Tag: مغل دور

  • شاعر کی ذہانت اور تاجر کی سخاوت

    شاعر کی ذہانت اور تاجر کی سخاوت

    شاہانِ وقت، رؤسا اور منصب داروں کی اپنے زمانے میں قابل شخصیات، داناؤں اور اہلِ علم و ہنر کی عزت افزائی، ان پر عنایات اور لطف و کرم کے بے شمار قصّے ہم نے پڑھے ہیں۔ شاہی درباروں اور امرا کی محافل میں دین اور معاملاتِ زمانہ پر ایسے لوگوں کی پُرمغز اور دلیل و منطق کے ساتھ حکمت بھری گفتگو اور مباحث کے یہ تذکرے سبق آموز ہی نہیں، اکثر پُرلطف اور دل چسپ بھی ہیں۔ یہ بھی ایک ایسا ہی قصّہ ہے جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔

    بخارا، ایک زمانے میں علم و فنون کا مرکز اور اہلِ علم پر امرائے وقت کی عنایات کے لیے بھی مشہور تھا۔ اسی شہر میں کپڑے کا ایک دولت مند تاجر ابونصر بھی رہتا تھا جو شعر و ادب کا بھی دلدادہ تھا۔ اس کے ساتھ وہ سخی اور غریب پرور بھی مشہور تھا۔

    ابو نصر قریبی ملکوں میں‌ تجارت کی غرض سے سفر پر جاتا رہتا تھا۔ ایک مرتبہ سخاوت اور بخشش میں مشہور ابو نصر کا تجارتی قافلہ بخارا لوٹ رہا تھا کہ شہر کے قریب ہی شدید تھکن کے باعث آرام کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ بخارا سے قریب ہی ایک قصبہ تھا۔ ابو نصر اور اس کے ساتھیوں نے کچھ دیر تھکن اتارنے کے بعد دسترخوان سجایا تو دیکھا کہ ایک شخص ان کی طرف آرہا ہے۔

    وہ چہرے مہرے اور حلیے سے ایک مفلس اور حالات کا ستایا ہوا انسان نظر آتا تھا۔ اس نے ان کے قریب پہنچ کر ابونصر کی بابت دریافت کیا اور شناخت ہونے پر نہایت ادب سے اپنا تعارف کروایا۔ معلوم ہوا کہ وہ شاعر ہے۔ نام تاباں سلجی ہے اور قریبی قصبے کا رہائشی ہے۔

    اس نے ابو نصر کی شان میں چند اشعار پیش کرنے کی اجازت طلب کی اور ایک قصیدہ پڑھ ڈالا۔ ابونصر شاعری کا عمدہ ذوق رکھتا تھا۔ وہ اس شاعر کے کلام سے بہت متاثر ہوا۔ اس کے ساتھی بھی تاباں کو داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔

    ابونصر نے اسے اشرفیوں (رائج سکے) سے نوازا اور شہر میں آکر دوبارہ ملاقات کرنے کو کہا۔

    تاباں سلجی عمدہ شاعر ہی نہیں قابل اور ذہین بھی تھا۔ وہ گفتگو کا سلیقہ جانتا تھا۔ انعام وصول کرنے کے بعد اس نے ابونصر کو کہا۔

    بندہ پرور، آپ کی اہلِ علم پر عنایات کا کیا کہنا۔ یہ انعام بہت زیادہ ہے، لیکن آپ کچھ بھول رہے ہیں۔

    اب ابو نصر کی نظریں اس کے چہرے پر ٹک گئیں۔ تاباں نے نہایت ادب سے کہا۔

    میرا کلام آپ نے پسند کیا اور گویا ایک شاعر کی قدر افزائی کی، اسے انعام بھی دیا۔ حضور، وہ شاعر جو تاباں سلجی مشہور ہے وہ تو آپ سے بہت خوش ہے، مگر سنا تھاکہ آپ غریب پرور بھی ہیں۔ اب اس نے ذرا توقف کے ساتھ کہا۔

    یقین جانیے، میرا گزر بسر بہت مشکل سے ہوتا ہے۔ آپ نے ایک شاعر کو تو نواز دیا، مگر کیا آپ کے دروازے سے غریب اور مجبور انسان خالی ہاتھ لوٹ جائے؟

    ابونصر نے اس کی بات تحمل سے سنی اور مسکرا کر کہا، تم باکمال شاعر ہی نہیں، ذہین بھی ہو۔ تم توجہ حاصل کرنا بھی جانتے ہو اور تقاضہ کرنے کا سلیقہ بھی خوب آتا ہے، یہ کہہ کر ابونصر اسے مزید کچھ رقم دی اور نہایت عزّت اور احترام سے رخصت کیا۔

    مصنّف:‌ عارف عزیز

  • موت کی سزا منسوخ کر دی گئی!

    موت کی سزا منسوخ کر دی گئی!

    منشی محمد دین فوق کی تصنیف وجدانی نشتر میں اورنگ زیب عالم گیر کا ایک واقعہ ملتا ہے جو مغل دور کے حالات کی ایک جھلک ہے۔

    وہ لکھتے ہیں کہ خاندانِ مغلیہ کے نام ور حکم راں اورنگ زیب عالم گیر نے ایک مرتبہ حکم جاری کیا کہ تمام رقاص اور گانے بجانے والی عورتیں فلاں تاریخ تک نکاح کرلیں ورنہ انھیں کشتی میں بھر کر دریا بُرد کردیا جائے گا۔ بادشاہ کا حکم جاری ہوا اور منادی کی گئی تو اس زمانے کی بہت سی مغنیہ اور اس پیشے سے جڑی عورتوں نے نکاح کر لیے، مگر کئی رہ گئیں۔ یہاں تک کہ حکم کے مطابق وہ تاریخ سَر پر آگئی جب سپاہی آتے اور ایسی عورتوں کو دریا میں پھینک آتے۔

    اس زمانے کے ایک بزرگ شیخ کلیم اللہ دہلوی تھے۔ ایک طوائف پابندی سے ان کی خدمت میں حاضری دیا کرتی تھی۔ آپ وظائف سے فارغ ہوتے تو وہ بزرگ کے سامنے آکر کھڑی ہوجاتی اور توجہ پاکر سلام کرتی اور فوراً ہی چلی جاتی۔ حکم پر عمل کرنے کی مقررہ تاریخ میں ایک روز باقی تھا۔ وہ اس بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور سلام کرنے کے بعد عرض کی کہ خادمہ کا آخری سلام قبول کیجیے۔ اس پر شیخ نے حقیقتِ حال دریافت فرمائی۔ طوائف نے بزرگ کو متوجہ پایا تو سارا ماجرا کہہ سنایا۔ آپ نے ہدایت دی کہ حافظ شیرازی کا یہ شعر یاد کر لو۔
    در کوئے نیک نامی مارا گزر نہ دادند
    گر تو نمی پسندی تغیر کن قضارا
    (ترجمہ: نیک نامی کے کوچے میں ہمیں نہیں جانے دیا گیا، اگر تُو یہ پسند نہیں کرتا تو قضا کو بدل دے)

    بزرگ نے اس کے ساتھ یہ بھی ہدایت دی کہ مقررہ دن دریا کی طرف جاتے ہوئے سب مل کر بلند آواز سے یہ شعر پڑھنا۔ کہتے ہیں اگلے روز جب ایسی عورتوں کو دریا کی طرف لے جایا جانے لگا تو انھوں نے یہ شعر سوز و رقت سے باآواز بلند پڑھنا شروع کر دیا۔ ایک سماں سا بندھ گیا تھا۔ لوگ گھروں سے باہر نکل آئے اور راستوں پر جمع ہوگئے۔ حکم کی تعمیل کا دن تھا اور اس حوالے سے بادشاہ کو مطلع کردیا گیا تھا۔ اورنگ زیب کے ایک درباری نے یہ بات انھیں بتا دی۔

    بادشاہ اس سے متاثر ہوا اور وہی شعر پڑھتے ہوئے ان عورتوں کے دریا بُرد کیے جانے کا حکم منسوخ کردیا۔