Tag: مفکر

  • پاکستانیوں کے پسندیدہ، لبنانی شاعر خلیل جبران کے وہ اقوال جو آپ نے کبھی نہیں پڑھے

    پاکستانیوں کے پسندیدہ، لبنانی شاعر خلیل جبران کے وہ اقوال جو آپ نے کبھی نہیں پڑھے

    معروف مفکر، شاعر، اور مصور خلیل جبران کا آج 137 واں یوم پیدائش ہے، خلیل جبران کو پڑھنے والوں کی بڑی تعداد پاکستان میں بھی موجود ہے۔

    لبنان کے شہر بشری میں پیدا ہونے والے خلیل جبران نے اپنے خاندان کے ساتھ بہت کم عمری میں امریکا کی طرف ہجرت کرلی تھی۔ ان کی نصف ابتدائی تعلیم لبنان، جبکہ نصف امریکا میں مکمل ہوئی۔

    خلیل جبران مفکر شاعر ہونے کے ساتھ ایک مصور بھی تھے۔ انہوں نے اپنی مصوری میں قدرت اور انسان کے فطری رنگوں کو پیش کیا۔

    جبران کی شہرہ آفاق کتاب ’دا پرافٹ (پیغمبر)‘ ہے جس میں انہوں نے شاعرانہ مضامین تحریر کیے۔ یہ کتاب بے حد متنازعہ بھی رہی، بعد ازاں یہ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن گئی۔

    خلیل جبران شیکسپیئر کے بعد سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شاعر ہیں۔ وہ ایک مفکر بھی تھے۔ انہوں نے اپنے اقوال میں زندگی کے ایسے پہلوؤں کی طرف توجہ دلائی جو عام لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل تھے۔

    آئیں ان کے کچھ اقوال سے آپ بھی فیض حاصل کریں۔

    ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ غاروں میں رہنے والے اب بھی موجود ہیں۔ ہاں، یہ غار ہمارے دلوں میں بنے ہوئے ہیں۔

    وہ شخص جو موت کی تمنا لے کر بھی اپنے عزیز و اقارب کے لیے جیے جا رہا ہے، زندگی اس کے لیے اذیت سے بھری ہوئی ہے۔

    اگر تمہارا دل آتش فشاں ہے، تو تم اس میں سے پھول کھلنے کی توقع کیسے کرسکتے ہو؟

    میں نے باتونی سے خاموشی سیکھی، شدت پسند سے برداشت کرنا سیکھا، نامہربان سے مہربانی سیکھی، اور کتنی حیرانی کی بات ہے کہ میں ان استادوں کا شکر گزار نہیں ہوں۔

    خود محبت بھی اپنی گہرائی کا احساس نہیں کر پاتی جب تک وہ جدائی کا دکھ نہیں سہتی۔

    بے شک وہ ہاتھ جو کانٹوں کے تاج بناتے ہیں، ان ہاتھوں سے بہتر ہیں جو کچھ نہیں کرتے۔

    تم جہاں سے چاہو زمین کھود لو، خزانہ تمہیں ضرور مل جائے گا۔ مگر شرط یہ ہے کہ زمین کامیابی کے یقین کے ساتھ کھودو۔

    حیرت ہے کہ مجھ میں موجود اچھائی نقصان کے سوا مجھے کچھ نہیں دیتی، جبکہ مجھ میں موجود برائی نے مجھے کبھی نقصان نہیں دیا۔ تاہم اچھائی سے میری وارفتگی جاری ہے۔

    ہم میں سے زیادہ تر لوگ خاموش بغاوت اور چرب زبان اطاعت کے درمیان مشکوک طور پر معلق ہیں۔

    خدا سے قربت چاہتے ہو تو اس کے بندوں کے قریب ہو جاؤ۔

    بناؤ سنگھار کرنے والا اپنی بدنمائی و بدصورتی کی تائید کرتا ہے۔

    کچھ لوگ اپنے کانوں سے سنتے ہیں، کچھ اپنے پیٹ سے، کچھ اپنی جیب سے اور کچھ ایسے بھی ہیں جو سنتے ہی نہیں۔

    بدنیت اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔

    شاعر تو وہ ہے جس کی غزل پڑھنے کے بعد آپ یہ محسوس کریں کہ اس کے بہترین اشعار تو ابھی کہے نہیں گئے۔

  • مفکر و شاعر خلیل جبران کا 135 واں یوم پیدائش

    مفکر و شاعر خلیل جبران کا 135 واں یوم پیدائش

    معروف مفکر، شاعر، اور مصور خلیل جبران کا آج 135 واں یوم پیدائش ہے۔ خلیل جبران شیکسپیئر کے بعد سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شاعر ہیں۔

    لبنان کے شہر بشری میں پیدا ہونے والے خلیل جبران نے اپنے خاندان کے ساتھ بہت کم عمری میں امریکا کی طرف ہجرت کرلی تھی۔ ان کی نصف ابتدائی تعلیم لبنان، جبکہ نصف امریکا میں مکمل ہوئی۔

    خلیل جبران مفکر شاعر ہونے کے ساتھ ایک مصور بھی تھے۔ انہوں نے اپنی مصوری میں قدرت اور انسان کے فطری رنگوں کو پیش کیا۔

    art-1

    جبران کی شہرہ آفاق کتاب ’دا پرافٹ (پیغمبر)‘ ہے جس میں انہوں نے شاعرانہ مضامین تحریر کیے۔ یہ کتاب بے حد متنازعہ بھی رہی۔ بعد ازاں یہ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن گئی۔

    خلیل جبران ایک مفکر بھی تھے۔ انہوں نے اپنے اقوال میں زندگی کے ایسے پہلوؤں کی طرف توجہ دلائی جو عام لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل تھے۔

    آئیے ان کے کچھ اقوال سے آپ بھی فیض حاصل کریں۔

    اگر تمہارا دل آتش فشاں ہے، تو تم اس میں سے پھول کھلنے کی توقع کیسے کرسکتے ہو؟

    میں نے باتونی سے خاموشی سیکھی، شدت پسند سے برداشت کرنا سیکھا، نامہربان سے مہربانی سیکھی، اور کتنی حیرانی کی بات ہے کہ میں ان استادوں کا شکر گزار نہیں ہوں۔

    خود محبت بھی اپنی گہرائی کا احساس نہیں کرپاتی جب تک وہ جدائی کا دکھ نہیں سہتی۔

    بے شک وہ ہاتھ جو کانٹوں کے تاج بناتے ہیں، ان ہاتھوں سے بہتر ہیں جو کچھ نہیں کرتے۔

    کیا یہ عجیب بات نہیں کہ جس مخلوق کی کمر میں مہرے نہیں، وہ سیپی کے اندر مہرہ دار مخلوق سے زیادہ پر امن زندگی بسر کرتی ہے۔

    تم جہاں سے چاہو زمین کھود لو، خزانہ تمہیں ضرور مل جائے گا۔ مگر شرط یہ ہے کہ زمین کامیابی کے یقین کے ساتھ کھودو۔

    گزرنے والا کل آج کی یاد ہے، آنے والا کل آج کا خواب ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ‘رومی تمہارا نہیں ہے’

    ‘رومی تمہارا نہیں ہے’

    کابل: افغانستان نے ایران اور ترکی کی جانب سے مشہور صوفی شاعر اور مفکر جلال الدین رومی کو اپنا قومی ورثہ قرار دینے کی درخواست پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے افغان ورثہ قرار دینے کے لیے کوششیں شروع کردی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق تہران اور انقرہ رومی کی تخلیقات کو مربوط کر رہے ہیں جس کے بعد اسے اقوام متحدہ کے کتابچے ’عالمی یادیں‘ میں اپنے مشترکہ ثقافتی ورثے کی حیثیت سے جمع کروائیں گے۔

    rumi-3

    اقوام متحدہ کے تعلیم، سائنس اور ثقافتی ادارے یونیسکو نے 1997 میں اس کتابچے کی بنیاد ڈالی تھی۔ اس کتابچے کا مقصد خاص طور پر جنگ زدہ اور شورش زدہ ممالک کے ادبی ورثے کو جمع اور محفوظ کرنا ہے۔

    اس سلسلے میں رومی کو ’اپنا‘ ثقافتی ورثہ قرار دینے کی ترک اور ایرانی کوششوں کو افغانستان نے مسترد کرتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔

    رومی بلخ میں پیدا ہوئے تھے جو اب افغانستان کا حصہ ہے۔ افغان ثقافت و نشریات کی وزارت کے مطابق رومی ان کا فخر ہے۔

    ترجمان وزارت ہارون حکلیمی نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا، ’یونیسکو نے کبھی بھی ہم سے اس بارے میں رائے نہیں مانگی۔ لیکن ہم پرامید ہیں کہ ہم اپنا دعویٰ ثابت کردیں گے‘۔

    rumi-4

    رومی کی تصنیفات امریکا میں بیسٹ سیلر میں شمار ہوتی ہیں۔ ان کی تخلیقات کو 23 زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے۔

    رومی کی زندگی پر ایک ہالی ووڈ فلم بھی بنائی جارہی ہے جس میں مرکزی کردار آسکر ایوارڈ یافتہ لیونارڈو ڈی کیپریو کر رہے ہیں۔

    بلخ کے گورنر جنرل عطا محمد نور نے اقوام متحدہ میں افغان نمائندے کو اس مسئلہ کو اقوام متحدہ کے سامنے اٹھانے اور اس پر احتجاج کرنے کو کہا ہے۔

    ان کا کہنا ہے، ’رومی کو صرف 2 ممالک تک محدود کرنا ناانصافی ہے۔ رومی ایک عالمی مفکر ہے اور دنیا بھر میں اس کے چاہنے والے موجود ہیں‘۔

    rumi-1
    رومی کی آرام گاہ

    مشہور صوفی شاعر اور مفکر جلال الدین رومی 1207 میں بلخ میں پیدا ہوئے تھے جو اس وقت افغانستان کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے لیکن رومی کے زمانے میں یہ ایک مذہبی دارالخلافہ تھا اور بدھوں اور فارسی ادب کا مرکز تھا۔

    بعض مؤرخین کے مطابق بلخ نامی ایک اور علاقہ موجودہ تاجکستان میں بھی موجود تھا اور رومی وہیں پیدا ہوئے۔ منگول جنگجو چنگیز خان نے بھی 1221 میں اس پر حملہ کیا تھا۔

    منگولوں کے حملے کے دوران رومی نے وہاں سے ہجرت کرلی اور بغداد، مکہ اور دمشق کا سفر کرتے ہوئے ترکی کے شہر قونیہ آگئے جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے 50 سے زائد برس گزارے۔

    یہیں ان کی ملاقات شمس تبریزی سے ہوئی۔ شمس تبریزی نے رومی کے خیالات و افکار پر گہر اثر ڈالا۔

    rumi-2

    افغانیوں کے مطابق رومی نے جہاں اپنے بچپن کا کچھ حصہ گزارا وہ گھر اب بھی بلخ میں موجود ہے۔

    رومی نے 3500 غزلیں، 2000 رباعیات اور رزمیہ نظمیں لکھیں۔

    رومی کا مزار ترکی کے شہر قونیہ میں ہے جہاں رومی کی رباعیات پر کیا جانے والا صوفی رقص پوری دنیا میں مشہور ہے۔