Tag: مغل دور

  • دریائے راوی کے کنارے شہنشاہِ ہند کے جاہ و جلال کی ایک یادگار

    دریائے راوی کے کنارے شہنشاہِ ہند کے جاہ و جلال کی ایک یادگار

    برصغیر میں مغلیہ دورِ حکومت اور شاہانِ‌ وقت کی ذاتی زندگی اور ان کے انجام سے متعلق تاریخ بہت سی کہانیاں سمیٹے ہوئے ہے۔ یہاں ہم ذکر کریں گے مغل خاندان کے چوتھے شہنشاہ نور الدین محمد سلیم کی شخصیت، ان سے منسوب قصوں اور اس مقبرے کی جو آج بھی پرشکوہ اور قابلِ دید عمارت ہے۔ محمد سلیم نور الدین جہانگیر مشہور ہوئے اور لاہور میں ان کا مدفن اس عہدِ رفتہ کی یاد دلاتا ہے جس میں مغل خاندان بڑی شان و شوکت سے نسل در نسل راج کرتا رہا۔

    مؤرخین نے جہانگیر کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ حکمت عملی بنانے اور سلطنت کو مضبوط کرنے میں بہت اچھا تھا لیکن اسے فنون لطیفہ میں بہت دلچسپی تھی۔ شہنشاہ نے کئی پینٹنگز بھی تیار کیں جن میں ان کے پورٹریٹ بھی شامل تھے۔ برٹش میوزیم نے اس دور کی 74 پینٹنگز اکٹھی کی ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جہانگیر نے بنائی تھیں۔ اسی طرح‌ تزک جہانگیری بزبانِ‌ فارسی وہ کتاب ہے جو نورالدین جہانگیر کی تصنیف کردہ ہے اور اس میں شہنشاہ نے اپنے حالات و واقعات کو قلم بند کیا ہے۔

    مغل شہزادہ کا اصل نام سلیم تھا، اور اس کا سنہ پیدائش 1564ء بتایا جاتا ہے۔ وہ شہنشاہِ ہند اکبر کی رانی مریم الزّمانی کے بطن سے پیدا ہوا۔ شہزادہ سلیم نور الدین جہانگیر کے لقب سے 1605ء میں تخت نشین ہوا اور تین دہائیوں تک نہایت شان و شوکت سے ہندوستان پر حکومت کی۔ 8 نومبر 1627ء کو جہانگیر وفات پاگیا اور اُسے دریائے راوی کے کنارے واقع ملکہ نور جہاں کے باغ دلکشا کے وسط میں دفن کیا گیا۔ جہانگیر کا مقبرہ اُس کے بیٹے شاہجہاں نے مکمل کروایا تھا۔ اس مقبرہ کو مغل دور کی خوب صورت عمارتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ حسین یادگار دریائے راوی کے دوسرے کنارے یعنی شاہدرہ کی طرف سے لاہور آتے ہوئے نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔

    مؤرخین کے مطابق مقبرۂ جہانگیر کی تعمیر کا آغاز ملکہ نور جہاں نے کیا تھا، لیکن اس کی تکمیل شاہ جہاں کے زیرِ نگرانی اور اس کے حکم پر ہوئی۔ جہانگیر ہندوستان کے مشہور ترین مغل بادشاہوں میں سے ایک ہے جس نے تخت نشینی کے بعد ملکی اداروں میں کئی اصلاحات کیں۔ بادشاہ سے متعلق کئی قصے بھی مشہور ہیں جن میں مبالغہ آرائی بھی ہے اور اکثر مستند واقعات نہیں ہیں۔ البتہ مشہور ہے کہ اپنے محل کی دیوار کے ساتھ فریادیوں کے لیے بادشاہ نے ایک زنجیر لگوا دی تھی اور اسے زنجیرِ عدل کا نام دیا تھا۔ یوں اس عہد میں ہر کوئی اپنی شکایت بآسانی بادشاہ تک پہنچا سکتا تھا۔ اس زنجیر کو ہلا کر شہنشاہ جہانگیر تک اپنی شکایت پہنچانے والوں کو انصاف بھی ملا یا یہ محض نمائشی زنجیر تھی اس پر مؤرخین اور محققین نے بہت کچھ لکھا ہے، لیکن صدی دو صدی پہلے بھی جو کتابیں‌ مغل خاندان اور حکم رانوں پر تحریر کی گئی ہیں ان میں بادشاہوں کی رحم دلی، سخاوت اور ان کے انصاف پر مبنی کئی قصّے پڑھنے کو ملتے ہیں اور جہانگیر کی ایک اچھی تصویر ہمارے سامنے لاتے ہیں۔ اس شہنشاہ کے حکم پر ملک کے طول و عرض میں شاہراہیں، سرائے، کنویں اور مساجد بھی تعمیر کروائی گئیں۔

    کہتے ہیں‌ کہ شہنشاہ جہانگیر کو بھی اپنے باپ اکبر کی طرح لاہور سے بہت زیادہ انسیت اور لگاؤ تھا۔ اس نے 1622ء میں لاہور کو دارالسلطنت بنایا اور اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ اسے موت کے بعد لاہور میں دفن کیا جائے۔ یہ بھی مشہور ہے کہ جہانگیر کی قبر پر روزانہ قرآن خوانی کی جاتی تھی اور اس کے لیے حفاظ مقرر تھے۔ بعد میں پنجاب پر سکھوں نے حکومت قائم کی تو یہ سلسلہ ترک کر دیا گیا۔

    جہانگیر کی چہیتی ملکہ نور جہاں نے اس مقبرہ کےساتھ ایک خوبصورت مسجد بھی تعمیر کروائی تھی۔ اس احاطے میں‌ کئی رہائشی کمرے بھی تھے اور نور جہاں بھی یہیں دفن ہوئی۔ آج بھی مقبرۂ جہانگیر لاہور کی قدیم عمارت اور مغل دور کی ایک عظیم یادگار کے طور پر دیدنی ہے اور ملک بھر سے سیر و سیاحت کے لیے آنے والے یہاں ضرور حاضری دیتے ہیں۔ اس مقبرہ کے چاروں کونوں پر خوبصورت مینار موجود ہیں۔ ہر مینار 100 فٹ بلند ہے اور اس کی 61 سیڑھیاں ہیں۔ مقبرے کی عمارت ایک مربع نما چبوترے پر ہے۔ قبر کا تعویذ سنگ مرمر کا ہے اور اس پر عقیق، لاجورد، نیلم، مرجان اور دیگر قیمتی پتھروں سے گلکاری کی گئی ہے۔ جہانگیر کے مزار کے چاروں جانب سنگِ مرمر کی جالیاں دکھائی دیتی ہیں جن کی وجہ سے سخت گرم موسم میں بھی یہ ہال حدّت سے محفوظ رہتا ہے۔ مقبرے کا اندرونی فرق مختلف قیمتی پتھروں سے مزین ہے۔ مقبرۂ جہانگیر کا غربی دروازہ اتنا بلند ہے کہ اس میں سے ہاتھی مع سوار کے گزر سکتا تھا۔

    بعد میں ہندوستان اور پنجاب پر نادر شاہ اور احمد شاہ کی افواج کے حملوں اور سکھوں کے دور میں مقبرۂ جہانگیر کو بہت نقصان پہنچا۔ اس کے باوجود آج بھی اس عمارت کی شان و شوکت برقرار ہے اور یہ ہمیں عہدِ رفتہ کی یاد دلاتی ہے۔

  • شاہانِ وقت کی بیگمات اور شاہزادیاں‌ جو کشور کُشا اور ادب نواز تھیں!

    شاہانِ وقت کی بیگمات اور شاہزادیاں‌ جو کشور کُشا اور ادب نواز تھیں!

    ہندوستان پر سیکڑوں سال تک حکومت کرنے والے سلاطین جہاں رزم و بزم میں یکتائے روزگار تھے، اُسی طرح ان کی بیگمات اور شہزادیاں بھی منفردُ المثال تھیں۔

    جس طرح یہ سلاطین اور شہزادے فاتح اور کشور کشا نیز علم دوست اور ادب نواز تھے، اُسی طرح شاہی محلوں سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی فنِ حرب و ضرب میں ماہر اور علم و ادب کی دلدادہ تھیں۔

    ملک کی پہلی خاتون حکم راں رضیہ سلطانہ سے لے کر آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کی ملکہ زینت محل اور اودھ کے نواب واجد علی شاہ کی ملکہ حضرت محل تک کی داستانِ حرب و ضرب اور واقعاتِ علم پروری تاریخ کے صفحات پر جگمگا رہے ہیں۔

    ہندوستان کے شاہی محلات ہر دور میں فکر و فن اور علم و ادب کے مراکز رہے ہیں۔ یہاں اہلِ علم کی قدر افزائی ہوتی رہی ہے۔ اسی کے ساتھ اپنے دور کے نام ور دانش ور اور حکماء و علماء شہزادوں اور شہزادیوں کی تربیت کے لیے رکھے جاتے تھے۔ فنِ حرب اور شہسواری نہ صرف شہزادوں کو سکھائے جاتے تھے بلکہ شہزادیوں کو بھی ان فنون میں یکتائے روزگار بنایاجاتا تھا۔ حالاں کہ خواتین کو جنگوں میں حصہ لینے کے مواقع کم ہی ملتے تھے، مگر علمی محفلوں میں ان کی شرکت خوب خوب ہوا کرتی تھی۔ ایسے ماحول میں تربیت پانے والی خواتین یکتائے روزگار ہوا کرتی تھیں اور پسِ پردہ رہ کربھی اپنے دور کی سیاست پر اثرانداز ہوا کرتی تھیں۔

    رضیہ سلطانہ ہندوستانی تاریخ کی تنہا خاتون حکم راں تھی۔ اس کے بعد یہ موقع کسی شہزادی کو نصیب نہیں ہوا مگر ساتھ ہی ساتھ تاریخ ایسے واقعات سے بھی خالی نہیں کہ خواتین نے ہندوستان کی سیاست پر اثر ڈالا اور بلاواسطہ نہ سہی لیکن بالواسطہ ملک پر حکومت کی۔ اس ضمن میں ملکہ نور جہاں، چاند بی بی اور ملکہ حضرت محل جیسی کئی شاہی بیگمات کے نام آتے ہیں۔

    محلاتی سازشوں میں بھی شاہی بیگمات پیش پیش رہا کرتی تھیں اور اپنے بیٹوں کو مسندِ شاہی تک پہنچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کیا کرتی تھیں۔ کئی بار ان بیگمات کے ناخنِ تدبیر ہی سیاسی گتھیوں کو سلجھایا کرتے تھے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب شہزادہ سلیم نے اپنے باپ جلال الدّین محمد اکبر کے خلاف بغاوت کی تو اس مسئلے کو سلجھانے کے لیے اکبر کی ذی فہم ملکہ سلیمہ سلطانہ بیگم سامنے آئی اور اسی کی سمجھ داری نے سلیم کو مصالحت پر مجبور کیا۔

    ہندوستان کی شاہی بیگمات چونکہ پردے میں رہتی تھیں اور انہیں میدان جنگ میں لڑنے کے مواقع کم ہی ملتے تھے، لہٰذا ان کی بیشتر توجہ علم وادب کی طرف تھی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اچھی شاعرات اورنثر نگار ثابت ہوئیں۔ ان بیگمات میں کئی اچھی ادیبہ، اور صاحبِ دیوان شاعرہ تھیں تو کئی مؤرخ اور عالمہ تھیں۔ ان میں گلبدن بیگم، جاناں بیگم، ملکہ نور جہاں، ملکہ ممتاز محل، جہاں آرا بیگم، زیب النساء بیگم، اور زینت النساء بیگم کے نام لیے جاسکتے ہیں۔

    شاہی خواتین کو علم و ادب کے ساتھ ساتھ فنِ مصوّری، خطاطی اور عمارت سازی کا بھی شوق تھا اور انھوں نے اس میدان میں بھی کار ہائے نمایاں انجام دیے۔ رضیہ سلطانہ نے اپنے باپ شمسُ الدّین التمش کے مقبرے کو تعمیر کرایا۔ آج اس مقبرے کا بیشتر حصہ منہدم ہو چکا ہے مگر جو کچھ باقی ہے وہ رضیہ کے ذوق کی بلندی کا پتہ دینے کے لیے کافی ہے۔ بادشاہ ہمایوں کی بیوہ حاجی بیگم نے اپنے شوہر کی قبر پر جو عمارت تعمیر کرائی وہ تاج محل کی تعمیر کے لیے مشعل راہ ثابت ہوئی۔

    اسی طرح نور جہاں نے اعتماد الدّولہ کا عظیم الشّان مقبرہ تعمیر کروا کے اپنے ذوقِ عمارت سازی سے دنیا کو آگاہ کیا۔ دلّی کی معروف فتح پوری مسجد کی تعمیر، شاہ جہاں کی ایک ملکہ نے کرائی تو دریا گنج کی گٹھا مسجد ایک شہزادی کی کوشش کا نتیجہ ہے۔ الغرض ہندوستان کی شاہی خواتین کے کارنامے بھی بے شمار ہیں، مگر انہیں سامنے لانے کی کوشش بہت کم ہوئی ہے۔

    رضیہ سلطان، ملک کی اوّلین خاتون حکم راں تھی، جس نے ملک پر شان دار حکم رانی کی مگر اسے صرف اس لیے تخت سے ہٹنا پڑا کہ وہ مرد نہیں تھی۔ جس زمانے میں بھارت میں خواتین کو ’’ستی‘‘ ہونا پڑتا تھا اس دور میں رضیہ سلطان نے حکم رانی کی۔ وہ حکم رانی کی اہل بھی تھی مگر مردوں کے اقتدار والے سماج نے صرف اس لیے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ ایک عورت تھی۔ اس نے مقبرہ التمش کی تعمیر بھی کرائی۔ باحوصلہ شاہی بیگمات میں ایک نام حاجی بیگم کا ہے جو، بادشاہ ہمایوں کی بیوی تھی اور مشکل حالات میں اپنے شوہر کا سہارا بنی رہی۔ شوہر کے انتقال کے بعد اس نے اپنے کم عمر بیٹے اکبر کی سرپرستی کرتے ہوئے حکومت سنبھالی، اس نے مقبرہ ہمایوں کی تعمیر کرایا۔ جو بعد میں تاج محل کے لیے ماڈل ثابت ہوا۔ اکبر کو بہت کم عمری میں حکومت مل گئی تھی جو اس کے اتالیق کے ذریعے چلتی تھی مگر اس حکومت میں حاجی بیگم کی مرضی بھی شامل رہتی تھی اور ہندوستان کے سیاہ و سپید میں اس کے اختیارات بھی شامل رہتے تھے۔

    شاہ جہاں کی بیگمات ہی نہیں بلکہ اس کی بیٹیاں بھی بہت پڑھی لکھی اور دین دار تھیں۔ جہاں آرا بیگم، شاہ جہاں کی بیٹی تھی اور ادیبہ و شاعرہ تھی۔ اس نے اجمیر میں کئی تعمیرات کرائیں۔ مغل شہزادیوں میں ایک نام زینتُ النّساء کا بھی ہے جس نے دریا گنج کی گٹھا مسجد تعمیر کرائی تھی۔ یہیں شہزادی کی قبر بھی ہے۔ مغل شہزادی روشن آراء نے روشن آرا باغ کی تعمیر کرائی، اس شہزادی کی اہمیت کئی اعتبار سے مسلم ہے۔ اورنگ آبادی بیگم، بادشاہ اورنگ زیب کی بیوی تھی، اس نے دلّی میں کئی تعمیرات کرائیں۔ اسی طرح بیگم اکبر آبادی نے اکبر آبادی مسجد کی تعمیر کرائی اور فخرُالنّساء خانم نے فخرُ المساجد بنوایا۔ تعمیرات کا شوق رکھنے والی بیگمات میں ایک تھی ماہم اتکہ، جو بادشاہ اکبر کی رضاعی ماں تھی۔ بادشاہ اس کا بے حد احترام کرتا تھا، اس نے مسجد خیرُالمنازل تعمیر کرائی تھی جو پرانا قلعہ کے سامنے واقع ہے اور آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے کنٹرول میں ہونے کے باوجود آباد ہے۔ یہاں مسجد کے ساتھ ایک مدرسہ بھی تعمیرکیا گیا تھا جس کے کھنڈرات آج بھی موجود ہیں۔

    امراء کی بیگمات بھی علم و فن اور مصوری، خطاطی و آرکٹکچر کا شوق رکھتی تھیں جن میں ایک نام نواب قدسیہ زمانی کا ہے۔ انھوں نے دلّی میں کئی تعمیرات کرائیں جن میں درگاہ شاہ مرداں اور کچھ دیگر تعمیرات شامل ہیں۔ یہ علم و ادب کا شوق رکھتی تھیں اور نیک کاموں میں اپنی دولت خرچ کرتی تھیں۔ عہد مغل اور اس سے قبل کی سلطنت میں بڑی تعداد ایسی خواتین کی تھی جو علم و ادب سے گہری وابستگی رکھتی تھیں اور اپنی دولت بھی اس کے لیے خرچ کرتی تھیں۔ ان بیگمات اور شہزادیوں میں چند نام یہ ہیں، گلبدن بیگم، گل رخ بیگم، سلیم سلطان بیگم، ماہم بیگم، جاناں بیگم، زیب النساء بیگم، حمیدہ بانو، گیتی آرا، سعیدہ بانو، مبارکہ وغیرہ۔

    (محقّق و مصنّف: غوث سیوانی)

  • عظیم حکم راں، بہترین منتظم اور مصلح شیر شاہ سوری کی برسی

    عظیم حکم راں، بہترین منتظم اور مصلح شیر شاہ سوری کی برسی

    شیر شاہ سوری کو برصغیر کی اسلامی تاریخ کا ایک عظیم حکم راں، سپہ سالار، بہترین منتظم اور مصلح کہا جاتا ہے۔ تاریخ داں ان کے طرزِ حکم رانی، عدل و انصاف، رعایا کی فلاح و بہبود انتظامات اور ریاست میں‌ ترقی و خوش حالی کے لیے اقدامات کو مثالی قرار دیتے ہیں۔ شیر شاہ سوری 22 مئی 1545ء کو وفات پاگئے تھے۔

    شیر شاہ سوری نے اپنی جدوجہد سے ہندوستان میں اپنی سلطنت قائم کی تھی۔ شمالی ہندوستان پر انھوں نے صرف پانچ سال حکومت کی، لیکن تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ مؤرخین کے مطابق ان کا حسنِ انتظام بعد کے فرماں رواؤں کے لیے مثال بنا اور انھوں نے بھی ملک گیری کے لیے شیر شاہ سوری کے طرزِ حکم رانی سے استفادہ کیا۔

    شیر شاہ سوری کی تاریخِ پیدائش میں اختلاف ہے، لیکن مؤرخین کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ وہ 1486ء میں حصار(موجودہ بھارتی ریاست ہریانہ) میں پیدا ہوئے۔
    ان کا اصل نام فرید خان تھا جو حسن خان کی پہلی نرینہ اولاد تھے۔ ان کے بزرگ سلطان بہلول لودھی کے زمانے میں ہندوستان آئے تھے، جنھوں نے دربار میں‌ جگہ پائی اور جاگیریں حاصل کیں۔

    شیر شاہ کے والد نے بھی اپنے بزرگوں کی طرح درباروں اور امرائے سلطنت کی خدمت اور ملازمتیں کرکے بڑی بڑی جاگیریں اپنے نام کیں۔ شیر شاہ کسی طرح ایک افغان حکم راں کا قرب حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئے۔ کہتے ہیں کہ انھوں نے اسی حکم راں کو شیر کے حملے سے بچایا تھا اور اس درندے کو ایک ہی وار میں‌ ڈھیر کردیا تھا جس پر انھیں شیر خان کا خطاب عطا کیا گیا جو ان کی شناخت بن گیا۔ بعد میں جاگیریں اور بڑے بڑے علاقوں کا انتظام چلانے کے بعد اپنے ساتھیوں کی مدد سے مخالفین کو شکست دے کر سلطنت قائم کرنے میں کام یاب ہوگئے۔

    گرینڈ ٹرنک روڈ المعروف جی ٹی روڈ شیر شاہ سوری کا ہی کارنامہ ہے۔ آگرہ سے برہان پور، آگرہ سے جودھ پور اور چتور تک اور لاہور سے ملتان تک سڑک اور ان راستوں پر سرائے کی تعمیر بھی اسی حکم راں کی یادگار ہیں۔ مؤرخین کے مطابق ان مقامات پر ٹھنڈے اور گرم پانی کے انتظامات کیے گئے تھے جب کہ سرائے میں گھوڑوں کے کھانے پینے کا بھی انتظام کیا گیا تھا، مسافروں کے مال و اسباب کی حفاظت کے لیے چوکیدار مقرر کیا گیا تھا۔ شیر شاہ سوری نے سڑکوں کے کنارے درخت بھی لگوائے تھے تاکہ مسافر اس کی چھاؤں میں آرام کر سکیں۔

    شیر شاہ سوری ایک جنگ کے دوران بارود پھٹنے سے زندگی سے محروم ہوگئے۔ وہ 60 سال کے تھے جب یہ حادثہ پیش آیا جس میں ان کے ساتھ کئی سپاہی بھی ہلاک ہوئے۔ شیر شاہ سوری کا مقبرہ بھارت کے شہر سہسرام میں‌ ہے۔

  • بھارت: کھدائی کے دوران سونے کے قدیم سکے دریافت، مزدور آپس میں لڑ پڑے

    بھارت: کھدائی کے دوران سونے کے قدیم سکے دریافت، مزدور آپس میں لڑ پڑے

    بھارتی ریاست مہاراشٹرا میں ایک تعمیراتی سائٹ سے کھدائی کے دوران مغلوں کے دور کے سونے کے سکے برآمد ہوئے جن کی مالیت 1 کروڑ بھارتی روپے سے زائد ہے۔

    مہاراشٹرا کے علاقے چھکیلی سے ملنے والے ان تاریخی سکوں کو پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے، ان کے ساتھ تانبے کا ایک قدیم کنٹینر بھی دریافت ہوا ہے۔

    ان سکوں کی تعداد 216 ہے جبکہ ان کا وزن مجموعی طور پر 2 ہزار 357 گرام ہے، ایک سکے کی مالیت 60 سے 70 ہزار بھارتی روپے ہے اور تمام سکوں کی کل مالیت 1 کروڑ 30 لاکھ بھارتی روپے ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ سکے 1720 سے 1750 عیسوی کے درمیان کے ہیں، سکوں پر اردو اور عربی میں راجہ محمد شاہ کی مہر لگی ہوئی ہے۔

    مزدوروں کا جھگڑا انہیں لے ڈوبا

    مقامی پولیس کو چند روز قبل اطلاع ملی تھی کہ صدام سالار خان پٹھان نامی ایک شخص ان سکوں کو غیر قانونی طور پر چھپائے بیٹھا ہے، پولیس نے زیورات کی پہچان کے ماہرین کے ساتھ اس کے گھر پر چھاپہ مارا اور سکے برآمد کرلیے۔

    پولیس کا کہنا ہے 3 ماہ قبل صدام کے سسر اور سالا دوسرے ضلعے سے یہاں مزدوری کے لیے آئے تھے، صدام انہیں قریب واقع ایک تعمیراتی سائٹ پر لے گیا۔

    وہاں کام کرنے کے کچھ روز بعد کھدائی کے دوران دونوں باپ بیٹے کو کچھ طلائی سکے ملے، وہ انہیں صدام کے گھر لائے اور اسے دکھایا۔ صدام انہیں لے کر واپس اس جگہ پہنچا اور مزید کھدائی کی تو انہیں 216 سکے اور تانبے کا کنٹینر ملا۔

    یہ انہیں خاموشی سے گھر لے آئے تاہم اس کی تقسیم کے معاملے پر تینوں میں پھوٹ پڑ گئی جس سے بات پھیل گئی اور پولیس تک جا پہنچی۔

    پولیس نے سکے اور کنٹینر محکمہ آثار قدیمہ کے حوالے کردیے ہیں جبکہ صدام اور اس کے عزیزوں کو وارننگ دے کر گھر بھیج دیا گیا۔

  • ’’کیا آپ میرا ماڈل بننا پسند کریں گے؟‘‘

    ’’کیا آپ میرا ماڈل بننا پسند کریں گے؟‘‘

    کمال الدین بہزاد ایران کا نام وَر مصوّر تھا جس کے فن کا برصغیر ہی نہیں‌ دنیا بھر میں‌ شہرہ ہوا۔ اس کا سنِ پیدائش 1450 بتایا جاتا ہے۔ بہزاد نے متعدد درباروں سے وابستگی کے دوران شاہانِ وقت اور امرا سے اپنے فنِ مصوّری کی داد وصول کی اور ان کی سوانح و تواریخ کو اپنے فن سے آراستہ و زیبا کیا۔

    اردو کے نام وَر ادیب اور شاعر احمد ندیم قاسمی نے اس باکمال مصوّر کو ایک کردار کے طور پر پیش کرتے ہوئے فنِ مصوّری اور تخلیق سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے، ملاحظہ کیجیے۔

    استاد بہزاد جب آرٹ گیلری میں داخل ہوا تو اس کا پہلا تاثر روحانی آسودگی کا تھا۔ چار طرف رنگوں اور خطوں کی چھاؤنی چھا رہی تھی اور رنگ اور خط ہی تو ایک مصور کا سرمایہ حیات ہوتے ہیں۔ پھر اس نے گیلری کے وسط میں رکھے ہوئے ایک بنچ پر ابتدائی انسان کا ایک مجسمہ رکھا دیکھا۔ اللہ اللہ! گزشتہ صدیوں میں آرٹ نے کتنی بے حدود ترقی کی ہے! اِس مجسمے میں اتنی زندگی ہے جیسے یہ ابھی اُٹھ کر چلنے لگے گا اور بہزاد دم بخود رہ گیا جب ابتدائی انسان کا یہ مجسمہ سچ مچ اُٹھ کر چلنے لگا۔

    جلد ہی بہزاد نے اپنی حیرت پر قابو پایا اور سوچا کہ یہ وہ صدی ہے جس میں آوازیں پورے کرۂ ارض کا سفر کر کے مشرق و مغرب کے گھر گھر میں سنی جا سکتی ہیں اور جس میں چلتی پھرتی تصویریں ہوا کا سفر کرتی ہوئی آتی ہیں اور گھروں میں سجے ہوئے شیشے کے پردوں پر منعکس ہو جاتی ہیں۔

    اگر ایسی صدی میں آرٹسٹ کا تراشا ہوا ایک مجسمہ، عام انسانوں کی طرح چلنے پھرنے لگے تو اس پر حیرت کا اظہار اپنی جہالت کا اعلان ہو گا۔ پھر استاد بہزاد نے دیکھا کہ ابتدائی انسان کا وہ مجسمہ پلٹا اور اس کے پاس آ کر اس کے سامنے رک گیا اور بولا۔

    ’’کیا آپ میرا ماڈل بننا پسند کریں گے؟‘‘ تو یہ مجسمہ نہیں ہے، آرٹسٹ ہے! حسن کے اس تخلیق کار نے اپنی شخصیت کو حسن سے کیوں محروم کر رکھا ہے؟ اس کے بال اتنے بے ہنگم کیوں ہیں؟ کیا اسے معلوم نہیں کہ انسان نے جب کھیتی باڑی کرنا سیکھا تھا تو وہ حجامت بنانا بھی سیکھ گیا تھا! آخر آج کا آرٹسٹ، تصویر بنانے سے زیادہ اپنے آپ کو بنانے میں اتنا وقت کیوں ضائع کرتا ہے؟ اس مصور کے بالوں اور لباس کی یہ بے ترتیبی ایک سوچے سمجھے منصوبے کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے۔ یہ بے ترتیبی اس نے بڑی ترتیب سے پیدا کی ہے تاکہ وہ مصوّر نظر آئے۔

    مصوّر جب مصوّر دکھائی دینے کی، اور شاعر، شاعر دکھائی دینے کی کوشش کرنے لگے تو سمجھ لینا چاہیے کہ اس کی مصوّری اور شاعری میں کوئی ایسی کمی ہے جس کا خود مصور اور شاعر کو بھی احساس ہے۔ بہزاد نے سوچا کہ مصور اور شاعر اپنی اس کمی کو دور کرنے کی بجائے اسے اپنی شخصیت کی رومانیت میں کیوں چھپاتا ہے؟ اس طرح تو وہ دوسروں کو دھوکا دینے کی کوشش میں اپنے آپ کو دھوکا دیتا ہے اور اپنے آپ کو دھوکا دینے والا انسان تو کبھی بڑا آرٹسٹ نہیں بن سکتا۔

    مصوّر نے اپنے سوال کو دہرایا تو استاد بہزاد بولا ’’میں پرانے خیال کا آدمی ہوں۔ صدیوں کی فصلیں کاٹ کر یہاں تک پہنچا ہوں۔ مجھے کچھ اندازہ نہیں کہ آج کے آرٹ کا اسلوب کیا ہے۔ میں آپ کا ماڈل بننے کو تیار ہوں مگر پہلے مجھے اس آرٹ گیلری کی سیر تو کرائیے تاکہ میرے دل میں یہ اعتماد پیدا ہو سکے کہ آپ کا ماڈل بن کر آپ کا اور اپنا وقت ضائع نہیں کروں گا۔‘‘

    مصور نے بہزاد کو بازو سے پکڑا اور ایک تصویر کے پاس لے گیا۔ تصویر پر مصور نے اپنے دستخط بھی انگریزی میں کیے تھے اور نیچے ایک گوشے میں تصویر کا نام بھی انگریزی میں درج تھا۔ بہزاد حواس باختہ سا نظر آیا تو مصور سمجھ گیا کہ بدنصیب کو انگریزی نہیں آتی، چنانچہ اس نے تصویر کے نام کا ترجمہ کرتے ہوئے کہا ’’ذات کی شکست۔‘‘

    ’’مگر یہ بنائی کس نے ہے؟‘‘ بہزاد نے پوچھا۔ مصوّر تن کر بولا ’’میں نے۔ مگر نہیں۔ میں نے اسے بنایا نہیں ہے بلکہ اس نے خود کو مجھ سے بنوایا ہے۔ میرے اندر کوئی ایسی قوت ہے جسے آپ میری چھٹی حس کہہ لیجیے۔ وہی مجھ سے یہ تصویریں بنواتی ہے۔ اس میں میرا شعور، میرا ارادہ قطعی شامل نہیں ہوتا۔ ایک بار آدھی رات کو میری آنکھ کھلی تو میں نے محسوس کیا کہ اگر میں یہ تصویر نہیں بناؤں گا تو مر جاؤں گا، چنانچہ تصویر آپ کے سامنے ہے۔‘‘

    بہزاد نے تصویر کو بغور دیکھا۔ پھر مصوّر کی طرف دیکھ کر بولا ’’معذرت چاہتا ہوں مگر فن کی دیانت مجھے یہ کہنے پر مجبور کر رہی ہے کہ کاش اس رات آپ مر ہی گئے ہوتے تاکہ فن اس آلودگی سے محفوظ رہتا جو آپ نے اس تصویر کی صورت میں فن کے منہ پر دے ماری ہے۔ اوّل تو آپ نے اس تصویر کے اوپر سے نیچے اور دائیں سے بائیں تک ریت کے اڑتے ہوئے جو ذرات دکھائے ہیں، وہ ذرات کی بجائے مکئی اور جوار کے دانے معلوم ہوتے ہیں۔ پھر اس میں سے ’’ذات‘‘ غائب ہے۔ صرف شکست ہی شکست ہے، اور شکست کو تو مثبت ہونا چاہیے کیونکہ جب کچھ ٹوٹتا ہے تو کچھ بنتا بھی ہے۔

    اور آپ نے ذات کو توڑنے تاڑنے کے بعد اس پر اپنے دستخط جڑ دیے ہیں، یہ جو تصویر کے کونے میں ایک لمبا سا کیڑا پڑا بل کھا رہا ہے تو یہ آپ کے دستخط ہی ہیں نا؟ اور یہ بھی انگریزی ہی میں ہیں نا؟ پھر جب آپ اپنی زبان میں دستخط تک نہیں کر سکتے تو اپنی بے چاری ذات کے ساتھ کیا انصاف کریں گے۔ معاف کیجیے گا، میں آپ کا ماڈل بننے کو تیار نہیں ہوں، قدرت نے مجھے ایک خاص سلیقے سے بنایا ہے۔ میں آپ کے سپرد ہو کر قدرت کے معیاروں کی ہتک کا ارتکاب نہیں کروں گا۔ بہزاد نے یہ کہا اور مصوّر کو وہیں چھوڑ کر آگے بڑھ گیا۔

  • تختِ طاؤس: مغلیہ شان و شوکت کی وہ نشانی جسے نادر شاہ اپنے ساتھ لے گیا!

    تختِ طاؤس: مغلیہ شان و شوکت کی وہ نشانی جسے نادر شاہ اپنے ساتھ لے گیا!

    شہاب الدین محمد المعروف "شاہ جہاں” نے 1628 سے 1658 تک ہندوستان پر راج کیا۔ وہ پانچواں مغل شہنشاہ تھا جس نے ممتاز محل کی محبت میں‌ وہ عظیم اور اعجوبہ عمارت تعمیر کروائی جسے دنیا بھر میں‌ "تاج محل” کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔

    شاہ جہاں کے دور کو مغلیہ سلطنت کے عروج کا عہدِ زریں بھی کہا جاتا ہے۔ 1658 میں شاہ جہاں کو اُس کے بیٹے نے معزول کر دیا تھا۔

    شاہ جہاں فنِ تعمیر میں‌ دِل چسپی رکھتا تھا اور اس کے عہد میں کئی خوب صورت اور یادگار عمارتیں تعمیر کی گئیں جو آج بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ تاج محل ان میں‌ سے ایک ہے۔

    اسی مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے تخت نشینی کے بعد اپنے لیے ایک نہایت قیمتی تخت تیار کرایا تھا جسے ’’تختِ طاؤس‘‘ کا نام دیا گیا۔

    اس تخت کا طول تیرہ جب کہ عرض ڈھائی گز اور اونچائی پانچ گز رکھی گئی تھی۔ تخت کے چھے پائے تھے جو خالص سونے سے تیار کیے گئے تھے۔

    ہندوستان کے فرماں‌ روا کے اس تخت پر چڑھنے کے لیے تین چھوٹے چھوٹے زینے تھے جن میں قیمتی جواہر جڑے گئے تھے۔

    اس تخت کے دو کناروں‌ پر دو خوب صورت مور بنائے گئے تھے جن کی چونچ میں موتیوں کی لڑی دیکھی جاسکتی ہے۔ ان موروں کے سینوں کو سرخ یاقوت سے سجایا گیا تھا جب کہ ٹیک یا پشت والے حصّے پر قیمتی ہیرے جڑے ہوئے تھے۔

    نادر شاہ نے دہلی پر حملہ کیا تو ہر طرف بڑی تباہی اور بربادی ہوئی اور عمارتوں‌ کو نقصان پہنچا، یہی نہیں‌ بلکہ ان میں موجود قیمتی ساز و سامان، اور ہر قسم کی دولت لوٹ لی گئی جس میں‌ تختِ طاؤس بھی شامل تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس حملے کے بعد‌ نادر شاہ یہ تخت بھی اپنے ساتھ ایران لے گیا تھا۔

  • پشاور میں مہابت خان کی مسجد!

    پشاور میں مہابت خان کی مسجد!

    مسجد مہابت خان مغلیہ طرز تعمیر کا شاہ کار ہے جس کی دیواروں اور دروازوں پر صدیوں پہلے کے ہنرمندوں کی مہارت کے نقوش اب دھندلا چکے ہیں اور کاری گری کے حسین نمونے مٹتے جارہے ہیں۔

    تاریخ بتاتی ہے کہ 1670 مہابت خان نے پشاور کی یہ عظیم الشان مسجد تعمیر کروائی تھی، جس کا صحن 35 میٹر لمبا اور تقریباً 30 میٹر چوڑا ہے، مسجد کے وسط میں ایک بہت بڑا حوض موجود ہے۔

    اس مسجد کی دیواروں اور گنبد پر کاشی کاری کے علاوہ مختلف نقش و نگار دیکھنے کو ملتے ہیں جو اس دور کے ہنر مندوں کی مہارت کا ثبوت ہیں۔ مرکزی میناروں کی بلندی 34 میٹر ہے جن کے درمیان 6 چھوٹے مینار بھی ہیں۔ مسجد کی چھت کے گنبدوں میں سے تین بڑے گنبد ہیں۔

    بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ مغل طرزِ تعمیر کا شاہ کار اس مسجد کو 1630 میں تعمیر کیا گیا تھا۔

  • سعدُاللہ نے شاہ جہاں کی مشکل کا کیا حل نکالا؟

    سعدُاللہ نے شاہ جہاں کی مشکل کا کیا حل نکالا؟

    خاندان مغلیہ کے نام ور حکم راں شاہ جہاں جب سریر آرائے سلطنت ہوئے تو اس وقت کے شاہِ ایران نے بہ ذریعہ قاصد ایک خط روانہ کیا اور اعتراضاً لکھا کہ آپ تو ہند کے فرماں روا ہیں، ہند کو آپ نے ”جہاں“ کس طرح تصور کرلیا ہے۔

    اعتراض معقول تھا۔ بادشاہ کو متردد دیکھ کر اعیانِ سلطنت بھی پریشان ہوگئے۔ شاہ جہاں نے پورے اپنے زیرِ قبضہ ملک میں ڈھنڈورا پٹوا دیا کہ جو صاحب بھی اس کا مدلل جواب دینا چاہیں بلاتکلف دہلی تشریف لائیں، انہیں منہ مانگا انعام دیا جائے گا۔

    ہر شخص عوام و خواص میں غور و فکر کرنے لگا، لیکن معقول جواب کسی کی سمجھ میں نہ آسکا۔

    پنجاب میں ”چنیوٹ“ ایک علاقہ ہے، وہاں ایک اوسط درجے کے زمین دار سعدُ اللہ نے بھی یہ اعلان سنا اور ایک نکتہ اس مسئلہ کے حل میں سوجھ گیا۔

    وہ فوراً دہلی پہنچے، اس وقت شاہ جہاں کے درباری شاعر ملک الشعرا ابوطالب کلیم تھے، ان سے سعدُ ﷲ کی ملاقات ہوگئی۔ وہ بھی اسی فکر میں تھے، ان دنوں ہر طرف اسی بات کا تذکرہ تھا چوں کہ سعد ﷲ کی شخصیت اس وقت گم نام تھی، انہوں نے کہا میں جواب دے سکتا ہوں۔

    کلیم کو تعجب ہوا اور خوشی میں پوچھا کس طرح؟ سعدُ ﷲ نے صرف دو سطریں کاغذ پر لکھ کر دے دیں تاکہ کوئی اور نہ جان سکے۔

    ابوطالب کلیم نے اسی وقت شاہ جہاں کی طرف سے دعا سلام کے بعد ایک شعر اسی مضمون کو سمیٹتے ہوئے جو سعدُ ﷲ نے بتایا تھا، فی البدیہہ موزوں کیا، صفحہ قرطاس پر رقم کرکے ریشمی غلاف میں لپیٹ کر شاہ جہاں سے مہر لگوا کر قاصد کے ہاتھ شاہَ ایران کو بھیج دیا۔ اس وقت شاہ جہاں کو بھی تفصیل نہیں بتائی۔ بس اتنا کہا مدلل جواب ہے۔ آپ اطمینان رکھیں، جلد شکریہ کا خط آئے گا۔

    چند دن میں قاصد واپس آگیا۔ شاہ ایران نے لکھا تھا، جس نے بھی یہ مضمون تلاش کیا اگر آپ کے یہاں وہ کوئی حیثیت کا حامل نہیں تو بھیج دیں، میں اس کو وزیراعظم بناؤں گا وہ اس کا مستحق ہے۔

    اب شاہ جہاں نے اس خوشی کے موقع پر دربار سجایا۔ ملک الشعرا ابوطالب کلیم اپنے ساتھ سعدُ ﷲ خاں کو لے کر دربار میں پہنچے۔

    شاہ جہاں نے کلیم سے دریافت کیاکہ کیا لکھ کر روانہ کیا تھا۔ ابوطالب کلیم نے سعدُ ﷲ کا تعارف کراتے ہوئے کہا۔ یہ صاحب آپ کا اعلان سن کر چنیوٹ سے تشریف لائے تھے۔ انہوں نے ایسی مدلل بات بتائی جسے میں نے ایک شعر میں موزوں کرکے بھیج دیا تھا۔ وہی شعر پھر لکھ کر پیش کردیا۔

    ہند و جہاں زروئے عدد چوں برابر است
    برما خطاب شاہ جہاں زان مسلم است

    (حساب ابجد کے طریقے سے ہند و جہاں ہم عدد ہوتے ہیں، دونوں کے عدد ”59“ ہوتے ہیں اس لیے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہند لکھوں کہ جہاں)

    شاہ جہاں نے اس نکتے کی بہت تعریف کی، کلیم کو انعام سے مالا مال کردیا اور جس نے یہ نکتہ بتایا اس کو پورے چنیوٹ کا نواب کردیا اور اپنا وزیراعظم۔

    یہ تھے نواب سعدُ ﷲ خاں جو ساری عمر شاہ جہاں کے وزیراعظم رہے۔

    ("کتاب نما”، نئی دہلی، فروری 2001 کے شمارے سے انتخاب)

  • کابل کے ایک مرغزار کے حوض پر چلیے!

    کابل کے ایک مرغزار کے حوض پر چلیے!

    مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین محمد بابر کی مادری زبان فارسی تھی اور ایک زمانے میں‌ دستور کے مطابق ہر خاص و عام عربی اور فارسی سمجھتا اور سیکھتا تھا۔ معززین و امرائے وقت خاص طور پر فارسی بولتے اور لکھتے، یہ زبان گفتگو سے مراسلت تک ہر شعبے پر حاوی تھی۔

    مغل بادشاہ جہاں‌ دیگر علوم اور فنون سے آشنا تھا، وہیں بڑا باذوق اور ادب کا شائق بھی تھا۔ یہی نہیں‌ بلکہ خود بھی فارسی میں‌ شعر کہتا۔

    بابر کے ایک شعر کا مصرعِ ثانی ہے: "بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست”

    یہ مصرع کم و بیش پانچ سو سال سے ضرب المثل ہے۔ اس کا مصرع اولیٰ بہت کم صاحبانِ ذوق کو معلوم ہو گا۔

    کہتے ہیں‌ ہندوستان پر حملے سے پہلے بابر نے کابل میں‌ ایک مرغزار میں حوض بنوایا جہاں وہ اپنے خوش طبع اور باذوق دوستوں کے ساتھ اکثر وقت گزارتا تھا، اسی مناسبت سے اس نے یہ شعر کہہ کر اس حوض کی منڈیر پر کندہ کرایا تھا۔

    یہ مکمل شعر اور اس کا اردو ترجمہ آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔

    نو روز و نو بہار مئے و دلبرِ خوش است
    بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست

    شاعر کہتا ہے کہ نئے سال کا جشن ہو، موسمِ بہار میں تازہ شربت ارغوان ہو اور حسن و جمال مرصع معشوق ہو۔ بابر عیش کے اس خزانے کو خوب خرچ کرلے کیوں کہ یہ زندگی دوبارہ پلٹ کر نہیں آئے گی۔

  • کس کے اشارے پر "سدھاکر” اورنگزیب عالمگیر کی طرف بڑھا تھا؟

    کس کے اشارے پر "سدھاکر” اورنگزیب عالمگیر کی طرف بڑھا تھا؟

    اورنگزیب عالمگیر کو مؤرخین نے برصغیر کا عظیم شہنشاہ لکھا ہے۔ مغلیہ سلطنت کا یہ چھٹا تاج وَر تین نومبر 1618 کو پیدا ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیر پر ان کے دادا جہانگیر کا راج تھا اور کروڑوں انسانوں کی قسمت اُن کے جنبشِ ابرو سے بنتی اور بگڑتی تھی۔

    اورنگزیب کا نام محی الدین محمد رکھا گیا۔ وہ شہاب الدین محمد شاہ جہاں کی تیسری اولاد تھے۔

    اورنگزیب نے اس زمانے کے دستور کے مطابق جہاں ضروری اسلامی علوم اور طرزِ حیات سیکھا، وہیں شاہ زادے کو گھڑ سواری، تیر اندازی اور دیگر فنونِ سپاہ گری کی بھی تعلیم دی گئی۔ اورنگزیب نے ادب اور خطاطی میں دل چسپی لی اور اس فن میں کمال حاصل کیا۔ مشہور ہے کہ وہ ٹوپیاں سیتے اور قرآن کی کتابت کرتے جس کی آمدن ذاتی گزر بسر پر خرچ ہوتی تھی۔

    محی الدین محمد نے مغل تخت سنبھالا تو اورنگزیب ابوالمظفر محی الدین عالمگیر کا لقب اختیار کیا۔ مؤرخین کے مطابق 3 مارچ 1707 کو جب وہ نوّے برس کے ہوئے تو بیمار پڑے اور دارِ فانی سے کوچ کیا۔ انھیں وصیت کے مطابق خلد آباد میں دفن کیا گیا۔

    شاہجہاں کے چاروں بیٹوں کی شروع ہی سے تاج و تخت پر نظر تھی۔ اورنگزیب خود کو اس کا اصل حق دار سمجھتے تھے۔

    تخت اور اختیار کی خواہش میں بغاوت اور طرح طرح کی سازشوں کے ساتھ خونی رشتوں کے قتل سے بھی دریغ نہیں کیا گیا جس کی مغل تاریخ گواہ ہے۔ ایک ایسا ہی واقعہ شاہ جہاں کے درباری شاعر اور ایک شاہی مؤرخ نے بھی بیان کیا تھا۔

    یہ واقعہ کچھ اس طرح ہے:

    اپنے بیٹے دارا شکوہ کی شادی کے بعد ایک روز تفریح کی غرض سے شاہ جہاں نے دو ہاتھی سدھاکر اور صورت سندر کے درمیان مقابلہ کی خواہش ظاہر کی۔

    مقابلہ شروع ہوا تو حاضرین نے دیکھا کہ اچانک سدھاکر، گھوڑے پر بیٹھے اورنگزیب کی طرف غصے سے بڑھا، اورنگزیب نے پُھرتی سے اس کی پیشانی پر نیزے سے وار کیا جس نے اسے مزید مشتعل کر دیا۔

    اس نے گھوڑے کو اتنے زور سے ٹکر ماری کہ اورنگزیب زمین پر آ گرا۔ قریب موجود اورنگزیب کے بھائی شجاع اور راجا جے سنگھ نے شاہ زادے کو بچانے کی کوشش کی، لیکن اسی دوران دوسرے ہاتھی شیام سندر نے سدھاکر کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی تھی۔

    بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ مقابلے کے دوران دارا شکوہ پیچھے ہی موجود تھے، لیکن انھوں نے اورنگزیب کو بچانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔

    شاہی خاندان اور بھائیوں میں اختلافات، اقتدار کی خاطر پروپیگنڈا، بغاوت اور مسلح‌ لڑائیوں‌ کے باوجود تخت اورنگزیب کا مقدر بنا اور انھوں نے 49 سال تک کروڑوں انسانوں پر راج کیا۔ مؤرخین کے مطابق ان کے دورِ حکومت میں مغل سلطنت وسیع ہوئی اور تقریباً پورا برصغیر مغلوں کے تابع رہا۔