قطب الدّین ایبک وہ مسلم حکم راں ہے جس نے ہندوستان میں ایک مسلم سلطنت کی بنیاد ڈالی اور مسلمانوں کی حکومت انگریزوں کے خلاف 1857ء میں ناکام بغاوت تک جاری رہا۔ ایبک کا نام اپنے زمانے میں فیّاضی اور سخاوت کے لیے بھی مشہور ہے۔
مؤرخین کے مطابق قطب الدّین ایبک کا تعلق ترک قبیلے ایبک سے تھا۔ اسے بچپن میں غلام بنا کر فروخت کردیا گیا تھا۔ اس غرض سے ایبک کو نیشا پور لایا گیا جہاں اسے اپنے زمانے کے ایک تعلیم یافتہ شخص قاضی فخر الدّین عبد العزیز کوفی نے خریدا۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ وہ ایک بااثر اور قابل شخص تھے جنھوں نے اس غلام سے اچھا سلوک کیا اور اس لڑکے کی تعلیم و تربیت کی۔ قطب الدّین کے والد اور اس کے خاندان کے بارے میں تاریخ کے صفحات خالی ہیں۔
قطب الدّین ایبک نے قاضی صاحب کے ساتھ رہتے ہوئے قرآن کی تعلیم بھی پائی اور اس زمانے کے دستور کے مطابق سواری و تیر اندازی بھی سیکھی۔ ایبک کی استعداد اور قابلیت سے قاضی صاحب بھی خوش رہے۔ وہ اچھے اوصاف کا حامل اور مطیع و فرماں بردار تھا۔ لیکن قاضی صاحب کی وفات کے بعد ان کی اولاد نے اس غلام لڑکے کو ایک تاجر کے ہاتھ فروخت کر دیا جس نے ایبک کو غزنہ کے بازار میں لاکر سلطان غازی معزالدّین سام المعروف سلطان محمد غوری سے اس کے دام لے لیے اور یوں اس غلام کی زندگی بدل گئی۔
تاریخ کی کتابوں میں قطب الدّین ایبک کا سنِ پیدائش 1150 درج ہے تاہم مؤرخین کو اس میں اختلاف ہے۔ ادھر سلطان کے ساتھ زندگی کا سفر شروع ہوا تو اس نے پایا کہ وہ اپنے ترکی غلاموں کو بہت اہمیت دیتا ہے اور ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے ایبک کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا گیا اور اسے بہادر اور خوش خصلت و صاحبِ کمال پایا تو اسے منصب پر فائز کیا۔ مؤرخین کے مطابق جب سلطان محمد غوری 1206ء میں جہلم کے قریب ایک مہم میں جان سے گیا تو یہ قابل غلام اپنی سیاسی فہم و فراست کے سبب اس کا جانشین بن گیا۔
قطب الدین نے رفتہ رفتہ اپنی صلاحیتوں سے ہر شعبے میں اپنی گرفت مضبوط کی اور اس کا ستارہ اوج پر پہنچا۔ اس کی فوجیں گجرات، راجپوتانہ، گنگا جمنا کے دوآبہ، بہار اور بنگال میں فاتح بنیں۔ ایبک نے 1206ء میں لاہور میں اپنی تخت نشینی کا اعلان کیا تھا اور بعد میں اس کا زیادہ تر وقت لاہور ہی میں گزرا۔ اس کی تاج پوشی لاہور کے قلعے میں ہوئی تھی، لیکن ایبک نے کبھی سلطان کا خطاب نہیں اپنایا اور نہ ہی اپنے نام سے کوئی سکہ جاری کیا۔
قطب الدّین کی زندگی کا سفر 1210ء تک جاری رہا۔ تاہم اس حکم راں کی تاریخِ وفات میں اختلاف ہے۔ اکثر مؤرخین نے 4 نومبر اور بعضوں نے وفات کی مختلف تاریخ یا مہینہ بھی دسمبر لکھا ہے۔ اس حکم راں کی موت حادثاتی تھی۔ اس زمانے میں امراء میں چوگان کا کھیل بڑا مقبول تھا۔ قطب الدّین کو بھی چوگان کا بڑا شوق تھا۔ ایک دن وہ اس کھیل سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ اپنے گھوڑے سے گرا اور اس کے نیچے دب گیا اور کہتے ہیں کہ گھوڑے کی زین کا پیش کوہہ اس کے سینے میں پیوست ہونے سے موت واقع ہوئی۔
قطب الدّین ایبک کو لاہور میں دفن کیا گیا جہاں آج بھی اس کا مزار موجود ہے۔ اس کے جانشین سلطان شمس الدّین التمش نے اس کے مدفن پر عالی شان مقبرہ تعمیر کرایا تھا۔
قطب الدّین ایبک کی سخاوت اور دریا دلی بھی مشہور ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دہلی میں کوئی بھی ایسا نہیں تھا جس نے اس حکم راں کی فیّاضی اور سخاوت نہ سمیٹی ہو۔