Tag: مغل شہزادے

  • تاج محل ہوٹل والا قسمت بیگ

    بمبئی کے تاج محل ہوٹل میں مہاراجہ بھاؤ نگر ٹھہرے ہوئے تھے۔ برسات کا موسم تھا۔ سمندر میں صبح شام طوفان برپا رہتا تھا اور پانی کی آوازوں سے مسافروں کی بات سننی بھی دشوار تھی۔

    تاج محل ہوٹل میں ایک خانساماں ستّر اسّی برس کی عمر کا نوکر تھا، جو اپنے کام میں بہت ہوشیار اور تجربہ کارمانا جاتا تھا۔ ہوٹل والے اپنے بڑھیا مہمانوں کی خاطر مدارات کے لیے اسی خانساماں کو مقرر کرتے تھے۔

    اس خانساماں کا نام قسمت بیگ تھا۔ اس کی دیانت داری بھی شہرہ آفاق تھی۔ جب سے ہوٹل میں نوکر ہوا تھا، بارہا ہوٹل کے منیجر کو اس کی امانت و دیانت کے تجربے ہوئے تھے اور وہ ہوٹل کے سب نوکروں سے زیادہ اس خانساماں پر اعتماد کرتا تھا۔ ایک دن صبح کے وقت مہاراجہ بھاؤ نگر نے پلنگ پر لیٹے لیٹے قسمت بیگ سے کہا، ’’میں نے بمبئی کے چند مہمانوں کو لنچ کی دعوت دی ہے۔ منیجر سے کہہ دینا کہ دس مہمانوں کا انتظام کر دے۔‘‘

    سمندر کے پانی کا غل شور، برسات کا زمانہ، مہاراجہ بھاؤ نگر کی دھیمی آواز اور بہرہ خانساماں۔ یہ حکم کیونکر اس کے کانوں تک پہنچتا، مگر قسمت بیگ کی تمیز داری کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنے بہرے پن کو ظاہر نہ ہونے دیتا تھا۔ ہونٹوں کی حرکت سے مطلب سمجھ لیتا تھا۔ بہرے آدمیوں کی طرح کان جھکا کر بات نہ سنتا تھا۔ آج ایسے اسباب جمع ہوئے کہ قسمت بیگ مہاراجہ کے حکم کو نہ سمجھا اور اس نے ذرا پلنگ کے قریب آکر نہایت تذبذب اور ادب کے ساتھ ہاتھ جوڑ کر سوال کیا کہ’’وہ جو ارشاد ہوا ہے اس کی تعمیل کی جائے گی، لیکن اگر تکلیف نہ ہو تو تھوڑی سی تفصیل اور فرما دی جائے۔‘‘

    مہاراجہ بھاؤ نگر بالکل نہیں سمجھے کہ خانساماں نے ان کی بات نہیں سنی تھی اور انہوں نے خانساماں سے دوبارہ کہا کہ ’’جن دس آدمیوں کو بلایا ہے وہ اعلیٰ درجہ کے لوگ ہیں۔ لنچ کا اہتمام اعلیٰ قسم کا ہونا چاہیے۔‘‘ قسمت بیگ نے بات سمجھ لی اور ادب سے کہا، ’’جو حکم، فرمان کی پوری تعمیل کی جائے گی۔‘‘ اور یہ کہہ کر بڑی تمیز داری کے ساتھ پچھلے قدم چل کر سامنے سے ہٹ گیا۔

    مہاراجہ بھاؤ نگر دیر تک سوچتے رہے کہ انگریزی ہوٹلوں میں سب خانساماں انگریزی ادب آداب استعمال کرتے ہیں۔ یہ بڈھا کون ہے جو پرانے زمانے کے مشرقی ادب آداب کو استعمال کرتا ہے۔ اس کا حال معلوم کرنا چاہیے۔ انہوں نے فوراً بٹن دبایا اور کمرے کا خدمت گار حاضر ہوگیا۔ مہاراجہ نے حکم دیا، ’’آج جب ہم لنچ سے فارغ ہوں تو ملاقات کے کمرے میں قسمت بیگ خانساماں کو بلایا جائے۔ ہم اس سے کچھ پرائیویٹ باتیں کرنی چاہتے ہیں۔‘‘ خدمت گارنے کہا، ’’حضور وہ بہت بد مزاج آدمی ہے۔ صاحب لوگوں سے ہمیشہ لڑتا رہتا ہے۔ آپ اس سے پر ائیویٹ بات کریں گے تو وہ آپ سے بھی گستاخی سے پیش آئے گا۔ وہ نوکری کے وقت تو بہت اچھا ہے اور صاحب لوگ اس کو پسند کرتے ہیں۔ لیکن پرائیویٹ وقت میں وہ بہت بدمزاج ہو جاتا ہے۔‘‘

    مہاراجہ نے کہا، ’’ایسا کیوں ہے؟‘‘ خدمت گار نے جوا ب دیا، ’’حضور وہ کہتا ہے میں ہندوستان کا بادشاہ ہوں۔‘‘ یہ سن کر مہاراجہ کو بہت تعجب ہوا اور وہ مسکرا کر خاموش ہوگئے اور کچھ دیر کے بعد انہوں نے خدمت گار سے کہا، ’’کچھ پروا نہیں۔ قسمت بیگ سے کہہ دو کہ وہ لنچ کے بعد پرائیویٹ باتوں کے لیے ہمارے پاس آئے۔‘‘ خدمت گار نے انگریزی سلام کیا اور انگریزی طریقے سے باہر چلا گیا۔

    لنچ کے بعد
    مہاراجہ بھاؤ نگر اور ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ اور ’’بمبئی کرانیکل‘‘ اور ’’سانجھہ ور تمان‘‘ کے ایڈیٹر اور چند ہندو اور پارسی عمائد بمبئی دوپہر کا کھانا کھا کر باتوں کے کمرے میں آئے تو مہاراج نے قسمت بیگ کو بلایا۔ قسمت بیگ نہایت ادب سے حاضر ہوا اور اس نے ہندوستانی طریقے کے موافق مہاراج کو تین فرشی سلام کیے اور ہاتھ باندھ کر ادب سے کھڑا ہو گیا۔ مہاراج نے کہا، ’’قسمت بیگ! تم کون ہو؟‘‘ قسمت بیگ دانستہ مہاراج کی کرسی کے قریب کھڑا ہوا تھا تاکہ اس کے بہرے پن کا عیب چھپا رہے اور مہاراج کی بات سن سکے۔

    مہاراج کا سوال سن کر قسمت بیگ نے کہا، ’’حضور گستاخی معاف، اس کا جواب تو آپ کو بھی معلوم نہیں ہے کہ ہم سب کون ہیں اور کیوں اس دنیا میں پیدا کیے گئے ہیں۔ ہم کو بھوک، پیاس، نیند، بچپن، جوانی، بڑھاپا، تندرستی، بیماری کے انقلابات میں کس غرض سے مبتلا کیا گیا ہے۔‘‘ قسمت بیگ کی یہ عجیب تقریر سن کر سب حاضر ین مبہوت ہوگئے اور حیرت سے دیکھنے لگے کہ ایک خانساماں یہ کیسی فلسفیانہ باتیں کر رہا ہے۔

    مہاراج نے مسکرا کر کہا، ’’بے شک ہم کو اس سوال کا جواب معلوم نہیں ہے، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ تم نے زندگی کی ان مشکلات کو سمجھنے کی کوشش کی ہے کیونکہ تم نے ایک سانس میں سب بڑے بڑے انقلابات کا ذکر کر دیا۔ اس واسطے میرا خیال ہے کہ تم میرے سوال کا جواب دے سکتے ہو۔‘‘

    قسمت بیگ نے کہا، ’’حضور میں ایک آدمی ہوں۔ نسل کے لحاظ سے تیموری مغل ہوں۔ پیشے کے لحاظ سے تاج محل ہوٹل کا خانساماں ہوں۔ عمر کے لحاظ سے بڈھا ہوں۔ طبیعت کے اعتبار سے کبھی بچہ ہوتا ہوں اور کبھی جوان۔ اخلاقی حیثیت میری ایک کامل انسان کی ہے۔ جھوٹ نہیں بولتا۔ چوری نہیں کرتا۔ ظلم اور بے رحمی سے بچتا ہوں۔ خدمتِ خلق کو اپنا مقصدِ زندگی مانتا ہوں۔ اگرچہ گدا ہوں لیکن دل کے تخت پر شہنشاہ ہوں۔ کچھ ارشاد ہو تو اس کا بھی جواب دوں۔‘‘

    قسمت بیگ کی مؤثر اور برجستہ تقریر کا ایک دوسرا اثر پیدا ہوا اور مہاراج اپنے مہمانوں سمیت پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہوگئے اور بے اختیار مہاراج کی زبان سے نکلا، ’’کیا تم تیموری شہزادے ہو؟‘‘ قسمت بیگ کو جوش آگیا اور اس نے کہا، ’’شاہ زادہ نہیں ہوں آہ زادہ ہوں۔ دنیا کی مصیبتوں کی سب زدیں میں نے اٹھائی ہیں۔ تیموری خاندان تو اب مٹ چکا ہے، جس نے باوجود انسان ہونے کے دوسرے انسانوں کو غلام بنانے کی کوشش کی تھی اور غلام بنا لیا تھا۔ آپ نہیں تو آپ کے باپ دادا بھی اس کے غلام تھے۔ یہ سوال فضول ہے اور آپ کے لیے تکلیف دہ ہے اور میں اس سوال کی کشمکش میں پڑنا اپنے دل کے لیے ایک آری سمجھتا ہوں جو میرے دل کو چیر رہی ہے۔‘‘

    یہ فقرہ سن کر مہاراج نے سر جھکا لیا اور سب لوگ خاموش ہو کر زمین کی طرف دیکھنے لگے۔ آخر کچھ دیر کے بعد خود قسمت بیگ نے کہا، ’’انسان کو اپنی موجودہ حیثیت دیکھنی چاہیے۔ آج چونکہ میں ایک خانساماں ہوں، اس لیے ارشاد کی تعمیل کرتا ہوں۔ میں سمجھ گیا کہ حضور میری زندگی کی تفصیل معلوم کرنی چاہتے ہیں۔ میں ان لوگوں میں نہیں ہوں جو ماضی پر فخر کریں یا افسوس کریں اور میں ان لوگوں میں بھی نہیں ہوں جو مستقبل کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہتے ہیں۔ حضور میں ماضی کا مالک ہوں۔ حال کا مالک ہوں اور مستقبل کا بھی مالک ہوں۔ یہ آسمان بھی میرا ہے۔ یہ زمین بھی میری ہے۔ یہ سمندر بھی میرا ہے اور آپ سب لوگ جو کرسیوں پر میرے سامنے بیٹھے ہیں، آپ بھی میرے ہیں اور میں خود جو آپ کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا ہوں، محسوس کرتا ہوں کہ یہ وجود بھی میرا ہے۔

    دنیا کی کوئی چیز بھی میرے سوا اور کسی کی نہیں ہے۔ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ دوسرا کوئی موجود نہیں ہے۔ میں ہی ہوں، میں ہی تھا۔ میں ہی آخر تک رہوں گا۔ یہ سمندر ابل رہا ہے۔ بل کھا رہا ہے۔ جوش میں آرہا ہے۔ برسات ختم ہوگی، سردی آئے گی، ٹھنڈا ہو جائے گا۔ تالاب بن جائے گا۔ اس کے اندر طوفان بھی میں ہی ہوں اور اس کی ٹھنڈک بھی میں ہی ہوں۔‘‘

    قسمت بیگ کی مجذوبانہ تقریر سنتے سنتے مہاراج کو ہنسی آگئی، مگر انہوں نے ہنسی کوضبط کیا اور کہا، ’’شہزادہ صاحب! کیا آپ میرا حکم مانیں گے اور سامنے کی کرسی پر بیٹھنے کی تکلیف گوارا کریں گے۔‘‘ قسمت بیگ نے کہا، ’’ہرگز نہیں، کالج میں استاد کھڑا رہتا ہے اور شاگرد بیٹھے رہتے ہیں۔ تم شاگرد ہو اور میں استاد ہوں۔ تم سب انجان ہو اور میں دانا ہوں۔ تم سب بے خبر ہو اور میں خبردار ہوں۔ تم سب غافل ہو اور میں ہوشیار ہوں۔ تم سب ادنیٰ ہو اور میں اعلیٰ ہوں۔ تم سب بڑے ہو اور میں چھوٹا ہوں۔ تم سب امیر ہو اور میں غریب ہوں۔ تم سب فانی ہو اور میں باقی ہوں۔ تم سب بلبلا ہو اور میں پانی ہوں۔ تم سب خاک ہو اور میں ہوا ہوں۔ تم سب ایندھن ہو اور میں آگ ہوں۔ تم سب تاریکی ہو اور میں روشنی ہوں۔‘‘

    یہ کہتے کہتے قسمت بیگ نے اپنی دونوں مونچھوں کو دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے پکڑا اور ان کو مروڑا اور اچھلنا شروع کیا۔ اچھلتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا، ’’میں ہوں میں۔ تم نہیں ہو۔ میں ہوں میں۔ میں ہوں میں۔ جو کچھ ہے، جو کچھ تھا، جو کچھ ہو۔ کچھ نہیں ہے۔ کچھ نہیں ہے۔ میں ہوں میں۔ میں ہوں میں۔ پھر سنو پھر کہوں۔ میں ہوں میں۔ میں ہوں میں۔‘‘

    مہاراج اور حاضرین کے جسموں پر رعشہ پڑ گیا اور ان سب پر ایک وجدانی کیفیت طاری ہوگئی۔ قسمت بیگ کی دیوانہ وار باتوں اور اچھل کود سے غیر معمولی اثر ہوا۔ کچھ دیر کے بعد قسمت بیگ، مہاراج کے قریب خاموش ہوکر کھڑا ہو گیا اور اس نے نہایت ناتواں آواز میں کہا، ’’حضور سواری چلی گئی۔ میں ایک مرکب تھا اور سوار میرا اور تھا۔ میں ایک ہوٹل تھا اور مہمان کوئی اور تھا۔ میں ایک بوتل تھا اور شراب کوئی اور تھی۔ اب سنیے مجھ بیمارلاچار خانساماں کی کہانی، سنیے،

    بہادر شاہ بادشاہ کا بیٹا ہوں۔ میری ماں لونڈی تھی اور بادشاہ کی معتوب تھی۔ جب غدر 1857ء کا انقلاب ہوا تو میری عمر دس سال کی تھی۔ بادشاہ نے گھبراہٹ کے وقت اپنے بیوی بچوں کا انتظام بہت ادھورا کیا تھا اور اس وقت میرا اور میری ماں کا شاید ان کو خیال بھی نہ آیا ہو گا کیونکہ میری ماں لال قلعہ کے باہر خاص بازار میں ایک مکان میں رہتی تھیں۔ مکان شاہی تھا۔ پہرے دار اور نوکر بھی بادشاہ کی طرف سے تھے۔ خرچ بھی ملتا تھا، مگر بادشا ہ میری پیدائش سے پہلے میری اماں سے خفا ہوگئے تھے اور انہوں نے کبھی میری صورت نہیں دیکھی، نہ میری اماں کو قلعہ میں بلایا۔

    جب دہلی کے سب باشندے بھاگے اور ولسن صاحب کمانڈر کشمیری دروازہ کے راستے شہر میں داخل ہوئے تو میری ماں نے مجھ کو اپنے ساتھ لیا اور پیدل گھر سے روانہ ہوئیں۔ نوکر پہلے ہی بھاگ گئے تھے۔ سواری کا کوئی انتظام نہ تھا۔ میری والدہ نے سو اشرفیاں اپنے ساتھ لیں اور کوئی سامان نہ لیا۔ دہلی سے نکل کر ہم دونوں قدم شریف کی درگاہ میں گئے جو دہلی کی فصیل سے چند فرلانگ کے فاصلے پر ہے۔ مگر یہ راستہ بھی ہم کو کئی کوس کا معلوم ہوا، کیونکہ نہ مجھے پیدل چلنے کی عادت تھی نہ میری ماں کو۔ مجھے یاد ہے دہلی کے باشندے ایسی گھبراہٹ میں جا رہے تھے، گویا قیامت قائم ہے اور سب نفسی نفسی کہتے ہوئے خدا کے پاس جا رہے ہیں۔ عورتیں کپڑوں کی بقچیاں سروں پر رکھے ہوئے، چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہاتھ پکڑے جا رہی تھیں۔ بچے رو رہے تھے۔ وہ ان کو کھینچتی تھیں اور بچے چل نہ سکتے تھے۔ مردوں کا بھی یہی حال تھا۔ کوئی کسی کا پرسان حال نہ تھا۔ سب اپنی مصیبت میں مبتلا تھے۔

    قدم شریف میں جاکر ہم ایک ٹوٹے مکان میں بیٹھ گئے۔ برسات کا موسم تھا۔ رات ہوئی۔ مجھے بھوک لگی مگر وہاں کچھ کھانے کو نہ تھا۔ میری ماں نے اپنی گود میں بٹھا لیا اور تسلی دلاسے کی باتیں کرنے لگیں۔ شہر سے بندوقوں کی آوازیں اور شہر والوں کا غل شور سن سن کر میں گھبرایا جاتا تھا اور میری والدہ بھی سہمی بیٹھی تھیں، یہاں تک کہ اسی بھوک کی حالت میں سو گیا۔

    صبح ہندوستانی فوج کے سپاہی قدم شریف میں آئے اور انہوں نے لوگوں کو پکڑنا شرو ع کیا۔ میری ماں کو بھی گرفتار کر لیا اور ایک پوربیہ ہندو ان کو اپنے ساتھ پہاڑی پر لے گیا جو قدم شریف سے کئی میل دور تھی اورہم دونوں جب پہاڑی پر پہنچے تو ہمارے پاؤں خونم خون ہوگئے تھے۔ شام کو ہمیں انگریز افسر کے سامنے پیش کیا گیا اور اس نے میری ماں سے کچھ سوالات کیے۔ مجھے یاد نہیں انگریز نے کیا کہا اور میری ماں نے کیا جواب دیا۔ اتنا یاد ہے کہ انگریز کو میری ماں نے بتا دیا کہ وہ بادشاہ کی لونڈی ہے اور بچہ بادشاہ کا بیٹا ہے اور انگریز نے حکم دیا کہ ان دونوں کو آرام سے رکھا جائے۔ آرام یہ تھا کہ ہم کو ایک چھوٹا سا خیمہ دے دیا گیا جس میں ہم رات دن پڑے رہتے تھے اور دو وقت کھانا ہم کو مل جاتا تھا۔

    جب دہلی میں انگریزی انتظام ہوگیا تو ہم دونوں کو چاندنی محل میں، جو جامع مسجد کے قریب ایک محلہ تھا، بھجوا دیا گیا، جہاں ہمارے خاندان کے اور لوگ بھی آباد ہوگئے تھے۔ میری والدہ کے نام دس روپے ماہوار گزارے کے مقرر کر دیے گئے اور میں نے اپنی والدہ کے ساتھ بچپن سے جوانی تک جیسی جیسی مصیبتیں اٹھائیں، بس میرا ہی دل جانتا ہے۔ چاند نی محل کے قریب ایک خانقاہ تھی اور میں وہاں اکثر جایا کرتا تھا۔ خانقاہ میں ایک درویش رہتے تھے۔ ان کی باتیں سنتا تھا اور ان کا مجھ پر بہت اثر ہوتا تھا۔ انہی کی باتوں سے مجھے اپنی اور کائنات کی ہر چیز کی حقیقت کا علم ہوا اور اس وقت جو کچھ میں عرض کر رہا تھا، یہ بھی انہیں کی صحبت کا اثر ہے۔

    والدہ نے خاندان ہی کے اندر میری شادی بھی کر دی۔ اولاد بھی ہوئی مگر وہ زندہ نہیں رہی۔ میں نے دہلی میں ایک خانساماں کی شاگردی اختیار کی اور یہ کام سیکھا جواب کر رہا ہوں اور جب میری والدہ اور بیوی کا انتقال ہو گیا تو میں دہلی سے بمبئی چلا آیا اور یہاں مختلف لوگوں کی نوکریا ں کیں۔ ہوٹلوں میں بھی رہا اور اب مدت سے تاج محل ہوٹل میں ہوں۔ بچپن سے میرے کان میں کچھ خرابی ہوگئی جو آج تک باقی ہے، مگر میں کوشش کرتا ہوں کہ کوئی میرے بہرے پن کو سمجھ نہ سکے کیونکہ مجھے اس عیب سے بہت شرم آتی ہے۔

    خانساماں کی یہ بات سن کر مہاراج نے ایک ٹھنڈا سانس لیا اور کہا، ’’قسمت بیگ نام کس نے رکھا؟‘‘ خانساماں نے کہا، ’’میری قسمت نے۔ ورنہ میری ماں نے تو میرا نام تیمور شاہ رکھا تھا، مگر جب میں دہلی سے بمبئی آیا تو ہر شخص کو میں نے اپنا نام قسمت بیگ بتایا۔‘‘ مہاراج نے کہا چلو میں تم کو بھاؤ نگر لے چلوں۔ جو تنخواہ یہاں ملتی ہے اس سے دگنی تنخواہ دوں گا اور تمہاری باتیں سنا کروں گا۔ کوئی کام نہیں لوں گا۔‘‘

    یہ بات سن کر قسمت بیگ نے جھک کر تین فرشی سلام مہاراج کو کیے۔ پھر کہا، ’’یہ عین بندہ نوازی ہے، لیکن جس نے اس دنیا کے انقلاب کو سمجھ لیا وہ قناعت کے دروازے پر بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ ایک دروازے کو پکڑ اور مضبوط پکڑ، دربدر بھٹکتا نہ پھر۔ اس ہوٹل میں میری عزت بھی ہے اور میری مزاج داری بھی ہے۔ صاحب لوگ بھی میری بد مزاجیوں کو برداشت کر لیتے ہیں۔ ضرورت کے موافق ہر چیز موجود ہے۔ آپ ہی فرمایئے میں آپ کے ارشاد کی تعمیل کیوں کروں اور ایک جگہ کو چھوڑ کر جہاں کوئی تکلیف نہیں ہے، آپ کے ہاں کیوں آؤں۔‘‘

    مہاراج نے آفریں کہی اور ایک ہزار روپے کا چیک لکھ کر دیا۔ کہا کہ اس کو اپنے خرچ میں لانا، آئندہ بھی ہر سال ہوٹل کے منیجر کی معرفت ہزار روپے تم کو مل جایا کریں گے۔ قسمت بیگ نے پھر سلام کیا اور چیک لے کر رونے لگا اور پچھلے قدم ہٹ کر باہر چلا آیا۔

    معلوم نہیں اس کو رونا کیوں آیا اور اسے کیا بات یاد آگئی۔

    (یہ تحریر خواجہ حسن نظامی کی غدر اور شاہی خاندان سے متعلق کتاب میں‌ خانساماں شہزادہ کے عنوان سے شامل ہے)

  • ایک معمولی سا آدمی!

    ایک معمولی سا آدمی!

    بچپن میں مجھ کو کہانیاں سننے کا بہت شوق تھا۔ جب تک کوئی کہانی نہ کہتا مجھے نیند نہ آتی۔ ایک دن مجھے بخار ہوگیا۔ دوپہر سے جو چڑھا رات ہوگئی۔

    امّاں میرے سرہانے بیٹھی سَر دبا رہی تھیں۔ نانی مغلانی جن کا گھر ہماری دیوار سے لگا ہوا تھا، اتنے میں میری خبر سن کر آگئیں اور میرے تلوےسہلانے لگیں۔ نانی مغلانی کی عمر اس وقت اسّی کے قریب ہوگی۔ بڑی ملنسار اور محبت کرنے والی۔ مجھ پر تو ان کی جان جاتی تھی۔ آج تک مجھے، ان کی صورت، ان کی محبت اور ان کی باتیں یاد ہیں۔ صورت ایسی تھی جیسے جنّت کی حوروں کی سنتے ہیں اور باتوں کی لذّت، اللہ بخشے یہ معلوم ہوتا تھا کہ شہد کے گھونٹ کانوں سے ہوکر دل میں اتر رہے ہیں۔ میں بخار میں کراہ رہا تھا اور وہ دونوں اس کوشش میں تھیں کہ کس طرح مجھے نیند آجائے۔

    سَر دبانے اور تلوے سہلانے سے جب میری آنکھ نہ لگی تو امّاں جان نے کہا، ’’میاں سوتے کیوں نہیں آنکھیں بند کرکے نیند کو بلاؤ تو۔ کہو تو نانی مغلانی تمہیں کوئی کہانی سنائیں؟‘‘ میں جلدی سے بولا ’’ہاں نانی سناؤ۔‘‘

    نانی مغلانی سنبھل کر بیٹھ گئیں اور کہنے لگیں۔ ’’بھئی پرستان کا قصہ نہیں اسی دلّی کا واقعہ ہے جب قلعہ آباد تھا اور بہادر شاہ تخت پر، اگلی باتیں تو کہاں رہی تھیں کہ شہزادوں، سلاطین زادوں کو تیر اندازی، تلواریں چلانی سکھائی جاتیں، ان کے کھیل تو یہ رہ گئے تھے کہ گھر میں اٹکن بٹکن کھیل رہے ہیں، پچیسی ہورہی ہے یا باہر نکلے
    تو مرغ بازی، پتنگ بازی ہونے لگی۔ بعض لاڈلے اور محل کے میت تو ایسے تھے کہ سترہ سترہ اٹھارہ اٹھارہ برس کی عمر ہوجاتی تھی مگر انّا منھ دھلاتی۔ کھلائی نوالے بنا بنا کر منھ میں دیتی۔

    ان ہی سلاطین زادوں میں ایک مرزا شبو بھی تھے۔ نام تو میں نہیں بتاؤں گی، خدا ان کی روح کو نہ شرمائے، بس مرزا شبو ہی سمجھ لو بڑے دیدارو، مگر ایسے بھولے کہ انّیس برس کی عمر میں شرم کا یہ حال تھا کہ محل کی ساری لڑکیاں ان سے مذاق کرتیں اور وہ آنکھ اٹھا کر نہ دیکھتے۔ اس شرم اور بھولے پن پر اللہ رکھے عاشق مزاج ایسے کہ آج کسی کی ہنسی پر فریفتہ ہوگئے تو کل کسی کے رونے پر لوٹ پوٹ۔ خدا کا کرنا ایسا ہوتا ہے کہ شہر میں ایک بڑی دھوم کی شادی ہوئی۔ قلعے کی ساری شہزادیاں اور شہر کے امیروں کی بیویاں، بہو، بیٹیاں اس میں شریک ہونے کو آئیں۔ دولھا، مرزا شبو کا لنگوٹیا یار تھا، لہٰذا وہ دولھا کے ساتھ ہاتھی پر سے اترے تو مرزا شبو بھی نیچے آئے۔ اتنے میں ایک پالکی کے کہاروں کا پاؤں رپٹا، پالکی کندھوں سے اتر گئی اور پالکی کا پردہ کھل کر، سواری کے کار چوبی دوپٹے کا پّلا نیچے لٹک گیا اور ساتھ ہی ایک مہندی لگا گورا گورا پاؤں نظر آیا۔ مرزا شبو نے ایک کہی نہ دو، خنجر کمر سے کھینچ لٹکتا ہوا پّلا کاٹ لیا کہ غیروں کی نظر نہ پڑے۔ انھیں پردے کا بڑا خیال تھا، پّلا تو کاٹنے کو انھوں نے کاٹ لیا مگر پلّے والی کے پاؤں پر عاشق ہوگئے اور یہ کیفیت ہوئی جیسے تیر لگا ہوا کبوتر تڑپنے لگے۔ ساتھ والے بہ مشکل گھر لائے۔ گھر آتے ہی منھ لپیٹ کر پڑ گئے۔

    زنانے سے مردانے تک عورتوں مردوں کا تانتا لگ گیا۔ جھاڑا پھونکیاں ہورہی ہیں، ملاّ سیانے بلائے جارہے ہیں، پوچھا جارہا ہے صاحبِ عالم منھ سے تو بولیں، بتاؤ تو کیا ہوا۔ تم تلوار باندھ کر گئے تھے، پھر بری نظر کا وار کس طرح ہوگیا۔ لیکن صاحبِ عالم جو پڑے ہیں تو منھ سے بولنا، سَر سے کھیلنا کیا، کروٹ تک نہیں لیتے۔

    قلعے کی سرکاروں میں ایسے ویسے چپڑ قناتیوں کا گزر تو تھا نہیں، کیسی ہی چھوٹی ڈیوڑھی سہی، جب کسی کو نوکر رکھتے تو اس کی سات پیڑھیوں کی تحقیقات کر لیتے، پھر شہزادوں اور سلاطین زادوں کے ساتھ رہنے والوں اور مصاحبوں کے لیے تو ایسی چھان بین ہوتی جیسے بیٹا یا بیٹی کا رشتہ طے ہو رہا ہے۔ اصلیوں، نجیبوں کے لڑکے تلاش کیے جاتے جو صورت شکل کے بھی اچھے ہوتے، کوئی خامی بھی ان کے اندر نہ ہوتی اور وقت پڑنے پر اپنے آقا کے پسینے کی جگہ خون بہانا اپنی اصالت اور شرافت سمجھتے۔

    اچھا، تو یہ صاحبِ عالم جن کا قصہ ہے، ان کی صحبت میں بھی کئی نوجوان تھے۔ یوں تو ہر ایک کو اپنی اپنی جگہ اور اپنے اپنے تعلق سے آقا کی اس حالت کا افسوس تھا کہ ان کے ہنسی مذاق اور چرندم خورندم پر اوس پڑ گئی تھی لیکن حقیقی صدمہ ایک بانکے مرزا کو تھا، یہ جلے پاؤں کی بلّی کی طرح تڑپتے پھرتے، پہروں صاحب عالم کے سرہانے بیٹھے رویا کرتے۔ چوتھا دن تھا کہ دوپہر کے وقت صاحبِ عالم نے ہائے اللہ کر کے دو شالہ منھ پر سے ہٹایا اور آنکھ کھول کر بانکے مرزا کی طرف دیکھا۔ اس وقت اتفاق سے یہی دونوں تھے۔

    صاحبِ عالم: کون…بانکے مرزا؟

    بانکے مرزا: جی ہاں غلام ہے۔

    صاحبِ عالم: ارے بھئی جاؤ اپنے گھر۔ میرے ساتھ کیوں مر رہے ہو۔

    بانکے مرزا: صاحب عالم یہاں سے تو میری لاش جائے گی اور آپ دیکھ لیں گے۔

    صاحب عالم: کیوں بھئی؟

    بانکے مرزا: صاحب عالم ایسی زندگی پر تف ہے کہ جس کی ہم خدمت کریں، وہ ہمیں اپنا دکھ درد کہنے کے قابل بھی نہ سمجھے۔

    صاحب عالم: اور جو بات بتانے کی نہ ہو۔

    بانکے مرزا: اسی لیے تو عرض کرتا ہوں آپ نے مجھے ذلیل سمجھا، بہت اچھا نہ بتائیں۔ یہ کہہ کر بانکے مرزا نے خنجر کمر سے کھینچ اپنی چھاتی پر رکھا اور چاہتے ہی تھے کہ اپنے دل کو چھید ڈالیں صاحبِ عالم نے چھپٹ کر ہاتھ پکڑ لیا۔ بڑی ضد بحث کے بعد صاحبِ عالم نے مرزا بانکے کے ہاتھ سے خنجر لیا اور اپنے پاس بٹھا کر ساری داستان سنائی کہ اس طرح میں فلاں کی شادی میں گیا تھا وہاں ایک پالکی اتر رہی تھی، یوں پالکی کے کہار رپٹے، یوں پالکی کا پردہ کھل گیا اور اس طرح پالکی میں بیٹھنے والی کے دوپٹے کا پلّا لٹک پڑا، یہ خیال کر کے میں نے وہ پّلا کاٹ لیا کہ پردہ فاش نہ ہو۔ اس میں سواری کے پاؤں کا تلوا نظر آیا جسے دیکھتے ہی میری بری حالت ہوگئی۔ نہ بھوک ہے نہ پیاس، زندگی اجیرن معلوم ہوتی ہے۔ اگر وہ اور دو چار دن میرے پہلو میں نہ آگئی تو ارادہ ہے کہ کچھ کھا کر سو رہوں یا اپنا گلا کاٹ لوں۔

    بانکے مرزا: اچھا تو آپ اب کھڑے ہو جائیے، کھائیے پیجیے، ہسنیے، بولیے ذرا فکر نہ کیجیے۔ اس پالکی والی کا پتہ لگانا اور اسے آپ کے پہلو میں لا بٹھانا بانکے مرزا کا کام ہے۔

    صاحب عالم: (خوش ہو کر) تم اس کا پتہ لگا لو گے۔

    بانکے مرزا: پتہ نہیں لگاؤں گا تو منھ نہیں دکھاؤں گا۔ دوپٹے کا وہ پّلا جو آپ نے کاٹا ہے، مجھے عنایت کر دیجیے۔

    صاحب عالم: پلّو اپنے سرہانے سے نکال کر دیتے ہیں ( کب تک؟)

    بانکے مرزا: کم سے کم پندرہ دن اور زیادہ سے زیادہ ایک مہینہ۔ میری شرافت پر بھروسہ کیجیے۔ لیجیے، اب میں رخصت ہوتا ہوں۔

    بانکے مرزا نے رفاقت کے جوش اور شرافت کے تقاضے سے وعدہ تو کرلیا مگر جب قلعہ سے باہر نکلے تو سوچ میں پڑ گئے کہ یہ کیا حماقت کی شادی تھی، ہزاروں عورتیں آئی ہوں گی، پھر فقط دوپٹے کے ایک پلّو سے کس طرح پتہ لگ سکتا ہے کہ کون تھا۔ لیکن اب تو وعدہ کر آئے تھے، قولِ مرداں جان دارد!

    بڑا فکر ہوا، چاروں طرف خیال دوڑایا۔ شادی والے دن اتفاق کی بات یہ آگرے گئے ہوئے تھے، سواریاں بھی آتے جاتے نہیں دیکھی تھیں۔ سوچتے سوچتے شہر کی کٹنیاں یاد آگئیں جو سب سے زیادہ چالاک تھیں۔ انھیں مگھّم میں قصہ سنایا اور کھوج لگانے کے لیے مقرّر کیا۔ کٹنیوں نے بھی انعام کے لالچ میں ایک ایک کوچہ چھان مارا مگر کوئی کھوج نہ لگا، بھلا شریف زادیوں میں کون اپنا گھٹنا کھولتی اور لاجوں مرتی۔

    آخر وعدے کے دن پورے ہونے کو آئے اور کوئی صورت نہ نکلی۔ بانکے مرزا نے دل میں ٹھان لی کہ اب اس سے پہلے کہ صاحبِ عالم کو منھ دکھاؤں مر جانا بہتر ہے۔ دل میں یہ ٹھان کر سنکھیا لائے اور اس کی پڑیا اپنے سرہانے رکھ لی کہ رات کو کھا کر سو جاؤں گا۔ تھے ایسے مرد کہ اپنی بیوی سے بھی کچھ نہیں کہا۔ مہینہ بھر میں کسی نے نہیں جانا کہ بانکے مرزا کس مصیبت میں گرفتار ہیں۔ اب یہ تماشا سنو جس دن بانکے مرزا نے سنکھیا لا کر رکھی ہے اسی روز اتفاق سے ان کی بیوی نے دھوپ دینے کو اپنے کپڑے نکالے۔ اچانک ایک دوپٹے پر مرزا کی نظر پڑی۔ غور سے دیکھا تو اس کا پّلا کٹا ہوا دکھائی دیا۔ اچھل پڑے، جلدی سے صاحبِ عالم کا دیا ہوا پلّو کا ٹکڑا نکالا۔ دوپٹے سے جا کر ملایا تو ٹھیک تھا۔

    بیوی: آپ کیا دیکھ رہے ہیں؟

    مرزا: ذرا کوٹھڑی کے اندر چلو تو بتاؤں۔ بیوی میاں کے تیور دیکھ کر ڈر گئی۔ مرزا نے ایک ہاتھ میں ننگی تلوار لی اور دوسرے ہاتھ سے بیوی کا بازو پکڑا اور اندر لے گئے۔بانکے مرزا: یہ کس کا دوپٹہ ہے۔

    بیوی: (سہمی ہوئی آواز سے) میرا۔ آپ ہی نے بنوا کر دیا تھا۔ یاد کر لیجیے۔

    بانکے مرزا: یاد ہے مگر اس کا پّلو کٹا کس طرح سچ مچ بتا دو، ورنہ خیر نہیں۔ پارسا بیوی پہلے تو بہت گھبرائی لیکن چوںکہ خطا کار نہ تھی اس لیے اس نے حرف بہ حرف سارا واقعہ سنا دیا اور مرزا کے قدموں پر سَر جھکا کر بولی۔ ’’لونڈی کا اتنا قصور ضرور ہے کہ آپ سے کہا نہیں۔ اب آپ کو اختیار ہے۔‘‘

    اتنا سن کر بانکے مرزا پر ایک سکتے کا سا عالم طاری ہوگیا۔ تلوار ہاتھ سے چھوٹ گئی اور کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ بڑی دیر تک مرزا کچھ سوچتے رہے، پھر ایک دفعہ ہی جیسے سوتے سے آدمی جاگتا ہے، پیچھے ہٹ کر بولے۔ ’’بیگم میں زبان دے آیا ہوں۔‘‘

    بیوی: (سَر اٹھا کر حیران ہوتے ہوئے) کیا زبان دے آئے اور کسے؟

    مرزا: یہ نہ پوچھو اور جو میں کہوں کرو۔

    بیوی: مجھے آپ کے حکم سے کب انکار ہے۔

    مرزا: تو یہی جوڑا جس کے دوپٹہ کا پّلا کٹا ہوا ہے پہن لو۔ بناؤ سنگھار بھی اس دن جیسا کرلو۔ میں ابھی پینس لاتا ہوں اس میں بیٹھ کر جہاں میں لے جاؤں چلو۔ بیوی میاں کا منھ دیکھنے لگی، کچھ بولنے کی جرأت نہ تھی، آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔

    یہ دیکھ کر مرزا نے بڑی ہمتّ سے کہا، دیکھو! بیگم آج تک تم میری بیوی تھیں اور میں تمہارا میاں لیکن آج میں یہ رشتہ توڑتا ہوں۔ بیوی اتنا سنتے ہی سفید پڑ گئی اور بدن تھرتھرانے لگا، بڑی مشکل سے اپنے آپ کو سنبھال کر گلوگیر آواز میں کہنے لگی، اچھا اتنا تو بتا دو کہ تم مجھ سے خفا تو نہیں۔

    مرزا بولے، بیگم اس وقت ایسی باتیں نہ کرو، میرے ارادے میں ذرا سا فرق آیا تو سارے خاندان کی ناک کٹ جائے گی۔ میرا لاشہ تمہیں تڑپتا ہوا نظر آئے گا۔ یہ کہتے ہوئے مرزا باہر چلے گئے، پالکی لاکر دروازے پر لگا دی۔ بیوی ہانپتی کانپتی پالکی میں سوار ہوئی آگے آگے مرزا تھے اور پیچھے پیچھے پالکی۔ قلعہ میں داخل ہوئے اور صاحبِ عالم کے دیوان خانے پر جا پہنچے۔ دروازے میں پالکی رکھوائی، آپ اندر گئے۔ صاحبِ عالم مسہری پر لیٹے ہوئے تھے، مرزا کو دیکھتے اٹھ بیٹھے اور بولے،

    ’’کہو مرزا ہمارا کام بنا، تمہارے وعدے میں صرف آج اور کل کا دن باقی ہے۔‘‘

    مرزا: آپ نے مرزا کو سمجھا کیا ہے صاحبِ عالم۔ ابھی ہماے خون میں اصالت کے جوہر موجود ہیں۔ آپ کی مراد لے کر آیا ہوں۔

    صاحبِ عالم: (بیتاب ہوکر) کہاں کہاں؟

    مرزا: ڈیوڑھی میں پینس رکھی ہے۔ صاحبِ عالم تھے تو نرے صاحبِ عالم اور عاشق مزاج بھی، لیکن ابھی تک اپنے بڑوں کی عزّت کا پاس تھا۔ رعایا کی بہو بیٹیوں پر بری نظر ڈالنے کی عادت نہ تھی، کچھ سہم سے گئے اور متوحش آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھنے لگے۔

    مرزا: آپ گھبرا کیوں گئے؟

    صاحبِ عالم: بڑے حضرت کا ڈر ہے۔

    مرزا: اس کا میں نے بندوبست کرلیا ہے۔

    صاحبِ عالم: تو پھر اندر لے آؤ۔

    مرزا: لیکن یہ سمجھ لیجیے کہ میں نے اپنی جان پر کھیل کر یہ کام کیا ہے۔ چار گھنٹے کے وعدے پر لایا ہوں، شوہر والی ہیں، کوئی رانڈ، بیوہ یا بازاری عورت نہیں۔

    صاحبِ عالم: اچھا، انہیں اندر بھیج دو لیکن تم کہیں چلے نہ جانا۔ مرزا بہت خوب کہہ کر ڈیوڑھی میں پالکی کے پاس آئے اور بیوی کو آواز دی۔

    بیوی پریشان میاں کی اس حرکت سے سہمی ہوئی اپنے خیالات میں محو ایک طرف خاموش بیٹھی تھی۔ میاں کی آواز جو سنی تو چونک پڑی اور بھرّائی ہوئی آواز میں بولی فرمائیے۔ مرزا نے کہا یہ میرے ولی نعمت کا مردانہ مکان ہے، اندر صاحبِ عالم تشریف رکھتے ہیں، اتر کر ان کی خدمت میں جاؤ، ان کا دل بہلاؤ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں…یہ کہتے کہتے مرزا کی آواز بھرّا گئی، مگر وہ بات کے دھنی تھے۔ بولے میں منھ پھیرے لیتا ہوں، اترو اور اندر جاؤ، سامنے والے کمرے میں صاحبِ عالم تشریف فرما ہیں۔ بیوی کانپتی ڈرتی پالکی سے اتری اور لڑکھڑاتی ہوئی اندر گئی۔ منھ دوپٹے سے چھپا ہوا تھا اور آنکھوں سے لڑیاں جاری تھیں۔ کمرے میں پہنچ کر صاحبِ عالم کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔

    صاحبِ عالم نے آنکھ اٹھا کر دیکھا اور نظر نیچی کر لی، جوانی تھی، شہزادے تھے، اس پر عشق، لیکن ہمت نہیں پڑتی تھی کہ ہاتھ بڑھائیں، آنے والی کی سسکیوں کے ساتھ رونے کی آواز برابر کانوں میں چلی آرہی تھی۔

    صاحبِ عالم: (نیچے آنکھیں کیے کیے) نیک بخت تم تو رو رہی ہو۔ میں تم سے کچھ کہتا تو نہیں صرف اتنا بتا دو کہ تمہارے میاں کون ہیں۔

    عورت: (بڑی مشکل سے) بانکے…مرزا…

    (صاحبِ عالم حیرت سے) تم بانکے مرزا کی بیوی ہو، تمہارا ہی دو پٹّہ زمین پر لٹک گیا تھا؟

    عورت: (روتے ہوئے) جی ہاں یہ دیکھیے۔

    صاحبِ عالم: (گھبرا کر) غضب، غضب لاحو ل ولا قوۃ۔ اور وہ ننگے پاؤں ننگے سر ڈیوڑھی کی طرف چلے۔ عورت سہم کر اوندھے منہ سجدے میں گر پڑی۔ بانکے مرزا ڈیوڑھی میں آنکھیں بند کیے، مونڈھے پر سر جھکائے بیٹھے تھے۔ صاحبِ عالم نے آتے ہی کہا اماں مرزا تم یہ کس کو لے آئے، ان پر تو کوئی جن عاشق معلوم ہوتا ہے جوں ہی میں نے انھیں ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس بٹھانا چاہا تاب دان میں سے ایک نہایت بدہیبت ہاتھ نکلا اور آواز آئی کہ خبر دار یہ ہماری منکوحہ ہے ہاتھ لگایا تو ابھی گلا گھونٹ دوں گا۔ اس لیے انھیں تو یہاں سے لے ہی جاؤ۔

    مرزا نے کہا، صاحبِ عالم، یہ تو آپ نے میری ساری محنت ہی اکارت کر دی۔ حضرت وہم نہ کیجیے، جائیے اب کے اگر ہاتھ دکھائی دے تو مجھے بلا لیجیے گا میرے سامنے اگر ہاتھ نکالا تو جن کو بھی ٹنڈا سمجھ لیجیے۔ مرزا کی رفاقت اور محنت کا نقش صاحبِ عالم کے دل میں اور بھی گہرا بیٹھتا جاتا تھا۔ آخر تیموری خون میں جوش آگیا، غیرت آئی سوچا کہ مرزا نے میرے نمک کا پاس کرکے اپنی بیوی کو مجھ تک پہنچا دیا۔ اب مجھے بھی اپنی شرافت دکھانی چاہیے۔ مرزا کو اپنے آگے لے کر کہا، اچھا مرزا دیکھوں تم کتنے بہادر ہو جاؤ اور انھیں ہاتھ لگاؤ، اس جن سے مقابلے کرو، اتنے میں ذرا محل ہو آؤں، یہ کہتے ہوئے صاحبِ عالم تو زنانی ڈیوڑھی کی طرف چلے اور مرزا ننگی تلوار ہاتھ میں لے کر کمرے کے اندر پہنچے۔ بیوی کو دیکھا تو سَر بہ سجدہ ہے۔ آواز دی، کچھ جواب نہ ملا۔ آنکھیں تاب دان کی طرف لگی ہوئی تھیں، چھپر کھٹ کے قریب جاکر کھڑے ہوئے تھے کہ یکایک تاب دان کے اندر سے ایک سیاہ بھجنگ کالا ہاتھ نکلا اور آواز آئی خبردار جو اس عورت کو کسی نے ہاتھ لگایا، اسے فوراً اپنے گھر پہنچا دو۔ مرزا پہلے تو جھجکے پھر سنبھل کر ڈرتے ڈرتے آگے بڑھے اور اللہ کا نام لے کر نکلے ہوئے ہاتھ پر تلوار مار دی اور آنکھیں بند کرلیں۔ ادھر تو ہاتھ چھپر کھٹ کے اوپر گرا اور ادھر تاب دان کی پشت پر کسی کے گرنے کا دھماکہ ہوا۔

    نوکر چاکر آواز سن کر دوڑے دیکھا تو صاحبِ عالم خون میں لت پت بے ہوش پڑے ہیں۔ شور مچ گیا۔ مرزا کے کانوں میں جو یہ آوازیں پہنچیں تو وہ کٹے ہوئے ہاتھ کو دیکھتے دیکھتے باہر پہنچے اور ہائے صاحبِ عالم، میرے آقا کہہ کر صاحبِ عالم کے پاس گر پڑے اور پھر سنبھل کر اٹھے۔ بیوی کو تو سوار کرا کے گھر روانہ کیا اور صاحبِ عالم کو اٹھوا کر کمرے میں لائے، جرّاحوں کو چپ چپاتے بلوایا مرہم پٹی کرائی، ہوش میں لانے کی تدبیریں کیں۔ خدا خدا کرکے کوئی مہینہ بھر کے بعد زخم مندمل ہونا شروع ہوا اور صاحب عالم اپنے سہارے اٹھے بیٹھنے اور بات چیت کرنے لگے۔

    اب ایک دن رات کے بارہ بجے موقع پا کر مرزا نے ذرا کڑے تیوروں سے صاحبِ عالم سے کہا، قبلہ یہ آپ کو کیا سوجھی تھی، میرے ہی نامۂ اعمال کو سیاہ کرنا تھا۔ صاحبِ عالم نے جواب دیا، ’’سنو مرزا، جب تم سَر ہوئے تو میں نے اپنا حالِ زار تم کو سنا دیا اور تم اس کا کھوج لگا کر میرے پاس لے بھی آئے لیکن جب اس نے بڑی مشکل سے بتایا کہ میں بانکے مرزا کی بیوی ہوں تو تمہارا نام سنتے ہی مجھے اتنی غیرت آئی کہ اگر خود کشی گناہ نہ ہوتی تو اسی وقت اپنا خاتمہ کر لیتا۔

    مرزا ایک معمولی سا آدمی تو نمک کی اتنی پاس داری کرے اور میں بادشاہوں کی اولاد کہلا کر اپنی رعایا کے حق میں بھیڑیا نکلوں۔ اس وقت مجھے یہی سوجھا کہ جس ہاتھ سے اس پاک دامن کے پّلو کو چھوا تھا وہ ہاتھ اسی شخص کی تلوار کاٹے جس کا میں گنہ گار ہوں۔ چنانچہ یہ ڈھونگ بنایا اور ترکیب کارگر نکلی۔

    مرزا نے جماہی لیتے ہوئے کہا، بہ ہر حال آپ نے اچھا نہیں کیا، میری آنکھیں آپ کو اس حال میں نہیں دیکھ سکتیں۔ خیر اب آپ آرام فرمائیے، باقی باتیں صبح ہوں گی۔ صبح کو نوکر چاکر اٹھ کر صاحبِ عالم کے کمرے کی طرف آنے لگے تو مرزا کے بچھونے پر خون کے چکتے دیکھتے، چادر جو ہٹائی تو چھاتی میں خنجر گھسا ہوا تھا اور مرزا مردہ۔یہاں تک کہانی کہنے کے بعد مغلانی نانی چپ ہوگئیں۔

    والدہ: اور اس بے چاری بیوی پر کیا گزری؟

    مغلانی: خدا نے جیسی ڈالی صبر شکر کیا۔ اس زمانے کی عورتیں ایسی تو تھیں نہیں کہ ہائے واویلا مچا کر محلّے کو سَر پر اٹھا لیں۔ دوسرے بانکے مرزا اتنا چھوڑ گئے تھے کہ بیوی کی ساری زندگی کو بہت تھا۔ کونے میں بیٹھ کر آبرو کے ساتھ گزار دی۔

    والدہ: کاش میں انھیں دیکھتی۔ مغلانی نانی نے ایک ٹھنڈا سانس لیا اور بولیں، لو بُوا دیکھ لو، وہ جنم جلی بانکے مرزا کی بیوہ یہی ہے۔

    والدہ حیرت سے ان کا منھ تکنے لگیں۔ میں اٹھ کر بیٹھ گیا اور گھر میں سناٹا چھا گیا۔

    (از: اشرف صبوحیؔ دہلوی)

  • یومِ وفات: بدنصیب شہزادہ دارا شکوہ جس کی اصل قبر آج بھی تلاش کی جارہی ہے

    یومِ وفات: بدنصیب شہزادہ دارا شکوہ جس کی اصل قبر آج بھی تلاش کی جارہی ہے

    دارا شکوہ مغل شہنشاہ شاہ جہاں اور ملکہ ممتاز محل کا بڑا بیٹا تھا۔

    مؤرخین نے اسے طبعاً صلح جُو، غم گسار، صوفیا کا ارادت مند لکھا ہے۔ وہ فارسی، عربی اور سنسکرت کا عالم اور متعدد کتب کا مصنّف تھا۔

    شہزادہ دارا شکوہ کی نظر میں تمام مذاہب قابلِ احترام تھے۔ وہ جہاں مسلمان علما اور صوفیائے کرام کی مجالس میں شریک رہتا، وہیں ہندو، سکھ اور بدھ مت کے پیروکاروں سے بھی علمی و مذہبی موضوعات پر اظہارِ خیال کرتا تھا۔

    ہندوستان کی تاریخ میں اسے ایک بدنصیب شہزادے کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جسے 1659ء میں آج ہی کے دن قتل کردیا گیا تھا۔

    دارا شکوہ شاہ جہاں کے بعد تخت کا وارث تھا، لیکن شہنشاہ کے چھوٹے بیٹے اورنگزیب نے اسے معزول کرکے قید کر لیا اور بعد میں قتل کر دیا گیا۔

    ہندوستان کے مشہور شہر اجمیر میں 1615ء میں‌ آنکھ کھولنے والا دارا شکوہ شاہ جہاں کا لاڈلا تھا۔ وہ بڑا ہوا تو ایک مفکّر، شاعر اور فنونِ لطیفہ کا شیدائی نکلا، لیکن سلطنت کے انتظام اور خاص طور پر فوجی امور میں اسے کوئی دل چسپی نہیں تھی۔

    مؤرخین نے دارا شکوہ کی شادی کو مغل دور کی مہنگی ترین تقریب لکھا ہے۔ اس شہزادے کا نکاح نادرہ بانو کے ساتھ ہوا۔ 1633ء میں شاہی خاندان میں ہونے والی شادی کی یہ تقریب کئی روز جاری رہی تھی۔

    محمد صالح کمبوہ لاہوری شاہ جہاں کے دربار سے منسلک ایک مؤرخ تھے۔ انھوں نے ’شاہ جہاں نامہ‘ جیسی کتاب لکھی جو بہت مشہور ہے۔

    وہ دارا شکوہ کی گرفتاری اور قتل کے بارے میں لکھتے ہیں، ’شہزادہ کو جب گرفتار کر کے دلّی لایا گیا تو اس کے جسمِ نازنین پر میلا کچیلا لباس تھا۔ یہاں سے اسے نہایت سرگردانی اور برگشتہ بختی کی حالت میں ہاتھی پر سوار کر کے خضر آباد پہنچایا گیا۔ کچھ عرصے ایک تنگ و تاریک گوشے میں رہا اور تھوڑے ہی دنوں بعد اس کے قتل کا حکم صادر ہوا۔‘

    قتل کے بعد اس کی لاش کو کہاں دفنایا گیا، اس بارے میں بتانا کچھ مشکل ہے، کیوں کہ کوشش کی گئی تھی کہ کسی کو اس کی قبر کا علم نہ ہوسکے۔

    دارا شکوہ کی قبر کہاں ہوسکتی ہے؟ اس بارے میں اس وقت کے ایک مؤرخ محمد کاظم ابن محمد امین منشی نے اپنی مشہور کتاب ’عالمگیر نامہ‘ میں لکھا ہے، ’دارا شکوہ کو ہمایوں کے مقبرے میں اس گنبد کے نیچے دفنا دیا گیا جہاں شہنشاہ اکبر کے بیٹے دانیال اور مراد دفن ہیں۔‘

    کسی شہزادے کا موت کے بعد یوں بے نام و نشان ہو جانا تعجب کی بات نہیں کیوں کہ تاریخ کے اوراق میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جب شاہی خاندان میں مخالف کو مرنے کے بعد اس طرح ٹھکانے لگایا گیا ہو کہ کوئی اس کی قبر تک نہ پہنچ سکے۔

    مؤرخین کے مطابق اس بدنصیب شہزادے کا سر قلم کردیا گیا تھا۔ شاہ جہاں کے عہد کے مؤرخین کی تحریر اور بعض دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ دارا شکوہ کا دھڑ دلّی میں ہمایوں کے مقبرے میں کسی جگہ پیوندِ‌ خاک بنا، لیکن اس کا سَر تاج محل کے صحن میں کہیں دفن ہے۔

    رباعیات کے علاوہ دارا شکوہ کی تصنیف کردہ کتابوں میں سفینۃُ الاولیا، سکینۃُ الاولیاء اور حسناتُ العارفین مشہور ہیں۔

  • ہندوستان کے شاہی خاندان کا بدنصیب ماہِ عالم

    ہندوستان کے شاہی خاندان کا بدنصیب ماہِ عالم

    ماہِ عالم ایک شہزادے کا نام تھا، جو شاہِ عالم بادشاہِ دلّی کے نواسوں میں تھا اور غدر میں اس کی عمر گیارہ برس کی تھی۔

    شہزادہ ماہِ عالم کے باپ مرزا نو روز حیدر دیگر خاندانِ شاہی کی طرح بہادر شاہ کی سرکار سے سو روپے ماہوار تنخواہ پاتے تھے، مگر ان کی والدہ کے پاس قدیم زمانہ کا بہت سا اندوختہ تھا، اس لیے ان کو روپیہ کی چند اں پروا نہیں تھی اور وہ بڑی بڑی تنخواہوں کے شہزادوں کی طرح گزر اوقات کرتے تھے۔

    جب غدر پڑا تو ماہِ عالم کی والدہ بیمار تھیں۔ علاج ہورہا تھا، مگر مرض برابر ترقّی کرتا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ عین اس روز جب کہ بہادر شاہ قلعہ سے نکلے اور شہر کی تمام رعایا پریشان ہو کر چاروں طرف بھاگنے لگی، ماہِ عالم کی والدہ کا انتقال ہوگیا۔ ایسی گھبراہٹ کے موقع پر سب کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ اس موت نے عجیب ہراس پیدا کر دیا۔

    اس وقت نہ کفن کا سامان ممکن تھا نہ دفن کا، نہ غسل دینے والی عورت میّسر آسکتی تھی، نہ کوئی مردے کے پاس بیٹھنے والا تھا۔ شہزادوں میں رسم ہوگئی تھی کہ وہ مردے کے پاس نہ جاتے۔ سب کام پیشہ وروں سے لیا جاتا تھا، جو اس وقت کے لیے ہمیشہ موجود تیار رہتے تھے۔

    غدر کی عالم گیر مصیبت کے سبب کوئی آدمی ایسا نہ ملا جو تجہیز و تکفین کی خدمت میں انجام کو پہنچاتا۔ گھر میں دو لونڈیاں تھیں، لیکن وہ بھی مردے کو نہلانا نہ جانتی تھیں۔ خود مرزا نو روز حیدر اگر چہ پڑھے لکھے شخص تھے مگر چوں کہ ان کو ایسا کام پیش نہ آیا تھا، اس لیے اسلامی طریق پر غسل و کفن سے واقفیت نہ رکھتے تھے۔

    القصّہ ان لوگوں کو اسی حیرانی و پریشانی میں کئی گھنٹے گزر گئے۔ اتنے میں سنا کہ انگریزی لشکر شہر میں گھس آیا ہے اور اب عنقریب قلعہ میں آیا چاہتا ہے۔ اس خبر سے مرزا کے رہے سہے اوسان اور بھی جاتے رہے اور جلدی سے لاش کو چارپائی پر ہی کپڑے اتار کر نہلانا شروع کیا۔ نہلایا کیا، بس پانی کے لوٹے بھر بھر کر اوپر ڈال دیے۔ کفن کہاں سے ملتا، شہر تو بند تھا۔ پلنگ پر بچھانے کی دو اُجلی چادریں لیں اور ان میں لاش کو لپیٹ دیا۔

    اب یہ فکر ہوئی کہ دفن کہاں کریں۔ باہر لے جانے کا تو موقع نہیں۔ اسی سوچ میں تھے کہ گوروں اور سکھوں کی فوج کے چند سپاہی گھر میں آگئے اور آتے ہی مرزا اور ان کے لڑکے ماہِ عالم کو گرفتار کر لیا۔ اس کے بعد گھر کا سامان لوٹنے لگے۔ صندوق توڑ ڈالے۔ الماریوں کے کواڑا کھیڑ دیے۔ کتابوں کو آگ لگا دی۔

    دونوں لونڈیاں غسل خانے میں جا چھپی تھیں۔ ایک سپاہی کی ان پر نگاہ پڑ گئی جس نے دیکھتے ہی اندر گھس کر سر کے بال پکڑے اور بچاریوں کو گھسیٹتا ہوا باہر لے آیا۔ اگرچہ ان فوجیوں کو لاش کا حال معلوم ہو گیا تھا، مگر انہوں نے اس کی مطلق پروا نہ کی اور برابر لوٹ مار کرتے رہے۔ آخر قیمتی سامان کی گٹھریاں، لونڈیوں اور خود مرزا نو روز حیدر اور ان کے لڑکے ماہِ عالم کے سَر پر رکھیں اور بکریوں کی طرح ہانکتے ہوئے گھر سے باہر لے چلے۔ اس وقت مرزا نے اپنے لٹے ہوئے گھر کو آخری حسرت بھری نگاہوں سے دیکھا اور اپنی بیوی کی بے گور و کفن لاش کو اکیلا چارپائی پر چھوڑ کر سپاہیوں کے ساتھ کوچ کیا۔

    لونڈیوں کو تو بوجھ اٹھانے اور چلنے پھرنے کی عادت تھی۔ مرزا نو روز حیدر بھی قوی اور توانا تھے۔ بوجھ سَر پر اٹھائے بے تکان چل رہے تھے، مگر غریب ماہِ عالم کی بری حالت تھی۔ اوّل تو اس کے سَر پر بوجھ اس کی عمر اور بساط سے زیادہ تھا۔ اس کے علاوہ یہ شہزادہ قدرتی طور پر نہایت نازک اور کم زور واقع ہوا تھا۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ماں کے مرنے کا غم تھا۔ رات سے روتے روتے آنکھیں سوج گئی تھیں۔ خالی ہاتھ چلنے سے چکّر آتے تھے، کجا یہ نوبت کہ سَر پر بوجھ، پیچھے چمکتی ہوئی تلواریں اور جلدی چلنے کی قہر ناک تاکید۔ بچارے کے پاؤں لڑکھڑاتے تھے۔ دَم چڑھ گیا تھا۔ بدن پسینہ پسینہ ہو گیا تھا۔

    آخر نہایت مجبوری کی حالت میں باپ سے کہا، ’’ابّا حضرت! مجھ سے تو چلا نہیں جاتا۔ گردن بوجھ کے مارے ٹوٹے جاتی ہے۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا آ رہا ہے۔ ایسا نہ ہو گر پڑوں۔‘‘

    باپ سے اپنے لاڈلے اکلوتے بچّے کی یہ مصیبت بھری باتیں سنی نہ گئیں۔ اس نے مڑ کر سپاہی سے کہا، ’’صاحب! اس بچّے کا اسباب بھی مجھ کو دے دو۔ یہ بیمار ہے گر پڑے گا۔‘‘ گورا مرزا کی زبان بالکل نہ سمجھا اور اس طرح ٹھہرنے اور بات کرنے کو گستاخی اور بد نیتی سمجھ کر دو تین مکّے کمر میں مارے اور آگے دھکا دیا۔

    مظلوم مرزا نے مار بھی کھائی، مگر مامتا کے مارے لڑکے کا بوجھ بغل میں لے لیا۔ گورے کو یہ حرکت بھی پسند نہ آئی اور اس نے جبراً مرزا سے گٹھری لے کر ماہِ عالم کے سَر پر رکھ دی اور ایک گھونسا اس بیکس و ناتواں کے بھی مارا۔ گھونسا کھا کر ماہِ عالم آہ کہہ کر گر پڑا اور بے ہوش ہوگیا۔

    مرزا نو روز اپنے لختِ جگر کی حالت دیکھ جوش میں آگئے اور اسباب پھینک کر ایک مکّا گورے کے کلّے پر رسید کیا اور پھر فوراً ہی دوسرا گھونسا اس کی ناک پر مارا جس سے گورے کی ناک کا بانسہ پھٹ گیا اور خون کا فوّارہ چلنے لگا۔ سکھ سپاہی دوسری طرف چلے گئے تھے۔ اس وقت فقط دو گورے ان قیدیوں کے ساتھ تھے اور کیمپ کو لیے جا رہے تھے۔ دوسرے گورے نے اپنے ساتھی کی یہ حالت دیکھ کر مرزا کے ایک سنگین ماری مگر خدا کی قدرت سنگین کا وار اوچھا پڑا اور وہ مرزا کی کمر کے پاس سے کھال چھیلتی ہوئی نکل گئی۔

    تیموری شہزادہ نے اس موقع کو غنیمت جانا اور لپک کر ایک مکّا اس گورے کی ناک پر بھی مارا۔ یہ مکّا بھی ایسا کاری پڑا کہ ناک پچک گئی اور خون بہنے لگا۔ گورے یہ حالت دیکھ کر پستول و کرچ تو بھول گئے اور یک بارگی دونوں کے دونوں مرزا کو چمٹ گئے اور گھونسوں سے مارنے لگے۔

    لونڈیوں نے جو یہ حالت دیکھی تو اسباب پھینک رستہ کی خاک مٹھیوں میں بھر کر گوروں کی آنکھوں میں جھونک دی۔ اس ناگہانی آفت سے گورے تھوڑی دیر کے لیے بیکار ہوگئے اور ان کی کرچ مرزا کے ہاتھ آگئی۔ مرزا نے فوراً کرچ گھسیٹ لی۔ ایک ایسا بھر پور ہاتھ مارا کہ کرچ نے شانہ سے سینے تک کاٹ ڈالا۔ اس کے بعد دوسرے گورے پر حملہ کیا اور اسے بھی ذبح کر دیا۔ ان دونوں کو ہلاک کر کے ماہِ عالم کی طرف متوجہ ہوئے۔ وہ بالکل بے ہوش تھا۔ باپ کے گود میں لیتے ہی آنکھیں کھول دیں اور باہیں گلے میں ڈال کر رونے لگا۔

    مرزا اسی حالت میں تھے کہ پیچھے سے دس بارہ گورے اور سکھ سپاہی آگئے اور انہوں نے اپنے دوساتھیوں کو خون میں نہایا دیکھ کر مرزا کو گھیر لیا اور لڑکے سے جدا کر کے حال پوچھا۔ مرزا نے سارا واقعہ سچ سچ کہہ دیا۔ سنتے ہی گوروں کی حالت غصّہ سے غیر ہوگئی۔ انہوں نے پستول کے چھے فائر ایک دم کر دیے، جن سے زخمی ہو کر مرزا گر پڑے اور آناً فاناً میں تڑپ کر مرگئے۔ مرزا نو روز کی لاش کو وہیں چھوڑ دیا گیا اور ماہِ عالم کو لونڈیوں سمیٹ پہاڑی کے کیمپ میں لے گئے۔

    جب دہلی کی فتح سے اطمینان ہو گیا تو لونڈیاں دو مسلمان پنجابی افسروں کو دے دی گئیں اور ماہِ عالم ایک انگریز افسر کی خدمت گاری پر مامور ہوئے۔ جب تک یہ انگریز دہلی میں رہے، ماہِ عالم کو زیادہ تکلیف نہ تھی، کیوں کہ صاحب کے پا س کئی خانساماں اور نوکر چاکر تھے۔ اس واسطے زیادہ کام کاج نہ کرنا پڑتا تھا لیکن چند روز کے بعد یہ صاحب رخصت لے کر ولایت چلے گئے اور ماہِ عالم کو ایک دوسرے افسر کے حوالے کر گئے، جو میرٹھ چھاؤنی میں تھے۔

    ان افسر کا مزاج تند تھا۔ بات بات پر ٹھوکریں مارتے تھے۔ ماہِ عالم اس مار دھاڑ کو برداشت نہ کر سکے اور ایک دن بھاگنے کا ارادہ کیا۔ چنانچہ پچھلی رات کو گھر سے نکلے۔ پہرے دار نے ٹوکا تو کہہ دیا فلاں صاحب کا نوکر ہوں اور ان کے کام کو فلاں گاؤں میں جاتا ہوں تاکہ سویرے ہی پہنچ جاؤں۔ اس حیلہ سے جان بچائی اور جنگل کا راستہ لیا۔

    چھوٹی عمر، راستہ سے بے خبر، پکڑے جانے کا خوف، عجب مایوسی کا عالم تھا۔ آخر بہ ہزار دقّت صبح ہوتے ہوتے میرٹھ سے تین چار کوس کے فاصلہ پر پہنچ گئے۔ سامنے گاؤں تھا۔ وہاں جاکر ایک مسجد میں ٹھہر گئے۔ مُلا صاحب نے سوالات شروع کیے، تُو کون ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟ کہاں جائے گا؟ ماہِ عالم نے ان کو بھی باتوں میں ٹالا۔ یہاں ایک فقیر بھی ٹھہرے ہوئے تھے۔ انہوں نے جو ماہِ عالم کی شریفانہ صورت دیکھی تو محبت سے پاس بلایا اور رات کی بچی ہوئی روٹی سامنے رکھی۔ ماہِ عالم نے شاہ صاحب کو ہمدرد پا کر اپنی مصیبت کی داستان اوّل سے آخر تک سنائی۔ شاہ صاحب یہ کیفیت سن کر رونے لگے اور ماہِ عالم کو سینہ سے لگا کر بہت پیار کیا اور تسلّی کی باتیں کرنے لگے۔ اس کے بعد کہا اب تم فکر نہ کرو میرے ساتھ رہو۔ خدا حافظ و ناصر ہے۔

    چناں چہ انہوں نے ایک رنگین کُرتا ان کو پہنا دیا اور ساتھ لے کر چل کھڑے ہوئے۔ دو چار روز تو یہ حالت رہی کہ جہاں ماہِ عالم نے کہا، ’’حضرت! اب تو میں تھک گیا۔‘‘ تو کسی گاؤں میں ٹھہر جاتے، لیکن پھر ان کو بھی چلنے کی عادت ہو گئی اور پوری منزل چلنے لگے۔ مہینہ بھر میں اجمیر شریف پہنچے۔ یہاں ان صاحب کے پیر جو بغداد کے رہنے والے تھے، ملے۔ ان پیر صاحب کو جب ماہِ عالم کا حال معلوم ہوا تو وہ بھی مہربانی سے پیش آئے اور ان دونوں کو ساتھ لے کر بمبئی چلے گئے۔ بمبئی کے قریب باندرہ میں شاہ صاحب رہتے تھے۔ وہیں ان کو بھی رکھا اور کئی برس یہاں رہ کر ماہِ عالم نے قرآن شریف اور مسئلہ مسائل کی کتابیں پڑھیں اور نماز روزے سے خوب واقف ہوگئے۔

    (ممتاز ادیب، صحافی اور مضمون نگار خواجہ حسن نظامی کے قلم سے، انھوں‌ نے غدر 1857ء کے بعد شاہی خاندان کی شخصیات پر پڑنے والی افتاد کا تذکرہ نہایت درد ناک انداز میں‌ کیا ہے، یہ تحریر ان کے ایک مجموعہ مضامین سے منتخب کی گئی ہے)