Tag: مقبوضہ کشمیر

  • ویڈیو رپورٹ: سال 2023 مقبوضہ کشمیر میں جاری داستان ظلم پر ایک نظر

    ویڈیو رپورٹ: سال 2023 مقبوضہ کشمیر میں جاری داستان ظلم پر ایک نظر

    مقبوضہ کشمیر میں اب تک تقریباً ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کیا جا چکا ہے، اور لاکھوں کی تعداد میں کشمیری قید کیے گئے، اب تک 23 ہزار سے زائد خواتین بیوہ اور 1 لاکھ سے زائد بچے یتیم ہوئے۔ یہاں گزشتہ برس مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے اہم واقعات پیش کیے جا رہے ہیں۔

    فروری 2023 میں جموں و کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنایا گیا، 2 فروری 2023 کو حریت رہنما قاضی یاسر کے گھر اور دکانوں کو مسمار کر دیا گیا، 9 جعلی مقابلوں میں 27 کشمیریوں کو شہید کیا گیا۔

    عمر عبداللہ اور راہول گاندھی کی جانب سے با رہا مقبوضہ کشمیر کی ریاستی بحالی کے مطالبے کیے گئے، 8 جولائی 2023 کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی پر بھارتی سپریم کورٹ میں سماعت شروع کی گئی، 7 اگست 2023 کو کشمیری حریت رہنما یاسین ملک کی بیٹی نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو خط کے ذریعے والد کو سزائے موت سے بچانےکی اپیل کی۔

    7 اگست کو برطانیہ کی ایسٹ اینگلیہ یونیورسٹی کے پاکستانی طلبہ کی جانب سے دنیا بھر میں کشمیر کی آزادی کے لیے مختلف سیمینار کا انعقاد کیا گیا، 24 اگست کو ایمنسٹی انٹرنیشنل میں متعدد انسانی حقوق کی تنظیموں نے مشترکہ خط شائع کیا، جی 20 ممالک کی حکومتوں سے مطالبہ کیا گیا کہ بھارتی حکومت کے سامنے کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے آواز اٹھائیں۔

    ویڈیو رپورٹ: مقبوضہ کشمیر پر ہندوستان کے غاصبانہ قبضے کو 76 سال مکمل

    23 ستمبر کو حریت رہنما میر واعظ عمر فاروق کو جیل سے رہا کر دیا گیا، مقبوضہ کشمیر میں 12 اکتوبر کو بھارتی اسکالرشپ اسکیم کا ڈراما رچایا گیا جسے کشمیری طلبہ نے مسترد کر دیا، 13 نومبر کو کارگل اور لداخ میں بھارت کے خلاف مظاہرے کیے گئے، 11 دسمبر کو سوشل میڈیا پر کشمیر میڈیا کو بھارت کے خلاف تنقید کرنے کو ظلم کا نام دیا گیا، 14 دسمبر کو بھارتی سپریم کورٹ نے کشمیر کا تاریخی متعصبانہ فیصلہ سنایا۔

    23 دسمبر کو 3 نہتے کشمیریوں کو پونچھ کے علاقے میں بھارتی فوج کے زیر حراست شہید کر دیا گیا، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کا قبضہ ہے لیکن آج بھی کشمیری اپنی آزادی کے لیے پُر امید ہیں اور ان کی جدوجہد جاری رہے گی۔

  • ویڈیو رپورٹ: مقبوضہ کشمیر پر ہندوستان کے غاصبانہ قبضے کو 76 سال مکمل

    ویڈیو رپورٹ: مقبوضہ کشمیر پر ہندوستان کے غاصبانہ قبضے کو 76 سال مکمل

    مقبوضہ کشمیر پر ہندوستان کے غاصبانہ قبضے کو 76 سال مکمل ہو گئے، ہر سال کشمیری 5 فروری کو بھارتی قبضے کے خلاف یوم سیاہ مناتے ہیں۔

    چھہتر سال قبل ہندوستانی افواج نے بغیر کسی آئینی اور اخلاقی جواز کے کشمیر پر قبضہ کر لیا تھا، تقسیم ہند کے وقت کشمیر کی مقامی قیادت نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا تھا، تاہم مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوستان سے الحاق کے بدلے میں فوجی مدد مانگی تھی۔

    ہندوستان نےغیر قانونی طورپر مسلم اکثریتی کشمیر میں تقریباً 10 لاکھ فوجی تعینات کر رکھے ہیں، اور مقبوضہ کشمیر کے عوام پچھلے 76 سال سے جاری ظلم و ستم کی انتہا پر ہیں، 5 اگست 2019 کو ہندوستان نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بھی منسوخ کر دی۔

    ہندوستانی افواج اب تک مقبوضہ کشمیر میں ڈھائی لاکھ کشمیریوں کو شہید جب کہ 7 ہزار سے زائد ماورائے عدالت قتل کر چکی ہے، 1 لاکھ سے زائد بچے یتیم جب کہ 11 ہزار سے زائد خواتین زیادتی کا شکار ہوئیں، مقبوضہ کشمیر میں اب تک 16 لاکھ کشمیری گرفتار جب کہ 11 سو سے زائد املاک نذرِ آتش کی جا چکی ہیں، 2019 سے مقبوضہ کشمیر میں اب تک انٹرنیٹ کی طویل ترین بندش جاری ہے۔

    اقوام متحدہ کی جانب سے مقبوضہ کشمیرمیں اب تک 5 قراردادیں منظورکی جا چکی ہیں، مگر ایک پر بھی عمل درآمد نہ ہو سکا، ہیومن رائٹس واچ نے رپورٹ کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام پر بہیمانہ مظالم میں بے جے پی ملوث ہے، جینوسائیڈ واچ پہلے ہی دنیا کو مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کی مہم سے خبردار کر چکی ہے۔

    ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق فروری 2023 میں ہندوستان نے مقبوضہ وادی میں مسلم اکثریتی علاقوں کو مسمار کرتے ہوئے انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کی، الجزیرہ نے رپورٹ کیا کہ کشمیر کو ہندوستان کی بربریت کے باعث بے شمار نقصان اٹھانا پڑا۔

    واضح رہے کہ پانچ فروری کو پاکستان میں یومِ سیاہ منانے کا مقصد دنیا کو ہندوستان کے ظالمانہ فعل سے آگاہ کرنا ہے۔

  • مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر ویڈیو رپورٹ

    مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر ویڈیو رپورٹ

    مقبوضہ کشمیر میں کئی دہائیوں سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں جاری ہیں، ہندوستانی افواج کے ہاتھوں مقبوضہ کشمیر میں ڈھائی لاکھ کشمیری شہید، 1 لاکھ سے زائد بچے یتیم جب کہ 11 ہزار سے زائد خواتین زیادتی کا شکار ہو چکی ہیں۔

    کشمیریوں کے مصائب کی داستان 7 دہائیوں سے زائد عرصے پر محیط ہے، بھارت نے اکتوبر 1947 کو کشمیری عوام کی مرضی کے برعکس اور آزادی ایکٹ کی مکمل خلاف ورزی کرتے ہوئے جموں و کشمیر پر زبردستی قبضہ کر لیا، کشمیری عوام کے حقوق پر غاصبانہ قبضے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے جایا گیا، اقوام متحدہ اب تک مسئلہ کشمیر پر 5 قراردادیں منظور کر چکی ہے۔

    ہندوستانی افواج اب تک مقبوضہ کشمیر میں ڈھائی لاکھ کشمیریوں کو شہید کر چکی ہے، 1 لاکھ سے زائد بچے یتیم جب کہ 11 ہزار سے زائد خواتین زیادتی کا شکار ہوئیں، مقبوضہ کشمیر میں اب تک 16 لاکھ کشمیری گرفتار جب کہ 11 سو سے زائد املاک نذرِ آتش کی جا چکی ہیں، 2019 سے مقبوضہ کشمیر میں اب تک انٹرنیٹ کی طویل ترین بندش جاری ہے۔

    اقوام متحدہ کی جانب سے مقبوضہ کشمیر پر اب تک 5 قراردادیں منظور کی جا چکی ہیں مگر ایک پر بھی عمل درآمد نہ ہو سکا، 5 اگست 2019 کو مودی سرکار نے آرٹیکل 370 کی تنسیخ کرتے ہوئے کشمیری عوام کی خصوصی حیثیت ختم کر دی، کشمیری عوام کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے پیچھے حکمران جماعت بی جے پی کا ہندووٴں کی آبادکاری کا مقصد کارفرما تھا۔

    آرٹیکل 370 کی منسوخی سے معیشت اور روزگار منفی اثرات مرتب ہوئے، انڈین اکانومی کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں بے روزگاری کی شرح بڑھ کر 16.2 فی صد ہو گئی ہے، حریت راہنماؤں کا کہنا ہے کہ جموں کشمیر ہندوستان کا حصہ نہیں ہے، اس کے مستقل حل کے لیے عوام کو حق خود ارادیت دیا جانا چاہیے۔

    میر واعظ نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں نہ کوئی جمہوریت ہے نہ ہی قانون کی حکمرانی، جموں و کشمیر میں بھارتی فوج عام عوام سے لڑنے کے لیے تعینات ہے، مشعال ملک نے بتایا کہ بھارت کشمیریوں کے جذبہ حریت کو ختم کرنے میں ناکام رہا ہے، ہمیں اقوام متحدہ سے فوری قرارداد پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آبادی کی تبدیلی کو روک کر نئی مردم شماری کروائی جائے۔

    مودی سرکار نے ایسی زرعی زمینوں پر قبضہ کرنا شروع کیا جو کشمیریوں کی آبائی جائیداد اور وطن ہے، دوسری طرف مقبوضہ کشمیر کے عوام کے عزم اور استقلال نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ علاقے پر بھارتی تسلط کو مسترد کرتے ہیں۔

  • کشمیر کے ایک گاؤں میں اجتماعی قبروں سے 2943 لاشیں برآمد

    کشمیر کے ایک گاؤں میں اجتماعی قبروں سے 2943 لاشیں برآمد

    کشمیر کے 55 گاؤں میں اجتماعی قبروں سے 2943 لاشیں برآمد ہوئیں جن میں 80 فیصد کی شناخت نہیں ہوسکی۔

    تفصیلات کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی اجتماعی قبروں کا انکشاف ہوا، کشمیر کے 55 گاوٴں میں اجتماعی قبروں سے 2943 لاشیں برآمد ہوئیں، جن میں 80 فیصد کی شناخت نہیں ہوسکی۔

    انگانہ چیٹرجی نے 2012 ء میں بانڈی پورہ، بارمولہ اور ضلع کوٹورا میں 2700 اجتماعی قبروں کی نشاندہی کی۔

    ایسوی ایشن آف پیرینٹ ڈسپلاسیٹ پرسن کے مطابق 1989ء سے 800 کشمیری لاپتا ہیں ، 2011ء میں ہیومن رائٹس واچ نے بھاریت سرکار کو اجتماعی قبروں اور ناقابل شناخت لاشوں کی انکوائری کیلئے کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا۔

    کشمیر ہیومن رائٹس واچ نے چار اضلاع میں 2730 لاشوں کی اجتماعی قبروں کا سراغ لگایا، ستمبر 2006ء کی ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق بھارتی حکومت ان الزامات کی تحقیقات سے مسلسل فرار ہے۔

    جولائی 2008ء میں یورپی پارلیمنٹ نے کشمیر میں اجتماعی قبروں کی قرارداد پاس کی، قرارداد میں بھارتی حکومت سے اجتماعی قبروں کی آزاد اور غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

    بعد ازاں بھارت نے تشدد کی تحقیقات کیلئے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کو 1993ء سے پابندی لگائی ہوئی ہے۔

  • مقبوضہ کشمیر میں زیادتی کی متاثرہ کشمیری خواتین انصاف کی منتظر

    مقبوضہ کشمیر میں زیادتی کی متاثرہ کشمیری خواتین انصاف کی منتظر

    مقبوضہ کشمیرمیں زیادتی کی متاثرہ کشمیری خواتین انصاف کی منتظر ہیں، 1989 سے 2020 تک 11224 کشمیری خواتین بھارتی فوج کے ہاتھوں جنسی زیادتی کا شکار ہو چکی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں ننگی بھارتی جمہوریت کا سب سے بڑا شکار کشمیری خواتین ہے، بھارتی فوج کی مجاہدین کے خلاف انتقامی کاروائیوں کے طور پر لوٹ مار، قتل عام اور جنسی زیادتی ، سزا اور جزا کے نظام کی عدم موجودگی کی وجہ سے بھارتی فوج کی پرتشدد کاروائیاں برسوں سے جاری ہے۔

    کشمیر میڈیا سروس نے بتایا کہ 1989 سے 2020 تک 11224 کشمیری خواتین بھارتی فوج کے ہاتھوں جنسی زیادتی کا شکار ہو چکی ہیں ، صرف 1992 میں 882 کشمیری خواتین اجتماعی زیادتی کا شکار ہوئیں۔

    سال 1994 کی ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق بھارتی فوج اجتماعی زیادتی کو خوف پھلانے اور اجتماعی سزا کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔

    ایشیاء واچ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ صرف ایک ہفتے میں 44 ماورائے عدالت قتل اور 15 جنسی زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے تاہم 75 سال گزرنے کے باوجود زیادتی میں ملوث کسی کردار کو سز انہیں دی گئی۔

    ریسرچ سوسائٹی آف انٹر نیشنل لاء کی رپورٹ کے مطابق بھارتی فورسز نے 11 سے 60 سال تک کی خواتین کو بھی نہ بخشا، بھارتی حکومت کی طرف سے کھلی چھوٹ کے نتیجے میں بھارتی افواج بلا خوف و خطر جنسی زیادتی کے جرائم میں ملوث ہیں۔

    1996 میں ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ بھارتی فوج ریپ کو تحریک آزادی کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کر رہی ہے، 2005 کی ایک رپورٹ کے مطابق کشمیری خواتین کے خلاف جنسی زیادتی کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔

    سوشل ڈویلپمنٹ کونسل کے مطابق بھارتی فوجیوں کو زیادتی پر اْکسانے میں AFSPA کا مرکزی کردار ہے جبکہ دی گارڈین کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ 1979 سے 2020 تک میجر کے رینک 150 سے زائد بھارتی فوجی افسران منظم انداز میں جنسی زیادتی میں ملوث تھے۔

    23 فروری 1991 کو 4 راجپوتانہ رائفل کے جوانوں نے ضلع کپواڑہ کے گاوٴں کنن پوش پورہ میں 100 سے زائد کشمیری خواتین سے زیادتی کی، جبکہ 17 مارچ 1991 کو چیف جسٹس جموں و کشمیر کے تحقیقاتی کمیشن کے سامنے 53 کشمیری خواتین نے بھارتی فوجیوں کی طرف سے عصمت دری کا اعتراف بھی کیا۔

    اس کے علاوہ 15 سے 21 مارچ 1991 کے دوران ہونے والے طبی معائنوں میں 32 کشمیری خواتین پر تشدد اور جنسی زیادتی ثابت ہوئی۔

    سال 1992 میں امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی رپورٹ میں بھی کہا گیا کہ کنن پوش پورہ سانحے میں بھارتی فوج کے خلاف اجتماعی زیادتی کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔

    اپریل 2018 میں کٹھوعہ میں ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں سے زمین خالی کروانے کی خاطر 8 سالہ آصفہ بانو کو 7 دن مندر میں زیادتی کا نشانہ بنایا جبکہ 10 اکتوبر 1992 کو 22 گرینیڈیئر کے جوانوں نے شوپیاں میں 9 خواتین کو اجتماعی زیادتی کا شکار بنایا، کشمیری عدالتوں میں 1000 سے زائد زیادتی کے مقدمات زیر التوا ہے۔

  • مودی سرکار نے انٹرنیٹ کی بندش کو کشمیریوں کے خلاف نیا ہتھیار بنالیا

    مودی سرکار نے انٹرنیٹ کی بندش کو کشمیریوں کے خلاف نیا ہتھیار بنالیا

    مودی سرکار نے انٹرنیٹ کی بندش کو کشمیریوں کے خلاف نیا ہتھیار بنالیا،2018 سے اب تک 418مرتبہ انٹر نیٹ اور ٹیلیفون سروسز معطل کی جا چکی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں ذرائع ابلاغ کی بندش کو کشمیریوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جانے لگا ، 2018 سے اب تک مودی سرکار کی طرف سے 418مرتبہ انٹر نیٹ اور ٹیلیفون سروسز معطل کی جا چکی ہیں۔

    05 اگست 2019کو آرٹیکل 370کی تنسیخ کے بعد کشمیر بھر میں انٹرنیٹ کیبل اور ٹیلیفون سروسز 05 فروری 2020تک معطل کر دی تھی۔

    ڈیڑھ سال تک جاری رہنے والی انٹرنیٹ بندش دنیا بھر میں طویل ترین بندش ہے، بین الاقوامی وائر سروس رائٹرز (Reuters) کے مطابق 18مہینوں تک جاری انٹر نیٹ کی بندش میں کشمیریوں کو پتھر کے دور میں دھکیل دیا۔

    وائس آف امریکہ کی 11فروری 2021کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ دنیا بھر میں ہونے والی انٹرنیٹ بندش میں کشمیر سر فرست ہے، گزشتہ 4سالوں سے بھارت ذرائع ابلاغ کی بندش میں دنیا بھر میں سر فہرست ہے۔

    سال 2022میں دنیا بھر میں انٹر نیٹ کی 187بندشیوں میں سے 84بھارت میں اور 49 کشمیر میں ہوئیں۔

  • مقبوضہ کشمیر میں ہندواڑا قتل عام کو 34 سال مکمل، متاثرین آج بھی انصاف کے منتظر

    مقبوضہ کشمیر میں ہندواڑا قتل عام کو 34 سال مکمل، متاثرین آج بھی انصاف کے منتظر

    مقبوضہ کشمیر میں ہندواڑا قتل عام کو 34 سال مکمل ہوگئے، انتہا پسند بھارتی فوجیوں نے ہندواڑا کے مقام پر 30سے زائد کشمیریوں کو بے دردی سے قتل کردیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق کشمیر میں سال1990کا آغاز ہی کشمیریوں کے قتل عام سے ہوا اور آج ہی کے دن 25 جنوری 1990 کو ہندواڑا میں بھارتی فوجیوں نے نہتے کشمیریوں کے خون سے ہولی کھیلی۔

    کشمیرمیڈیا کا کہنا ہے کہ انتہاپسندبھارتی فوجیوں نےہندواڑاکےمقام پر 30سےزائدکشمیریوں کو بےدردی سے قتل کیا اور 200 کو شدید زخمی کردیا تھا، ہندواڑا قتل عام کے متاثرین گزشتہ 34 سال سے انصاف کے منتظر ہیں۔

    بھارتی فوج کےہاتھوں قتل ہونےوالےمظلوم کشمیری پرامن احتجاج کررہےتھے ، ہندواڑاکےافسوسناک واقعے سے محض چارروز قبل گاؤکدل کا اندوہناک واقعہ پیش آیا تھا۔

    کشمیری ابھی گاؤں کدل کا سانحہ نہیں بھولے تھے کہ ہندواڑا میں بھارتی فورسزنےظلم کی انتہاکردی، ہیومن رائٹس واچ نے کہاہے کہھارتی فوجیوں نے زخمی کشمیریوں کو طبی امداد پہنچانے کی بھی اجازت نہ دی، بھارتی حکومت نے ہندواڑا واقعے میں شہید اور زخمی ہونے والے کشمیریوں کی اصل تعداد کو بھی مخفی رکھا اور بچنے کیلئےایف آئی آرتک درج نہ کرائی، ہندواڑہ قتل عام بھارت کے نام نہاد جمہوری چہرے پر طمانچہ ہے۔

    بھارتی سپریم کورٹ34سال بعد بھی ہندواڑہ قتل عام کےمتاثرین کوانصاف نہ دلاسکی، الجزیرہ نے کہا ہے کہ قتل عام کامقصدغاصب بھارتی فوج کا اپنی بربریت پرپردہ ڈالنا،پرامن کشمیری مسلمانوں کوخوفزدہ کرناتھا، بھارتی فوجیوں نے گزشتہ 34 برس میں 1 لاکھ سے زائد نہتے کشمیریوں کو گولیوں کانشانہ بنایا۔

  • فاروق پاپا اور راجہ مظفر خان پر بھارتی الزامات من گھڑت ہیں: علی رضا سید

    فاروق پاپا اور راجہ مظفر خان پر بھارتی الزامات من گھڑت ہیں: علی رضا سید

    چیئرمین کشمیر کونسل یورپ (کے سی ای یو) علی رضا سید نے شمالی امریکا میں مقیم ممتاز کشمیری شخصیات فاروق صدیقی عرف فاروق پاپا اور راجہ مظفر خان پر بھارتی الزامات کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق سری نگر میں بھارتی سیکیورٹی فورسز نے 10 افراد کو مبینہ طور پر جموں کشمیر لبریشن فرنٹ اور حریت نامی کالعدم تنظیموں کو دوبارہ بحال کرنے کی منصوبہ بندی کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے، اور دعویٰ کیا ہے کہ گرفتار شدگان بیرون ملک مقیم کشمیری شخصیات بشمول فاروق صدیقی اور راجہ مظفر سے رابطے میں تھے۔

    بھارتی قابض حکام نے ایک تفصیلی مقدمہ درج کرتے ہوئے یہ بھی الزام لگایا کہ پاکستان میں اپنے سرپرستوں اور دیگر ممالک میں مقیم شخصیات کے ساتھ رابطوں کے علاوہ، گرفتار شدگان نے عید ملن پارٹی کی آڑ میں کالعدم تنظیموں کے سابق ارکان کی ایک میٹنگ منعقد کی، جس کا مقصد علیحدگی پسندی کو فروغ دینا اور بھارت کے خلاف جنگ شروع کرنے اور بھارتی سالمیت، سلامتی اور خودمختاری کو خطرے میں ڈالنا تھا۔

    علی رضا سید

    بھارتی الزامات پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کے سی ای یو کے چیئرمین علی رضا سید نے کہا کہ کشمیر گلوبل کونسل (کے جی سی) کے فاروق صدیقی اور راجہ مظفر کے خلاف بھارتی الزامات سراسر بے بنیاد اور من گھڑت ہیں، کیوں کہ وہ طویل عرصے سے جموں و کشمیر سے باہر ہیں اور کشمیریوں کے حقوق اور مسئلہ کشمیر سے متعلق دیگر جائز اقدامات پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ فاروقی صدیقی اور راجہ مظفرخان بھارتی حکومت کے خلاف کسی بھی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہیں، نیز ان کے خلاف بھارت کے پاس کوئی واضح اور ٹھوس ثبوت بھی موجود نہیں۔ علی رضا سید نے کہا کہ فاروق صدیقی اور راجہ مظفر بین الاقوامی اصولوں اور عالمی برادری کے وعدوں کے مطابق کشمیر کے مسئلہ کا جلد اور پرامن حل چاہتے ہیں اور وہ اس کے لیے ایک سفارتی اور جامع سیاسی عمل کے حصول کی انتھک کوششیں کر رہے ہیں۔

    کے سی ای یو کے چیئرمین نے کہا کہ کشمیر گلوبل کونسل کی جدوجہد جموں و کشمیر کے لوگوں کے حقوق کے لیے اور کشمیریوں کی جائز امنگوں کے عین مطابق ہے۔ انھوں نے عالمی برادری اور دنیا کی بڑی طاقتوں سے اپیل کی کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کروائیں اور مسئلہ کشمیر کے منصفانہ اور دیرپا حل کے لیے اپنا مؤثر کردار ادا کریں۔

  • دنیا بھر میں کشمیری آج یومِ حق خود ارادیت منا رہے ہیں

    دنیا بھر میں کشمیری آج یومِ حق خود ارادیت منا رہے ہیں

    دنیا بھر میں کشمیری آج یوم حق خود ارادیت منارہے ہیں، کشمیر کونسل ای یو کے چیئرمین علی رضاسید کا کہنا ہے کہ کشمیری حق خودارادیت کے حصول تک تحریک جاری رکھیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق 5 جنوری حق خود ارادیت اور مقبوضہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی یاد دہانی کا دن ہے، ہر سال 5 جنوری مقبوضہ کشمیر کے حق خود ارادیت کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔

    جنوری 1949 کو اقوام متحدہ نے ایک قرارداد منظور کی تھی ، جو مقبوضہ کشمیر میں آزادانہ اور منصفانہ استصواب رائے کی ضمانت دیتی ہے۔

    ہر سال اس دن کو منانے کا مقصد عالمی برادری کو یہ یاد دلانا ہے کہ وہ کشمیر کے بارے میں اپنی ذمہ داری کو نظر انداذ نہیں کر سکتے، اقوام متحدہ کو 74 سال پہلے کیے گئے اپنے وعدوں کا احترام کرنا ہوگا۔

    مقبوضہ کشمیر کی عوام کو بھارتی قابض افواج کی جانب سے ایک اجتماعی سزا دی جا رہی ہے اور بھارتی فوج نے مقبوضہ وادی کو دنیا کے سب سے بڑے عسکری زون میں تبدیل کر دیا ہے۔

    ہندوستانی فورسز نے ڈسٹربڈ ایریاز ایکٹ، آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ اور پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے مختلف قوانین کو رائج کر رکھا ہے ہے تاکہ کسی بھی فرد کو غیر معینہ مدت کے لیے گرفتار کیا جا سکے اور بغیر کسی قانونی طریقہ کار کے قتل کیا جا سکے۔

    مقبوضہ کشمیر میں لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق بشمول جان، مال، صحت، اظہار رائے کی آزادی اور اسمبلی کے حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے اور 5 اگست 2019 کے بعد سے مسلسل غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کے ذریعے مودی کی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں خوف اور افراتفری کا ماحول پیدا کر رکھا ہے۔

    حق خود ارادیت اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت ایک بنیادی حق ہے، جس کی نفی اس عالمی اعلامیے اور اس کے معاہدوں کی نفی ہے، عالمی برادری کی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ کشمیری عوام سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرے۔

    بھارتی اقدامات کو عالمی برادری، اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے بڑے پیمانے پر مسترد کیا ہے، 5 اگست 2019 کے بھارتی غیر قانونی اقدامات اور سپریم کورٹ آف انڈیا کا حالیہ فیصلہ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے تحت اس متنازعہ علاقے کو نوآبادیات بنانے کی کوشش ہے۔

    پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت کے حصول تک مقبوضہ کشمیر کے عوام کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھے گا۔

    اقوام متحدہ نے حال ہی میں عوام کے حق خود ارادیت کے عالمی احساس پر پاکستان کے زیر اہتمام ایک قرارداد منظور کی ہے ، جس کی بڑی تعداد میں ممالک نے حمایت کی ہے، اقوام متحدہ کا فرض ہے کہ وہ کشمیری عوام سے کیے گئے اپنے وعدوں کی تکمیل کو یقینی بنائے اور کشمیری عوام کو آزادانہ اور منصفانہ رائے شماری کے ذریعے اپنے مستقبل کا تعین کرنے کا موقع دے۔

    اس موقع پر کشمیر کونسل ای یو کے چیئرمین علی رضاسیدنے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ کشمیری حق خودارادیت کے حصول تک تحریک جاری رکھیں گے، بھارت اقوام متحدہ کی منظورشدہ قرارداد سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔اقوام متحدہ اپنے وعدے پرعملدرآمد کرائے۔

  • بھارتی فوج کی حراست میں 4 کشمیریوں کی ہلاکت پر پونچھ کمیونٹی کا مطالبہ

    بھارتی فوج کی حراست میں 4 کشمیریوں کی ہلاکت پر پونچھ کمیونٹی کا مطالبہ

    سرینگر: پونچھ کمیونٹی نے 4 معصوم کشمیریوں کے قاتلوں کے خلاف درج ایف آئی آر میں ملزمان کو نامزد کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی فوج کی حراست میں چار کشمیریوں کی ہلاکت پر پونچھ کمیونٹی نے برہنہ ہو کر احتجاجی پریس کانفرنس کی ہے، جس میں انھوں نے 7 دن میں درج ایف آئی آر میں ملزمان کو نامزد کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔

    پریس کانفرنس کرتے ہوئے پونچھ کمیونٹی کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ مودی سرکار جب معاملہ دبا نہ سکی تو نامعلوم افراد کے نام پر ایف آئی آر درج کر دی گئی، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ غلام مصطفیٰ، محمد رفیق، ارشاد اور جگی نامی افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے۔

    پونچھ کمیونٹی کا کہنا تھا کہ مقتولین کے ورثا کو ایف آئی آر درج کروانے اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانے پر دھمکیاں دی جا رہی ہیں، وزیر دفاع راج ناتھ، ایس ایس پی پونچھ اور جموں و کشمیر انتظامیہ سے اس سلسلے میں منصفانہ انکوائری کا مطالبہ ہے۔

    پونچھ کمیونٹی نے ایف آئی آر درج کرنے کے لیے 7 روز کا الٹی میٹم دے دیا ہے۔