Tag: مقبرہ جہانگیر

  • دریائے راوی کے کنارے شہنشاہِ ہند کے جاہ و جلال کی ایک یادگار

    دریائے راوی کے کنارے شہنشاہِ ہند کے جاہ و جلال کی ایک یادگار

    برصغیر میں مغلیہ دورِ حکومت اور شاہانِ‌ وقت کی ذاتی زندگی اور ان کے انجام سے متعلق تاریخ بہت سی کہانیاں سمیٹے ہوئے ہے۔ یہاں ہم ذکر کریں گے مغل خاندان کے چوتھے شہنشاہ نور الدین محمد سلیم کی شخصیت، ان سے منسوب قصوں اور اس مقبرے کی جو آج بھی پرشکوہ اور قابلِ دید عمارت ہے۔ محمد سلیم نور الدین جہانگیر مشہور ہوئے اور لاہور میں ان کا مدفن اس عہدِ رفتہ کی یاد دلاتا ہے جس میں مغل خاندان بڑی شان و شوکت سے نسل در نسل راج کرتا رہا۔

    مؤرخین نے جہانگیر کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ حکمت عملی بنانے اور سلطنت کو مضبوط کرنے میں بہت اچھا تھا لیکن اسے فنون لطیفہ میں بہت دلچسپی تھی۔ شہنشاہ نے کئی پینٹنگز بھی تیار کیں جن میں ان کے پورٹریٹ بھی شامل تھے۔ برٹش میوزیم نے اس دور کی 74 پینٹنگز اکٹھی کی ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جہانگیر نے بنائی تھیں۔ اسی طرح‌ تزک جہانگیری بزبانِ‌ فارسی وہ کتاب ہے جو نورالدین جہانگیر کی تصنیف کردہ ہے اور اس میں شہنشاہ نے اپنے حالات و واقعات کو قلم بند کیا ہے۔

    مغل شہزادہ کا اصل نام سلیم تھا، اور اس کا سنہ پیدائش 1564ء بتایا جاتا ہے۔ وہ شہنشاہِ ہند اکبر کی رانی مریم الزّمانی کے بطن سے پیدا ہوا۔ شہزادہ سلیم نور الدین جہانگیر کے لقب سے 1605ء میں تخت نشین ہوا اور تین دہائیوں تک نہایت شان و شوکت سے ہندوستان پر حکومت کی۔ 8 نومبر 1627ء کو جہانگیر وفات پاگیا اور اُسے دریائے راوی کے کنارے واقع ملکہ نور جہاں کے باغ دلکشا کے وسط میں دفن کیا گیا۔ جہانگیر کا مقبرہ اُس کے بیٹے شاہجہاں نے مکمل کروایا تھا۔ اس مقبرہ کو مغل دور کی خوب صورت عمارتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ حسین یادگار دریائے راوی کے دوسرے کنارے یعنی شاہدرہ کی طرف سے لاہور آتے ہوئے نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔

    مؤرخین کے مطابق مقبرۂ جہانگیر کی تعمیر کا آغاز ملکہ نور جہاں نے کیا تھا، لیکن اس کی تکمیل شاہ جہاں کے زیرِ نگرانی اور اس کے حکم پر ہوئی۔ جہانگیر ہندوستان کے مشہور ترین مغل بادشاہوں میں سے ایک ہے جس نے تخت نشینی کے بعد ملکی اداروں میں کئی اصلاحات کیں۔ بادشاہ سے متعلق کئی قصے بھی مشہور ہیں جن میں مبالغہ آرائی بھی ہے اور اکثر مستند واقعات نہیں ہیں۔ البتہ مشہور ہے کہ اپنے محل کی دیوار کے ساتھ فریادیوں کے لیے بادشاہ نے ایک زنجیر لگوا دی تھی اور اسے زنجیرِ عدل کا نام دیا تھا۔ یوں اس عہد میں ہر کوئی اپنی شکایت بآسانی بادشاہ تک پہنچا سکتا تھا۔ اس زنجیر کو ہلا کر شہنشاہ جہانگیر تک اپنی شکایت پہنچانے والوں کو انصاف بھی ملا یا یہ محض نمائشی زنجیر تھی اس پر مؤرخین اور محققین نے بہت کچھ لکھا ہے، لیکن صدی دو صدی پہلے بھی جو کتابیں‌ مغل خاندان اور حکم رانوں پر تحریر کی گئی ہیں ان میں بادشاہوں کی رحم دلی، سخاوت اور ان کے انصاف پر مبنی کئی قصّے پڑھنے کو ملتے ہیں اور جہانگیر کی ایک اچھی تصویر ہمارے سامنے لاتے ہیں۔ اس شہنشاہ کے حکم پر ملک کے طول و عرض میں شاہراہیں، سرائے، کنویں اور مساجد بھی تعمیر کروائی گئیں۔

    کہتے ہیں‌ کہ شہنشاہ جہانگیر کو بھی اپنے باپ اکبر کی طرح لاہور سے بہت زیادہ انسیت اور لگاؤ تھا۔ اس نے 1622ء میں لاہور کو دارالسلطنت بنایا اور اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ اسے موت کے بعد لاہور میں دفن کیا جائے۔ یہ بھی مشہور ہے کہ جہانگیر کی قبر پر روزانہ قرآن خوانی کی جاتی تھی اور اس کے لیے حفاظ مقرر تھے۔ بعد میں پنجاب پر سکھوں نے حکومت قائم کی تو یہ سلسلہ ترک کر دیا گیا۔

    جہانگیر کی چہیتی ملکہ نور جہاں نے اس مقبرہ کےساتھ ایک خوبصورت مسجد بھی تعمیر کروائی تھی۔ اس احاطے میں‌ کئی رہائشی کمرے بھی تھے اور نور جہاں بھی یہیں دفن ہوئی۔ آج بھی مقبرۂ جہانگیر لاہور کی قدیم عمارت اور مغل دور کی ایک عظیم یادگار کے طور پر دیدنی ہے اور ملک بھر سے سیر و سیاحت کے لیے آنے والے یہاں ضرور حاضری دیتے ہیں۔ اس مقبرہ کے چاروں کونوں پر خوبصورت مینار موجود ہیں۔ ہر مینار 100 فٹ بلند ہے اور اس کی 61 سیڑھیاں ہیں۔ مقبرے کی عمارت ایک مربع نما چبوترے پر ہے۔ قبر کا تعویذ سنگ مرمر کا ہے اور اس پر عقیق، لاجورد، نیلم، مرجان اور دیگر قیمتی پتھروں سے گلکاری کی گئی ہے۔ جہانگیر کے مزار کے چاروں جانب سنگِ مرمر کی جالیاں دکھائی دیتی ہیں جن کی وجہ سے سخت گرم موسم میں بھی یہ ہال حدّت سے محفوظ رہتا ہے۔ مقبرے کا اندرونی فرق مختلف قیمتی پتھروں سے مزین ہے۔ مقبرۂ جہانگیر کا غربی دروازہ اتنا بلند ہے کہ اس میں سے ہاتھی مع سوار کے گزر سکتا تھا۔

    بعد میں ہندوستان اور پنجاب پر نادر شاہ اور احمد شاہ کی افواج کے حملوں اور سکھوں کے دور میں مقبرۂ جہانگیر کو بہت نقصان پہنچا۔ اس کے باوجود آج بھی اس عمارت کی شان و شوکت برقرار ہے اور یہ ہمیں عہدِ رفتہ کی یاد دلاتی ہے۔

  • مقبرہ نور جہاں اور مقبرہ جہانگیر کے پاس گریٹر اقبال پارک کی طرز پر پارک بنانے کی تجویز

    مقبرہ نور جہاں اور مقبرہ جہانگیر کے پاس گریٹر اقبال پارک کی طرز پر پارک بنانے کی تجویز

    لاہور : نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کی زیرصدارت اجلاس میں مقبرہ نور جہاں اور مقبرہ جہانگیر کے پاس گریٹر اقبال پارک کی طرز پر پارک بنانے کی تجویز دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کی زیرصدارت اجلاس ہوا، جس میں مقبرہ نور جہاں اور مقبرہ جہانگیر کے پاس گریٹر اقبال پارک کی طرز پر پارک بنانے کی تجویز دی گئی۔

    اجلاس میں لاہورکے 12 تاریخی دروازوں کی بحالی کے پراجیکٹ کا جائزہ لیا گیا، ڈی جی لاہور والڈ سٹی اتھارٹی نے تاریخی دروازوں،قدیم عمارتوں کے بحالی پربریفنگ دی۔

    محسن نقوی نے لاہور والڈ سٹی اتھارٹی کوتاریخی دروازوں کی بحالی کیلئے ٹائم لائن دے دی۔

    اجلاس میں کہا گیا کہ لاہور والڈ سٹی اتھارٹی کے ماہرین ریسرچ کے بعد ڈیزائننگ اورپراجیکٹ تیار کریں گے ، ٹیکسالی،لوہاری،شاہ عالمی، موچی، اکبری، دہلی، یکی، روشنائی اور شیراں والا کو بحال کیا جائے گا اور مستی گیٹ ودیگردروازوں کومرحلہ وار پروگرام کے تحت اصل حالت میں بحال کیا جائے گا۔

    نگران وزیراعلیٰ پنجاب نے تاریخی دروازوں کے اردگرد تجاوزات ختم کرنے اور تاریخی عمارتوں پر وال چاکنگ اوربینرزفوراً ہٹانے کا حکم دیا۔

    محسن نقوی نے شاہی قلعہ کے بالمقابل مریم زمانی بیگم مسجد کی بحالی اور تجاوزات ختم کرنے کی ہدایت کردی۔