Tag: مغل تعمیرات

  • مزار کے اندر کون دفن ہے؟

    مزار کے اندر کون دفن ہے؟

    لاہور سے تقریباً پچاس کلومیٹر دور واقع پھول نگر سے ذرا پہلے سڑک ایک راجباہ عبور کرتی ہے۔ وہ عوام میں ’نہر پرناواں‘ کے نام سے معروف ہے۔ ایک پختہ سڑک اس راجباہ کے ساتھ ساتھ دائیں ہاتھ چلی جاتی ہے۔ سرائے مغل اسی سڑک پر بارہ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

    سرائے مغل کی تعمیر کا زمانہ سولہویں صدی بتایا جاتا ہے۔ نام سے بھی ظاہر ہے، یہ سرائے مغلیہ دورِ حکومت میں تعمیر ہوئی۔ تاہم کسی ثبوت کی عدم موجودگی میں یہ کہنا مشکل ہے کہ اس کی تعمیر کا سہرا کس بادشاہ کے سر ہے۔

    سرائے مغل کے معدوم احاطے میں لوگوں نے اپنے مکانات تعمیر کر رکھے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہ کس زمانے میں تعمیر ہونا شروع ہوئے۔ ہم پھر اس ہشت پہلو مزار کی طرف نکل گئے جس کا ذکر محکمہ آثارِ قدیمہ کے ریکارڈ میں ’سرائے ٹومب‘‘ کے طور پر کیا گیا ہے۔

    نہ شمع، نہ فانوس، نہ بتی، نہ دیا

    اس گنبد دار مزار کے اندر کون دفن ہے؟ کوئی نہیں جانتا۔ مزار کی استرکاری عمومی طور پر سلامت ہے۔ تاہم زمین سے کم و بیش چار چار فٹ تک پلستر اتر کر اینٹیں نمایاں ہو چکی ہیں۔ داخلے کے لیے صرف ایک ہی دروازہ ہے۔ مزار کی منڈیر پر ایک جگہ مدھم سا ایک رنگ باقی ہے جس سے گمان ہوتا ہے کہ بیرونی دیواروں پر بھی کسی نہ کسی شکل میں نقش و نگار تھے۔

    ’’میں نے اپنے ہوش میں یہاں دو قبریں دیکھی ہیں۔‘‘ وہاں کے رہائشی، کرامت نے بتایا۔ ’’یہ درست ہے کہ ان قبروں پر سنگِ مرمر کا تعویذ نہیں تھا لیکن وہ صحیح سالم تھیں۔ آہستہ آہستہ کوئی ان کی اینٹیں بھی اکھاڑ کر لے گیا۔ ‘‘

    قبروں کے نشانات سے ظاہر ہے کہ ایک قبر گنبد کے مرکز میں تھی اور دوسری اس کے دائیں ہاتھ ۔ بائیں ہاتھ والی جگہ خالی پڑی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مقبرہ کسی معروف شخصیت کی قبر پر تعمیر ہوا اور بعد میں کسی اور کو اس کے دائیں ہاتھ دفن کر دیا گیا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ فی الاصل بائیں ہاتھ بھی کوئی قبر ہو جو آہستہ آہستہ صفحہ ہستی سے بالکل مٹ گئی۔

    مزار کی دیواروں پر پودوں، پھولوں اور اقلیدسی اشکال میں بہت خوب صورت نقش و نگار تھے جو اب کہیں کہیں نظر آتے ہیں۔ مزار کے دروازے اور باقی تین اطراف میں تعمیر شدہ خوب صورت محرابوں پر آیتُ الکرسی اور سورہ اخلاص لکھی تھی۔ تاہم اب یہ تختیاں ٹوٹ چکی ہیں اور ان آیات کا کچھ حصہ ہی پڑھا جا سکتا ہے۔

    ’’مقامی ہونے کے ناتے آپ کو تو سرائے مغل کے بارے میں خاصی معلومات حاصل ہوں گی۔‘‘ میں نے دریافت کیا۔ ’’میں یہی جانتا ہوں کہ یہ ایک قدیم آبادی تھی جس کا نام نوشہرہ بتایا جاتا ہے۔

    ایک بار ایک آرائیں کو اپنے گھر کے اندر مٹی کھودتے ہوئے طلائی سکّوں سے بھرا ایک برتن ملا۔ اس نے یہ سکّے بیوی کو دھونے دیے۔ وہ بے چاری باہر بیٹھی سکّے دھو رہی تھی کہ گجروں کا ایک لڑکا سکّے اس سے چھین کر لے گیا۔ بات تھانے تک جا پہنچی۔ پولیس نے گجروں کے گھر پر چھاپہ مار کر یہ سکّے برآمد کر لیے۔ پھر ان کا کیا ہوا؟ کسی کو نہیں معلوم۔‘‘

    (محمد داؤد طاہر کی کتاب ‘تاریخ کے تعاقب میں’ سے اقتباسات)

  • وہ پُل جسے چار صدیوں کا بوجھ بھی نہیں‌ جھکا سکا

    وہ پُل جسے چار صدیوں کا بوجھ بھی نہیں‌ جھکا سکا

    لاہور مغل دور میں شاہانِ وقت کا پایہ تخت اور پنجاب کے مختلف شہر شہنشاہوں اور ان کے خاص مصاحبوں، امرائے سلطنت کی عارضی قیام گاہیں یا شکار اور سیر و تفریح کے مقامات رہے ہیں جس کی وجہ یہاں کا سبزہ، آب و ہوا اور قدرتی حسن ہے۔

    تاریخ بتاتی ہے کہ لاہور کے قریب شیخو پورہ کے گردونواح کو شکار گاہ کے طور پر پسند کیا جاتا تھا۔ اسی علاقے میں ایک پُل موجود ہے جو مغل دور کی یادگار ہے۔ اس پُل کو چار صدی قبل تعمیر کیا گیا تھا۔

    بدقسمتی سے ہمارے ہاں نہ تو اسے تاریخی یادگار کے طور پر دیکھا گیا اور نہ ہی یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ ہزاروں برس بعد بھی یہ پُل کیسے مضبوطی سے اپنی جگہ قائم ہے جب کہ اس سے روزانہ ہر قسم کا ٹریفک گزرتا ہے۔

    کہتے ہیں تزک جہانگیری میں اس پُل کا ذکر ملتا ہے اور تحقیق سے سامنے آیا ہے کہ یہ پُل شہنشاہ جہانگیر کے حکم پر تعمیر کیا گیا تھا اور 1620 میں اس پر کام شروع ہوا۔

    اس زمانے میں‌ شہنشاہ شیخو پورہ قلعے میں مقیم تھے۔ تاریخی کتب کے مطابق اس سال بہت بارشیں ہوئیں، جس کے بعد شہنشاہ نے شاہی شکار گاہ کا رخ کیا، لیکن واپسی میں دشواری پیش آئی کیوں کہ ندی نالوں میں طغیانی آ گئی تھی۔ ان کے راستے میں بپھری ہوئی ڈیگ ندی پڑی تو قافلے کو کنارے پر تین چار روز رکنا پڑا۔

    تب شہنشاہ نے اس جگہ ایک پل کی تعمیر کا حکم دیا اور مغل ماہر تعمیرات نے 1621 تک اس کام کو اپنی نگرانی میں مکمل کروایا۔

    یہ پل ضلع شیخو پورہ کے گاؤں کوٹ پندی داس سے لگ بھگ ایک کلو میٹر جنوب مشرق کی طرف واقع ہے۔

    ماہرین نے اس پُل کو چھوٹی اینٹوں سے تعمیر کیا ہے موٹے ستونوں کے ساتھ پانی کے لیے گزر گاہیں بنائی ہیں‌ جو قوس نما ہیں۔ اسی طرح اُس زمانے میں خوب صورتی کے لیے پُل پر برجیاں تعمیر کی گئی تھیں جو اب باقی نہیں رہیں۔

  • مغل دور کے مزارکا گنبد محکمہ آثارِ قدیمہ کی غفلت کا شکار

    مغل دور کے مزارکا گنبد محکمہ آثارِ قدیمہ کی غفلت کا شکار

    پشاور: مغل دور میں تعمیر ہونے والے تاریخی مزار کا گنبد محکمہ آثارِ قدیمہ کی غفلت سے رو بہ زوال ہے، گنبد کے اوپر اگے درخت کی جڑیں اسے شدید نقصان پہنچا رہی ہیں۔

    مغل دور کا بنا ہوا ہوا تاریخی گنبد جو دلہ زاک روڈ پر گنبد گاؤں میں واقع ہے وہ حکام کی عدم توجہ کی وجہ سے اپنی اصلیت کھو رہی ہے۔ یہ گنبد اکبر بادشاہ کے دور میں شاہ قطب زین العابدین نے بنا یا تھا جو ایک بزرگ صوفی کا مزار تھا۔ یہ گنبد باریک اینٹوں سے بنا ہوا ہے جس کے ساتھ اوپر منزل کو چڑھنے کیلئے سیڑھیاں بھی بنائی گئی ہیں۔

    چترال یونین آف پروفیشنل جرنلسٹ زاک کے صدر، پشاور یونیورسٹی کے باٹنی ڈیپارٹمنٹ کے سابق چئیرمین پروفیسر ڈاکٹرعبد الرشید، باٹنی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر لال بادشاہ اور باٹنی کے بی ایس کے طالب علم عبد الرب نے اس گنبد کا دورہ کیا جہاں اس بات کا انکشاف ہوا کہ گنبد کی حالت نہایت ناگفتہ بہ ہے۔ گنبد کے اوپر ایک درخت بھی اگا ہوا ہے، جو  تقریباً پانچ سال کا ہے۔ ڈاکٹر عبد الرشید نے ہمارے نمائندے کو بتایا کہ یہ درخت اس تاریخی گنبد کی وجود کے لیے  نہایت خطرناک ہے اور اس کی جڑیں گنبد کے اندرونی  حصے کو کسی بھی وقت گراسکتی ہیں۔

    باٹنی کے پروفیسر ڈاکٹر لال بادشاہ نے کہا کہ اس درخت کی جڑوں سے جو کیمیاوی مواد نکلتا ہے، وہ اس گنبد کی عمارت کیلئے نہایت خطرناک ہے اور اسے بہت نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں جب محکمہ آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالصمد سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اسسٹنٹ ریسرچ آفیسر نواز الدین کا نمبر دیا جن سے فون پر بات ہوئی۔ اور اس گنبد کے حوالے سے معلومات حاصل کی گئی تاہم ماہرین کے دورے کے دوران نہ تو کوئی چوکیدار تھا نہ کوئی اور سٹاف۔

    یہاں تک کہ اس تاریخی گنبد کے ساتھ کوئی بورڈ بھی نہیں لگا ہوا ہے جس پر آنے والے سیاحوں، طلباء اور تحقیق کاروں کیلئے معلومات درج ہوں۔

    مقامی لوگوں سے جب بات ہوئی تو انہوں نے بھی شکایت کی کہ ہمارا گاؤں اس گنبد کی وجہ سے مشہور ہے مگر عملہ کے لوگ تنخواہیں تو لیتے ہیں مگر اپنی ڈیوٹی نہیں کرتی۔ نہ تو کوئی اس کے معائنہ کیلئے آتا ہے نہ اس درخت کا ابھی تک کسی نے سدباب کیا۔

    مقامی لوگوں نے یہ بھی بتایا کہ اس گنبد میں جو مزار ہے اس کے چاروں طرف تالے لگے ہوئے ہیں اور گندی  نالی کی بدبو سے بھی اس عمارت کی سیر کرنے والے کو سخت تکلیف ہوتی ہے۔

     مقامی لوگوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس گنبد پر مامور تمام عملہ اور اس کے نام پر نکلی ہوئی فنڈ کے بابت تحقیقات کی جائے کہ عملہ اپنا فرائض کیوں انجام نہیں دیتے اور اس کی حفاظت کیلئے چاردیواری تعمیر کی جائے،  نیز اس پر بورڈ بھی نصب کیا جائے جس پر تمام معلومات درج ہو۔