Tag: مغل بادشاہ

  • کلائی کے زخم نے اکبر کی جان بچالی

    کلائی کے زخم نے اکبر کی جان بچالی

    ہر دور میں بادشاہوں اور حکم رانوں کے دربار میں مشیر، علما اور مختلف شعبوں کے قابل اور باصلاحیت لوگ اور دانا شخصیات موجود رہے ہیں جن سے یہ حکم راں مختلف امور اور عوامی مسائل پر صلاح مشورہ کرنے کے بعد ہی کوئی فرمان جاری کرتے تھے۔

    مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کی بات کی جائے تو تاریخ میں اکبر کے "نو رتن” بہت مشہور ہیں۔ یہ نو لوگ انتہائی ذہین، دانا اور اپنے علم و کمال کی وجہ سے اکبر کو پسند تھے۔

    انہی میں ایک "بیربل” بھی تھا جسے تاریخ کی کتابوں میں ذہین اور حاضر جواب لکھا گیا ہے۔ یہ واقعہ جو ہم یہاں نقل کررہے ہیں اکبر اور بیربل سے منسوب ہے۔

    کہتے ہیں ایک روز بادشاہ چاقو سے سیب چھیل رہا تھا۔ ذرا توجہ بٹی اور چاقو کی نوک اس کی کلائی پر لگ گئی اور وہ زخمی ہو گیا۔ بیربل کے منہ سے بے اختیار شکر الحمدللہ نکل گیا۔

    بادشاہ نے غصے سے اس کی طرف دیکھا اور کہا کہ میں زخمی ہوا ہوں اور تم شکر ادا کر رہے ہو۔

    بیربل نے عرض کیا، حضور میں نے سیانوں سے سنا تھا انسان کو چھوٹی مصیبت بڑی مصیبت سے بچاتی ہے۔ آپ کی کلائی زخمی ہو گئی، میرا خیال ہے خدا نے آپ کو کسی بڑی مصیبت سے بچا لیا ہے۔

    بادشاہ کو اس کی یہ بات سمجھ نہ آئی۔ اس نے بیربل کو جیل میں ڈلوا دیا اور اگلے روز شکار پر چلا گیا۔ شکار کے دوران وہ اور اس کے چند درباری اپنے لشکر سے بچھڑ گئے اور جنگل میں ایک قبیلے کے وحشی لوگوں کے ہتھے چڑھ گئے۔

    انھوں نے اکبر اور اس کے ساتھیوں کو اپنی دیوی پر قربان کرنے کا فیصلہ کیا۔ درباریوں کی گردن اتارنے کے بعد جب اکبر کی باری تو اس کی کلائی پر پٹی بندھی تھی، قبیلے کے سردار کے دریافت کرنے پر اکبر نے بتایا کہ وہ زخمی ہو گیا تھا، تو اس نے مایوسی سے سر ہلایا اور اسے جانے کی اجازت دے دی، سردار نے کہا کہ ہم دیوی کو کسی زخمی کی قربانی پیش نہیں کرسکتے۔

    کہتے ہیں یوں اکبر کی جان بچی اور تب اسے بیربل کی بات یاد آئی۔ اس نے واپس آکر بیربل کو جیل سے نکالا اور اس سے معذرت اور اس کی دل جوئی کی۔

  • سعدُاللہ نے شاہ جہاں کی مشکل کا کیا حل نکالا؟

    سعدُاللہ نے شاہ جہاں کی مشکل کا کیا حل نکالا؟

    خاندان مغلیہ کے نام ور حکم راں شاہ جہاں جب سریر آرائے سلطنت ہوئے تو اس وقت کے شاہِ ایران نے بہ ذریعہ قاصد ایک خط روانہ کیا اور اعتراضاً لکھا کہ آپ تو ہند کے فرماں روا ہیں، ہند کو آپ نے ”جہاں“ کس طرح تصور کرلیا ہے۔

    اعتراض معقول تھا۔ بادشاہ کو متردد دیکھ کر اعیانِ سلطنت بھی پریشان ہوگئے۔ شاہ جہاں نے پورے اپنے زیرِ قبضہ ملک میں ڈھنڈورا پٹوا دیا کہ جو صاحب بھی اس کا مدلل جواب دینا چاہیں بلاتکلف دہلی تشریف لائیں، انہیں منہ مانگا انعام دیا جائے گا۔

    ہر شخص عوام و خواص میں غور و فکر کرنے لگا، لیکن معقول جواب کسی کی سمجھ میں نہ آسکا۔

    پنجاب میں ”چنیوٹ“ ایک علاقہ ہے، وہاں ایک اوسط درجے کے زمین دار سعدُ اللہ نے بھی یہ اعلان سنا اور ایک نکتہ اس مسئلہ کے حل میں سوجھ گیا۔

    وہ فوراً دہلی پہنچے، اس وقت شاہ جہاں کے درباری شاعر ملک الشعرا ابوطالب کلیم تھے، ان سے سعدُ ﷲ کی ملاقات ہوگئی۔ وہ بھی اسی فکر میں تھے، ان دنوں ہر طرف اسی بات کا تذکرہ تھا چوں کہ سعد ﷲ کی شخصیت اس وقت گم نام تھی، انہوں نے کہا میں جواب دے سکتا ہوں۔

    کلیم کو تعجب ہوا اور خوشی میں پوچھا کس طرح؟ سعدُ ﷲ نے صرف دو سطریں کاغذ پر لکھ کر دے دیں تاکہ کوئی اور نہ جان سکے۔

    ابوطالب کلیم نے اسی وقت شاہ جہاں کی طرف سے دعا سلام کے بعد ایک شعر اسی مضمون کو سمیٹتے ہوئے جو سعدُ ﷲ نے بتایا تھا، فی البدیہہ موزوں کیا، صفحہ قرطاس پر رقم کرکے ریشمی غلاف میں لپیٹ کر شاہ جہاں سے مہر لگوا کر قاصد کے ہاتھ شاہَ ایران کو بھیج دیا۔ اس وقت شاہ جہاں کو بھی تفصیل نہیں بتائی۔ بس اتنا کہا مدلل جواب ہے۔ آپ اطمینان رکھیں، جلد شکریہ کا خط آئے گا۔

    چند دن میں قاصد واپس آگیا۔ شاہ ایران نے لکھا تھا، جس نے بھی یہ مضمون تلاش کیا اگر آپ کے یہاں وہ کوئی حیثیت کا حامل نہیں تو بھیج دیں، میں اس کو وزیراعظم بناؤں گا وہ اس کا مستحق ہے۔

    اب شاہ جہاں نے اس خوشی کے موقع پر دربار سجایا۔ ملک الشعرا ابوطالب کلیم اپنے ساتھ سعدُ ﷲ خاں کو لے کر دربار میں پہنچے۔

    شاہ جہاں نے کلیم سے دریافت کیاکہ کیا لکھ کر روانہ کیا تھا۔ ابوطالب کلیم نے سعدُ ﷲ کا تعارف کراتے ہوئے کہا۔ یہ صاحب آپ کا اعلان سن کر چنیوٹ سے تشریف لائے تھے۔ انہوں نے ایسی مدلل بات بتائی جسے میں نے ایک شعر میں موزوں کرکے بھیج دیا تھا۔ وہی شعر پھر لکھ کر پیش کردیا۔

    ہند و جہاں زروئے عدد چوں برابر است
    برما خطاب شاہ جہاں زان مسلم است

    (حساب ابجد کے طریقے سے ہند و جہاں ہم عدد ہوتے ہیں، دونوں کے عدد ”59“ ہوتے ہیں اس لیے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہند لکھوں کہ جہاں)

    شاہ جہاں نے اس نکتے کی بہت تعریف کی، کلیم کو انعام سے مالا مال کردیا اور جس نے یہ نکتہ بتایا اس کو پورے چنیوٹ کا نواب کردیا اور اپنا وزیراعظم۔

    یہ تھے نواب سعدُ ﷲ خاں جو ساری عمر شاہ جہاں کے وزیراعظم رہے۔

    ("کتاب نما”، نئی دہلی، فروری 2001 کے شمارے سے انتخاب)

  • کابل کے ایک مرغزار کے حوض پر چلیے!

    کابل کے ایک مرغزار کے حوض پر چلیے!

    مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین محمد بابر کی مادری زبان فارسی تھی اور ایک زمانے میں‌ دستور کے مطابق ہر خاص و عام عربی اور فارسی سمجھتا اور سیکھتا تھا۔ معززین و امرائے وقت خاص طور پر فارسی بولتے اور لکھتے، یہ زبان گفتگو سے مراسلت تک ہر شعبے پر حاوی تھی۔

    مغل بادشاہ جہاں‌ دیگر علوم اور فنون سے آشنا تھا، وہیں بڑا باذوق اور ادب کا شائق بھی تھا۔ یہی نہیں‌ بلکہ خود بھی فارسی میں‌ شعر کہتا۔

    بابر کے ایک شعر کا مصرعِ ثانی ہے: "بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست”

    یہ مصرع کم و بیش پانچ سو سال سے ضرب المثل ہے۔ اس کا مصرع اولیٰ بہت کم صاحبانِ ذوق کو معلوم ہو گا۔

    کہتے ہیں‌ ہندوستان پر حملے سے پہلے بابر نے کابل میں‌ ایک مرغزار میں حوض بنوایا جہاں وہ اپنے خوش طبع اور باذوق دوستوں کے ساتھ اکثر وقت گزارتا تھا، اسی مناسبت سے اس نے یہ شعر کہہ کر اس حوض کی منڈیر پر کندہ کرایا تھا۔

    یہ مکمل شعر اور اس کا اردو ترجمہ آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔

    نو روز و نو بہار مئے و دلبرِ خوش است
    بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست

    شاعر کہتا ہے کہ نئے سال کا جشن ہو، موسمِ بہار میں تازہ شربت ارغوان ہو اور حسن و جمال مرصع معشوق ہو۔ بابر عیش کے اس خزانے کو خوب خرچ کرلے کیوں کہ یہ زندگی دوبارہ پلٹ کر نہیں آئے گی۔

  • کس کے اشارے پر "سدھاکر” اورنگزیب عالمگیر کی طرف بڑھا تھا؟

    کس کے اشارے پر "سدھاکر” اورنگزیب عالمگیر کی طرف بڑھا تھا؟

    اورنگزیب عالمگیر کو مؤرخین نے برصغیر کا عظیم شہنشاہ لکھا ہے۔ مغلیہ سلطنت کا یہ چھٹا تاج وَر تین نومبر 1618 کو پیدا ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیر پر ان کے دادا جہانگیر کا راج تھا اور کروڑوں انسانوں کی قسمت اُن کے جنبشِ ابرو سے بنتی اور بگڑتی تھی۔

    اورنگزیب کا نام محی الدین محمد رکھا گیا۔ وہ شہاب الدین محمد شاہ جہاں کی تیسری اولاد تھے۔

    اورنگزیب نے اس زمانے کے دستور کے مطابق جہاں ضروری اسلامی علوم اور طرزِ حیات سیکھا، وہیں شاہ زادے کو گھڑ سواری، تیر اندازی اور دیگر فنونِ سپاہ گری کی بھی تعلیم دی گئی۔ اورنگزیب نے ادب اور خطاطی میں دل چسپی لی اور اس فن میں کمال حاصل کیا۔ مشہور ہے کہ وہ ٹوپیاں سیتے اور قرآن کی کتابت کرتے جس کی آمدن ذاتی گزر بسر پر خرچ ہوتی تھی۔

    محی الدین محمد نے مغل تخت سنبھالا تو اورنگزیب ابوالمظفر محی الدین عالمگیر کا لقب اختیار کیا۔ مؤرخین کے مطابق 3 مارچ 1707 کو جب وہ نوّے برس کے ہوئے تو بیمار پڑے اور دارِ فانی سے کوچ کیا۔ انھیں وصیت کے مطابق خلد آباد میں دفن کیا گیا۔

    شاہجہاں کے چاروں بیٹوں کی شروع ہی سے تاج و تخت پر نظر تھی۔ اورنگزیب خود کو اس کا اصل حق دار سمجھتے تھے۔

    تخت اور اختیار کی خواہش میں بغاوت اور طرح طرح کی سازشوں کے ساتھ خونی رشتوں کے قتل سے بھی دریغ نہیں کیا گیا جس کی مغل تاریخ گواہ ہے۔ ایک ایسا ہی واقعہ شاہ جہاں کے درباری شاعر اور ایک شاہی مؤرخ نے بھی بیان کیا تھا۔

    یہ واقعہ کچھ اس طرح ہے:

    اپنے بیٹے دارا شکوہ کی شادی کے بعد ایک روز تفریح کی غرض سے شاہ جہاں نے دو ہاتھی سدھاکر اور صورت سندر کے درمیان مقابلہ کی خواہش ظاہر کی۔

    مقابلہ شروع ہوا تو حاضرین نے دیکھا کہ اچانک سدھاکر، گھوڑے پر بیٹھے اورنگزیب کی طرف غصے سے بڑھا، اورنگزیب نے پُھرتی سے اس کی پیشانی پر نیزے سے وار کیا جس نے اسے مزید مشتعل کر دیا۔

    اس نے گھوڑے کو اتنے زور سے ٹکر ماری کہ اورنگزیب زمین پر آ گرا۔ قریب موجود اورنگزیب کے بھائی شجاع اور راجا جے سنگھ نے شاہ زادے کو بچانے کی کوشش کی، لیکن اسی دوران دوسرے ہاتھی شیام سندر نے سدھاکر کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی تھی۔

    بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ مقابلے کے دوران دارا شکوہ پیچھے ہی موجود تھے، لیکن انھوں نے اورنگزیب کو بچانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔

    شاہی خاندان اور بھائیوں میں اختلافات، اقتدار کی خاطر پروپیگنڈا، بغاوت اور مسلح‌ لڑائیوں‌ کے باوجود تخت اورنگزیب کا مقدر بنا اور انھوں نے 49 سال تک کروڑوں انسانوں پر راج کیا۔ مؤرخین کے مطابق ان کے دورِ حکومت میں مغل سلطنت وسیع ہوئی اور تقریباً پورا برصغیر مغلوں کے تابع رہا۔

  • موت کی سزا منسوخ کر دی گئی!

    موت کی سزا منسوخ کر دی گئی!

    منشی محمد دین فوق کی تصنیف وجدانی نشتر میں اورنگ زیب عالم گیر کا ایک واقعہ ملتا ہے جو مغل دور کے حالات کی ایک جھلک ہے۔

    وہ لکھتے ہیں کہ خاندانِ مغلیہ کے نام ور حکم راں اورنگ زیب عالم گیر نے ایک مرتبہ حکم جاری کیا کہ تمام رقاص اور گانے بجانے والی عورتیں فلاں تاریخ تک نکاح کرلیں ورنہ انھیں کشتی میں بھر کر دریا بُرد کردیا جائے گا۔ بادشاہ کا حکم جاری ہوا اور منادی کی گئی تو اس زمانے کی بہت سی مغنیہ اور اس پیشے سے جڑی عورتوں نے نکاح کر لیے، مگر کئی رہ گئیں۔ یہاں تک کہ حکم کے مطابق وہ تاریخ سَر پر آگئی جب سپاہی آتے اور ایسی عورتوں کو دریا میں پھینک آتے۔

    اس زمانے کے ایک بزرگ شیخ کلیم اللہ دہلوی تھے۔ ایک طوائف پابندی سے ان کی خدمت میں حاضری دیا کرتی تھی۔ آپ وظائف سے فارغ ہوتے تو وہ بزرگ کے سامنے آکر کھڑی ہوجاتی اور توجہ پاکر سلام کرتی اور فوراً ہی چلی جاتی۔ حکم پر عمل کرنے کی مقررہ تاریخ میں ایک روز باقی تھا۔ وہ اس بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور سلام کرنے کے بعد عرض کی کہ خادمہ کا آخری سلام قبول کیجیے۔ اس پر شیخ نے حقیقتِ حال دریافت فرمائی۔ طوائف نے بزرگ کو متوجہ پایا تو سارا ماجرا کہہ سنایا۔ آپ نے ہدایت دی کہ حافظ شیرازی کا یہ شعر یاد کر لو۔
    در کوئے نیک نامی مارا گزر نہ دادند
    گر تو نمی پسندی تغیر کن قضارا
    (ترجمہ: نیک نامی کے کوچے میں ہمیں نہیں جانے دیا گیا، اگر تُو یہ پسند نہیں کرتا تو قضا کو بدل دے)

    بزرگ نے اس کے ساتھ یہ بھی ہدایت دی کہ مقررہ دن دریا کی طرف جاتے ہوئے سب مل کر بلند آواز سے یہ شعر پڑھنا۔ کہتے ہیں اگلے روز جب ایسی عورتوں کو دریا کی طرف لے جایا جانے لگا تو انھوں نے یہ شعر سوز و رقت سے باآواز بلند پڑھنا شروع کر دیا۔ ایک سماں سا بندھ گیا تھا۔ لوگ گھروں سے باہر نکل آئے اور راستوں پر جمع ہوگئے۔ حکم کی تعمیل کا دن تھا اور اس حوالے سے بادشاہ کو مطلع کردیا گیا تھا۔ اورنگ زیب کے ایک درباری نے یہ بات انھیں بتا دی۔

    بادشاہ اس سے متاثر ہوا اور وہی شعر پڑھتے ہوئے ان عورتوں کے دریا بُرد کیے جانے کا حکم منسوخ کردیا۔

  • پاکستان شالامار باغ کو خطرناک عمارتوں میں شامل ہونے سے بچانے میں کامیاب

    پاکستان شالامار باغ کو خطرناک عمارتوں میں شامل ہونے سے بچانے میں کامیاب

    اسلام آباد: پاکستان تاریخی شالا مارباغ کو خطرناک عمارتوں میں شامل ہونے سے بچانے میں کام یاب ہو گیا، عالمی ورثہ کمیٹی نے پاکستان کا مؤقف تسلیم کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق آذربائیجان کے شہر باکو میں یونیسکو کی عالمی ورثہ کمیٹی کا 43 واں اجلاس منعقد ہوا، جس میں پاکستان کی نمایندگی وزیر سیاحت پنجاب راجہ یاسر ہمایوں نے کی۔

    یونیسکو کے اجلاس میں شالا مار باغ کو میٹرو ٹرین پروجیکٹ کی وجہ سے ممکنہ درپیش نقصان کا جائزہ لیا گیا، راجہ یاسر نے شالا مار باغ کے تحفظ کے لیے عالمی ادارے کی کمیٹی کو حکومتی اقدامات سے آگاہ کیا۔

    صوبائی وزیر سیاحت کا کہنا ہے کہ یونیسکو نے شالا مار باغ کو خطرناک ورثے کی فہرست میں شامل نہیں کیا، عالمی ورثہ کمیٹی نے پاکستان کے مؤقف کو تسلیم کر لیا ہے۔

    راجہ یاسر ہمایوں نے کہا کہ پاکستانی مؤقف کو تسلیم کرنا سفارتی سطح پر پاکستان کی کام یابی ہے، حمایت کے لیے مختلف ممالک سے سفارتی سطح پر بات کی گئی تھی، جب کہ حکومت پاکستان نے تاریخی ورثے کی حفاظت کے لیے بھی مؤثر اقدامات کیے۔

    خیال رہے کہ اورنج ٹرین منصوبے کی وجہ سے عالمی ادارے یونیسکو نے شالا مار باغ کا مقدمہ کر رکھا ہے۔

    واضح رہے کہ یونیسکو اقوام متحدہ کا ایک ادارہ ہے جو عالمی سطح پر تعلیم، سائنس اور ثقافت سے متعلق معاملات دیکھتا ہے، اس ادارے نے مشرقی یروشلم میں قدیم یہودی مقامات کو فلسطینیوں کا ثقافتی ورثہ قرار دے کر 2011 میں اسے مکمل رکنیت دے دی تھی، جس پر اسرائیل اور امریکا نے رواں سال یکم جنوری کو یہ ادارہ چھوڑ دیا۔

    شالامار باغ مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے لاہور میں 1641-1642 میں تعمیر کرایا تھا، یہ باغ ایک مستطیل شکل میں ہے اور اس کے ارد گرد اینٹوں کی ایک اونچی دیوار ہے، باغ کے تین حصے ہیں جن کے نام فرح بخش، فیض بخش اور حیات بخش ہیں۔

    اس میں 410 فوارے، 5 آبشاریں اور آرام کے لیے کئی عمارتیں ہیں اور مختلف اقسام کے درخت ہیں، 1981 میں یونیسکو نے اسے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کیا تھا۔

  • بریانی ۔ کہاں سے آئی اور کیسے ہمارے دستر خوان کی زینت بنی؟

    بریانی ۔ کہاں سے آئی اور کیسے ہمارے دستر خوان کی زینت بنی؟

    ایک عمومی خیال ہے کہ بریانی برصغیر پاک و ہند کا پکوان ہے تاہم یہ خیال غلط ہے۔ لفظ ’بریانی‘ فارسی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے پکانے سے پہلے تلنا یا فرائی کرنا جبکہ برنج فارسی میں چاول کو کہا جاتا ہے۔

    بریانی نے فارس سے ہندوستان کا سفر کیسے کیا؟ اس بارے میں متضاد آرا ہیں تاہم یہ بات طے ہے کہ یہ پکوان مغربی ایشیا کی پیداوار ہے۔

    بعض روایات میں ہے کہ جب ترک منگول فاتح تیمور 1398 میں ہندوستان آیا تو اس کے توشہ دانوں میں بریانی بھی موجود تھی جو لشکر کے سپاہیوں کی غذا تھی۔

    اس وقت ایک مٹی کے برتن میں چاول، مصالحے، اور اس وقت دستیاب گوشت بھر کر گڑھا کھود کر اور اسے تندور کی طرح دہکا کر اس میں دفن کردیا جاتا تھا۔ کچھ دیر بعد زمین کھود کر اسے نکالا جاتا اور فوج میں تقسیم کردیا جاتا تھا۔

    ایک اور روایت کے مطابق ہندوستان کے جنوبی مالا بار کے ساحل پر اکثر و بیشتر عرب تاجر آتے رہتے تھے اور بریانی انہی کا تحفہ ہے۔

    اس وقت کی تاریخ میں چاولوں کے ایک پکوان کا ذکر ملتا ہے جسے تامل ادب میں اون سورو کہا جاتا تھا۔ یہ سنہ 2 عیسوی کا قصہ ہے۔

    اون سورو نامی پکوان گھی، چاول، گوشت، ہلدی، کالی مرچ اور دھنیے کی آمیزش سے بنتا تھا اور یہ پکوان بھی لشکر کے کھانے میں استعمال ہوتا تھا۔

    ان سب میں سب سے مشہور روایت یہ ہے کہ یہ پکوان شاہ جہاں کی خوبصورت اور محبوب بیوی ممتاز محل کے ذہن رسا کی تخلیق تھی۔ وہی ممتاز محل جس کی محبت میں شاہجہاں نے تاج محل جیسا خوبصورت عجوبہ تخلیق کر ڈالا۔

    کہا جاتا ہے کہ ایک بار ممتاز محل نے سپاہیوں کی بیرکوں کا دورہ کیا تو اس نے انہیں بہت لاغر اور کمزور پایا۔ تب اس نے شاہی مطبخ کے سالار سے کہا کہ وہ ایسا پکوان تیار کریں جو چاول اور گوشت سے بنا ہو تاکہ سپاہیوں کی متوازن غذائی ضروریات پوری ہوں اور یوں بریانی کا آغاز ہوا۔

    اس وقت چاولوں کو بغیر دھوئے تلنے کا رواج تھا جبکہ پکانے سے پہلے اس میں زعفران، مختلف مصالحے اور گوشت شامل کیا جاتا اور اسے آگ سے لکڑیاں جلا کر پکایا جاتا۔

    بریانی حیدر آباد کے نظام اور لکھنؤ کے نوابین کے یہاں بھی ایک مقبول پکوان تھا۔ ان کے باورچی اپنے مخصوص پکوانوں کے باعث پوری دنیا میں مشہور تھے۔

    ان حکمرانوں نے بریانی میں اپنی پسند کی جدتیں کروائیں جو بے حد مقبول ہوئیں۔ اس وقت بریانی کے ساتھ کئی لذیذ پکوان بھی کھائے جاتے جیسے مرچی کا سالن، دھن شک اور بگھارے بینگن۔

    ایک بہترین اور لذیذ بریانی اسے کہا جاتا ہے جس میں تمام اجزا نہایت ناپ تول کے ساتھ برابر ملائے جاتے ہوں۔ روایتی طور پر بریانی کو دھیمی آنچ پر پکایا جاتا ہے جسے دم دینا کہتے ہیں۔

    اس طریقہ کار میں تمام اجزا کو ملانے کے بعد اسے اچھی طرح سے ڈھانپ دیا جاتا ہے تاکہ دھویں سے گوشت نرم ہوجائے اور اس کا رس چاولوں میں گھل جائے۔ دھیمی آنچ کا دھواں بریانی کی لذت کو دوبالا کردیتا ہے۔

    بریانی میں مصالحوں کا کردار بھی اہم ہے۔ ایک بہترین بریانی میں 15 مصالحوں کی آمیزش کی جاتی ہے تاہم کچھ اقسام کی بریانی میں مصالحوں کی تعداد یا مقدار کم بھی کردی جاتی ہے۔

    بعض ساحلی علاقوں میں بریانی میں گوشت کی جگہ مچھلی، جھینگے اور کیکڑوں کا گوشت بھی استعمال کیا جاتا ہے جبکہ اس میں عرق گلاب، کیوڑہ اور قابل نوش عطر کا استعمال بھی عام بات ہے۔

    بریانی میں عموماً باسمتی چاولوں کا استعمال کیا جاتا ہے تاہم ہر علاقے میں دستیاب اور پیدا ہونے والے چاولوں کی اقسام الگ ہوتی ہیں اور اس وجہ سے ان چاولوں سے بننے والی بریانی بھی مختلف ذائقوں کی حامل ہوتی ہے۔

    لشکر کے پکوان بننے سے لے کر شاہی دستر خوان تک آنے، اور پھر امرا و خواص اور اس کے بعد عوامی دستر خوان تک پہنچنے میں بریانی کے ذائقوں، رنگ اور ترکیب میں بے حد ارتقا ہوا اور اس کی مختلف جہتیں پیدا ہوگئیں۔

    آج ہم آپ کو بریانی کی چند ذائقہ دار اور مشہور اقسام کے بارے میں بتانے جارہے ہیں جنہیں جان کر آپ کے منہ میں پانی آجائے گا۔

    مغلئی بریانی

    مغل حکمران بہترین پکوان کھانے کے شوقین تھے اور ان کے ادوار میں کھانا پکانے کو باقاعدہ ایک فن کی حیثیت حاصل تھی۔

    اس وقت کی مقبول بریانی رسیلے مرغ کے ٹکڑوں اور کیوڑے میں بسے چاولوں پر مشتمل ہوتی تھی جبکہ ان کی مہکتی خوشبو کسی کی بھی اشتہا میں اضافہ کرسکتی تھی۔

    حیدر آبادی بریانی

    حیدر آبادی بریانی کی مقبولیت کا سراغ اس وقت سے ملتا ہے جب بادشاہ اورنگزیب نے نظام الملک کو حیدر آباد کا حکمران مقرر کیا۔

    نظام الملک کے باورچی بریانی کی 50 اقسام بنانا جانتے تھے جن میں مچھلی، کیکڑے، بٹیر اور ہرن کا گوشت استعمال کیا جاتا تھا۔ ہر بریانی کا ذائقہ اس میں ڈالے جانے والے گوشت کی وجہ سے مختلف ہوتا تھا۔

    ان میں سب سے مقبول حیدر آبادی بریانی تھی جس میں چاولوں میں زعفران کی آمیزش کی جاتی تھی۔

    کلکتہ بریانی

    کلکتہ بریانی نواب واجد علی شاہ کی اختراع ہے جو اپنے پسندیدہ کھانے میں جدت پیدا کرنا چاہتے تھے۔

    اس وقت ریاست کے خزانے میں کمی کی وجہ سے شاہی مطبخ ہر روز گوشت کا خرچ برداشت نہیں کرسکتا تھا چنانچہ نواب کے حکم پر بریانی میں سنہری تلے ہوئے آلو شامل کیے جانے لگے اور پھر یہی آلو کلتہ بریانی کی شناخت بن گئے۔

    اس بریانی میں مصالحے نسبتاً کم ہوتے ہیں جبکہ ہلکی سی مٹھاس بھی شامل کی جاتی ہے۔

    سندھی بریانی

    سندھی بریانی ہرے مصالحہ جات اور مختلف مصالحوں سے بھرپور ہوتی ہے۔ اس میں کھٹا دہی اور آلو بخارا بھی شامل کیا جاتا ہے جس کے باعث اس کا ذائقہ نہایت منفرد ہوتا ہے۔

    دودھ کی بریانی

    دودھ کی بریانی بھی حیدر آباد کا تحفہ ہے۔ ملائی والے دودھ میں بھنے ہوئے خشک میوہ جات اور خوشبو دار مصالحے اس بریانی کو نہایت ذائقہ دار بنا دیتے ہیں۔

    آپ کو ان میں سے بریانی کی کون سی قسم پسند آئی؟