Tag: مغل سلطنت

  • "خلقت خدا کی، ملک شہنشاہ کا اور حکومت کمپنی بہادر کی!”

    "خلقت خدا کی، ملک شہنشاہ کا اور حکومت کمپنی بہادر کی!”

    تیمور کی وفات کے بعد اس کی نسل میں کوئی ایسا باصلاحیت شخص پیدا نہیں ہوا جو تیمور کی عظیم الشّان سلطنت کو بکھرنے سے بچا سکتا تھا۔ چنانچہ تیمور کے بعد وسط ایشیا میں تیموری شہزادے اور امرا نے چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم کر لیں اور خانہ جنگی میں مبتلا ہو گئے۔

    انہیں میں ایک ریاست فرغانہ تھی جس کا حکم ران عمر شیخ مرزا تھا۔ ہندوستان کی مغل سلطنت کا بانی بابر مرزا اسی عمر شیخ مرزا کا لڑکا تھا۔ بابر کا سلسلۂ حسب و نسب باپ کی طرف سے تیمور اور ماں کی طرف سے چنگیز خان سے ملتا ہے۔ لہٰذا بابر کی رگوں میں تیمور اور چنگیز دونوں کا خون تھا۔ 1494ء میں عمر شیخ مرزا کا انتقال ہوا۔ اس وقت بابر کی عمر صرف 12 سال تھی۔ شدید خانہ جنگی کے حالات میں نو عمر بابر کے لیے فرغانہ کی چھوٹی سی ریاست کی حفاظت کرنا قریب قریب ناممکن تھا۔

    چنانچہ 10 سال تک بابر خود کو اور اپنی ریاست کو بچانے کے لیے ہمسایہ ریاستوں کے حکم رانوں سے جنگ و جدل میں الجھا رہا۔ وسط ایشیا کے حالات سے مایوس ہو کر بابر نے افغانستان کا رخ کیا اور 1504ء میں کابل فتح کر کے وہاں ایک مضبوط حکومت قائم کر لی۔ اس وقت ہندوستان میں لودھی پٹھان حکومت کررہے تھے۔ پنجاب کی خود مختار مسلم ریاستوں اور لودھی حکم رانوں کے درمیان علاقائی تسلط کے لیے اکثر جھڑپیں ہوا کرتی تھیں۔

    ملتان کے حاکم نے بابر مرزا کو ہندوستان پر حملہ کرنے کی دعوت دی۔ بابر ویسے بھی ہندوستان کے ان علاقوں پر جو تیمور فتح کرچکا تھا، اپنا حق سمجھتا تھا اور ان کو حاصل کرنے کے لیے اس نے ہندوستان پر کئی حملے کیے تھے۔ ملتان کے حاکم کی دعوت پر بابر نے ہندوستان پر آخری حملہ کیا اور 1526ء میں پانی پت کے میدان میں ابراہیم لودھی کو شکست دے کر آگرہ اور دہلی پر قبضہ کرلیا۔ پانی پت کی پہلی جنگ میں ابراہیم لودھی کی شکست سے اقتدار پٹھانوں کے ہاتھ سے نکل کر تیموری مغل خاندان میں منتقل ہو گیا۔

    اگرچہ پٹھانوں نے راجپوتوں کو شکست دے کر ہندوستان کا اقتدار چھین لیا تھا، لیکن سلطنتِ دہلی کے دور میں راجپوتانہ عملاً مختلف راجپوت خاندانوں کے تسلط ہی میں رہا۔ لودھی حکومت کے دور میں سلطنتِ دہلی سکڑ کر ایک علاقائی حکومت بن گئی تھی اور راجپوت دوبارہ ہندوستان کا اقتدار حاصل کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ لہٰذا بابر کے حملے کے وقت راجپوت ابراہیم لودھی کا ساتھ دے کر مشترکہ طاقت کے ساتھ بیرونی حملہ آور کا مقابلہ کرنے کے بجائے خاموش تماشائی بنے رہے۔ کیونکہ راجپوت سمجھتے تھے کہ بابر تیمور کی طرح لودھی حکومت کو تباہ و برباد کرکے واپس چلا جائے گا اور وہ لودھیوں سے لڑ کر حکومت حاصل کرنے کے بجائے لودھی حکومت کے تباہ شدہ کھنڈر پر اپنی حکومت کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے۔ لیکن بابر نے دہلی سلطنت کو ختم کر کے مغل سلطنت کی بنیاد رکھی۔ تب راجپوتوں کی آنکھیں کھل گئیں اور وہ دہلی کی مرکزی حکومت کا اقتدار حاصل کرنے کے لیے حرکت میں آگئے۔

    چتوڑ کے راجہ رانا سانگا کی قیادت میں راجپوتوں کی متحدہ فوج نے بابر کو ہندوستان سے نکال کر باہر کرنے کے لیے پیش قدمی کی۔ بہت سارے افغان سردار جو لودھی خاندان کی تباہی کے بعد بابر کے جانی دشمن ہوگئے تھے وہ بھی راجپوتوں سے مل گئے۔ 16 مارچ 1527ء کو بابر نے 12 ہزار کی فوج کے ساتھ کنواہہ کے مقام پر راجپوتوں اور افغانوں کی دو لاکھ متحدہ فوج کا مقابلہ کیا اور انہیں شکستِ فاش دی۔

    کنواہہ کی جنگ کے بعد بہت سارے شکست خوردہ افغان سردار بنگال کے حاکم نصرت شاہ کے پاس پہنچ گئے اور نصرت شاہ کی مدد سے انہوں نے بابر سے ایک بار پھر جنگ کی۔ 6 مئی 1529ء کو بابر نے نصرت شاہ اور شکست خوردہ افغان سرداروں کی متحدہ فوج کو دریائے گھاگرا کے کنارے شکست دی۔ کنواہہ اور گھاگرا کی جنگ کے بعد مغل اقتدار کو چیلنج کرنے والا اور دہلی کی مرکزی حکومت کا کوئی دعویٰ دار باقی نہ رہا۔

    مغل سلطنت کا عروج و زوال:
    ہندوستان میں مغل حکومت 315 سال تک رہی۔ پہلے 181 سال بابر کی تخت نشینی (1526ء) سے لے کر اورنگ زیب کی وفات (1707ء) تک مغل سلطنت کے عروج کا زمانہ ہے۔ اگر ان 181 سالوں میں سے 15 سال جب اقتدار شیر شاہ سوری اور اس کے خاندان میں رہا (1540ء تا 1555ء) نکال دیے جائیں تو مغلیہ سلطنت کے عروج کا زمانہ 166 سال کا ہوتا ہے۔ اس دوران نہایت عظیم صلاحیتوں کے چھے بادشاہ مغلیہ سلطنت کو نصیب ہوئے:

    بابر (1526ء تا 1530ء)
    ہمایوں (1530ء تا 1556ء)
    اکبر (1556ء تا 1605ء)
    جہانگیر (1605ء تا 1627ء)
    شاہجہاں (1627ء تا 1657ء)
    اورنگ زیب (1657ء تا 1707ء)

    1707ء سے 1799ء یعنی 82 سال کا دور مغلیہ سلطنت کا عہدِ زوال ہے۔ اس دور میں مغلوں کی فوجی قوت آپس کی خانہ جنگی میں تباہ ہوگئی۔ انگریزوں نے بنگال اور مدراس کی طرف سے ہندوستان کی سیاست میں دخل اندازی شروع کردی تھی۔ لیکن دہلی کی مرکزی حکومت کا کوئی حقیقی دعوے دار ابھی پیدا نہیں ہوا تھا۔

    1799ء میں ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد ہندوستان کے سیاسی افق پر صرف مرہٹہ طاقت باقی رہ گئی تھی جسے مختلف محاذوں پر شکست دے کر ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1803ء تک اقتدار سے بے دخل کردیا اور مرہٹہ سردار ایک ایک کرکے کمپنی بہادر کے حلقہ بگوش ہو گئے۔

    مرہٹہ طاقت کو کچلنے کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی دہلی کی مرکزی حکومت کی دعوے دار بن کر ہندوستان کے سیاسی افق پر نمودار ہوئی۔ چنانچہ 1803ء میں جنرل لیک کی سرکردگی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجیں علی گڑھ اور آگرہ پر قبضہ کرنے کے بعد دہلی میں داخل ہوئیں تو مغل شہنشاہ شاہ عالم بے بسی کے عالم میں ایک پھٹے ہوئے شامیانے کے نیچے انگریزوں کے استقبال کے لیے کھڑا ہوا تھا۔ جنرل لیک نے مغل شہنشاہ کو اپنی حفاظت میں لے کر اس کا وظیفہ مقرر کر دیا اور پھر برّعظیم کا اقتدارِ اعلیٰ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھ میں چلا گیا۔ 1799ء سے 1857ء کی پہلی جنگِ آزادی یعنی 58 سال تک مغل اقتدار برائے نام باقی رہا۔

    اس دوران ایسٹ انڈیا کمپنی نہایت حکمت سے ہندوستانی عوام کو باور کراتی رہی کہ خلقت خدا کی، ملک شہنشاہ کا اور حکومت کمپنی بہادر کی۔ یہ نعرہ انگریزوں نے اس لیے ایجاد کیا تھا کہ ہندوستانی عوام کیا ہندو، کیا مسلمان کی وفاداریاں مغل سلطنت سے اس درجہ مضبوطی سے وابستہ ہوچکی تھیں کہ وہ مغل حاکم کے علاوہ کسی اور کی بادشاہت کا تصور کر نہیں سکتے تھے۔

    1857ء کی جنگِ آزادی میں انگریزوں نے نہ صرف اپنی عسکری برتری کو منوالیا بلکہ سیاسی برتری بھی تسلیم کروا لی اور تاجِ برطانیہ نے کمپنی کو بے دخل کر کے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کو معزول کرکے ان پر بغاوت کا الزام لگا کر جلا وطن کر دیا۔ اب انگریزوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے نعرہ کو بدل دیا اور کہنے لگے: "ملک ملک معظم کا اور حکم انگریزوں کا۔”

    (ماخوذ: ہندوستان کی جنگِ آزادی میں مسلمانوں کا حصّہ، مؤلفہ ڈاکٹر محمد مظفر الدّین فاروقی)

  • ایشیا کے فاتح اعظم نادر شاہ کا 272 واں یومِ وفات

    ایشیا کے فاتح اعظم نادر شاہ کا 272 واں یومِ وفات

    آج ایشیا کے نپولین نادرشاہ افشار کا یومِ وفات ہے، مغل سلطنت ، روس ، افغانیہ اور عثمانی ترکوں کو مسلسل شکست دینے والا یہ جرنیل اپنے ہی محافظ دستے کے سپاہیوں کے ہاتھوں آج کے دن یعنی 19 جون 1747 کو قتل ہوا تھا۔

    نادر شاہ کا ابتدائی نام نادر قلی تھا ، وہ خراسان میں درہ غاز کے مقام پر ایک خانہ بدوش گھرانے میں 22 اکتوبر 1688ء کو پیدا ہوا۔ جب جوان ہوا تو مختلف سرداروں سے وابستہ ہوکر کئی جنگوں میں بہادری اور شجاعت کا مظاہرہ کیا اور بالآخر طہماسپ دوم کی ملازمت کرلی۔ نادر نے طہماسپ دوم کے ساتھ مل کر مشہد اور ہرات کو مقامی سرداروں سے چھین لیا۔ جب افغان سردار میر اشرف نے خراسان پر قبضہ کرنے کے لیے حملہ کیا تو نادر نے مہن دوست کے مقام پر 1729ء میں افغانوں کو شکست فاش دی اور اس کے بعد اصفہان اور پھر شیراز پر قبضہ کرکے افغانوں کو ایران سے نکال باہر کیا۔

    افغانوں کے مقابلے میں نادر کی ان کامیابیوں کو دیکھ کر روس نے 1732ء میں گیلان اور ماژندران کے صوبے ایران کو واپس کردیے۔ اسی سال طہماسپ نے عثمانی ترکوں سے صلح کرلی جس کے تحت ترکوں نے تبریز، ہمدان اور لورستان کے صوبے خالی کردیے لیکن گرجستان اور آرمینیا اپنے قبضے میں رکھے۔ نادر نے اس صلاح نامے کو مسترد کر دیا اور اصفہان پہنچ کر 1732ء میں طہماسپ کو معزول کرکے اس کے لڑکے عباس سوم کو تخت پر بٹھادیا۔

    نادر اگرچہ 4 سال بعد تخت نشین ہوا لیکن اس سال سے وہ حقیقی طور پر خود مختار ہوچکا تھا۔ اس کے بعد نادر عثمانی سلطنت کے علاقوں پر حملہ آور ہوا۔ تین سال تک ترکوں سے لڑائی ہوتی رہی۔ جولائی 1733ء میں بغداد کے قریب ایک لڑائی میں نادر کو شکست ہوئی اور وہ زخمی بھی ہو گیا لیکن اسی سال کرکوک کے مقام پر اور 1735ء میں یریوان کے پاس باغ وند کے مقام پر نادر نے ترکوں کو فیصلہ کن شکستیں دیں اور گرجستان اور آرمینیا پر قبضہ کر لیا۔

    باغ وند کی عظیم کامیابی کے بعد نادر نے روس سے باکو اور داغستان کے صوبے خالی کرنے کا مطالبہ کیا اور دھمکی دی کہ اگر یہ صوبے خالی نہ کیے تو وہ عثمانی ترکوں سے مل کر روس کے خلاف کارروائی کرے گا۔ روس نے نادر کی اس دھمکی پر بغیر کسی جنگ کے باکو اور داغستان کو خالی کر دیا۔

    نادر شاہ نے عباس سوم کو معزول کرکے 1736ء میں اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ 17 اکتوبر 1736ء کو ایران اور ترکی کے درمیان میں صلح نامے پر باضابطہ دستخط ہو گئے۔ ترکوں نے گرجستان اور آرمینیا پر ایران کا قبضہ تسلیم کر لیا اور دونوں سلطنتوں کی حدود وہی قرار پائیں جو سلطان مراد چہارم کے زمانے میں مقرر ہوئی تھیں۔

    اب نادر نے 80 ہزار فوج کے ساتھ قندھار کا رخ کیا جو ابھی تک افغانوں کے قبضے میں تھا۔ 9 ماہ کے طویل محاصرے کے بعد 1738ء میں قندھار فتح کر لیا گیا۔ افغانوں کی ایک تعداد نے کابل میں میں پناہ حاصل کرلی جو مغلیہ سلطنت کا حصہ تھا۔ نادر نے ان پناہ گزینوں کی واپسی کا مطالبہ کیا لیکن جب اس کو کوئی جواب نہیں ملا تو نادر نے کابل بھی فتح کر لیا۔ مغلیہ سلطنت کا کھوکھلا پن ظاہر ہوچکا تھا اس لیے نادر نے اب دہلی کا رخ کیا۔ وہ درۂ خیبر کے راستے برصغیر کی حدود میں داخل ہوا اور پشاور اور لاہور کو فتح کرتا ہوا کرنال کے مقام تک پہنچ گیا جو دہلی سے صرف 70 میل شمال میں تھا۔

    نادر کے توپ خانے نے ہزاروں ہندوستانی فوج بھون ڈالے لیکن ایرانی فوج کے گنتی کے چند سپاہی ہلاک ہوئے۔ نادر مارچ 1739ء میں فاتحانہ انداز میں دہلی میں داخل ہوا اور دو ماہ تک دہلی میں قیام پزیر رہا۔

    ہنوز دلی دور است؟؟

    نادر شاہ دہلی کو چھوڑ کر اور بادشاہت محمد شاہ کو واپس کرکے واپس تو چلا گیا لیکن 200 سال کی جمع شدہ شاہی محل کی دولت اور شاہجہاں کا مشہور تخت طاؤس بشمول کوہ نور ہیرا اپنے ساتھ ایران لے گیا۔ اس کی واپسی سندھ کے راستے ہوئی۔ دریائے سندھ تک کا سارا علاقہ اس نے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ ایران پہنچنے سے پہلے نادر شاہ نے 1740ء میں بخارا اور خیوہ پر بھی قبضہ کر لیا۔ دونوں ریاستوں نے ایران کی بالادستی قبول کرلی۔

    اب سلطنت ایران پورے عروج پر پہنچ چکی تھی اس کی حدود شاہ عباس کے زمانے سے بھی زیادہ وسیع ہو گئی تھیں۔ 1741ء اور 1743ء کے درمیان میں نادر شاہ داغستان کے پہاڑوں میں بغاوت کچلنے میں مصروف رہا لیکن اس میں اس کو ناکامی ہوئی۔ 1745ء میں ایک لاکھ 40 ہزار سپاہیوں پر مشتمل عثمانی ترکوں کی ایک فوج کو پھر شکست دی جو اس کی آخری شاندار فتح تھی۔

    کہا جاتا ہے کہ داغستان کی شورش کو دبانے میں ناکامی نے نادر کو چڑچڑا بنادیا تھا۔ اب وہ شکی اور بد مزاج ہو گیا تھا اور اپنے لائق بیٹے اور ولی عہد رضا قلی کو محض اس بے بنیاد شک کی بنیاد پر کہ وہ باپ کو تخت سے اتارنا چاہتا ہے، اندھا کر دیا۔ اس کے بعد ایران میں جگہ جگہ بغاوتیں پھوٹنے لگیں۔

    ان بغاوتوں کو جب نادر نے سختی سے کچلا تو اس کی مخالفت عام ہو گئی۔ شیعہ خاص طور پر اس کے مخالف ہو گئے۔ آخر کار19 جون 1747ء کو اس کے محافظ دستے کے سپاہیوں نے ایک رات اس کے خیمے میں داخل ہوکر اسے سوتے میں قتل کر دیا۔

  • ہنوز دلی دور است؟؟ ۔۔ آج نادرشاہ نے دہلی فتح کیا تھا

    ہنوز دلی دور است؟؟ ۔۔ آج نادرشاہ نے دہلی فتح کیا تھا

    دہلی وہ بد نصیب شہر ہے جو اپنی تما م تر تاریخ میں بیرونی حملہ آوروں کی پہلی ترجیح رہا ، خصوصاً وسط ایشیائی ممالک ہمیشہ سے اپنے خزانے دہلی کو لوٹ کر بھرتے رہے ہیں۔

    آج ہی کے دن یعنی 22 مارچ 1739 کو ایران کے شہنشاہ نادر شاہ افشار نے مغل فرماروا محمد شاہ رنگیلا کو شکست دے کر دہلی میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوا تھا۔یقیناً آج کا دن برصغیر کی تاریخ کا ایک المنا ک دن تھا۔

    نادر شاہ افشار ، ایران میں افشار خاندان کا بانی حاکم تھا، اس نے آٹھ مارچ 1736 کو سلطنت کی باگ ڈور سنبھالی۔ا پنی حکومت کے انصرام کے لیے اسے ایک بڑی رقم کی ضرورت تھی اور ان دنوں تخت دہلی دولت سے مالامال لیکن عسکری لحاظ سے انتہائی کمزور تھا۔ اورنگزیب عالمگیر کے دور میں جس زوال کی بنیاد رکھی گئی تھی ، وہ اب سامنے آچکا تھا۔

    اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے نادر شاہ نے ہندوستان کے دروازے یعنی درہ خیبر کے ذریعے مئی 1738 میں شمال مشرقی سرحدی صوبوں پر حملے شروع کیے اور اور مارچ 1739 میں وہ دہلی سے سو کوس دور کرنال کے مقام پر مغل شہنشاہ سے حتمی جنگ کے لیے خیمہ زن ہوا۔

    دوسری جانب اپنے عروج کے دنوں میں اکبر، شاہجہاں اور اورنگزیب جیسے عظیم جرنیل حاکموں کے ہاتھ میں رہنے والی مغل سلطنت اب اورنگ زیب کے پرپوتے محمد شاہ رنگیلا کے ہاتھ میں تھی۔ وہ 1702 میں میں پیدا ہوئے تھے، ان کا پیدائشی نام روشن اختر تھا۔1719 میں سید برادران نے محض 17 برس کی عمر میں تخت پر بٹھا کر ابوالفتح نصیر الدین روشن اختر محمد شاہ کا خطاب دیا، شاعری سے رغبت ہونے کے سبب وہ’ سدارنگیلا‘ تھا۔ ان کی زندگی میں ہی عوام اور خواص میں ان کی شہرت ’ محمد شاہ رنگیلا‘ کےنام سے ہوگئی تھی اور آج بھی انہیں اسی نام سے پکارا جاتا ہے۔

    محمد شاہ نے نادر شاہ کے حملے تک کوئی جنگ نہیں لڑی تھی ، ان کا سارا وقت درباری گویوں، مراثیوں ، رقاصاؤں، قصہ گوئی کرنے والوں اور دیگر فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے فنکاروں کی صحبت میں گزرتا تھا۔ تیموری خون جو کبھی ہندوستان کے طول وعرض میں تیغ کے جوہر دکھایا کرتا تھا اب شاعری کی بندشوں اور مصوری کے خطوں میں الجھا ہوا تھا۔ کاروبار سلطنت سارا امرا کے ہاتھ میں تھا اور وہ نادر شاہ کے خطرے کا ادراک کرکے محمد شاہ کو مسلسل اس کے بارے میں اطلاع دے رہے تھے، بجائے اس کے کہ دہلی سے باہر نکل کر نادر شاہ کو راستے میں کہیں روکا جاتا۔۔ محمد شاہ نے ایک ہی گردان لگائے رکھی کہ ۔۔ ’’ہنوز دلی دور است‘۔ نتیجہ یہ نکلا کہ نادرشاہ کرنال تک پہنچ گیا۔

    چارو ناچار محمد شاہ رنگیلا کو جنگ کے لیے نکلنا پڑا ، ان کے لشکر میں ایک لاکھ سپاہی اور اس سےزیادہ تعدا میں گویے ، مراثی ، مالشیے اور اسی نوعیت کے دیگر سول افراد موجود تھے۔ سپاہیوں نے بھی طویل عرصے سے کوئی جنگ نہیں دیکھی تھی اور ان کی تیغیں زنگ کھا چکی تھیں۔ دوسری جانب نادر شاہ کے ساتھ 55 ہزار ایسے لڑاکے تھے جو ایران سے دہلی تک جنگ کی بھٹی میں تپ کر کندن بن چکے تھے۔ تین ہی گھنٹے میں جنگ کا فیصلہ ہوگیا اور نادر شاہ دہلی میں ایک فاتح کی حیثیت سے داخل ہوا، پیچھے محمد شاہ رنگیلا قیدی بنے کھڑے تھے ۔۔۔ صد حیف کے چند ہی گھنٹوں میں مغل تاجدار کا یہ حال ہو چکا تھا۔

    نادر شاہ نے لگ بھگ پونے دو مہینے قیام کیا ۔۔۔ اس دوران افواہ پھیل گئی کہ نادر شاہ قتل ہوگیا تو دہلی کے عوام نے نادر شاہی سپاہیوں پر حملے شروع کردیے۔ جس کے بعد وہ قتا ل ہوا کہ دہلی والوں نے صدیوں سے ایسا قتال نہ دیکھا تھا۔ گلیاں خون سے بھر گئیں، ہزاروں عورتوں کی عصمت دری کی گئی۔ نجانے کتنی ہی خواتین نے اپنے آنگن کے کنووں میں کود کر اپنی جان دے دی، یہاں تک کہ محمد شاہ رنگیلا کا وزیر نظام الملک قتال میں مشغول نادر شاہ کے سامنے اس حال میں آیا کہ نہ سر پر پگ تھی اور نہ ہی پیروں نعلین۔اسی حال میں اس نے خسرو کا شعر پڑھا:

    دگر نمانده کسی تا بہ تیغ ناز کشی … مگر کہ زنده کنی مرده را و باز کشی

    .(اور کوئی نہیں بچا جسے تو اپنی تیغِ ناز سے قتل کرے ۔۔۔ سوائے اس کے کہ مردوں کو زندہ کرے اور دوبارہ قتل کرے)

    اس کےبعد نادر شاہ نے قتال سے ہاتھ روکا لیکن لوٹ مار کا بازار گرم کردیا۔ دہلی کے کسی گھر میں کوئی قیمتی شے نہ بچی، شاہی محل کا خزانہ جسے بابر سے لے کر اورنگ زیب تک کے زور آور مغل حکمرانوں نے بھرا تھا لوٹ لیا گیا۔ محل میں کوئی قیمتی شے نہ بچی۔ کوہ نور نام کا مشہور زمانہ ہیرا مغل شہنشاہ نے اپنی پگڑی میں چھپا رکھا تھا لیکن ایک طوائف نے اس کی مخبری کردی اور نادر شاہ نے جاتے وقت اپنی پگڑی بدل کر اسے بھی ہتھیالیا۔ اس کے بعد یہ بد نصیب ہیرا کبھی دہلی کی ملکیت نہ بن سکا، اور کئی ہاتھوں سے ہوتا ہوا اب ملکہ برطانیہ کےتاج کا حصہ ہے۔

    تاریخ دانوں کے محتاط اندازےکے مطابق نادرشاہ اس زمانے میں یہاں سے جو دولت لوٹ کر لے گیا تھا اس کی مالیت 156 ارب روپے تھی ، حد یہ ہے کہ ایران واپسی پر نادر شاہ نے تین سال تک کے لیے اپنے عوام پر ٹیکس معاف کردیا تھا۔ اس واقعے کو معلوم تاریخ کی سب سے بڑی مسلح ڈکیتی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

    اس ساری روداد سے ہمیں لگتا ہے کہ محمد شاہ ایک انتہائی ناکارہ بادشاہ تھا، لیکن ایسابھی نہیں ہے۔ عسکری میدان میں یقیناً اس کی صلاحیتیں نا ہونے کےبرابر تھیں ۔ لیکن اس نے تخت سنبھالتے ہی بادشاہ گر سید برادران سے چھٹکارہ پا کر ایک خود مختار بادشاہ کے طور پر حکومت شروع کی۔ اس کے زمانے میں مرہٹھوں کے ساتھ ایک طویل جنگ جاری رہی، دکن اور مالوہ کے حکام نے خود مختاری کا سفر شروع کیا اور نادر شاہ کے حملے نے اس کی سلطنت کی اینٹ سے اینٹ بجادی ۔۔ اس کے باوجود بھی وہ سلطنت پر منظم کنٹرول برقرار رکھنے میں کامیاب رہا اور مغل سلطنت ایک حد سے زیادہ شکست و ریخت کا شکار نہیں ہوئی۔ محمد شاہ نے 28 سال 212 دن حکومت کی ۔