Tag: مغل حکومت

  • "خلقت خدا کی، ملک شہنشاہ کا اور حکومت کمپنی بہادر کی!”

    "خلقت خدا کی، ملک شہنشاہ کا اور حکومت کمپنی بہادر کی!”

    تیمور کی وفات کے بعد اس کی نسل میں کوئی ایسا باصلاحیت شخص پیدا نہیں ہوا جو تیمور کی عظیم الشّان سلطنت کو بکھرنے سے بچا سکتا تھا۔ چنانچہ تیمور کے بعد وسط ایشیا میں تیموری شہزادے اور امرا نے چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم کر لیں اور خانہ جنگی میں مبتلا ہو گئے۔

    انہیں میں ایک ریاست فرغانہ تھی جس کا حکم ران عمر شیخ مرزا تھا۔ ہندوستان کی مغل سلطنت کا بانی بابر مرزا اسی عمر شیخ مرزا کا لڑکا تھا۔ بابر کا سلسلۂ حسب و نسب باپ کی طرف سے تیمور اور ماں کی طرف سے چنگیز خان سے ملتا ہے۔ لہٰذا بابر کی رگوں میں تیمور اور چنگیز دونوں کا خون تھا۔ 1494ء میں عمر شیخ مرزا کا انتقال ہوا۔ اس وقت بابر کی عمر صرف 12 سال تھی۔ شدید خانہ جنگی کے حالات میں نو عمر بابر کے لیے فرغانہ کی چھوٹی سی ریاست کی حفاظت کرنا قریب قریب ناممکن تھا۔

    چنانچہ 10 سال تک بابر خود کو اور اپنی ریاست کو بچانے کے لیے ہمسایہ ریاستوں کے حکم رانوں سے جنگ و جدل میں الجھا رہا۔ وسط ایشیا کے حالات سے مایوس ہو کر بابر نے افغانستان کا رخ کیا اور 1504ء میں کابل فتح کر کے وہاں ایک مضبوط حکومت قائم کر لی۔ اس وقت ہندوستان میں لودھی پٹھان حکومت کررہے تھے۔ پنجاب کی خود مختار مسلم ریاستوں اور لودھی حکم رانوں کے درمیان علاقائی تسلط کے لیے اکثر جھڑپیں ہوا کرتی تھیں۔

    ملتان کے حاکم نے بابر مرزا کو ہندوستان پر حملہ کرنے کی دعوت دی۔ بابر ویسے بھی ہندوستان کے ان علاقوں پر جو تیمور فتح کرچکا تھا، اپنا حق سمجھتا تھا اور ان کو حاصل کرنے کے لیے اس نے ہندوستان پر کئی حملے کیے تھے۔ ملتان کے حاکم کی دعوت پر بابر نے ہندوستان پر آخری حملہ کیا اور 1526ء میں پانی پت کے میدان میں ابراہیم لودھی کو شکست دے کر آگرہ اور دہلی پر قبضہ کرلیا۔ پانی پت کی پہلی جنگ میں ابراہیم لودھی کی شکست سے اقتدار پٹھانوں کے ہاتھ سے نکل کر تیموری مغل خاندان میں منتقل ہو گیا۔

    اگرچہ پٹھانوں نے راجپوتوں کو شکست دے کر ہندوستان کا اقتدار چھین لیا تھا، لیکن سلطنتِ دہلی کے دور میں راجپوتانہ عملاً مختلف راجپوت خاندانوں کے تسلط ہی میں رہا۔ لودھی حکومت کے دور میں سلطنتِ دہلی سکڑ کر ایک علاقائی حکومت بن گئی تھی اور راجپوت دوبارہ ہندوستان کا اقتدار حاصل کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ لہٰذا بابر کے حملے کے وقت راجپوت ابراہیم لودھی کا ساتھ دے کر مشترکہ طاقت کے ساتھ بیرونی حملہ آور کا مقابلہ کرنے کے بجائے خاموش تماشائی بنے رہے۔ کیونکہ راجپوت سمجھتے تھے کہ بابر تیمور کی طرح لودھی حکومت کو تباہ و برباد کرکے واپس چلا جائے گا اور وہ لودھیوں سے لڑ کر حکومت حاصل کرنے کے بجائے لودھی حکومت کے تباہ شدہ کھنڈر پر اپنی حکومت کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے۔ لیکن بابر نے دہلی سلطنت کو ختم کر کے مغل سلطنت کی بنیاد رکھی۔ تب راجپوتوں کی آنکھیں کھل گئیں اور وہ دہلی کی مرکزی حکومت کا اقتدار حاصل کرنے کے لیے حرکت میں آگئے۔

    چتوڑ کے راجہ رانا سانگا کی قیادت میں راجپوتوں کی متحدہ فوج نے بابر کو ہندوستان سے نکال کر باہر کرنے کے لیے پیش قدمی کی۔ بہت سارے افغان سردار جو لودھی خاندان کی تباہی کے بعد بابر کے جانی دشمن ہوگئے تھے وہ بھی راجپوتوں سے مل گئے۔ 16 مارچ 1527ء کو بابر نے 12 ہزار کی فوج کے ساتھ کنواہہ کے مقام پر راجپوتوں اور افغانوں کی دو لاکھ متحدہ فوج کا مقابلہ کیا اور انہیں شکستِ فاش دی۔

    کنواہہ کی جنگ کے بعد بہت سارے شکست خوردہ افغان سردار بنگال کے حاکم نصرت شاہ کے پاس پہنچ گئے اور نصرت شاہ کی مدد سے انہوں نے بابر سے ایک بار پھر جنگ کی۔ 6 مئی 1529ء کو بابر نے نصرت شاہ اور شکست خوردہ افغان سرداروں کی متحدہ فوج کو دریائے گھاگرا کے کنارے شکست دی۔ کنواہہ اور گھاگرا کی جنگ کے بعد مغل اقتدار کو چیلنج کرنے والا اور دہلی کی مرکزی حکومت کا کوئی دعویٰ دار باقی نہ رہا۔

    مغل سلطنت کا عروج و زوال:
    ہندوستان میں مغل حکومت 315 سال تک رہی۔ پہلے 181 سال بابر کی تخت نشینی (1526ء) سے لے کر اورنگ زیب کی وفات (1707ء) تک مغل سلطنت کے عروج کا زمانہ ہے۔ اگر ان 181 سالوں میں سے 15 سال جب اقتدار شیر شاہ سوری اور اس کے خاندان میں رہا (1540ء تا 1555ء) نکال دیے جائیں تو مغلیہ سلطنت کے عروج کا زمانہ 166 سال کا ہوتا ہے۔ اس دوران نہایت عظیم صلاحیتوں کے چھے بادشاہ مغلیہ سلطنت کو نصیب ہوئے:

    بابر (1526ء تا 1530ء)
    ہمایوں (1530ء تا 1556ء)
    اکبر (1556ء تا 1605ء)
    جہانگیر (1605ء تا 1627ء)
    شاہجہاں (1627ء تا 1657ء)
    اورنگ زیب (1657ء تا 1707ء)

    1707ء سے 1799ء یعنی 82 سال کا دور مغلیہ سلطنت کا عہدِ زوال ہے۔ اس دور میں مغلوں کی فوجی قوت آپس کی خانہ جنگی میں تباہ ہوگئی۔ انگریزوں نے بنگال اور مدراس کی طرف سے ہندوستان کی سیاست میں دخل اندازی شروع کردی تھی۔ لیکن دہلی کی مرکزی حکومت کا کوئی حقیقی دعوے دار ابھی پیدا نہیں ہوا تھا۔

    1799ء میں ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد ہندوستان کے سیاسی افق پر صرف مرہٹہ طاقت باقی رہ گئی تھی جسے مختلف محاذوں پر شکست دے کر ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1803ء تک اقتدار سے بے دخل کردیا اور مرہٹہ سردار ایک ایک کرکے کمپنی بہادر کے حلقہ بگوش ہو گئے۔

    مرہٹہ طاقت کو کچلنے کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی دہلی کی مرکزی حکومت کی دعوے دار بن کر ہندوستان کے سیاسی افق پر نمودار ہوئی۔ چنانچہ 1803ء میں جنرل لیک کی سرکردگی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجیں علی گڑھ اور آگرہ پر قبضہ کرنے کے بعد دہلی میں داخل ہوئیں تو مغل شہنشاہ شاہ عالم بے بسی کے عالم میں ایک پھٹے ہوئے شامیانے کے نیچے انگریزوں کے استقبال کے لیے کھڑا ہوا تھا۔ جنرل لیک نے مغل شہنشاہ کو اپنی حفاظت میں لے کر اس کا وظیفہ مقرر کر دیا اور پھر برّعظیم کا اقتدارِ اعلیٰ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھ میں چلا گیا۔ 1799ء سے 1857ء کی پہلی جنگِ آزادی یعنی 58 سال تک مغل اقتدار برائے نام باقی رہا۔

    اس دوران ایسٹ انڈیا کمپنی نہایت حکمت سے ہندوستانی عوام کو باور کراتی رہی کہ خلقت خدا کی، ملک شہنشاہ کا اور حکومت کمپنی بہادر کی۔ یہ نعرہ انگریزوں نے اس لیے ایجاد کیا تھا کہ ہندوستانی عوام کیا ہندو، کیا مسلمان کی وفاداریاں مغل سلطنت سے اس درجہ مضبوطی سے وابستہ ہوچکی تھیں کہ وہ مغل حاکم کے علاوہ کسی اور کی بادشاہت کا تصور کر نہیں سکتے تھے۔

    1857ء کی جنگِ آزادی میں انگریزوں نے نہ صرف اپنی عسکری برتری کو منوالیا بلکہ سیاسی برتری بھی تسلیم کروا لی اور تاجِ برطانیہ نے کمپنی کو بے دخل کر کے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کو معزول کرکے ان پر بغاوت کا الزام لگا کر جلا وطن کر دیا۔ اب انگریزوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے نعرہ کو بدل دیا اور کہنے لگے: "ملک ملک معظم کا اور حکم انگریزوں کا۔”

    (ماخوذ: ہندوستان کی جنگِ آزادی میں مسلمانوں کا حصّہ، مؤلفہ ڈاکٹر محمد مظفر الدّین فاروقی)

  • عظیم حکم راں، بہترین منتظم اور مصلح شیر شاہ سوری کی برسی

    عظیم حکم راں، بہترین منتظم اور مصلح شیر شاہ سوری کی برسی

    شیر شاہ سوری کو برصغیر کی اسلامی تاریخ کا ایک عظیم حکم راں، سپہ سالار، بہترین منتظم اور مصلح کہا جاتا ہے۔ تاریخ داں ان کے طرزِ حکم رانی، عدل و انصاف، رعایا کی فلاح و بہبود انتظامات اور ریاست میں‌ ترقی و خوش حالی کے لیے اقدامات کو مثالی قرار دیتے ہیں۔ شیر شاہ سوری 22 مئی 1545ء کو وفات پاگئے تھے۔

    شیر شاہ سوری نے اپنی جدوجہد سے ہندوستان میں اپنی سلطنت قائم کی تھی۔ شمالی ہندوستان پر انھوں نے صرف پانچ سال حکومت کی، لیکن تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ مؤرخین کے مطابق ان کا حسنِ انتظام بعد کے فرماں رواؤں کے لیے مثال بنا اور انھوں نے بھی ملک گیری کے لیے شیر شاہ سوری کے طرزِ حکم رانی سے استفادہ کیا۔

    شیر شاہ سوری کی تاریخِ پیدائش میں اختلاف ہے، لیکن مؤرخین کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ وہ 1486ء میں حصار(موجودہ بھارتی ریاست ہریانہ) میں پیدا ہوئے۔
    ان کا اصل نام فرید خان تھا جو حسن خان کی پہلی نرینہ اولاد تھے۔ ان کے بزرگ سلطان بہلول لودھی کے زمانے میں ہندوستان آئے تھے، جنھوں نے دربار میں‌ جگہ پائی اور جاگیریں حاصل کیں۔

    شیر شاہ کے والد نے بھی اپنے بزرگوں کی طرح درباروں اور امرائے سلطنت کی خدمت اور ملازمتیں کرکے بڑی بڑی جاگیریں اپنے نام کیں۔ شیر شاہ کسی طرح ایک افغان حکم راں کا قرب حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئے۔ کہتے ہیں کہ انھوں نے اسی حکم راں کو شیر کے حملے سے بچایا تھا اور اس درندے کو ایک ہی وار میں‌ ڈھیر کردیا تھا جس پر انھیں شیر خان کا خطاب عطا کیا گیا جو ان کی شناخت بن گیا۔ بعد میں جاگیریں اور بڑے بڑے علاقوں کا انتظام چلانے کے بعد اپنے ساتھیوں کی مدد سے مخالفین کو شکست دے کر سلطنت قائم کرنے میں کام یاب ہوگئے۔

    گرینڈ ٹرنک روڈ المعروف جی ٹی روڈ شیر شاہ سوری کا ہی کارنامہ ہے۔ آگرہ سے برہان پور، آگرہ سے جودھ پور اور چتور تک اور لاہور سے ملتان تک سڑک اور ان راستوں پر سرائے کی تعمیر بھی اسی حکم راں کی یادگار ہیں۔ مؤرخین کے مطابق ان مقامات پر ٹھنڈے اور گرم پانی کے انتظامات کیے گئے تھے جب کہ سرائے میں گھوڑوں کے کھانے پینے کا بھی انتظام کیا گیا تھا، مسافروں کے مال و اسباب کی حفاظت کے لیے چوکیدار مقرر کیا گیا تھا۔ شیر شاہ سوری نے سڑکوں کے کنارے درخت بھی لگوائے تھے تاکہ مسافر اس کی چھاؤں میں آرام کر سکیں۔

    شیر شاہ سوری ایک جنگ کے دوران بارود پھٹنے سے زندگی سے محروم ہوگئے۔ وہ 60 سال کے تھے جب یہ حادثہ پیش آیا جس میں ان کے ساتھ کئی سپاہی بھی ہلاک ہوئے۔ شیر شاہ سوری کا مقبرہ بھارت کے شہر سہسرام میں‌ ہے۔

  • کس کے اشارے پر "سدھاکر” اورنگزیب عالمگیر کی طرف بڑھا تھا؟

    کس کے اشارے پر "سدھاکر” اورنگزیب عالمگیر کی طرف بڑھا تھا؟

    اورنگزیب عالمگیر کو مؤرخین نے برصغیر کا عظیم شہنشاہ لکھا ہے۔ مغلیہ سلطنت کا یہ چھٹا تاج وَر تین نومبر 1618 کو پیدا ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیر پر ان کے دادا جہانگیر کا راج تھا اور کروڑوں انسانوں کی قسمت اُن کے جنبشِ ابرو سے بنتی اور بگڑتی تھی۔

    اورنگزیب کا نام محی الدین محمد رکھا گیا۔ وہ شہاب الدین محمد شاہ جہاں کی تیسری اولاد تھے۔

    اورنگزیب نے اس زمانے کے دستور کے مطابق جہاں ضروری اسلامی علوم اور طرزِ حیات سیکھا، وہیں شاہ زادے کو گھڑ سواری، تیر اندازی اور دیگر فنونِ سپاہ گری کی بھی تعلیم دی گئی۔ اورنگزیب نے ادب اور خطاطی میں دل چسپی لی اور اس فن میں کمال حاصل کیا۔ مشہور ہے کہ وہ ٹوپیاں سیتے اور قرآن کی کتابت کرتے جس کی آمدن ذاتی گزر بسر پر خرچ ہوتی تھی۔

    محی الدین محمد نے مغل تخت سنبھالا تو اورنگزیب ابوالمظفر محی الدین عالمگیر کا لقب اختیار کیا۔ مؤرخین کے مطابق 3 مارچ 1707 کو جب وہ نوّے برس کے ہوئے تو بیمار پڑے اور دارِ فانی سے کوچ کیا۔ انھیں وصیت کے مطابق خلد آباد میں دفن کیا گیا۔

    شاہجہاں کے چاروں بیٹوں کی شروع ہی سے تاج و تخت پر نظر تھی۔ اورنگزیب خود کو اس کا اصل حق دار سمجھتے تھے۔

    تخت اور اختیار کی خواہش میں بغاوت اور طرح طرح کی سازشوں کے ساتھ خونی رشتوں کے قتل سے بھی دریغ نہیں کیا گیا جس کی مغل تاریخ گواہ ہے۔ ایک ایسا ہی واقعہ شاہ جہاں کے درباری شاعر اور ایک شاہی مؤرخ نے بھی بیان کیا تھا۔

    یہ واقعہ کچھ اس طرح ہے:

    اپنے بیٹے دارا شکوہ کی شادی کے بعد ایک روز تفریح کی غرض سے شاہ جہاں نے دو ہاتھی سدھاکر اور صورت سندر کے درمیان مقابلہ کی خواہش ظاہر کی۔

    مقابلہ شروع ہوا تو حاضرین نے دیکھا کہ اچانک سدھاکر، گھوڑے پر بیٹھے اورنگزیب کی طرف غصے سے بڑھا، اورنگزیب نے پُھرتی سے اس کی پیشانی پر نیزے سے وار کیا جس نے اسے مزید مشتعل کر دیا۔

    اس نے گھوڑے کو اتنے زور سے ٹکر ماری کہ اورنگزیب زمین پر آ گرا۔ قریب موجود اورنگزیب کے بھائی شجاع اور راجا جے سنگھ نے شاہ زادے کو بچانے کی کوشش کی، لیکن اسی دوران دوسرے ہاتھی شیام سندر نے سدھاکر کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی تھی۔

    بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ مقابلے کے دوران دارا شکوہ پیچھے ہی موجود تھے، لیکن انھوں نے اورنگزیب کو بچانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔

    شاہی خاندان اور بھائیوں میں اختلافات، اقتدار کی خاطر پروپیگنڈا، بغاوت اور مسلح‌ لڑائیوں‌ کے باوجود تخت اورنگزیب کا مقدر بنا اور انھوں نے 49 سال تک کروڑوں انسانوں پر راج کیا۔ مؤرخین کے مطابق ان کے دورِ حکومت میں مغل سلطنت وسیع ہوئی اور تقریباً پورا برصغیر مغلوں کے تابع رہا۔

  • وہ ملکہ جو شہنشاہ اکبرپرحکومت کرتی تھی

    وہ ملکہ جو شہنشاہ اکبرپرحکومت کرتی تھی

    برصغیرکا سب سے عظیم فرمانروا ، اور مغل حکمرانوں میں سب سے طاقت ور جلال الدین محمد اکبر اپنے حرم میں موجود جس خاتون کی رائے کا سب سے زیادہ احترام کرتے تھے، ان کا نام سلیمہ سلطان بیگم تھا، یہ واحد خاتون تھیں جو ’جلالِ اکبری‘ کے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت رکھتی تھیں اور اپنی اس قوت کا مظاہرہ انہوں نے شہزادہ سلیم اور شہنشاہ اکبر کے درمیان ہونے والی جنگ کے موقع پر بخوبی کیا۔

    سلیمہ ،مغل شہنشاہ اکبر اعظم کی دوسری بیوی،اور اکبر کے تین خاص بیگمات میں سے ایک ہیں۔ وہ 23 فروری 1539، کو پیدا ہوئی تھیں ۔ سلیمہ بیگم رشتے میں اکبر کے والد اوردوسرے مغل بادشاہ ہمایوں کی بھتیجی تھیں۔

    [bs-quote quote=”سلیمہ بیگم جلالِ اکبری کو روکنے کی حیرت انگیز قوت کی حامل تھیں” style=”style-7″ align=”left”][/bs-quote]

    قرون وسطیٰ کے مورخین نے انہیں ان کے اخلاق ، علمی مرتبے ، شعری ذوق اور اکبر کے حکومتی معاملات میں ا ن کی جانب سے دیے گئے مشوروں کے سبب انہیں تاریخ کے اوراق میں جگہ دی ہے۔ وہ ’مخفی‘ تخلص سے شعر کہا کرتی تھیں۔ ان کا شمار اکبر کی سب سے خاص بیگمات میں سے ہوتا تھا، باقی دو بیگمات جو اہمیت کی حامل تھی ان میں رقیہ سلطان جو کہ سلیمہ بیگم کی کزن تھیں ، جبکہ مریم الزمانی بیگم شامل ہیں، مریم زمانی کو تاریخ جودھا بیگم کے نام سے یاد کرتی ہے۔

    ہمایوں نے اپنے سپاہ سالار بیرم خان سے وعدہ کیا تھا کہ ہندوستان ان کی قلم رو میں شامل ہوگیا تو وہ اپنی بھتیجی سلیمہ بیگم ان کے عقد میں دیں گے، بیرم خان نے شمشیر کے زور پر ہندوستان فتح کیا تو ہمایوں کا وعدہ نبھایا گیا۔ اس وقت بیرم خان کی عمر پچاس سے زائد تھی جبکہ سلیمہ بیگم انتائی کم سن تھیں، یہ شادی اکبر کے دورِ حکومت میں انجام پائی تھی۔ بعد ازاں بیرم خان نے اپنے کچھ مصاحبوں کے بہکاوے میں آکر شہنشاہ سے بغاوت کردی اور شکست یاب ہوئے۔ اکبر نے ان کے تمام اعزازات اور اختیارات واپس لیتے ہوئے حکم دیا کہ وہ ایک بڑی جاگیر لیں اور دہلی سے دور ہوجائیں، ایک عام مصاحب کی طرح اکبر کے دربار میں رہیں، یا پھر مکے کی جانب روانہ ہوجائیں۔ بیرم خان نے تیسرا آپشن قبول کیا ، لیکن سفر کے دوران افغان لٹیروں کے حملے میں مارے گئے۔

    اس وقت تک سلیمہ بیگم، بیرم خان کے ایک بیٹے رحیم خان کی ماں بن چکی تھیں، ا کبر نے قریبی تعلق داری کے سبب انہیں اپنے نکاح میں لے لیا، بعد ازاں شہنشاہ ان کی قابلیت سے اتنا متاثر ہوا کہ ہر اہم معاملے میں ان سے مشورے کرنے لگا۔ اکبر کو ہمیشہ سلیمہ بیگم کی فیصلے پر فخر ہوتا اور چین و سکون پاتے ، اس لیے سلیمہ بیگم کو خیرالمشیرہ یعنی اچھا مشورہ دینی والی بھی کہاجاتا ہے۔

    سلیمہ خاتون کا حرم میں تمام لوگوں سے عمدہ تعلق قائم تھا۔ رقیہ سلطان بیگم ان کی رشتے کی بہن تھی اس لیے وہ ان کا بھی خیال رکھتی تھیں، اس کے علاوہ مریم الزمانی (جودھا بائی) کے ساتھ بھی اچھا سلوک تھا اور وہ ان کی ایک اچھی دوست تھی۔

    جب شہزادہ سلیم نے اکبر بادشاہ کے خلاف بغاوت کی اور الہ ٰ آباد میں اپنی علیحدہ عدالت قائم کرکے ’سلیم شاہ‘ کا لقب اختیار کیا تو اکبر کا غضب دیکھنے والا تھا۔ تین سال تک باپ بیٹے کے درمیان معرکہ آرائی ہوتی رہی یہاں تک کہ سلیم نے اکبر کے قریبی دوست اور سب سے اہم مشیر ابو الفضل کو قتل کرانے کی بھی کوشش کی۔ یہ ایسا دور تھا کہ دنیا کی طاقت سلیم کی حمایت میں اکبر کے سامنے جانے کی ہمت نہیں کررہی تھی ۔بالاخر سلیمہ بیگم شہزادے کی حمایت میں آگے آئیں اور جلالِ اکبر ی کو ٹھنڈا کرکے سلیم کے لیے معافی کا پروانہ حاصل کیا اوراسے لے کر خود شاہی جاہ و حشم کے ساتھ الہٰ آباد روانہ ہوئیں۔

    اکبر کے انتقال کے بعد ایک بار پھر جہانگیر کے دور میں ان کا سیاسی اثرو رسوخ دیکھنے میں آیا، جب اکبر کے رضاعی بھائی مرزا عزیز کوکا نے جہانگیر کے بیٹے خسرو کو بغاوت پر آمادہ کرکے اسے شہنشاہ کے مقابل لا کھڑا کیا۔ اس وقت بھی سلیمہ بیگم ہی تھیں، جو جہانگیر سے مرزا کوکا اورخسرو کے لیے معافی حاصل کرسکی تھیں، تاہم بعد میں خسرو کو نابینا کردیا گیا تھا۔

    مغل محل سرا کی یہ بے مثال خاتون 1613 میں انتقال کرگئیں، سلیمہ خاتون کی تدفین ان کی وصیت کے مطابق مندارکر گارڈن میں کی گئی۔ اپنی سوتیلی ماں کی وفات پر شہنشاہ جہانگیر نے انہیں کچھ اسطرح خراجِ تحسین پیش کیا کہ علم و ادب اور ذہانت کا ایسا مجموعہ کسی خاتون میں شاذو نادر ہی دیکھنے میں آتا ہے اور سلیمہ سلطان ان تمام اوصاف سے مزین تھیں۔