Tag: مغل طرز تعمیر

  • دلّی کی وہ تاریخی مساجد جنھیں بادشاہوں یا شاہی خاندان کی شخصیات نے تعمیر کروایا

    دلّی کی وہ تاریخی مساجد جنھیں بادشاہوں یا شاہی خاندان کی شخصیات نے تعمیر کروایا

    برصغیر میں مغل بادشاہت قائم ہونے سے پہلے دہلی پر مسلمانوں کی حکومت رہی اور سلطان شہاب الدّین غوری کے ہندوستان کا رُخ کرنے کے بعد یہاں‌ مختلف عمارتوں کے ساتھ خاص طور پر مساجد بھی تعمیر گئیں۔ اس زمانے کی اکثر آج نہایت شکستہ حالت میں‌ ہیں لیکن مغلیہ دور میں دہلی میں تعمیر ہونے والی بعض‌ مساجد کسی حد تک بہتر حالت میں‌ ہیں۔ یہ ایسی ہی چند قدیم مساجد کا تذکرہ ہے۔

    مسجدِ قوّتُ اسلام
    دہلی میں‌ پہلے پہل 1191ء میں مسلمانوں‌ کی حکومت قائم ہوئی تو مہرولی کو انھوں‌ نے بھی اپنا پایۂ تخت بنایا۔ پرتھوی راج کا 1143ء میں بنوایا ہوا ایک مندر وہاں‌ پہلے سے موجود تھا جس میں پوجا کرنے والے اب نہیں‌ رہ گئے تھے۔ بادشاہ قطب الدّین ایبک نے اس مندر توڑ پھوڑ کر برباد کرنے یا اسے کسی دوسرے کام میں‌ لانے کے بجائے مسجد میں تبدیل کرنے کا حکم دے دیا تاکہ عبادت خانہ عبادت کرنے والوں کے بدل جانے کے بعد بھی عبادت خانہ ہی رہے۔

    جب یہ مسجد بنائی گئی تو قطب الدّین نے اس کے پورب والے دروازے پر فتحِ دلّی کی تاریخ‌ کندہ کروا دی۔ سلطان قطب الدّین کے وقت اس مسجد کی لمبائی 72 گز اور چوڑائی 50 گز تھی۔ (چند برس بعد اس کی عمارت میں مزید تبدیلیاں‌ کی گئیں)

    پرانے قلعے کی مسجد
    پرانے قلعے کی مسجد کے بارے میں دو نظریے ہیں۔ ایک یہ کہ اسے شیر شاہ سوری نے 1541 میں‌ بنوایا تھا اور دوسرا نظریہ یہ ہے کہ اسے خود ہمایوں‌ بادشاہ نے بنوایا تھا۔

    مسجد کے سامنے کا حصّہ لال پتھر کا بنا ہوا ہے اور اس میں سنگِ مرمر کا استعمال بھی ہے۔ قرآن کی آیتیں‌ اور بیل بوٹے پتھروں‌ کو کاٹ کر بنائے گئے ہیں۔ اس مسجد کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کے اندر طاقوں‌ اور دروں کے اوپر دوسری مسجدوں کے برخلاف آںحضرت صلّی علیہ وسلم سے پہلے کے انبیاء مثلاً حضرت آدم، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ‌ وغیرہ کے نام بھی کندہ ہیں۔

    مسجد خیرُ المنازل
    1561ء میں‌ اکبر بادشاہ کی انّا ماہم بیگم نے پرانے قلعے کی فصیل کے باہر ایک مسجد اور اس میں ایک مدرسہ بنوایا تھا جسے خیر المنازل کہا جاتا ہے۔ یہ چونے اور لال پتھر سے بنی ہوئی بہت خوب صورت عمارت تھی۔ خیرالمنازل تاریخی نام ہے۔ مسجد کی پیشانی پر فارسی زبان میں ایک کتبہ لگا ہوا ہے۔

    جامع مسجد شاہجہانی
    شاہ جہاں‌ کی بنوائی ہوئی یہ مسجد شہر کے بیچوں بیچ ایک چھوٹی سی پہاڑی پر واقع ہے۔ مگر وہ پہاڑی مسجد کے رقبہ میں ایسی گم ہوئی کہ نظر نہیں‌ آتی اور اب اس کی کرسی کا کام دیتی ہے۔

    جامع مسجد کی بنیاد 1650ء میں پڑی۔ اس مسجد میں روزانہ پانچ ہزار راج مزدور اور سنگ تراش کام کرتے تھے۔ یہ مسجد چھے سال میں یعنی 1656ء میں دس لاکھ روپے کے خرچ سے تعمیر ہوئی۔

    مسجد فتح پوری
    یہ مسجد شاہ جہاں‌ کی بیوی نواب فتح‌ پوری بیگم نے بنوائی تھی جو 1650ء میں بن کر تیّار ہوئی۔ یہ مسجد ساری کی ساری لال پتھر کی ہے اور اس کا گنبد بھی اسی پتھر کا ہے۔

    موتی مسجد
    یہ مسجد لال قلعہ کے اندر ہے اور مسجدِ‌ بیت کی حیثیت رکھتی ہے۔ شاہ جہاں کے زمانے میں لال قلعہ میں‌ کوئی مسجد نہیں تھی اور بادشاہ جامع مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے جاتا تھا۔ بعد میں اورنگزیب نے قلعہ میں باغ حیات بخش سے متصل یہ مسجد بنوائی۔ چھوٹی ہونے کے باوجود اس میں‌ مسجد کے تمام اوصاف موجود ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اس مسجد کی تیاری میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے خرچ ہوئے تھے۔

    مسجد زینتُ‌ المساجد
    یہ مسجد لال قلعہ کے باہر جنوب مغرب کی طرف دریا کے کنارے ہے۔ اسے عالمگیر کی بیٹی زینت النساء بیگم نے 1710ء میں‌ بنوایا تھا۔ اور اس میں‌ اپنے دفن ہونے کی جگہ بھی رکھی تھی۔ بعد میں‌ وہیں پر دفن ہوئی۔ یہ مسجد بہت خوب صورت ہے اور پوری لال پتھر کی ہے۔

    مسجد شرف الدّولہ
    یہ مسجد دریبے کے بازار میں ہے۔ اس مسجد کو شرف الدّولہ نے محمد شاہ بادشاہ کے عہد میں 1722ء میں‌ بنوایا تھا۔ یہ مسجد چونے اور اینٹ کی بنی ہوئی ہے۔

    (ماخوذ:‌ دہلی کی چند تاریخی عمارتیں، مؤلفہ زہرہ مشیر )

  • مشہور حویلیاں‌ جو خستہ حال اور مخدوش حالت میں ہیں

    مشہور حویلیاں‌ جو خستہ حال اور مخدوش حالت میں ہیں

    ہندوستان میں جہاں‌ شان دار محلّات اور قلعے عہدِ کہنہ کی یادگار ہیں‌، وہیں صدیوں قبل تعمیر کی گئیں امرا اور رؤسا کی حویلیاں بھی دیدنی ہیں۔ اگرچہ آج ان کی چمک دمک ماند پڑچکی ہے اور ان میں‌ سے بیش تر خستہ حال اور مخدوش ہیں، لیکن ان کے در و دیوار شان و شوکت اور اپنے زمانے کی کہانی ضرور سناتے ہیں۔ یہاں‌ ہم قارئین کی دل چسپی کے لیے لاہور کی ایسی ہی چند حویلیوں کا تذکرہ کررہے ہیں۔

    مبارک حویلی کو تین بھائیوں میر بہادر علی، میر نادر علی اور میر بابر علی نے تعمیر کروایا تھا۔ سکھ عہد کے آخری سالوں میں سردار کہر سنگھ سندھانوالیہ کے زیرِ تصرف آگئی۔ اس دوران اس کی عمارت میں بے شمار تغیر و تبدل کیا گیا۔ مشرق کی طرف بڑا دروازہ نکالا گیا۔ بڑے بڑے دالان، صحن و عمارات جدید طرز پر بنوائی گئیں۔

    وزیر خان نے شاہ عالمی دروازے کے اندر پری محل کے نام سے ایک حویلی تعمیر کروائی۔ اس کے دو درجے تھے۔ ایک زنانہ دوسرا مردانہ۔ سکھ عہد کے اوّلین دور میں پہلے تو تین سکھ سرداروں نے اس کے پتھر نکلوائے اور فروخت کیے۔ جب مہاراجہ رنجیت سنگھ کا دور آیا تو اس نے اس حویلی میں فوج اور گولہ بارود رکھا۔ اس کی بڑی بڑی عمارات گرا کر کھلا میدان بنا دیا گیا۔ انگریزی عہد میں محمد سلطان ٹھیکیدار نے اس کو خرید کر یہاں سے اینٹیں نکلوائیں اور پھر لنڈا بازار و سرائے کی عمارات تعمیر کروائیں۔

    قدیم عمارات میں ایک اندھی حویلی بھی شامل ہے۔ چوں کہ اس کی مسقّف ڈیوڑھی میں بہت اندھیرا رہتا تھا، اس لیے اندھی حویلی کے نام سے مشہور ہوئی۔ شاہ جہاں کے عہد میں نواب وزیر خان کی نظامت کے وقت یہ حویلی ایک امیر ہندو نے تعمیر کروائی تھی۔ سکھ عہد کی غارت گری کے وقت اس کے وارث حویلی سے نکل گئے۔ لاہور شہر جب تین سرداروں کے قبضے میں تھا، آرائیں خاندان کے تین افراد حویلی میں متمکن ہوگئے۔

    نواب زکرّیا خان کے عہد میں، میر جواد نے حویلی میر جواد دہلی دروازے میں تعمیر کروائی۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے پنڈت گنگا رام کو یہ حویلی دی جو اس کا مالیاتی امور کا وزیر تھا۔

    شہرِ قدیم کے وسطی حصّہ چوک رنگ محل کے نزدیک چوک ڈبی اور موتی بازار کے درمیان کابلی مَل نے اپنی حویلی تعمیر کی جو اس وقت (1763 – 67ء) لاہور کا گورنر تھا۔

    رنجیت سنگھ کے عہد میں لوہاری دروازے کے اندر مہاراجہ کھڑک سنگھ نے حویلی تعمیر کی۔ اس کے ایک طرف کونے میں مسجد تھی۔ کھڑک سنگھ نے اپنی حویلی کی عمارت میں خم ڈال لیا، مگر مسجد کو نہ گرایا، جب تک زندہ رہا امام مسجد کے لیے دس روپے ماہوار مقرر کیے رکھا۔

    مہاراجہ کھڑک سنگھ کے فرزند نونہال سنگھ نے موری دروازے کے قریب اپنی حویلی تعمیر کروائی جس میں بڑے بڑے دالان سہ نشین، تہ خانے اور بالا خانے بنائے گئے۔ چھتوں پر طلائی اور شیشے کا کام کروایا۔ بوقتِ تعمیر حویلی کی وسعت کے لیے رعایا کے مکانات زبردستی لے لیے گئے۔

    بھاٹی دروازہ کے اندر بازارِ حکیماں میں فقیر خاندان کے تین بھائیوں سید عزیز الدین، سید نور الدین، اور سید قمر الدین نے اپنی حویلی تعمیر کی۔ اس کے کچھ حصے میں آج کل فقیر خانہ میوزیم بنا دیا گیا ہے۔

    سکھ عہد کے کشمیر کے گورنر نواب امامُ الدّین خان نے لوہاری دروازے کے پاس ہی اپنی حویلی نواب امام دین تعمیر کی۔

    دہلی دروازے کے اندر چوک وزیر خان کے قرب میں سکھ عہد میں حویلی راجہ ناتھ تعمیر کی گئی۔ سکھ عہد میں تعمیر کی جانے والی حویلیوں کے فنِ تعمیر کا اگر جائز ہ لیا جائے تو کئی پہلو سامنے آتے ہیں اور ان حویلیوں کے فنِ تعمیر کی بنتی بگڑتی شناخت کے خدوخال واضح ہونے لگتے ہیں۔

    ڈاکٹر سیف الرحمٰن نے لکھا ہے کہ یہ حویلیاں وقوع کے اعتبار سے یا تو قلعے کے قریب ہیں یا پھر ان کی جائے تعمیر شہر پناہ کے دروازوں کے قرب میں ہے۔ سکھ عہد کی حویلیوں میں چھتوں پر نقّاشی، شیشے کا کام اور دیواروں پر تزئین و آرائش کے بہت اعلیٰ نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں جو اپنی صنّاعیِ مہارت اور دل کشی میں اپنی مثال آپ ہیں۔

    آج اتنی صدیاں گزرنے کے بعد بھی عہدِ کہنہ کی یہ یادگاریں اور عہدِ پارینہ کے یہ مٹتے ہوئے نقوش بہت دل کش اور نظر گرفتہ ہیں۔

    (پاکستان کے آثارِ قدیمہ سے اقتباس)