Tag: مقامی زبانیں

  • برصغیر پاک و ہند کی زبانوں اور ادبی روایات میں لکھی گئی تحریریں

    برصغیر پاک و ہند کی زبانوں اور ادبی روایات میں لکھی گئی تحریریں

    برصغیر میں ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش شامل ہیں۔ تینوں ممالک کے درمیان سیاسی تقسیم بیسویں صدی میں ہوئی؛ اس سے قبل سارا خطہ ہندوستان ہی کہلاتا تھا۔

    صدیوں تک ہندوستانی معاشرہ تنوع سے عبارت رہا۔ جدید ہندوستان کے لوگ 18 بڑی زبانیں اور کئی چھوٹی زبانیں بھی بولتے ہیں۔ پاکستان کی سرکاری زبان اُردو جبکہ بنگلہ دیش کی بنگالی ہے۔ ساری تاریخ کے دوران مسلسل بیرونی لوگوں کو اپنے اندر جذب کرنے کے باعث ہندوستانی ادب دنیا کا بھرپور ترین ادب بن گیا۔ قدیم ہندوستان میں سنسکرت ہی غالب رہی اور فلسفیانہ و ادبی تحریروں میں استعمال ہوئی۔ چھٹی صدی قبل مسیح میں بدھ مت اور جین مت کے مقبول ہونے پر پالی زبان میں ادب کو فروغ ملا اور سنسکرت کے متعدد لہجے (پراکرت) بھی پیدا ہوئے۔ دریں اثناء دراوڑی زبان تامل جنوب کے علاقے میں اہم ترین زبان بنی۔ تامل زبان میں ریکارڈ شدہ ادب پہلی صدی عیسوی کا ہے۔ تامل، تیلگو، کناڈا اور ملیالم میں بھی ادب لکھا گیا۔

    دسویں اور اٹھارہویں صدی کے دوران قدیم زبانوں کے نئے لہجے وجود میں آئے اور ہندوستان کی جدید زبانیں تشکیل پائیں۔ اس کے ساتھ ادبی اصناف اور موضوعات میں بھی تنوع پیدا ہوا،نیز فارسی زبان و ادب نے بھی ہندوستانی ادب کو متاثر کیا۔ اسلامی فلسفہ و روایات کا رنگ بھی موجود ہے۔ ہندوستان کا تیسرا اہم مذہب جین مت تھا جس کی بنیاد مہاویر نے رکھی۔ ابتدائی جین ادب پراکرت لہجوں میں پروان چڑھا۔ بودھی اور جین مصنفین نے سنسکرت زبان میں بھی کئی کتب تصنیف کیں۔ اس کے بعد ہیروئی یا سورمائی ادب کا دور آتا ہے۔ ہندوستان کی مشہور ترین قدیم رزمیہ داستانیں ’’مہا بھارت‘‘ اور ’‘رامائن‘‘ ہیں جو کئی صدیوں کے دوران سنسکرت زبان میں لکھی گئیں۔ ان میں بتایا گیا ہے کہ آریاؤں نے ہندوستان پر کیسے کنٹرول حاصل کیا۔ مہا بھارت کی تحریری صورت کو افسانوی شاعر و مؤلف ویاس سے منسوب کیا جاتا ہے، لیکن اس نے 400 قبل مسیح اور 400 عیسوی کے دوران اپنی شکل اختیار کی۔ مہا بھارت اصل میں بھارت یا بھرت قبیلے کی دو شاخوں کے درمیان تنازع کی کہانی ہے۔ چوتھی صدی عیسوی کے آخر میں جنم لینے والا شاعر کالی داس ممتاز ترین کلاسیکی شعرا میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کی رزمیہ داستانوں میں ’’رگھو وامس‘‘ اور ’’میگھ دوت‘‘ شامل ہیں۔ البتہ اس کا لکھا ہوا کھیل ’’شکنتلا‘‘ (ابھیجان شکنتلا) سب سے زیادہ مشہور ہوا۔ اس ڈرامے میں ایک بادشاہ اور جنگل باسی دوشیزہ شکنتلا کی محبت کی کہانی سنائی گئی ہے۔ جرمن مصنف گوئٹے اور دیگر یورپی اہل قلم پر بھی اس ڈرامے نے گہرا اثر ڈالا۔ سنسکرت ڈرامہ رقص، موسیقی اور شاعری سے بھرپور تھا۔ کالی داس نے مشہور ڈراموں کے علاوہ قابل ذکر کلاسیکی ڈراموں میں ’’مرچھ کٹکا‘‘ از شدرک اور ’’ملاتی مادھو‘‘ از بھوبھوتی شامل ہیں۔ کلاسیکی سنسکرت فکشن میں ’’پنچ تنتر‘‘ از وشنو شرمن سر فہرست ہے۔ گیارہویں صدی کے مصنف سوم دیو کی ’’کتھا سرت ساگر‘‘ تاجروں، بادشاہوں وغیرہ کے عشقیہ قصوں کا مجموعہ ہے۔ پنچ تنتر اور کتھا سرت ساگر نے الف لیلہ ولیلہ کے لیے بنیاد مہیا کی۔ سنسکرت شاعروں نے قطعات (مکتک) بھی لکھے۔ ساتویں صدی میں بھرتری ہری اور امارو نے مکتک کا استعمال کیا۔ سنسکرت نے درباری ادب کے ساتھ ساتھ ’’پرانوں‘‘ کی روایت کو بھی پروان چڑھایا۔ اٹھارہویں صدی کے سندھی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی اور پنجابی شاعر بلھے شاہ نے کافی کی صنف کو فروغ دیا۔

    البتہ مغل شہنشاہوں اکبر، جہانگیر، شاہ جہاں اور اورنگزیب نے فارسی زبان کو انتظامی، تعلیمی اور ثقافتی سطح پر متعارف کروایا اور متعدد فارسی اصناف سخن کو ہندوستان میں مقبولیت ملی۔ اس کی ایک اہم مثال اکبر کے درباری ابوالفضل کی لکھی ہوئی ’’اکبرنامہ‘‘ ہے۔ داستان کے انداز کو بھی اپنایا گیا۔ ہندوستانی سیاق و سباق میں فارسی ادب کی اہم ترین صنف غزل ہے جس پر الگ سے بات کی گئی ہے۔ مرزا غالب کی کلاسیکی غزلوں کو اعلیٰ ترین مقام حاصل ہے۔ انگریز 1700ء کی دہائی میں ہندوستان آئے اور 1800ء کی دہائی کے اوائل میں زیادہ تر ہندوستان پر قابض ہو گئے۔ 1835ء میں انگریزوں نے بالائی طبقہ کے ہندوستانیوں کے لیے انگریزی تعلیم متعارف کروائی جس کے باعث ہندوستانیوں کو مغربی خیالات، نظریات، ادبی تحریروں اور اقدار کا علم ہوا۔ ساتھ ہی ساتھ ہندوستانیوں کو اپنا ادبی اور ثقافتی ورثہ نئے زاویوں سے دیکھنے کی تحریک ملی۔ اس قسم کا ایک ترجمہ 1789ء میں سر ولیم جونز نے شکنتلا کا کیا۔ ہندوستان میں پرنٹنگ پریس کے تعارف نے اخبارات و جرائد کی اشاعت ممکن بنائی۔ ان ذرائع ابلاغ کی بدولت ہندوستانیوں کو لکھنے اور تحریریں چھپوانے کے نئے مواقع ملے۔ بنگالی نشاۃ ثانیہ اسی عہد کی پیداوار ہے۔

    ہندوستان میں جدید تحریر کی اولین مثال شاعری تھی۔ مشہور اور نوبیل انعام برائے ادب یافتہ شاعر و ادیب رابندر ناتھ ٹیگور نے شاعری کی روایتی اصناف سے کام لیا، مگر جدت طرازی کے ساتھ۔ دو بنگالی نژاد خواتین شعرا تورو دت اور سروجنی نائیڈو نے انگلش زبان میں خود کو ممتاز کیا۔ تورو دت اکیس برس کی عمر میں ہی مر گئی، لیکن نائیڈو نے سیاست و ادب میں طویل شاندار کیریئر جاری رکھا۔ تامل زبان میں جدید شاعری اور نثر لکھنے والا ابتدائی ترین شاعر سبرامنیم بھارتی ہے۔ دیگر مشہور شعرا سچدآنند واتسیاین، سوریہ کانت ترپاٹھی اور مہادیوی ورما ہیں۔ ہندوستان ادب میں ناول اور افسانہ دونوں ہی نئی اصناف تھے اور انیسویں صدی کے زیادہ تر ہندوستانی ادیبوں نے انہی میں طبع آزمائی کی۔ نئے اہل قلم کا تعلق انگریزی تعلیم کے حامل ہندوستانی طبقے سے تھا اور بنگالی نشاۃ ثانیہ نے ان پر گہرا اثر ڈالا۔ شاعر رابندر ناتھ ٹیگور نے شاعری کے علاوہ بنگالی ناول اور افسانے میں بھی نام کمایا۔ اس کے ہم عصر بنکم چندر چیٹرجی نے انگلش میں ایک ناول ’’Rajmohan’s Wife‘‘ (1864ء) لکھنے کے بعد بنگالی زبان کو ذریعۂ اظہار بنایا۔ دیگر علاقوں کے مصنفین بھی 1800ء کی دہائی کے آخر میں سرگرم ہونے لگے۔ گجراتی زبان میں گوور دھنرم کا ناول ’’سرسوتی چندر‘‘ (1887ء) اور چندو میمن کی ملیالم ’’اندو لیکھا‘‘ (1889ء) قابل ذکر ہیں۔ ان تحریروں کے مرکزی کردار عموماً عورتیں ہیں۔ خانگی زندگی کے مسائل بنگالی ناول نگاروں، مثلاً شرت چندر چیٹری اور اشاپورن دیوی کی تحریروں کا مرکزی موضوع بنے۔ انیسویں صدی کے آخر میں ہندوستانی متوسط طبقے کی خواتین بھی سامنے آئیں، مثلاً پنڈتا راما بائی سرسوتی اور رقیہ سخاوت حسین۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے درمیانی دور میں تین تحریکوں نے ہندوستانی تحریر کو مہمیز دلائی اور متاثر کیا۔ موہن داس گاندھی کی شروع کی ہوئی عدم تعاون، مارکسزم اور سوشل ازم۔ راجا راؤ نے انگریزی ناول ’’کنٹھ پور‘‘ (1938ء) لکھا، جبکہ ملک راج آنند کے دو ناولوں ’’اچھوت‘‘ اور ’’قلی‘‘ کو شہرت ملی۔ منشی پریم چند کا ناول ’’گئو دان‘‘ (36ء) اور بنگالی بندیوپادھیائے کا ’’پتلی کی کہانی‘‘ (57ء) سماجی حقیقت پسندی اور ناانصافی پر تنقید پر زور دیتے ہیں۔ اسی دور میں سر محمد اقبال نے بطور شاعر اور مفکر مقبولیت حاصل کی۔ آر کے نارائن نے اپنے انگریزی ناول ’’Swami and Friends‘‘ (35ء) کے ساتھ کیریئر شروع کیا اور اس کے ناول اپنے کرداروں کے سماجی پن اور انسانی تعلقات پر زور دینے کی وجہ سے معاصر تحریروں میں الگ مقام رکھتے ہیں۔ 1947ء میں ہندوستان مشرقی و مغربی پاکستان اور ہندوستان میں تقسیم ہوا اور ان علاقوں کے ادب کی تاریخ موزوں عنوانات کے تحت دی گئی ہے، جیسے ’’پاکستانی ادب‘‘ اور ’’بنگالی ادب۔‘‘ آزادی کے بعد ایک طرف جوش وخروش اور ولولہ تھا تو دوسری طرف تقسیم کے فسادات کا دکھ۔ بالخصوص پنجاب اور بنگال تقسیم سے متاثر ہوئے۔ 1947ء سے بعد کا زیادہ تر پاکستانی اور ہندوستانی ادب تقسیم پر ہی مرکوز ہے۔ اس کے علاوہ بڑھتی ہوئی بین الاقوامیت نے بھی برصغیر پر اثر ڈالا۔

    (تحریر: یاسر جواد، انسائیکلو پیڈیا ادبیاتِ عالم سے ماخوذ)

  • موسمیاتی آفات سے پاکستان کی پہاڑی زبانیں تباہ ہو رہی ہیں

    موسمیاتی آفات سے پاکستان کی پہاڑی زبانیں تباہ ہو رہی ہیں

    شمالی پاکستان میں 2010ء کا سیلاب اور اس کے درد ناک مناظر، تورولی-کوہستانی لغت نگار، انعام توروالی کی یادداشت میں اب بھی تازہ ہیں۔ پاکستان کی تاریخ کی بدترین انسانی تباہی میں سے ایک، اس سیلاب کی وجہ سے گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے شمالی پہاڑی علاقوں سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی۔ تورولی سمیت کتنے ہی لوگوں کے گھر تباہ ہوگئے۔ ان کے کھیت پانی میں ڈوب گئے جس کی وجہ سے وہ اور ان کے خاندان کو پشتون اکثریتی مینگورہ شہر کی طرف ہجرت کرنی پڑی جو ضلع سوات میں ان کے آبائی شہر سے 59 کلومیٹر دور ہے۔

    موسمیاتی آفات کی وجہ سے پہاڑی علاقوں مکین ہجرت کرنے پر مجبور ہیں اور اس عمل میں ان کی زبانیں اور ثقافتیں شدید متاثر ہو رہی ہیں۔

    تباہی کے اثرات اب بھی باقی ہیں۔ جن میں واضح طور پر ان کی آبائی زبان توروالی کو لاحق خطرہ ہے۔ انہوں نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا، “شہروں کی طرف ہجرت کرنے والے نوجوان، اب غالب زبانوں؛ جیسے، پنجابی، پشتو اور اردو کے بہت سے مستعار الفاظ کے ساتھ یا تو ایک مختلف تورولی بولی بول رہے ہیں، یا بالکل بھی نہیں بول سکتے۔ ان کے بھتیجے اب پشتو بولتے ہیں، جو صوبے کی زبان ہے۔

    توروالی کہتے ہیں، “موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے بحران کی شدّت سے متعلق پہاڑی کمیونٹیز کے پاس کوئی علم نہیں اور اس سے نمٹنے کے لئے کسی قسم کی حکمت عملی سے یہ لاعلم ہیں”۔ مزید براں، گلگت بلتستان کی آب و ہوا کی حکمت عملی ہجرت، اور نقل مکانی کرنے والوں کی ترسیلات کو ایک مثبت موافقت کی حکمت عملی کے طور پر پیش کرتی ہے۔ خیبر پختونخوا کی موسمی حکمت عملی موسمی تبدیلی کے تحت نقل مکانی کو تسلیم کرتی ہے لیکن اس کی موافقت کی حکمت عملی آنے والے مہاجرین کے لئے بہتر شہری منصوبہ بندی کے حوالے سے محدود ہے۔ نہ ہی یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ آب و ہوا کی وجہ سے نقل مکانی، شمالی پاکستان کی ثقافتوں اور زبانوں کو کس طرح متاثر کر سکتی ہے۔

    پہاڑی خطّوں میں چھوٹی آبادیاں غیر محفوظ ہیں
    پاکستان کے پہاڑی شمالی علاقوں میں 30 سے ​​زیادہ ‘خطرے سے دوچار‘ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ان میں سے بہت سی زبانیں صرف چھوٹی آبادی میں بولی جاتی ہیں، جو کہ چند ہزار پر مشتمل ہیں۔ اس خطّے میں آباد کمیونٹیز متعدد موسمی آفات کے خطرے سے بھی دوچار ہیں۔ 500 سے زائد گلیشیئرز رکھنے والے ضلع چترال کو، “17 سالوں میں 2021 تک، 13 سے زیادہ برفانی سیلابوں کا سامنا کرنا پڑا، کئی گھرانے بے گھر ہوئے اور وہ سالوں تک عارضی پناہ گاہوں میں رہنے پر مجبور رہے”۔ گلگت بلتستان میں 2010 کے سیلاب کے علاوہ 1999 سے 2017 تک 15 گلوف (جی ایل او ایف) واقعات ریکارڈ کئے گئے۔

    چھوٹی آبادی کی بولی جانے والی زبانوں پر ان آفات کا بلواسطہ گہرا اثر ہے۔ مثال کے طور پر، جب 2018 میں گلگت بلتستان کے ضلع غذر کا گاؤں بدسوات ایک گلوف (جی ایل او ایف) کا نشانہ بنا، تو واکھی زبان بولنے والے خاندانوں کو مجبوراً گلگت شہر منتقل ہونا پڑا۔ واکھی صرف 40,000 لوگ بولتے ہیں اور یہ گلگت شہر کی زبان نہیں ہے، یہاں نئے مہاجرین کو شینا یا پاکستان کی سرکاری زبان اردو میں بات چیت کرنا سیکھنا پڑا۔

    لیکن شینا خود بھی ایسے ہی عوامل کی وجہ سے خطرے کی زد میں ہے۔ گلگت سے تعلق رکھنے والے زبانوں کے محقق محمد وزیر بیگ نے بتایا کہ ان کے بہت سے رشتہ دار جو 1978 اور 2010 کے سیلاب میں اپنا گھر کھو بیٹھے تھے وہ کراچی منتقل ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ، ” جب میں گزشتہ اکتوبر ان سے ملا تو میں نے ان سب کو شینا کے بجائے اردو بولتے ہوئے پایا۔

    لوگوں کے ساتھ ثقافتیں بھی بے گھر ہورہی ہیں
    اسلام آباد میں قائم فورم فار لینگوئج انیشی ایٹو (ایف ایل آئی) کے ڈائریکٹر فخرالدین اخونزادہ نے کہا کہ بڑے پیمانے پر نقل مکانی پہاڑی آبادیوں کو نئی زبانیں سیکھنے پر مجبور کرتی ہے، اور یہ انہیں اس جغرافیہ سے بھی دور کرتا ہے جس نے ان زبانوں کو تشکیل دیا تھا۔ .

    اخونزادہ نے کہا، “یہ زبانیں مویشیوں، کھیتی باڑی، دریاؤں، برف، اور جنگلات والے اونچے پہاڑوں سے مالا مال مخصوص ماحول میں تیار ہوئیں – یہ سب اب موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے خطرے میں ہیں۔” انہوں نے بتایا کہ یہ زبانیں دوسرے خطوں میں بے گھر ہونے والے لوگوں کے لئے اپنی اہمیت کھو دیتی ہیں، اور بے گھر ہونے والی آبادی اب اپنے ثقافتی تہوار نہیں مناتی، روایتی کہانیاں نہیں سناتی یا اپنی مادری زبان میں بات چیت نہیں کرتی۔ اس سے ان کی مادری زبانوں میں مہارت بتدریج ختم ہو جاتی ہے۔

    سمیع اللہ ارمان، جو ایڈورڈ کالج، پشاور میں پڑھاتے ہیں، اسے زبان کی “مارکیٹ ویلیو” میں گراوٹ بتاتے ہیں، کیونکہ یہ لوگوں کو اپنے اردگرد کا ماحول سمجھنے میں مدد نہیں دیتی۔ “کسی زبان کی مارکیٹ ویلیو جتنی زیادہ ہوگی، اتنے ہی زیادہ لوگ اسے بولیں گے، اور یہ پھلے پھولے گی،” ارمان نے کہا، جو مقامی زبانوں کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی ایک تحقیقی اور ترقیاتی تنظیم، مفکورہ میں شعبہ زبان، ادب اور ثقافت کے سربراہ بھی ہیں۔

    ارمان سے اتفاق کرتے ہوئے پشاور یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی اور اطلاقی لسانیات کے سربراہ امجد سلیم نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا کہ قدرتی آفات کی وجہ سے نقل مکانی صرف افراد کی نہیں بلکہ ثقافتوں کی نقل مکانی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا، “جب یہ بے گھر خاندان نقل مکانی کرتے ہیں، وہ غالب زبان بولنے پر مجبور ہوتے ہیں کیونکہ اسکولوں اور بازاروں میں ان کی مادری زبان بہت کم بولی جاتی ہے۔ وہ اپنی بیگانگی کے احساس پر قابو پانے کے لئے تیزی سے غالب زبان سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، اور اس طرح ایک زبان آہستہ آہستہ ختم ہوجاتی ہے۔”

    زبانیں جو صرف گھروں میں بولی جاتی ہیں
    پشاور یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی اور اطلاقی لسانیات کی ریٹائرڈ استاد ڈاکٹر روبینہ سیٹھی نے اس بات پر زور دیا کہ خواتین کسی زبان کو محفوظ کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، لیکن اس تحفظ کا اثر اس بات پر منحصر ہے کہ بچوں کو ان کے گھروں سے باہر کیا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ “اگرچہ زبان ان کے گھروں کے اندر ان کے دلوں کے قریب اور پیاری ہو سکتی ہے، لیکن باہر اس کی افادیت کا فقدان انہیں اس خطے کی غالب زبان کو اپنانے پر مجبور کرتا ہے” جہاں وہ اب آباد ہوئے ہیں۔

    اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے، عصمت اللہ دمیلی، ایک محقق جنہوں نے 2000 میں دمیلی زبان کے حروف تہجی مرتب کیے، نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا، “ہم اپنی مادری زبان صرف اپنے گھروں کے اندر بولنے کو ترجیح دیتے ہیں… اس حقیقت کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ ایک وقت آئیگا جب آنے والی نسلیں اسے بولنے کے قابل نہیں رہیں گی۔” دمیلی زبان صرف 5,000 لوگ بولتے ہیں، اور چترال ضلع میں واقع دمیل ویلفیئر سوسائٹی کے مطابق جو زبان کے تحفظ کے لئے کام کرتی ہے – اس آبادی کا تقریباً 40 فیصد 2010 کے سیلاب کے بعد مختلف شہروں میں منتقل ہو گیا۔

    ٹھوس ڈیٹا کی کمی کسی اقدام کے راستے میں رکاوٹ ہے
    نقل مکانی متعدد عوامل سے ہوتی ہے، اور موسمیاتی تبدیلی اور جبری نقل مکانی کے درمیان ایک خطی اور اسبابی تعلق قائم کرنا مشکل ہے۔ بہرحال، پشاور یونیورسٹی کے شعبہ سوشیالوجی میں ماحولیاتی سماجیات کے پروفیسر ڈاکٹر اویس احمد نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی خیبر پختونخواہ اور گلگت بلتستان کے شمالی علاقوں سے خاص طور پر 2010 کے بعد نقل مکانی کا بنیادی محرک ہے۔ انہوں نے کہا،”لوگ ایک اور بڑی آفت سے بچنے کے لیے اور اپنے خاندانوں کا پیٹ پالنے کے لئے سب کچھ کریں گے، اس لئے وہ اکیلے یا اپنے خاندان کے ساتھ پہاڑوں سے نیچے آجاتے ہیں”۔

    انعام تورولی نے اپنے تحقیقی مطالعے بعنوان “فیوچر آف توروالی مائیگرانٹس ان اربن سٹیز” میں بتایا ہے کہ 90 فیصد مہاجر خاندان مالی مجبوریوں کی وجہ سے اپنے آبائی شہروں کو واپس نہیں آئے۔ ایک قدیم ایرانی زبان یدغہ جو صرف 6,000 لوگ بولتے ہیں، کے تحفظ کے لئے وقف محقق محمد ولی، نے مزید کہا، “موسمیاتی تبدیلیوں نے پہلے سے غربت کے شکار پہاڑی علاقوں کو مزید غریب کردیا ہے اور نقل مکانی کو بڑھا دیا ہے۔ جن کے پاس ہجرت کے ذرائع ہیں وہ پہلے ہی ایسا کر چکے ہیں، پیچھے صرف وہ لوگ رہ گئے ہیں جو ضروری وسائل سے محروم ہیں۔”

    جس طرح ریاست کو موسمیاتی تبدیلی اور نقل مکانی کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے، ارمان نے کہا کہ اسے ثقافتوں کے مزید زوال کو روکنے کے لئے حکمت عملی کے طور پر موسمیاتی تبدیلی کی پالیسیوں میں زبان کے نقصان کے مسئلے کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ سلیم نے اتفاق کرتے ہوئے مزید کہا، “یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ نصاب میں تمام زبانوں کو شامل کرنے کے لئے اقدامات کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ وہ نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کے بچوں کو پڑھائی جائیں اگر اس کا ارادہ چھوٹی زبانوں کو محفوظ کرنے کا ہے۔”

    (فواد علی کی تحریر ڈائلاگ ارتھ پر اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہے)

  • عدالتی فیصلے کے بعد کیا گاوری، توروالی اور گوجری زبان مردم شماری فارم میں جگہ پالے گی؟

    عدالتی فیصلے کے بعد کیا گاوری، توروالی اور گوجری زبان مردم شماری فارم میں جگہ پالے گی؟

    پشاور: پاکستان کی مقامی زبانیں گاوری، توروالی اور گوجری زبانوں کو مردم شماری فارم میں شامل کرنے کے لیے ان زبانوں کے بولنے والے لوگوں کی کوششیں کچھ حد تک کامیاب ہونے لگی ہیں۔

    پشاور ہائیکورٹ نے مذکورہ زبانوں کو مردم شماری فارم میں شامل کرنے کے لیے مشترکہ مفادات کونسل کو بھیج دیا ہے اور ہدایات جاری کی ہیں کہ اگلا اجلاس جب بھی ہوگا تو تمام امور کا جائزہ لینے کے بعد ان زبانوں کو مردم شماری فارم میں شامل کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں۔

    اس کیس کی پیروی کرنے والے شاہد علی یفتالی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ ہم نے گاوری، توروالی اور گوجری زبان کو مردم شماری فارم میں شامل کرنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا ہے، اس وقت ملک بھر میں نئی مردم شماری جاری ہے، فارم میں یہ زبانیں شامل نہیں ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ ان زبانوں کو بھی مردم شماری فارم میں شامل کیا جائے۔

    عدالت نے اب اس معاملے کو مشترکہ مفادات کونسل بھیج دیا ہے، لیکن اس وقت ملک میں جاری مردم شماری میں ان زبانوں کو شامل کرنا ممکن نہیں لگ رہا ہے، پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلی تحلیل ہو چکی ہے اور دونوں صوبوں میں نگراں حکومتیں قائم ہیں، متشرکہ مفادات کونسل میں چاروں صوبوں کی نمائندگی ہوتی ہے، پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلی انتخابات کے بعد جب حکومتیں بنیں گی تو پھر کونسل کا اجلاس بلایا جائے گا اور اس کے بعد اس معاملے کو بھی اجلاس میں رکھا جائے گا۔

    ایف ایل آئی ( فورم فار لینگویچ اینیشیٹیو، قومی زبانوں کے حوالے سے کام کر رہی ہے) کے رہنما اعجاز احمد نے بتایا کہ پشاور ہائیکورٹ نے گاوری، توروالی اور گوجری زبانوں کو مردم شماری فارم میں شامل کرنے کا حکم دیا ہے، یہ خوش آئند بات ہے لیکن ہم اب بھی اتنے پرامید نہیں ہیں کہ اتنی آسانی سے ان زبانوں کو مردم شماری فارم میں جگہ مل جائے گی، اس سے پہلے کھوار زبان کا مسئلہ بھی آیا تھا اور 2017 میں لوگ اس کو عدالت لے گئے تھے، پشاور ہائیکورٹ نے اس کیس میں بھی حکم جاری کیا تھا کہ اس کو آئندہ مردم شماری میں شامل کیا جائے لیکن حکومت نے مختلف بہانے بنائے اور ابھی تک اس کو مردم شماری فارم میں شامل نہیں کیا گیا۔

    پاکستان میں کتنی زبانیں بولی جاتی ہیں

    پاکستان میں 73 زبانیں بولی جاتی ہیں، اردو پاکستان کی قومی زبان ہے، 2017 مردم شماری کے مطابق ملک میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان پنجابی ہے، جب کہ دوسرے نمبر پر پشتو اور سندھی زبان تیسرے نمبر پر ہے۔

    پاکستان میں 38.78 فی صد لوگ پنجابی بولتے ہیں

    18.24 فی صد لوگ پشتو بولتے ہیں

    14.57 فی صد لوگ سندھی بولتے ہیں

    12.19 فی صد عوام سرائیکی بولتے ہیں

    قومی زبان اردو بولنے والوں کی تعداد 7.08 فی صد ہے

    3.02 فی صد بلوچی اور 6.12 فی صد لوگ دیگر زبانیں بولتے ہیں

    اعجاز احمد نے بتایا کہ اگر حکومت چاہے تو پاکستان کی تمام زبانوں کو مردم شماری فارم میں شامل کر سکتی ہے، اب تو ڈیجیٹل مردم شماری شروع کی گئی ہے اور نمائندے ٹیبلٹ لے کر گھر گھر جا رہے ہیں اور لوگوں کا ڈیٹا اکٹھا کر رہے ہیں، اب تو بہت آسان ہے کہ تمام زبانوں کو فارم میں شامل کیا جائے، لیکن پھر وہی بات آ جاتی ہے کہ اگر حکومت چاہے تو۔

    اعجاز نے بتایا کہ پاکستان میں جتنی بھی زبانیں بولی جاتی ہیں ان تمام کو مردم شماری فارم میں شامل کرنا چاہیے اور ان زبانوں کو پہچان ملنی چاہیے، زبان ہر قوم کی شناخت ہوتی ہے اور پوری دنیا میں ایسا ہوتا ہے۔ آسٹریلیا میں جتنے پاکستانی ہیں وہ مردم شماری میں زبان کو اپنے نام کے ساتھ ظاہر کر سکتے ہیں، باہر کے ممالک ہمارے لوگوں کو یہ اجازت دے رہے ہیں کہ وہ اپنے نام کے ساتھ زبان کو ظاہر کریں لیکن بدقسمتی سے ہمارے اپنے ملک میں ان کو یہ اجازت نہیں دی جا رہی۔

    توروالی زبان

    توروالی زبان سوات، کوہستان، بحرین میں بولی جاتی ہے اور ایک اندازے کے مطابق اس کے بولنے والوں کی تعداد ایک لاکھ کے قریب ہے۔

    گاوری زبان

    گاوری زبان کالام، دیر کوہستان میں یہ زبان بولی جاتی ہے، اس کے بولنے والوں کی تعداد بھی تقریباً ایک لاکھ ہے۔

    گوجری زبان

    گوجری زبان آزاد کشمیر، سوات اور خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع میں بولی جاتی ہے، اس کے علاوہ پوٹھوہار کے علاقے اور گلگلت میں بھی گوجری بولنے والے ملتے ہیں۔

    اعجاز احمد نے بتایا کہ گوجری کسی خاص ضلع یا علاقے کی زبان نہیں ہے، کشمیر میں اس کے بولنے والوں کی تعداد زیادہ ہے ملک کے دیگر حصوں میں بھی گوجری بولنے والے کی خاصی تعداد موجود ہیں۔

    اعجاز احمد نے بتایا کہ گوجری، توروالی، گاوری زبان کے بولنے والوں کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہے اور اس کی وجہ مردم شماری فارم میں اس کا شامل نہ ہونا ہے، جب مردم شماری فارم میں یہ شامل ہوگا تو پھر صحیح اعداد و شمار سامنے آئیں گے۔

    شاہد علی یفتالی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ پہلے تو حکومتی لوگ ان زبانوں کو مان نہیں رہے تھے، عدالت میں حکومتی نمائندے نے کہا تھا کہ یہ کوئی زبان ہی نہیں ہے، اب عدالت نے اسے مشترکہ مفادات کونسل بھیج دیا ہے، عدالت کے حکم کے بعد اب ان زبانوں کو تحفظ مل گیا ہے، اور یہ اب مردم شماری فارم میں شامل ہوں گے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اب یہ لوگ حکومت سے مطالبہ بھی کر سکتے ہیں کہ ابتدائی نصاب میں بھی اس زبان کو شامل کیا جائے تاکہ ان کے بچے پانچویں جماعت تک اس کو اسکول میں پڑھ سکیں۔

    اعجاز احمد نے بتایا کہ گزشتہ مردم شماری میں حکومت نے 9 نئی زبانوں کو شامل کیا تھا اور اس بار 6 مزید زبانیں شامل کی ہیں، یہ بہت اچھا اقدام ہے لیکن جو علاقائی زبانیں شامل نہیں ہیں ان کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ یہ اچھی بات ہے کہ اب لوگ اس کے لیے عدالت جا رہے ہیں اور عدالت ان زبانوں کو مردم شماری میں شامل کرنے کے احکامات جاری کر رہی ہے، ہمارا یہی مطالبہ ہے کہ آئندہ مردم شماری میں مزید 8 سے 10 زبانیں شامل کی جائیں۔

  • دنیا کا تہذیبی، ثقافتی ورثہ مادری زبانوں‌ کی آغوش میں محفوظ ہے

    دنیا کا تہذیبی، ثقافتی ورثہ مادری زبانوں‌ کی آغوش میں محفوظ ہے

    اکیسویں صدی کے آغاز پر دنیا نے مادری زبانوں کا دن عالمی سطح پر منانا شروع کیا تھا۔

    ہر سال 21 فروری (آج) کو یہ دن اس عزم اور جذبے کے ساتھ منایا جاتا ہے کہ حکومتیں زبانوں کے پھلنے پھولنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کریں‌ گی اور قوموں کو یاد رکھنا ہو گا کہ زبانیں ان کا فخر اور بیش قیمت سرمایہ ہیں۔ یوں یہ دن اس حوالے سے یاد دہانی کے طور پر ہر سال منایا جاتا ہے۔

    زندہ معاشروں میں اس روز مذاکرے، مباحث منعقد ہوتے ہیں اور زبانوں سے متعلق علمی و تحقیقی کاموں کو آگے بڑھانے پر زور دیا جاتا ہے۔ دانش ور اور ماہرینِ لسانیات کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ صاحبانِ اختیار کو مادری زبانوں کے تحفظ، فروغ اور احیا کی طرف متوجہ کریں۔

    آج پاکستان میں بھی یہ دن منایا جارہا ہے۔ قومی زبان اردو کے علاوہ ہمارے ملک کے تمام صوبوں‌ کی اپنی زبان اور مقامی بولیاں‌ ہیں‌ جو ثقافتی تنوع اور تہذیب و روایت کی رنگارنگی کا مظہر ہیں۔

    مادری زبان دراصل ہماری پیدائشی بولی، گھر اور خاندان میں رابطے کا ذریعہ بننے والی زبان ہوتی ہے۔ پاکستان میں اردو زبان کے بعد مختلف بولیاں اور چھوٹی زبانیں بھی رابطے کا ذریعہ ہیں جو مقامی اور ثقافتی لب و لہجے میں گندھی ہوئی ہیں۔

    اسی طرح دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی مقامی سطح پر مختلف زبانیں اور بولیاں سمجھی اور بولی جاتی ہیں۔ تاہم کئی زبانیں اور مقامی بولیاں ابھی متروک ہوتی جارہی ہیں۔ اقوام متحدہ نے رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ زبانوں کا تحفظ اور رکن ممالک ان کو فروغ دینے کی کوشش کریں تاکہ دنیا کا عظیم ثقافتی اور لسانی ورثہ محفوظ رہے۔ یاد رہے کہ کسی قوم کی ثقافت، تاریخ، فن، اور ادب اس کی مادری زبان کا مرہون منت ہوتا ہے اور زبانوں کے متروک ہونے سے تاریخ و ثقافت مٹ سکتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق پاکستان میں مختلف لہجوں میں لگ بھگ 74 زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں اردو کے علاوہ پنجابی، سندھی، سرائیکی، پشتو، بلوچی، ہندکو، براہوی، میمنی، مارواڑی، پہاڑی، کشمیری، گجراتی، بلتی، دری اور بہت سی دوسری بولیاں قبائل اور برادریوں کے افراد میں رابطے کا ذریعہ ہیں۔

  • حکومت مقامی زبانوں کے فروغ اور حوصلہ افزائی پر یقین رکھتی ہے: وزیرِ اطلاعات

    حکومت مقامی زبانوں کے فروغ اور حوصلہ افزائی پر یقین رکھتی ہے: وزیرِ اطلاعات

    اسلام آباد: وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ حکومت مقامی زبانوں کے فروغ اور حوصلہ افزائی پر یقین رکھتی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ریڈیو پاکستان ملتان اسٹیشن سے بلوچی زبان میں پروگراموں کا آغاز کیا گیا ہے، فواد چوہدری نے بلوچی پروگرامز کے آغاز کا خیر مقدم کیا۔

    [bs-quote quote=”بلوچی زبان پاکستان کے دل کش رنگوں میں سے ایک خوب صورت رنگ ہے۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_name=”فواد چوہدری”][/bs-quote]

    وزیرِ اطلاعات نے کہا کہ مادری اور علاقائی زبانیں ہماری متنوع ثقافت کا حسن ہیں، مقامی زبانوں کا فروغ ریڈیو پاکستان کا ایک نہایت احسن قدم ہے۔

    فواد چوہدری نے بتایا کہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار ملتان اسٹیشن سے بلوچی پروگرامز کے اجرا کا افتتاح کریں گے۔ کہا کہ بلوچی زبان پاکستان کے دل کش رنگوں میں سے ایک خوب صورت رنگ ہے۔

    وفاقی وزیرِ اطلاعات کا کہنا تھا کہ یہ پروگرامز بلوچی بولنے اور سمجھنے والوں کے لیے ریڈیو پاکستان کا ایک تحفہ ہے، مختلف زبانوں میں پروگرامز ریڈیو پاکستان کو دیگر نشریاتی اداروں سے ممتاز بناتا ہے۔


    یہ بھی پڑھیں:  بلوچستان میں خشک سالی، لوگ اپنے باغات کاٹنے پر مجبور، قحط کی صورتِ حال


    خیال رہے کہ بلوچستان اس وقت شدید خشک سالی کا شکار ہے، جس کے باعث لوگ اپنے باغات کاٹنے پر مجبور ہو گئے ہیں‘ مستونگ کی تحصیل دشت میں ڈھائی سو سے زائد ایکڑ اراضی پر مشتمل پھلوں کے درخت کاٹ دیے گئے ہیں۔