یوسف زئی قبیلے کے سردار بنے تو مغل حکم راں شاہ جہاں نے انھیں قبول کرلیا، مگر بعد میں کسی وجہ سے اورنگزیب نے ان کی سرداری قبول کرنے سے انکار کیا تو خوش حال خان خٹک نے میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا، لیکن گرفتار ہوئے اور انھیں‌ رن تھمبور کے قلعے میں قید کردیا گیا۔ بعد میں‌ وفادار اور مطیع رہنے کے وعدے پر انھیں آزاد کیا گیا، مگر انھوں‌ نے شاہی افواج کے خلاف کارروائیاں‌ جاری رکھیں اور یہ معاملہ اتنا بڑھا کہ اورنگزیب خود ان کے خلاف میدان میں نکل آیا۔ خوش حال خان خٹک اور ان کے ساتھیوں کو اس میں شکست ہوئی اور پشتو ادب کا یہ نام ور اور حریت پسند 1689 میں اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔

    خوش حال خان خٹک کی زندگی، شخصیت اور فن پر کئی کتب لکھی جاچکی ہیں‌۔ انھیں‌ کثیر الجہت اور نابغہ روزگار شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے جن کے تذکرے کے بغیر پشتو ادب کی تاریخ ادھوری ہے‌۔

  • تختِ طاؤس: مغلیہ شان و شوکت کی وہ نشانی جسے نادر شاہ اپنے ساتھ لے گیا!

    تختِ طاؤس: مغلیہ شان و شوکت کی وہ نشانی جسے نادر شاہ اپنے ساتھ لے گیا!

    شہاب الدین محمد المعروف "شاہ جہاں” نے 1628 سے 1658 تک ہندوستان پر راج کیا۔ وہ پانچواں مغل شہنشاہ تھا جس نے ممتاز محل کی محبت میں‌ وہ عظیم اور اعجوبہ عمارت تعمیر کروائی جسے دنیا بھر میں‌ "تاج محل” کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔

    شاہ جہاں کے دور کو مغلیہ سلطنت کے عروج کا عہدِ زریں بھی کہا جاتا ہے۔ 1658 میں شاہ جہاں کو اُس کے بیٹے نے معزول کر دیا تھا۔

    شاہ جہاں فنِ تعمیر میں‌ دِل چسپی رکھتا تھا اور اس کے عہد میں کئی خوب صورت اور یادگار عمارتیں تعمیر کی گئیں جو آج بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ تاج محل ان میں‌ سے ایک ہے۔

    اسی مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے تخت نشینی کے بعد اپنے لیے ایک نہایت قیمتی تخت تیار کرایا تھا جسے ’’تختِ طاؤس‘‘ کا نام دیا گیا۔

    اس تخت کا طول تیرہ جب کہ عرض ڈھائی گز اور اونچائی پانچ گز رکھی گئی تھی۔ تخت کے چھے پائے تھے جو خالص سونے سے تیار کیے گئے تھے۔

    ہندوستان کے فرماں‌ روا کے اس تخت پر چڑھنے کے لیے تین چھوٹے چھوٹے زینے تھے جن میں قیمتی جواہر جڑے گئے تھے۔

    اس تخت کے دو کناروں‌ پر دو خوب صورت مور بنائے گئے تھے جن کی چونچ میں موتیوں کی لڑی دیکھی جاسکتی ہے۔ ان موروں کے سینوں کو سرخ یاقوت سے سجایا گیا تھا جب کہ ٹیک یا پشت والے حصّے پر قیمتی ہیرے جڑے ہوئے تھے۔

    نادر شاہ نے دہلی پر حملہ کیا تو ہر طرف بڑی تباہی اور بربادی ہوئی اور عمارتوں‌ کو نقصان پہنچا، یہی نہیں‌ بلکہ ان میں موجود قیمتی ساز و سامان، اور ہر قسم کی دولت لوٹ لی گئی جس میں‌ تختِ طاؤس بھی شامل تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس حملے کے بعد‌ نادر شاہ یہ تخت بھی اپنے ساتھ ایران لے گیا تھا۔

  • "بندوبست دوامی” کیا ہے؟

    "بندوبست دوامی” کیا ہے؟

    1800 میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال میں زمینوں کا محصول اکٹھا کرنے کی غرض سے نئے قانون کے تحت ایک نیا زمین داری نظام شروع کیا جسے بندوبست دوامی (Permanent Settlement) کہا جاتا ہے۔

    ایسٹ انڈیا کمپنی سے پہلے ہندوستان کی مغلیہ حکومت مختلف علاقے ایک ایک سال کے لیے پٹے پر دیا کرتی تھی اور ہر سال ان علاقوں کی نیلامی ہوتی تھی۔ سب سے زیادہ بولی لگانے والے کو ایک سال کے لیے زمین داری مل جاتی تھی۔

    مغلوں کے دیوان (اہل کار) نہ صرف بولی لگانے والے زمین داروں سے ٹیکس وصول کرتے تھے بلکہ وہ اس بات کا بھی خیال رکھتے تھے کہ کہیں رعایا کے ساتھ غیر ضروری سختی نہ برتی جائے۔

    دیوان کو یہ اختیار بھی تھا کہ عوامی شکایات اور ان کی بے چینی کو دیکھتے ہوئے زمین داری کا معاہدہ ختم کر دیں۔

    بعد میں معاہدہ الٰہ باد میں شاہ عالم دوّم نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو پورے بنگال کی دیوانی عطا کی اور اس کے علاوہ 50 لاکھ روپے بطور تاوان جنگ بھی انگریزوں کو ادا کیے گئے تو انگریزوں نے ٹیکس اکٹھا کرنے کا قانونی اختیار حاصل کرلیا، لیکن ماہر اسٹاف کی کمی کی وجہ سے انگریزوں کو اس میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ 1770 کا قحط پڑا تو انتظامیہ کی امور میں‌ کم زوریاں بھی سامنے آئیں۔

    اس کے بعد 1786 میں لارڈ چارلس کارنوالس گورنر جنرل بن کر ہندوستان آیا اور اسی نے 1790 میں دس سال کے لیے بندوبست دوامی (Permanent Settlement) کا نظام نافذ کیا جسے 1800 میں مستقل کر دیا گیا۔

    اس نظام میں ہر سال نیلامی کے بجائے ایک بار نیلامی اور آئندہ ہر سال اسی بولی کو زمین کا ٹیکس مقرر کیا گیا تھا۔